رکعات تراویح میں سنت نبوی ﷺ اور تعاملِ صحابہ
مسئلہ:
رمضان المبارک میں نمازِ تراویح کتنی رکعت سنت نبوی ہیں؟ اور بیس تراویح کی کیا حقیقت ہے؟ اور کیا حضرت عمرؓ بن خطاب یا کسی دیگر صحابی سے بیس رکعت کا ثبوت ملتا ہے؟ بعض لوگ حضرت عمرؓ کی طرف نسبت کہتے ہیں کہ انہوں نے بیس رکعت کا حکم دیا تھا یا ان کے زمانے میں پڑھی گئی ہیں۔ براہِ کرم وضاحت فرما کر مشکور فرمائیں۔ (محمد شعیب پاکپتن)
الجواب بعون الملک العزیز الوہاب:
نمازِ تراویح آٹھ رکعت سنت نبوی ہیں۔حدیث:
(1) صحیحین میں حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے مروی ہے۔
« إِنَّه سَاَلَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا کَیْفَ کَانَتْ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فِیْ رَمَضَانَ؟ َقَالَتْ مَاکَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہ عَلٰی إِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً یُصَلِّیْ أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنِّ وَطُوْلِھِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ أرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُوْلِھِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ: َقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ أتَنَامُ قَبْلَ أنْ تُوْتِرَ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ إنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ»حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے ام المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے رسول اللہ (ﷺ) کی رمضان المبارک میں نماز کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا۔ آپ فرماتی ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) کا معمول رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھا۔ چار رکعت خوب اچھی طرح (خشوع خضوع سے) اور لمبی پڑھتے پھر چار رکعت خوب اچھی طرح اور لمبی پڑھتے پھر تین رکعت وتر پڑھتے۔ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں۔ میں نے کہا یا رسول اللہ (ﷺ) کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں۔ فرمایا اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور دِل جاگتا ہے۔اس حدیث کو امام المحدثین محمد بن اسمٰعیل بخاری (رحمہ اللہ تعالیٰ) اپنی جامع میں تین مقامات پر لائے ہیں۔
کتاب التھجد۔ کتاب صلوۃ التراویح۔ کتاب المناقب۔
مقصود اس سے مختلف مسائل کا استنباط و استخراج ہے جیسا کہ بخاری کی عادت ہے۔ حافظ ابن حجر (رحمہ اللہ) فتح الباری جز ۳ صفحہ ۳۳ مذکورہ حدیث کے تحت یوں رقم طراز ہیں:
« فِیْ الْحَدِیْثِ دَلَالَةٌ عَلٰی أنَّ صَلَاتَه (ﷺ) کَانَتْ مُتَسَاوِیَةً فِیْ جَمِیْعِ السَّنَة»ِ یعنی اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آپ کی (رات کی) نماز سارا سال برابر تھی۔
فضیلۃ الشیخ علامہ ابو الحسن عبید اللہ بن علامہ محمد عبد السلام مبارک پوری حفظہ اللہ تعالیٰ فی الدارین اپنی محققانہ تالیف مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں تحریر فرماتے ہیں:
« فَھٰذَا الْحَدِیْثُ نَصٌّ فِیْ أنَّهُ (ﷺ) إنَّمَا صَلّٰی التَّرَاوِیْحَ فِیْ رَمَضَانَ ثَمَان رَکَعَاتٍ فَقَطْ َلَمْ یُصَّلِ بِأکْثَرَ مِنْھَا» یعنی یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ نبی (ﷺ) نے رمضان میں صرف آٹھ رکعت ہی پڑھی ہیں اس سے زیادہ نہیں پڑھیں۔
مولانا انور شاہ کشمیرؒ حنفی عرف الشذی صفحہ ۳۰۹ میں فرماتے ہیں:
«فِیْهِ تَصْرِیْحٌ أنَّه حَالُ رَمَضَانَ فَاِنَّ السَائلَ سَئلَ عَنْ حَالِ رَمَضَانَ وَغَیْرِہ کَمَا عِنْدَ التِّرْمِذِي،ّ وَمُسْلِمٍ َّلَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیْم أنَّ تَرَاوِیْحَه عَلَیْهِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَةَ رَکَعَاتٍ لَمْ یَثْبُتْ فِیْ رِوَایَةٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ أنَّهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ صَلّٰی التَّرَاوِیْحَ وَالتَّھَجُّدَ عَلٰی حِدَةٍ فِیْ رَمَضَانَ بَلْ طَوَّلَ التَّرَاوِیْحِ، وَبَیْنَ التَّرَاوِیْحِ وَالتَّھَجُّدِ فِیْ عَھْدِہ عَلَیْهِ السَّلَامُ لَمْ یَکُنْ فَرْقٌ فِی الرَّکَعَاتِ»حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث میں تصریح ہے کہ یہ (گیارہ رکعات) بحالت رمضان ہیں کیونکہ سائل کا سوال رمضان و غیر رمضان سے ہے جیسا کہ ترمذی اور مسلم میں ہے، اور یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ نبی (ﷺ) کی نمازِ تراویح آٹھ رکعات تھیں اور روایتوں میں سے کسی روایت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں بلکہ آپ نے تراویح ہی کو لمبا کیا اور آنحضرت (ﷺ) کے عہد مبارک میں تراویح اور تہجد کی رکعات میں کوئی فرق نہیں تھا۔
گیارہ رکعات کی حکمت:رکعات تراویح میں گیارہ رکعات کی حکمت یہ ہے کہ تہجد (تراویح) اور وتر رات کی نماز ہیں جس طرح ظہر، عصر اور مغرب دن کی نماز ہیں، جب دن کی نماز ظہر ۴، عصر ۴ اور مغرب ۳ کل گیارہ رکعات فرض ہیں۔ رات کی نماز بھی عدد میں (گیارہ رکعات) ان کے برابر مناسب ہے اور اگر فجر کے دو فرض بھی دن کی نمازوں میں شامل کر لیے جائیں تو تیرہ رکعات کی حکمت بھی حاصل ہو جاتی ہے ۔
اگر کوئی کہے کہ عائشہؓ کی یہ روایت ان کی ایک دوسری روایت کے خلاف ہے جو یوں ہے
« إنَّه كَانَ (ص) إذَا دَخْلَ الَْعشْرُ الْأوَاخِرُ يَجْتَھِدُ مَا لَا يَجْتَھِدُ فِيْ غَيْرِه» رمضان المبارک کا جب آخری دھاکا آتا تو آنحضرت (ﷺ) عبادت میں اتنی محنت کرتے جو اس سے دوسرے دنوں میں نہ ہوتی۔
یعنی آپ ﷺ نفل نوافل بہت پڑھتے تھے۔
اس کے جواب میں صاحب مرعاۃ المفاتیح مولانا رحمانی فرماتے ہیں۔
«قُلْتُ: اَلْمُرادُ بِالْاِجْتِھَادِ تَطْوِيْلُ الرَّكَعَاتِ لَا الزِّيَادَةُ فِيْ الْعَدَدِ» يعنی محنت سے مراد رکعات کا لمبا کرنا ہے نہ کہ عدد میں زیادتی۔
اور علامہ عینیؒ حنفی فرماتے ہیں:
«إنَّ الزِّيَادَةَ فِيْ الْعَشْرِ الْأوَاخِرِ يُحْمَلُ عَلٰي التَّطْوِيْلِ دُوْنَ الزِّيَادَةِ فِيْ الْعَدَدِ» آخری عشرہ میں زيادتی (محنت) كو ركعات كے لمبا كرنے پر محمول كيا جائے گا نہ کہ زيادتی عدد پر۔
حديث (2) معجم الصغير اور قيام الليل مروزی ميں حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے۔
«قَالَ صَلّٰي بِنَا رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ ثَمَان رَكَعَاتٍ» حضرت جابر بن عبد الله فرماتے ہيں: رسول الله (ﷺ) نے ماهِ رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں۔
امام ذہبی اس حدیث کو میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۳۱۱ میں عیسی بن جاریہ مدنی راوی حدیث کے ترجمہ (بیان احوال) میں ذکر فرماتے ہیں:
اسنادہ وسط یعنی اس حدیث کی ند رمیانہ درجہ کی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اس حدیث کو بیان کر کے اس کی سند پر کوئی جرح نہیں کی۔ گویا مقدمہ فتح الباری (ہدی الساری) میں ذکر کردہ شرط کی بناء پر حافظ صاحب کے نزدیک اس کی سند صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے۔
ایسے ہی حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث پر تلخیص الجیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر (فقہ شافعی) میں سکوت کیا ہے۔
اور علامہ عینی حنفی بھی عمدۃ القاری شرح بخاری میں اس حدیث کو لائے ہیں اور ابن خزیمہ اور ابن حبان سے اس کی تصحیح نقل کی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ہاں البتہ مولوی شوق نیموی نے آثار السن میں امام ذہبی کے کلام پر تنقید کی ہے چنانچہ لکھا ہے۔ اس حدیث کا مدار عیسی بن جاریہ پر ہے۔ اس میں ابن معین، ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے جرح کی ہے اس بناء پر اس کی اسنادلین (کمزور) ہے لہٰذا دلیل کے قابل نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر شرح نجنۃ الفکر میں فرماتے ہیں
«اَلذَّھْبِيُّ مِن أَھلِ الِاسْتقْرَاءِ التَّامِّ فِي نَقْدِ الرِجَّالِ »امام ذہبی رواۃ کی جرح و تعدیل میں اہل استقراء تام سے ہیں۔ بحر العلوم صفحہ ۴۴۱ طبع نول کشور شرح مسلم الثبوت (اصول فقہ حنفی) ميں ذہبی کے متعلق ذکر ہے:
«ھُوَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْتِقْرَاءِ التَّامِّ فِيْ نَقْلِ حَالِ الرِّجَالِ» یعنی اس کا (ذہبی کا) استقراء اسماء الرجال میں بہت کامل ہے۔
