اشتراکی مغالطے اور ان کا دفعیہ
حدیثِ رسول میں دجل و تحریف:
مسعود صاحب نے ۲۰ فروری کی قسط میں بخاری کی ایک حدیث بیان کی ہے ۔ اس میں اپنی طرف سے اضافے کئے ہیں اور اس طرح رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھا ہے، مثلاً مسعود صاحب نے نبی ﷺ کی طرف یہ فقرہ منسوب کیا جو زمین کی کاشت سے متعلق ہے۔ ''یعنی اس کے کسی حصہ کو بغیر کاشت کے نہیں چھوڑنا چاہئے۔'' یہ فقرہ بخاری کی کسی حدیث میں موجود نہیں ہے، بلکہ یہ مسعود صاحب کا اپنا قول ہے جو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے دجل و تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں، پھر آخر میں ایک اور فقرہ اپنی طرف سے الحاق کیا ہے یعنی ''ہمیں اس سے کوائی واسطہ نہیں'' یہ فقرہ بھی مسعود صاحب نے خود گھڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے، کیا رسول اللہﷺ پر جھوٹ بولنے والے اور ان کی حدیثوں میں مارکس کی تائید کے لئے اضافے کرنے والے ایسے شخص کو اسلامی حکومت میں کسی بھی محکمہ کا افسر رہنا چاہئے؟
امام ابو حنیفہؒ پر جھوٹ:
مسعود صاحب اپنے مضمون کی دوسری قسط میں لکھتے ہیں ''امام ابو حنیفہؒ کے خیال میں ایک شخص کو اپنے پاس صرف اتنی زمین رکھنی چاہئے، جس پر وہ خود کاشف کر سکتا ہو۔''
یہ قول امام ابو حنیفہؒ کی طرف غلط منسوب کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نقد ٹھیکے پر زمین دینے کو بالکل جائز سمجھتے تھے۔
امام ابو یوسف لکھتے ہیں،
«إجارة أرض بیضاء بدر اھم مسماة سنة أو سنتین فھذا جائز والخراج علی رب الأرض في قول أبی حنیفة رضي اللہ عنه وإن کانت أرض عشر فالعشر علی رب الأرض وکذالك قال أبو یوسف في الإجارة الخراج أما العشر فعلی صاحب الطعام»
ترجمہ: ''سفید زمین کو مقررہ نقد دراہم کے عوض سال یا دو سال کے لئے ٹھیکہ پر دینا جائز ہے اور خراج مالک زمین کے ذمہ ہو گا اور اگر زمین عشری ہے تو عشر مالک زمین کے ذمے ہو گا۔ یہ قول امام ابو حنیفہ کا ہے اور ابو یوسف نے بھی یہی بات ٹھیکہ والی زمین کے خراج کے متعلق کہی ہے، لیکن ان کے نزدیک عشری زمین ہو تو عشر وہ دے گا جو فصل لے گا۔
امام ابو یوسفؒ اپنی کتاب الخراج محولہ بالا کے صفحہ ۸۸ پر لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ مزارعت کو مکروہ جانتے تھے، پھر صفحہ ۹۱ پر لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اپنی زمین کسی کو مزارعت پر دیدے تو پھر امام ابو حنیفہ کے نزدیک مالک زمین کو چاہئے کہ کام کرنے والے کو اجرت دے اور خراج بھی مالک زمین کے ذمے ہو ا۔ اور زمین عشری ہو تو عشر بھی مالک زمین کو دینا پڑے گا۔ یعنی فصل مالک زمین لے لے گا۔ اور عشر ادا کرے گا۔ اور مزارع کو اس کا حق خدمت دیا جائے گا جتنی کہ اس نے محنت کی ہو گی۔
جب امام ابو حنیفہ کا مسلک وہ ہے، جو اوپر بیان ہوا، تو آخر مسعود صاحب کس طرح ان سے یہ بات منسوب کر رہے ہیں کہ وہ مزارعت کے قائل نہیں تھے، واقعہ یہ ہے، نقد ٹھیکہ بھی زمینداری ہے اور مزدور سے کام کروانا بھی زمینداری ہے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ سب جائز ہے۔
امام ابو یوسفؒ پر الزام:
مسعود صاحب لکھتے ہیں، ''ملوکیت انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ ان حالات میں امام ابو یوسف کے لئے مزارعت کے خلاف رائے قائم کرنا ممکن نہ تھا۔''
اصل میں مسعود صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ امام ابو یوسف دولت مندوں کے ایجنٹ تھے، لیکن اس خیال سے کہ پاکستان میں حنفیوں کی کثرت ہے۔ انہوں نے سرمایہ داروں کے ایجنٹ والی بات بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے پیش کی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اگر ان کے زمانے میں ملوکیت انتہا کو پہنچ گئی تھی ۔ تو بطور وارث انبیاء کے ان کا فرض تھا کہ وہ حق بات کہیں نہ یہ کہ دولت مندوں کے ڈر سے مسئلہ بدل دیں۔ مسعود صاحب کے زعم میں خود ان کے لئے سچ بات بیسویں صدی میں تو کہنا ممکن ہے، لیکن قرونِ اُولیٰ میں امام ابو یوسف جیسے عالم کے لئے حق بات کا فتویٰ دینا ممکن نہ تھا۔
دراصل امام ابو یوسفؒ جانتے تھے کہ امام ابو حنیفہؒ نے کمال احتیاط اور تقویٰ کی بناء پر اور اس خیال سے کہ کہیں زمیندار مزارع سے کوئی ایسی شرط نہ کر سکے کہ اچھی زمین کی فصل میری ہو گی اور خراب زمین کی تیری۔ انہوں نے نقد ٹھیکہ کو ترجیح دی اور مزارعت کی صورت میں یہ بہتر سمجھا کہ فصل ساری مالک زمین لے لے اور مزارع کو مزدوری مل جائے، جب ابو یوسف اور امام محمد نے خود امام ابو حنیفہؒ کے دلائل اور احادیث کے نئے نئے طریق دیکھے تو صاحبین بھی امام احمد حنبل کی طرح مزارعت اور نقد ٹھیکے دونوں کو یکساں طور پر جائز اور بہتر سمجھنے لگے، یہ کہنا کہ حالات سے مجبور ہو کر ملوکیت کے اثر سے انہوں نے فتویٰ بدلا، یہ بات امام ابو یوسف پر شرمناک حملہ ہے۔ امام ابویوسف مزارعت کو جائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ''ہم نے اس سلسلے میں جو سب سے مستقیم بات سنی ہے وہ یہ کہ مزارعت جائز ہے اور ہم نے اس سلسلے میں ان احادیث کا اتباع کیا ہے جو خیبر میں مساقاۃ کے متعلق آئی ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہیں اور زیادہ عام ہیں بہ نسبت ان کے جو اس کے خلاف ہیں ۔''
امام احمدؐ بن حنبلؒ کا طرزِ عمل:
یاد رہے کہ امام احمد حنبلؒ چاروں اماموں میں سب سے زیادہ زاہد اور فقیر تھے، کسی امیر کا کھانا تک نہ کھاتے تھے اور خلیفہ کا کھانا بھی نہ کھایا۔ سب سے زیادہ ظلم قید اور کوڑے خلیفۂ وقت کے حکم سے انہوں نے کھائے ''ملوکیت'' نے ان پر جتنا ظلم کیا۔ کسی پر نہ کیا ہو گا۔ لیکن یہی مظلوم امام مزارعت اور نقد ٹھیکہ کے جواز کا فتویٰ دیتے اور حق میں دلائل فراہم کرتے تھے۔ ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کو سرمایہ کاروں کا ایجنٹ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ نہ انہوں نے کبھی سرکاری عہدہ قبول کیا اور نہ سرکاری روپیہ بلکہ ساری عمر فقیری کی حالت میں خلیفہ کے ظلم سہے، کیا مسعود صاحب ان سے زیادہ قرآن کو جاننے والے اور غریبوں کے ہمدرد ہو سکتے ہیں، جو شخص کہ انگریزوں کی نوکری کرتا رہا ہو اور انگریزی حکومت کو اپنی نوکری سے استحکام بخشتا رہا ہو وہ امام احمدبن حنبل وغیرہم کے منہ آتا ہے۔ ائمۂ سلف پر اعتراض کرتا ہے اور ان کے سامنے آکر اپنی قرآن فہمی اور حدیث فہمی کا دعویٰ کرتا ہے۔ ؎
تفوبر تو اے چرخ گرداں تفو!
