فتاوی

ولی کی رضامندی ، آٹھ تراویح کے بعد نفل پڑھنا،قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونا اور قربانی میں اشتراک ،سونے کا نصاب

 

صرف خالص مقدار پر
سوال: سونے کا نصاب 5ئ7 تولے سونے (24قیراط) پر ڈھائی فیصدزکوٰة ہے اور یہ یقینا خالص سونے پر ہے۔ہمارے پاس خالص سونے (24قیراط) کے زیورات ہیں اور 22 قیراط، 22قیراط اور 18قیراط کے بھی ہیں۔ کیا اس میں سے خالص سونے پر زکوٰة ہوگی یا سارے وزن پر۔ 22قیراط میں 24؍2خالص ہوگا، 20میں24؍4اور 18 میں 24؍6خالص سونا ہوگا۔ اس طرح کل سونے کی مقدار کم ہوگی۔ کیا ہم اس خالص مقدار پر زکوٰة دیں گے یا سارے زیور پر؟
جواب: زکوٰة صرف خالص سونے پر ہے، ملاوٹ کو نصاب سے خارج کرنا ہوگا۔

حضرت علیؓ کی کتابت ِقرآن؟
سوال:آج کل اخبار میں ایک اشتہار چھپ رہا ہے کہ حضرت علی ؓ کی کتابت کی ہوئی آیات کا عکس دستیاب ہے اور پچھلے دِنوں کسی نے اس کی نقلیں ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل میں پرویز مشرف کو بھی پیش کی ہیں جس کی تصویر چھپی ہے۔ جہاں تک میرا علم ہے اور محدث اکتوبر 2005ء میں بھی ہے کہ حضرت عثمان ؓنے قرآن شریف کی حتمی تدوین کے بعد تمام سورتیں جلا دی تھیں۔ پھر یہ حضرت علیؓ کی عکس کہاں سے آگئیں؟ (فتح اللہ خاں، لاہور)
جواب:حضرت علی ؓ کی کتابت شدہ آیات کا دعویٰ کرنا تو آسان ہے، لیکن فی الواقع اس کو ثابت کرنا مشکل امر ہے۔ بصورتِ اثبات ان کی کتابت مصحف ِعثمانی کے منافی نہیں، کیونکہ مصحف ِعثمانی والی آیات بھی تو حضرت علیؓ اپنے دست ِمبارک سے لکھ سکتے ہیں۔ کوئی شے اس سے مانع نہیں۔

بہن بھائی کا دوسرے بھائی بہن سے بلا شرط نکاح
سوال: ہم اپنی بیٹی کی شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہتے ہیں اور ان کی بیٹی کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ۔ اس سلسلے میں ہماری یا دوسرے فریق کی کوئی شرط نہیں اور یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں لڑکیاں اور لڑکے خالہ زاد ہیں اور یہ رشتے طے ہوگئے ہیں۔ کیا یہ و ٹہ سٹہ تو نہیں ہے، اس کے علاوہ ہمیں حق مہر کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جواب:بلا شرط نکاح کی مذکورہ صورت وٹہ سٹہ نہیں۔

ٍولی کی رضامندی دینی سبب سے مشروط ہے !
سوال: اگر لڑکی کے والد صاحب رضا مند نہ ہوں یا نیم رضا مند ہوں تو کیا لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے یا پھر کوئی اور شخص لڑکی کا ولی بن سکتا ہے یا نہیں؟ (محمد زکریا، اسلام آباد)
جواب: لڑکی کے نکاح پر والد کی عدم رضامندی کا سبب اگر دینی ہے تو نکاح نہیں ہوگا، مثلاً لڑکا بے دین ہے اور اگر دنیاوی سبب ہو مثلاً باپ بے دین لڑکے سے شادی کرنا چاہتا ہو یا بوجہ اتباعِ خواہش یا کسی دنیاوی مفاد کی خاطریا بلا وجہ شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو تو باپ کی جگہ اس کے قریبیوں سے بترتیب ِولایت ولی بنا کر کسی صالح آدمی سے نکاح منعقد ہوسکتا ہے اور اگر باپ کی طرف سے کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو تو کسی بھی صالح شخص کو ولی قرار دے کر نکاح پڑھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ولی کے لئے خیرخواہ ہونا ضروری ہے جو زیر بحث مقام میں مفقود ہے۔

