سیاہ لباس پہننے کا جواز
شیعہ زعما بالعموم سیاہ پگڑی استعمال کرتے ہیں، اور وہ اپنی مخصوص محافل و مجالس میں سیاہ جبہ بالخصوص پہنتے ہیں۔ ماہ ِمحرم الحرام میں ان کی ایجاد کردہ بہت سی خرافات و بدعات ورسومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اس مہینہ کو بطور ِ سوگ مناتے اور ان کے عوام وخواص بالعموم سیاہ لباس پہنتے ہیں، ان کے بالمقابل اہل سنت علما و زعما جب ان کی بدعات کا ردّ کرتے ہیں تو اسی ضمن میں سیاہ لباس کی مذمت بیان کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرجاتے اور اسے بالکل ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی سُنّی آدمی عام دنوں میں ہی سیاہ لباس استعمال کرے تو اس پر شیعہ ہونے کی پھبتی بھی کس دی جاتی ہے یا ماہ ِمحرم سے قبل کوئی آدمی سیاہ لباس پہنے ہوئے ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ابھی شیعہ حضرات نے تو سیاہ لباس پہنا نہیں، تم نے ان سے پہلے ہی یہ پہننا شروع کردیا یا ماہ ِ محرم گزر چکا ہو تو کہتے ہیں کہ اب شیعوں نے سیاہ لباس اُتارا اور تم نے پہننا شروع کردیا۔ الغرض مختلف انداز سے اس لباس کے متعلق اظہارِ خیال کیا جاتا ہے۔ گویا سیاہ لباس کو شیعہ ہونے کی ایک علامت سمجھ لیا گیا ہے۔حالانکہ تعصب سے بالاتر ہوکر احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ احادیث ِ مبارکہ میں کہیں بھی سیاہ لباس پہننے کی ممانعت وارد نہیں بلکہ بہت سی احادیث سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
عن عائشة أن النبي ﷺ لَبِس خمیصة سوداء فقالت عائشة : ما أحسنھا علیك یا رسول اﷲ؟ یشوب بیاضھا سوادك ویشوب سوادھا بیاضك، فثار منھا ریح فألقاھا، وکان تعجبه الریح الطیبة 1
''اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ اُونی چادر زیب ِتن کی، توانہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! یہ آپ پر کس قدر سج رہی ہے!! اس کی سفیدی آپ کی سیاہی میں اور اس کی سیاہی آپ کی سفیدی میں خوب گھل مل گئی ہے۔ بعد میں اس میں سے ناپسند سی بو آئی تو آپ نے اسے اتار پھینکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اچھی بو پسند تھی۔''
عن عائشة قالت صُنِعت لرسول اﷲ ﷺ بردة سوداء فلبِسھا فلما عرق فیھا وجد ریح الصوف فقذفھا 2
''اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سیاہ اُونی چادر تیار کی گئی۔ آپؐ نے اسے زیب تن فرمایا۔ جب پسینہ آیا تو آپؐ نے اس میں اُون کی ناگوار بو محسوس کی تو پؐ نے اِسے اُتار پھینکا۔''
عن عبداﷲ بن زید أن رسول اﷲ ﷺ استسقی وعلیه خمیصة سوداء
''عبداللہ بن زید ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقا کے لئے تشریف لے گئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھے۔''3
عن جعفر بن عمرو بن حریث عن أبیه أن رسول اﷲ ﷺ خطب الناس وعلیه عمامة سوداء 4
''عمرو بن حریثؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا ۔ اس وقت آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔''
عن ابن عباس أن النبي ﷺ خطب الناس وعلیه عمامة دسماء 5
''ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوخطبہ دیا۔ اس وقت آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ یا ایسا عمامہ تھاجو تیل لگا ہوا تھا۔''
عن جابر بن عبد اﷲ أن النبي ﷺ دخل یوم فتح مکة وعلیه عمامة سوداء
''ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔''6
عن ابن بریدة عن أبیه أن النجاشي أھدی للنبي ﷺ خُفَّین أسودین ساذجین فلبسھما ثم توضأ ومسح علیھما 7
''بریدہؓ کا بیان ہے کہ نجاشی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو سادہ سیاہ موزے ہدیہ بھیجے۔ آپؐ نے اُنہیں پہن لیا۔ بعد میںوضو کیا تو ان پر آپ نے مسح کیا۔''
عن عائشة قالت خرج النبي ﷺ ذات غداة وعلیه مِرْط مُرَحَّل من شعر أسود 8
''اُمّ المومنین عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز صبح کو باہر اس حال میںتشریف لے گئے کہ آپؐ نے سیاہ اون کی بنی ہوئی چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر پالان کی سی شکل بنی ہوئی تھی۔''
عن اُمّ خالد بنت خالد قالت:أُتي النبي ﷺ بثیاب فیھا خمیصة سوداء صغیرة فقال: من ترون أن نکسو ھذہ؟ فسکت القوم،فقال: إیتوني بأم خالد فاُتي بھا تُحْمَل فأخذ الخمیصة بیدہ فألبَسَھا وقال أبلي واخلقي،وکان فیھا علم أخضر أو أصفر،فقال: یا أم خالد ! ھذا سَنَاہْ، وسَنَاہ بالحبشیة حسن 9
''اُمّ خالدؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کچھ کپڑے آئے۔ ان میں ایک چھوٹی سی سیاہ چادر بھی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ پہننے کے لئے کس کو دیں؟ لوگ خاموش رہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: اُمّ خالد (بچی) کو میرے پاس لاؤ، اسے اُٹھا کر لایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر لیکر اپنے ہاتھوں سے اُسے اوڑھائی اور فرمایا: اللہ کرے، اسے خوب استعمال کرو۔ اس چادر پر سبز یا زرد دھاریاں بھی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: اُمّ خالد! یہ کتنی اچھی ہے۔''
عن سعد قال: رأیت رجلا ببخارٰی علی بغلة بیضاء علیه عمامة خَزٍّ سوداء فقال کسانیھا رسول اﷲ ﷺ 10
''سعد کا بیان ہے کہ میں نے بخارا میں سفید خچرپر سوار ایک آدمی دیکھا۔ اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ اُس نے بتلایا کہ یہ عمامہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنایا تھا۔''
عن الأشعث بن سلیم قال سمعت عمتي تحدث عن عمھا قال: بینا أنا أمشي بالمدینة إذا إنسان خلفي یقول:ارفع إزارك فإنه أتقی وأبقی فإذا ھو رسول اﷲ ﷺ، فقلت: یارسول اﷲ ! إنما ھي بُردَة مَلْحَاء قال: أما لك فيَّ اُسوة؟ فنظرتُ فإذا إزارہ إلی نصف ساقیه 11
''اشعث بن سلیم کا بیان ہے کہ میں نے اپنی پھوپھی جان سے سنا کہ وہ اپنے چچا سے بیان کرتی تھیں۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ میں مدینہ منورہ میں چلا جارہا تھا۔ اچانک میں نے سنا کہ کوئی آدمی میرے پیچھے کہتا آرہا تھا: اپنی چادر کو اوپر کرلو، اس سے کپڑا صاف رہے گا اور پھٹنے سے بھی محفوظ رہے گا۔ میں اِدھر متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ یہ 'سیاہ چادر' تو کام کاج کے وقت کی ہے یعنی اس میںتکبر والی کوئی بات نہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارے لئے میرے عمل میں اُسوہ نہیں؟ میں نے دیکھا تو آپؐ کی چادر نصف پنڈلی تک تھی۔''
عن یونس بن عبید مولی محمد بن القاسم قال بعثني محمد بن القاسم إلی البراء بن عازب یسأله عن رأیة رسول اﷲ ﷺ ما کانت؟ فقال: کانت سوداء مُرَبَّعَة من نَمِرة 12
