سیرتِ رسول ﷺ اور مستشرقین

الْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہ الّذِیْنَ اصْطَفٰی،


صدر محترم و سامعین عظام!

آپ نے سرورِ کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر متعدد تقاریر و مقالات سنے۔ آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ وہ بحر ناپیداکنار ہے، جس کی شناوری حیطۂ بشری سے خارج ہے، استطاعت انسانی کی حد تک مدح و توصیف کے بعد بھی یہی کہنا پڑے گا کہ:

؎ لا یمکن الثناء کما کان حقہ       بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر


حضرتِ گرامی! مجھے جو فریضہ تفویض ہوا ہے، اس کی نوعیت جداگانہ ہے۔ مجھے جس بات کے لئے مامور کیا گیا ہے، وہ اس امر کا اظہار و بیان نہیں کہ جس پاکیزہ ہستی کا تذکار آج مقصود ہے، اس نے کفرستان ارضی کو نعمتِ ایمان سے نوازا۔ اس کی تشریف آوری سے چمنستان دہر میں روح پرور بہار آگئی۔ چرخ نیلی نام نے اس بزم عالم کو یوں آراستہ کیا کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکت، روم اور اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ نہ صرف آتشِ فارسی بلکہ آتش کدۂ ہائے کفر سروید کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی۔ شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا۔ نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔

بخلافِ ازیں مجھے یہ ناخوشگوار فریضہ سونپا گیا ہے کہ سینہ پر پتھر رکھ کر آپ یہ سنیں اور میں آپ کو سناؤں کہ آنحضور ﷺ فداہ أبی و أمی پر کیچڑ کس نے اچھالا؟ آپ کی فرشتوں سے زیادہ پاکیزہ زندگی کو داغدار کرنے کی کوشش کس نے کی؟ آپ کی ازواجِ مطہرات اور امہات المومنین پر ناپاک حملے کس نے کئے؟ جو دین آپ لائے تھے اس کی تضحیک کس نے کی؟ اس کے عقائد و افکار کا مذاق کس نے اڑایا؟ کتبِ الٰہی کو تنقید کے تیروں سے کس نے گھائل کیا؟

آپ محو حیرت سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بد باطن کون ہے؟ آپ کے اس خاموش سوال کے جواب میں یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں اور اس کے لئے معذرت خواہ بھی ہوں کہ وہ تھے ہم اہل پاکستان کے محبوب رہنما اور ہمارے پسندیدہ فضلاء جن کو ہم مشرق شناس اور مستشرقین (Orientlist) کے نام سے یاد کرتے ہیں، اس لئے ان کی یہ برزہ سرائی اور یادہ گوئی بہرحال گوارا ہونی چاہئے، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر (خاک بدہن ایشاں) ان کی یہ ادا پسندیدہ گناہ سے دیکھی جانے کی اس لئے مستحق ہے کہ محبوب کی ہر ادا بھی محبوب ہوتی ہے۔

عزیزانِ من! محبوب کا لفظ میں نے نا دانستہ نہیں بلکہ دانستہ کہا ہے، محبوب کا طرز و انداز، چال ڈھال، نشت و برخاست، طرزِ بود و ماند، زندگی کے آداب و اطوار محب کی نگاہ میں نہ صرف پسندیدہ اور مستحسن ہوتے ہیں بلکہ وہ اس کی ہر ادا سے والہانہ شغف رکھتا اور اس پر سو جان سے فدا ہوتا ہے، یہی حال یہاں بھی ہے۔

ان اعدائے دین کی وہ کون سی ادا ہے جو ہمیں عزیز نہیں۔ ہمارا رہنا سہنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا اور سونا جاگنا انہی کے قالب میں ڈھلا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں کا مہذب طبقہ دل و جان سے اس بات کا حریص ہے کہ اسی رنگ میں رنگ جائے تاکہ اس کے بارے میں کہا جا سکے۔

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری!