آٹھ تراویح کے بعد نفل نماز پڑھنا
سوال:رمضان المبارک کی طاق رات(23ویں شب) کو شب بیداری اور تلاش لیلة القدر کے اشتیاق میں مسجد میں معتکفین اور بعض اہل محلہ نے آٹھ رکعات نمازِ تراویح ادا کرنے کے بعد کچھ دیر توقف کیا اور پھر دوبارہ قیام اللیل کی نیت سے باجماعت نوافل (22 رکعات) اور تین وتر ادا کئے۔ اگلے روزانہوں نے سے بھی آئندہ طاق رات ساتھ رہنے پر اصرار کیا۔ تومیں نے اُنہیں کہا کہ قیام اللیل، تہجد اور تراویح ایک ہی عبادت کے مختلف نام ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات مابین نمازِ عشا و فجر گیارہ سے زائد رکعات ادا نہیں فرمائیں لہٰذا اسی پر اکتفا کرنا اولیٰ اور اوثق ہے،نیزمسنون عمل بہتر ہے ایک کثیر مگر غیر ثابت شدہ عمل سے۔
ساتھیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں اوریہ کہ بعض صحابہؓ سے چالیس رکعات تک ثابت ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر مزید ادا کرنا چاہے تو بات اور ہے مگر جہاں تک باجماعت قیام اللیل کی بات ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رحمۃ اللہ علیہ (جملہ صحابہ کرامؓ)سے زائد ثابت نہیں ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرما دیں نیز 40 رکعات تک والی روایات کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرما دیں۔
جواب:زیادہ محتاط مسلک یہ ہے کہ صرف ثابت شدہ گیارہ رکعات پر اکتفاکیا جائے اور تعداد میں اضافہ کے بجائے ان کو لمبے قیام کی صورت میں ادا کیا جائے جس طرح کہ احادیث سے ثابت ہے۔البتہ وتر کے بعد بسا اوقات انفرادی نوافل کا جواز ہے، جس طرح کہ صحیح مسلم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ عام حالات میں باجماعت نوافل کو سنت ِمسلوکہ بنانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ صحابہ کرامؓ کے عمل سے زیادہ تعداد کا اثبات محل نظر ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب صلاة التراویح از علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ

عید الفطر اور حکومتی اعلان
سوال:ماہنامہ'محدث' لاہور کا مستقل اور دیرینہ قاری ہوں۔ ماہنامہ محدث میں جو فتاویٰ شائع ہوتے رہتے ہیں، ان پر خود بھی یقین رکھتا ہوں اور میرے ساتھ دوسرے مدرّسین ساتھی اور گاؤں کے دیگر لوگ بھی ماہنامہ محدث کے فتاویٰ کو کافی و شافی سمجھتے ہیں__ اِمسال عیدالفطر کے بارے میں شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، اس لئے کہ یہی عید ہمارے اکثر اہل حدیث بزرگ جو کہ صوبہ سرحد میں مانے ہوئے شیخ القرآن والحدیث ہیں، نے بھی مقامی (پشاور) کمیٹیوں کی شہادتوں پر عیدالفطر بروز جمعرات مؤرخہ3؍نومبر 05ء کو منائی جبکہ ہم نے اگلے روز بروز جمعہ بتاریخ4؍ نومبر کو عیدمنائی، حالانکہ ہمارے ہاں وادی پشاور میں بدھ کی شام مؤرخہ2؍نومبر کو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے مگر جمعرات کی رات 11بجے عید کا اعلان کیا گیا۔ اس کے برعکس جمعرات کی شام آسمان بالکل صاف تھا۔ کوشش کے باوجود (دو دن کا چاند) گاؤں والے اور نزدیکی علاقے کے لوگوں نے نہ دیکھا، جمعہ کی شام سات بجے ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ کراچی میں چاند نظر آگیا ہے اور یوں بندہ نے کچھ دیگر ساتھیوں(حنفی، اہل حدیث) کے ہمراہ اگلے روز بروز جمعہ مؤرخہ 4؍نومبر کو عیدمنائی۔اس سلسلہ میں چند سوالات کے جوابات درکار ہیں:
(1) جمعرات مؤرخہ 3؍نومبر کو عیدالفطر منانا مقامی کمیٹیوں کے اعلان کے مطابق درست تھا؟
(2) بروز جمعہ مورخہ 4؍نومبر کو رؤیت ِہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عیدالفطر درست تھی؟
(3) اگر جمعرات کے روز عید غلط تھی تو اسی دن کے روزے کی قضا واجب ہوگی؟
جواب: بالا صورت میں رؤیت ِہلال کے سلسلہ میں حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کے اعلان پر اعتماد کرنا چاہئے کیونکہ ان کے ہاں ذرائع ِرؤیت بآسانی میسر ہیں جو دیگر لوگوں کی استطاعت میں نہیں۔ جنہوں نے جمعرات کے روز عید کی، اُنہیں آئندہ احتیاط کرنی چاہئے،کیونکہ اگر ایک یا زیادہ مسلمان خود چاند دیکھ بھی لیں تو وہ اکیلے عید نہیں کر سکتے صرف خفیہ طورپر روزہ چھوڑ سکتے ہیں،کیونکہ عید کی عبادت مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کا اظہار ہے، لہٰذا سب کو ایک ہی دن عید کرنی چاہیے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''عید کا دن وہ ہے جس دن تمام مسلمان عید کریں۔'' لیکن اگر کچھ لوگوں نے کسی کی اطلاع پر روزہ چھوڑ دیا اور عید کر لی تو ان کا یہ عمل خلافِ سنت ہوگا اور چھوڑے ہوئے روزے کی قضا ضروری ہو گی۔ تاہم قضا واجب نہیں کیونکہ اجتہادی تساہل ہے۔

