احباب کے زیر مطالعہ مجلہ ''محدث'' شیخ التفسیر حافظ محمد حسین صاحب روپڑی، شیخ الحدیث حافظ عبد اللہ صاحب روپڑی اور خطیب ملت حافظ محمد اسماعیل صاحب روپڑی رحمۃاللہ علیہم اجمعین کے باقیات صالحات سے ہے۔ اس لئے رمضان المبارک کے احکام و مسائل میں ہم خطیب ملت حضرت مولانا حافظ محمد اسمٰعیل صاحب روپڑی کا یادگار مضمون ہدیہ قارئین کر رہے ہیں تاکہ احباب رمضان المبارک میں مرحومین کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ حافظ ثناء اللہ صاحب (اللیسانس) اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ نے نہایت احسن انداز میں مضمون ہذا کی نئی ترتیب اور مکمل تخریج کی ہے اور بعض جگہ وضاحت بھی فرمائی ہے۔ یہ تعلیق حاشیہ میں رکھی گئی ہے۔ تعلیق ہذا سے مضمون کی افادیت عوام اور علماء کے لئے یکساں ہو گئی ہے۔ نیز صاحبِ ذوق حضرات مکمل دلائل کا مطالعہ اصل کتب میں کر سکیں گے۔ مجلہ ''محدث'' وقت اور موقعہ کی مناسبت سے مرحومین کے جواہر پارے ہدیہ قارئین کرتا رہے گا تاکہ ان کا فیض جاری رہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (ادارہ)
تعظیمی روزہ:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
«لَا یَتَقَدَّ مَنَّ أَحَدُکُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ رَجُلٌ کَانَ یَصُوْمُ صَوْمًا فَلْیَصُمْ ذٰلِكَ الْیَوْمَ»
''تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے ایک دن یا دو دن روزہ نہ رکھے مگر جو شخص کسی دن کا روزہ عموماً رکھتا ہو اور وہ دن رمضان سے پہلے واقع ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنے کی اجازت ہے۔''
مشکوک دن کا روزہ:
سرور کائنات ﷺ نے فرمایا: غبار یا بادل ہو تو مشکوک دن کا روزہ نہ رکھو بلکہ شعبان کے ۳۰ روز پورے کرو ۔
رویت ہلال:
رمضان المبارک کے چاند کے لئے ایک اور عید کے لئے دو مسلمان متبع شریعت کی شہادت ہونی چاہئے ۔
رویت ہلال کی دُعا:
نبی ﷺ نیا چاند دیکھ کر یہ دُعا پڑھتے۔
«اَللّٰهُمَ أَھِلَّه عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْإِیْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ یَا هِلَالُ رَبِّیْ وَرَبُّكَ اللہ»
روزہ کی نیت:
روزہ عبادت ہے اور ہر عبادت کے لئے نیت ضروری ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے قبل فجر نیت رمضان نہ کی اس کا روزہ نہیں ۔
زبانی نیت بدعت ہے:
نیت دل کا فعل ہے۔ زبانی نیت بدعت ہے۔ آج کل جو الفاظ «بِصَوْمٍ غَدٍ نَّوَیْتُ» وغیرہ مروج ہیں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔
سحری کا وقت:
حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں، نبی ﷺ کی سحری اور نماز (اذان) میں پچاس آیات پڑھنے کا وقفہ ہوتا تھا ۔
سحری:
سحری کھانا سنت اور باعث برکت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
«تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ ِفِی السُّحُوْرِ بَرَکَهٌ» سحری ضرور کھاؤ۔ اس میں برکت ہے ۔
کن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا :
(الف) بھول کر کھانا پینا۔ (ب) دن کے کسی حصہ میں تر یا خشک مسواک کرنا۔
(ج) خوشبو اور سرمہ لگانا۔ (د) سر اور بدن پر تیل ملنا
(ہ) آنکھ ناک یا کان میں دوائی ڈالنا، پچھنے لگوانا، بشرطیکہ کمزوری کا ڈر نہ ہو۔
(و) ہنڈیا کا نمک چکھ کر فوراً تھوک دینا۔ (ز) روزہ رکھ کر صبح صادق کے بد غسل جنابت کرنا۔
(ح) احتلام ہونا (ط) قے آنا
(ی) گرد و غبار، مکھی، مچھر کا حلق میں اتر جانا، تالاب وغیرہ میں غوطہ لگانا جس سے پانی ناک یا حقل کے ذریعے اندر نہ جائے۔
(ک) ناک میں بغیر مبالغہ پانی ڈالنا۔ (ل) مسوڑھے کے خون یا کلی کے بعد پانی کی تری کا یا دانت میں غیر محسوس ریزوں کا تھوک کے ساتھ اندر چلے جانا۔
(م) بیوی کا بوسہ لینا، یا محض ہمکنار ہونا مگر جوان کو اس سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے۔
کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے :
(الف) دانستہ کھانا (ب) جماع کرنا (ج) خود قے کرنا
(د) نسوار لینا (ھ) حقہ سگریٹ پینا (و) ناک میں پانی یا دوائی مبالغہ سے چڑھانا، جس سے پانی حلق کے نیچے اتر جائے
(د) چغلی، غیبت کرنا (اس سے مراد تحذیر ہے)
حدیث میں ہے:
''جو شخص جھوٹ اور اس پر عمل ترک نہ کرے اس کے روزہ کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں۔''
