ضرورتِ قرآن اور اس كے فضائل

ضرورتِ قرآن:

موجودات کی دو قسمیں ہیں، خالق اور مخلوق۔

ایک مختار مطلق ہے اور دوسرا محتاج مطلق، ایک مجسمۂ کبر و غنیٰ اور دوسرا سراپا عجز و نیاز، ایک علیم و خبیر او دوسرا بے علم و نادان ۔

ملائکہ، جنات او انسان سب مخلوقات میں سے افضل و اعلیٰ ہیں جن میں سے ملائکہ تو خود ہی اپنے ادنیٰ مبلغ علم کے معترف ہیں۔

﴿سُبحـٰنَكَ لا عِلمَ لَنا إِلّا ما عَلَّمتَنا...٣٢ ﴾... سورة البقرة

''یعنی اے اللہ تو پاک ہے، ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔''

اور جنات اپنی کوتاہ بینی کا یوں اعتراف کرتے ہیں۔

﴿وَأَنّا لا نَدر‌ى أَشَرٌّ‌ أُر‌يدَ بِمَن فِى الأَر‌ضِ أَم أَر‌ادَ بِهِم رَ‌بُّهُم رَ‌شَدًا ١٠﴾... سورة الجن

''یعنی ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔''

رہا انسان، تو وہ بچنے میں تو غلاظت اور گندگی سے بھی پرہیز نہیں کر پاتا اور بڑا ہو کر اگر اسے کوئی رہنمائی نہ دے تو اس کی حالت یوں ہوتی ہے کہ:

﴿أُولـٰئِكَ كَالأَنعـٰمِ بَل هُم أَضَلُّ...١٧٩﴾... سورة الاعراف

''یعنی یہ لوگ تو (انسان ہونے کے باوجود) حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔''

اور پھر انسان نے تو اپنی جہالت پر مہر روز اول ہی سے لگا دی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کی امانت کو اُٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں تک نے انکار کر دیا تھا اور انسان نے بے باکی سے اس کا ذمہ اُٹھا لیا۔

﴿وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ ۖ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ٧٢﴾... سورة الاحزاب

لیکن اب جبکہ انسان نے اس فریضہ کی انجام دی کے لئے خود کو پیش کر ہی دیا تو ضروری تھا کہ اس کو علم و حکمت، رشد و ہدایت اور اسرار و رموز سے آگاہ کر دیا جاتا کہ وہ اس فریضہ کی انجام دہی سے کما حقہ عہدہ برآ ہو سکے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات حقیقت احتیاج تعلیماتِ سماویہ کی بہترین ترجمان ہیں:

1۔ ابو البشر حضرت آدمؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔

﴿وَعَلَّمَ ءادَمَ الأَسماءَ كُلَّها...٣١ ﴾... سورة البقرة

''یعنی اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔''

2۔ قابيل نے ہابیل کو قتل کر دیا، اب حیران و سرگردان ہے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح ٹھکانے لگائے۔ اللہ تعالیٰ اس بدبخت کی رہنمائی یوں فرماتے ہیں:

﴿فَبَعَثَ اللَّهُ غُر‌ابًا يَبحَثُ فِى الأَر‌ضِ لِيُرِ‌يَهُ كَيفَ يُو‌ٰر‌ى سَوءَةَ أَخيهِ...٣١﴾... سورة المائدة

''یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جس نے ایک دوسرے مردہ کوے کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ چنانچہ قابیل اپنی کم عقلی پر رویا کہ افسوس! میں اس کوے جیسی عقل نہیں رکھتا ۔

3۔ جدّ الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا:

﴿وَلَقَد ءاتَينا إِبر‌ٰ‌هيمَ رُ‌شدَهُ....٥١﴾... سورة الانبياء

''یعنی ہم نے حضرت ابراہیم ؑ کو ہدایت سے سرفراز کیا۔''

ایک دوسرے مقام پر انہی کے متعلق ارشاد ہے:

﴿وَكَذ‌ٰلِكَ نُر‌ى إِبر‌ٰ‌هيمَ مَلَكوتَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَلِيَكونَ مِنَ الموقِنينَ ٧٥﴾... سورة الانعام

''اسی طرح ہم ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں سے ہو جائے۔''

حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ کو نصیحت کرتے ہوئے خود بھی اس کا اقرار کرتے ہیں جس کا ذِکر قرآن مجید میں یوں ہے۔

﴿يـٰأَبَتِ إِنّى قَد جاءَنى مِنَ العِلمِ ما لَم يَأتِكَ فَاتَّبِعنى أَهدِكَ صِر‌ٰ‌طًا سَوِيًّا ٤٣﴾... سورة مريم

''یعنی ابراہیمؑ نے فرمایا، اے میرے باپ، اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ تجھے نہیں ملا، سو تو میری اتباع کر، میں تجھ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔''

4۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا:

﴿وَإِنَّهُ لَذو عِلمٍ لِما عَلَّمنـٰهُ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٦٨﴾... سورة يوسف

''یعنی یعقوب علیہ السلام صاحبِ علم تھے اس لئے کہ ہم نے ان کو علم سکھایا تھا اور اکثر لوگ بے علم ہیں۔''

5۔ حضرت یوسف علیہ السلام من جانب اللہ تعلیم کے یوں معترف ہیں:۔

﴿عَلَّمتَنى مِن تَأويلِ الأَحاديثِ...١٠١ ﴾... سورة يوسف

''اے میرے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر سکھائی۔''

6۔ داؤد علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:

﴿ءاتىٰهُ اللَّهُ المُلكَ وَالحِكمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمّا يَشاءُ...٢٥١﴾... سورة البقرة

''یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو بادشاہی اور دانائی کی باتیں سکھائیں اور جو چاہا سکھایا۔ نیز:

﴿وَعَلَّمنـٰهُ صَنعَةَ لَبوسٍ لَكُم لِتُحصِنَكُم مِن بَأسِكُم ۖ فَهَل أَنتُم شـٰكِر‌ونَ ٨٠﴾... سورة الانبياء

''اور ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہ بنانے کی ترکیب بتائی تاکہ یہ تمہیں جنگ میں زخمی ہونے سے بچائے۔ تو کیا تم شکر نہیں کرتے؟''

6۔ حضرت سلیمان علیہ السلام انعام الٰہیہ کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

﴿عُلِّمنا مَنطِقَ الطَّيرِ‌ وَأوتينا مِن كُلِّ شَىءٍ ۖ إِنَّ هـٰذا لَهُوَ الفَضلُ المُبينُ ١٦﴾... سورة النمل

''اے لوگو! ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے۔''

8۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع علیہ السلام کے متعلق ارشادِ ربانی ہے:

﴿فَوَجَدا عَبدًا مِن عِبادِنا ءاتَينـٰهُ رَ‌حمَةً مِن عِندِنا وَعَلَّمنـٰهُ مِن لَدُنّا عِلمًا ٦٥﴾... سورة الكهف

''پس موسیٰ علیہ السلام اور یوشع علیہ السلام نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ (حضرت خضر ؑ) پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی اور اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔ ''

9۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جبکہ وہ ابھی ''مہد'' ہی میں تھے تعلیماتِ الٰہیہ سے مستفیض ہونے کا یوں ذِکر فرماتے ہیں:

﴿إِنّى عَبدُ اللَّهِ ءاتىٰنِىَ الكِتـٰبَ وَجَعَلَنى نَبِيًّا ﴿٣٠﴾... سورة مريم

''يعنی ميں الله كا بنده ہوں۔ الله نے مجھے كتاب (انجیل) عطا کی ہے اور مجھے نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔''

10۔ اب آئیے خاتم الانبیاء، سید الاولین والآخرین، امام المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی طرف ارشادِ ربانی ہے:

﴿اقرَ‌أ وَرَ‌بُّكَ الأَكرَ‌مُ ٣ الَّذى عَلَّمَ بِالقَلَمِ ٤ عَلَّمَ الإِنسـٰنَ ما لَم يَعلَم ٥﴾... سورة العلق

''یعنی اے میرے حبیب پڑھیے، آپ کا پروردگار بہت کریم ہے جس نے انسان کو قلم چلانا سکھایا اور اس کو ایسی باتیں سکھائیں جن کو وہ نہ جانتا تھا ۔

نيز فرمايا:

﴿نَحنُ نَقُصُّ عَلَيكَ أَحسَنَ القَصَصِ بِما أَوحَينا إِلَيكَ هـٰذَا القُر‌ءانَ وَإِن كُنتَ مِن قَبلِهِ لَمِنَ الغـٰفِلينَ ٣﴾... سورة يوسف

''یعنی ہم آپ پر بہت اچھا بیان کرتے ہیں اس طرح سے کہ ہم نے آپ کی طرف قرآن وحی کیا اور اس سے پہلے آپ بے خبر تھے۔''

اس کے بعد اُمت محمدیہ (ﷺ) کی رہنمائی اور احتیاج تعلیم الٰہی ملاحظہ ہو، فرمایا:

1﴿يَسـَٔلونَكَ ماذا أُحِلَّ لَهُم ۖ قُل أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ...٤﴾... سورة المائدة

''اے نبی آپ سے حلال چیزوں کے بارے میں استفسار کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے، تمہارے لئے پاکیزه چيزيں حلال کی گئی ہیں۔

2﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ السّاعَةِ أَيّانَ مُر‌سىٰها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ رَ‌بّى ۖ لا يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ...١٨٧﴾... سورة الاعراف

''اے نبی! آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کب آئے گی؟ آپ فرما دیجیے، اس کا علم اللہ ہی کو ہے، وہی اس کو وقت پر ظاہر کرے گا۔''

﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الأَنفالِ ۖ قُلِ الأَنفالُ لِلَّهِ وَالرَّ‌سولِ...١﴾... سورة الانفال

''اور آپ سے غنائم کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ فرما دیجئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے اختیار میں ہیں، جسے چاہیں تقسیم فرمائیں۔''

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ الرّ‌وحِ ۖ قُلِ الرّ‌وحُ مِن أَمرِ‌ رَ‌بّى وَما أوتيتُم مِنَ العِلمِ إِلّا قَليلًا ٨٥﴾... سورة الاسراء

''اور آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ فرما دیجئے کہ تمہارا علم کم ہے، اس لئے اس کی حقیقت کو نہ پاسکو گے، ہاں اتنا جان لو کہ روح امر ربی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو مردہ یا زندہ کرتا ہے۔

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَن ذِى القَر‌نَينِ ۖ قُل سَأَتلوا عَلَيكُم مِنهُ ذِكرً‌ا ٨٣إِنّا مَكَّنّا لَهُ فِى الأَر‌ضِ وَءاتَينـٰهُ مِن كُلِّ شَىءٍ سَبَبًا ﴿٨٤﴾... سورة الكهف

''اور آپ ﷺ سے ذوالقرنین کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا کچھ ذِکر تمہیں سناؤں گا (اور اس کے بعد ذوالقرنین کا پورا قصہ موجود ہے۔)

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ الجِبالِ فَقُل يَنسِفُها رَ‌بّى نَسفًا ١٠٥ فَيَذَرُ‌ها قاعًا صَفصَفًا ﴿١٠٦﴾... سورة طه

''اور آپ ﷺ سے پہاڑوں سے متعلق سوال کرتے ہیں کہ قیامت کو وہ باقی رہیں گے یا نہیں؟ آپ فرما دیجئے کہ ان کو میرا رب روئی کی مانند ریزہ ریزہ کر کے اُڑا دے گا اور زمین چٹیل میدان رہ جائے گی۔