قربانی کرنے والے کے لئے صاحب ِنصاب ہونا؟
سوال: کیا قربانی کرنے والے کے لئے صاحب ِنصاب ہونا شرط ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عمر صاحب ِنصاب نہیں رہے۔ کیا احناف کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل ہے؟
جواب:حنفیہ کے نزدیک قربانی کرنے والے کے لئے مقیم اور صاحب ِنصاب ہونا ضروری ہے جبکہ نصاب پر سال گزرنا شرط نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نصوصِ شریعت میں ان قیود کی کوئی دلیل نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے : باب الأضحیة للمسافر والنساء''مسافر اور عورتوں کے لئے قربانی مشروع ہے۔'' اس باب سے ان کا مقصد شرعی نص کے ذریعے مخالفین کی تردید کرنا ہے، چنانچہ زیر باب حدیث میں یہی کچھ بیان ہوا ہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے افعال و اعمال سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ اُنہوں نے قربانی میں نصاب کا اعتبار کیا ہو بلکہ بیشتر دلائل اس کے برعکس ہیں۔

قربانی میں دو مسلمانوں کی رقم کے اعتبارسے شرکت
سوال:کیا دوبھائی یا دو دوست زید و بکر رقم ملا کر جانور قربان کرسکتے ہیں؟ مثلاً جانور 20ہزار کا ہے، دونوں دس دس ہزار روپے ڈالیں یا رقم کی تقسیم لازماً حصوں کی صورت میں ہوگی۔ زید چار حصوں کے حساب سے پیسے ڈالے اور بکر تین حصوں کے حساب سے۔
ہمارے امام صاحب نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ دو اشخاص صرف اورصرف حصوں کے اعتبار سے پیسوں کی تقسیم عمل میں لاسکتے ہیں جبکہ رقم کے دو حصوں کو اُنہوں نے مطلقاً غلط قرار دیا ہے اور اس کی کوئی دلیل بھی بیان نہیں کی، مجرد یہ کہنا کہ سات کا عدد آدھا نہیں ہوسکتا میرے خیال میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
جواب:ظاہر یہ ہے کہ دونوں ساتھی آدھے آدھے پیسے ملا کر قربانی کرسکتے ہیں۔ حصوں کا اعتبار وہاں ہوگا جہاں عملاً شکل موجود ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راجح مسلک کے مطابق قربانی واجب نہیں تو حصوں کا اعتبار کرنا کیسے ضروری ہوگیا۔ پھر اس طرح جب ایک جانور میں گھر کے سب افراد بلا امتیازِ حصص شریک ہوسکتے ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے تو اس صورت کا بھی ان پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