صاحب تحفة الاحوذی جز ۳ ص ۵۲۵ (طبع جديد مصری) ميں فرماتے ہیں۔
«فَلَمَّا حَكَمَ الذَّھْبِيُّ بِأَنَّ اِسْنَادَه وَسَطٌ بَعْدَ ذِكْرِ الْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْلِ فِيْ عِيْسٰي بْنِ جَارِيَةَ وَ ھُوَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْتِقْرَاءِ التَّامِّ فِيْ نَقْدِ الرِّجَالِ فَحُكْمُهٌ بِأَنَّ اِسْنَادَه وَسَطٌ وَھُوَ الصَّوَابُ وَيُؤَيِّدُه إِخْرَاجُ ابْنِ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ ھٰذَا الْحَدِيْثَ فِيْ صَحِيْحَيْھِمَا فَلَا يُلْتَفَتُ إِلٰي مَا قَالَ النِّيْمَوِيُّ وَيَشْھَدُ لِحَدِيْثِ جَابِرٍ ھٰذَا حَدِيْثُ عَائِشَةَ الْمَذْكُوْرُ مَا كَانَ يَزِيْدُ فِيْ رَمَضَانَ وَلَا فِيْ غَيْرِه عَلٰي إِحْدٰي عَشَرَة رَكَعَةً »جب امام مذہبیؒ نے عیسی بن جاریہ میں جرح و تعدیل کے بعد اس حدیث کی سند پر وسط (درمیانہ درجہ) کا حکم لگایا ہے۔ وہی صحیح ہے کیونکہ ذہبی نقد رجال میں اہل استقراء تام سے ہیں اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان اپنی اپنی صحیح میں اس حدیث کو لائے ہیں۔ پس نیموی کا قول قابل التفات نہیں ہے۔ نیز حضرت جابر کی اس حدیث کی مؤید (شاہد) حضرت عائشہ کی حدیث ہے یعنی رسول اللہ (ﷺ) کا معمول رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں تھا۔
حدیث (3): تحفۃ الاحوذی میں بحوالہ ابو یعلی جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے۔
«جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ اِلٰي رَسُولِ اللهِ (ﷺ) فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) إنَّه كَانَ مِنِّيْ اللَّيْلَةَ شَئٌ يَعْنِيْ فِيْ رَمَضَانَ قَالَ: وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَءُ الْقُرْاٰنَ فَنُصَلِّيْ بِصَلَاتِكَ قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِھِنَّ ثَمَان رَكَعَاتٍ َأَوْتَرْتُ فَكَانَتْ سُنَّةَ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا:قَالَ الْھَيْثميُّ فِيْ مَجْمَِع الزَّوَائِدِ: إسْنَادُه حَسَنٌ »ابی بن کعب رسول اللہ (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئے۔ عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) رمضان ميں آج رات مجھ سے ايك (عجيب) كام ہوا، آپ نے فرمایا وہ کیا؟ عرض کی ہمارے گھر میں عورتوں نے مجھ سے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں اس لئے ہم تیرے ساتھ نماز پڑھیں گی۔ پس میں نے انہیں آٹھ رکعات (تراویح) پڑھائیں اور ور پڑھے۔ پس راوی کا بیان ہے کہ یہ طریقہ پسند کیا گیا اور آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند حسن ہے۔
مندرجہ بالا تین احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔
بیس تراویح کی حقیقت:بیس تراویح رسول اللہ (ﷺ) یا کسی صحابی مثلاً عمر بن خطابؓ وغیرہ سے ثابت نہیں اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔
اس سلسلہ میں سنن کبریٰ بیہقی کی ايك روايت عبد الله بن عباس سے مرفوعا بیان کی جاتی ہے جو یہ ہے:
«اِنَّ النَّبِي (ﷺ) کَانَ یُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً سِوٰی الْوِتْرِ »نبی (ﷺ) کا معمول رمضان میں بیس رکعات وتر کے سوا تھا۔ اس پر صاحب مرعاۃ المفاتیح لکھتے ہیں
« فَھُوَ ضَعِيْفٌ جِدًّا لَّا يَصْلُحُ لِلْاِسْتِدْلَالِ ولا للاستشْھَادِ وَلَا لِلْاِعْتِبَارِ فَاِنَّ مَدَارَه عَلٰي اَبِيْ شَيْبَةَ اِبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ وَھُوَ مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ كَمَا فِيْ التَّقْرِيْبِ »یعنی عبد اللہ بن عباس کی حدیث سخت ضعیف ہے جو نہ تو دلیل بنانے کے قابل ہے اور نہ ہی تائید و تقویت کے قابل ہے کیونکہ اس کا مدار ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان (دادا امام ابن ابی شیبہ) پر ہے اور وہ متروک الحدیث ہے جیسا کہ تقریب التہدیب میں ہے۔
اور علامہ زیلعی حنفی اسی حدیث کے متعلق نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایۃ میں فرماتے ہیں:
« ھُوَ مَعْلُوْلٌ بِأبِيْ شَيْبَةَ إبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ مُتَّفَقٌ عَلٰي ضَعْفِه وَلَيَّنَه ابْنُ عَدِيٍّ فِيْ الْكَامِلِ ثُمَّ إنَّه مُخَالِفٌ لِلْحَدِيْثِ الصَّحِيْحِ عَنْ اَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّه سَأَلَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) فِيْ رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيْدُ فِيْ رَمَضَانَ وَلَا فِيْ غَيْرِه عَلٰي إحْدٰي عَشَرَةَ رَكْعَةً ،الْحَدِيْثَ »عبد اللہ بن عباس کی حدیث ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے سبب سے ضعیف ہے۔ جس (ابی شیبہ) کے ضعف پر اتفاق ہے اور ابن عدی نے کامل میں اسے لین (کمزور) کہا ہے۔ پھر یہ روایت ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کی رمضان کی نماز کیسی تھی؟ فرمایا: آپ کا معمول رمضان غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھا۔اور ابن الہمام حنفی فتح القدیر شرح ہدایۃ میں اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
« ھُوَ ضَعِيْفٌ بِأبِيْ شَيْبَةَ إبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ مُتَّفَقٌ عَلٰي ضَعْفِه مَعَ مُخَالَفَتِه لِلصَّحِیْحِ »یہ روايت ابو شیبہ ابرہيم بن عثمان کی وجہ سے ضعيف ہے جس كے ضعف پر علماء كا اتفاق ہے جب کہ وہ صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے۔
اور علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں تحریر فرماتے ہیں:
« أبُوْ شَيْبَةَ إبْرَاھِيْمُ ابْنُ عُثْمَانَ عَبْسِيٌّ كُوْفِيٌّ قَاضِيْ وَاسِطَ جَدُّ أبِيْ بَكْرِ بْنِ أبِيْ شَيْبَةَ كَذَّبَه شُعْبَةُ وَضَعَّفَه أحَمْدُ فِيْ مَنَاكِيْرِه ،انْتَھٰي »امام شعبہ نے ابراہيم بن عثمان كو كذاب کہا ہے اور امام احمد، ابن معين، بخاری اور نسائی وغيره نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس حدیث کو ابن عدی نے کامل میں ابراہیم بن عثمان کی منکر احادیث میں شامل کیا ہے۔ اور امام بیہقی فرماتے ہیں۔
«تَفَرَّدَ بِه أبُوْ شَيْبَةَ إبْرَاھِيْمُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَبسِيُّ الْكُوْفِيُّ وَھُوَ ضَعِيْفٌ» اس حدیث میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
فتح الباری جز ۴ میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
«وَأمَّا مَا رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُصَلِّيْ فِيْ رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ فَاِسْنَادُه ضَعِيْفٌوَقَدْ عَارَضَه حَدِيْثُ عَائِشَةَ ھٰذَا الَّذِيْ في الصَّحِيْحَيْنِ مَعَ كَوْنِھَا أعْلَمَ بِحَالِ النَّبِيِّ (ﷺ) لَيْلًا مِّنْ غَيْرِھَا »ابن ابی شیبہ نے (مصنف میں) ابن عباس سے جو روايت كی ہے کہ رسول الله ﷺ رمضان ميں بيس ركعت اور وتر پڑھتے۔ اس كی سند ضعيف ہے۔ نیز حضرت عائشہ (رضی الله عنها) كی صحيحين والی حديث اس كے خلاف ہے۔ حالانکہ عائشہؓ نبی (ﷺ) كے رات احوال سے دوسروں كی نسبت زياده با خبر ہیں۔ اور حضرت الشیخ علامہ ناصر الدین البانی محدث شام اپنی تالیف صلوٰۃ التراویح میں فرماتے ہیں: میں نے اس حدیث کے مصادر کا تتبع کیا۔ جمیع طرق میں ابراہیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس مرفوعا ہے۔
امام طبرانی فرماتے ہیں:
یہ روایت حضرت ابن عباس سے صرف اسی اسناد سے منقول ہے۔
اور حافظ نور الدین ہیثمی کا قول ہے۔
أنه ضعیف۔عبد اللہ ؓ بن عباس کی حدیث ضعیف ہے۔
اور علامہ البانی فرماتے ہیں:
«وَالْحَقِيْقَةُ أنَّه ضَعِيْفٌ جِدًّا كَمَا يُشِيْرُ إلَيْهِ قَوْلُ الْحَافِظِ الْمُتَقَدِّمِ (مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ) وَھٰذَا ھُوَ الصَّوَابُ فَقَدْ قَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: لَيْسَ بِثِقَةٍ وَقَالَ الْجَوْزَ جَانِيُّ: سَاقِطٌ وَّقَالَ الْبُخَارِيُّ: سَكَتُوْا عَنْهُ »حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس كی روايت بہت ضعيف ہے جيسا کہ تقريب التہذیب میں حافظ ابن حجر کے قول (متروک الحدیث میں) اشارہ ہے اور یہی درست ہے۔ امام الجرح والتعدیل ابن معین نے کہا: ابراہیم ثقہ نہیں اور جو زجانی نے کہا ہے: اعتبار سے گرا ہوا ہے اور امام بخاری فرماتے ہیں: سَکَتُوْا عَنْهُ (امام بخاری كے نزديك یہ کلمہ متروك الحديث كے شبیہ ہے۔ ملاحظہ ہو اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر ص ۱۱۸)
