مارچ 2006ء

اُمت ِمسلمہ پر آلِ رسولؐ کے حقوق

دنیا میں محبت کی بہت سی وجوہات ہیں، مثلاً ہم وطن ہونا، ہم جماعت ہونا، ہم پیشہ ہونا اورہم قوم ہونا وغیرہ وغیرہ، لیکن ان وجوہات کی بنا پر کسی سے محبت کرنا، فرض ہے نہ واجب ! جبکہ ایمان کی وجہ سے مؤمن بھائیوں اور بہنوں سے محبت کرنا فرض ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَو‌ٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُ...﴿٧١﴾...سورۃ التوبہ
''اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں باہم ایک دوسرے کے غمگسار اور ہمدرد ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نمازقائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔''

اور حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:
(اَلْمُسْلِمُ أَخُوْالْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُه وَلَا یُسْلِمُه) 1
''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اس کی حق تلفی کرتا ہے اور نہ اسے کسی مصیبت میں گرفتار کرا سکتا ہے۔''

یہ اُخوت و محبت تو تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے اور اس میں آلِ رسول بھی شامل ہیں، لیکن ایک محبت و توقیر وہ ہے جو حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے :
إِنَّآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرً‌ا وَنَذِيرً‌ا ﴿٨﴾ لِّتُؤْمِنُوا بِٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِۦ وَتُعَزِّرُ‌وهُ وَتُوَقِّرُ‌وهُ...﴿٩﴾...سورۃ الفتح
''اے نبیؐ ! ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور (اس کے رسول کا) ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو۔''

اور حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْه مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) 2
'' تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین اور بچوں اور تمام لوگوں سے پیارا نہ ہوجاؤں۔''

اور جس طرح حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اسی طرح آپ کے اہل بیت سے محبت کرنا بھی فرض ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
(وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحِبُّوْکُمْ ﷲِ وَلِقَرَابَتِيْ) 3
''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک وہ تم سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت داری کی خاطر محبت نہ کریں۔''

صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے :
(أذکرکم اﷲ في أهل بیتي) 4
''میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں اللہ یاد دلاتا ہوں۔''


مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ اہل بیت، منفرد اور خصوصی محبت کے حقدار ہیں۔

دوسرا حق: ان پر درود و سلام بھیجنا
امام ابن قیم الجوزیہ دمشقی ؒجلاء الإفہام میں بیان کرتے ہیں کہ اس بات پر ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ درود اہل بیت کا خاص حق ہے اور اس حق میں اُمت شامل نہیں ہے۔ اور وہ درود جس کے بغیر اہل حدیث کے ہاں کسی آدمی کی نماز مکمل نہیں ہوتی، اس میں آلِ ابراہیم ؑکی طرح آلِ محمد ؑ کا بھی بار بار تذکرہ آیا ہے، چنانچہ امام مسلمؒ اپنی صحیح میں حضرت ابومسعود انصاریؒ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت سعد بن عبادہؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ حضرت بشر بن سعدؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ
''اے اللہ کے پیارے رسولؐ! اللہ نے ہمیں آپؐ پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپؐ پر کس طرح درود پڑھیں(i)؟ آپؐ خاموش ہوگئے اور اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم خواہش کرنے لگے کہ کاش اس نے سوال نہ کیا ہوتا، چنانچہ آپؐ نے فرمایا: تم کہا کرو:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ٭ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ إِبْرَاهِیْمَ وَعَلیٰ آلِ إِبْرَاهِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اور سلام اس طرح ہے جس طرح تم جانتے ہو۔ii'' 5
یاد رہے کہ بنوہاشم میں سے صرف وہی افراد آپ کے اہل بیت میں داخل ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت پر ایمان لائے اور انہوں نے اپنے عقیدہ و عمل کو شرک اور اس کے ذرائع سے پاک رکھا، ورنہ دنیا جانتی ہے کہ ابولہب خالص ہاشمی قریشی تھا اور آپ کا سگا چچا تھا اور زانی و شرابی بھی نہ تھا، اس کے باوجود وہ اہل بیت میں داخل نہ ہوسکا۔ تو بدعمل اور مجہول النسب پیر و پروہت کس طرح اہل بیت میں داخل ہوسکتے ہیں جبکہ ان کے اعما ل میں نیکی او راتباعِ سنت کا بھی نام ونشان نہیں ملتا۔

