انجیل کی زبان؛ ایک ناقدانہ جائزہ
ماہنامہ 'الاعتصام' (2تا 8؍ ستمبر2005ء )میں ایک سوال کے جواب میں حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے سریانی زبان کے وجود کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ ''انجیل سریانی زبان میں تھی۔'' جس پر المَورد کے ریسرچ فیلو عبدالستار غوری صاحب نے ماہنامہ 'اشراق' (دسمبر 2005ء )میں اس موقف کی تردید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ
''انجیل ابتدا ہی سے یونانی (Greek)زبان میں لکھی گئی تھی جبکہ حضرت مسیح کی زبان ارامی Aramaicتھی۔ اور اُنہوں نے اپنے مواعظ و بشارات اسی ارامی زبان میں ارشاد فرمائے تھے، لیکن ان کے جو ارشادات بائبل کے عہد نامہ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں لکھے گئے تھے ۔ ۔ ۔
وہ شروع ہی سے یونانی زبان میں لکھے گئے تھے ۔''
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ
''جہاں تک دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ انجیل سریانی زبان میں تھی تو یہ بات سرا سر غلط ہے۔'' 1
زیر نظر سطور میں ہم پہلے اس بات کا جائزہ لیں کے کہ کیا واقعی انجیل کی اصل زبان آرامی تھی ؟اور پھر بتائیں گے کہ اناجیل کا سب سے پہلے یونانی زبان میں لکھے جانے کا دعویٰ کس حد تک درست ہے ؟
علمی دنیا میں یہ امرکسی سے مخفی نہیں کہ جس انجیل کا ذکر قرآن مجید کے تقریباً 12 مقامات پر ہوا ہے، اس سے مراد وہ اصل کتاب یا الٰہی احکام ہیں جو حضرت عیسیٰ ؑ پر بذریعہ وحی نازل ہوئے تھے اور عہد نامہ جدید (New Testament)کی اناجیل کے فرضی مجموعے، وہ انجیل نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔ یہ انجیل اس وقت اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ اب یہ سوال کہ اُس اصل انجیل کی زبان کیاتھی؟
اس بارے میں اس حد تک تو واضح ہے کہ انجیل کی اصل زبان وہی تھی جو حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی قوم کی زبان تھی ،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:{وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ...﴿٤﴾...سورۃ ابراہیم}لیکن حضرت عیسیٰ اور ان کی قوم کی زبان کی متعلق کوئی حتمی فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اصل انجیل اب دنیا کے نقشہ پر موجود نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسا ٹھوس تاریخی ثبوت یا دستاویز موجود ہے جس سے حضرت عیسیٰ اور ان کی قوم کی زبان کا حتمی تعین کیا جا سکے۔ اس حوالہ سے اگر ہمارے پاس کچھ ہے تو وہ صرف بعض مغربی ماہرین اورمسلم محققین کی آرا ہیں جن میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
ذیل میں اختصار کے ساتھ ان اختلافی آرا کا تذکرہ مناسب معلو م ہوتا ہے :
انسا ئیکلوپیڈیا برٹانیکا(1950ء ،3؍522)میں ہے کہ ''مسیح اور آپ کے حواری نسلاً اور مذہبا ًاسرائیلی تھے اور ان کی مادری ومذہبی زبان عبرانی تھی یا مغربی آرامی۔ ''Jesus)،ص:48) __امریکہ کے یونین کالج میں عبرانی کے پروفیسرMoss Buttenwieserکے بقول حضرت عیسیٰ ؑکے دور میں آرامی زبان بولی جاتی تھی __ مغربی مفکر Renenکے نزدیک حضرت عیسیٰکی مادری، مذہبی اور وطنی زبان عبرانی آمیز سریانی تھی۔
