مسواک کی اہمیت (حدیث کی روشنی میں)
طہارت و نظافت کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے جن چیزوں پر زور دیا ہے اور ان کی بڑی تاکید فرمائی ہے ان میں سے ایک مسواک بھی ہے۔ مسواک کے طبی فوائد سے کوئی صاحبِ شعور انکار نہیں کر سکتا۔ دینی نقطۂ نگاہ سے اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ (مسواک کرنا) اللہ تعالیٰ کو بہت راضی کرنے والا عمل ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد آنحضرت ﷺ کے ترغیبی و تاکیدی ارشادات پڑھیے۔
1) «عَنْ عَائِشَةَ قَاَلتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ''السِّوَاکُ مَطْھَرَةٌ لِّلْفَمِ مِرْضَاةٌ لِّلْرَّبِّ» (مسند امام شافعی، مسند احمد، سنن دارمی، سنن نسائی، بخاری)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسواک منہ کو بہت زیادہ پاک صاف کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوش کرنے والی چیز ہے۔
تشریح: کسی چیز میں حسن کے دو پہلو ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ وہ دنیوی زندگی کے لحاظ سے فائدہ مند اور عام انسانوں کے نزدیک پسندیدہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور اجرِ اخروی کا وسیلہ ہو۔ آپ ﷺ نے اس حدیث میں بتایا ہے کہ مسواک میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں، اس سے منہ کی صفائی ہوتی ہے، گندے اورمضر مادے خارج ہو جاتے ہیں اور منہ کی بدبو زائل ہوتی ہے یہ تو اس کے دنیوی فوائد ہیں اور دوسرا اخروی اور ابدی نفع اس کا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کا بھی ایک خاص وسیلہ ہے۔
2) «عَنْ أبِي هُرَیْرَةَأن النَّبِي ﷺ قَالَ: ''لَوْ لَا أنْ أشُقَّ عَلٰی أُمَّتِي لأمَرْتُھُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوةٍ» (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ وَّاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ)
حضرت ابو ہریرہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت پر بہت مشقت پڑ جائے گی تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حتمی امر کرتا۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نگاہ میں مسواک کی محبوبیت اور اس کے عظیم فوائد دیکھتے ہوئے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے ہر امتی کے لئے حکم جاری کر دوں کہ وہ ہر نماز کے وقت مسواک ضرور کیا کرے۔ لیکن ایسا حکم میں نے صرف اس خیال سے نہیں دیا کہ اس سے میری اُمت پر بوجھ پڑ جائے گا اور ہر ایک کے لئے اس کی پابندی مشکل ہو گی۔ غور فرمائیے کہ یہ ترغیب و تاکید کا کیسا مؤثر عنوان ہے۔ بعض روایتوں میں ''عند کل صلوٰۃ'' کے بجائے ''عند کل وضوء'' کے الفاظ بھی آئے ہیں، مطلب دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے۔
3) «عَنْ اَبِي أُمَامَةَ أنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: ''مَا جَاءَنِي جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَطُّ إلَّا أمَرَنِي بِالسِّوَاکِ، لَقَدْ خَشِیْتُ أنْ أُحْفِيَ مُقَدَّمَ فِیَّ» (رواہ احمد)
حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اللہ کے فرشتے جبریل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے، ہر دفعہ انہوں نے مجھے مسواک کے لئے ضرور کہا، خطرہ ہے کہ (جبریل کی بار بار کی اس تاکید کی وجہ سے) میں منہ کے اگلے حصہ کو مسواک کرتے کرتے گھسا نہ ڈالوں۔
تشریح: مسواک کے بارے میں حضرت جبریل کی بار بار یہ تاکید دراصل اللہ ہی کے حکم سے تھی اور اس کا خاص راز یہ تھا کہ جو ہستی اللہ سے مخاطبت اور مناجات میں ہر وقت مصروف رہتی ہو اور اللہ کا فرشتہ جس کے پاس بار بار آتا ہو، اور اللہ کے کلام کی تلاوت اور اس کی طرف دعوت جس کا خاص وظیفہ ہو، اس کے لئے خاص ضروری ہے کہ وہ مسواک کا بہت زیادہ اہتمام کرے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ مسواک کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
