عورت نکاح میں ولی کی محتاج کیوں ہے؟
قسط نمبر 2
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نکاح کرنے کرانے کی نسبت مردوں کی طرف کی ہے اور نکاح کرانے کا حکم بھی مردوں کو دیا ہے۔
1)﴿وَإِن خِفتُم أَلّا تُقسِطوا فِى اليَتـٰمىٰ فَانكِحوا ما طابَ لَكُم مِنَ النِّساءِ...٣﴾... سورة النساء
''اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے میں بے انصافی سے ڈرو تو اور من پسند عورتوں سے نکاح کر لو۔''
2)﴿وَلا جُناحَ عَلَيكُم أَن تَنكِحوهُنَّ إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ...١٠﴾... سورة الممتحنة
''یعنی مسلمان مہاجر عورتوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جب تم ان کو مہر دے دو۔''
3) ﴿فَانكِحوهُنَّ بِإِذنِ أَهلِهِنَّ...٢٥﴾... سورة النساء
''یعنی تم اگر حرہ عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو مالکوں سے اجازت لے کر لونڈیوں سے نکاح کر لو۔''
4) ﴿وَتَرغَبونَ أَن تَنكِحوهُنَّ...١٢٧﴾... سورة النساء
''یعنی تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی رغبت کرتے ہو۔''
5) وَمَن لَم يَستَطِع مِنكُم طَولًا أَن يَنكِحَ المُحصَنـٰتِ المُؤمِنـٰت 25 سوره انساء
''یعنی جو تم سے مومنہ حرہ عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھے۔''
6) ﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ...٣﴾... سورة النور
''یعنی زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے اور زانیہ عورت سے بھی زانی یا مشرک مرد ہی نکاح کرتا ہے۔''
7)﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ...٢٢١﴾... سورة البقرة
''مشرکہ عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ ایماندار بن جائیں۔''
8) ﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم...٢٢﴾... سورة النساء
''تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ دادا نے نکاح کیا ہے۔''
9) ﴿وَلا أَن تَنكِحوا أَزوٰجَهُ مِن بَعدِهِ أَبَدًا...﴿٥٣﴾... سورة الاحزاب
''یعنی تم اے مسلمانو! آپ ﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح مت کرو۔''
ان آیات میں نکاح کرنے کی نسبت مرد کی طرف کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرد کو نکا ح کرنے میں ولی کی ضرورت نہیں یعنی ولی شرط نہیں۔
1)﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم...﴿٣٢﴾... سورة النور
''یعنی ا ے ولیو! اپنی بیوہ عورتوں اور نیک لونڈی اور غلاموں کا نکاح کرو۔''
2)﴿قالَ إِنّى أُريدُ أَن أُنكِحَكَ إِحدَى ابنَتَىَّ هـٰتَينِ...٢٧﴾... سورة القصص
''شعیبؑ نے موسیٰؑ سے فرمایاکہ میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تیرے ساتھ کر دوں۔''
3) ﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا...٢٢١﴾... سورة البقرة
''یعنی کافر آدمی جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ان کو مسلمان عورتوں کا نکاح مت دو۔''
اِن آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح کرنے کا اختیار مرد ہی کو ہے، عورت کو نہیں۔ کیونکہ ان آیات میں نکاح کر دینے اور نہ کر دینے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو دیا ہے۔ اس سے ہر عاقل اس نکتے کو سمجھ سکتا ہے جس کی ہم وضاحت کر رہے ہیں۔ چنانچہ تفاسیر میں ان آیات اور دیگر آیات سے استدلال کیا گیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ چنانچہ امام شوکانیؒ نے اپنی تفسیر فتح التقدیر میں آیت﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ﴾ کے تحت لکھا ہے:
«والخطاب في الآیة للأولیاء وقیل للأزواج والأول أرجح وفیه دلیل علی أن المرءة لا تنکح نفسھا وقد خالف فیه أبو حنیفة»
یعنی اس آیات میں خطاب ولیوں کو ہے اور کہا گیا ہے کہ خاوندوں کو ہے۔ لیکن پہلا صحیح ہے اور اس آیت میں دلیل ہے کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی لیکن امام ابو حنیفہؒ کا اِس میں اختلاف ہے۔
جامع البیان ص ۳۰۳ میں ہے:۔
«وَأَنْکِحُوْا أیھا الأولیاء والسادة» یعنی اللہ تعالیٰ عورتوں کے ولیوں اور لونڈی غلاموں کے مالکوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان کے نکاح کر دو۔''
اور تفسیر جمل میں ہے:۔
«وَأَنْکِحُوا الْأیَامٰی مِنْکُمْ۔ الخطاب للأولیاء والسادة وفیه دلیل علی وجوب تزویج المولیة والمملوك وذلك عند طلبھا وطلبه وإشعار بأن المرءة والعبد لا یستبد ان به إذ لو استبدا لما وجب علی الولي والسید»2