کفارہ:
بلا عذر شرعی روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے۔ یہ طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے۔ یہ بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو (بیک وقت) کھانا کھلائے ۔
افطاری میں جلدی:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: «لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَّا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ» جب تک لوگ افطاری میں جلدی کریں بھلائی میں رہیں گے ۔
افطاری کس چیز سے مسنون ہے:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں:
آنحضرت ﷺ نمازِ مغرب سے قبل تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے۔ تر نہ ہوتیں تو خشک سے۔ یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے ۔
دعا بوقت افطار:
«اَللّٰھُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ »
''اے اللہ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیئے سے افطار کیا۔ ''
مریض، مسافر:
مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے مگر بعد اختتامِ سفر اور مرض قضائی دینی ہو گی ۔
شیخ فانی:
اگر کسی مرد اور عورت پر ایسا بڑھاپا آگیا ہے کہ اب طاقتور اور تندرست ہونے کی توقع نہیں تو وہ روزہ نہ رکھیں۔ روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے ۔
حاملہ اور مرضعہ :
(الف) حاملہ اور مرضعہ کو اگر خوف ہو کہ روزہ سے بچہ کو نقصان پہنچے گا تو اس کو بھی روزہ نہ رکھنے کی رُخصت ہے۔
(ب) روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور ممکن ہو تو بعد میں قضائی بھی دے۔
نمازِ تراویح:
آٹھ رکعت سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت (آٹھ تراویح تین وتر) سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ابی بن کعبؓ اور تمیم داریؓ کو حکم فرمایا کہ ماہِ رمضان المبارک میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ۔
(الف) علامہ عینیؒ حنفی فرماتے ہیں: «إِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً وَّهُوَ اخْتِیَارُ مَالِکٍ لِّنَفْسِه»
'' کہا جاتا ہے کہ تراویح گیارہ رکعت ہے۔ امام مالکؒ نے اپنے لئے اسی کو پسند فرمایا۔''
(ب) علامہ جلال الدینؒ سیوطی لکھتے ہیں:
«عَنْ مَالِکٍ أَنَّه قَالَ الَّذِیْ جَمَعَ عَلَیْهِ النَّاسَ عمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَحَبُّ إِلَیَّ وَهُوَ إِحْدٰی عَشَرَة رَکْعَةً»
''امام مالکؒ نے فرمایا، نمازِ راویح کی وہ عداد جس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جمع کیا تھا وہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور وہ گیارہ رکعت ہیں۔
اسی بنا پر حنفی مذہب کے مسلمہ بزرگ ملا علی قاریؒ حنفی فرماتے ہیں:« فَإِنَّه صَلّٰي بِھِمْ ثَمَانِ رَکْعَاتٍ وَّالْوِتْرَ» (موقات جلد ۲ صفحہ ۱۷۴۔ ''نبی ﷺ نے صحابہؓ کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے۔''
مولانا انور شاہؒ دیو بندی حضت عائشہ صدیقہؓ کی مذکورہ بالا حدیث کے متعلق لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔
«فِیْهِ تَصْرِیْحٌ أَنَّه حَالُ رَمَضَانَ فَإِنَّ السَّائِلَ سَأَلَ عَنْ حَالِ رَمَضَانَ وَغَیْرِہ کَمَا ِنْدَ التِّرْمِذِي وَمُسْلِمٍ وَّلَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیْمِ أَنَّ تَرَاوِیْحَه عَلَیْهِ السلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَةَ َرَکَعَاتٍ وَلَمْ یَثْبُتْ فِیْ رِوَایَةٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ أنّ التَّرَاوِیْحَ وَالتَّھَجُّدَ عَلٰیحِدَةٍ فِیْ َمَضَانَ»
یعنی اِس حدیث میں تصریح ہے کہ یہ رمضان کے بارے میں ہے۔ کیونکہ سائل نے (حضرت عائشہؓ سے) رمضان، غیر رمضان دونوں حال کا سوال کیا تھا اور ہمارے لئے یہ تسلیم کئے بغیر چارہ ہی نہیں کہ نبی ﷺ کی نمازِ تراویح آٹھ رکعت تھیں اور یہ بھی کسی روایت سے ثابت نہیں ہوا کہ نبی ﷺ نے رمضان شریف میں تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔ ''
نمازِ وتر:
نمازِ وتر کی عداد ایک سے نو تک ہے۔ پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔
1۔ ہر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور تیسری رکعت علیحدہ پڑھے۔