پھر شیخ البانی اپنے رسالہ ''صلوۃ التراویح'' میں فرماتے ہیں۔
«وَلِذَالِكَ فَإنِّيْ أرٰي أنَّ حَدِيْثَه ھٰذَا فِيْ حُكْمِ الْمَوْضُوْعِ لِمُعَارَضَتِه لِحَدِيْثِ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ كَمَا سَبَقَ عَنِ الْحَافظَيْنِ الزَّيْلَعِيِّ وَالْعَسْقَلَانِيِّ »اور اسی لئے میری رائے یہ ہے کہ ابن عباس سے روایت موضوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ عائشہ اور جابر کی احادیث کے بھی معارض ہے جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ عسقلانی کے اقوال میں گزرا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت قابل احتجاج و اعتبار نہیں ہے اس لئے حضرت عائشہ اور جابر کی روایت پر عمل کیا جائے گا جس میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے۔
حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے بیس تراویح ثابت نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کا معمول رہا بلکہ حضرت عمرؓ نے سب کو جمع کر کے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ موطا امام مالک میں ہے۔
«عَنْ مُّحَمَدَّ بْنِ يُوْسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ أنَّه قَالَ أمَرَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ اُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَّتَمِيْمًا الدَّارِيَّ أنْ يَّقُوْمَا لِلنَّاسِ بِإحْدٰي عَشَرَةَ َكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَءُ بِالْمِئِيْنِ حَتّٰي كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلٰي الْعِصِيِّ مِنْ طُوْلِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إلَّا فِيْ فُروْعِ الْفَجْرِ»سائب بن یزید فرماتے ہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ قاری مئین سورتیں پڑھتا یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے اور ہم پو پھٹنے کے قریب (گھروں کو) واپس ہوتے۔محدث شام شیخ البانی فرماتے ہیں:
« قُلْتُ: َھٰذَا سَنَدٌ صَحِيْحٌ جِدًّا فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ شَيْخ مَالِكٍ ثِقَةٌ اِّتفَاقًا وَّاحْتَجَّ بِه الشَّيْخَانِ وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيْدَ صَحَابِيٌّ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ (ﷺ) وَھُوَ صَغِيْرٌ »اس روایت کی سند بہت صحیح ہے کیونکہ محمد بن یوسف شیخ امام مالک بالاتفاق ثقہ ہے اور شیخین (بخاری مسلم) نے اس سے حجت لی ہے اور سائب بن یزید صحابی ہے جس نے بچپن میں نبی ﷺ کے ساتھ حج کیا تھا۔
حضرت عمرؓ کا یہ فرمان حضرت عائشہؓ و جابرؓ کی پہلے بیان کردہ احادیث کے عین موافق ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک مسنون گیارہ رکعت ہی ہیں جس پر آپ نے لوگوں کو جمع کیا۔
باقی رہا کہ حضرت عمرؓ كے عہد خلافت ميں لوگوں کا معمول کیا تھا؟ سو وہ بھی بیس تراویح کسی صحیح طریق سے ثابت نہیں اور حضرت عمرؓ کے عہد میں لوگوں کا باجماعت گیارہ رکعت پڑھنا صحیح روایت سے ثابت ہو چکا ہے۔ بیس رکعت والی روایات ضعیف ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
روایت (1):موطا امام مالک میں یزید بن رومان سے مروی ہے۔
«کَانَ النَّاسُ يَقُوْمُوْنَ فِيْ زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِيْ رَمَضَانَ بِثَلٰثٍ وَّعِشْرِيْنَ رَكْعَةً»حضرت عمرؓ کے عہد میں لوگ رمضان میں تئیس رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس روایت کو امام بیہقی سنن کبریٰ اور المعرفۃ (معرفۃ السنن والآثار) میں لائے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں یزید بن رومان لم یدرک عمر۔
اس روایت کے راوی یزید بن رومان نے حضرت عمرؓ کو نہیں پایا لہٰذا یہ روایت منقطع ہے جو ضعیف کی قسم ہے اور حافظ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں اس (جرح) پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اسے برقرار رکھا ہے۔
