مولانا غلام اللہ امرتسری لاہوری ؒ

میری مادرِ علمی جامعہ اہل حدیث، لاہور (مسجد ِقدس چوک دالگراں) گذشتہ صدی کی پچاسویں اور ساٹھویں دہائی میں علما، خطبا اور دانشوروں کا مرکز و ماویٰ رہی ہے۔میرا تحصیل علم کا دور تو 1959ء تک ہے لیکن اسی برس والد ِگرامی حافظ محمد حسین روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے برادرِ بزرگ حافظ عبد القادرروپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں جامعہ اہل حدیث کی نظامت کی ذمہ داری بھی ہمارے سپرد کردی۔انہی برسوں میں جہاں مجھے تدریس کا ابتدائی موقعہ میسر آیا، وہاں ہفت روزہ 'تنظیم اہل حدیث' لاہور کی ادارت کی ذمہ داری بھی ملی۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی (والد ِگرامی کے برادرِ بزرگ اور میرے اُستاد) مشفقانہ نگرانی کے ساتھ ساتھ میری خصوصی تربیت کا اہتمام فرماتے تھے۔ان سالوں میں برادرِ بزرگ حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور استادِ محترم محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغ و حج وغیرہ کے سبب بسا اوقات کئی کئی ماہ کی غیر حاضری کی و جہ سے مجھے تن تنہا تعلیمی،صحافتی اور انتظامی ذمہ داریاں انجام دینے کا موقع بھی ملا۔ اس طرح اس دوران بڑے بڑے اہل علم اور مقرر حضرات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔ انہی دنوں مولانا غلام اللہ امرتسری مرحوم اس مرکز ِعلمی میں اکثرتشریف لایا کرتے اور خصوصی شفقت فرماتے۔ بعد ازاں زندگی بھر میرا بھی ان سے قلبی تعلق قائم رہا، اگرچہ1965ء میں میرے سعودی عرب (ـمدینہ یونیورسٹی) چلے جانے اور ان کے لاہور سے تشریف لے جانے کے بعد مسلسل ملاقات تو باقی نہ رہ سکی لیکن وہ جب بھی لاہور آتے توملاقات کا موقع ضرور مل جاتا۔ میں نے ان میں جو خاص مزاج پایا، وہ جماعتی اُلجھاؤ اور کشمکش سے کنارہ کشی کا تھا جو فتنوں میں انسانی شخصیت کو داغدار ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔گویا آپ جامع ترمذی میں مروی اس ارشاد ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق تھے: (المؤمن غِرٌّ کریم والفاجر خِبٌّ لئیم ) (حافظ عبد الرحمن مدنی)

سن ِ شعور سنبھالتے ہی جن علما، صلحا اور اہل اللہ کے نہ صرف نام سننے میں آئے بلکہ اِن کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا، اِن میں مولانا غلام اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں، اِس لئے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے چک 36 گ ب ضلع فیصل آباد کو اپنا مسکن بنایا اور یہی گاؤں بندۂ عاجز کا بھی مولد ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد اِس وقت کے ضلع لائل پور (حال فیصل آباد) کے اِس دُور افتادہ گاؤں کی جو قسمت جاگی توبہت سے علماے کرام اور صلحاے عظام نے جن کا تعلق فیروزپور اور امرتسر کے مختلف مقامات سے تھا، اِس دُور اُفتادہ اور گمنام سے گاؤں کو قدومِ میمنت لزوم سے نوازا اور اِسے دارِ ہجرت ہونے کا شرف بخشا، اِن علما و اولیا کرام میں سے مولانا عبدالحکیم بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبدالغنی بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولاناحافظ ابوالحسن عبداللہ محدث بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا قدرت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ ، صوفی محمد رحمۃ اللہ علیہ ، صوفی عبدالجلیل رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمد رحمۃ اللہ علیہ (راقم الحروف کے دادا محترم)، حاجی احمد دین رحمۃ اللہ علیہ (دادا جان کے برادر ِاصغر) اور مولانا غلام اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے اسماے گرامی بطورِ خاص قابل ِذکر ہیں اور آہ! اَب یہ تمام حضرات راہگرائے ملک ِ جاوداں ہوچکے ہیں۔ رحمهم اللہ تعالیٰ أجمعین!


