توہین ِرسالتؐ اور احادیث ِنبویہ

اسلام ذاتِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر ایمان لانے کے بعد ہی انسان حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور نبی آخر الزمانؐ سے دنیا جہاں سے بڑھ کر محبت رکھنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ دین کے تمام احکامات کے ہمارے علم میں آنے اور خود قرآن کے معلوم ہونے کا مصدر ومحور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذاتِ گرامی ہے۔پھر قرآن کریم میں جابجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت ہی قرار دیا گیا ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام میں اس قدر بنیادی حیثیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر ومنزلت اور درجہ وفضیلت کا بھی پورا احترام برقرار رکھا جائے اور اس انسان کو دنیا میں زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا جائے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموسِ مبارک پر حملہ آور ہو۔ دورِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل واقعات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گستاخان کی سزائوں سے اتفاق کیا یا خود آپ نے ایسے ظالموں کی سرکوبی اور اُنہیں راہِ عدم سدھانے کے لئے اپنے جانثار صحابہ متعین کئے۔ (ح م)



حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ
أن یهودیة کانت تشتم النبي ﷺ وتقع فیه فخنقھا رجل حتی ماتت فأبطل رسول اﷲ ﷺ دمَھا 1
''ایک یہودی عورت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔''

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''یہ حدیث اس مسئلہ میں نص کا حکم رکھتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ ایسے ذمی کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے، پھرمسلم مرد یا عورت اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں تو ان کو بطریق اولیٰ قتل کرنا جائز ہے اس لئے کہ یہ عورت بھی ان لوگوں میں سے تھی جن کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے تمام یہودیوں کے ساتھ مطلق معاہدہ کیا گیا تھا اور ان پرجزیہ بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ اہل علم کے مابین یہ مسئلہ متواتر کا درجہ رکھتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علماے سیر میں سے کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو عام یہودیوں سے بلاجزیہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول درست ہے۔'' 2

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ساتھ جزیہ کے بغیر معاہدہ کیا پھرایک یہودی عورت کے خون کو اس لئے رائیگاں قرار دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی تو ایک یہودی عورت کے خون کو جس پر جزیہ عائد کیا گیا تھا اور وہ دینی احکام کے پابند بھی تھے بے کار ٹھہرا دیں تو یہ اولیٰ و افضل ہے اور اگر اس عورت کا قتل جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کے قاتل کے فعل کی مذمت فرماتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
( من قتل نفسا معاھدة بغیر حقھا لم یرح رائحة الجنة) 3
''جس نے کسی معاہد کو بلا وجہ قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔''

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کی ضمانت یا معصوم کو قتل کرنے کا کفارہ واجب کرتے۔ جب اس عورت کے خون کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رائیگاں قرار دیا تو اس سے معلوم ہوا کہ اسکا خون مباح تھا۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ
أن أعمی کانت له أم ولد تشتم النبي ﷺ وتقع فیه فینھاھا فلا تنتھي ویزجرھا فلا تنزجر قال فلما کانت ذات لیلة جعلت تقع في النبي ﷺ وتشتمه فأخذ المغول فوضعه في بطنھا واتکأ علیھا فقتلھا فوقع بین رجلیھا طفل فلطخت ما ھناك بالدم فلما أصبح ذکر ذلك للنبي ﷺ فجمع الناس فقال:(أنشد اﷲ رجلا فعل ما فعل لي علیه حق إلا قام) فقام الأعمیٰ یتخطی الناس وھو یتزلزل حتی قعد بین یدي النبي ﷺ فقال:یارسول اﷲ! أنا صاحبھا کانت تشتمك وتقع فیك فأنھاھا فلا تنتھي وأزجرھا فلا تنزجر ولي منھا ابنان مثل اللؤلؤتین وکانت بي رفیقة فلما کان البارحة جعلت تشتمك وتقع فیك فأخذت المغول فوضعته في بطنھا واتکأت علیھا حتی قتلتھا فقال النبيﷺ:(ألا اشھدوا أن دمھا ھدر) 4
''ایک اندھے شخص کی ایک اُمّ ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ وہ اسے روکتا مگر وہ باز نہ آتی، وہ ڈانٹتا مگر وہ رُکتی نہ تھی۔ ایک رات اس نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کا آغاز کیا تو اس نے بھالا لے کراس کے شکم میں پیوست کردیا اور اسے زور سے دبایا جس سے وہ ہلاک ہوگئی۔ صبح کو اس کا تذکرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو لوگوں کو جمع کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے یہ قتل کیا اور میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ یہ سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہوا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا۔ اس نے کہا: یارسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (اسے میں نے قتل کیا ہے) وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر وہ باز نہ آتی تھی، میں اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا مگر وہ پروا نہ کرتی۔ اس کے بطن سے میرے دو موتیوں جیسے بیٹے ہیں ، وہ میری رفیقہ حیات تھی۔ گذشتہ شب جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بکنے لگی تو میں نے بھالا لے کراس کے پیٹ میں گاڑ دیا اور اسے زور سے دبایا حتیٰ کہ وہ مرگئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ رہو کہ اس کا خون رائیگاں ہے۔''

مندرجہ بالا واقعہ میں اگر اس عورت کو قتل کرنا ناروا ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیتے کہ اس کو قتل کرنا حرام ہے اور اس کا خون معصوم ہے۔ معصوم کو قتل کرنے کی وجہ سے اس پر کفارے کو واجب قرار دیتے اوراگر وہ اس کی لونڈی نہ ہوتی تو اس پر دیت کو واجب قرار دیتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا خون ہدر (رائیگاں )ہے اور ہدر وہ خون ہوتا ہے جس کا قصاص دیا جاتا ہے نہ دیت اور نہ کفارہ تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ ذمی ہونے کے باوجود مباح الدم تھی۔ گویا گالیاں دینے کے مذموم فعل نے اس کے خون کو مباح کردیاتھا۔ مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو اس وقت ہدر قرار دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ گالیاں دینے کی وجہ سے اس کو قتل کیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس کا موجب و محرک یہی ہے اور اس واقعہ کی دلالت اس پر واضح ہے۔5