نیز اُردو دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) کے مقالہ نگارنے مادّہ إنجیل کے تحت لکھا ہے کہ انجیل کی زبان آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ تھی۔علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نیصحیح بخاری کی حدیث کے الفاظ : کان ورقة بن نوفل یکتب الکتاب فیکتب من الإنجیل بالعبرانیة کے تحت لکھا ہے کہ
قال التیمي: الکلام العبراني هوالذي أُنزل به جمیع الکتب کالتوراة والإنجیل ونحوهما وقال الکرماني: فُهم منه أنَّ الإنجیل عبراني،قلت : لیس کذلك،بل التوراة عبرانیة والإنجیل سریاني 2
''امام تیمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عبرانی وہ کلام (زبان) ہے جس میں تورات،انجیل وغیرہ کتب کو نازل کیا گیا تھا۔ امام کرمانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس سے سمجھ آتا ہے کہ انجیل عبرانی زبان میں تھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں بلکہ تورات عبرانی میں تھی اور انجیل سریانی زبان میں تھی۔''
اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب 'نصرانیت؛ قرآن کی روشنی میں' ص92 پر صاف لکھا ہے کہ ''حضرت عیسیٰ اور ان کے تمام حواریوں کی زبان سریانی تھی۔''
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں انجیل کی اصل زبان کے متعلق پانچ آراء ہمارے سامنے آتی ہیں: عبرانی، سریانی، عبرانی آمیز سریانی ، آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ ۔ ان مختلف آرا سے کم از کم یہ بات توواضح ہو جاتی ہے کہ انجیل کی زبان کو آرامی قرار دینے کا جو بلند وبانگ دعویٰ کیاگیا ہے، وہ کوئی مسلمہ حقیقت نہیں رکھتا۔
اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ ان میں سے کونسی رائے دلائل کی رو سے زیادہ قرین قیاس ہے؟
اس سلسلہ میں جب ہم زبانوں کی تاریخ اور ان مذکورہ آرا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو اصل انجیل کا آرامی زبان میں ہونے کا دعویٰ کسی طور بھی درست اور تاریخی تناظر سے ہم آہنگ معلوم نہیں ہوتا۔اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلیوں کی اصل مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی۔اور آرامی ایک شمال مغربی سامی Semtic زبان تھی جو عبرانی سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔جب ایرانی شہنشاہ Cyprusنے بابلی سلطنت پر قبضہ کر لیا تو آرامی زبان کوان اسرائیلوں پر سرکاری زبان کے طور پر رائج کر دیا اور پھر آرامی زبان ان میں اس طرح رچ بس گئی کہ فلسطین کے علاقے یہودیہ Judaeaمیں تویہ تقریباً 700 سو سال تک یہودیوں کی مقامی روز مرہ کی زبان رہی اور یہودی فقہ تالمود کی بعض کتابیں بھی آرامی زبان میں لکھی گئی تھیں۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ اسرائیلیوں کی اصل مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی۔ پھر جب ایرانی شہنشاہ Cyprusکے بابلی سلطنت پر تسلط کی وجہ سے آرامی زبان کو سرکاری سر پرستی میں ان پر نافذکر دیا گیا تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ محکوم عبرانی زبان اس بیرونی آرامی زبان کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی تھی ۔ تویوں معلوم ہوتا ہے کہ عبرانی اور آرامی زبان کے اس باہم امتزاج سے سریانی زبان پروان چڑھی اور حضرت عیسیٰ کی آمد سے پہلے اسرائیلیوں میں رائج ہو گئی اور بعد میں آرامی کی ایک شاخ کے طور پر متعارف ہوئی۔
