اسلامی ریاست کے بنیادی اُصول
صدرِ پاکستان جناب آغا محمد یحییٰ خان نے ۲۸ جون ۱۹۷۱ء کی اپنی نشری تقریر میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے سیاسی مستقبل کا جو لائحہ عمل پیش کیا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ:۔
''ملک کا آئین بنانے کا کام ماہرین کی ایک کمیٹی کر رہی ہے۔ یہ کمیٹی مسودہ تیار کر کے صدرِ مملکت کو پیش کرے گی اور وہ مختلف راہنماؤں اور ارکانِ اسمبلی سے مشورہ کے بعد اسے آخری شکل دیں گے۔''
اس سلسلے میں صدرِ یحییٰ خان نے قیامِ پاکستان کے مقاصد پورے کرنے اور ملک کے مختلف طبقوں کے لئے معاشرتی اور اقتصادی انصاف کی ضمانت مہیا کرنے کے لئے اسلامی آئین کے جن نیک جذبات کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ صد تحسین ہیں، جس پر ہم انہیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی سالمیت کو محفوظ کرنے کے اقدام کے بعد آئینی طور پر اس کی نظریاتی سالمیت کے تحفظ اور استحکام کے لئے یہ فیصلہ ایک ایسا ہی عظیم کام ہو گا جس سے وہ لا دین قوتیں مایوس ہو جائیں گی جو قوم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظیم قربانیوں سے غافل کر کے اپنے ان مذموم مقاصد کو پورے کرنے پر تلی ہوئی ہیں جو انہیں اپنے مغربی یا مشرقی آقاؤں سے ورثہ میں ملے ہیں۔
آئین کمیٹی سے حسنِ ظن کی بنا پر ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ صدرِ پاکستان کی ہدایات کے مطابق اسلامی دستور تیار کرنے کے لئے مسلمانانِ پاکستان کی سابقہ جدوجہد کو سامنے رکھے گی، خصوصاً پاکستان کے ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ۳۱ علماء نے جو ''اسلامی مملکت کے بنیادی اصول'' ۲۲ نکات کی شکل میں پیش کئے تھے، انہیں ہمارے نزدیک دو اہم وجوہ کی بناء پر دستور کی اساس بنانا لازمی ہے۔ اوّل یہ کہ یہ علماء جملہ اسلامی فرقوں کے نمائندہ علماء اور ملک کے عوام کی دینی اور روحانی وابستگی کا مرکز ہیں جنہیں پاکستانی عوام کے جذبات کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔ ثانیا! ان علماء نے ۲۲ نکات پر مشتمل یہ آئینی سفارشات متفقہ طور پر طے کی تھیں جبکہ لا دین عناصر مسلمانوں کے مذہبی اختلافات کی وجہ سے کسی متفقہ آئین کو ناممکن قرار دیتے تھے۔ مزید برآں ان نکات سے اس غلط پروپیگنڈے کا طلسم بھی توڑ ڈالا کہ دورِ جدید کے مقتضیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی اسلامی آئین کا وجود ممکن نہیں۔ ۳۱ علماء کے اسماءِ گرامی اور بائیس نکات درج ذیل ہیں جنہیں مسلمان کسی ذہنی مرعوبیت کے بغیر اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی خاکے کے طور پر کسی جدید سے جدید ترقی یافتہ آئینی خاکے کے مقابلے میں پیش کر کے اسلام کی سیاسی برتری ثابت کر سکتےہیں۔
اسماء علماء کرام
٭ علامہ سید سلیمان ندوی (صدر مجلس)
٭ (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین لاہور)
٭ (مولانا) سید ابو الاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)
٭ (مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث، دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد ٹنڈو اللہ یار سندھ)
٭ (مولانا) احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ)
٭ (مولانا)عبد الحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ علمائے پاکستان سندھ)
٭ (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیماتِ اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)
٭ (مولانا)محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ بہاول پور)
٭ (مولانا)خیر محمد (مہتمم مدرسہ خیر المدارس، ملتان شہر)
٭ (مولانا مفتی)محمد حسن (مہتمم مدرسہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور)
٭ (پیر صاحب) محمد امین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)
٭ (مولانا) محمد یوسف نبوری (شیخ التفسیر دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ)
٭ (حاجی) خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی، المجاہد آباد پشاور صوبہ سرحد)
٭ (قاضی) عبد الصمد سربازی (قاضی قلات، بلوچستان)
٭ (مولانا) اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ علمائے اسلام مشرقی پاکستان)
٭ (مولانا)ابو جعفر محمد صالح (امیر جمعیت حزب اللہ مشرقی پاکستان)
٭ (مولانا)راغب احسن (نائب صدر جمعیۃ علمائے اسلام مشرقی پاکستان)
٭ (مولانا)محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین، سر سینہ شریف مشرقی پاکستان)
٭ (مولانا)محمد علی جالندھری (مجلس احرار اسلام پاکستان)
٭ (مولانا)داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہل حدیث مغربی پاکستان)
٭ (مفتی حافظ) کفایت حسین مجتہد (ادارہ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان لاہور)
٭ (مولانا) محمد اسماعیل (ناظمِ جمعیۃ اہل حدیث پاکستان، گوجرانوالہ)
٭ (مولانا) حبیب اللہ (جامعہ دینیہ دار الہدیٰ ٹیڑی، خیر پور)
٭ (مولانا) محمد صادق (مہتمم مدرسہ مظہر العلوم، کھڈہ، کراچی)
٭ پروفیسر عبد الخالق (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
٭ (مولانا) شمس الحق فرید پوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
٭ (مفتی) محمد صاحبداد عفی عنہ (سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی)