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وفي حدیث ابن عباس وحدیث الشعبي دلیل علی أنه یقتل من شتم النبي ﷺ وقد نقل ابن المنذر الاتفاق علی أن من سبّ النبي ﷺ صریحا وجبَ قتله ونقل أبوبکر الفارسي أحد أئمة الشافعیة في کتاب الإجماع أن من سبَّ النبي ﷺ بما ھو قذف صریح کفر باتفاق العلماء فلو تاب لم یسقط عنه القتل لأن حد قذفه القتل وحد القذف لا یسقط بالتوبة 6
''حدیث ِابن عباسؓ اور حدیث ِشعبی رحمۃ اللہ علیہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے، اسے قتل کردیا جائے۔ ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ جو شخص صریحاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ ابوبکر فارسی جو ائمہ شافعیہ میں سے ہیں نے کتاب الإجماع میں نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو وہ تمام ائمہ کے نزدیک کافر ہے۔ اگر وہ توبہ بھی کرلے تو پھر بھی اس سے سزاے قتل ساقط نہیں ہوسکتی، کیونکہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر) قذف کی حد قتل ہے اورحد ِقذف توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔''

نسائی کے شارح امام سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
فیه دلیل علی أن الذمي إذا لم یکف لسانه عن اﷲ ورسوله فلا ذمة له فیَحُلُّ قتله 7
''حدیث ِابن عباسؓ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ذمی آدمی جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی سے باز نہ آئے تو اس کا معاہدہ ختم اور اس کا قتل جائز ہے۔''

امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ولا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله ولکن إذا کان الساب ذمیا فقد اختلفوا فیه فقال مالك بن أنس: من شتم النبي ﷺ من الیھود والنصاریٰ قتل إلا أن یسلم،وکذلك قال أحمد بن حنبل وقال الشافعي: یقتل الذمي إذا سبَّ النبي ﷺ وتبرأ منه الذمة واحتج في ذلك بخبر کعب بن الأشرف۔۔۔وحُکِی عن أبي حنیفة أنه قال: لایقتل الذمي بشتم النبي ﷺ ماھم علیه من الشرك أعظم 8
''شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے واجب ہونے میں مسلمانوں میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن جب شاتم ذمی ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و احمد رحمۃ اللہ علیہ بن حنبل کے نزدیک یہود و نصاریٰ میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اسے قتل کیا جائے گا، اِلا یہ کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذمی آدمی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے معاہدہ ختم ہوجائے گا اور وہ اس سلسلہ میں کعب بن اشرف کے قتل والی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے نزدیک شاتم رسول ذمی کو قتل نہیں کیا جائے کیونکہ وہ جس کفریہ ؍ شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے بھی زیادہ بڑاجرم ہے۔''

حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من سبَّ نبیا قُـتِل ومن سبَّ أصحابه جُلِدَ) 9
''جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی، اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو گالی دی تو اسے کوڑے مارے جائیں ۔''

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''اگر اس حدیث کی صحت ثابت ہوجائے تو یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کرنا واجب ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کیا جائے نیزیہ کہ قتل اس کے لئے حد شرعی ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نبی کو بھی جو گالیاں دے گا یا بُرا کہے گا تو وہ قتل کا مستحق ہے اور جو صحابہؓ میں سے کسی کو بُرا کہے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں ۔''

حضرت ابوبرزہؓ فرماتے ہیں کہ
کنتُ عند أبي بکر فتغیَّظ علی رجل فاشتد علیه فقلت تأذن لي یا خلیفة رسول اﷲ ﷺ اَضرب عنقه، قال فاذھبتْ کلمتي غضبَه فقال فدخل فأرسل إليَّ فقال: ما الذي قلت آنفا قلت: ائذن لي أضرب عنقه قال أ کنت فاعلا لو أمرتك؟ قلت: نعم قال: لا واﷲ ما کانت لبشر بعد محمد ! 10
''میں حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپؓ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ شخص درشت کلامی پر اتر آیا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسولؐ! آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس کی گردن اُڑا دوں ؟ میرے ان الفاظ سے ان کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر گھر چلے گئے او رمجھے بلابھیجا۔ میں گیا تو مجھ سے فرمایا کہ ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: یہ کہا تھا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس شخص کی گردن اُڑا دوں ۔ فرمایا: اگر میں تم کو حکم کرتا توتم یہ کام کرتے؟ عرض کیا:آپ فرماتے تو ضرور کرتا۔ فرمایا: نہیں ! اللہ کی قسم یہ بات (کہ بدکلامی پر گردن اُڑا دی جائے) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے نہیں ۔''

مطلب یہ کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدزبانی کرنے والا سزائے موت کا مستوجب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی انسان ایسا نہیں جس کی بدگوئی کرنے والے کو سزائے موت دی جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے گالی دینے والے کوقتل کردیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق بھی حاصل تھاکہ اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیں جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ علم نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیاجا رہا ہے۔ اس معاملہ میں لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا چاہئے، اس لئے کہ آپؐ اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہو اور آپؐ اللہ کی نافرمانی کا کبھی حکم نہیں دیتے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے، وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو خصوصیات ہیں : (1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کو قتل کرنے کا حکم دیں ، اس میں آپؐ کی اطاعت کی جائے۔ اور(2) جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اور سخت سست کہے، آپؐ اس کو قتل کرسکتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دوسرا اختیار جو دیا گیا تھا، وہ آپؐ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ لہٰذا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپؐ کی شان میں سخت الفاظ کہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے بلکہ آپؐ کی وفات کے بعد یہ حکم مؤکد تر ہوجاتا ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس اور حرمت وفات کے بعد اور زیادہ کامل ہوجاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپؐ کی ناموس و آبرو میں سہل انگاری اور تغافل شعاری ممکن نہیں ۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلقاً قلت و کثرت کو ملحوظ رکھے بغیر گالی دینے سے ایسے شخص کا قتل مباح ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں اس حدیث کے عموم سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہو یا کافر۔'' 11