وراثت کا ایک مسئلہ
سوال:روشن دین نامی شخص وفات پاگیا۔ اس کے ورثا میں بیوی، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا ۔ یاد رہے کہ میت نے اپنی زندگی میں ایک بیٹے کو مکان عطا کیا تھا، یہ وراثت میں شمار ہوگا یا نہیں؟
جواب: اس صورت میں بیوہ کے لئے آٹھواں حصہ ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:{فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَ‌كْتُم ۚ مِّنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ...﴿١٢﴾...سورۃ النساء}
''اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے بعد تقسیم کئے جائیں گے۔''
اور باقی سات حصے اولاد میں تقسیم ہوں گے۔ ہر لڑکے کے لئے دوہرا حصہ اور ہر لڑکی کو اکہرہ حصہ ملے گا۔ قرآن میں ہے: {يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَـٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ...﴿١١﴾...سورۃ النساء} ''اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔'' اصل مسئلہ آٹھ سے بنتا ہے۔ بصورتِ نقشہ تفصیل یوں ہے:
کل حصے : 8
بیوہ    لڑکا    لڑکا    لڑکی    لڑکی    لڑکی
1         2    2         1         1       1
نیز جو مکان مرحوم نے زندگی میں ایک بیٹے کو دیا تھا، وہ وراثت میں شمار کرکے دوبارہ تقسیم ہوگی کیونکہ اولاد کے درمیان ہبہ میں برابری ضروری ہے جو یہاں مفقود ہے۔
حدیث نعمان بن بشیر اس امر کی واضح دلیل ہے،البتہ اگر دیگر ورثا اس پر رضا مندی کا اظہار کردیں تو پھر درست ہے۔


برزخ، روح اور جسم کے بارے میں چند سوالات

سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے بعض افراد اپنی کج روی کی وجہ سے برزخی زندگی پر یقین نہیں رکھتے۔ اس وقت میرے سامنے اس قسم کی متعدد تحریریں ہیں۔ سب کا حاصل قبر کی زندگی کا انکار ہے، جبکہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ایمان بالغیب ایمانیات کا اہم جز ہے جس میں تردّد کی چنداں گنجائش نہیں۔
ایسے ہی سوالوں کے جوابات حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الجواب الکافي عن السؤال الحافي میں مختصراً علمی انداز میں رقم فرمائے ہیں جو لائق مطالعہ اور معلومات میں بہترین اضافہ کا موجب ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں : (المقدم: حافظ ثناء اللہ مدنی بن عیسیٰ خاں)

الجواب الکافي عن السؤال الحافي
تالیف: امام علامہ حافظ شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (م 852ھ)

الحمدﷲ والصلاة والسلام علی رسول اللہ
محترم مولاناقاضی القضاة! اللہ تعالیٰ آپ کے علم سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے۔ درج سوالات کے جوابات دے کر ثواب حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضل وکرم کے ساتھ جنت عطا فرمائے۔ آمین!

امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے سوالات پڑھے، ان کے جواب اللہ کی توفیق کے ساتھ درج ذیل ہیں :
سوال(1) جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور اس کے پاس منکر اور نکیر آجاتے ہیں تو کیا اُسے بٹھا کر سوال کئے جاتے ہیں یا سوالات کے دوران لیٹے رہنے دیا جاتا ہے ؟
جواب: وہ انسان کو بٹھا کر سوال کرتے ہیں، جیسے ،حضرت براء ؓ کی مشہور حدیث میں ہے۔ اس حدیث کو ابو عوانہ نے صحیح کہا ہے اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مسند میں روایت کیا ہے۔ 1

سوال(2)کیا روح دوبارہ جسم میں آجاتی ہے جس طرح زندگی میں تھی یا نہیں؟یا کیا صورتِ حال ہوتی ہے، اور سوالات کے بعد روح کہاں رہتی ہے؟
جواب: روح دوبارہ جسم میں داخل ہوتی ہے البتہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ صرف اوپر کے آدھے دھڑ میں روح داخل ہوتی ہے۔