٭ (مولانا)محمد ظفر احمد انصاری (سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)
٭ (پیر صاحب) محمد ہاشم محوی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)
٭ (مولانا شمس الحق افغانی (سابق وزیر معارف، ریاست قلات)
دستور اسلامی کے لئے علماءِ کرام کے متفقہ بائیس نکات:
1) اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
2) ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہو گا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو اس کی تشریح ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیئے جائیں گے۔
3) مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول و ضوابط پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔
4) اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائرِ اسلامی کے احیاء و اعلاء اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
5) اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ مسلمانانِ عالم کے رشتہ اتحاد و اخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیت کی بنیادوں پر نسلی و لسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ کا انتظام کرے۔
6) مملکت بلا امتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لا بدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہو گی، جو اکتسابِ رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعیٔ اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
7) باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہونگے جو شریعتِ اسلامیہ نے ان کو عطا کئے ہیں یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال و آبرو، آزادیٔ مذہب و مسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہارِ رائے، آزادیٔ نقل و حرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
8) مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی دقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعہ صفائی و فیصلۂ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
9) مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ انہیں اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہو گا کہ انہی کے قاضی یہ فیصلے کریں۔
10) غیر مسلم باشندگانِ مملکت کو حدود و قانون کے اندر مذہب و عبادت تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہو گی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق چلانے کا حق حاصل ہو گا۔
11) غیر مسلم باشندگانِ مملکت سے حدودِ شرعیہ کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہو گی۔ اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے۔ ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
12) رئیسِ مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہوریا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
13) رئیسِ مملکت ہی نظمِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہو گا۔ البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔
14) رئیسِ مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہو گی۔ یعنی وہ ارکانِ حکومت اور منتخب نمائندگانِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
15) رئیسِ مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ دستور کو کلاً یا جزاً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
16) جو جماعت رئیسِ مملکت کے انتخاب کی مجاز ہو گی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔
17) رئیسِ مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہو گا اور قانونی مواخذہ سے بالا تر نہ ہو گا۔
18) ارکان و عمال حکومت اور عام شہریوں کے لئے ایک ہی قانون و ضابطہ ہو گا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
19) محکمہ عدلیہ محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہو گا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
20) ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہو گی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
21) ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں بلکہ محض انتظامی علاقوں کی ہو گی جنہیں انتظامی، سہولتوں کے پیشِ نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہو گا مگر انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہو گا۔
22) دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
جمادی الأولیٰ و جمادی الأخریٰ
ان دونوں مہینوں کی فضیلت کے متعلق کوئی آیت یا حدیث نظر سے نہیں گزری جو عبادات عموماً سرانجام دی جاتی ہیں، اس ماہ میں بھی ان عبادات پر متوجہ رہنا چاہئے۔
راقم الحروف کی پیدائش ۱۹ جمادی الاولیٰ ۱۲۲۸ھ بروز یکشنبہ ہوئی تھی، یک شنبہ کو لغت عرب میں یوم الاحد کہتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے قُلْ هُوَ الله أحَدٌ کا قائل پیدا کیا۔ میری پیدائش کا وقت اشراق کا تھا۔ خدائے پاک نے میرے سینۂ بے کینہ کو علم شرع و توحید کے آفتاب کا مشرق بنایا ہے۔ وللہ المنة۔
(منقول از:۔ اتباع الحسنة في جملة أیام السنة، للعلامة السید محمد صدیق الحسن القنوجي رحمه اللہ علیه)