’روایت مسلسل بالمصافحہ‘ کا تحقیقی جائزہ

اِمسال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں لاہور میں ایک نئی بدعت کا احیا ہوا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک موضوع وغیرمعتبر روایت کی بنا پر اپنے پیروکاروں کو جنت کے ٹکٹ بانٹنا شروع کئے۔ اور یہ دعویٰ کیا کو جو شخص مجھ سے مصافحہ کرے گا، اس کے لئے اس روایت کی رو سے جنت لازم ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ اس مصافحہ کے لئے لوگوں کی قطاریں لگیں بلکہ اس کی مصدقہ سندبھی ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جاری کی جانے لگی، جس پر ان کے دستخط اور مہر بھی ثبت ہے۔ لوگوں کو اس قدر آسانی سے جنت کے پرمٹ ملیں تو اور کس چیز کی ضرورت ہے... ؟
کتاب وسنت اور علومِ نبوت کے محافظوں کو حسب ِسابق اس صورتحال پر گہری تشویش ہوئی اور اُنہوں نے اس بنیاد کا سراغ لگایا، جس پر یہ سارا ڈھونگ کھڑا کیا گیا ہے۔ ذیل میں اسی روایت کا تفصیلی وتحقیقی جائزہ قارئین ِ محدث کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے جسے ادارہ محدث کے ریسرچ فیلو جناب کامران طاہر نے تحریر کیا ہے۔ حدیث وسنت کے متوالوں کا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو بھی اسی حد تک پھیلائیں جہاں جہاں اس بدعت کا بول بالا ہوا ہے تاکہ ہمارے ذمے عائد اسلام کی حفاظت کا فرض پورا ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا قیامت تک محافظ ومددگار ہے۔ واﷲ المستعان (ح م)


آج کل ہمارے ہاں اس روایت کا بڑا چرچا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''من صافحني أو صافح من صافحني إلیٰ یوم القیامة دخل الجنة'' ''جس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور جس نے مجھ سے مصافحہ کرنیوالے سے قیامت تک مصافحہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔''

'حدیث ِمسلسل' سے مراد محدثین کے ہاں ''کسی حدیث کی سند کے رواة کی کسی ایک حالت یاصفت کا تسلسل سے منقول ہونا ہے۔'' جس حدیث میں یہ حالت یا صفت پائی جائے، اسے حدیث ِمسلسل کہتے ہیں ۔زیر بحث روایت میں چونکہ راویان کی صفت 'باہمی مصافحہ' کا ذکر ہے، اس لیے یہ روایت مسلسل بالمصافحہ کے نام سے مشہور ہے۔

ذیل میں یہ واضح کیاجائے گاکہ محدثین کے ہاں اس روایت کی حیثیت کیا ہے؟

اس روایت کو محمد عبدالباقی الانصاری نے اپنی کتاب مناھل السلسلة في الأحادیث المسلسلة میں مکمل سند کے ساتھ یوں ذکر کیا ہے :
صافحني شیخنا فالح بن محمد الظاهري قال: من صافحني أو صافح من صافحني إلیٰ یوم القیامة دخل الجنة۔قال: صافحني شیخنا الأستاذ محمد بن علي الخطابي وقال: من صافحني أو صافح من صافحني إلی یوم القیامة دخل الجنة، صافحني الأستاذ محمد بن عبد السلام الناصري وقال: کذلك صافحني الإمام أبو الحسن علي بن محمد بن ناصر وقال کذلك عن والدہ وقال: کذلك عن أبي إسحاق السباعي کذلك قال: صافحني أبو سالم عبداﷲ العیاش قال: کذلك صافحني أبومهدي عیسٰی بن محمد الثعالبي وقال: کذلك صافحني أبو عثمان سعید الجزائري وقال: کذلك صافحني أبو عثمان سعید بن أحمد المقري وقال: کذلك صافحني سیدي أحمد حجي الوھراني وقال: کذلك صافحني الإمام الزواوي وقال: کذلك صافحني الشریف محمد الفاسي نزیل الإسکندریة وقال: کذلك صافحني والدي الشریف عبدالرحمن وعاش من العمر مائة وأربعین وقال: کذلك صافحني الشھاب أحمد بن عبد الغفار بن نوح القوصي وقال: کذلك صافحني أبو العباس الملثم وقال: کذلك صافحني المعمر وقال: کذلك قال: صافحني رسول اﷲ ﷺ وقال: من صافحني أو صافح من صافحني إلی یوم القیامة دخل الجنة 1

اسی معنی کی ایک اور روایت ابوسعیدا لحبشی الصحابی المعمر سے روایت کی گئی ہے اور اس میں ابن طیب کے حوالے سے یہ اضافہ بھی کیا گیاہے :
من صافحني صافحته یوم القیامة ووجبت عليّ شفاعته وکذا من صافح من صافحني إلی سبع مرات وجبت عليّ شفاعته 2

علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کے متعلق اس معنی کی روایات خضر ؑ اور قاضی شمہورش جنی صحابی سے بھی مروی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا اُمت ِمحمدیہؐ پر یہ احسان ہے کہ اس نے شریعت ِمحمدی کو غش و غل سے محفوظ رکھنے کے لئے اسباب پیدا فرما دیے کہ دین کے اس چشمہ صافی کو گدلا کرنے کی کوئی کوشش آج تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدصحابہ کرامؓ ایسا مصدر تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے کماحقہ گواہ تھے، پھر ان ہستیوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب من گھڑت روایات کا دور دورہ شروع ہوا جن کی روک تھام کے لئے اللہ تعالیٰ نے محدثینکا سلسلہ پیدا فرمایا جنہوں نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جمع فرمایا بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں راوی اور روایت کو پرکھنے کے ایسے متفقہ اُصول وضع کئے کہ من گھڑت روایات احادیث ِرسول ؐ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں ۔انہوں نے ان اُصولوں کی کسوٹی پر ہر ایک راوی کو پرکھا جس کی زد میں بظاہر زہد و تقویٰ کے مرقع، ائمہ و صلحا اور صوفیا سب کے سب آئے اور اس طرح کھرے کو کھوٹے سے الگ کردیا گیا۔

اس سلسلہ میں محدثین کرام کی روشن دماغی اور گرانقدر خدمات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق لایا گیا انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا تو زندیق نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! آپ کیا سمجھتے ہیں ، میں نے آپ کے درمیان چار ہزار حدیثیں گھڑی ہیں او ران میں حلال کو حرام اورحرام کو حلال کیا ہے جس کا ایک حرف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا۔(میرے قتل کر دینے سے یہ حدیثیں تو نہیں مٹ جائیں گی؟)یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا : ''أین أنت یا زندیق؟ من عبد اﷲ بن المبارك وأبي إسحاق الفرازي ینخلانها فیخرجانها حرفا حرفا '' '' اے زندیق ! تو عبد اللہ بن مبارک اور ابو اسحق فرازی سے بچ کر کہاں جائے گا؟ وہ تیری ان واہیات کو چھانٹ لیں گے اور اس کا ایک ایک حرف الگ نکال لیں گے۔'' 3