2۔ تین وتر کے دو طریقے ہیں
(الف) دو دو رکعت پڑھ کر ساتویں رکعت پڑھے۔
(ب) سات اکٹھے، تو درمیان میں تشہد نہ پڑھے۔
3۔ پانچ وتر ایک سلام سے پڑھے۔ درمیان میں تشہد کے لئے بیٹھنا منع ہے۔
4۔ نو کا صرف ایک طریقہ ہے کہ، آٹھویں رکعت پر التحیات پڑھنے کے لئے بیٹھے، سلام نہ پھیرے نویں رکعت پر التحیات پڑھ کر سلام پھیرے۔
دُعائے قنوت:
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مجھے نبی ﷺ نے وتروں میں پڑھنے کے لئے یہ دُعا سکھائی۔
«اَللّٰھُمَّ اهْدِنَا فِیْمَنْ هَدَیْتَ وعَافِنَا فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنَا فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْمَا أَعْطَیْتَ وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَاِنَّكَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْكَ إِنَّه لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ َبَارَکْتَ رَبَّنَا وتَعَالَیْتَ نَسْتَغْفِرُكَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَبِّي» (سنن کبریٰ بیہقی جلد ۲ ص ۲۱۰)
دعائے قنوت کا محل:
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: ''رسول اللہ ﷺ نے مجھے نماز وتر میں جب کہ میں رکوع سے سر اُٹھاؤں اور صرف سجدہ باقی رہ جائے یہ دعا سکھائی کہ میں پڑھوں۔'' اَللّٰھُم اهْدِنِیْ۔ الحدیث
مختصر میں ذہبی نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے اور یہ جس حدیث پر مختصر میں سکوت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔
پس نماز وتر میں دعائے قنوت کے متعلق بعد از رکوع کی تصریح حدیث میں آگئی ہے اس لئے وتروں میں اس حکم پر عمل کرنا چاہئے۔
دعائے قنوت میں مقتدیوں کا آمین کہنا:
دُعائے قنوت میں مقتدیوں کا آمین کہنا صحابۂ کرامؓ کے عمل سے ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو قیام مروزی وعون المعبود وغیرہ)
پس ہاتھ اُٹھانے اور نہ اُٹھانے میں اختیار ہے اور مقتدیوں کا دعائے قنوت میں آمین کہنا ابو داؤد میں موجود ہے مگر یہ عام دعائے قنوت کے متعلق ہے۔ وتروں کی خصوصیت نہیں۔ وتر بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وتروں کی دعا بھی دعائے قنوت ہے۔
اعتکاف :
(الف) عبادتِ الٰہی کی نیت سے اپنے کو مسجد میں بند کرنا اعتکاف ہے۔
(ب) اور یہ سنت موکدہ ہے۔
(ج) نبی اکرم ﷺ ہر سال ماہ رمضان المبارک میں دس روز اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ آخری سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
اعتکاف کرنے والا چونکہ قربِ الٰہی کی طلب میں اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر دیتا ہے اور دنیا کے تمام مشاغل سے علیحدہ ہو جاتا ہے اس لئے وہ تلاوتِ قرآن مجید اور ذِکرِ الٰہی میں جس قدر وقت صرف کرے اور دوسری باتوں سے بچے اسی قدر افضل ہے۔
کن اُمور سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا :
(الف) مسجد گرنے یا زبردستی مسجد سے نکال دیئے جانے یا جان و مال کے خوف سے مسجد سے نکل جانے پر بشرطیکہ فوراً کسی دوسری مسجد میں چلا جائے ان صورتوں میں اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
(ب) علاوہ ازیں مسجد میں سونا
(ج) کھانا پینا
(د) کسی کو خرید و فروخت وغیرہ امور کی ہدایت کرنا۔
(ھ) خوشبو استعمال کرنا، سر میں تیل لگانا۔
(و) کئی دوسرا شخص کھانا لانے والا نہ ہو تو گھر جا کر کھانا کھا سکتا ہے۔
(ز) پاخانہ پیشاب کے لئے باہر جا سکتا ہے۔
(ح) غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہر جانا اور نکاح کرنا۔ یہ سب امور جائز ہیں ان سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
مدتِ اعتکاف:
(الف) ایک دِن رات یا اس سے زیادہ جتنا چاہے اعتکاف کر سکتا ہے مگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت نبوی ﷺ ہے۔ جو شخص پورے آخری دھاکے کا اعتکاف کرنا چاہتا ہو وہ رمضان المبارک کی بیس تاریخ غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں پہنچ جائے رات وہیں گزارے۔
(ب) اکیسویں کی صبح کو فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
(ج) اعتکاف مرد، عورت، بالغ نابالغ سب کر سکتے ہیں البتہ عورت کے لئے خاوند کی اجازت شرط ہے۔
(د) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ اعتکاف جامع مسجد (جہاں جمعہ ہوتا ہو) میں بیٹھنا چاہئے۔