یعنی وأنکحوا الأیامی منکم میں عورت کے ولیوں اور لونڈی غلاموں کے مالکوں کو خطاب (حکم) ہے کہ ان کے نکاح کر دو اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اور غلام کا نکاح کرنا فرض ہے جب کہ وہ مطالبہ کریں اور اس میں یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ عورت اور غلام اپنا نکاح خود نہیں کر سکتے۔ اگر وہ خود کر سکتے تو ولیوں اور مالکوں پر فرض نہ ہوتا۔
قاضی ابن العربیؒ کی احکام القرآن میں ہے:۔
«المسئلة الثانیة في المراد بالخطاب بقوله أنْکِحُوْا۔ فقیل ھم الأزواج وقیل ھم الأولیاء من قریب أو سید والصحیح إنھم الأولیاء لأنه قال أَنْکِحُوْا بالھمزة ولو أرادا لأزواج لقال ذلك بغیر ھمزة وکانت الألف للوصل وإن کان بالھمز ةفي الأزواج وجه فالظاھر أولٰی فلا یعدل إلٰی غیرہ إلا بدلیل»
یعنی دوسرا مسئلہ کہ أَنْکِحُوْا کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ خاوند ہیں اور بعض نے کہا کہ ولی اقرب اور مالک ہیں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اولیاء مراد ہیں کیونکہ أَنْکِحُوْا میں ہمزہ قطعی ہے (اس لئے کہ باب افعال کا صیغۂ امر ہے) اگر خاوند مراد ہوتے تو ہمزہ وصلی ہونا چاہئے تھا جو باب ضَرَبَ یَضْرِبُ کا امر ہوتا۔ پس ظاہر اور راجح یہی ہے کہ اولیاء مراد ہیں۔ خاوند مراد لینا جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔
ایک دوسرے مقام پر ایک اور آیت کے ماتحت قاضی ابن العربیؒ لکھتے ہیں:۔
«قال علماء نا في ھذہ الاٰیة دلیل علی أن النکاح إلی الولي لا حظ للمرءة فیه لأن صالح مدین تولاہ وبه قال فقھاء الأ مصار وقال أبو حنیفة لا یفتقر النکاح إلی ولي وعجبا له متی رأی امرأة قط عقدت نکاح نفسھا ومن المشھور في الآثار لا نکاح إلا بولي وقال النبي صلی اللہ علیه وسلم أیما امرأة نکحت نفسھا بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل»
یعنی ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت﴿إِنّى أُريدُ أَن أُنكِحَكَ إِحدَى ابنَتَىَّ هـٰتَينِ﴾ میں دلیل ہے اس پر کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے۔ عورت کا بغیر اجازت ولی کے کوئی اختیار نہیں کیونکہ مدین کے نیک انسان غالباً شعیبؑ نے خود ہی اپنی بیٹی کا موسیٰؑ کو نکاح دے دیا تھا۔ اور یہی شہروں اور ملکوں کے فقہاء کا فتویٰ ہے اور امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ نکاح ولی کا محتاج نہیں اور ان پر بڑا تعجب ہے (کہ انہوں نے یہ غلط فتویٰ کس طرح دیا) انہوں نے کب دیکھا کہ کسی عورت نے اپنا نکاح خود کیا ہے۔ حالانکہ احادیث مشہور ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکا جائز نہیں اور یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کر لے وہ نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔
اور آیت ﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا﴾ کے متعلق ابن العربیؒ یوں لکھتے ہیں۔
«المسئلة الثانیة قال محمد بن علی بن حسین النکاح بولي في کتاب اللہ ثم قرء وَلَا تُنْکِحُوا المُشْرِکِیْنَ بضم التاء وھي مسئلة بدیعة ودلالة صحیحة»
یعنی محمد بن علی بن حسینؓ نے فرمایا کہ نکاح بغیر اجازت ولی کے نہیں ہوتا۔ یہ کتاب اللہ میں موجود ہے پھر یہ آیت ﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ﴾ پڑھی۔ ابن عربی فرماتے ہیں کہ واقعی یہ عجیب مسئلہ ہے اور دلالت صحیح ہے۔
اسی طرح ﴿فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ﴾ کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
«العضل یتصرف علی وجوہ مرجعھا إلی المنع وھو المرادھا ھنا فنھی اللہ تعالی أولیاء المرءة من منعھا عن نکاح من ترضاہ وھذا دلیل قاطع علی أن المرءة لا حق لھا في مباشرة النکاح وإنما ھو حق الولي خلافا لأ بي حنیفة ولو لا ذلك لما نھاہ اللہ تعالیٰ عن منعھا وقد صح أن معقل بن یسار کانت له فطلقھا زوجھا فلما انقضت العدة خطبھا فأبي معقل فأنزل اللہ تعالیٰ ھذہ الآیة ولو لم یکن له حق لقال اللہ تعالیٰ لنبیه علیه السلام لا کلام لمعقل في ذلك وفي الآیة مسئلة کثیرة یقطعھا ھذا الحدیث الصحیح خرجه البخاري»