محدثین نے اسناد کا سلسلہ شروع کرکے ہر مفتری و فاسق کا قافیہ تنگ کردیا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ کرسکے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کہی ہو۔ عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء'' ''اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔'' 4

محدثین نے جہاں عام رواة کے لئے أسماء الرجال کا علم مدوّن کیا اور رواة پر جرح وتعدیل کے ضوابط مقرر فرمائے،وہاں ایسے لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے مدعی ہیں ، ان کے اس دعویٰ کو پرکھنے کے لئے بھی کئی تفصیلات اور اصول ترتیب دیے اور اس دعوائے صحابیت کی تصدیق کے بعد یہ اُصول بھی طے کردیاکہ صحابہؓ سب کے سب عدول(i)ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی جرح سے مبرا ہیں ۔ 5

لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدعیٔ صحبتعادل ہو، یعنی وہ اپنے صحابی ہونے میں سچا ہو۔ جب کسی کا صحابی ہونا ثابت ہوجائے تو اس پرہر طرح کی جرح ساقط ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ واضعین احادیث نے جب محدثین کی دوسرے ذرائع پر گرفت دیکھی اور نسبت ِصحابیت کے دروازے کو وا جاناتواسے چور دروازہ کے طور پر استعمال کرنا چاہا اور صحابیت کا دعویٰ کرکے روایات بیان کرنا شروع کردیں جبکہ پاسبانِ ورثہ نبوت آنکھیں کھلی رکھے ہوئے تھے، لہٰذا ان کی نظروں سے ایسے مفسد ِدین لوگ بچ نہ سکے اور علوم نبوت کے پہرہ داروں نے ان 'چوروں ' کی نقاب کشائی کا پورا پورا انتظام وانصرام کیا اور ان کے زہد و تقویٰ کے مصنوعی لبادوں کو بیچ چوراہے چاک کیا۔

مذکورہ بالا اور اس معنی کی جملہ روایات کے سلسلۂ سند کی تان چار شخصیات (1)معمر الصحابی(2)قاضی شمہورش جنی(3) ابوسعید الحبشی اور(4)خضر ؑ پر ٹوٹتی ہے۔اور یہ راوی یا تو وہ ہیں جن کی طرف شرفِ صحابیت کو منسوب کیا جاتا ہے یا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسو سال بعد آپؐ سے ملاقات کا دعوی کیا اور ان کے متعلق مشہور ہے کہ ان لوگوں نے لمبی عمر پائی جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو مُعَمّرین کہا جاتا ہے۔

یہاں ہم اپنے بعض قارئین کی یاددہانی کے لئے فن حدیث کے اس مشہور اُصول کا تذکرہ مناسب خیال کرتے ہیں کہ اگر سلسلۂ سند میں کوئی ایک راوی بھی غیر عادل، غیر ثقہ ہو یا سلسلۂ سند کسی ایک مقام سے بھی منقطع ہو تو فن حدیث کی رو سے وہ روایت 'ضعیف' یعنی ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ایسی حدیث سے شریعت ِمطہرہ کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے اس نوعیت کی تمام روایات میں اگر مذکورہ بالا چار بنیادی رواة کا جائزہ لے لیا جائے جو ہر کسی سلسلہ سند میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں ، تو اس سے اس روایت کی فنی وشرعی حیثیت کا واضح تعین بخوبی ہوجائے گا۔

مذکورہ بالا چاروں راوی اپنی اپنی روایت میں اس امر کے مدعی ہیں کہ انہوں نے یہ فرمان نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ گویا وہ اس طرح اپنے شرفِ صحابیت کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ محدثین نے مدعیانِ صحبت ِنبوی ؐکے متعلق حدیث (أرأیتکم لیلتکم ھذہ فإن رأس مائة سنة عنھا لا یبقي فمن ھو علی ظھر الأرض أحد) 6 اور (ما علی الأرض من نفس منفوسة الیوم یأتي علیھا مائة وھي حیة یومئذ)7'' آج سے سوسال بعد جو ذی روحبھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔'' سے یہ اُصول اَخذ کیا ہے کہ مدعی صحبت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد سوسال کے بعد کانہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان10؍ہجری کا ہے جبکہ علیٰ الاطلاق آخری صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہؓ ہیں جس پر محدثین کا اتفاق ہے۔8 اور آپؓ راجح قول کے مطابق 110ھ میں فوت ہوئے۔ 9

گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد ابوطفیلؓ صحابہؓ میں سے آخر میں فوت ہونے والے شخص تھے، ان کے بعد روئے زمین پر کوئی بھی صحابیؓ باقی نہ رہا۔ اس وجہ سے 110ہجری کے بعد کے مدعیانِ صحبت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ مذکورہ تمہید کے بعد اب ہم روایات کے مرکزی کرداروں کا بالترتیب ذکر کرکے ان کی حیثیت واضح کرتے ہیں ۔

ابوعبداللہ المعمرالصحابی کی حیثیت ؛ ماہرین فن کی نظر میں
حافظ ابن حجر کے اقوال: یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت ابوطفیلؓ کی وفات کے بعد صحابیت کا دعویٰ کیا اور اس کی عمر 400 سال بتائی جاتی ہے اور اس کی اس روایت کو روایت مسلسل بالمصافحة المعمریةکہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
''شخص اختلق اسمَه بعض الکذابین من المغاربة'' 10
''اس کردار کو مغاربہ کے بعض کذاب لوگوں نے گھڑا ہے۔''