ان دشمنانِ دین کے ساتھ مشابہت و مماثلت کا جو جذبہ ہمارے قلب ذہن میں موج زن ہے، اس کی یہ ادنیٰ کرشمہ سازی ہے کہ اگر وہ حیوانوں کی طرح کھڑے ہو کر بلکہ چلتے پھرتے کھاتے پیتے ہیں، تو ہمارا اعلیٰ طبقہ بھی اس کی بھونڈی نقالی شروع کر دیتا ہے۔ اور اگر وہ بے شعور چوپایوں کی طرح کھڑے ہو کر رفعِ حاجت کرتے ہیں، تو ہم میں سے ترقی کا ایک مدعی بھی اسی طرح کرنے لگے اور پھر فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا جو طوفان بدتمیزی ہمارے یہاں اُٹھ رہا ہے، یہ مغرب کی اندھی نقالی کے سوا کیا ہے؟

حضرات! بڑے ادب سے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلقِ خاطر وابستگی او دل بستگی کا یہ عالم ہو ان کے بارے میں ہمارا یہ شکوہ کہاں تک درست ہے کہ انہوں نے محمد ﷺ مصطفےٰ فداہ ابی و امی کا احترا ملحوظ نہیں رکھا۔ قرآن کریم کو اپنی تنقید شدید کا نشانہ بنایا یا دین اسلام کو اپنے اعتراضات کے تیروں سے چھلنی کیا۔ اگر ہم میں دینی زندگی کی کچھ رمق بھی باقی ہوتی، تو اس کی نوبت نہ آتی۔ ہمارا مکتب اپنا فریضہ ادا کرتا تو دینی غیرت و حمیت کا یہ عالم نہ ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مکتب نے نقالی کے اس جذبہ کو اور فروغ دیا، جس سے ہماری دینی حس زندہ نہ رہی۔ اسی کے حق میں علامہ فرماتے ہیں۔

گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے مانگ لایا ہے فرنگی سے کفن


ہمارے مکتب نے دہریت و الحاد کے دروازے چوپٹ کھول دیئے۔

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ


سامعین کرام! میں موضوع سے بہت دور نکل جانے کے لئے معذرت خواہ ہوں، مگر مستشرقین کا ذِکر ہو تو دل کی بات کو چھپا نہیں سکتا اس لئے بقول امیر مینائی۔

امیرؔ جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے


تمہید میں قدرے طوالت ناگزیر تھی۔

سیرت نویسی کا آغاز و ارتقاء:

جرمنی کے مشہور مستشرق ڈاکٹر اسپرنگ نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس احتیاط کے ساتھ محفوظ رکھا ہے کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت کے ساتھ قلمبند نہیں ہو سکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کی حد یہ ہے کہ آپ کے افعال و اقوال کی تحقیق کے لئے مسلمانوں نے ''أسماء الرجال'' کے نام سے ایک مستقل فن ایجاد کیا اور اس میں آپ کے دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تیرہ ہزار اشخاص کے نام اور حالاتِ زندگی قلمبند کئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اس زمانہ میں ہوا جب دنیا میں تصنیف و تالیف کا آغاز ہو رہا تھا۔

مگر یہاں یہ سیرت نویسی کی تاریخ مقصود ہے اور نہ مسلم سیرت نویسوں کا تفصیلی تذکرہ۔ اس دلچسپ اور علمی موضوع کے لئے ایک دوسری فرصت درکار ہے۔ یہاں جو کچھ پیش نظر ہے، وہ یہ ہے کہ مستشرقین کون تھے؟ انہوں نے سیرت نویسی کے سلسلہ میں کیا کارنامہ انجام دیا؟ اور یہ کہ ان کی کاوش اہلِ اسلام کے لئے کس حد تک ضرر یا نفع رساں ہے؟

سیرت نویسی اور مستشرقین:

اہلِ یورپ ایک مدت تک اسلام سے مطلقاً نابلد تھے، جب وہاں شرق شناسی کا رواج ہوا تو اسلام کے بارے میں طرح طرح کے توہمات میں مبتلا رہے۔ یورپ نے مسلمانوں کو جس طرح جانا اس کو فرانس کا مشہور مصنف ہنری وی کاستری یوں بیان کرتا ہے۔