﴿يَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ ۖ قُل ما أَنفَقتُم مِن خَيرٍ‌ فَلِلو‌ٰلِدَينِ وَالأَقرَ‌بينَ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَابنِ السَّبيلِ ۗ وَما تَفعَلوا مِن خَيرٍ‌ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ ٢١٥﴾... سورة البقرة

''آپ ﷺ سے سوال كرتے ہیں کہ كيا خرچ كريں؟ آپ ﷺ فرما دیجیے جتنا بھی خرچ کرو بہتر ہے اور اپنا مال، والدین، قریبیوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھی نیکی کا کام کرو گے اللہ اسے جانتا ہے (وہ تمہیں اس کا بھر پور اجر د گا)''

8﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الخَمرِ‌ وَالمَيسِرِ‌ ۖ قُل فيهِما إِثمٌ كَبيرٌ‌...٢١٩﴾... سورة البقرة

''آپ ﷺ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ ﷺ فرما دیجیے، ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے۔''

۹ يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي قُلْ اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ (البقرة: ۲۲۰)

''اور آپ ﷺ سے یتیموں سے سلوک کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ ﷺ فرما دیجیے کہ جس بات میں ان کا فائدہ ہے وہ کرو۔''

۱۰ وَيَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ هُوَ اَذًي فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِيْ الْمَحِيضِ (البقره: ۲۲۲)

''اور آپ ﷺ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ فرما دیجیے، وہ ناپاکی ہے لہٰذا اس حالت میں عورتوں سے دور رہو۔''

۱۱ وَيَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلْنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقره: ۱۸۹)

''اور آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ فرما دیجیے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے اوقات کے تعین کا باعث ہے۔''

۱۲ يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ (البقرة: ۲۱۷)

''آپ ﷺ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ فرما دیجیے اس میں جنگ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔''

۱۳ وَاِذَا سَأَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرة: ۱۸۶)

''اور جب میرے بندے آپ ﷺ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ فرما دیجئے، میں قریب ہوں، اور ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔

۱۴ وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ (النساء: ۱۲۷)

''اور آپ ﷺ سے يتيم عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ﷺ فرما دیجئے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس بارے میں فتویٰ دیتے ہیں (اس کے بعد پورا فتویٰ مذکور ہے)

اسی طرح:

يَسْتَفْتُوْنَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْ الْكَلَالَةِ (النساء: ۱۷۷)

اور آپ ﷺ سے كلالہ كے بارے ميں فتویٰ پوچھتے ہيں، آپ فرما دیجیے اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں (اس کے بد کاللہ کے بارے میں فتویٰ مذکور ہے)

اب عامۃ المسلمین کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة: ۲۵۷)

یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں كا دوست ہے ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اس کے برعکس کفار، شیطان کے دوست ہیں جو انہیں نور کی طرف سے ہٹا کر تاریکیوں میں دھکیلتا ہے۔

اس کے بعد بطور مثال اللہ تعالیٰ تین واقعات بیان کرتے ہیں جن میں عام انسان تو کجا اللہ کے برگزیدہ بندے بھی تعلیم سماوی کے محتاج ہوئے۔ چنانچہ پہلا واقعہ ابراہیمؑ اور نمرود کا ہے جس کا ذِکر قرآن یوں کرتا ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (البقرة: ۲۵۸)

یعنی کیا آپ نے اس شخص كو نهيں ديكھا جس كو الله نے بادشاہت دی اور وہ بادشاہی کے تکبر میں خدائی دعویٰ کر بیٹھا۔ ابراہیمؑ سے ان کے رب کے بارہ میں جھگڑا۔ ابراہیم نے فرمایا۔ میرا رب وہ ہے جو مردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مارتا ہے۔ اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیمؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو مغرب سے لا کر دکھا، وہ ایسا مخبوط الحواس ہوا کہ بول بھی نہ سکا اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔

ابراہیمؑ نے پہلے حدوثِ عالم اور اس کے تغیر و تبدل سے خدا کی ہستی پر استدلال فرمایا کہ وہ جو نیست کو ہست اور ہست کو نیست کرتا ہے یعنی بے جانوں کو جاندار اور جانداروں کو بے جان کرتا ہے، خدا ہے وہ نہ سمجھا تو پھر ایسی دلیل پیش کی جس کے سامنے وہ بول بھی نہ سکا اور گونگا ہو کر رہ گیا۔

اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے ابراہیم کی نمرود کے مقابلہ میں ایسی مدد اور رہنمائی فرمائی کہ اس کی خدائی باطل کر کے رکھ دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت ہی کا نتیجہ تھا۔ فَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

اس کے بعد دوسرا واقعہ عزیزؑ کا ہے۔ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ الاٰية (البقره: ۲۵۹)

یعنی کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک بستی (بیت المقدس) پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ اس نے کہا، اللہ اس کو کس طرح زندہ کرے گا؟ اللہ نے اس کو سو سال تک مار دیا پھر اس کو زندہ کر کے پچھا تو یہاں کتنی دیر رہا؟ اس نے کہا، ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ نے فرمایا، بلکہ تو یہاں سو برس رہا۔ پس اپنے کھانے اور پینے کو دیکھ بدبو دار نہیں ہوا اور گدھے کو دیکھ کہ ہم اس کی ہڈیاں کس طرح جوڑتے ہیں اور گوشت پوست کس طرح چڑھاتے ہیں اور زندہ کیونکر کرتے ہیں پس جب اس نے یہ سب کچھ دیکھا تو بول پڑا کہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے عزیز ؑ کو رہنمائی فرمائی اور علم الیقین سے ان کو عین الیقین کے مقام تک پہنچایا جو ہمارے لئے بھی عین الیقین کا درجہ رکھتا ہے جیسا کہ فرمایا ولنجعلک اية للناس یعنی ہم نے تیرے اور تیرے گدھے کے زندہ ہونے کو لوگوں کے لئے مردوں کے زندہ ہونے کی دلیل بنایا۔

اس کے بعد ابراہیمؑ کا واقعہ مذکور ہے کہ ان کو بھی علم الیقین سے عین الیقین حاصل کرنے کا شوق لاحق ہوا تو انہوں نے بھی سوال کر دیا۔ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْي الْمَوْتٰي قَالَ اَوَلَمْ تُوْمِنْ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِيٌ (البقرة: ۲۶۰) اے ميرے رب مجھے دكھا کہ تو مردے كس طرح زنده کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کیا تو ایمان نہیں لایا؟ فرمایا ایمان تو لایا ہوں لیکن اطمینان قلب کرنا چاہتا ہوں۔ یعنی علم الیقین سے عین الیقین کرنے کی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا چار جانور لے اور ان کو ذبح کر کے خلط ملط کر کے پہاڑوں پر رکھ پھر ان کو بلا۔ وہ زندہ ہو کر تیرے پاس دوڑے آئیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

ان تینوں واقعات سے ثابت ہوا کہ بڑی بڑی ہستیاں حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی خدا کی تعلیم اور رہنمائی کے محتاج ہیں۔