موجودہ دور اور زمینداری:
آج کل دراصل خود کاشت کا وہ مسئلہ اور وہ صورت ہی نہیں رہی جو کچھ عرصہ پہلے تھی۔ اب تو بڑے بڑے زمیندار سینکڑوں ایکڑ کے مالک خود ہی ملازم رکھ کر بذریعہ ٹریکٹر کاشت کر رہے ہیں۔ ٹریکٹر سے ایک عورت بھی خود کاشت کر سکتی ہے، بلکہ کر رہی ہے ''اخبار خواتین'' میں اس کی تفاصیل آچکی ہیں۔
پھر زمینداری چاہے مزارعت کے طریق پر ہو چاہے نقد ٹھیکہ پر دونوں میں اقتصادی لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
آج کل تو بڑے بڑے جاگیرداروں کے لئے خود کاشت زیادہ نفع بخش ہے، یہ لوگ فارم منیجر کو رکھ کر ٹریکٹروں کے ذریعے سے کاشت کرا رہے ہیں۔ مزارعت اور نقد ٹھیکے پر تو اکثر وہ لوگ زمین دیتے ہیں جن کی زمین اتنی تھوڑی ہے کہ اگر وہ خود کاشت کریں تو گزارہ کے لئے کافی نہیں ہوتی، مثلاً گاؤں میں پرائمری کا ماسٹر ہے۔ اس کی چند ایکڑ زمین ہے جو اس کے گزارہ کے لئے کافی نہیں، وہ اپنی قلیل زمین کو ٹھیکہ پر دے دیتا ہے اور باقی تھوڑی سی تنخواہ جو اسکول سے ملتی ہے اس کو ٹھیکہ کی رقم میں ملا کر اپنی گزر بسر کر لیتا ہے۔ اگر ایسے لوگوں سے زمین چھین لی جائے تو یہ ظلم نہیں تو کیا ہو گا؟
پھر دیکھئے ایک کاشت کار مر جاتا ہے اور بیوی بچے چھوڑ جاتا ہے اس کی بیوی اور بچے زمین کو ٹھیکہ یا مزارعت پر دے کر تنگی ترشی سے گزر اوقات کر لیتے ہیں۔ جب تک بچے بڑے نہیں ہوتے اس وقت تک اسی ٹھیکہ کی رقم سے ان کا گزارہ چلتا ہے۔ اب اگر ان کی زمین حکومت چھین کر دوسروں کو دیدے اور بیوہ اور یتیم کو خیرات پر گزارہ کے لئے مجبور کر دے تو یہ کون سی انسانیت اور انصاف ہو گا؟
ہم جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے طرفدار نہیں ہیں۔ بڑی بڑی جاگیریں انگریزوں کی وفا داری سے حاصل ہوئی تھیں۔ ان کی مناسب طریق سے تقسیم عمل میں آنی چاہئے۔ اسی طرح بڑے بڑے زمیندار قریب قریب سب ہی حرام کمائی یا قانون وراثت پر صحیح طور پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بنے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اسلامی اقدار کو روندتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قرآن و سنت کی روشی میں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ایسے لوگ اسلام کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔
کاشتکاروں کی بھلائی کا اسلامی قانون:
احادیث صحیحہ کی رُو سے جو شخص کسی غیر آباد بنجر زمین جو کسی کی ملکیت نہ ہو، اس کو کاشت کر کے یا مکان بنا کر آباد کر لے تو وہ زمین اس کی ملکیت بن جاتی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کے لئے حکومت کی اجازت کی ضرورت ہے، لیکن دیگر جمہور ائمہ کے نزدیک حکومت کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں۔ آباد کرنے پر آباد کرنے والا مالک بن جائے گا اور اگر حکومت کسی کو ایسی زمین دے گی تو تین سال کے اندر اندر اس کو آباد کرنا لازم ہو گا ورنہ وہ کسی اور کو دے دی جائے گی جو اس کو آباد کرے لیکن ایک دفعہ آباد کر لینے کے بعد حکومت کو اس سے چھیننے کا کوئی حق نہیں۔ ایسا مالک اس زمین کو فروخت بھی کر سکتا ہے اور پٹہ پر بھی دے سکتا ہے اور اس زمین میں وراثت بھی جاری ہو گی۔ احیاء الارض کے مسئلہ پر یحییٰ بن آدم نے تفصل سے گفتگو کی ہے۔ یہ وہ یحییٰ بن آدم ہیں جن کو سوشلسٹ رحمت اللہ طارق صاحب اپنی کتاب میں محدث اعظم کا خطاب دیتے ہیں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ ایسی بنجر اور عادی زمین کو آباد کرنے کے بعد جو ملکیت حاصل ہوتی ہے، وہ ابدی ہوتی ہے۔ ان کے خاص الفاظ یہ ہیں۔