وہ صورتیں، الٰہی! کس ملک بستی ہیں                  اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں


اِن علماے کرام میں سے مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے طویل عمر کے بعد 1961ء میں انتقال فرمایا اور جنہیں المُحلّٰی لابن حزم رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی شغف بلکہ عشق تھا کہ وہ ہر وقت اِس کتاب کے مطالعہ میں مستغرق رہتے تھے، بندۂ عاجز نے اِن سے قرآن مجید کی آخری دو سورتوں کا ترجمہ پڑھا۔ حضرت مولانا ابوالحسن عبداللہ محدث بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہ میرے جلیل القدر استاد ِگرامی ہیں، میں نے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں 1962ء سے 1968ء تک سات سال اِن کی نگرانی میں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کئے۔ صحیح بخاری سمیت کئی ایک کتابیں پڑھیں اور اِن سے خصوصی کسب ِفیض کیا،جبکہ مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اِسی گاؤں میں 1969ء میں الجامع الصحیح للإمام البخاري کی بلاشرکت غیرے اوّل سے آخر تک قرأت کا شرف حاصل کیا۔ رحمهم اللہ تعالیٰ !

چک 36 گ ب کے مرحوم اور موجود علما کا تذکرہ ایک مستقل کتاب کا موضوع ہے، دیکھئے اس موضوع پر قلم اُٹھانے کی اللہ تعالیٰ کسے سعادت عطا فرماتے ہیں؟ اِس وقت تو برسبیل تذکرہ یہ باتیں نوکِ قلم پر آگئیں۔ میں ذکر یہ کررہا تھا کہ حضرت مولانا غلام اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا شرف مجھے بہت بچپن ہی میں حاصل ہوا، اِس لئے کہ میری ولادت کے وقت مولانا کی رہائش بھی چک 36 گ ب میں تھی اور پھر اِس پر مستزاد یہ کہ وہ والد مرحوم کے بے حد گہرے دوست بھی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میری عمر تین چار سال کی ہوگی کہ والد مرحوم مولانا کے پاس گئے اور مجھے بھی اُٹھائے ہوئے ساتھ لے گئے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت کانچ کی چھوٹی چھوٹی سی خوب صورت چوڑیاں تھیں۔ مولانا نے والد صاحب سے لے کر مجھے اپنی گود میںبٹھا لیا اور جب اِن کی نظرمیری چوڑیوں پر پڑی تو ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ لڑکوں کے ہاتھوں میں نہیں پہنانی چاہئیں، اُنہوں نے چوڑیاں اُتار کر میری جیب میں ڈال دیں اور ساتھ ہی دل بہلانے کے لئے میری جیب میں چاندی کے دو روپے بھی ڈال دیے، جن کی اُس دور میں کافی قدر وقیمت تھی۔

والد ِمرحوم کا 1961ء میں انتقال ہوگیا تھا مگر مولانا مرحوم نے گہرے دوستانہ تعلقات کے باعث آخر وقت تک یاد رکھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی، بے حد محبت و شفقت سے ملتے اور والد مرحوم سے اپنے دوستانہ تعلقات کا ذکر فرماتے۔

مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر کچھ اِس طرح تھا کہ بلند و بالا قد، پُرگوشت و موزوں جسم، متناسب اعضا، کھلتا ہوا گندمی رنگ، باوقار نورانی چہرہ، چوڑی اورکشادہ پیشانی، فراخ اور روشن آنکھیں، زبان میںشیرینی اور کلام میں تاثیر جو کثرت سے ذکر ِالٰہی کا نتیجہ تھی۔