روایت (2):علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں ایک روایت حافظ ابن عبد البر سے نقل کی ہے۔
«قَالَ: وَرَوٰي الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِيْ ذُبَابٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ قَالَ: كَانَ الْقِيَامُ عَلٰي عَھْدِ عُمَرَ بِثَلَاثٍ وَّعشرِيْنَ رَكْعَةً »سائب بن یزید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تئیس رکعت کا رواج تھا۔
اس اثر میں بھی ضعف ہے۔
علامہ البانی فرماتے ہیں:
«ھٰذَا سَنَدٌ ضَعِيْفٌ لِّأنَّ ابْنَ أُبِيْ ذُبَابٍ ھٰذَا فِيْهِ ضَعْفٌ مِنْ قَبْلِ حِفْظِه قَالَ ابْنُ أَبِيْ حَاتِمٍ فِيْ الْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْلِ: قَالَ أَبِيْ: يَرْوِيْ عَنْهُ الدَّرَاوَرْدِيُّ اَحَادِيْثَ مُنْكَرَةً وَّلَيْسَ بِذَالِكَ القَوِيِّ يُكْتَبُ حَدِيْثُه قَالَ أَبُوْ زُرْعَةَ: لَا بَأسَ بِه »اِس اثر کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابن ابی ذباب حافظہ کمزور ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم ''الجرح والتعدیل'' میں فرماتے ہیں۔ میرے والد نے کہا دراوردی نے اس سے منکر احادیث نقل کی ہیں اور یہ با اعتماد نہیں کہ اس کی حدیث لکھی جائے۔ ابو زرعہ نے کہا لا بَأْسَ بِه اور حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں صدوق بہم اور تہذیب التہذیب میں ہے امام مالک اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔
روایت (3):حافظ ابن حجر فتح الباری میں ایک اثر لائے ہیں فرماتے ہیں:
«رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ وَّجْهٍ اٰخَرَ (اَيْ مِنْ طَرِيْقِ دَاودَ بْنِ قَيْسٍ) عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ يُوْسُفَ فَقَالَ إِحْدٰي وَعِشْرِيْنَ »اور عبد الرزاق نے اسے ايك دوسرے طريق سے روايت کیا ہے یعنی داؤد ابن قیس کے طریق سے جو محمد بن یوسف سے روایت کرتے ہیں: فرمایا: اکیس۔
یہ اثر بجائے اس کے کہ حنفیہ اس سے دلیل پکڑیں بلکہ ان کے مخالف ہے کیونکہ وہ ایک رکعت وتر کے قائل نہیں۔
شیخ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں۔
اس اثر میں کلام دو طرح سے ہے ایک تو یہ اثر گیارہ رکعت والے صحیح اثر کے مخالف ہے (شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہوا)
دوسرا سبب اس میں بذات خود عبد الرزاق ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے
«وقد کان عمي في آخر عمرہ فتغیر »آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی زائل ہونے کے بعد حافظہ جاتا رہاتھا۔
اور حافظ ابو عمرو بن الصلاح نے علوم الحديث ص ۳۵۵ ميں ان كا شمار مختلطین ميں كيا ہے اور امام نسائی فرماتے ہیں۔
«نُظِرَ لِمَنْ كَتَبَ عَنْهُ بِاٰخِرَةٍ »جس نے عبد الرزاق سے آخری عمر میں لکھا ہے اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی جائے۔ مختلطین كے متعلق علماء اصول الحدیث کا قانون یہ ہے کہ جس نے اختلاط سے پہلے ان سے حدیث لی قبول کی جائے گی اور جس نے اختلاط کے بعد لی رد کر دی جائے گی۔ اگر معلوم نہ ہو سکے کہ آیا یہ روایت قبل از اختلاط ہے یا بعدِ از اختلاط تو پھر بھی رد کر دی جائے گی۔ اور زیر بحث اثر اسی قبیل سے ہے۔
وَاللهُ تَعَالٰي اَعْلَمُروایت (4):سنن کبری بیہقی جلد ۲ ص ۴۹۶ میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے ہے۔
«عَنِ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيْدَ قَالَ: كَانُوْا يَقُوْمُوْنَ عَلٰي عَھْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً قَالَ: وَكَانُوْا يَقْرَءُوْنَ بِالْمِئِيْنِ وَكَانُوْا يَتَوَكَّئُوْنَ عَلٰي عِصِيِّھِمْ فِيْ عَھْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ »حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ مئین سورتیں پڑھتے اور حضرت عثمانؓ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے۔
یہ اثر کئی وجہ سے ضعیف ہے۔
الف۔ اس کی سند میں ابو عبد اللہ محمد بن حسین بن فنجویہ دینوری ہے اس کی ثقاہت ثابت نہیں ہو سکی