مزید معمر بن بُریک کے ترجمہ میں اس کا ذکر یوں کرتے ہیں : ''وقد وقع نحو ھذا في المغرب محدث شیخ یقال له أبوعبد اﷲ محمد الصقلي قال: صافحني شیخی أبو عبد اﷲ معمر وذکر أنه صافح النبي ﷺ وأنه دعا له فقال له: عَمَّرك اﷲ یا معمر فعاش أربع مائة سنة وأجاز لي محمد بن عبد الرحمن المکناسي من المغرب بضع عشرة وثمان مائة أنه صافح أباہ صافح شیخا یقال له: الشیخ علي بن الخطاب بتونس وذکر له أنه له مائة وثلاثة وثلاثین عامًا وأن الخطاب صافح الصقلي وذکر أنه عاش مائة وستین سنة قال الصقلي: صافحني شیخي أبو عبد اﷲ معمر وذکر أنه صافح النبي ﷺ وأنه دعا له فقال: عمّرك اﷲ یا معمر فعاش أربع مائة سنة۔ فھذا کله لا یفرح به من له عقل۔ 11
''مغرب میں ایک محدث شیخ جنہیں ابوعبداللہ محمد صقلی کہا جاتا ہے، نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ ابوعبداللہ معمر نے مصافحہ کیا اور ذکر کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعا کی کہ اے معمر! اللہ تجھے لمبی عمر دے۔ پس وہ 400 سو سال تک زندہ رہے اور مجھے اجاز ت دی محمد بن عبدالرحمن مکناسی مغربی نے تقریباً 810ھ میں کہ اس نے اپنے باپ سے مصافحہ کیا جنہوں نے اپنے شیخ علی بن خطاب تیونسی سے مصافحہ کیا اور ا س کی عمر 133 سال تھی اور خطاب نے صقلی سے مصافحہ کیا اور اس کی عمر 160 سال تھی اور صقلی نے کہا کہ مجھ سے مصافحہ کیا میرے شیخ ابوعبداللہ معمر نے اور اُنہوں نے ذکر کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعا دی، فرمایا: اے معمر! اللہ تیری عمر دراز کرے۔ پس وہ 400 سال تک زندہ رہے۔ (میں ابن حجر کہتا ہوں ) کوئی عقل مند آدمی ان باتوں سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔''

اور اسی طرح ابن حجر الملثم کے طریق سے اسناد بیان کرکے لکھتے ہیں : ذلك مما لا أَعتَمِد علیه ولا أَفرح بعلوہ ولا أذکرہ إلا استطرادًا 12
''یہ سلسلۂ اسناد ایسا ہے کہ میں اس پراعتماد نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے عالي سند ہونے پر خوش ہوں بلکہ میں نے ضمناً اُنہیں ذکر کردیا ہے۔''

مزید، الصقلي کے طریق سے سند بیان کرکے لکھتے ہیں : وھذا من جنس رتن وقیس بن تمیم ومُکلبة ونَسطور 13
''یہ (معمر) رتن(ii)، قیس بن تمیم(iii)، مکلبہ(iv) اور نسطور(v) کے قبیل سے ہے۔''

عبدالباقی انصاری اس روایت کے ضمن میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
''المعمر شخص من المغاربة اختلف في اسمه وھو من الکذابین'' 14
''معمر ایک مغربی شخص ہے، اس کے نام میں اختلاف ہے اور یہ انتہائی جھوٹاآدمی ہے۔ ''

اسی معمر کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے علامہ صغانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وما یحکیٰ عن بعض الجھال من أنه اجتمع بالنبي علیه السلام وسمع منہ ودعا له النبي ﷺ بقوله ''عمّرك اﷲ'' لیس له أصل عند أئمة الحدیث وعلماء السنة،وکلھا موضوعة ولم یعش من الصحابة ممن لقِي النبي علیه السلام أکثر من خمس وتسعین سنة وھو أبوطفیل فبکوا علیه وقالوا: ھذا آخر من لقي النبي واجتمع بالرسول ﷺ وھذا ھو الصحیح تصدیقا لقوله ﷺ حین صلی العشاء الآخرة في آخر عُمُرہ لیلة فقال لأصحابه: (أرأیتکم لیلتکم۔ ۔ ۔ الخ)
''بعض جہال کے بارے میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور نبی کریمؐ نے اس کے لئے اللہ سے درازیٔ عمر کی دعا کی۔ اس روایت کی ائمہ حدیث اور علماے سنت کے نزدیک کوئی اصل نہیں ، ایسی روایات سب کی سب موضوع ہیں ۔ صحابہؓ میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد 95 سال سے زیادہ زندگی نہیں گزاری اور وہ (اتنی مدت گزارنے والے صرف) ابوطفیلؓ ہیں ، جن کی وفات پر لوگ روتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری صحابی ؓ ہیں اور یہی بات نبی ؐ کے اس فرمان کے مطابق درست و مصدقہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں عشا کی نماز پڑھائی اور اپنے اصحاب کو فرمایا: (أریتکم لیلتکم۔۔۔ الخ)

ایسی روایات اور اس نوعیت کے دعوؤں کے بارے میں علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قلت: ودعوٰی من ادعی الصحبة أو ادّعِیتْ له بعد أبي الطفیل وھم جبیر ابن الحارث والربیع بن محمود الماردني ورتن وسرباتك الھندیان ومعمر ونسطور أو جعفر بن نسطور الرومي وبسر بن عبیداﷲ الذین کان آخرھم رتن فإنه فیما قیل: مات سنة اثنتین وثلاثین وستمائة، باطلة 15
''میں کہتا ہوں کہ حضرت ابوطفیل ؓ کے بعد جس نے صحابیت کا دعویٰ کیا یا جس کے بارے میں صحابی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مثلاً جبیر ابن حارث، ربیع بن محمود ماردنی، رتن ہندی، سرباتک ہندی، معمر، نسطور یا جعفر بن نسطور رومی اور بسر بن عبیداللہ ہیں اور ان میں سب سے آخر میں رتن ہندی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 632ھ میں مرا، یہ دعوی سرا سر باطل ہے۔''

معمر کی روایات کے متعلق ایسا ہی مسئلہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بھی پیش ہوا اور اُنہوں نے تفصیل سے ان روایات کے بارے میں اپنا موقف دلائل کے ساتھ ذکر کیا۔یہ تفصیل علامہ کی اپنی زبانی ان کی ایک کتاب سے من وعن درج ذیل ہے :
''کسی نے ان سے سوال کیا کہ أبو العباس المُلثِّم عن معمر الصحابي أن النبي رآہ یوم الخندق وھو ینقل التراب بغلقین وبقیة الصحابة ینقلون بغلق واحد فضرب بکفه الشریف بین کتفیه وقال له: عمّرك اﷲ یا معمر۔۔۔
''ابوالعباس ملثم معمر صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق والے دن اس کو دیکھا کہ وہ دو پتھروں میں مٹی منتقل کررہا ہے جبکہ باقی صحابہ ؓ ایک پتھر میں مٹی ڈھو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست ِمبارک اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان چار دفعہ مارا اور فرمایا: اے معمر! اللہ تیری عمر دراز کرے ۔'' اور یہ ضربات کی برکت تھی کہ اس کے بعد وہ 400 سال تک زندہ رہا ، چار ضربیں تھیں ، ہر ضرب کے بدلے ایک سو سال عمر میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اس سے مصافحہ کیا اور فرمایا:(من صافحك إلی ست أو سبع لم تمسه النار) ''جو تجھ سے (آگے) چھ یا سات آدمیوں تک مصافحہ کرے گا، اسے جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی۔'' کیا اس کو ائمہ میں سے کسی نے روایت کیا ہے یا یہ کذب وافترا ہی ہے؟