مولانا اگرچہ پاکستان میں رہے مگراِن کی زندگی کا ابتدائی دورمتحدہ ہندوستان میں گزر1۔مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی ولادت باسعادت کی قطعی تاریخ کا تو علم نہیں ہے۔ 1917ء یا 1918ء کے قریب موضع رانی ولہ تحصیل ترن تارن ضلع امرتسر میں آپ عدم سے وجود میں تشریف لائے۔سکول میں پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ قصبہ ویرووال میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحب ویرو والوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لے گئے اور درسِ نظامی کی ابتدائی کتابیں اِنہی سے پڑھیں۔ مشہور ادیب و خطیب اور طبیب و دانشور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف رحمۃ اللہ علیہ بھی اِسی دور میں حضرت محدث ویرو والوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تعلیم و تربیت کے مراحل طے فرما رہے تھے۔ مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ حکیم صاحب اگرچہ شروع ہی سے دھان پان اور قد کے اعتبار سے اُن سے چھوٹے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں تاب و توانائی سے اِس قدر بہرئہ و افر عطا فرمایا تھا کہ بسا اوقات مصافحہ کرتے وقت وہ میرا ہاتھ اِس طرح گرم جوشی سے دباتے کہ میں زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا۔

حضرت محدث ویرو والوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب ِفیض کے علاوہ آپ نے اور بھی مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی، مثلاً اِس وقت کے منبع رُشد و ہدایت مدرسہ غزنویہ امرتسر میں آپ نے حضرت مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے۔ مولانا محمد اسحق چیمہ رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، میں نے ادارئہ علوم اثریہ میں قیام کے دوران مولانا چیمہ رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کو بہت اچھے الفاظ میں حضرت مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے سنا، اپنے اِن گرامی منزلت شیخ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا چیمہ رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں اور وہ فرماتے کہ مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ بلا شبہ اِسم بامسمّٰی تھے۔ مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ مرحوم نے چینیاں والی مسجد لاہور میں حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اکتسابِ ضیا کیا اور موطأ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور کئی دیگر کتب کا درس لیا۔ موضع باقی پور میں اُنہوں نے مولانا محمد ابراہیم باقی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے، دہلی میں شیخ عطاء الرحمن رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ رحمانیہ میں بھی آپ نے تفسیر، حدیث اور مختلف فنون کی کتابیں پڑھیں اور پھر مدرسہ رحمانیہ کے بعد آپ نے دہلی ہی کے ایک دوسرے ادارہ مدرسہ زبیدیہ میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے مراحل طے کئے اور اسی ادارے سے سند ِفراغت حاصل کی۔ یاد رہے جماعت کے مشہور عالم اور محقق مولانا عزیز زبیدی رحمۃ اللہ علیہ بھی اِس ادارے میں آپ کے ہم سبق تھے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نے خدمت ِ دین کے لئے خطابت کے میدان کا انتخاب کیا، اِن میں خطابت کی بیشترخصوصیات موجود تھیں۔ وہ کشیدہ قامت، دلکش شخصیت، واضح اور صاف لہجہ، شیریں اور مترنم آواز اور توازن و اعتدال کے مالک تھے۔ اسلئے اپنی خطابت سے لوگوں کا دل جیت لیتے اور قلب و نظر میں سما جاتے۔ آپ نے خطابت کا آغاز موضع گوہڑ چک نمبر 8 نزد پتوکی سے کیا اور وہاں سات سال تک خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو آپ بھی ہجرت کرکے پاکستان میں تشریف لے آئے اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے، قیام پاکستان کے بعد آپ نے اُس وقت کے ضلع لائل پور (حال فیصل آباد)کے چک 36 گ ب کو اپنا مسکن قرار دیا اور یہاں محلہ امرتسریاں کی مسجد اہلحدیث میں چھ سال تک خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے رہے، پھر 54، 1953ء میں نقل مکانی کرکے لاہور تشریف لے گئے اور جامع مسجد اہلحدیث رام گڑھ میں چودہ سال تک خطابت کے فرائض انجام دیے۔ یہ اُن کی بھرپور جوانی کا دور تھا، روپڑی برادران حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ خصوصی مراسم تھے جو کہ میدان ِ خطابت کے شاہباز تھے۔ آپ نے اِن کی رفاقت میں لاہور شہر اور گردو نواح میں تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔

لاہور میں قیام کے دوران اپنے جلیل القدر استاد محترم حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مل کر جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کتاب و سنت کی تبلیغ و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔ حضرت غزنوی مرحوم جو خود بھی ایک شعلہ نوا خطیب تھے، اپنے تبلیغی دوروں میں کبھی کبھی آپ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اُنہوں نے ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہزارہ کے علاقوں کا تبلیغی و جماعتی دورہ کا پروگرام ترتیب دیا اور اِس اہم دورہ میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اُنہوں نے مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو بھی شامل کیا اور یہ دورہ بے حد کامیاب رہا۔ مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند گرامی، برادرم حکیم محمد جمیل جو اُن دنوں دارالعلوم تقویة الاسلام لاہور میں زیرتعلیم تھے، راوی ہیں کہ مولانا غزنوی مرحوم اُس دورہ میں مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی پنجابی زبان میں تقریروں سے بہت خوش ہوئے اور واپسی پر مجھ سے فرمانے لگے: جمیل! آپ کے والد صاحب پنجابی زبان میں بہت اچھی تقریر کرتے ہیں۔ اِس مضمون کی ترتیب و تسوید کے لئے بنیادی معلومات برادرم حکیم محمد جمیل ہی نے فراہم کی ہیں، جس کے لئے ہم اُن کے ممنون ہیں۔

1967ء میں مولانا کے اکلوتے صاحبزادے حکیم محمد جمیل کا میونسپل کارپوریشن فیصل آباد میں یونانی میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے تقرر ہوا تو مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی رام گڑھ لاہور کو چھوڑ کر فیصل آباد تشریف لے آئے اور یہاں آکر آپ نے پہلے جامع مسجد محمدی اہل حدیث رضا آباد میں اڑھائی تین سال تک خطابت کے فرائض انجام دیے اور پھر پندرہ سولہ برس تک فیصل آباد کے محلہ افغان آباد میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے رہے نیز مختلف تبلیغی جلسوں اور اجتماعات میں بھی شرکت فرماتے اور اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے رہے۔

1975ء میں بندۂ عاجز نے بھی چک 36 گ ب سے فیصل آباد شہر میں رہائش منتقل کرلی۔ پہلے کچھ عرصہ محلہ عبداللہ پور میں گزارا اور پھر جب فرید کالونی رضا آباد میں رہائش اختیار کی تو مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش بھی اِن دِنوں اِسی علاقے میں تھی، عرصۂ دراز بعد ملاقات ہوئی تو بہت محبت و شفقت سے پیش آئے۔ وہی تروتازہ اور نورانی چہرہ، وہی پُربہار اور زعفرانی مجلس، وہی معلومات کا موجیں مارتا ہوا دریا، وہی ذکر ِالٰہی کی باتیں کہ مجلس سے اُٹھنے کو جی نہ چاہے۔