«فَمَنِ ادَّعٰي الصِّحَّةَ فَعَلَيْهِ بِالدَّلِيْلِ »ب۔ دوسرے راوي يزيد بن خصیفہ كو امام احمد نے منكر الحديث کہا ہے جس كا معنی امام احمد كے نزديك یہ ہے کہ وہ راوی غریب احادیث بیان کرتا ہو۔ اس حدیث میں یزیداپنے سے اوثق (محمد بن یوسف) کی مخالفت کرتا ہے جس نے عمرؓ بن الخطاب سے صحیح سند سے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اس لئے یزید بن خصیفہ کی روایت شاذ ہونے کی وجہ سے۔
ج۔ یہ روايت مضطرب ہے۔ شيخ ناصر الدين البانی اپنی كتاب ''صلاۃ التراویح'' میں روایت نقل فرماتے ہیں۔
« فَقَالَ إِسْمٰعِيْلُ بْنُ أُمَيَّةَ: إَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ ابْنَ أُخْتِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ أِخْبَرَه (قُلْتُ: فَذَكَرَ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ يُوْسُفَ ثُمَّ قَالَ ابنُ أُمَيَّةَ): قُلْتُ: أَو َاحِدٍ وَّعِشْرِيْنَ؟ قَالَ (يَعْنِيْ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ): لَقَدْ سَمِعَ ذٰلِكَ مِنَ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ ابْنُ خَصِيْفَةَ، فَسَأَلْتُ (السَّائِلُ ھُوَ إسْمَاعِيْلُ بْنُ أُمَيَّةَ) يَزِيْدَ بْنَ خَصِيْفَةَ؟ َقَالَ: حَسِبْتُ أَنَّ السَّائِبَ قَالَ: أَحَدٍ وَّعِشْرِيْنَ: قُلْتُ: وَسَنَدُه صَحِيْحٌ »یعنی جب اسماعيل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے گمان ہے (یعنی یقین نہیں) کہ سائب بن یزید نے اکیس رکعات کہا ہے (سند صحیح ہے) یہ حنفیہ پر حجت ہے کیونکہ تین وتر کی صورت میں رکعات تراویح اٹھارہ ۱۸ رہ جائیں گی۔ اس طرح یزید بن خصیفہ کی روایت میں بیس ۲۰ اور اٹھارہ ۱۸ کی وجہ سے اضطراب ہو گا۔
دیگر کئی آثار حضرت عمرؓ کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں لیکن وہ سب متکلم فیہ ہیں۔ ایسے ہی بعض آثار حضرت علی، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود کی طرف منسوب ہیں لیکن کوئی بھی جرح وقدح سے خالی نہیں۔
اس لئے أقرب إلی الصواب یہی ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ حضرت عائشہؓ و جابرؓ وغیرہ کی صحیح احادیث میں گزر چکا ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی رسالہ ''المصابیح فی صلوۃ التراویح'' میں امام مالک سے نقل کرتے ہیں۔
«قَالَ الْجُوْدِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَاعَن مَّالِكٍ أَنَّه قَالَ الَّذِيْ جَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَحَبُّ إِلَيَّ وَھُوَ إحْدٰي عَشَرَةَ رَكَعَةً وَّھِيَ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) قِيْلَ لَه: إِحْدٰي عَشَرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ قَالَ: وَلَا أدْرِيْ مِنْ أيْنَ أُحْدِثَ ھَذَا الرُّكوْعُ الْكَثِيْرُ »ہمارے اصحاب میں سے جوری مالك سے نقل كرتے ہیں کہ وه فرماتے ہيں۔ جس شی پر حضرت عمر بن الخطاب نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور وہ گیارہ رکعت ہیں۔ یہی رسول اللہ (ﷺ) کی نماز ہے۔ امام مالکؒ سے پوچھا گیا کیا گیارہ رکعت بمعہ وتر؟ فرمایا: ہاں اور تیرہ رکعت بھی قریباً اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ یہ کثرت تعداد رکعت کہاں سے بدعت نکال لی ہے۔مندرجہ بالا ساری بحث سے ثابت ہوا کہ رکعات تراویح میں سنت نبوی اور تعاملِ صحابہ آٹھ رکعت ہے۔
بعض علماء نے سنت نبوی آٹھ ركعت تسليم كر لينے كے باوجود صحابہ سے بيس ركعات ثابت كرنے كی كوشش كی ہے۔ ان روایات کا ضعف ناظرین ملاحظہ فرما چکے ہیں، نیز یہ بات قابل غور ہے کہ آٹھ رکعت سنت نبوی ثابت ہو جانے کے بعد بعض صحابہ کا عمل اگر بالفرض وہ زیادہ ثابت کر بھی دیں تو اس کی کیا پوزیشن ہو گی؟ انہیں إِ
نَّ خَيْرَ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ (ﷺ) مد نظر رکھنا چاہئے۔ صحابی شارع نہیں ہوتا کہ وہ مستقلاً قابل اتباع ہو۔
ھٰذَا مَا عِنْدِيْ وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
حوالہ جاتیہ روایت موطا امام مالک، ابو داؤد، ترمذی، بیہقی، مسند امام احمد اور ابو وانہ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
عنوان کتاب صلوۃ التراویح صرف نسخہ مستملی میں ہے۔
صحیح ثمان رکعات یا ثمانی رکعات ہے یعنی تاء کے بغیر، کیونکہ تین سے نو تک عدد معدود میں تذکیر و تانیث کا اختلاف ہوتا ہے۔