تیسرا حق: خمس
مغنی لابن قدامہؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے رسالہ حقوق أہل البیت میں جمہور علماے اُمت کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے کہ بہت سی احادیث ِمبارکہ اور قرآنی آیت کی رُو سے خُمس اہل بیت کا حق ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی ثابت ہے۔ قرآن میں ہے :
وَٱعْلَمُوٓاأَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُۥ وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ...﴿٤١﴾...سورۃ الانفال
''اور جان لو! جو چیز تم کو غنیمت میں ملے، اس میں پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسولؐ کے لئے بھی اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے بھی۔''

ان کے علاوہ بھی اہل بیت کے بہت سے حقوق ہیں لیکن ہم پھر گزارش کرتے ہیں کہ ان کے مستحق وہی ہیں جن کا اسلام اور نسب صحیح ہو (یہ شرط نہایت اہم ہے) اور ان کے اعمال سنت ِ مصطفی علیہ الصلوٰة والسلام کے مطابق ہوں اور وہ اصحاب ؓرسول کے لیے ان الفاظ سے دعا کرتے ہوں:
رَ‌بَّنَا ٱغْفِرْ‌ لَنَا وَلِإِخْوَ‌ٰنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلْإِيمَـٰنِ وَلَا تَجْعَلْ فِى قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا رَ‌بَّنَآ إِنَّكَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٠...سورۃ الحشر

چنانچہ صحیح بخاری میں آپؐ کا ارشاد ہے :
( یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اﷲِ لَا أُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اﷲِ شَیْئًا،یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اﷲِ شَیْئًا،یَا صَفِیَّة عَمَّة رَسُوْلِ اﷲِ! لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا،یَا فَاطِمَة بِنْتَ مُحَمَّدٍ ﷺ سَلِیْنِیْ مِنْ مَالِيْ مَا شِئْتِ لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا) 6
''اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کا م نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہؓ بنت ِمحمدؐ! میرے مال سے جو کچھ مانگنا چاہتی ہے، مانگ لے۔ میں اللہ کے ہاں تجھے کفایت نہیں کروں گا۔''

کنز العمال میں بحوالہ طبرانی موجود ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
(إن أھل بیتي ھؤلاء یرون أنھم أولی الناس بي ولیس کذلك إن أولیائي منکم المتقون من کانوا وحیث کانوا ) 7
'' میرے یہ اہل بیت سمجھتے ہیں کہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر میرے حق دارہیں لیکن بات یوں نہیں ہے، بلکہ میرے حق دار تو متقی لوگ ہیں، وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی رہتے ہوں۔''

نیز آپؐ نے یہ بھی فرمایا :
''(اے گروہِ قریش) تم میں سے میرے حق دار وہ ہیں جو متقی ہیں، اگر تم متقی ہوئے تو فبہا ورنہ دیکھ لو، قیامت کے دن لوگ اعمال لے کر آئے اور تم میرے پاس (دنیا اور گناہوں کا) بوجھ لے کر آئے تو تم سے منہ پھیر لیا جائے گا۔ '' 8

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:


لعمرك ما الإ نســان إلا بدینه           فلا تترك التقویٰ اتکالا علی النسب
لقد رفع الإسلام سلمان فارس                وقد وضـع الشرك النسیب أبا لھـب 9

'' تیری عمر کی قسم! انسان جو کچھ ہے وہ اپنے دین کی وجہ سے ہی ہے۔ لہٰذا نسب پر بھروسہ کر کے تقویٰ کو ہاتھ سے گنوا نہ بیٹھنا۔ دیکھئے !اسلام نے فارس کے سلمانؓ کو بلند کر دیا ہے اور شرک نے ابو لہب کو بلند نسب ہونے کے باوجود ذلیل وخوار کر دیا ہے۔''