سوال(3) کیا روح ہمیشہ قبر میں مقیم رہتی ہے یا کبھی اوپر چلی جاتی اور کبھی آجاتی ہے؟
جواب: مومنوں کی روحیں علیـین میں، اور کافروں کی روحیں سجین میں ہیں اور ہر روح کا رابطہ (جسم سے) ہوتا ہے، لیکن وہ ایک معنوی رابطہ ہے جو دنیوی زندگی والے رابطے کی طرح نہیں،بلکہ جدا ہونے کے لحاظ سے اس کی کیفیت تقریباً ایسی ہے جیسے سوئے ہوئے آدمی کی حالت ہوتی ہے۔ بعض نے اسے سورج اور دھوپ کے تعلق سے تشبیہ دی ہے۔ مختلف روایات میں یہ بات مشترک ہے کہ اَرواح کا مقام علیین اور سجینہے اور یہ کہ روحیں قبروں کے آس پاس ہوتی ہیں۔ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جمہور کا قول قرار دیا ہے۔

سوال(4) جب مرنے والے کو مٹی ڈال کر دفن کردیا جاتا ہے، اس وقت اگر میت کو باہر سے تلقین کی جائے توکیا وہ تلقین کرنے والے کی بات سنتا ہے، حالانکہ ان دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا ہے ؟
جواب:ہاں، اس کی وجہ وہ تعلق ہے جس کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے۔ اس کو اس زندہ آدمی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جو کنوئیں کی گہرائی میں ہو اورکنواں اوپر سے بند ہوجائے۔ ایسا شخص تو کنوئیں سے باہر کے لوگوں کی بات نہیں سن سکتا۔(i)

سوال (5) کیا میت کو قبر کی زیارت کے لئے آنے والے کا پتہ چل جاتاہے اور اسے اس سے خوشی ہوتی ہے ؟
جواب: ہاں، جب اللہ تعالیٰ چاہے تو میت کو بتا دیتا ہے کیونکہ ارواح کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی اجازت ہوتی ہے ،جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے :''شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں، جنت میں چُگتی پھرتی ہیں۔'' 2

احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مؤمنوں کی ارواح کے بارے میں ایسا ہی قول منقول ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ''روحیں عرش کے نیچے قندیلوں میں ٹھہرتی ہیں۔'' یہ سب کچھ مذکورہ بالا اِتصال سے مانع نہیں۔ جس نے اسے بعید از قیاس قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اسے دنیا کے حالات پر قیاس کیا ہے۔ جبکہ برزخ کے حالات دنیا سے مختلف ہیں۔

سوال(6) عذاب روح کو ہوتا ہے یا جسم کو یا دونوں کو؟
جواب: دونوں کو ہوتا ہے، لیکن وہ اصل میں روح کو ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جسم کوبھی تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح قبر کی راحت کا معاملہ ہے۔ لیکن دنیا والوں میں سے کوئی دیکھے تو اسے اس کا اثر نظر نہیں آئے گا، حتیٰ کہ اگر قبر کھول کر میت کو دیکھا جائے تو وہ اسی طرح پڑی ہوگی، جس طرح دفن کے وقت رکھی گئی تھی۔

سوال(7) جب منکر اور نکیر اس کے پاس آتے ہیں تو اسے کیا کہتے ہیں؟
جواب: اس کی تفصیل مسنداحمد میں حضرت براء ؓ کی لمبی حدیث میں، اور ابن حبان میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے۔ ( جس کا حوالہ اوپر گزرا ہے)

سوال(8)کیا میت کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آتے ہیں؟
جواب: کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ یہ دعویٰ ناقابل اعتماد افراد نے حدیث میں مذکور في (ھٰذا الرجل) (اس آدمی کے بارے میں) کے لفظ کی وجہ سے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ھٰذا (یہ) کا لفظ بول کر حاضر کی طرف ہی اشارہ کیاجاتا ہے۔یہ کوئی دلیل نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذہن میں (تصور کی صورت میں) حاضر ہوتے ہیں۔ ذہن میں اسی یاد کی بنا پر ہٰذا کا لفظ بولا جاسکتا ہے۔

سوال(9) اگر روح کاقبر پر ٹھہرنا ثابت ہو تو کیا روح لحد پر ٹھہرتی ہے یا قبر کے کنارے پر؟
جواب:روح کا ٹھکانہ کون سا ہے ؟ اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ روح کا جسم سے معنوی تعلق ہوتا ہے، وہ اس کی تکلیف اور راحت سے متاثر ہوتی ہے۔