''وہ گیت اور کہانیاں جو اسلام کے متعلق یورپ میں قرونِ وسطیٰ میں رائج تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مسلمان ان کو سن کر کیا کہیں گے؟ یہ تمام داستانیں اور نظمیں مسلمانوں کے مذہب کی ناواقفیت کی وجہ سے بغض و عداوت سے بھری ہوئی ہیں۔ جو غلطیاں اور بدگمانیاں اسلام کے متعلق آج تک قائم ہیں ان کا باعث وہی قدیم معلومات ہیں۔ ہر مسیحی شاعر مسلمانوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتا تھا۔ مسلمانوں کے تین خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔'' (سیرت النبی شبلی بحوالہ ترجمہ کتاب ہنری وی کاستری بزبانِ عربی مطبوعہ مصر ص ۸)

سترھویں اور اٹھارھویں صدی:

سترہویں صدی کے سنینِ وسطیٰ یورپ کے عصر جدید کا مطلع ہے۔ یورپ کی جدوجہد سعی و کاوش اور حریت و آزادی کا دَور اسی عہد سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے مقصد کی جو چیز اس دَور میں پیدا ہوئی، وہ مستشرقین کا وجود ہے۔ جن کی کوشش سے نادر الوجود عربی کتابیں ترجمہ اور شائع ہوئیں، عربی زبان کے مدارس علمی و سیاسی اغراض سے جابجا ملک میں قائم ہوئے اور اس طرح وہ زمانہ قریب آ گیا کہ یورپ اسلام کے متعلق خود اسلام کی زبان سے کچھ سن سکا۔

اس دَور کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ سنے سنائے عامیانہ خیالات کے بجائے کسی قدر تاریخ اسلام اور سیرت النبیﷺ کی بنیاد عربی زبان کی تصایف پر قائم کی گئی۔ گو موقع بہ موقع سابقہ بے بنیاد معلومات کا نمک مرچ بھی شامل کر دیا گیا۔ اس عہد میں عربی زبان کی تاریخی تصنیفات کا ترجمہ ہوا، مگر یہ عجیب بات ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان مستشرقین نے جن عربی تاریخوں کا ترجمہ کیا وہ اکثر ان عیسائی مصنفین کی تصنیفات تھیں جو اسلامی ممالک کے باشندے تھے۔ اِس ضمن میں ارپی نیوس مار گولیتھ ایڈورڈ پوکاک اور ہاٹنجر کے نام قابل ذکر ہیں۔

اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں جب یورپ کی سیاسی قوت اسلامی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی تو مستشرقین کی ایک کثیر التعداد جماعت عالم وجود میں آئی۔ انہوں نے حکومت کے اشارہ سے السنۂ شرقیہ کے مدارس کھولے، مشرقی کتب خانوں کی بنا ڈالی، ایشیاٹک سوسائیٹیاں قائم کی گئیں اور تصنیفات کی طبع و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان مدارس اور سوسائٹیوں کی تقلید سے تمام ممالک یورپ میں اس قسم کی درس گاہیں اور انجمنیں قائم ہو گئیں۔ ہر یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسروں اور کتب خانوں کا وجود لازمی سمجھا جانے لگا۔ مسلمانوں کے ہاں عربی زبان میں سیرت و مغازی کی جو کتابیں محفوظ تھیں ان میں سے اکثر اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ میں چھپ گئیں۔ اور ان میں سے بہت سی کتب کا ترجمہ یورپین زبانوں میں شائع ہو گیا۔

ان اصل عربی تصنیفات اور ان کے تراجم کی اشاعت نیز اسلامی ممالک و یورپ کے تعلقات اور آزادانہ تحقیقات کے ذوق و شوق نے یورپ میں تاریخ اسلام اور سیرتِ نبوی کے مصنفین کی ایک کھیپ پیدا کر دی۔ سیرت النبیﷺ پر لکھنے والوں کی کثرتِ تعداد کا ذِکر آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور عربی دان پروفیسر مارگو لیتھ نے اپنی کتاب ''محمدؐ'' میں اِس طرح کیا ہے۔
''محمدؐ کے سیرت نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جن کا ختم ہونا غیر ممکن ہے، لیکن اس میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے۔''

مستشرقین کی اقسام:

مستشرقین کے نام اور ان کا کام اس قدر وسیع الذیل ہے کہ اس کی تفصیلات ذکر کر کے میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا، البتہ یہ عرض کروں گا کہ ان کی تین بڑی قسمیں ہیں:

1. جو عربی زبان اور اصل ماخذوں سے آشنا نہیں۔ ان لوگوں کا علمی سرمایہ اوروں کی تصانیف و تراجم ہیں۔ ان کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اس مشکوک اور ناقص مواد کو قیاس آرائی کے قالب میں ڈھال کر دکھائیں۔ مثال کے طور پر مشہور مؤرخ گبن کا نام اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
2. دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو عربی زبان و ادب اور تاریخ و فلسفۂ اسلام کے بہت بڑے ماہر ہیں، لیکن سیرت کے فن سے بے گانہ ہیں۔ ان لوگوں نے سیرت یا دین اسلام پر کوئی مستقل تصنیف نہیں لکھی، لیکن ضمنی موقعوں پر عربی دانی کے زعم میں اسلام اور نبی کریمﷺ کے متعلق نہایت بے باکی سے جو چاہتے ہیں لکھ جاتے ہیں۔ مثلاً جرمن کا مشہور مستشرق ساخو جس نے طبقات ابن سعد شائع کی ہے۔ اس کی عربی دانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، علامہ بیروی کی کتاب ''الہند'' کا دیباچہ اس نے جس تحقیق سے لکھا ہے رشک کے قابل ہے، لیکن اسی دیباچہ میں اسلامی امور کے متعلق اس نے ایسی باتیں لکھی ہیں جن کو پڑھ کر بھول جانا پڑتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ جرمنی کے مشہور مستشرق نولایکی نے قرآن مجید کا خاص مطالعہ کیا ہے، لیکن انسائیکلو پیڈیا جلد ۱۶ میں قرآن پر اس کا جو آرٹیکل ہے نہ صرف اس کے تعصب بلکہ اس کی جہالت کے رازِ پنہاں کی بھی پردہ دری کرتا ہے۔

3. تیسری قسم کے وہ مستشرقین ہیں جنہوں نے اسلامی ادب کا کافی مطالعہ کیا ہے، مثلاً پاریا مار گولیتھ مگر علم و فضل کے باوصف ان کا یہ حال ہے کہ: ؎

دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں


مارگولیتھ نے مسند امام احمدؒ بن حنبل کا ایک ایک حرف پڑھا ہے۔ شاید کسی مسلمان کو بھی اس وصف میں اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں ہو سکتا، لیکن اس نے آنحضرت ﷺ کی سیرت پر جو کتاب لکھی ہے دنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ کوئی کتاب کذب و افتراء اور تاویل و تعصب کی مثال کے لئے پیش نہیں کر سکتی، اس کا اگر کوئی کمال ہے تو یہ ہے کہ سادہ سے سادہ اور معمولی سے معمولی واقعہ کو جس میں برائی کا کوئی پہلو پیدا نہیں ہو سکتا، صرف اپنی ذہانت کے زور سے بد منظر بنا دیتا ہے۔

ڈاکٹر اسپرنگ جرمنی کے مشہور عربی دان ہیں۔ کئی سال مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل رہے حافظ ابن حجر کی کتاب ''الإصابة فی تمييزالصحابة '' بعد از تصحیح ان ہی نے شائع کی۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کی سیرت پر ایک ضخیم کتاب ۳ جلدوں میں لکھی تو ہر قاری حیران رہ گیا۔

مستشرقین کا نقد و جرح:

یورپین مصنفین نے مذہبی و سیاسی تعصب کی بنا پر سرور کائناتﷺ کے اخلاقِ کریمانہ پر جو نکتہ چینی کی ہے اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں۔

1. آنحضرتﷺ نے مکہ معظمہ میں ایک پیغمبر کی حیثیت سے زندگی بسر کی مگر جونہی مدینہ پہنچ کر بر سرِ اقتدار ہوئے پیغمبری یکایک بادشاہی سے بدل گئی۔ اس کے نتیجہ میں بادشاہی کے لوازم یعنی لشکر کشی، قتل، انتقام، خون ریزی خود بخود پیدا ہو گئے۔