یعنی عضل کئی معنوں میں مستعمل ہے۔ سب کا حاصل ممانعت ہے اور یہاں ممانعت ہی مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو حکم دیا ہے کہ عورت کو اس کے من پسند خاوند کرنے سے مت روکو۔ اور یہ آیت قطعی دلیل ہے کہ عورت کا نکاح کرنے میں ولی کی اجازت کے بغیر کوئی حق نہیں اور نکاح کی ولایت کا حق صرف مرد کو ہی ہے۔ خلافاً لأبي حنیفة۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اولیاء کو یوں حکم نہ فرماتے کہ اے اولیاء تم عورتوں کو نکاح کرنے سے مت روکو (بلکہ یوں فرماتے کہ تمہارا اس بارے میں کچھ دخل نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض موقعہ پر اپنے حبیب ﷺ کو فرمایا۔ ﴿لَيسَ لَكَ مِنَ الأَمرِ شَىءٌ﴾ الآیہ یعنی اے نبی آپ کا اس امر میں کچھ دخل و اختیار نہیں) پس ثابت ہوا کہ نکاح ولی کا حق و اختیار ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ معقل بن یسارؓ کی ایک بہن تھی، اس کو اسکے خاوند نے طلاق دے دی۔ جب عدت ختم ہوئی تو اس نے دوبارہ نکاح کرنے کی درخواست پیش کر دی۔ معقل نے انکار کیا کیونکہ یہ اپنی ہمشیرہ کا ولی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اگر معقل کا حق اور اختیار نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرما دیتے کہ معقل کا اس معاملہ میں کچھ دخل اور حق نہیں۔ اور اس آیت پر بہت سے سوالات وارد ہوتے ہیں جن سب کو معقل کی اس حدیث صحیح نے جس کو دیگر ائمہ کے علاوہ امام بخاریؒ نے بھی روایت کیا، ختم کر دیا ہے۔
«فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ۔ خطاب للأولیاء أی لا تمنعوھن من (أن ینکحن أزواجھن) المطلقین لھن لأن سبب نزولھا إن أخت معقل بن یسار طلقھا زوجھا فأراد أن یراجعھا فمنعھا معقل بن یسار کما رواہ الحاکم» (جلالین مع جمل ج۱، ص ۱۸۷)
یعنی فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ میں خطاب اولیاءِ عورت کو ہے یعنی اے ولیو! عورتوں کو ان کے خاوندوں سے جنہوں نے انہیں طلاق دی ہے، نکاح کرنے سے مت منع کرو اور اس بات کی دلیل کہ اِس آیات میں خطاب اولیاء کو یہ ہے کہ یہ آیت معقل بن یسار کی بہن کے حق میں نازل ہوئی ہے جس کو اس کے خاوند نے طلاق دی تھی پھر وہ اس سے نکاح کرنا چاہتا تھا۔ معقل بن یسار نے اپنی بہن کو نکاح سے منع کر دیا تھا۔ اس کو حاکم نے روایت کیا ہے اور فتح الباری کتاب التفسیر میں ہے:۔
قوله باب ﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزوٰجَهُنَّ﴾اتفق أھل التفسیر علی أن المخاطب بذلك الأولیاء۔ ذکرہ ابن جریر وغیرہ
یعنی تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس آیت میں مخاطب اولیاء ہیں۔
مذکورہ بالا آیات سے رئیس المحدثین امام المجتہدین حضرت امام بخاریؒ نے بھی صحیح بخاری میں نکاح میں ولایتِ ولی کے شرط ہونے پر استدلال کیا ہے، جو آگے آئے گا۔
ولی کی شمولیت یا اجازت کے بغیر نکاح نہ ہونے پر اور آیات بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر فی الحال اتنے پر کفایت کی جاتی ہے۔
پس مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ سے روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہو گیا کہ عورت کا نکاح بغیر شمولیت یا اجازتِ ولی کے جائز نہیں کیونکہ نکاح کرنے کرانے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرف کی ہے اور کل امور میں مرد ہی حاکم ہوتا ہے۔ نکاح میں بھی وہی حاکم ہو گا۔ اس کے خلاف جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان کا جواب آخر میں دیا جائے گا۔ إن شاء اللہ تعالیٰ۔
جب کوئی مسئلہ قرآن پاک سے ثابت ہو جائے تو دیگر دلائل کی ضرورت نہیں رہتی۔ مگر چونکہ انبیاء علیہم السلام کتاب اللہ کے سب سے بڑے عالم اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مرضی کو سب سے زیادہ صحیح سمجھنے والے ہوتے ہیں، لہٰذا حضور اکرم ﷺ کے ارشاداتِ عالیہ کا بیان کرنا ضروری ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت ﷺ نے جو مبلغ اور مفسرِ قرآن ہیں۔ جن کے حق میں ﴿يـٰأَيُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ﴾ نازل ہوئی ہے۔ اس مسئلہ میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ کتب حدیث میں یہ مسئلہ بالصراحت موجود ہے جو آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حوالہ جات
1. تفسیر فتح القدیر الجامع بین الروایة والدرایة من علم التفسیر ص ۲۸، ج ۴
2. جمل ص ۲۲۱، ج۴
3. احکام القرآن ص ۱۳۶۴، ج۳
4. ایضاً ص ۱۴۶۴، ج۳
5. احکام القرآن ج۱، ص ۱۵۸
6. ایضا۔ ج۱، ص ۲۰۱