مذکورہ بالا تمام آیاتِ قرآنیہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے بندوں کے علم و ہدایت کی خاطر احکام نازل کئے اور انبیاء کے ذریعے ہر مشکل وقت میں ان کی راہنمائی فرمائی اور یہ کہ انسان ہر زمانہ اور ہر وقت میں تعلیم الٰہی کا محتاج رہا ہے اور محتاج رہے گا اور پھر ان تمام تعلیماتِ الٰہیہ کو قرآن مجید میں جمع کر کے (مجملہ ان تمام علوم کے جو امت محمدیہ کے حق میں بالخصوص نازل کئے گئے ہیں) امت محمدیہ کو ان تمام سے روشناس کرا دیا۔ اب اگر ہمارا یہ ایمان ہے کہ قرآن مجید خداوند کریم کی آخری کتاب ہے، اس کے بعد کوئی کتابِ الٰہی نازل نہ ہو گی اور یہی ایک ایسی کتاب ہے جواب قیامت تک لوگوں کی رہنمائی اور رشد و ہدایت کی باعث ہو گی تو ہمیں قرآن مجید کی ضرورت اور اہمیت کو بلا حیل و حجت تسلیم کرنا پڑے ا اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ اہمیت اس قدر اہم ہے کہ اس کے بغیر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور جو یہ کوشش کرے گا تباہی کے مہیب غار اس کو اپنی آغوش میں لے لیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج جو قومیں قرآن مجید کو ایک فرسودہ کتاب قرار دیتے ہوئے اس سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں ان میں انسانیت نام کو بھی باقی نہیں رہی، ان میں سود خوری، شراب نوشی، جوا بازی، حرام کاری، عورتوں سے بڑھ کر مردوں سے ناجائز اختلاط، قتل و غارت گری، انکارِ خدا، انکارِ رسول جیسی قبیح عادات ویسے ہی رواج پا چکی ہیں جیسے پہلی معتوب و مغضوب قوموں میں موجود تھیں۔

لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ دور کے مسلمان بھائی بھی ان برے افعال کے ارتکاب سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ بھی بلا شبہ قرآنی تعلیمات کو فراموش کر دینے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان کا منصب تو یہ تھا کہ ان برائیوں کو جہاں کہیں بھی دیکھتا، ان کو اپنے ہاتھ، زبان اور طاقت سے دور کرنے کی سعی کرتا لیکن افسوس ؎

ہم ایسے ہیں کہ ہمیں اپنی خبر نہیں

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

فضائلِ قرآن:

قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ گوہرِ آب دار اور ایک ایک آیت درِّ نایاب ہے۔ زبان میں طاقت نہیں کہ اس کی تعریف بیان کر سکے اور قلم سکت نہیں رکھا کہ سا کی صفات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر لے۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اس وقت آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر جتنی کتابیں یا کلام آسمانی یا انسانی موجود ہیں ان میں سب سےارفع و اعلیٰ، بہتر او برتر، معتمد اور صادق، غیر مبّدل اور غیر متغیر قرآن مجید اور صرف قرآن مجید ہے۔

اکبر اٰلہ آبادی سے کسی نے خدا کے بارے میں پوچھا تھا کہ ''خدا کیا ہے؟'' تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ ''خدا ہے اور کیا ہے!

اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر خداوند کریم کی تعریف ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح قرآن مجید چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لہٰذا قرآن مجید خود ہی اگر اپنے متعلق کچھ بیان کر دے اور اپنے بارے میں خود ہی کوئی تعریفی الفاظ استعمال کر دے تو انہیں حرفِ آخر سمجھا جائے گا کیونکہ کلامِ خداوندی کی تعریف انسان کے بس سے باہر ہے ہاں یہ ممکن نہیں کہ خداوند کریم خود اپنے کلام کی تعریف نہ بیان فرما سکیں لہٰذا اس کے لئے ہمیں ارشادِ خداوندی ہی کا سہارا لینا پڑے ا۔ یا دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی تعریف صرف قرآن مجید ہی سے ممکن ہے اور یا پھر اللہ کے رسول ﷺ کا کلام روشن بیان اس سلسلے میں ہمارے لئے بہترین راہ نما ثابت ہو سکتا ہے۔

لہٰذا یہاں ہم پہلے قرآن مجید کی ان آیات کو ضبط تحریر میں لائیں گے جو خود قرآن مجید کے فضائل پر روشنی ڈالتی ہیں اور اس کے بعد احادیثِ مبارکہ کا بیان کریں گے۔