سوال(10) چھڑی یا پودے کی شاخ (قبر پر)کس جگہ لگائے جائیں؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں ان کا ذکر مطلق طور پر آیا ہے، لہٰذا کسی بھی جگہ لگانے سے مقصد حاصل ہوجائے گا۔(ii)

سوال(11) اگر کوئی اجنبی آدمی قرآن میں سے کچھ پڑھ کر اس کا ثواب میت کو بخشے تو کیا میت کو وہ تلاوت پہنچتی ہے؟
جواب: یہ مشہور مسئلہ ہے، ہم نے اس بارے میں ایک کتابچہ بھی لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ متقدمین علما میں سے اکثر پہنچنے کے قائل ہیں۔ راجح قول یہ ہے کہ اس مسئلہ میں توقف کرنا چاہئے۔ البتہ یہ عمل کرنا اور کثرت سے کرنا مستحب ہے۔(iii)

سوال(12) کیا وفات کے بعد انسان کے اعمال میں کمی بیشی ہوسکتی ہے جیسے ابن عبدالسلام نے نقل کیا ہے یا کیا مسئلہ ہے ؟
جواب: انسان اپنے عمل میں تصرف کرسکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب گزشتہ سوال کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ۔

سوال(13) اگر میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے تو کیا روح بھی دوسری قبر کی طرف منتقل ہوجاتی ہے یا نہیں؟
جواب : ہاں، ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ روح اگرچہ میت کے جسم کے اندر نہیںہوتی، تاہم اس کا جسم سے تعلق قائم رہتا ہے، لہٰذا جسم جہاں بھی منتقل کردیا جائے، اس کا تعلق قائم رہے گا۔

سوال(14) اگر میت کا سر ایک جگہ اور جسم دوسری جگہ دفن ہو تو روح کہاں ہوگی؟
جواب: روح کا تعلق دونوں حصوں سے ہوگا۔ اگر میت کے اتنے ٹکڑے کردیئے جائیں جتنے کہ اس کے جسم کے اعضاہیں، تب بھی جواب یہی ہوگا۔

سوال(15) جب انسان کا آخری وقت ہو تو کیا علاج کرانا افضل ہے یا نہ کرانا؟
جواب :جب وہ وقت آجائے، جیسے ذبح کیا ہوا جانور تڑپتا ہے تو علاج نہ کرنا افضل ہے، ورنہ علاج کرانا مشروع ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کرسکتا ہے۔

سوال(16) اگر نماز، زکوٰة، روزہ وغیرہ میں سے کچھ رہ گئے ہوں تو کیا اسے جہنم کے ایک پل پر روکا جائے گا حتیٰ کہ ادا کرلے ؟
جواب : قیامت کے روز عمل کرکے سابقہ کوتاہیوں کی قضا نہیں دی جاسکے گی۔ اس کی قضا یہی ہے کہ اس کے نوافل لے کر فرائض کی کمی پوری کی جائے گی۔ اگر اس طرح کے نفلی عمل نہ ہوں تو دوسری جنس کی نیکیوں سے کمی پوری کی جائے گی۔ اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو جتنے عمل باقی رہ گئے ہیں، اتنے گناہ اس پر شمار ہوں گے اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف اور درگزر فرما دے۔

سوال(17)کیا قیامت کے دن بھی عمل ہوگا؟
جواب: اس کا جواب گذشتہ سوال کے جواب سے سمجھا جاسکتا ہے۔

سوال(18) اگر بچوں کو قرآن پڑھانے والا ایسا بیمار ہو کہ ایک فرض نماز (مثلاً چار رکعت) کی ادائیگی سے زیادہ وقت تک باوضو نہ رہ سکتا ہو، اگر وہ بار بار وضو کرے تو دن بھر اسی میں مشغول رہے گا، کیا ایسا شخص مجبوری کی وجہ سے قرآن مجید کو بے وضو ہاتھ لگا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: اس طرح کے شخص کو معافی مل سکتی ہے کیونکہ اسے مشقت ہوتی ہے۔ لیکن وہ تیمم کرلے، کیونکہ تیمم میں وضو سے کم وقت لگتا ہے۔ اگر پھر بھی مشقت باقی رہے تو کوئی حرج نہیں۔(iv)