مسواک کے خاص اوقات:
4) «عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ''کَانَ النَّبِیُّ ﷺ لَا یَرْقُدُ مِنْ لَّیْلٍ وَّلَا نَھَارٍ فَیَسْتَیْقِطُ إلَّا یَتَسَوَّکُ قَبْلَ أَنْ یَّتَوَضَّأَ» (رواہ احمد و ابو داؤد)
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ دن یا رات میں جب بھی آپ سوتے تو اٹھنے کے بعد وضو کرنے سے پہلے مسواک ضرور فرماتے تھے۔
5) «عن حذیفة قال کان رسول اللہ ﷺ إذا قام للتھجد من اللیل یشوص فاه بالسواك» (رواہ البخاری و مسلم)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ رات کو تہجد کے لئے اُٹھتے تو مسواک سے اپنے دہن (منہ) مبارک کی خوب صفائی کرتے تھے (اس کے بعد وضو کرتے اور تہجد میں مشغول ہوتے)۔
6) «عَنْ شُرَیْحِ بْنِ ھَانِیٍ قَالَ: ''سَألْتُ عَائِشَةَ بِأیِّ شَیٍْٔ کَانَ یَبْدَأُ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إذَا دَخَلَ بَیْتَه؟'' قَالَتْ: ''بِالسِّوَاکِ» (رواہ مسلم)
شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ جب باہر سے گھر میں تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ مسواک کرتے تھے۔
تشریح: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ ہر نیند سے جاگنے کے بعد خاص کر رات کو تہجد کے لئے اُٹھنے کے وقت پابندی سے مسواک کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جب باہر سے گھر میں تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسواک صرف وضو کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ سو کر اُٹھنے کے بعد اور مسواک کیے زیادہ دیر گزرنے کے بعد اگر وضو نہ بھی کرنا ہو جب بھی مسواک کر لینا چاہئے۔
علمائے کرام نے انہی احادیث کی بنا پر لکھا ہے کہ:۔
''مسواک کرنا یوں تو ہر وقت میں مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے لیکن پانچ موقعوں پر مسواک کی اہمیت زیادہ ہے:۔
(1) وضو میں۔ (2) نماز کے لئے کھڑ ہوتے وقت (اگر وضو اور نماز کے درمیان زیادہ دیر ہو گئی ہو)
(3) قرآن کریم کی تلاوت کے لئے۔ (4) سونے سے اُٹھنے کے وقت۔
(5) اور منہ میں بدبو پیدا ہو جانے یا دانتوں کے رنگ میں تغیر آجانے کے وقت ان کی صفائی کے لئے۔
مسواک انبیائے کرام کی سنت ہے:
7) «عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ''أرْبَعٌ مِّنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ الْحَیَاءُ وَالتَّعَطُّرُ وَالسِّوَاکُ وَالنكَاحُ» (رواہ الترمذی)
حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ چار چیزیں پیغمبروں کی سنتوں میں سے ہیں۔ ایک حیا۔ دوسرے خوشبو لگانا۔ تیسرے مسواک کرنا۔ اور چوتھے نکاح کرنا۔
تشریح: رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ بتا کر کہ یہ چاروں چیزیں اللہ کے پیغمبروں کی سنتیں ہیں، اپنی امت کو ترغیب دی ہے۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے ہاں تو اس کا یہ مفہوم سمجھا جاتا ہے کہ آدمی شرمناک باتوں اور شرمناک کام کرنے سے بچے، لیکن قرآن و حدیث کے استعمالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا۔ طبیعتِ انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض اور گھٹن ہو اور اس کے ارتکاب سے اسے اذیت ہو۔
حیا کا تعلق صرف اپنے ابنائے جنس ہی سے نہیں ہے بلکہ حیا کا سب سے زیادہ مستحق وہ خالق و مالک ہے جس نے بندہ کو وجود بخشا اور جس کی پروردگاری سے وہ ہر آن حصہ پا رہا ہے اور جس کی نگاہ سے اس کا کوئی عمل اور کوئی حال مخفی نہیں۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ شرم و حیا کرنے والے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیا اپنے ماں باپ کی، اور اپنے بڑوں اور محسنوں کی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سب بڑوں سے بڑا، اور سب محسنوں کا محسن ہے۔ لہٰذا بندہ کو سب سے زیادہ شرم و حیا اسی کی ہونی چاہئے اور اس حیا کا تقاضا یہ ہو گا کہ جو کام اور جو بات بھی اللہ تعالیٰ کی مرضٰ اور اس کے حکم کے خلاف ہو، آدمی کی طبیعت اس سے خود انقباض اور اذیت محسوس کرے اور اس سے باز رہے۔