جواب از علامہ سیوطی: رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت ایک دفعہ شیخ صلاح الدین طرابلسی نے امیرتمراز کی مجلس میں روایت کی، میں بھی اس مجلس میں موجود تھا تو میں نے کہا کہ یہ روایت بالکل باطل ہے اور معمر کذاب اور دجال ہے۔ دلیل کے طور پر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک (أرأیتکم لیلتکم ھذہ۔۔۔الخ) پیش کیا اور کہا کہ محدثین کہتے ہیں کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ اور آخری صحابی ابوطفیلؓ 110ھ میں فوت ہوئے تھے تو مجھ سے شیخ صلاح الدین نے اس کے متعلق کہیں لکھا ہوا طلب کیا تو میں نے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی المیزان دیکھی جس میں اُنہوں نے معمر بن بریک کے ترجمہ میں لکھا تھا کہ اس کی عمر دو سو سال تھی اور اس سے پانچ روایاتِ باطلہ روایت کی گئی ہیں جن کا کذب واضح ہے اور وہ رتن ہندی کی قبیل سے تھا ۔اللہ جھوٹ بولنے والے کو ذلیل کرے، تب میں نے شیخ صلاح الدین کو المیزان بھجوائی جس پر اُنہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور دعا دی۔

کافی عرصہ بعد مجھے ایک شخص نے ایک ورقہ دکھایا جس میں شیخ صلاح الدین سے یہ حدیث اور اس کو بیان کرنے کی اجازت بیان کی گئی تھی پس میں نے اسی کاغذ پر لکھ دیا کہ یہ روایت واضح جھوٹ ہے، اس کی روایت اور تحدیث جائز نہیں اور ہر مسلمان جان لے کہ معمر دجال و کذاب ہے اور اس کا یہ قصہ محض کذب و افترا ہے اور کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی سے ایسی روایت لے یا کسی کو روایت کرے اور جو شخص ایسا کرے گا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: (من کذب علي (متعمدًا) فلیتبوأ مقعدہ من النار) کہ ''جس نے مجھ پر (جان بوجھ کر )جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔'' کی زد میں ہے۔

پھر میں نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے معمر کے بارے میں فتاویٰ دیکھے، اُنہوں نے لکھا تھا کہ اس روایت کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں اور معمر کی سندوں میں سے کوئی سند بھی اعتراض سے خالی نہیں حتیٰ کہ معمر خود بھی انہی میں شامل ہے پس جو کوئی بھی صحابیت کا دعویٰ کرے گا تو اس کی ثقاہت ِدعویٰ کا ثبوت مطلوب ہے جبکہ اس کا عقلاً ثابت ہونانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان (آج کے بعد سو سال تک کوئی جان زمین پر نہیں رہے گی) کی نفی کی وجہ سے کسی کو چنداں مفید نہیں اور جو شخص اس کے بعد صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کا دعویٰ اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح مخالف ہے۔

پھر میں نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے مزید فتاویٰ بھی دیکھے جس میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ
''معمر والی روایت بالکل بے اصل ہے اور معمر مذکور یا تو کذاب ہے یا اس کی طرف کسی کذاب نے جھوٹ گھڑا ہے اور علیٰ الاطلاق فوت ہونے والے آخری صحابی ابوطفیل عامر بن واثلہ لیثیؓ ہیں ۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بیان کی ہے اور جو شخص ابوطفیلؓ کے بعد صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے، وہ کاذب ہے۔''16

قاضی شمہورش جنی
اس کا ترجمہ ہ میں کہیں مل نہیں سکا۔ غالباً یہ جنات میں سے تھا جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے۔ علامہ کتانی نے فہرس الفہارسمیں عبد الباقی لکھنوی کے ترجمہ کے تحت قاضي مَھنیة الصحابي الجني کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
''ومن غرائب روایته روایة لنیف وأربعین حدیثا عن جدہ محمد عبد الرزاق عن القاضي مهنیة الجني الصحابي فیما ذکر عن المصطفی ﷺ''
''اسکے غرائب میں سے چالیس سے زائد وہ روایات ہیں جو یہ اپنے دادا محمد عبد الرزاق سے وہ قاضی مہنیہ جنی صحابی سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔'' 17

آغاز میں درج کردہ سند بھی چونکہ عبد الباقی لکھنوی سے ہے، اور علامہ کتانی کا یہ تبصرہ بھی عبد الباقی لکھنوی کے ترجمہ کے ضمن میں درج ہے ، اس لئے شمہورش اور مھنیہ کا ایک ہی جن کے دو نام ہونا بھی خارج از امکان نہیں ۔ بہرحال یہ شخصیت بھی صحابی ہونے کی دعوے دار ہے۔ اور یہ بھی حضرت ابوطفیلؓ کی وفات کے بعد روایت کرتاہے۔ اس کے صحابی ہونے میں حسب ِذیل اُمور مانع ہیں :
(1) مسلمان جنات اگرچہ انسانوں کی طرح شریعت ِمحمدیؐ کے مکلف ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو تسلیم کریں اور شریعت ِمحمدیؐ پر عمل پیرا ہوں جس پر جزا وسزا اور تخاطب ِجن و انس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی نصوص دلیل ہیں ۔

اسی طرح محدثین کے ہاں راجح مسلک کے مطابق ایک جن بھی صحابی ہوسکتا ہے جیسا کہ نصیبین کے جنات کے ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ 18

اسی طرح جنوں کا انسانوں سے سماع کرنا اور جنوں کو سنانا بھی ثابت ہے جس کی دلیل {وَإذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔۔۔الخ}(الاحقاف:29) ہے، لیکن کسی انسان کا جنوں سے روایت لینا بہرحال محل نظر ہے ،کیونکہ روایات کے متعلق اسناد کو پرکھنے کے لئے ائمہ جرح تعدیل نے ضوابط مقرر فرمائے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ اسماء ا لرجال کا فن وجود میں آیا ہے جس میں ہر راوی کے احوال درج ہیں اور اس کی ثقاہت وعدالت پر پوری بحث موجود ہے۔ جبکہ اس غیر مرئی قوم کے رجال کے احوال ضبط میں لانا محال ہے اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اسماء ا لرجال نے اس کی کوشش بھی نہیں کی، لہٰذا جنات کی عدمِ توثیق کی وجہ سے کسی جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہے یا سچ۔ جیسا کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

وأما روایة الإنس عنھم فالظاهر مَنعُھا لعدم حصول الثقة بِعَدَالتِھم ''رہا انسان کا جنوں سے روایت کرنا تو اس کی ممانعت ان کی ثقاہت ِعدالت کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے واضح ہے۔'' 19