سوال(19) کیا اعمال لکھنے والے فرشتے میت کی قبر پربیٹھ کر اس کے لئے دعاے مغفرت کرتے ہیں، جیسے ترمذی نے روایت کیا ہے ؟
جواب:کیا قبر کے پاس بیٹھنے والے فرشتے اعمال لکھنے والے ہی ہیں،جیسے ترمذی نے روایت کی ہے؟تو جواب یہ ہے کہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی فرشتے ہیں جو دنیا میں اعمال لکھتے تھے بشرطیکہ حدیث ثابت ہو۔ اسی سے سوال کا جواب نکلتا ہے۔

سوال(20) کیا یہ وہی دو فرشتے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں سائق وشہید کے الفاظ سے کیا گیا ہے، یا ان کے علاوہ کوئی اور ہیں؟
جواب : وہ فرشتے جنہیں قرآن مجید میں سائق وشہید کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، اگر یہ کاتبین ہی ہیں، تو میرے نزدیک یہ وہی ہیں، بعض نے انہیں دوسرے قرار دیا ہے۔ اس مسئلہ میں بہت سے اقوال ہیں جو طبری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کئے ہیں۔

سوال(21) کیا روزقیامت کے سورج ہوگا؟
جواب : جی ہاں، لیکن وہ موقف (میدانِ محشر) میں ہوگا۔ جب وہاں ٹھہرنے کا وقت ختم ہوجائے گا تو سورج اور چاند کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

سوال(22) کیا سورج لوگوں کے سر کے قریب ہوگا جس طرح مشہور ہے؟
جواب: جی ہاں، یہ صحیح ہے۔ صحیح حدیث میں اس کا ذکر آتا ہے لہٰذا اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ 3

سوال(23)کیا لوگ پسینے میں غرق ہوں گے؟
جواب: جی ہاں، یہ بات صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ کسی کا پسینہ اس کے منہ تک لگام کی طرح ہوجائے گااور کسی کا سینے یا گھٹنوں تک پہنچے گا، یہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا۔4

سوال(24)جب یہ جسم گل کر فنا ہوجائیں گے تو کیا جب اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ پیدا کرے گا تو انہی جسموں کو دوبارہ پہلے کی طرح بنا دے گا یا نئے جسم پیدا کرے گا؟
جواب : جی ہاں ، اللہ تعالیٰ پہلے جسموں کو ہی دوبارہ بنائے گا، دوسرے جسموں کو نہیں، یہ قول راجح ہے، بلکہ یہی صحیح قول ہے۔ میرے نزدیک دوسرے اقوال غلط ہیں کیونکہ وہ قرآن وحدیث کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہیں۔

سوال(25) کیا آنکھیں سر پر ہوں گی یا چہرے پر؟
جواب : وہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی چہرے پر ہی ہوں گی، بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جب اُمّ المؤمنین کو لوگوں کا بے لباس ہونا بہت پریشان کن محسوس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بتایا کہ ہر شخص اپنے حال میں اتنا منہمک ہوگا کہ کسی طرف نہیں دیکھے گا۔ اس میں اشارہ ہے کہ آنکھیں چہرے پر ہی ہوں گی، جیسے پہلے تھیں۔ واللہ اعلم

سوال(26) کیا سب لوگ ایک جیسے لمبے ہوں گے یا جس طرح اب ہمارے قد مختلف ہیں؟
جواب :ہر انسان جس حالت میں فوت ہوگا، اسی حالت میں اُٹھایا جائے گا، البتہ جنت میں داخل ہونے کے بعد سب کا قد برابر ہوجائے گا، کیونکہ حدیث میں ہے : ''ہربندے کو اس حالت میں اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوا ہے ۔'' جبکہ اہل جنت کی صفات میں مذکورہ بات منقول ہے۔

سوال(27) قیامت کے دن لوگ بالوں کے ساتھ اُٹھیں گے یا ان کے بال نہیں ہوں گے؟
جواب: جی ہاں، وہ اسی طرح اُٹھائے جائیں گے۔ پھر جب جنت میں داخل ہوں گے تو ڈاڑھی مونچھ وغیرہ کے بال نہیں ہوں گے، جیسے مذکورہ دو حدیثوں سے ثابت ہے۔