ایک حدیث میں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:۔
«إنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقًا وَخُلُقُ الْإسْلَامِ الْحَیَاءُ» (موطا امام مالک و ابن ماجہ)
ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اور دینِ اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔
خوشبو لگانا بڑی محبوب صفت ہے۔انسان کے روحانی اور ملکوتی تقاضوں میں سے ہے۔ اس سے روح اور قلب کو ایک خاص نشاط حاصل ہوتا ہے۔ عبادت میں کیف اور ذوق پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے بندوں کو بھی راحت پہنچتی ہے۔ اس لئے تمام انبیاء علیہم السلام کی محبوب سنت ہے۔ تیسری چیز مسواک اور چوتھی نکاح ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
''حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا «عَشْرٌ مِّنَ الْفطْرَةِ الخ» دس چیزیں امورِ فطرت سے ہیں۔ موچھوں کا ترشوانا، ڈاڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی لے کر اس کی صفائی کرنا، ناخن ترشوانا، انگلیوں کے جوڑوں کو (جن میں اکثر میل کچیل رہ جاتا ہے، اہتمام سے) دھونا، بغل کے بال لینا، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا اور پانی سے استنجا کرنا، حدیث کے راوی زکریا کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ مصعب نے بس یہی نو چیزیں ذکر کیں اور فرمایا کہ دسویں چیز بھول گیا ہوں اور میرا گمان یہی ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔''
علماء کہتے ہیں کہ ''الفطرة'' سے مراد انبیائے کرام کا طریقہ ہے کیونکہ ایک اور حدیث میں عشر من السنة کے الفاظ ہیں اور انبیاء کرام کے طریقہ کو فطرت اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ انبیاءِ کرام نے جس طریقہ پر خود زندگی گزاری اور اپنی اپنی امتوں کو جس پر چلنے کی ہدایت کی اس میں یہ دس باتیں شامل تھیں۔ گویا یہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کی متفقہ تعلیم اور ان کے مشترکہ معمولات سے ہیں۔
بعض شارحین نے ''الفطرۃ'' سے دین فطرت مراد لیا ہے، اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں دینِ فطرت (اسلام) کے اجزاء یا احکام میں سے ہیں۔
اور بعض شارحین نے ''الفطرۃ'' سے مراد انسان کی اصل فطرت و جبلت مراد لی ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں انسان کی اصل فطرت کا تقاضا ہیں جو اللہ نے اس کی بنائی ہے۔ جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان، نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے، اور کفر و فواحش، گندگی اور ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے ماؤف نہ ہو چکی ہو) تو ان کو پسند ہی کرتا ہے اور حقیقت شناس جانتے ہیں کہ انبیائے کرام جو دین یا زندگی کا طریقہ لے کر آتے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے۔
آج ہم فطرتی آداب سے کتنے دور ہو گئے ہیں۔ مونچھیں باریک ترشوانے کا حکم تھا لیکن ہم نے بڑی بڑی مونچھیں رکھ لیں۔ ناخن کٹوانے کا کم ملا تو یورپ کے تتبع میں انہیں بڑھانا اور ریت ریت کر صاف کرنا شروع کر دیا۔ بقول مولانا سید سلیمان ندویؒ:
''جن کے ناخن بڑے اور مونچھیں بڑی ہوتی ہیں، وہ کھانے پینے کی ہر چیز کو گندہ کر کے کھاتے پیتے ہیں۔ جس سے نہ صرف دوسروں کو کراہت معلوم ہوتی ہے بلکہ خود ان کو طبی طور پر نقصان پہنچتا ہے، یورپ میں ناخن بڑھانا اور ان کو ریت ریت کر صاف کرنا، اور اسی طرح بعض لوگوں میں بڑی بڑی مونچھیں رکھنا حسن سمجھا گیا ہے مگر یہ دونوں باتیں صریحاً خلافِ فطرت ہیں اور کھانے پینے کی گندگی کا باعث ہیں۔