(ھ) عورت بھی مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے چنانچہ ازواجات مطہرات مسجد نبوی میں اعتکاف کرتی تھیں۔
لیلۃ القدر:
یہ وہی مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا۔ یہ وہی رات ہے جس کی شان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ «لَيلَةُ الْقَدْرِ خَيرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهرٍ»
اسی ایک رات کا قیام ایک ہزار ماہ (یعنی ۸۳ سال اور چار ماہ) کی عبادت سے افضل ہے۔ یہ وہی رات ہےجس میں جبریل علیہ السلام دیگر ملائکہ سمیت زمین پر تشریف لاتے اور ذکرِ الٰہی کی مجالس میں شریک ہوت ہیں اور ذِکر الٰہی کرنے والوں کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔
یہ وہی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلائے عام ہوتی ہے کہ اے گنہگارو اُٹھو، بخشش طلب کرو، میری رحمت تمہارے گناہ بخشنے کے لئے منتظر ہے۔ بھوکے مرنے والو،در در کی ٹھوکریں کھانے والو اُٹھو اور مانگو۔
آج میرے فضل و کرم کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ اے مصیبت کے مارو، آؤ! میری پناہ میں آؤ کہ میں تمہارے سارے اور تمہاری سب پریشانیاں دور کرنے پر آمادہ ہوں۔
یہ صدا صبح صادق کے طلوع ہونے تک بدستور جاری رہتی ہے۔ لیلۃ القدر کے متعلق قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ وہ کون سی رات میں ہے۔ اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔
1۔ حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔
«تَحَروَّا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِیْ الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَّمَضَانَ »(بخاری)
''لیلۃ القدر کو آخری دھاکہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔''
2۔ ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں نبی ﷺ نے لیلۃ القدر کو اکیسویں رات میں پایا۔
بہر کیف اس رات کی تعیین نہیں کی گئی۔ البتہ اکیسویں، تیئیسویں اور ستائیسویں کو ترجیح دی گئی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں کو بالخصوص عبادت سے زندہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
لیلۃ القدر کی دعا:
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں، میں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ اگر میں لیلۃ القدر معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو کیا پڑھوں۔
«اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ» (مشکوٰة)
وجہ تسمیہ :
اس میں مختلف اقوال میں چند مشہور اقوال کا ذِکر کیا جاتا ہے۔
1۔ چونکہ اس میں ارزاق وغیرہ کا اندازہ کیا جاتا ہے اس لئے اسی کو لیلۃ القدر سے موسوم کیا گیا۔ اِس قول کے مطابق اس کے معنی اندازہ کے ہوں گے۔
2۔ «سَمّٰی بِھَا لِعَظْمِ قَدْرِھَا وَشَرَفِھَا »یعنی اس کی بزرگی عظمت و شان کے لئے اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ ''لیلہ'' موصوف ''القدر'' صفت یعنی اضافت موصوف بطرف صفت اس لحاظ سے معنی بزرگ کے ہوں گے۔
3۔ ہر وہ شخص جو اس رات میں عبادت کرے صاحب قدر ہو جاتا ہے اس لئے اس کو لیلۃ القدر الشرف کہا جاتا ہے۔
وجہ فضیلت اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر شے اپنے اسباب و علل کے ساتھ مقصود ہے تو اس مبارک رات کی فضیلت اور بزرگی کی علت و سبب کیا ہے؟
اس کا جواب خود بخود احکم الحاکمین کے ارشاد اِنَّا اَنْزَلْنَاهُ سے مَطْلَعِ الْفَجْرِ تک ملاحظہ ہو کہ اس رات میں قرآن مجید کو نازل کیا گیا۔ اس رات عبادت ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس رات میں ملائکہ اور روح القدس نازل ہوتے ہیں۔ نیز حدیث میں ہے کہ اس رات جبرائیل ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ اُتر کر مسلمانوں پر نزول رحمت کا باعث ہوتے ہیں، جو ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔
بعض علما کے نزدیک اس ماہ کی بزرگی کے اسباب میں یہ بھی دال ہے کہ اس رات تمام انتظاماتِ عالم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے ﴿فِيهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍحَكيمٍ ﴾یعنی اس رات تمام امور الٰہی کی تقسیم ہوتی ہے اور مقررہ عہدہ داروں کے ذمہ ان کے فرائض سونپ دیئے جاتے ہیں۔