سوال(28) کیا (میدانِ محشر میں) لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے یا نہیں؟
جواب: ہاں پہچانیں گے، قرآن میں ہے:{يَتَعَارَ‌فُونَ بَيْنَهُمْ...﴿٤٥﴾...سورۃ یونس} (المجیب : ثناء اللہ بن عیسیٰ خان)

سوال(29) کیا اللہ تعالیٰ اس اُمت کے گنہگاروں کو چھوٹی موت دے گا؟ اس بارے میں اللہ کا کیا فیصلہ ہے؟
جواب : جی ہاں، یہ بات صحیحین میں ثابت ہے بلکہ صحیح میں یہ بھی ہے کہ اس اُمت کے جو گنہگار جہنم میں داخل ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ انہیںچھوٹی موت دے دے گا، پھر انہیں (نیک لوگوں کی) شفاعت کی وجہ سے باہر نکال دے گا، وہ کوئلے کی طرح جلے ہوئے نہر حیات (زندگی کی نہر) میں ڈال دیے جائیں گے۔ پھر وہ اس طرح اُگیں گے جس طرح سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں دانے اُگ آتے ہیں۔

یہاں سوال و جواب ختم ہوئے اور اللہ تعالیٰ ہی صحیح بات کو زیادہ جانتا ہے اور اسی کی طرف واپس جانا ہے۔ وصلی اﷲ علیٰ سیدنا محمد وعلی آله وأصحابه وسلم تسلیما کثیرًا إلی یوم الدین !


حوالہ جات
1. مسنداحمد: رقم 18733، صفحہ 1334 طبع بیت الافکار الدولیہ
2. صحیح مسلم :1887
3. صحیح مسلم:رقم 286
4. ایضاً


i. میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد اسے تلقین کرنے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، تلقین کا یہ حکم تو قریب المرگ شخص کے لئے ہے ۔ میت کے لیے تو صرف دعا یا اس کی طرف سے صدقہ وغیرہ ہو سکتا ہے۔ باقی رہا میت کے سننے کا سوال تو اس کے بارے میں صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس موقع پر لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اس کے سوا کسی اور بات سننے کا کتاب وسنت سے کوئی صحیح ثبوت نہیں ملتا لہٰذا اصل یہی ہے کہ میت کو کوئی چیز سنائی نہیں دیتی سوائے ا س کے جو مختلف مواقع پر میت کے سننے کے بارے میں صحیح حدیث سے ثابت ہے یا معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کسی کو کچھ سنانا چاہے تو وہ نا ممکن نہیں،لیکن میت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ خود جب چاہے ،جو چاہے سن لے۔ (محمد شفیق مدنی)
ii. یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ بعض علما نے اسے رسولِ اکرم 1 کا خاصہ کہا ہے،کیونکہ آپ کو وحی کے ذریعے صاحب ِقبر کے عذاب کے متعلق علم ہو گیا تھا اور آپۖ نے سبز شاخ کو قبر پر لگاتے وقت فرمایا تھا کہ شاید اس سے اس کے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ (محمد شفیق مدنی)
iii. میت کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن پڑھنا کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں، البتہ اجنبی آدمی میت کے لیے دعا کر سکتا ہے یا اس کی طرف سے فرضی حج، قرض یا کوئی اور مالی حق ادا کرے تو درست ہے۔ہاں اولاد کے ہر عمل کا میت کو ثواب پہنچتا ہے خواہ قرآن خوانی ہو یا کوئی اور عمل کیونکہ اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ (محمد شفیق مدنی)
iv. اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ قرآن پڑھنے،پڑھانے اور چھونے کے لیے باوضو ہونا مستحب اور افضل ہے،لیکن وضو کے وجوب پر کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں خواہ آدمی مجبور نہ بھی ہو ۔قرآن پڑھنے،پڑھانے یا چھونے کے لیے وضو کے ضروری ہونے پر جن دلائل سے استدلال کیا گیا ہے وہ تمام کے تمام احتمالی ہیں، یقینی اور صریح نہیں۔ واللہ اعلم (محمد شفیق مدنی)