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ایک مکالمہ
اہل السنہ کے سرخیل حضرت امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے چنگیزی گورنر نے پوچھا کہ تمہارا یزید کے متعلق کیا خیال ہے؟
میں نے کہا : نہ ہم اس سے محبت رکھتے ہیں اور نہ ہی اُسے گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ کوئی اتنا نیک نہیں تھا کہ ہم پر اس سے محبت رکھنی واجب ہوتی اور ہم کسی مسلمان کو نام لے کر گالی بھی نہیں دیتے۔
اس نے کہا: کیا تم اس پر لعنت نہیں کرتے؟ کیا وہ ظالم نہیں تھا؟ کیا اس نے حضرت حسینؓ کو قتل نہیں کیا تھا؟ میں نے جواب دیا : جب ہمارے سامنے حجاج اور اس طرح کے دیگر ظالموں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ہم ایسے ہی کہتے ہیں، جیسے قرآن میں ہے :
أَلَا لَعْنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلظَّـٰلِمِينَ ﴿١٨...سورۃ ھود

اور ہم نام لے کر کسی پر لعنت کرنے کو پسند نہیں کرتے البتہ جس (بدبخت) نے سیدنا حسینؓ کو قتل کیا یا جس نے ان کے قتل پر معاونت کی، یا وہ ان کے قتل پر خوش ہوا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کے فرض اور نفل کو قبول نہ فرمائے۔
اس نے کہا: کیا تم اہل بیت سے محبت نہیں کرتے؟
میں نے کہا: اہل بیت سے محبت رکھنا ہم پر فرض ہے اور اس محبت پراجر بھی دیا جائے گا،کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:
(أذکرکم اﷲ في أهل بیتي) 10
''میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں اللہ یاد دلاتا ہوں۔''


اور ہم نمازو ں میں ہر روز آپؐ پر اور آپؐ کی آل پر درود پڑھتے ہیں۔
اُس نے کہا: جو کوئی اہل بیت سے بغض رکھے تو؟
میں نے جواب دیا: ان سے بغض رکھنے والے پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اللہ اس کے فرض اور نفل کبھی قبول نہ کرے۔ 11


حوالہ جات

1.صحیح بخاری:2442

2. صحیح بخاری:15

3.مسند احمد: 1؍208، صحیح بہ تحقیق احمد شاکر

4.رقم:2408

5.مسلم: 405

6.رقم:2753

7.(5657)

8.کنز العمال :5658،5659

9.جامع العلوم والحکم

10.رقم:2408

11.مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابوالعباس احمد بن تیمیہؒ: ص 488

 


 

i. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے لئے احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں جن میں بطورِ خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرّیت اور ازواجِ مطہرات کو بھی درود میں شامل کیا گیا ہے۔ اور یہ احادیث صحیح بخاری ومسلم اور سنن نسائی وابوداود میں موجود ہیں۔ ان الفاظ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ درودِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلممیں بطورِ خاص اہل بیت (ازواج اور ذریت) کو شامل کرنا مشروع ہے۔ (یاد رہے کہ 'ذرّیت' کا لفظ عورتوں اور بچوں کے لئے بولا جاتاہے)
قالوا: یارسول اﷲ کیف نصلي علیك؟ فقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم: قولوا: )اللهم صل علی محمد وأزواجه وذریته کما صلیت علی آل براہیم وبارك علی محمد وأزواجه وذریته کما بارکت علی آل إبراهیم إنك حمید مجید ( بخاری: 3369، مسلم: 407)
ii. علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے لئے بھی بطورِ خاص درود کے الفاظ احادیث میں موجود ہیں، البتہ اس حدیث کی صحت محدثین کے ہاں مختلف فیہ ہے (دیکھئے ضعیف ابو داود از البانی: 208) حدیث یہ ہے :
عن أبي ھریرة عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال )من سَرَّہ أن یکتالَ بالمکیال الأوفیٰ إذا صلیٰ علینا أھل البیت فلیقل،اللهم صل علی محمد وأزواجه أمهات المؤمنین وذریته وأهل بیته کما صلیت علی آل إبراهیم إ نك حمید مجید (سنن ابو داود: 982)
ان احادیث سے جہاں اہل بیت وذریت ِمحمد کو درودمیں شامل کرنا ثابت ہوتا ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات، اُمہات المومنین کو بھی اپنے درود وصلاة میں شامل کرنے کا پتہ چلتا ہے۔ (حسن مدنی)