الْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہ الّذِیْنَ اصْطَفٰی،صدر محترم و سامعین عظام!آپ نے سرورِ کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر متعدد تقاریر و مقالات سنے۔ آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ وہ بحر ناپیداکنار ہے، جس کی شناوری حیطۂ بشری سے خارج ہے، استطاعت انسانی کی حد تک مدح و توصیف کے بعد بھی یہی کہنا پڑے گا کہ:؎ لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصرحضرتِ گرامی! مجھے جو فریضہ تفویض ہوا ہے، اس کی نوعیت جداگانہ ہے۔ مجھے جس بات کے لئے مامور کیا گیا ہے، وہ اس امر کا مزید مطالعہ
تعلیم کی اہمیت:دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت مسلّم ہے۔ تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراسر علم بن کر آیا اور تعلیمی دُنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا اسلامی نقطۂ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی اور جہالت سے نہیں بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔ تخلیقِ آدم کے بعد خالق نے انسانِ اول کو سب سے پہلے جس چیز سے سرفراز فرمایا وہ علمِ اشیاء تھا۔ یہ اشیاء کا علم ہی ہے جس نے انسانِ اول کو باقی مخلوقات سے ممیز فرمایا اور قرآنِ حکیم کے فرمان کے مطابق تمام مزید مطالعہ
اسم مبارک عبدالقادر، کنیت ابومحمد او رلقب محئ الدین تھا۔متاخرین نے فرط عقیدت سے متعدد القاب کا اضافہ کردیا۔ ولادت باسعادت 470ھ مطابق 78۔1077ء او روفات 10 ربیع الاوّل 561ھ مطابق 11۔ اپریل 1166ء کو ہوئی۔ سیادت نسبی دونوں طرف سے حاصل تھی۔ والد ماجد کی طرف سے آپ حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی تھے، سایہ پدری بچپن ہی میں سراُٹھ گیا تھا۔ ابتدائی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔ 488 تا 521ھ کے درمیانی عرصہ کے بارے میں صرف اس قدر معلوم ہے کہ آپ حج کے لیے تشریف لے گئے، اسی مدت میں آپ نے شادی کی اور مزید مطالعہ
ظہورِ اسلام سے پہلے زندگی کا تصّور محدود تھا۔اسلام کی آمد سے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔ خیالات و افکار میں انقلاب آیا۔قرآن کے آفاقی تصّور نے زندگی کے افق کووسیع کردیا۔ اس انقلاب سے ہر شعبہ حیات متاثر ہوا۔ قرآن کے زیر اثر علم و فن کے بہت سےنئے زاویے بنے۔شعر و ادب اور زبان پر بھی قرآن کے خوشگوار اثرات پڑے۔ قرآن مجید نے ادب میں حریت فکر، وسعت نظر، پاکیزگی تخیل او ربلندئ معنی کے اوصاف پید کیے۔ ادب عربی قرآن مجید سے قبل لفظی حسن و شوکت کا مرقع تھا اور اس کا مقصد محض جذبات سافلہ کی ترجمانی تھی۔ قرآن مج مزید مطالعہ
27۔ اکتوبر سال رواں علامہ عبدالعزیز میمن بھی عازم فردوس ہوگئے۔ اخبارات نے سخت بے اعتنائی برتی۔ آپ کے سانحہ ارتحال کی خبر چند سطروں میں او رایسے غیر معروف گوشہ میں دی جس کو اخبار بین عام طور پر نظر انداز کرجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں نے تو او ربھی سہل انگاری کا ثبوت دیا۔ جامعہ پنجاب او رکراچی کے شعبہ ہائے عربی کے آپ کئی سال سربراہ رہے مگر کسی نے تعزیت میں ایک فقرہ بھی نہ کہا۔ غنیمت ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے علامہ پر نوائے وقت میں ایک مضمون لکھ کر او رعصر حاضر کے مشہور شاعر جناب عبدالعزیز خالد نے مزید مطالعہ