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ زیر بحث پر قرآن و سنت کے نصوص اور صحابہ و تابعین کا مسلسل تعامل ذکرکرتے ہوئے آخر میں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کسی شخص نے ان کو بر ابھلا کہا او ران کی ہتک عزت کی۔ غالباً اس علاقے کے گورنر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے استصواب کیا ہوگا کہ ایسے مفسد شخص کو قتل کردیا جائے؟ تو اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے گورنر کو لکھا کہ قتل صرف اس شخص کو کیا جاتا ہے جو شانِ رسالتؐ میں دریدہ د ہنی کرے لہٰذا اس شخص کو قتل تو نہ کیا جائے ،البتہ سرزنش کے لئے اس کے سر پر اتنے کوڑے لگائیں جائیں او ریہ کوڑے لگانا بھی محض اس شخص کی اصلاح او ربہتری کے لئے ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں اس کے کوڑے لگانے کا بھی حکم نہ دیتا۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وھذا مشهور عن عمر بن عبدالعزیز وھو خلیفة راشد عالم بالسنة متبع لھا فھذا قول أصحاب رسول اﷲ ﷺ والتابعین لھم بـإحسان لایعرف عن صاحب ولا تابع خلاف لذلك بل إقرار علیه واستحسان له۔ 12
''اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ مشہور ہے جبکہ وہ خلیفہ راشد، قرآن و سنت کے عالم اور بے حد متبع سنت ہیں ۔ پس شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واجب القتل ہونا صحابہؓ و تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا اجماعی فیصلہ ہے اورکسی ایک صحابی ؓ اور ایک تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ۔''

خلاصہ یہ کہ اسلامی قانون کی رُو سے توہین ِرسالت کا مرتکب سزاے موت کا مستحق ہے اور اس مسئلہ پر تمام صحابہؓ و تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور فقہائے اُمت متفق ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ
ھجت امرأة من خطمة النبي ﷺ فقال: (من لي بھا؟) فقال رجل من قومھا: أنا یارسول اﷲ فنھض فقتلھا فأخبر النبيﷺ فقال: (لا ینتطح فیھا عنزان) 13
''خطمة قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تو آپؐ نے فرمایا :اس عورت سے کون نمٹے گا؟ اس کی قوم سے ایک آدمی نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں انجام دوں گا چنانچہ اس نے جاکر اسے قتل کردیا۔ آپؐ نے فرمایا: دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہیں ٹکراتیں ۔ '' (یعنی یہ بے وقعت جان ہے)

مشہور سیرت نگار واقدی نے اس واقعہ کو پوری تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ عصما بنت مروان، بنی اُمیہ بن زید کے خاندان سے تھی اور یزید بن حصن خطمی کی بیوی تھی۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتی تھی۔ اسلام میں عیب نکالتی اور آپؐ کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا کرتی تھی۔ عمیر بن عدی خطمی کو جب اس کی باتوں اور اشتعال بازی کا علم ہوا تو اس نے کہا اے اللہ! میں تیرے حضور نذر مانتا ہوں کہ اگر تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ لوٹا دیا تو میں اس عورت کو قتل کردوں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے، جب آپؐ بدر سے واپس آئے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے۔ اس کے ارد گرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے اور ایک بچہ اس کے سینے سے ساتھ چمٹا ہوا تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ وہ بچے کو د ودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو الگ کیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھا اور اس کی پشت کے پار کردیا۔پھر صبح کی نماز رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی۔ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ کیا تو نے بنت ِمروان کو قتل کردیا ہے؟ عرض کیا: جی ہاں ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ۔ عمیر اس بات سے ڈرا کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کام کیاہو۔ اس نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس ضمن میں مجھ پر کوئی چیز واجب ہے۔ فرمایا: سُنیں دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہیں ٹکراتی۔ یہ فقرہ پہلی مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا گیا۔ عمیر کہتے ہیں کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارد گرد دیکھا اور فرمایا: اگر تم ایسا شخص دیکھنا چاہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر کو دیکھ لو۔

جب حضرت عمیرؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے لوٹ کر آئے تو دیکھا کہ اس عورت کے بیٹے لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ اسے دفن کررہے ہیں ۔ جب سامنے آتے دیکھا تو وہ لوگ عمیرؓ کی طرف آئے اور کہا: اے عمیرؓ! اسے تو نے قتل کیا ہے؟ عمیرؓ نے کہا: ہاں تم نے جو کرنا ہے کرلو اورمجھے ڈھیل نہ دو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم سب وہ بات کہو جو وہ کہا کرتی تھی تو میں اپنی تلوار سے تم پر وار کروں گا، یہاں تک کہ میں مارا جاؤں یا تمہیں قتل کردوں ۔ اس دن سے اسلام بنی خطمہ میں پھیل گیا۔ قبل ازیں ان میں سے کچھ آدمی ڈر کے مارے اپنے اسلام لانے کو پوشیدہ رکھتے تھے۔14

واقدی نے لکھا ہے کہ بنو عمرو بن عوف میں ایک شیخ تھا جس کو أبوعفک کہتے تھے۔ نہایت بوڑھا تھا اوراس کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ یہ شخص مدینہ آ کر لوگوں کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکایا کرتا تھا۔اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح وکامرانی سے نوازا تو وہ حسد کرنے لگا اور بغاوت پر اُتر آیا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ کی مذمت میں ایک ہجویہ قصیدہ کہا۔

سالم بن عمیر نے نذر مانی کہ میں أبوعفککو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے مارا جاؤں گا ۔سالم اس کی غفلت کی تلاش میں تھا۔موسم گرما کی ایک رات تھی اور أبوعفکموسم گرما میں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے صحن میں سو رہا تھا۔اندریں اثنا سالم بن عمیر آیا اور تلوار اس کے جگر پر رکھ دی اور دشمن بستر پر چیخنے لگا۔ اس کے ہم خیال بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے پہلے اس کے گھر میں لے گئے اور پھر قبر میں دفن کر دیا۔ کہنے لگے اسے کس نے قتل کیا ہے؟ بخدا اگر ہم کو قاتل کا پتہ چل جائے تو ہم اسے قتل کر دیں گے۔

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وهذا فیه دلالة واضحة علیٰ أ ن المُعاهد إذا ظهر السبّ ینقض عهدہ ویقتل غیلة لکن هو من روایة أهل المغازي وہو یصلح أن یکون مؤیدا مؤکدا بلا تردد 15
''اس واقعہ میں اس امر کی واضح دلیل موجود ہے کہ معاہد اگر علانیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے- اسے دھوکے سے قتل کیا جا سکتا ہے مگر یہ اہل مغازی کی روایت ہے اور بلا شبہ دوسری روایات کی مؤید ومؤکد ہو سکتی ہے۔''

