علم ریاضی سے مسلمانوں کا اعتناء

الجبرا:۔

علم ریاضی کی اس شاخ کا نام ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اس کے خالق عرب ہیں۔ الجبرا پر قدیم ترین معلوم تحریر محمد بن موسیٰ الخوارزمی کی کتاب ''المختصر فی حساب الجبرا والمقابلہ ہے جو اس نے ۸۲۵ء میں لکھی، محمد بن موسیٰ الخوارزمی مامون الرشید کے عہد میں شاہی رصد گاہ کا مہتمم اور شاہی کتب خانے کا ناظم تھا۔

الخوارزمی (۷۸۰ء تا ۸۴۷ء) نے اس علم کا نام ''الجبرا والمقابلہ'' اس لئے رکھا تھا کہ مساوات میں منفی رکن کو عملِ انتقال سے دوسری طرف لے جانا ''جبر'' کہلاتا ہے اور متماثل ارکان کو یکجا کرنا ''المقابلہ'' مثال کے طور پر:۔

---------- کو ---------- لکھنا الجبرا ہے۔ اور ------------ المقابلہ (------ اور ---- کو یکجا (جمع) کر دیا گیا ہے۔)

الخوارزی نے اس کتاب میں دو درجی مساوات کے حل سے بحث کی ہے، مثال کے طور پر اس نے مندرجہ ذیل تین دو درجی مساواتوں کے حل پیش کئے ہیں۔

------------------

------------------

------------------

ان مساواتوں کو حل کرنے میں خوارزمی نے صرف ایک ہی مثبت حل معلوم کیا۔ یعنی پہلی مساوات کا حل (+۳) ہے۔ اسے دوسرے حل ------- کا علم نہیں۔

خوارزمی کے اس اہم رسالے کا ۱۸۳۱ء میں ایف۔ روزن (F. Rosen) نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ فریڈرک روزن نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عربوں نے یہ فن ہنود سے سے حاصل کیا۔ اس مقصد کے لئے روزن نے بھاسکر اچاریہ کی کتاب ''لیلاونی'' اور ''وجے گیتا'' کے حوالے دیئے ہیں۔ لیکن مثل مشہور ہے کہ ''دورغ گورا حافظہ نبا شد'' اس لئے یہ حقیقت قطعی طور پر بھول گیا کہ محمد بن موسیٰ الخوارزی نویں صدی عیسوی کے آغاز میں تھا۔ ''انسائیکلو پیڈیا آف اسلام نے اس کی وفات ۲۲۰ھ بیان کی ہے۔ جو سنِ عیسوی کے مطابق ۸۳۵ء ہے اور بھاسکو اچاریہ مصنف ''لیلاوتی'' بارہویں صدی میں گزرا ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ خوارزمی نے بھاسکر اچاریہ کی خوشہ چینی کی ہو، بخلاف اس کے گمانِ غالب یہ ہے کہ بھاسکر اچاریہ نے محمد بن موسیٰ سے معلومات اخذ کی ہوں۔

یورپ کے دوسرے متعصب مورخین بار بار لکھتے ہیں کہ خوارزمی کی کتاب میں کوئی خاص بات نہیں بلکہ یونانی ماہرین ریاضی سے ماخوذ ہے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ وہ اس کے ماخذ کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ یہ کتاب یونانی مفکرین کے افکار سے اس لئے ماخوذ نہیں ہے کہ وہ مساواتوں کے غیر ناطق حل قبول نہیں کرتے جبکہ خوارزمی نے غیر ناطق حل بھی پیش کئے ہیں۔

خوارزمی کے بعد احمد النہاوندی (م۱۰۴۰ء) نے کسور کی تقسیم اور جذر المربع دریافت کرنے کے طریقوں کی ضاحت کی اور ابراہیم الفزاری نے مکعب مساواتوں کے حل معلوم کرنے کے لئے الخوارزمی کا ہندسی طریقہ استعمال کیا۔

عمر خیام (م ۱۱۳۲ء) جو ایک شاعر کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہے۔ بنیادی طور پر ایک منجم اور ریاضی دان تھا۔ اس نے الجبرے کو بہت ترقی دی۔ اس نے اپنی کتاب میں دو درجی اور سہ درجی مساواتوں کے حل کو فروغ دیا۔ خیام کی یہ کتاب ۱۹۳۲ء میں امریکہ سے شائع ہو چکی ہے۔

خیام نے سہ درجی مساواتوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ سہ رکنی اور چہار رکنی ۔ مثلاً

---------- اور -------------

پھر وہ ان کی ذیلی تقسیم بھی پیش کرتا ہے۔ خیام بھی الخوارزمی کی طرح مساواتوں کے منفی حل سے نابلدہے۔ اسے یہ غلط فہمی بھی ہے کہ سہ درجی مساوات کو الجبرے کی رو سے اور چہار درجی کو جیومیٹری کی رو سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