2. کثرتِ ازواج اور عورتوں کی جانب رجحان و میلان

3. اشاعت اسلام بز در شمشیر

4. لونڈی غلام بنانے کی اجازت اور اس پر عمل

5. دنیا داروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئی (سیرۃ النبی شبلی جلد اوّل)

یورپین مصنفین نے زبان و قلم کے جو نشتر چلائے ان کی تندی و تیزی جناب رسالت مآبﷺ کی ذاتِ گرامی تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ انہوں نے کتابِ الٰہی کو آنحضورﷺ کی تصنیف قرار دے کر اس میں کیڑے نکالے، اس کی عبارت کو غیر مربوط اور غلط قرار دیا اس کے معانی و مطالب پر تنقید کی اور اسے ادنیٰ درجے کا عوامی کلام ٹھہرایا۔ اسی طرح انہوں نے دین اسلام پر جو حملے کئے ناقابل بیان ہیں۔

حضرات! مستشرقین کی عنایات دین اسلام قرآن کریم اور جناب رسالت مآبﷺ پر اس قدر زیادہ ہیں کہ ؎

سفینہ چاہئے اس بحرِ بیکراں کے لئے


میں اپنے اندر یہ جرأت نہیں پاتا کہ مستشرقین کی ہرزہ سرائی پر مشتمل اقتباسات پیش کر کے اپنی زبان کو آلودہ اور آپ کے احساسات کو مجروح کروں ورنہ میں ڈھیروں کتب آپ کے سامنے پیش کر کے مستشرقین کی دریدہ دینی کا ثبوت مہیا کر سکتا ہوں۔

یہی نہیں کہ احقر زمانۂ طلب علم سے مستشرقین کی نصانیف پڑھتا چلا آیا ہے، بلکہ بذاتِ خود مجھے بعض مستشرقین سے ملنے اور ان سے مبادلۂ افکار کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ۱۹۸۵ء جنوری میں پنجاب یونیورسٹی نے لاہور میں ایک مجلس مذاکرہ عالمیہ منعقد کی تھی جس میں احقر نے علماء مصر وشام کے ترجمان کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس دوران مجھے عصر حاضر کے عظیم مستشرق اور مورخ ہٹیّ کے ساتھ کم از کم دو ہفتے گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ہٹی اگرچہ سکونت کے اعتبار سے امریکی ہیں مگر لبنانی الأصل ہیں اور عربی ان کی مادری زبان ہے، وہ عصر حاضر کے ان مستشرقین میں شمار ہوتے ہیں جو تعصب سے پاک ہیں۔

دوران ملاقات جب احقر نے موصوف کی کتب کے نشان زدہ مقامات پیش کئے جہاں انہوں نے بایں ہمہ اِدّعائے بے تعصبی اسلام اور شارع اسلام پر حملے کئے تھے تو اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے چڑ گئے اور تاویلات کا سہارا لینے لگے۔ اسی طرح اٹلی کے مشہور مستشرق بوسانی کے انگریزی مقالہ کے عربی ترجمہ کے سلسلہ میں جب احقر نے ان سے مل کر مستشرقین کی اسلام دشمنی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جو جواب دیا، وہ اس اعتراف پر مبنی تھا کہ مستشرقین کی اکثریت اسی قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح مجھے انگلینڈ امریکہ فرانس اور جرمنی کے مستشرقین سے ملنے اور بالمشافہ گفتگو کرنے کے متعدد مواقع ہاتھ آئے اور اس بات کا عملی تجربہ حاصل ہوا کہ ان لوگوں کے دل میں اسلام اور شارع اسلام کے خلاف بغض و عناد کا ایک بحر اوقیانوس موج زن ہے۔

مستشرقین کی چابکدستی:

حیرت کی بات یہ ہے کہ مستشرقین کی نیش زنی اور قدر ڈھکی چھپی ہوتی ہے کہ ایک صاحب بصیرت شخص ہی کو اس کا احساس ہو سکتا ہے، گویا وہ شربت کے جام میں زہر گھول کر پیش کرتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یورپ کے مادّی علوم سے ناپختہ اذہان اس قدر مرعوب ہیں کہ انہوں نے دینی و روحانی علوم میں بھی یورپ کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا ہے۔ ؎