اسی طرح ابن حجر ہیتمی مکی نے بعض حفاظ کے حوالے سے لکھا ہے :
توقف في ذلك بعض الحفاظ بأن شرط الراوي العدالة والضبط وکذا مدعي الصحبة شرطه العدالة والجن لا نعلم عدالتھم
''جنوں کی روایت کے بارے میں بعض حفاظ نے راوی کی عدالت و ضبط کی شرط کی وجہ سے توقف اختیا رکیا ہے اور اسی طرح مدعی صحبت کے لئے بھی عدالت کی شرط ہے جبکہ جنات کی عدالت کے بارے میں ہم نہیں جان سکتے ہیں ۔'' 20

لہٰذا روایت کے معاملہ میں جنات پر کسی قسم کا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جبکہ شروع میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مدعی صحبت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ میں سچا ہو جبکہ ایک جن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کا دعویدار ہے تو ہم اس کو جن ہونے کی وجہ سے سچا نہیں مان سکتے، کیونکہ اس کی توثیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ۔ جب کہ کسی انسان کی بھیکوئی مشاہداتی گواہی موجود نہیں کہ اس جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ہے۔

الغرض جنات کے احوال کو درج کرنا انسانوں پر تکلیف ما لا یطاق کے ضمن میں آتا ہے، اسی لئے کتب اسماء الرجال میں جنات کے احوال کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔اس بنا پر کسی روایت کی سند میں کسی 'جن' کے راوی ہونے سے اس راوی کے حالات سے جہالت لازم آتی ہے۔ اور واضح ہے کہ کسی ایک راوی کے حالات کا علم نہ ہونا اس حدیث کے ضعف کے لئے کافی ہے، جیسا کہ اس کے لئے فن حدیث میں مجہول کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور حدیث کی یہ نوعیت ضعیف احادیث کی اقسام میں شمار ہوتی ہے۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس امر کو مستلزم کہ اس فرمان نبویؐ کے صدورکے بعد کسی ذی نفس کی روے زمین پر 100 سال سے زیادہ زندگی غیرثابت شدہ امر ہے۔ چنانچہ مدعی ٔ صحبت جن ہو یا انسان، وہ سب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (ما علیٰ الأرض من نفس منفوسة ۔۔۔الخ) کے قول میں شامل ہیں ۔ لہٰذا محدثین کا مدعی ٔ صحبت کے متعلق یہ اُصول کہ اس کا 110ھ سے پہلے تک ہونا ضروری ہے، اٹل ہے۔ بلکہ علامہ عراقی تو یہاں تک کہتے ہیں :
لو ادعاہ بعد مضي مائة سنة من حین وفاته ﷺ فإنه لا یقبل وإن کانت قد ثبتت عدالته قبل ذلك في الحدیث الصحیح (أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ)
''اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سو سال کے بعد صحابیت کا دعویٰ کردے، اگرچہ اس سے پہلے اس کی عدالت معلوم ہوچکی ہے توبھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے(أرأیتکم لیلتکم ۔۔۔ الخ)'' 21

لہٰذا ان نکات کی بنا پر قاضي شمہورش جني یا قاضي مہنیة کے قول یا روایت کا اسلامی شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ۔

ابو سعید الحبشی الصحابی المعمر
یہ صاحب بھی شرفِ صحابیت کے دعویدارہیں ، جیسا کہ ان کی روایت گزر چکی ہے جسے روایت مسلسل بالمصافحہ بالحبشیہ کہا جاتا ہے،یہ روایت بھی دو وجہ سے قابل ردّ ہے۔

(1) ابو سعید حبشی مجہول شخص ہے۔ رواة ِ حدیث کے حالات کا علم رکھنے والوں نے اس کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ عبدالباقی انصاری نے اپنی مُسلسلمیں اس روایت کی سند پر قاوقجی اور ابن طیب کے شکوک کا تذکرہ کیا ہے :
قال القاوقجي:أبوسعید الحبشي لم یعرف في الصحابة ولعله وممن لم یشتھر وقال ابن الطیب في مسلسلاته: ھي أغرب المصافحات وأوھاھا وأکثرھا جھلا من مبتدء خبرھا إلی منتھاھا وقد أولع بھا الفرس ولا سیما الطائفة النقشبندیة ثم ساق سند المصافحة وقال: فھي مع الجھل برجالھا وعدم معرفة حفاظھا روائح الوضع فائحة من فواتح ألفاظھا۔22
''قاوقجی کہتے ہیں کہ ابو سعید حبشی کا صحابہ میں سے ہونا نامعلوم ہے۔ شاید وہ غیر معروف صحابہ میں سے ہوں اور ابن طیب نے اپنی مسلسلات میں کہا کہ یہ روایت مصافحات کی روایات میں سے عجیب ترین اور ان روایات میں سے سب سے بے کار ہے۔ اس کی ابتدا سے انتہا تک اکثر رواة مجہول ہیں اور اس کی طرف زیادہ تر فارسی لوگ خصوصاً سلسلہ نقشبندیہ کے اصحاب لگاؤ رکھتے ہیں ۔ پھر اس نے مصافحہ والی سند آگے ذکر کی اور کہا کہ'' پس یہ روایت اپنے رواة کی جہالت، حفاظ کی عدمِ معرفت اور ابتدائی الفاظ وغیرہ سب سے اس کی وضع کی بو آر ہی ہے۔''

(2)بالفرض ابوسعید الحبشی کی جہالت دور ہو بھی جائے اور ثقاہت ثابت ہوجائے تب بھی محدثین کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (أرأیتکم لیلتکم...الخ)سے اخذ کردہ اصولی کسوٹی پر اس کا کھوٹا ہونا واضح ہے۔

حضرت خضر علیہ السلام
حضرت خضر ؑ کے متعلق بہت سی موضوع و ضعیف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرنے والی روایت بھی ہے،جو روایت مسلسل بالمصافحة الخضریة کے نام سے مشہور ہے اور یہ روایت مناھل السلسلة ص45 تا 47 میں مختلف اسناد سے حضرت خضر ؑ کے واسطے سے مروی ہے۔

اس روایت کی تحقیق سے متعلقہ چند باتیں قابل غور ہیں :
(1) خضر علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں یا نہیں ؟
(2) ان کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں ؟
(3) ان کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

اب ہم مندرجہ بالا نکات کا جائزہ لںم گے :
حضرت خضر ؑ کے بارے میں تین اقوال ہیں : (1) فرشتہ (2) ولی (3) نبی

(1)جہاں تک حضرت خضر ؑ کے فرشتہ ہونے کا قول ہے اور یہ قول ماوردی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور یہ شاذ قول ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ردّ فرمایا ہے۔ 23