اِن کی تقریر سنے ہوئے ایک عرصہ ہوگیاتھا اور اِس کی تقریب اللہ تعالیٰ نے اِس طرح مہیا فرما دی کہ کچھ عرصہ بعد ہی میرے برادر ِاصغر کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر بارات چک 2 رام دیوالی ضلع فیصل آباد جانی تھی۔ ہم نے مولانا کوبھی بارات کے ساتھ جانے کی دعوت دی، جو اُنہوں نے قبول فرما لی۔ اتفاق کی بات کہ وہ جمعہ کا دن تھا، مسجد اہلحدیث اِس وقت چھوٹی تھی، لہٰذا بریلوی مکتب ِفکر کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کا پروگرام بنا اور طے پایا کہ خطبہ اور امامت کے فرائض مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ سرانجام دیں گے۔ گاؤں کے بھی تمام لوگ خواہ ان کا کسی بھی مسلک سے تعلق تھا، موجود تھے اور پھر بارات میں شامل لوگوں کی وجہ سے سامعین کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا تھا۔ خطبہ شروع ہونے سے قبل میرے چچا جان مولانا عبدالمنان مرحوم، جن کی ماہر عملیات کی حیثیت سے بڑی شہرت تھی، مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمانے لگے کہ آج آپ نے ایسا خطبہ دینا ہے کہ آپ کے دورِ جوانی کی خطابت کی یاد تازہ ہوجائے، مولانا نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور واقعی اُن کا وہ بہت کامیاب خطبہ تھا۔ دورانِ خطبہ اُنہوں نے پنجابی زبان کے نعتیہ اشعار بھی پڑھے، اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہت خوبصورت ترنم عطا فرمایا تھا۔ ترنم سے اشعار پڑھتے تو سامعین جھوم جھوم جاتے، اِس خطبہ سے اُنہوں نے بلاتمیز ِمسلک سب لوگوں کا دل جیت لیا یا یوں کہئے کہ وہ اپنے تمام سامعین کے قلب و نظر میں سما گئے تھے۔ رحمهم اللہ تعالیٰ!

مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ تہجد گزار اور شب ِزندہ دار بزرگ تھے، ذکر و فکر ِالٰہی اور نوافل کا کثرت سے اہتمام کرتے۔ روزانہ نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک ذکر میں مشغول رہتے اور نماز اشراق ادا کرنے کے بعد گھر میں تشریف لے جاتے۔ علاوہ ازیں متحمل و برد بار، متواضع اور کریم النفس تھے۔ سالہا سال تک ایک ہی محلہ میں رہائش پذیر ہونے اور ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کرنے کی وجہ سے اُنہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کی شخصیت کے کئی جوہر سامنے آئے، یوں سمجھئے کہ وہ بالکل بے آزار انسان تھے، ایذا رسانی اور کسی کی دل شکنی کی شاید ان میں صلاحیت فطری طور پر ہی نہ تھی۔

1984ء میں جب میں اسلام آباد آگیا تو اِن سے ملاقاتیں کم ہوگئیں، تاہم میں جب بھی فیصل آباد جاتا تو اِن سے ملاقات کی ضرور کوشش کرتا بلکہ اکثر و بیشتر مسجد ہی میں ملاقات ہوجاتی۔ نہایت بزرگانہ محبت و شفقت کا مظاہرہ فرماتے۔ غائبانہ طور پر بھی اپنے دوست واحباب میں فقیر کا اچھے الفاظ میں ذکر فرماتے، ایک دو بار اِن کی خواہش پر میں نے محمدی مسجد رضا آباد میں درسِ قرآن دیا تو اُنہوں نے بہت اچھے الفاظ میں حوصلہ افزائی فرمائی۔

ضعف اور پیرانہ سالی کے باعث اب آپ نے مستقل خطابت کا سلسلہ چھوڑ دیا تھا، تاہم گاہے گاہے مختلف مقامات پر خطبہ دے دیتے تھے۔ وفات سے صرف ایک دن قبل بروز منگل بعد از نماز عشا جامع مسجد محمدی اہلحدیث، رضا آباد میں درسِ قرآن و حدیث دیا۔ اگلے دن اسی مسجد میں نماز ِ عصر کی امامت کرائی اور نماز کے بعد بہت لمبی دعا مانگی۔ احباب جماعت کہنے لگے کہ آج تو مولانا نے خلافِ معمول بہت ہی لمبی دعا کی ہے۔