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو       مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے


اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نو تعلیم یافتہ نوجوان دینی و اسلامی علوم کو بھی یورپی فکر کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان فضلاء کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اسلامی علوم کا مطالعہ براہِ راست کتاب و سنت کے مآخذ سے کریں، بلکہ مستشرقین نے اپنی ناقص تحقیقات کی بناء پر تاریخ اسلام اور کتاب و سنت کے متعلق جو کچھ لکھ دیا ہے۔ اس کو حرفِ آخر سمجھ لیا جاتا ہے، گویا غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، رازیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور مجد الف ثانیؒ کو نظر انداز کر کے مستشرقین کے خوانِ کرم کی زلہ ربائی ہمارے نوجوانوں ہی کے حصہ میں آئی ہے۔ اس احساس کمتری اور غلامانہ ذہنیت پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔ ؎

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے      کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں


ان مستشرقین نے ایک طرف اسلام کے دینی افکار و اقدار کی تحقیر کا کام کیا اور مسیحی یورپ کے افکار و اقدار کی عظمت ثابت کی تاکہ تعلیم یافتہ طبقہ کا رابطہ اسلام سے کمزور پڑ جائے یا کم از کم یہ سمجھنے پر مجبور ہو کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف انہوں نے بدلتی ہوئی زندگی اور دورِ حاضر کی ارتقاء پذیری کا نام لے کر خدا کے آخری اور ابدی دین پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی اور دقیانوسیت کا مترادف قرار دیا۔ دوسری طرف ان پر ایسی تہذیب کو لا سوار کیا جس نے ان سے دینی حمیت و غیرت کا باقی ماندہ ورثہ بھی چھین لیا۔

یہ مستشرقین اپنے فلسفیانہ افکار کا لاؤ لشکر لے کر اسلامی دنیا پر حملہ آور ہوئے، وہ فلسفلے جن کی خراش خراش بڑے بڑے فلاسفر اور یگانۂ روز اشخاص کی ذہنی کاوش کی رہین منت تھی۔ مستشرقین نے ان پر ایسا علمی اور فلسفیانہ رنگ چڑھایا کہ معلوم ہو یہ فکرِ انسانی کی معراج ہے، مطالعہ و تحقیق اور عقل انسانی کی پرواز اس پر ختم ہے اور غور و فکر کا یہ وہ نچوڑ ہے۔ جس کے بعد کچھ اور سوچا نہیں جا سکتا۔

حالانکہ ان فلسفوں میں کچھ چیزیں وہ تھیں جو تجربات و مشاہدات پر مبنی تھیں۔ اور اس لئے صحیح تھیں، اور بہت سی چیزیں وہ تھیں جو محض ظنّ و تخمین اور فرض و تخیل پر مبنی تھیں۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی، علم بھی تھا اور جہل بھی۔ یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو میں آئے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کر لی۔ ان لوگوں میں وہ بھی تھے۔ جنہوں نے ان کو سمجھ کر قبول کیا، مگر وہ کم تھے۔ زیادہ تر وہ تھے جو ذرا بھی نہیں سمجھے تھے لیکن مومن اور مسحور سب کے سب تھے۔ ان فلسفوں پر ایمان لانا ہی عقل و خرد کا معیار بن گیا۔ اور اس کو روشن خیالی کا شعار سمجھا جانے لگا۔ مستشرقین کے زیر اثر یہ الحاد و ارتداد اسلامی ماحول میں بغیر کسی شورش اور کش مکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقلاب پر چونکے، نہ اساتذہ اور مربیوں کو خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو جنبش ہوئی۔ اس لئے کہ یہ ایک خاموش انقلاب تھا۔ اس الحاد و ارتداد کو اختیار کرنے والے کسی کلیہ میں جا کر کھڑے ہوئے نہ کسی معبد میں داخل ہوئے ، نہ کسی بت کے آگے انہوں نے ڈنڈوت کی اور نہ کسی استہان پر جا کر قربانی پیش کی۔ سابقہ اَدوار میں یہی سب علامات تھیں جن سے کفر و ارتداد اور زندقہ کا علم ہوتا تھا۔