کعب بن اشرف یہودی کا قتل:چھٹی حدیث جس سے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ ذمی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اسے قتل کیا جائے۔ اس کا عہد و امان اس سے باقی نہیں رہتا، وہ کعب بن اشرف کا واقعہ ہے۔ امام خطابی المعالم(ج3؍ص295) میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ ذمی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اسے قتل کیا جائے۔ اس فعل سے مسلمانوں کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اس پر انہوں نے کعب بن اشرف کے واقعہ سے استدلال کیا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یا آپؐ کے قرب و جوار میں یہودِ مدینہ کے سوا کوئی مشرک کتابی نہ تھا۔ یہ انصار کے حلیف تھے او رانصار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے آغاز میں اسلام لانے کا پختہ ارادہ نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصالحت کرلی اور جنگ ِبدر کے بعد یہودیوں نے اظہارِ عداوت کا آغاز کیا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکانے لگے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کے خلاف جنگ و پیکار کا ارادہ کیا۔

اس ضمن میں پہلا واقعہ کعب بن اشرف کا پیش آیا۔ مدینہ منورہ میں جب فتح بدر کی بشارت پہنچی تو کعب بن اشرف کو بے حد صدمہ ہوا اور یہ کہا کہ اگر یہ خبر صحیح ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار اور اَشراف مارے گئے تو پھر زمین کا بطن (اندرون) اس کی ظہر (پشت) سے بہتر ہے یعنی مرجانا جینے سے بہتر ہے تاکہ آنکھیں اس ذلت اور رسوائی کو نہ دیکھیں ۔ لیکن جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی تو مقتولین ِبدر کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا اور جو لوگ بدر میں مارے گئے ان پر مرثیے لکھے جن کو پڑھ پڑھ کر خود بھی روتا تھا اور دوسروں کو بھی رُلاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں لوگوں کو جوش دلادلا کر آمادئہ قتال کرتا تھا۔ ایک روز قریش کو حرم میں لے کر آیا تو سب نے بیت اللہ کا پردہ تھام کر مسلمانوں سے لڑائی کرنے کا حلف اُٹھایا۔ پھر بعد ازاں مدینہ واپس آیا اور مسلمان عورتوں کے متعلق عشقیہ اشعار کہنے شروع کئے۔ 16

ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کعب بن اشرف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کے بہانے سے بلایا اور کچھ آدمی متعین کردیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو قتل کرڈالیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آکر بیٹھے ہی تھے کہ جبریل امین ؑ نے آکر آپؐ کو ان کے ارادہ سے مطلع کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً وہاں سے روح الامین کے پروں کے سایہ میں باہر تشریف لے آئے اور واپسی کے بعد اس کے قتل کا حکم دیا۔ 17

کعب بن مالکؓ راوی ہیں کہ کعب بن اشرف بڑا شاعر تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہا کرتا تھا اور کفارِ مکہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ بھڑکاتا رہتا تھا اور مسلمانوں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتا تھا۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو صبر اور تحمل کا حکم فرماتے رہے لیکن جب کسی شرارت سے باز نہ آیا تو آپؐ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ 18

صحیح بخاری میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من ا لکعب بن الأشرف؟ فإنه قد أذیٰ اﷲ ورسوله)فقام محمد بن مسلمة فقال: یا رسول اﷲ أتحب أن أقتله۔قال:(نعم) قال فَأْذَن لي أن أقول شیئا۔قال:(قُل) 19
''تم میں سے کعب بن اشرف کے قتل کے لئے کون تیار ہے ؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذا پہنچائی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت محمد بن مسلمہؓ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس کا قتل چاہتے ہیں ،آپؐ نے فرمایا: ہاں ۔ تو محمد بن مسلمہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئے (یعنی اسے مبہم تعریفی کلمات اور ذو معنی الفاظ کہہ سکوں ) جن کو سن کر وہ بظاہر خوش ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجازت ہے۔''

محمد بن مسلمہؓ ایک روز کعب سے ملنے گئے اور اثناے گفتگو میں یہ کہا کہ یہ مرد (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فقراء و مساکین پر تقسیم کرنے کے لئے) صدقہ اور زکوٰة بہت مانگتا ہے اور اس شخص نے ہم کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔میں اس وقت آپ کے پاس قرض لینے کے لئے آیا ہوں ۔ کعب نے کہا: ابھی کیا ہے، آگے چل کر دیکھنا، خدا کی قسم تم ان سے اُکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ اب تو ہم ان کے پیرو ہوچکے ہیں ، ان کو چھوڑنا ہم پسند نہیں کرتے انجام کے منتظر ہیں ( اور دل میں یہ تھا کہ انجام کار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح اور دشمنوں کی شکست یقینی ہے جس میں شبہ کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ) اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ غلہ بطورِ قرض دے دیں ، کعب نے کہا: بہتر ہے مگر کوئی چیز میرے پاس رہن رکھ دو۔ ان لوگوں نے کہا: آپ کیاچیز رہن رکھوانا چاہتے ہیں ۔ کعب نے کہا: اپنی عورتوں کومیرے پاس رہن رکھ دو۔ ان لوگوں نے کہا: اپنی عورتوں کو کیسے رہن رکھ سکتے ہیں ، اوّل تو غیرت اور حمیت گوارانہیں کرتی، پھر یہ کہ آپ نہایت حسین و جمیل اور نوجوان ہیں ۔ کعب نے کہا: آپ اپنے لڑکوں کو رہن رکھ دو۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو ساری عمر کی عار ہے، لوگ ہماری اولادکو یہ طعن دیں گے کہ تم وہی ہو جو دو اور تین سیر غلہ کے معاوضہ میں رہن رکھے گئے تھے۔ ہاں ہم اپنے ہتھیار تمہارے پاس رہن رکھ سکتے ہیں ۔

عکرمہؓ کی ایک مرسل روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے یہ کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ہتھیاروں کے کس درجہ محتاج اور ضرورت مند ہیں ۔ لیکن بایں ہمہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہتھیار آپ کے پاس رہن رکھ دیں لیکن یہ ناممکن ہے کہ عورتوں اور بیٹوں کو رہن رکھ دیں ۔ کعب نے اس کو منظور کیا اور یہ وعدہ ٹھہرایا کہ شب کو آکر غلہ لے جائیں اور ہتھیار رہن رکھ جائیں ۔