فضائل قرآن، قرآن مجید کی روشنی میں:

ارشادِ ربانی ہے:

فَلْيَاتُوا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِه اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ (الطور: ۳۴)

''یعنی (قرآن مجید کی مثل کوئی کتاب بھی نہیں) اور اگر ہے اور تم اس دعوے میں سچے ہو تو اس کی مثل ایک آیت ہی لا کر دکھا دو۔''

پندرھویں پارہ میں ارشاد فرمایا:

قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰي اَنْ يَاتُوْا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاتُوْنَ بِمِثْلِه َلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَھِيْرًا (بني اسرائيل: ۸۸)

''یعنی ساری دنیا کے انسان اور جن باہم مل کر اگر یہ کوشش کریں کہ اس قرآن کی کوئی مثل کوئی کتاب لائیں تو وہ اس مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔''

پارہ الم سورہ بقرۃ میں ہے:

وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (البقرة: ۲۳)

یعنی اگر تمہیں قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک ہو تو تم اور تمہارے معبودانِ باطلہ اس جیسی ایک سورۃ ہی بنا کر لے آؤ، اگر تم سچے ہو (لیکن تم ایسا ہرگز نہیں کر سکو گے)

مندرجہ بالا آیات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں کوئی کتاب قرآن مجید جیسی موجود نہیں یہ بے نظیر اور بے مثال ہے۔

کسی نے خود کہا ہے کہ ''کلام الملوک ملوک الکلام'' یعنی بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہے۔ اور اگر اس لحاظ سے بھی قرآن مجید کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ جب خداوند کریم کا کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔

''وَلَمْ يَكُنْ لَّه كُفُوًا اَحَدٌ (اخلاص: ۴ ) یعنی خدا کی برابری کرنے والا کوئی بھی نہیں۔

تو خدا وند کریم کے کلام کا مقابلہ بھی کوئی نہیں کر سکا۔

فضائل قرآن احادیث کی روشنی میں:

۱۔ «عَنْ أبِيْ سَعِيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالٰي مَنْ شَغَلَه الْقُراٰنُ عَنْ ذِكْرِيْ وَمَسئَلَتِيْ أَعْطَيْتُه أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِيْنَ»

''یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو شخص تلاوتِ قرآن میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اس کو میری یاد اور مجھ سے کچھ مانگنے کا بھی وقت نہ ملے تو میں ایسے شخص کو تمام سوال کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا۔''

۲۔ «عَنْ عَائِشَةَ (رَضِي اللهُ تَعَالٰي عَنْھَا) أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ قِرَاءَةُ الْقُرْاٰنِ فِيْ الصَّلٰوةِ أَفْضَلُ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْاٰنِ ِفيْ غَيْرِ الصَّلٰوةِ وَقِرَاءَةُ الْقُرْاٰنِ فِيْ غَيْرِ الصَّلٰوةِ أَفْضَلُ مِنَ التَّسبِيْحِ وَالتَّكْبِيْرِ وَالتَّكْبِيْرِ وَالتَّسْبِيْحُ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصَّدَقَةُ أَفْضَلُ مِنَ الَّصَوْمِ وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مِّنَ النَّارِ» (رواه البيهقي في شعب الايمان، مشكوٰة ص ۱۱۵)

''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تلاوت قرآن نماز میں بغیر نماز کی تلاوت سے بہتر ہے اور بغیر نماز کے تلاوت کرنا تسبیح و تکبیر سے بہتر ہے اور تسبیح صدقہ سے بہتر ہے اور صدقہ نفلی روزہ سے بہتر ہے اور روزہ دوزخ کی ڈھال ہے۔ اس کو بیہقی نے روایت کیا۔''

۳۔ «عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِنَّ ھٰذِه الْقُلُوْبَ تَصْدَأُكَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيْدُ إِذَا مَا بِه الْمَاءُ قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا جَلَاؤُھَا قَالَ كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُراٰنِ» رواه البيهقي في شعب الايمان