یہی کمت حاظ ابن حجرؒ نے فتح الباری جلد ۳ میں بیان فرمائی ہے۔
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور مسند ابو یعلی وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
اگر کوئی کہے کہ ابن حبان تصحیح میں متساہل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ابن خزیمہ اور ابو زرعۃ، عیسی بن جاریہ کی توثیق میں ابن حبان کے موید ہیں۔ ابن حبان تصحیح میں منفرد نہیں لہٰذا ابن حبان کی تصحیح قابل اعتماد ہوئی۔ صحیح ابن خزیمہ کے بارہ میں حضرت الاستاد حماد بن محمد الانصاری (مدینہ منورہ) کو فرماتے سنا: صحیح ابن خزیمہ کی احادیث علی الاقل حسن درجہ کی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ امام ذہبی کا اس حدیث کے متعلق ''اسنادہ وسط'' فرمانا درست ہے۔ صحیح ابن خزیمہ ابھی تک قلمی ہے جس کا فوٹو میں نے مدینہ منورہ میں دیکھا ہے جو دار العلوم برلن (جرمنی) کے کتب خانہ میں موجود قلمی نسخہ سے لیا گیا ہے۔ مدینہ منورہ کا ایک تاجر اسے طبع کرانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ خدا کرے جلد از جلد منظر عام پر آجائے تاکہ علماء و طلباء مستفید ہو سکیں۔
بہ روایت مصنف ابن أبي شيبه، عبد بن حميد في المنتخب من المسند، طبراني في المعجم الكبير وفي المعجم الأوسط والمنتقي منه للذھبي والجمع بينه وبين الصغير لغير الطبراني وابن عدي في الكامل والخطيب في الموضح
یہ حدیث ابو بکر نیشا پوری نے فوائد میں اور بیہقی نے سنن کبریٰ میں اور فریابی نے بھی روایت کی ہے۔
لَا بَأْسَ بِہ وَفِي تَھْذِیْبِ التَّھْذِیْبِ (جلد ۲ ص ۱۴۸) بِلَفْظِ قَالَ أَبُوْ زُرْعَةَ: لَیْسَ بِهِ بَأْسٌ۔ جرح اور تعدیل کے قواعد کے مطابق ابن ابی ذباب مندرجہ ذیل وجوہات سے ضعیف ہے۔
الف۔ جارح محدثین بہت ہیں اور ابو زرعہ کی تعدیل ''لا بأس بہ'' مبہم، خفیف اور چوتھے درجہ کی ہے۔
ب۔ جرح مفسر ہے اس لئے مقدم ہے۔ إذَا اجْتَمَعَ فِيْ شَخْصٍ جَرْحٌ وَّتَعْدِيْلٌ فَالْجَرْحُ مُقَدَّمٌ الخ (مقدمة ابن الصلاح ص ۹۹ طبع جديد)
حافظ ابن کثیر نے امام شافعی سے شاذ کی تعریف یہ نقل کی ہے۔
وَھُوَ أَنْ يَرْوِي الثِّقَةُ حَدِيْثًا يُّخَالِفُ مَا رَوٰي النَّاسُ
اور تقریب نووی میں ہے۔ فَإِنْ كَانَ بِتَفَرُّدِه مُخَالِفًا أَحفَظَ مِنهُ َأَضْبطََ كَانَ شَاذًّا مَّرْدُوْدًا
حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں محمد بن یوسف کو ثقہ ثبت اور یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہتے ہیں۔ ان کے نقابلی الفاظ میں محمد بن یوسف کا زیادہ ثقہ ہونا واضح ہے۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیس رکعات وتر سمیت (۱+۲۰) اور بیس رکعات وتر بغیر یزید بن خضیفہ کا صرف گمان ہے جب کہ محمد بن یوسف کو گیارہ پر یقین ہے۔ اسمٰعیل ابن امیہ (سائل) نے بھی ابن یوسف پر ہی اعتماد کیا ہے جیسا کہ اس کی گیارہ رکعت والی روایت (عند النیسا بوری) سے ظاہر ہے۔
بعض ناقلين نے جوزی بالز اور بعض نے ابن الجوزی لكھا ہے حالانکہ صحيح جوری بالراء المہملة ہے۔ چنانچہ طبقات الشافعیہ ابن سبکی میں ہے: لجُوْرِيُّ بِضَمِّ الْجِيْمِ ثُمَّ الْوَاوِ السَّاكِنَةِ ثُمَّ الرّاءِ نِسْبَةٌ اِلٰي جُوْرٍ بَلْدَةٌ مِّنْ بِلَادِ فَارِسَ۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے شارح امام لحنفیہ ابن الہمام فرماتے ہیں: إِنَّ مُقْتَضٰي الدَّلِيْلِ كَوْنُ الْمَسْنُوْنِ فِيْھَا مِنْھَا ثَمَانِيَةً (فتح القدير ج ۲ ص ۳۳) یعنی دلیل شرعی سے مسنون رکعات تراویح آٹھ ہی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ ساری بحث سنیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے رکعات کی تعداد مسنون کے متعلق ہے ورنہ اگر کوئی شخص سنت مؤکدہ کے ارادہ سے آٹھ پڑھ کر بہ نیت نوافل جس قدر زیادہ پڑھنا چاہے اس کے لئے جائزہ ہے جن کا اجراء سے الگ ملے گا مگر ان نوافل کے کوئی تعداد مقرر (نبی ﷺ) یا صحابہ سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ سے مختلف تعداد میں نوافل نقل کئے جاتے ہیں۔ مثلاً چھتیس اور چالیس۔ چنانچہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں والْبَاقِیْ مُسْتَحَبًّا یعنی آٹھ سے زیادہ مستحب رکعات ہیں (ادارہ)