حسب ِوعدہ یہ لوگ رات کو پہنچے اور جاکر کعب کو آواز دی۔ کعب نے اپنے قلعہ سے اُترنے کا ارادہ کیا۔ بیوی نے کہا کہ اس وقت کہاں جاتے ہو۔ کعب نے کہا : محمد بن مسلمہؓ اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ہے، کوئی غیر نہیں ، تم فکر نہ کرو۔ بیوی نے کہا : مجھے اس آواز سے خون ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے۔کعب نے کہا: شریف آدمی اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بھی بلایا جائے تو اس کو ضرور جانا چاہئے۔ اسی اثنا میں محمد بن مسلمہؓ نے اپنے ساتھیوں کو یہ سمجھا دیا کہ جب کعب آئے گا تو میں اس کے بال سونگھوں گا ۔ جب دیکھو کہ میں نے اس کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو فوراً اس کا سراُتار دینا۔ چنانچہ جب کعب نیچے آیا تو سرتا پا خوشبو سے معطر تھا۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ آج جیسی خوشبو تو میں نے کبھی سونگھی ہی نہیں ۔ کعب نے کہا: میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل اور سب سے زیادہ معطر عورت ہے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا: کیا آپ مجھے اپنے معطر سر کے سونگھنے کی اجازت دیں گے۔ کعب نے کہا :ہاں اجازت ہے۔ محمد بن مسلمہؓ نے آگے بڑھ کر خود بھی سر کو سونگھا اور اپنے رفقا کو بھی سونگھایا۔ کچھ دیر کے بعد پھر محمد بن مسلمہؓ نے کہا : کیا آپ دوبارہ اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیں گے؟ کعب نے کہا: شوق سے۔ محمد بن مسلمہؓ اُٹھے اور سرسونگھنے میں مشغول ہوگئے جب سر کے بال مضبوط پکڑ لئے تو ساتھیوں کواشارہ کیا، فوراً ہی سب نے اس کا سرقلم کردیا اور آناً فاناً اس کا کام تمام کردیا۔20

پھر اخیر شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ آپؐ نے دیکھتے ہی یہ ارشاد فرمایا: (أفلحت الوجه) ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے۔ ان لوگوں نے جواباً عرض کیا: ووجھك یا رسول اﷲ ﷺ ! اور سب سے پہلے آپ کا چہرہ مبارک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد ازاں کعب بن اشرف کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمدﷲ کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ 21

جب یہود کو اس واقعہ کا علم ہوا تویک لخت مرعوب اور خوفزدہ ہوگئے اور جب صبح ہوئی تو یہود کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہمارا سردار اس طرح مارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ مسلمانوں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتا تھا اور لوگوں کو ہمارے خلاف قتال پر برانگیختہ کرتا اور آمادہ کرتا تھا۔ یہود دم بخود رہ گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے اور بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک عہد نامہ لکھوایا کہ یہود میں سے آئندہ کوئی اس قسم کی حرکت نہ کرے گا۔ (طبقات ابن سعد: ج2؍ص34)

کعب بن اشرف کے قتل کے اسباب : روایاتِ حدیث سے کعب بن اشرف کے قتل کے جو وجوہ اور اسباب معلوم ہوسکے ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دریدہ د ہنی ،سب وشتم اور گستاخانہ کلمات کا زبان سے نکالنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہنا
غزلیات اور عشقیہ اشعار میں مسلمان عورتوں کا بطورِ تشبیب (یعنی حسن کا) تذکرہ کرنا
غدر (دھوکہ دہی) اور نقض ِعہد
لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کے لئے اُبھارنا،اکسانا اور ان کو جنگ پر آمادہ کرنا
دعوت کے بہانہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کرنا
دین اسلام پرطعن کرنا

لیکن قتل کا سب سے قوی سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں دریدہ د ہنی،سب و شتم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہنا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول میں ص70 تا 91 پر اس پر مفصل کلام کیا ہے۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ
آیت{وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَ‌كُوٓاأَذًى كَثِيرً‌ا...﴿١٨٦﴾...سورۃ آل عمران}''البتہ سنو گے تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت بدگوئی اور بدزبانی'' کعب بن اشرف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ 22

امام عبدالرزاق بن ہمام یمانی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام اور مرتبہ سے اہل علم واقف ہیں ۔ یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدر استاذ اور تبع تابعی ہیں ۔ ان کے مجموعہ احادیث کا نام المصنف ہے۔ اس میں اکثر احادیث ثلاثی ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق تمام حدیثیں صحیح ہیں ۔ اس میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سَبّ النبي ﷺ کا علیحدہ باب قائم کیا ہے۔ جس میں حسب ِذیل روایات ذکر کی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دشنام طرازی کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کون ہے جو ہمارے اس دشمن کی خبر لے گا؟ اس پر حضرت زبیرؓ نے کہا: میں حاضر ہوں ۔ پھر حضرت زبیرؓ نے جاکر اس گستاخ کو قتل کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو اس کا چھینا ہوا مال عطا کر دیا۔ 23

ایک بدبخت عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی رہتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کو قتل کردیا۔24

ایک نصرانی شخص کے بارے میں ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی تھیں جس پر اس کو قتل کردیا گیا تھا۔ 25

حضرت سعید بن جبیرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ؓ اور زبیرؓ سے فرمایا: جاؤ اگر وہ مل جائے تو اسے قتل کردو۔ 26

حضرت علیؓ نے حکم دیاکہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی، اس کی گردن مار دی جائے۔ 27

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الشفاء میں ابن قانع سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنے والد کو آپؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے سنا تو یہ مجھ سے برداشت نہ ہوسکا، اس لئے میں نے اسے قتل کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے باز پُرس نہیں فرمائی۔28

ابن سبینہ ؍ سبطیہ یہودی کا قتل:کعب بن اشرف کے قتل کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ اس قسم کے یہود کو جہاں کہیں پاؤ، قتل کرڈالو۔ چنانچہ خویصہ بن مسعود کے چھوٹے بھائی محیصہ بن مسعود نے ابن سبینہ یہودی کوقتل کرڈالا جو تجارت کرتا تھا اور خود حویصہ، محیصہ اور دیگر اہل مدینہ سے داد ورسد کا معاملہ رکھتا تھا۔

حویصہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور محیصہ پہلے سے مسلمان تھے۔ حویصہ چونکہ عمر میں بڑے تھے تو اُنہوں نے محیصہ کو پکڑ کر مارنا شروع کیا اور کہا کہ اے اللہ کے دشمن! تو نے اسے قتل کرڈالا۔ واللہ ! اس کے مال سے کتنی چربی تیرے پیٹ میں ہے۔ محیصہؓ نے کہا: مجھ کو اس کے قتل کا ایسی ذاتؐ نے حکم دیا ہے کہ اگر وہ ذاتِ بابرکات تیرے قتل کا بھی حکم دیتی تو واللہ تیری بھی گردن اُڑا دیتا۔ حویصہ نے کہا: کیا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو میرے قتل کا حکم دیں تو واقعی تو مجھ کو قتل کرڈالے گا۔ محیصہؓ نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! اگر تیری گردن مارنے کا حکم دیتے تو ضرور تیری گردن اُڑا دیتا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد ذرّہ برابر تیرے بھائی ہونے کا خیال نہ کرتا۔ حویصہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور بے ساختہ یہ بول اُٹھے کہ خدا کی قسم یہی دین حق ہے جو دِلوں میں اس درجہ راسخ ،مستحکم اور رگ و پے میں اس درجہ جاری و ساری ہے۔ اس کے بعد حویصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سچے دل سے اسلام قبول کیا۔ 29

اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شاتم رسول کی سزا میں دوستی اور بھائی کا رشتہ بھی مانع نہیں آتا۔

یہ واقعہ علمائے سیر کے نزدیک مشہور ہے کہ آخری واقعہ جو خزاعہ اور کنانہ کے مابین پیش آیا، وہ یہ ہے کہ انس بن زنیم الدیلی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی۔ قبیلہ خزاعہ کے ایک لڑکے نے سن لیا اور اس نے انس پرحملہ کردیا اور اس کے سر پر چوٹ ماری۔ وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور اپنا زخم دکھایا جس سے فتنہ بازی کا آغاز ہوا۔بنوبکر پہلے ہی خزاعہ سے اپنے خون کا مطالبہ کررہے تھے۔

واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی، قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنے کے لئے نکلا۔اُنہوں نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا جو ان کو پیش آیا تھا اور اس قصیدے کا بھی ذکر کیا جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے : لاھم إني ناشد محمدًا

اور جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو اُنہوں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انس بن زنیم الدیلی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اللہؐ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔ جب انس بن زنیم کو پتہ چلا تو وہ معذرت طلبی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں مدحیہ کہا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔

واقدی کہتے ہیں کہ 'حرام' نامی شخص نے مجھے وہ قصیدہ سنایا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ قصیدہ بھی پہنچا اور اس نے جو معذرت چاہی تھی وہ بھی پہنچی اور نوفل بن معاویہ الدیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوا۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ معاف کرنے کے اہل ہیں ۔ ہم میں سے کون ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت نہ رکھی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا نہ ہو۔ دورِ جاہلیت میں ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا چیز لیں اور کیا نہ لیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ نے ہمیں ہدایت سے نوازا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہمیں ہلاکت سے چھڑایا۔ قافلہ والوں نے اس پر جھوٹ باندھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مبالغہ آمیزی سے کام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قافلہ کا ذکر چھوڑئیے، ہم نے سرزمین ِتہامہ میں کسی دور و نزدیک کے رشتہ دار کو نہیں دیکھا جو خزاعہ سے زیادہ اطاعت شعار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوفل بن معاویہ کو خاموش کرا دیا۔ جب وہ خاموش ہوگیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اسے معاف کیا۔ نوفل نے کہا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ۔30

اس واقعہ میں وجہ استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے سال دس برس کے لئے قریش کے ساتھ مصالحت کرلی تھی۔ قبیلہ خزاعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف بن گیا تھا، ان میں سے اکثر مسلمان ہوچکے تھے۔ ان کے مسلم اور کافر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہمہ تن پیکر ِہمدردی وخیرخواہی تھے۔ بنوبکر قریش کے حلیف بن گئے، یہ سب لوگ آپ کے معاہد بن گئے۔ اور یہ وہ بات ہے جوتواتر سے ثابت ہے اور اہل علم کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔

انس بن زنیم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھاکہ معاہد ہونے کے باوجود اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے۔ چنانچہ قبیلہ خزاعہ کے کسی آدمی نے اس کے سر پر چوٹ ماری اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو لکھی ہے۔ اس سے ان کا مقصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنوبکر کے خلاف بھڑکانا تھا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا اور کسی اور کے خون کو رائیگاں قرار نہ دیا۔ اگر اُنہیں یہ بات معلوم نہ ہوتی کہ معاہد کی ہجوکہنے سے اس سے انتقام لینا واجب ہوجاتا ہے تو وہ ایسا نہ کرتے۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا حالانکہ اس نے معاہد ہوتے ہوئے ہجو گوئی کا ارتکاب کیاتھا۔ لہٰذا یہ اس ضمن میں واضح دلیل ہے کہ ہجو گو معاہد کا خون مباح ہوجاتا ہے۔

بعد ازاں جب وہ حاضر ہوا تو اس نے اپنے اشعار میں اسلام لانے کا اظہار کیا۔ اسی لئے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں شمار کیا گیا ہے۔ اس کے اشعار میں یہ الفاظ کہ ''تعلَّم رسول اﷲ اور نبي رسول اﷲ'' اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ پہلے اسلام لاچکا تھا یا یہ کہ اس کا یوں کہنا ہی اس کا اسلام لانا ہے۔ اس لئے کہ بت پرست جب محمد رسول اﷲ کہے تو اسے مسلم قرار دیا جائے گا۔ اس نے ہجو گوئی سے انکار بھی کیا تھا اوران لوگوں کی شہادت کو یہ کہہ کر ردّ کردیا تھا کہ وہ اس کے دشمن ہیں ، اس لئے کہ دونوں قبیلوں کے درمیان عرصہ سے حرب و ضرب کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔ اگر اپنی اس حرکت سے وہ مباح الدم نہ ہوجاتا تو اسے اس بات کی ضرورت نہ تھی۔

پھر اسلام لانے، معذرت خواہی، مخبرین کی تردید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح گوئی کے بعد اپنے خون کو رائیگاں قرار دینے کے بارے میں اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی طلب کی، حالانکہ معافی تب دی جاتی ہے جب جرم کی سزا دینے کا جواز موجود ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام لانے اور معذرت خواہی کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سزا دے سکتے تھے، مگر آپ نے تحمل و بردباری کے پیش نظر اس پر کرم نوازی فرمائی اور اسے معاف کردیا۔31