(2)حضرت خضر کا ولی ہونا: اب رہا یہ اختلاف کہ وہ نبی ہیں یا ولی؟ تو واضح ہے کہ یہ اختلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباًتین سو سال بعد اس وقت رونما ہوا جب عجمی تصوف کے علمبرداروں نے مسلمانوں میں اس بے ہودہ عقیدہ کو رواج دینا چاہا کہ معاذ اللہ ولی علم و فضل اور ادراک و معرفت میں نبی سے افضل ہوتا ہے اور وہ باطنی علوم و معارف کی وجہ سے علومِ ظاہری کے حامل جملہ انسانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ الٰہی افکار کے نتیجہ میں قرآن مجید میں مذکور قصہ موسیٰ ؑ و خضر ؑ کے حوالے سے یہ بات مشہور کی گئی کہ حضرت خضر ؑ چونکہ علم لدنی کے حامل اور حضرت موسیٰ ؑ صرف علوم ظاہری سے آشنا تھے اس لئے وہ حضرت خضر ؑ کی خدمت میں حاضری دیتے اور ان کے سامنے زانوے تلمذطے کرتے نظر آتے ہیں ۔

مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ عقیدہ عجمی تصوف کی پیداوار اور بعض صوفیا کی اثر پذیری کا نتیجہ ہے، اسی لئے چوتھی صدی ہجری سے پہلے ایسے غیر حقیقت پسندانہ نظریات کا وجود ناپید رہا۔ بعد میں کچھ مہربانوں نے متعدد ایسی روایات کو وجود بخشا جن سے مذکورہ بالا عقیدہ کی نقلی تائید مقصود تھی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ومن ھٰؤلاء من یفضل الأولیاء علی الأنبیاء وقد یجعلون الخضر من ھؤلاء وھذا خلاف ما أجمع علیه مشایخ الطریق المقتدی بھم دع عنك سائر أئمة الدین وعلماء المسلمین 24
''اور وہ لوگ جو اولیا کو انبیا پر فضیلت دیتے ہیں اور خضر ؑ کوان اولیا میں شمار کرتے ہیں ، یہ دعویٰ ائمہ دین اور علماے مسلمین کی تو بات چھوڑ، ان مشائخ طریقت جن کی اقتدا کی جاتی ہے کے اجماع کے بھی خلاف ہے۔''

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں :
وکل هذہ المقالات من أعظم الجهالات والضلالات بل من أعظم
''اور یہ تمام باتیں عظیم جہالتیں اور بڑی ضلالتیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں ۔'' 25

علامہ ابن ابی العز حنفی کہتے ہیں :
''وأما من یتعلق بقصة موسی مع الخضر علیهما السلام في تجویز الاستغناء عن الوحي بالعلم اللدني الذي یدّعیه بعض مَن عَدِم التوفیق فهو ملحد زندیق۔۔۔ فمن ادّعٰی أنه مع محمد کالخَضِر مع موسٰی أو جوّز ذلك لأحد من الأمة فلیجدِّد إسلامه ولیشهد شهادة الحق فإنه مُفارق لدین الإسلام بالکلیة فضلا عن أن یکون من أولیاء اﷲ وإنما هو من أولیاء الشیطان وهذا الموضع مُفَرق بین زنادقة القوم وأهل الاستقامة'' 26
''اور جو شخص علم لدنی کے ساتھ علم وحی سے بے پرواہی کے جواز کا تعلق موسیٰ علیہ السلام اورخضر علیہ السلام کے قصہ سے جوڑتا ہے ،جس طرح کہ توفیق سے بے بہرہ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں پس وہ ملحد اور زندیق ہے۔جوشخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں نبیؐ کے ساتھ اسی طرح ہوں جس طرح خضر ؑ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے یا وہ امت میں سے کسی کے لیے یہ شرف تجویز کرتا ہے، اسے اپنے اسلام کی تجدید کرنی چاہیے اور کلمہ شہادت پڑھے، کیونکہ وہ دین سے کلی طور پر خارج ہو چکا ہے چہ جائیکہ اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہوبلکہ وہ شیطان کے ولیوں میں سے ہے۔ یہی مسئلہ زنادقہ اور اہل استقامت (اہل السنہ) کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔''

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس عقیدہ کو زنادقہ کی طرف منسوب کیا ہے۔لکھتے ہیں :
'' وکان بعض أکابر العلماء یقول: أول عقدة تحل من الزندقة اعتقاد کون الخضر نبیًا لأن الزنادقة یتذرعون بکونه غیر نبي إلیٰ أن الولي أفضل عن النبي کما قال قائلهم:مقام النبوة في برزخ فویق الرسول ودون الولي
''بعض اکابر علمانے کہا ہے کہ خضر علیہ السلام کے نبی ہونے کا عقیدہ زندیقیت کی پہلی گرہ کھول دیتا ہے،کیونکہ زنادقہ ولی کی نبی پر فضیلت کے لیے خضر علیہ السلام کے غیر نبی ہونے کو آڑ بناتے ہیں جس طرح کہ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا : برزخ میں نبوت کا مقام رسول سے کچھ اوپرا ور ولی سے نیچے ہے ۔'' 27

(3)حضرت خضر علیہ السلام کا نبی ہونا: آپ ؑ کے بارے میں جمہور علما اسی بات کے قائل ہیں کہ آپ نبی تھے۔ ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جمہور اقوال کے مطابق وہ نبی ہیں ۔28

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے (29) میں ،علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے (30) میں اور ابوحیان نے(31) میں حضرت خضر ؑ کے نبی ہونے کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دونوں طرح کے اقوال بیان کرکے راجح اسی کو قرار دیا ہے کہ خضر ؑ نبی تھے، فرماتے ہیں : ''قلت ذلك لأن غالب أخبارہ مع موسی ھي الدالة علی تصحیح قول من قال:إنه کان نبیا'' ''میں کہتا ہوں کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ پیش آنے والے ان کے اکثر واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ان کو نبی قرار دینے والوں کی بات ہی صحیح ہے ۔ 32

حضرت خضر ؑ کی موت وحیات؟
اب حیاتِ خضر ؑ کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں ؟ اس میں بھی جماعت ِصوفیا پیش پیش رہی کہ حضرت خضر ؑ کی حیات کو ثابت کیا جائے جس کے لئے کشف وکرامات اور ایسی روایات جن کا غیر مستند ہونا ظاہر و باہر ہے، کا سہارا لیا گیا۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے خضر ؑ کی زندگی کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں اُنہوں نے حضرت خضر ؑ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور بعد کے زمانہ سے متعلقہ تمام روایات کو ذکر کر کے ہر روایت پر ائمہ جرح وتعدیل کی جرح بھی نقل کردی ہے۔ 33