مونچھوں کے بڑھانے کا فیشن یورپ کا آئینہ بدل جانے سے اب کم ہو رہا ہے۔ مگر داڑھی بڑھانے کے بجائے اس کے منڈانے کا فیشن ابھی اسی طرح قائم ہے، بلکہ اب تو داڑھی اور مونچھ دونوں کو صاف کرنے کا حکم ترقی پر ہے، یہ تمام باتیں اسلامی شعار کے خلاف ہیں اور اس شعار کے مخالف ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے لئے مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا ''مجوسیوں کے خلاف تم مونچھیں۔ ترشواؤ اور داڑھی بڑھاؤ ''۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ مشرکوں کے برخلاف تم مونچھیں باریک ترشواؤ اور داڑھی بڑھاؤ ۔''
ان تعلیمات کے مطابق اسلامی صورت کو قائم رکھنا غیرت مند مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے اور بری معلوم ہونے کا تخیل زمانہ کے رسم و رواج کا واہمہ ہے۔ جس رنگ کی عینک لگائے دنیا اسی رنگ کی نظر آئے گی۔''
نماز کو قیمتی بنانے میں مسواک کا اثر:
8) «عَنْ عَائشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ''تَفْضُلُ الصَّلٰوةُ الَّتِي یُسْتَاکُ لھَا عَلٰی الصَّلٰوةِ الَّتِي لَا یُسْتَاکُ لَھَا سَبْعِیْنَ ضِعْفاً» (رواہ البیہقی)
''حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، وہ نماز جس کے لئے مسواک کی جائے، اس نماز کے مقابلہ میں جوبلا مسواک پڑھی جائے۔ ستر گنا فضیلت رکھتی ہے۔''
تشریح علماء لکھتے ہیں کہ:۔
''سبعین (ستر) کا لفظ عربی محاورہ کے مطابق کثرت اور بہتات کے لئے استعمال ہوا ہے اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز کے مقابلہ میں جو بلا مسواک کے بڑھی جائے بدرجہا اور بہت زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور اگر سبعین سے مراد ستر کا خاص عدد ہو تب بھی کوئی إستبعاد (بعید) نہیں ہے۔
جب کوئی بندہ احکم الحاکمین کے دربارِ عالی میں حاضری اور نماز کے ذریعہ اس سے مخاطبت اور مناجات کا ارادہ کرے اور یہ سوچے کہ اس کی عظمت و کبریائی کا حق تو یہ ہے کہ مشک و گلاب سے اپنے دہن و زبان کو دھو کر اس کا نام نامی لیا جائے اور اس کے حضور میں کچھ عرض کیا جائے، لیکن اس مالک نے اپنی عنایت و رحمت سے صرف مسواک ہی کا حکم دیا ہے اس لئے میں مسواک کرتا ہوں تو وہ نماز اگر اس نماز کے مقالہ میں جس کے لئے مسواک نہ کی گئی ہو، ستر یا اس سے بھی زیادہ درجے افضل قرار دی جائے تو بالکل حق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے۔
(معارف الحدیث، مولانا محمد منظور نعمانی)
؎ ہزار بار بشویم دہن زمشکو گلاب ہنوزِ نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است
دورِ جدید کے عظیم مفکر ڈاکٹر اقبالؒ سے کسی نے استفسار کیا کہ ''اب تو اچھے اچھے ولایتی منجن ملتے ہیں، کیا وہ مسواک کا نعم البدل نہیں ہو سکے۔'' ان کے جواب میں علامہ نے لکھا:۔
''مسواک سے میری مراد دیسی مسواک تھی نہ کہ انگریزی طرز کے منجن اور برش۔ کیونکہ یورپ کی بنی ہوئی بعض چیزیں خوبصورت ضرور ہوتی ہیں مگر ان میں اخلاقی زہر ہوتا ہے۔ جس کا اثر آج کل کے مادہ پرست مزاج رکھنے والے انسان فوراً محسوس نہیں کر سکتے۔''
''روزگارِ فقیر'' کے مؤلف اس اقتباس کے تحت لکھتے ہیں:۔
''مسواک کا استعمال اس لئے مبارک اور مفید ہے کہ اس میں سنتِ رسول کا اتباع مضمر ہے۔ یہی مقدس جذبہ تھا جس نے مسواک کو علامہ کی نگاہ میں محبوب بنا دیا تھا۔ محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر چیز محب کو محبوب و پسندیدہ نظر آئے۔ ''فنافی الرسول'' کی مشہور صوفیانہ اصطلاح کا لب لباب یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے احکام و مرضیات میں اپنی مرضی اور خواہش کو گم کر دیا جائے اور سنتِ رسول ﷺ کی پوری اطاعت کی جائے۔
حوالہ جات
صحیح مسلم
صحیح مسلم
سیرت النبی جلد ششم ص ۷۹۱
روزگارِ فقیر جلد دوم ص ۱۵۹