ابورافع یہودی کا قتل :عن البراء بن عازب قال بعث رسول اﷲ ﷺ إلی أبي رافع الیھودي رجالا من الأنصار فأمّر علیھم عبداﷲ بن عتیك وکان أبو رافع یؤذي رسول اﷲﷺ و یُعین علیه 32
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع یہودی کوقتل کرنے کے لئے چند انصار کا انتخاب فرمایا جن پر عبداللہ بن عتیک کو امیر مقرر کیا گیا۔ اور یہ ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔''

ابورافع کے قتل کا واقعہ جو کتب حدیث و کتب تاریخ و سیر میں ذکر کیا گیا ہے، اسے مفصل طور پرملاحظہ فرمائیں ۔ ابورافع ایک بڑا مالدار یہودی تاجر تھا۔ ابورافع اس کی کنیت اور عبداللہ بن الحقیق اس کا نام تھا، اسے سلام بن ابی الحقیق بھی کہتے تھے۔ خیبر کے قریب گڑھی میں رہتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور طرح طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا اور تکلیف پہنچاتا تھا۔ کعب بن اشرف کا معین اور مددگار تھا۔ یہی شخص غزوۂ احزاب میں قریش ِمکہ کو مسلمانوں پراُبھار کرلایا تھا اور بہت زیادہ ان کی مالی امداد کی اور ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی عداوت میں روپیہ خرچ کرتا رہتا تھا۔33

کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ اور ان کے رفقا رضی اللہ عنہم چونکہ سب قبیلہ اوس کے تھے، اس لئے قبیلہ خزرج کو یہ خیال ہواکہ قبیلہ اوس نے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جانی دشمن اور بارگاہِ رسالت کے ایک گستاخ اور دریدہ دہن کعب بن اشرف کو قتل کرکے سعادت اور شرف حاصل کرلیا لہٰذا ہم کو چاہئے کہ بارگاہِ نبوتؐ کے دوسرے گستاخ اور دریدہ دہن ابورافع کو قتل کرکے دارین کی عزت و رفعت حاصل کریں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ابورافع کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ 34

اور عبداللہ بن عتیک، مسعود بن سنان، عبداللہ بن انیس، ابوقتادہ، حارث بن ربعی اور خزاعی بن السود رضی اللہ عنہم کو اس کے قتل کے لئے روانہ فرمایا اور عبداللہ بن عتیکؓ کو ان پر امیر بنایا اور تاکید فرمائی کہ کسی بچے اور عورت کو ہرگز قتل نہ کرنا۔35

نصف جُمادی الا ُ خریٰ 3 ہجری کو حضرت عبداللہ بن عتیکؓ مع اپنے رفقا ؓ کے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ 36

صحیح بخاری میں حضرت برائؓ بن عازب سے مروی ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد لوگ جب اپنے جانور چرا گاہ سے واپس لاچکے تھے تو یہ لوگ خیبر پہنچے۔ابورافع کا قلعہ جب قریب آگیا تو حضرت عبداللہ بن عتیکؓ نے اپنے رفقا سے کہا: تم یہیں بیٹھو، میں قلعہ کے اندر جانے کی کوئی تدبیر نکالتا ہوں ۔ جب بالکل دروازہ کے قریب پہنچ گئے تو کپڑا ڈھانک کراس طرح بیٹھ گئے جیسے کوئی قضاے حاجت کرتا ہو۔ دربان نے یہ سمجھ کر یہ ہمارا ہی کوئی آدمی ہے، یہ آواز دی کہ اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آئو ورنہ دروازہ بند کرتا ہوں ۔ میں فوراً داخل ہوگیا اور ایک طرف چھپ کر بیٹھ گیا۔

ابو رافع بالا خانہ پر رہتا تھا اور شب کو قصہ گوئی ہوتی تھی۔ جب قصہ گوئی ختم ہوگئی اور لوگ اپنے اپنے گھر واپس ہوگئے تو دربان نے دروازہ بند کرکے چابیوں کا حلقہ ایک کیل پر لٹکا دیا جب سب لوگ سوگئے تو میں اُٹھا اور کھونٹی سے چابیوں کا حلقہ اُتار کر دروازہ کھولتا ہوا بالا خانہ پر پہنچا اور جو دروازہ کھولتا تھا، وہ اندر سے بند کرلیتا تھا تاکہ لوگوں کو اگر میری خبر بھی ہوجائے تو میں اپنا کام کرگذروں ۔ جب میں بالا خانہ پر پہنچا تو وہاں اندھیرا تھا اور ابورافع اپنے اہل وعیال میں سو رہا تھا۔ مجھ کومعلوم نہ تھا کہ ابورافع کہاں اور کدھر ہے؟ میں نے آواز دی: اے ابورافع!... ابورافع نے کہا: کون ہے ؟ میں نے اسی جانب ڈرتے ڈرتے تلوار کا وار کیا مگر خالی گیا۔ ابورافع نے ایک چیخ ماری، میں نے تھوڑی دیر بعد آواز بدلی اور ہمدردانہ لہجہ میں کہا ابورافع یہ کیسی آواز ہے؟ ابورافع نے کہا کہ ابھی مجھ پر کسی شخص نے تلوار کا وار کیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے تلوار کا دوسرا وار کیا جس سے اُسے کاری زخم آیا۔ بعد ازاں میں نے تلوار کی دھار اس کے پیٹ پررکھ کر اس زور سے دبائی کہ پشت تک پہنچ گئی جس سے میں سمجھا کہ میں اب اس کا کام تمام کرچکا اور واپس ہوگیا اور ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا تھا۔ جب سیڑھی سے اُترنے لگا تو یہ خیال ہوا کہ زمین قریب آگئی لیکن اترنے میں گر پڑا اور پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ چاندنی رات تھی اور میں نے عمامہ کھول کر ٹانگ کو باندھا اور اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا کہ تم چلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت سناؤ۔ میں یہیں بیٹھا ہوں ، اس کی موت اور قتل کا اعلان سن کر آؤں گا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی اور مرغ نے اذان دی تو خبر دینے والے نے قلعہ کی فصیل سے اس کی موت کا اعلان کیا۔ تب میں وہاں سے روانہ ہوا اور ساتھیوں سے آملا اور کہا: تیز چلو، اللہ نے ابورافع کو ہلاک کردیا۔ ہم وہاں سے چل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خوشخبری سنائی اور جو واقعہ گزرا تھا، وہ سب بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ٹانگ پھیلاؤ۔ میں نے ٹانگ پھیلا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست ِ مبارک پھیرا، ایسا معلوم ہوا گویا کبھی شکایت ہی پیش نہ آئی تھی۔ 37