عزیزانِ محترم! یہ ہے قتنۂ استشراق کا تاریخی پس منظر اس کا سرسری تعارف اور مستشرقین کے کام کا معمولی جائزہ۔ اس فتنہ سے کما حقہ آگاہ و آشنا ہونے کے لئے دراصل یہ نقطۂ آغاز اور ایک محرک ہے کہ اس جانب عنانِ توجہ موڑ کر دیکھئے کہ مستشرقین نے رسول کریم ﷺ، قرآن حکیم اور دین اسلام کو کس طرح ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اور جانچیئے کہ آیا آپ کے ذخیرۂ علم و فضل میں اس کا شافی جواب موجود بھی ہے یا نہیں۔

اصل موضوع زیر تبصرہ یہی تھا کہ مستشرقین کے وارد کردہ اعتراضات کا جواب دیا جائے مگر میرے نزدیک اصلی مبحث پر گفتگو اس پس منظر کے بغیر نہ موزوں تھی نہ مفید، میرے لئے اس قلیل فرصت میں ممکن نہیں کہ مستشرقین کے کسی اعتراض کو پیش کر کے اس کا تفصیلی جواب پیش کر سکوں۔ اس لئے اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر آپ کے قلب و ذہن کے کسی گوشے میں یہ جذبہ ابھرا ہے کہ آنحضورﷺ کی پاکیزہ سیرت کو مستشرقین نے جس طرح داغدار کیا ہے، اس کی تفصیلات معلوم کریں اور پھر اس کے جواب کے در پے ہوں تو اس ضمن میں مطالعہ کی راہیں کھلی ہیں اور رہنمائی کے لئے میری خدمات حاضر ہیں۔ اس لئے کہ ہمارےعلماء اس پہلو سے غافل نہیں رہے اور انہوں نے سیرتِ طیبہ کا پورا پورا دفاع کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیرت نبویﷺ سے دفاع کا فریضہ انہی لوگوں نے ادا کیا جو رجعت پسند کہلاتے ہیں۔ کسی ''روشن خیال'' کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی۔

سامعین عظام! مستشرقین کی برکات کے طفیل دنیائے اسلام آج ایک دینی، فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہے۔ یہ مصیبت ان تمام لوگوں کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں، جو اسلام کا درد رکھتے ہیں۔ آج ہر اسلامی ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا حال یہ ہے کہ اعتقاد و ایمان کا سرا ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ اخلاقی بندشیں وہ توڑ کر پھینک چکا ہے، شک و الحاد، نفاق و ارتیاب کا ایک طوفان ہے جو ہمارے دل و دماغ میں برپا ہے۔ غیبی حقائق پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ سیاست و اقتصاد کے مادہ پرستانہ نظریات فروغ پا رہے ہیں۔

اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ہمارے نوجوان پورے اشتیاق و اخلاص کے ساتھ رسولﷺ عربی فداہ ابی و امی کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں اور آنحضورﷺ کے اقوال و اعمال کو اپنے لئے اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ اس طرح ان پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ رسالت مآب کی حیات طیبہ پاکیزگی فکر و عمل اور بلندیٔ سیرت و کردار کا زندہ پیکر تھی۔ مگر یورپین مصنفین اپنے خبثِ باطن اور جذباتِ حقد و عناد کے باعث چمگادڑ کی طرح اس آفتاب درخشاں سے مستفید نہ ہو سکے اور ان کی آنکھیں اس کی تابانی و درخشانی کے سامنے خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ ؎

گر نہ بیند بروز شپرہ چشم، چشمۂ آفتاب راچہ گناہ


خلاصہ یہ کہ عملی زندگی میں اتباعِ رسول کے بغیر ایمان و اسلام کا اِدعاء، ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔ اور ایک مومن کے لئے یہ متاعِ گراں بہا ہر دنیوی اثاثہ و سرمایہ سے عزیز تر ہے۔ ؎

بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باد نرسیدی مام بُولہبی است