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے خضر ؑ کی وفات پر محدثین کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو بالاختصاردرج ذیل ہیں :
ابوحیان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور کے مسلک کے مطابق وہ فوت ہوچکے ہیں ۔ ابن ابی الفضل المرسی سے بھی یہی نقل ہے کہ اگر خضر ؑ زندہ ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضرور آتے اور ایمان واتباع سے بہرور ہوتے۔ تفسیر اصبہانی میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت خضر ؑ فوت ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ خضر ؑ اور الیاس ؑ زندہ ہیں ؟ تو اُنہوں نے فرمایا: یہ کیسے ہوسکتاہے؟جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ) 34

اور خود ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
'' قلت: وهو حیث مسلّم یدل أن الخضر المشهور ماتَ ''35
'' میں کہتاہوں اس سے یہی بات مسلم ومشہور ہے کہ خضر فوت ہوچکے ہیں ۔ـ''

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا دعویٰ ہے کہ امام ابن تیمیہ، امام بخاری، ابن جوزی، قاضی ابویعلی حنبلی، علی موسیٰ الرضا، ابراہیم بن اسحق حربی، ابوالحسین بن مناوی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر محدثین ان کی موت کے قائل ہیں ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: المنارالمنیف: ص75 تا78 بتحقیق محمود مہدی استنبولی

اسکے علاوہ درج ذیل نصوص سے بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے :
(1) اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ﴿٣٤...سورۃ الانبیاء
'' ہم نے آپ سے قبل کسی بھی انسان کو دائمی زندگی نہیں دی اگر تم فوت ہو گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے۔''

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے پہلے اور بعد کسی بشر کو زندگی کا استمرار نہیں دیا۔ لہٰذا خضر ؑکے متعلق کس طرح یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں ؟

(2) سورئہ آلِ عمران کی آیت 81 میں تمام انبیاے کرام علیہم السلام کا یہ وعدہ ذکر کیا گیا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١...سورۃ آل عمران
'' یاد کرو ! اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی ۔یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ، ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا: اچھا توگواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔''

حضرت خضر ؑ کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ نبی ؑ تھے جب کہ مذکورہ بالا آیت میں لیے گئے وعدہ میں وہ بھی شامل ہیں اور ان پر بھی یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتے تو آپؐ کی ضرور بالضرور تائید کرتے جس کی ایک بھی نظیر روایات میں موجود نہیں ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ۔

(3)نبی ؐنے فرمایا: (لو کان أخي موسی حیًا ما وسِعه إلا اتباعي) vi
''اگر میرا بھائی موسیٰ زندہ ہوتا تو اسے بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا۔'' 36

اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر خضر ؑ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ ہوتے تو آپؐ پر ایمان لاتے جس کا تذکرہ کہیں موجود نہیں ۔
نبیؐ نے فرمایا:(ما علیٰ الأرض من نفس منفوسة الیوم یأتي علیها مائة وهي حیة یومئذ) 37
'' آپ سے سو سال کے بعد جو ذی نفس بھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔''

بالفرض حضرت خضر ؑ کا وجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مان بھی لیا جائے تو وہ اس روایت کے عموم میں شامل ٹھہرتے ہیں جو کہ ان کی موت ثابت کرتا ہے۔

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ) اور اس معنی کی دوسری روایات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : فھذہ الأحادیث الصحاح تقطع دابر دعوٰی حیاة الخضر 38''یہ روایاتِ صحیحہ حیاتِ خضر ؑکے دعویٰ کی جڑکاٹ دیتی ہیں ۔''
اب ہم خضر ؑ کی وفات اور ان کی حیات سے متعلقہ وارد شدہ روایات کی حیثیت پر علما و محدثین کے مزید اقوال بیان کرتے ہیں :
(1) ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی کتاب عجالة المنتظر في شرح حالة الخضر میں حیاتِ خضر ؑسے متعلقہ روایات کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ وہ تمام مرفوع روایات موضوع ہیں اور اُنہوں نے صحابہؓ و تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب آثار کا ضعف بھی واضح کیا ہے۔ 39
(2) ابوالخطاب کہتے ہیں : جمیع ما ورد في حیاته لا یصح منه شيء باتفاق أھل النقل''اہل نقل اس پر متفق ہیں کہ حیاتِ خضر ؑ کی جمیع روایات میں سے کوئی بھی مستند نہیں ۔'' 40
(3) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح بات وہی ہے جس پر محققین قائم ہیں کہ خضر ؑ فوت ہوچکے ہیں ۔ اگر وہ موجود ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے اور ان پر زمانہ نبویؐ میں فرض تھا کہ وہ ایمان لاتے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے جس طرح کہ سب پر جہاد فرض تھا۔ 41
(4) ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ومنھا الأحادیث التي یذکر فیھا الخضر وحیاته، کلھا کذب ولا یصح في حیاتي حدیث واحد
''اور اسی میں سے وہ احادیث جن میں خضر ؑ اور ان کی زندگی (کے استمرار) کا ذکرہے، وہ سب کی سب باطل ہیں ۔ ان کی حیات سے متعلقہ (ایسی) ایک بھی حدیث مستند نہیں ۔'' 42

خلاصہ: مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ
(1) حضرت خضر ؑ نبی تھے۔ (2) وہ فوت ہوچکے ہیں ۔ اور(3) ان کی حیات کی تمام روایات غیر مستند ہیں ۔

اور اب ہم روایت ِمصافحہ کی طرف لوٹتے ہیں کہ جب آپؑ کی حضرت موسیٰ ؑ سے مفارقت ہوئی، اس کے بعد آپ ؑ کے احوال کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہے اور اسی طرح جو مرفوع روایات یا آثارِ صحابہ ملتے ہیں ، وہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ آپؑ کی وفات پر قرآن و سنت کی نصوص اور علما محققین کی آرا موجود ہیں تو ان حالات میں اگر کوئی حضرت خضر ؑسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات یا خود ان سے روایت کا ذکر کرتا ہے تو ایسا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔

مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں روایت مسلسل بالمصافحہ کی صحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خضر علیہ السلام کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو، اس کا کوئی ثبو ت نہیں اور یقینا خضر ؑ سے مصافحہ کا مدعی غلطی پرہے یا تو وہ خود جھوٹ بول رہا ہے یا وہ کسی شیطان سے ملاقات کربیٹھا ہے۔

یہاں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا حوالہ دینا برمحل ہوگا :
''من أحال علی غائب لم ینصف منه وما ألقی ھذا إلا شیطان''
''جو غائب (فوت شدہ) سے ملاقات کا حوالہ دیتا ہے، اس سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ (یقینا) یہ بات شیطان کی طرف سے القا ہوئی ہے۔ '' 43