قتل عبد اللہ بن خطل:یہ پہلے مسلمان ہو گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنا کر صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک غلام اور ایک انصاری ساتھ تھے۔ ایک منزل پر پہنچ کر ابن خطل نے غلام کو کھانا تیار کرنے کے لیے کہا: غلام کسی وجہ سے سو گیا جب بیدار ہوا تو ابن خطل نے دیکھا کہ اس نے ابھی تک کھانا تیار نہیں کیا۔غصہ میں آ کر اس غلام کو قتل کر ڈالا بعد میں خیال آیا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور مجھے اس کے قصاص میں قتل کریں گے۔چنانچہ مرتد ہو کر مکہ چلا آیا اور مشرکین سے جا ملا اور صدقات کے اونٹ بھی ساتھ لے گیا۔

آپؐ کی ہجو میں شعر کہتا تھا اور باندیوں کو ان اشعار کے گانے کا حکم دیتا۔پس اس کے تین جرم تھے: ایک خونِ ناحق، دوسرا مرتد ہو جانا اور تیسرا جرم یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں شعر کہنا۔ابن خطل فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑے ہوئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہیں قتل کر ڈالو۔''چنانچہ ابو برزہ اسلمیؓ اور سعد بن حریثؓ نے اُسے وہیں جا کر قتل کیا اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کی گردن اُڑا دی گئی۔38

ابن خطل کی لونڈیاں : قرتنی اور قریبة یہ دونوں ابن خطل کی لونڈیاں تھیں ۔شب وروز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو گاتی رہتی تھیں ۔ مشرکین مکہ کسی مجلس میں جمع ہوتے توشراب کا دور چلتا اور یہ دونوں آپؐ کی ہجو میں اشعار پڑھتیں اور گاتی بجاتی تھیں ۔ ایک ان میں سے ماری گئی اور دوسری نے اَمن کی درخواست کی تو اس کو امن دے دیا گیا اورحاضر ہو کر مسلما ن ہو گئی۔ 39

سارہ جاریہ بنو المطلب کا خون بھی مباح قرار دے دیا گیا تھا۔یہ مکہ کی ایک مغنیہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار گایا کرتی تھی ۔کہا گیا ہے کہ یہ وہی عورت تھی جو حضرت حاطب ؓ بن ابی بلتعہ کا خط لے کر مکہ کو روانہ ہوئی تھی۔اس نے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تنگدستی کی شکایت پیش کر کے آپ سے مدد مانگی تھی۔جس پر آپؐ نے فرمایا: کیا تمہیں اپنے گانے سے کچھ روپیہ نہیں ملتا؟ عرض کیا :جب سے غزوئہ بدر میں قریش کے آدمی مارے گئے ہیں ، اس وقت سے اُنہوں نے گانا سننا ہی چھوڑ دیا ہے پس آپؐ نے اس پر ترس کھا کر اس کو ایک اونٹ پر غلہ بار کر کے عنایت فرما دیا جسے لے کر یہ مکہ واپس آ گئی ۔ ابن خطل اُنہیں رسول اللہ ؐ کی شان میں ہجو لکھ کر دیتا او ریہ گاتی تھی۔ اسی بنا پر فتح مکہ کے دن روپوش ہو گئیں مگر ان کے لیے آنحضرت ؐ سے امان کی درخواست کی گئی اور اس نے حاضر خدمت ہو کر اسلام قبول کر لیا اور پکی مسلمان رہیں ۔یہ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانۂ خلافت تک زندہ رہیں ۔ 40

قتل حویرث بن نقید:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا خون مباح قرار دیا تھا کیونکہ یہ آپؐ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرتا اور آپؐ کی ہجو میں اشعار کہتا تھا۔جب آپ ؐ مکہ میں تھے تو آپؐ کو بہت اذیت پہنچایا کرتا تھا اور جب آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ نے مکہ سے ہجرت فرمائی تو ان کے اونٹ کو لکڑی چبھو کر بھڑکانے میں یہ بھی ہبار بن اسود کا شریک تھا۔ اس لیے حضرت علیؓ نے اس کا کام تمام کر دیا۔41


حوالہ جات
1. ابوداود:4362'ضعیف'
2. الصارم المسلول: ص62
3. ابن حبان :11؍291، رقم :8382'صحیح'
4. سنن ابوداود:4361'صحیح'
5. الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول:ص68
6. نیل الاوطار:7؍189
7. حاشیہ نسائی:7؍109
8. معالم السنن:3؍295
9. الصارم المسلول: ص92
10. سنن ابوداود: 4363 'صحیح'
11. الصارم المسلول: ص94
12. الصارم المسلول: ص205
13. الصارم المسلول: ص95
14. الصارم المسلول: ص94ومجمع الزوائد: 6؍460
15. الصارم المسلول:ص 104
16. زرقانی: 2؍ص9
17. فتح الباری : ج7؍ص338
18. ایضاً :7؍237
19. صحیح بخاری:4037
20. فتح الباری : ج7؍ص340
21. فتح الباری : ج7؍ص340
22. عیون الاثر: 1؍300
23. ج5؍ص307
24. ج5؍ص307
25. ج5؍ص307
26. ج5؍ص 308
27. ج5؍ص 308
28. الشفاء:2؍ 489
29. استیعاب :4؍1463
30. کتاب المغازی: 2؍791
31. الصارم المسلول ص106
32. صحیح بخاری:4039
33. البدایة و النهایة:4؍137
34. فتح الباری :7؍342
35. ایضاً:7؍ 343
36. تاریخ طبری:ج3؍ ص6
37. صحیح بخاری: 4039
38. الصارم المسلول: ص 132 و زرقانی شرح موطا: 2؍ 314 وکتاب المغازی از واقدی :2؍ 859
39. زرقانی:2؍ 315
40. کتاب المغازی :2، 860
41. کتاب المغازی للواقدی : 2؍ 857