رمضان المبارک کے بعد شوال کے روزے رکھ رہے تھے۔ طبیعت ٹھیک تھی، شوال کا پانچواں روزہ جمیل دواخانہ، رضا آباد ہی میں افطار کیا اور پھر گھر جاکر معمول کے مطابق کھانا کھایا، نمازِ عشا بھی باجماعت کھڑے ہوکر ادا کی اور رات دس بجے تک خوش و خرم رہے۔

دس بجے کے بعد اپنے بستر پر لیٹ گئے اور پھر رات کے بارہ ؍ ایک بجے کے درمیان دل کی تکلیف ہوئی جس کی وجہ سے اُٹھ کر بیٹھ گئے، آپ کے قریب ہی آپ کا ایک پوتا بھی لیٹا ہوا تھا، اس کی آنکھ کھل گئی تو اُس نے دیکھا کہ ابا جی بیٹھے ہوئے ہیں تو پوچھا ابا جان! آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ آپ نے کہا کہ ہاں تکلیف تو ہے مگرتم سوجاؤ۔ بچے نے کہا کہ امی، ابو کو بلا لاؤں، آپ نے کہا کہ نہیں کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم بھی آرام سے سوجاؤ، بچہ سوگیا۔ مولانا بھی لیٹ گئے اور اِسی دوران آپ کی رُوح قفس ِعنصری سے پرواز کرگئی، جس کا گھر والوں کو اِس وقت علم ہوا، جب مولانا کی بہو اور حکیم محمد جمیل کی اہلیہ نے آپ کوچار بجے آواز دی کہ ابا جی! اُٹھو چار بج چکے ہیں۔ آپ نمازِ تہجد ادا کریں، میں سحری کا کھانا تیار کرتی ہوں اور پھر دونوں روزہ رکھتے ہیں۔ محترمہ کو یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ ایک ہی آواز پر اُٹھ جانے والے آج تین چار دفعہ آواز دینے کے باوجود نہیں اُٹھے۔ اُنہوں نے قریب جاکر بازو سے ہلایا تو دیکھا کہ جسم ٹھنڈا ہوچکا ہے، پھر اُنہوں نے سب گھر والوں کو جگایا تو معلوم ہوا کہ آپ تو اپنے مالک ِحقیقی کے پاس چلے گئے۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَ‌بِّكَ ذُو ٱلْجَلَـٰلِ وَٱلْإِكْرَ‌امِ ﴿٢٧...سورۃ الرحمن

یہ واقعہ بروز جمعرات مؤرخہ 10؍ نومبر2005ء کو پیش آیا۔ کچھ عرصہ پیشتر آپ نے اپنی رہائش جامعہ سلفیہ کے نزدیک محلہ حاجی آباد میں اختیار کرلی تھی۔ اس لئے نمازِ جنازہ معروف دینی و علمی دانش گاہ جامعہ سلفیہ ہی میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ تعالیٰ نے بڑے رقت آمیز لہجہ میں پڑھائی جس میں جامعہ کے اساتذہ کرام، شیوخ الحدیث ، علما و تجار اور ہر مکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت فرمائی۔ بلا شبہ جامعہ کی تاریخ کا یہ ایک مثالی جنازہ تھا اور پھر جامعہ کے قریب ہی قبرستان میں اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کردیا گیا ؎

وہی ایک ہے جس کو دائم بقا ہے                     جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے

سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے                     نہ کوئی رہے گا، نہ کوئی رہا ہے !

جو پیدا ہوا ،اُس کو مرنا ہے آخر                    یہاں سے اسے کوچ کرنا ہے آخر

آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب ِذوالجلال برادرم محمد جمیل اور دیگر تمام لواحقین کو صبر ِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے مولانا کی بشری لغزشوں سے دَرگزر فرمائے، اُن کی تمام حسنات ودینی خدمات کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور اُنہیں اعلیٰ علیین میں بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ درجات سے سرفراز فرمائے۔ مع الذین أنعم اﷲ علیهم من النبیین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن أولئك رفیقا ۔۔