تاریخ کے اس تناظر میں غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے حواریوں کی مادری زبان نہ تو خالص عبرانی تھی اور نہ ہی آرامی،بلکہ وہ عبرانی اور آرامی آمیز سریانی تھی اور یہی درحقیقت انجیل کی اصل زبان تھی جسے Renenنے عبرانی آمیز سریانی سے تعبیر کیا ہے۔ اورخود المورد کے فیلونے بھی تسلیم کیا ہے کہ ''ارامی ایک وسیع زبان ہے ۔ ۔ ۔ سریانی درحقیقت آرامی کی ذیلی بولی Dialect))ہے۔''
نیز انجیل کی زبان آرامی اس لئے بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ خالص غیر اسرائیلیوں کی زبان تھی جسے ایرانی بادشاہCyprusنے ان پر مسلط کر دیا تھا۔ اسرائیلی اس مسلط کردہ زبان کو اپنی مذہبی زبان کے طور پرقطعاً قبول نہیں کر سکتے تھے، لہٰذا اس زبان کو انجیل اور حضرت عیسیٰ کی مذہبی زبان بنایاجانا قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا۔اور جن لوگوں نے اسے آرامی قراردیا ہے،اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہےکہ بعد میں سریانی زبان آرامی کی ذیلی بولی یا اس کی شاخ کے طور پر معروف ہو گئی تھی اور بعض لوگوں نے اس شاخ کو اصل سے تعبیر کر دیا۔ شاید محکومیت کا اثرتھا کہ سریانی اپنا الگ تشخص قائم نہ کر سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ سریانی اس دور کی اُبھرتی ہوئی زبان تھی۔ پھر بعد میں انجیل کے اس زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے اسے مسیحیوں کی مذہبی زبان کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی، جس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک یہ ارضِ مقدس کے تمام علاقوں کی روز مرہ،بول چال اور عوامی رابطوں کی زبان بن چکی تھی۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیسائی وفود آتے تو ان سے گفتگو اور تبلیغ میں مشکل پیش آتی جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید ؓ کو سریانی سیکھنے کا حکم فرمایا ۔ تو گویا سریانی زبان کے ان علاقوں میں پھیل جانے کے پیچھے بنیادی محرک یہی تھا کہ یہی انجیل کی اصل زبان تھی اور عیسائیوں کی مذہبی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی تھی، جیساکہ خود 'اشراق' کے مضمون نگار نے بھی لکھا ہے کہ
''یہ (سریانی ) اس علاقے میں حضرت عیسی ؑ کی آمد سے پہلے بھی رائج تھی۔451ء کی کونسل کے مباحث کے بعد ارامی بولنے والے اکثرو بیشتر مسیحیوں نے سریانی کو اپنی کلیسائی اور ثقافتی زبان کے طور پر اختیار کر لیا، اس سے ان کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب و ثقافت کو بازنطینی اثرات سے بچا سکیں۔''
یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیحیوں کو اپنے مذہب و ثقافت کو بازنطینی اثرات سے بچانے کی فکر آخر کیوں دامن گیر ہوئی ؟ اس کی وجہ یقینا یہی تھی کہ مسیحیوں کا مذہبی اور ثقافتی ورثہ (انجیل) سریانی زبان میں تھا ، اسی لئے ہی تو انہوں نے سریانی زبان کو اپنی کلیسائی اور ثقافتی زبان کے طور پر اختیار کیا تھا ۔اورآرامی زبان تو بازنطینی حکومت کی زبان تھی اور جسے عیسائی دنیا اپنے مذہب و ثقافت کے لئے خطرہ سمجھ کر تر ک کر رہی تھی، اسی زبان میں ان کی مذہبی کتاب انجیل کا نازل ہونا انتہائی تعجب خیز معلوم ہوتاہے۔ انجیل جو عیسائی مذہب و ثقافت کا مصدر وماخذ تھی، اگر آرامی زبان میں نازل ہوئی ہوتی تو عیسائی دنیا کبھی اس کے اثرات سے اپنے مذہب کو بچانے کی فکر نہ کرتی، بلکہ اسے مقدس سمجھ کر بامِ عروج تک پہنچاتی ۔ توخود اشراق کے مضمون نگار کی مذکورہ عبارت سے خود پتہ چلتا ہے کہ انجیل کی اصل زبان آرامی نہیں، بلکہ سریانی تھی۔