لہٰذا یہ روایت بھی خانہ ساز اور صوفیا کی طرف سے مشہور کیا گیا محض ایک دعویٰہے جس کا اللہ کے رسولؐ اور حضرت خضر ؑ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جملہ روایاتِ مصافحہ پر ایک تبصرہ
اب ہم مجموعی طور پر مختلف لوگوں کی طرف منسوب مصافحات پر حنفی عالم ابوغدہ عبدالفتاح الکوثری کا تبصرہ ذکر کرتے ہیں ۔ ابوغدہ، ملا علی قاری حنفی کی کتاب المصنوع کی تحقیق میں مصافحہ والی روایت کے تحت لکھتے ہیں :
''شیخ محمد بن قاسم بن علی ہندی حیدر آبادی اپنی کتاب القول المستحسن في فخر الحسن کے ص 496 پر لکھتے ہیں :
(جعلی روایات میں ) سات قسم کے مصافحات کا ذکر ملتا ہے :
(1) المصافحة العلویة الحسنیة: حضرت علیؓ کا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کرنا
(2) المصــافـحـــة الأنسیـــة: ابوہرمز کا انس بن مالکؓ سے مصافحہ کرنا
(3) المصافحــة الخــضریــة: حضرت خضر ؑ سے مصافحہ کی نسبت
(4) المصافحة المعمریة الحبشیة: حبشہ کے معمرین میں سے کسی کی طرف منسوب
(5) المصافحة المعمریة المغربیة: اس مصافحہ کی نسبت معمر مغربی کی طرف ہے
(6) المصـــافحــة الجــنــیــة : شمہورش جنی کی طرف منسوب مصافحہ

یہ سب باطل اور بے وزن باتیں ہیں اور یہ درست نہیں کہ ان باتوں سے خوش ہوا جائے یا کوئی طالب علم ان کی تصدیق کرے۔ 44

آخری بات:روایات مسلسل بالمصافحہ پر مذکورہ بالا جرح کے بالمقابل ائمہ صوفیا ان روایات کو صحیح خیال کرتے ہیں اور اس طرح بعض متساہلین نے اپنی کتب میں ان روایات کو جگہ دی اور اُنہیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان روایات پر محدثین کرام کی قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی واضح نصوص کی بنیاد پر جرح کے برعکس صوفیا کے نزدیک ان کی صحت کا معیار دو چیزیں ہیں :
(1) کشف کی وجہ سے ان روایات کی صحت کو پرکھا گیا ہے۔
(2) اور یہ کہ خضر ؑ اور دوسرے معمرین (أرأیتکم لیلتکم ۔۔۔ الخ) کے عموم سے خاص ہیں ۔ 45

اوّل الذکر اُصول کا محدثین کے ہاں کوئی وزن نہیں کہ کشف کے ذریعے کسی روایت کی صحت پرکھی جائے۔اور اس اصول کو پیش کرنا دور کی کوڑی لانے کے مصداق ہے۔ جبکہ آخر الذکر دعویٰ میں خصوص کی کوئی دلیل نہیں جو انہیں (أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ) کے عموم سے خارج کردے، یوں بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات پر کئی دیگر قرآنی دلائل بھی شاہد ہیں ۔ لہٰذا بلا دلیل عام کو خاص کرنا بے اُصولی اور بے جا ضد ہے جو شریعت ِمطہرہ میں نا قابل قبول ہے۔


حوالہ جات
1. ص :50
2. ص 54،55
3. تهذیب التهذیب:1؍152، تنزیه الشریعة:1؍16
4. مقدمہ صحیح مسلم
5. دیکھئے : الإصابة:1؍162، علوم الحدیث: ص264
6. صحیح بخاری :563
7. صحیح مسلم:2538
8. فتح المغیث :3؍139
9. تقریب:1؍389
10. الإصابة :6؍291
11. لسان المیزان :6؍69
12. ایضاً:1؍71
13. الإصابة: 6؍291
14. مناهل السلسلة : ص51
15. فتح المغیث :3؍140
16. الحاوي للفتاوي از سیوطی :ج2؍ص262تا664
17. 1؍246،2؍742
18. الإصابة:1؍158
19. الأشباہ والنظائر للسیوطي ص258، الأشباہ والنظائر علی مذھب أبي حنیفة النعمان لابن نجیم، ص 329
20. الفتاویٰ الحدیثیة :ص17
21. فتح المغیث:3؍105
22. المناھل السلسلة: ص55
23. شرح مسلم:15؍146، البدایہ 1؍328
24. فتاویٰ: 13؍267
25. ایضاً:11؍422
26. شرح العقیدة الطحاویة:ص 511
27. الإصابة:2؍248
28. الزهر النضر: ص66
29. تفسیر قرطبی:11؍16
30. روح المعانی:15؍320
31. البحر المحیط :6؍147
32. الإصابة :2؍249، المنار المنیف: ص84 بتحقیق محمود مہدی استنبولی
33. دیکھئے: الزھر النضر في حال الخضر بتحقیق صلاح الدین مقبول احمد: ص86 تا 162
34. الإصابة:2؍256
35. الزهر النضر :161،الإصابة:2؍281
36. مسند احمد :3؍387
37. مسلم:2538
38. بحوالہ البدایہ و النھایہ:1؍336
39. ایضاً: 1؍334
40. الإصابة:2؍253
41. فتاویٰ شیخ الإسلام : 27؍100
42. الأسرار المرفوعة بتحقیق الصباغ، ص442
43. فتاویٰ: 4؍337
44. المصنوع بتحقیق عبدالفتاح ابوغدہ: ص 269،270
45. الإبریز لأحمد بن المبارك السلجماسي، ص169


i. ماہنامہ محدث میں تفصیلی تحقیقی مضمون دیکھئے: 'تمام صحابہ عادل ہیں ' (شمارہ مارچ 1995ء ، ص 66 تا آخر)
ii. امام ذہبی کہتے ہیں : ''وما أدراك ما رتن! شیخ دجال بلا ریب ظهر بعد ستمائة فادعی الصُّحبة'' (میزان الاعتدال:452)
''تو کیا جانے رتن کیا ہے ؟ بلا ریب یہ دجالوں کا شیخ ہے جس نے 600ھ کے بعد صحابی ہونے کا دعوی کیا۔''
iii. ابن حجر کہتے ہیں : '' من نمط أشج العرب ومن نمط رتن الهند...'' (الاصابہ:2875)
''... قیس بن تمیم رتن ہندی کی قبیل سے ہے۔'' اس نے 517ھ میں صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ۔
iv. ابن حجر کہتے ہیں :''شخص کذاب أو لا وجود له...'' (ایضاً:2986)
''یہ کذاب شخص ہے یا پھر فرضی کر دار ہے ۔'' اور یہ تیسری صدی ہجری کا ہے۔
v. ابن حجر کہتے ہیں :''کذابین میں سے تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کی عمر 300 سال تک بتائی جاتی ہے۔'' (ایضاً:2716)
vi. ارواء الغلیل:1589 میں علامہ البانی اور مسند احمد کی تحقیق میں حمزہ احمد الزبیر نے اسے حسن کہا ہے۔