«فھذہ لصاحبھا أبدالا تخرج من ملکه وإن عطّلھا بعد ذلک، لأن رسول اللہ ﷺ قال: (من أحیا أرضاً فھي له) فھذا إذن من رسول اللہ ﷺ فیھا للناس فإن مات فھي لورثته وله إن یبیعھا إن شاء»
''پس یہ زمین ہمیشہ کے لئے اس کی ملکیت ہو جائے گی اور اگر وہ بعد میں زمین کو بیکار خالی بھی ڈال رکھے تو اس کی ملکیت سے خار نہ ہو گی، کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے (عادی) زمین کو آباد کیا وہ اس کی ہو جائے گی، پس یہ اجازت ہے تمام لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے۔ اگر مالک مر جائے تو یہ زمین اس کے وارثین کی ہو گی اور مالک اس زمین کو فروخت کرنے کا بھی مجاز ہو گا۔''
اب اگر ہماری حکومت شریعت کے اس قانون کی رُو سے آبادی سے دور بنجر زمینوں کو جو کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں ان کو کاشف میں لانے اور ان پر مکان بنانے کی عام اجازت دے دے یا خود مستحق لوگوں کو بلا حیل و حجت الاٹ کر دے تو ایک طرف غریب کاشت کاروں کو زمین مہیا ہو جائے گی۔ وہ اس پر کچے مکان بھی بنا سکیں گے۔ اور کاشت بھی کر سکیں گے، پھر آبادی کا مسئلہ بھی بآسانی حل ہو سکتا ہے، دیگر یہ کہ زمین وافر اور زیر کاشت ہونے سے پیداوار بھی بڑھے گی۔ اس کے علاوہ زمیندار برائے نام ٹھیکہ کے عوض اپنی زمینوں کو کاشت پر دینے پر مجبور ہو جائیں گے اور غریب کاشت کاروں کے حصے میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جب بنجر زمینوں کی کاشت کی عام اجازت ہو گی تو کاشت کار یا تو بنجر زمینوں کو آباد کریں گے، ورنہ ان کو معمولی اور آسان شرائط پر زمیندار زمین دینے پر مجبور ہوں گے۔
اس اسکیم پر عمل کرنے نہ آبادی میں اضافے کا خوف رہے گا اور نہ زمیندار کے ظلم کا۔ لیکن کوئی اسلامی نظام اپنائے تو جب ہی یہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ وَمَا عَلَیْنَا إلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ۔
نوٹ
اس حدیث کی تشریح اور مکمل بحث کے لئے مسلم شرح نووی دیکھی جا سکتی ہے، ابن خزیمہ نے بھی جواز میں کتاب لکھی ہے اور ابن حزم نے محلی میں کتاب المزارعۃ میں بڑے شد و مد سے جواز ثابت کیا ہے، فتح الباری بھی دیکھنی چاہئے۔
صفحہ ۹۰ کتاب الخراج مؤلفہ امام ابو یوسف مطبوعہ بولاق ۳۰۲ھ، یاد رہے کہ امام شوکانی نے ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے کہ زمین کو اجارہ پر دینا اجماع سے ثابت ہے۔ اور مفت زمین دینا ہرگز واجب نہیں (صفحہ ۲۹۵ جلد نمبر ۵ نیل الاوطار) مزید ابن مندر سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کا نقد ٹھیکے کے جواز پر اجماع تھا۔ (صفحہ ۲۹۰ نیل الاوطار)
یعنی امام ابو حنیفہ کاشت کاروں کو فصل دینے کے لئے نہیں کہہ رہے جیسا کہ مسعود صاحب کا نظریہ ہے، بلکہ، مسعود صاحب کے برعکس فتویٰ دے رہے ہیں۔
''ملوکیت'' کے لحاظ سے امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے زمانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں ہم عصر اور استاد شاگرد تھے۔
صفحہ ۸۹، کتاب الخراج، یعنی یہاں پر مسعود صاحب امام ابو یوسف کو جھوٹا قرار دے کر ان کو کہہ رہے ہیں کہ انہیں تم نے حالات سے مجبور ہو کر فتویٰ دیا ہے، حالانکہ ابو یوسف فرماتے ہیں کہ ہم نے زیادہ صحیح اور زیادہ کثرت سے روایت کردہ احادیث کی روشنی میں فیصلہ کیا ہے۔ کیا مسعود صاحب ابو یوسف کے دِل کا حال ان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
صفحہ ۹۰ کتاب الخراج یحییٰ بن آدم القرشی المتوفی ۲۰۲ھ گویا مصنف دوسری صدی ہجری کے محدث ہیں۔