چنانچہ صحیح بخاری کے شارح بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر انجیل کی زبان کو سریانی قرار دیا ہے ،لکھتے ہیں: لیس کذلک بل التوراة عبرانیة والإنجیل سریاني۔
اس کے علاوہ مغربی مفکر Renenمولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور اُردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار کی عبارات بھی اسی موقف کی ہم نوائی کر رہی ہیں۔ اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسیحی سوسائٹی Watch Tower کی مطبوعہ بائبل،طبع نیویار ک کے دیباچے(ص viii)میں بھی مذکور ہے کہ ''اصل انجیل سریانی زبان میں تھی۔''
افسوس! اگرالمورد کے محترم فیلو نے ''کسی متعلقہ صاحب ِعلم یا متعلقہ کتب سے رجوع'' کیا ہوتا جو شاید ''اتنا دشوارنہ تھا'' تو وہ ہرگز ''علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے فاضل محقق ''کے اس جملے کہ انجیل سریانی زبان میں تھی کو''سرا سر غلط'' قرار نہ دیتے اور نہ ہی اس قدرعلمی تفوق اور احساسِ برتری سے لبریز لب ولہجہ میں علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا مدنی کو متعلقہ صاحب ِعلم یا متعلقہ کتب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔
ایک ایسا مسئلہ جو متعلقہ اہل علم کے درمیان بھی اختلافی ہے اور کوئی ایسا ٹھوس تاریخی ثبوت یا دستاویز بھی موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ انجیل کی اصل زبان آرامی تھی، کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا اور مخالف کی رائے کو سراسر غلط قرار دینا انتہائی غیر معروضی اندازِ تحقیق ہے جو استشراقیت و جدت کے علمبردار 'المورد 'کے 'علما' کو ہی لائق ہے۔
پھرافسوسناک امر یہ ہے کہ مقالہ نگار نے اپنی ''اس تحریر کوجان بوجھ کر حوالوں سے گرانبار ''کرنا تو مناسب نہیں سمجھا لیکن طنز و تعلّی اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں تین چار صفحات سیاہ کر دیے ہیں، اگر وہ اس سلسلہ میں کوئی ایک مستند حوالہ یا کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت پیش کر دیتے تو قارئین کے لیے تحقیق کی راہ آسان ہو جاتی۔
اس کے علاوہ غوری صاحب کا مولانا مدنی کو علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ پر اندھا اعتماد کرنے کا طعنہ دینا بھی درست نہیں ہے،کیونکہ مولانا سے جو سوال کیا گیا تھا، وہ محض اسی قدر تھا کہ ''کیا سریانی نام کی کسی زبان کا وجود ہے ؟'' اور اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے استدلال کرکے بتایا کہ کہ ہاں سریانی زبان کا وجود ہے۔ اس حد تک آپ کو بھی اختلاف نہیں ہے ۔مولانا کے پیش نظر یہ تحقیق ذکرکرناتھا ہی نہیں کہ انجیل کی زبان کیا تھی ؟پھراُنہیں متعلقہ کتب یا اہل علم سے رجوع کا مشورہ چہ معنی دارد۔اس نوعیت کے سوال جوا ب سے ایک نئی بحث کا آغاز کرلینا جو سائل کا مطلوب ومقصود بھی نہیں، اشراق کے تحقیق کار کا عجب طرزِ عمل ہے!
اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ غوری صاحب نے اس مسئلہ پر دلائل دینے کی بجائے بات کو مزید آگے پھیلاتے ہوئے سارا زورِ تحقیق اس بات پر صرف کر دیا کہ عیسیٰ ؑ کے جو ارشادات بائبل کے عہد نامہ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں لکھے گئے تھے ۔ ۔ ۔ ان کی ابتد ہی یونانی ترجمہ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہـ __ حالانکہ نہ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث کو چھیڑا ہے اور نہ مولانا مدنی نے اس طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور پھریہاں بھی وہی بے لچک اور غیر معروضی انداز ِتحقیق جیسے یہ ایک 'مسلَّمہ حقیقت'ہے اور اس میں کسی دوسری رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اب ہم اس بات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ ان کا یہ دعویٰ کس حد درست ہے کہ اناجیل ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ان کے حواری اور ابتدائی متبعین یونانی زبان جانتے تھے۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ کے مقالہ نگارنے Jewish Ency 9؍247 کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ Papiasجو دوسری صدی میلادی کے اوائل کا ماخذ ہے، بتاتا ہے کہ متی نے مسیح کے ملفوظات کا مجموعہ کسی تاریخی ترتیب کے بغیر عبرانی (یا آرامی) زبان میں تیار کیا تھا اور مرقس نے متفرق طور پر پطرس حواری سے جو کچھ سنا تھا، اسے مرتب کیا۔ اور ظاہر ہے کہ پطرس کی زبان بھی یونانی نہیں تھی،بلکہ عبرانی اور آر امی آمیز سریانی ہی تھی تو واضح ہوا کہ متی اور مرقس کے صحیفے یونانی زبان میں نہیں لکھے گئے۔ نیز اردو دائرہ معارف اسلامی کے مقالہ نگار نے The Birth of Chri, Alfred Loisey Religion ص 366 تعلیقہ 60 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یوحنا کی انجیل آرامی میں تحریر تھی ۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا 3؍524 کے مقالہ نگار کے مطابق اناجیل کے مآخذ کی بحث میں جو اکثر Qکا ذکرآتا ہے ،اس کے بارے میں F.C.Burkitt نے بڑی دانشمندی سے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ Q کا اصل نسخہ آرامی زبان میں تھا۔ نیز اس نے یہ لکھا ہے کہ 'محرف مسیحی ادب' میں ایک انجیل یہودیہہے،یہ مغربی آرامی زبان میں تھی اور یہ انجیل مسیحیوں کے ابتدائی فرقوں میں سے ناصریوں اور ابیاتیوں میں دوسری صدی کے نصف 150ء تک رائج رہی،بعد میں ان فرقوں کی تباہی کے ساتھ یہ انجیل بھی گم ہو گئی۔اور یونانی تراجم کی ابتدا یقینا اس کے بعد ہوئی ۔ (تفصیل: Procryphal Literature زیر مادہ Echp-brit)
'اشراق 'کے مضمون نگار کی تردید اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ آج سے تقریباً تین سو سال قبل انجیل برنا باس کا جو نسخہ دریافت ہوا ، وہ اطالوی زبان میں تھا اور اس کے اوپر لکھا ہوا تھا کہ یہ برناباس حواری کی لکھی ہوئی انجیل ہے۔مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب 'عیسائیت کیا ہے؟'(ص 171 تا 192)میں تفصیل سے اس انجیل کا تعارف پیش کیا ہے اور ثابت کیاہے کہ اس انجیل کا درجہ اسناد بائبل کے کسی بھی صحیفے سے کم نہیں ہے۔ یہ انجیل حضرات عیسی ؑ کے بعد ابتدائی دور کی ہے اور یونانی تراجم کی ابتدا یقینا اس کے بعد ہوئی ہے ۔
اگرچہ بعض لوگوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ عہد نامہ جدید کے جو قدیم ترین اجزا اب تک دستیاب ہوئے ہیں، وہ یونانی زبان میں ہیں۔اگر اس دعویٰ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس سے یہ مطلب کشید کر لیناکہ ''حضرت عیسی ؑ کے جوارشادات انجیلوںاور دیگر تحریروں میں درج ہیں ۔ ۔ ۔ (ان کے لکھے جانے کی)ابتدا ہی یونانی ترجمہ سے ہوئی۔'' قطعاً درست نہیں ہے،بلکہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں اس بات کا واضح امکان موجود ہے کہ اصل اناجیل ضائع ہو گئیں اور موجودہ یونانی نسخے ان کا ترجمہ یا ترجمہ درترجمہ ہیں، نیز برناباس حواری کی انجیل کی دستیابی ہی اشراق کے مضمون نگار دعویٰ کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے !!
حوالہ جات
1. صفحہ43
2. عمدة القاری: 1؍52