''یونس بن عبید مولیٰ محمد بن القاسم کا بیان ہے کہ محمدبن قاسم نے مجھے براء بن عازبؓ کی خدمت میں بھیج کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے متعلق دریافت کیا کہ کیسا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ اُونی کپڑے کا سیاہ و سفید لکیروں والا تھا۔''
عن الحارث بن حسان قال قدمت المدینة،فرأیت النبي ﷺ قائمًا علی المنبر وبلال قائم بین یدیه مُتقلِّد سیفا وإذا رأیة سوداء، فقلت: من ھذا ؟ قالوا: ھذا عمرو بن العاص قَدِم من غَزَاة 13
''حارث بن حسانؓ کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ گیا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ منبر پر کھڑے تھے اور بلالؓ گلے میں تلوار حمائل کئے آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ اچانک میں نے ایک سیاہ جھنڈا دیکھا۔ تو میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ عمروبن العاصؓ ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں۔''
عن ابن عباس أن رأیة رسول اﷲ ﷺ کانت سوداء ولواء ہ أبیض 14
''ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا جھنڈا سفید اور چھوٹا علامتی جھنڈا سیاہ تھا۔''
ولم تر عائشة بأسا بالحُلِيّ والثوب الأسود والمُوَرَّد والخف للمرأة 15
''اور اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ عورت کے لئے احرام کے دوران زیورات، سیاہ لباس یا گلابی رنگ کا لباس اور موزے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں۔''
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ِ ضرو رت مختلف مواقع پر سیاہ چادر، سیاہ عمامہ، سیاہ موزے اور سیاہ جھنڈے استعمال کئے۔ سیاہ چادر ایک صحابیہ کو عطا فرمائی، سیاہ عمامہ ایک صحابی کو عنایت فرمایا۔ نیز اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے احرام کے دوران عورت کے لئے سیاہ لباس پہننے میںکوئی حرج نہیں سمجھا۔ لہٰذا کسی قوم کی مشابہت یا سوگ سے ہٹ کر اگر سیاہ لباس استعمال کیا جائے تو شرعی طور پر اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ اس کی ممانعت۔ واﷲ اعلم
حوالہ جات
1. صحیح ابن حبان، موارد الظمآن، باب في صفته
2. سنن ابی داؤد: 74 40 'صحیح'
3. سنن النسائی: 1507'صحیح'
4. صحیح مسلم: 1359
5. الشمائل للترمذي، باب ماجاء في صفة عمامة رسول اﷲ ﷺ 'صحیح'
6. صحیح مسلم:1358
7. جامع ترمذی: 2820 'صحیح'
8. صحیح مسلم:2081
9. صحیح بخاری: 5823
10. سنن ابی داؤد: 4038'ضعیف'
11. الشمائل للترمذي، باب ماجاء في صفة إزار رسول اﷲ ﷺ
12. سنن ابی داود:1680'صحیح'
13. سنن ابن ما جہ:2816'حسن'
14. جامع الترمذي: 1681
15. صحیح البخاري: باب ما یلبس المحرم من الثیاب
نوٹ:سیاہ لباس پہننے کی دوصورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ جزوی طور پر مثلاً واسکٹ، جیکٹ، ٹوپی، پگڑی، یا دھار ی دار چادر یا مکمل سیاہ چادر پہنی جائے تو اس کو پہننے میں اہل سنت کو بھی کوئی انکار نہیں بلکہ یہ ان کی روزمرہ عادت میں شامل ہے۔ البتہ دوسری صورت یہ ہے کہ مکمل سیاہ لباس زیب تن کیا جائے تو مذکورہ بالا تمام احادیث میں کسی جگہ اس کی صراحت میسر نہیں آتی اور یہی صورت محل اختلاف ہے۔یوں بھی جو لباس اہل تشیع استعمال کرتے ہیں، سوگ کے نکتہ نظر سے اس رنگ کا استعمال درست نہیں، اس بنا پر مخصوص ایام میں اس سے گریز ہی بہتر ہے۔ (حسن مدنی)