گیارہویں صدی عیسوی میں سیف الدولہ ہمدانی کے درباری ریاضی دان القرشی نے سہ درجی مساوات کے ہندسی اور حسابی حل تلاش کرنے کے علاوہ مقادیراصم کے متعلق بعض بنیادی معلومات حاصل کیں۔ اس نے قدرتی اعداد کے مربعوں اور مکعبوں کے مجموعے یعنی -------------- کی قیمتیں بھی دریافت کیں۔

بعد ازاں انہی بنیادوں پر ابو الوفا، ابن الہیثم اور ثابت بن قرہ نے تحقیقات جاری رکھیں۔

علم مثلث (Trigonometry):

عربوں کو علم ہندسہ کے افادی پہلو سے زیادہ دلچسپی رہی ہے، علم فلکیات میں انہیں مثلثی ہندسے کے استعمال کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لئے انہوں نے مثلثی نسبتوں کی جدولیں مرتب کیں۔ آج علم مثلث میں نسبت تناسب کے جو بنیادی نظریے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایک صابی المذہب البتانی (م ۹۳۰ء) نے مسلمانوں کی سرپرستی میں معلوم کئے تھے۔ اس نے یونانی ریاضی دان بطلیموس کے Sine کے غلط تصور کی نشاندہی کی تھی۔ البتانی عمود وتر کو ''شیبا'' کے لفظ سے ظاہر کرتا ہے۔ جس کا لاطینی ترجمہ (Sinus) ہوا اور بالآخر موجودہ شکل Sineاختیار کر گیا۔

البتانی نے Sine کے جد اول ۴/۱ درجے کے وقفوں سے آٹھ مراتب اعشاریہ تک مرتب کئے اس نے کروی مثلث کے حل کے لئے مندرجہ ذیل کلیہ بھی وضع کیا۔

----------------------------- یعنی

Cos A = Cos B Cos C + Sin B Sin C Cos A

الزرقانی اور دوسرے ریاضی دانوں نے گیارہویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف حصے میں جد اول طیطلی (Toledon Tables) مرتب کئے۔ الزرقانی کی تالیف کا جیرارڈ کریمونی نے لاطینی میں ترجمہ کیا جو تین صدی مقبول رہا۔

ابو الوفا نے Sineکے جد اول آدھے درجے کے وقفے سے نو مراتب اعشاریہ، تک صحیح مرتب کئے۔ ابو الوفا کے اسی محنت طلب کام کے پیش نظر جارج سارٹن نے ابو الوفا کو ریاضی کے میدان میں ایک اہم شخصیت قرار دیا ہے۔

جابر بن فلا نے اشبیلیہ میں اپنی کتاب ''اصلاح المحسبطی'' کے لئے علم مثلث پر تمہید لکھی المحسبطی بطلیموس کی تالیف ہے جسے البتانی نے عربی میں منتقل کیا تھا۔ جابر نے مثلث سے متعلق چند نئے فارمولے پیش کئے۔ مثال کے طور پر:

جم ج ب =جم الف جم ب کا ضابطہ ایک ایسے مثلث کے لئے پیش کیا جس میں ج زاویہ قائم ہوتا ہے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں علم مثلث کو جو بھی ترقی ہوئی وہ مسلمانوں کی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے۔ اس صدی کے پہلے نصف حصہ میں زیادہ تر مراکش میں کام ہوا۔ حسن المراکشی نے عملی بیت الافلاک پر اپنی توجہ مبذول کی۔ اس نے ہر نصف درجے کے زاویے کی جدولیں ترتیب دیں۔ صدی کے دوسرے نصف حصہ میں نصیر الدین طوسی صدر معلم دارالعلم مرانم (آذر بائیجان) نے ۱۲۵۹ء میں اپنی شاہکار کتاب ''شکل الأقطاع'' شائع کی۔ اس کتاب میں علم ہندسہ اور مثلث کے جدید ترین مسائل اور تصورات شامل ہیں اور دو صدیوں تک ان کا جواب پیدا نہ ہو سکا۔ اس میں طوسی نے مستوی اور کروی مثلثوں کے حل کے اساسی قواعد بیان کئے ہیں۔ طوسی کے ایک مددگار محی الدین المغربی نے بھی ''شکل الأقطاع'' ہی کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں طوسی کے مباحث کی مزید توضیح کی گئی۔

بارہویں اور تیرہویں صدی میں مسلمان حکماء کی ان کوششوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں کہ اس دور میں مسلمانوں کا علمی مرتبہ دنیا بھر میں سب سے بلند تھا۔


نوٹ

خیام: سید سلیمان ندوی۔