''یعنی حضرت ﷺ نے فرمایا کہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے کہ لوہا پانی لگ جانے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے، پوچھا گیا یا رسول اللہ، دلوں کا زنگ کس طرح دور ہو گا؟ فرمایا موت کے ذِکر اور تلاوتِ قرآن سے۔ بیہقی نے اس کو روایت کیا۔''

۴۔ «عَنْ عُثْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ َعَلَّمَّه» رواه البخاري۔

''یعنی جو شخص قرآن سیکھے اور اس کے بعد اوروں کو سکھائے وہ سب سے بہتر ہے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا۔''

۵۔ «عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْاٰنِ إِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرتِّلُ فِيْ الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ اٰخِرِ ايٰةٍ تَقْرَأْھَا» رَوَاه أحمد والترمذي وأبو داؤد والنسائي

''عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسا تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا اور جنت کے درجات میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک چڑھا چلا جا۔ پس جس مقام پر تو پڑھنا ختم کر گا وہ تیرا آخری مقام ہو گا۔ اس کو ترمذی، ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔''

اس روایت میں جہاں یہ مذکور ہے کہ حافظِ قرآن مجید کا بڑا درجہ ہے وہاں یہ بھی عیاں ہے کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے نہ کہ اس قدر تیز کہ کوئی لفظ بھی صحیح طور پر نہ پڑھا جا سکے۔

۶۔« عَنْ مُّعَاذِ ن الْجُھَنِيِِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ وَعَمِلَ مِمَّا فِيْهِ أُلْبِسَ وَالِدُه تَاجًا يَّوْمَ الْقِيٰمَةَ ضَوْءُه أحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِيْ بُيُوْتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيْكُمْ فَمَا ظَنُّكُمْ بِالذِّيْ عَمِلَ بِھِنَّ» (رواه احمد وابو داؤد)

''یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ جس کی وشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی۔ جب کہ سورج آسمان کے بجائے تمہارے گھروں میں موجود ہو اور پھر یہ بھی اندازہ کرو کہ جس شخص کے والدین کی یہ عزت ہے وہ خود کس قدر قابلِ عزت ہو گا! اس کو احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا۔''

۷۔ «عَنْ عَائِشَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ المَاھِرُ بِالْقُرْاٰن مَعَ السَفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِيْ يَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ وَيَتَتَعْتَعَ فِيْهِ وَھُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَّه أَجْرَانِ» متفق عليه

''حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قرآن کا ماہر، لکھنے والے بزرگ نیکو کار کے ہمراہ ہو گا اور جو قرآن پڑھنے میں تکلیف اُٹھاتا ہے اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اس کے لئے دوگنا اجر ہے۔ اس کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔''

۸۔«عَنْ أبِيْ مُوْسٰي قَالَ قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ مَثَلُ الْمُوْمِنِ الَّذِيْ يَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ مَثَلُ الْأتْرُجَّةِ رِيْحُھَا طَيِّبٌ وَّطَعْمُھَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِيْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ مَثَلُ التَّمْرَةِ لَا رِيْحَ لَھَا وَطَعمُھا حُلْوٌ ،الحديث» متفق عليه

''یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ قرآن مجید پڑھنے والے کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی بہت عمدہ ہے اور مزہ بھی نہایت اچھا، اور قرآن نہ پڑھے ہوئے کی مثال کھجور کی ہے کہ اس میں خشبو نہیں ہے اور مزہ شیریں ہے۔ اس کو بخاری مسلم نے روایت کیا۔''

مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں جو فضائل قرآن کے ضمن میں آتی ہیں لیکن اختصار کی خاطر چند احادیث درج کر دی گئی ہیں۔

چند اور خوبیاں:

قرآن مجید کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ ہر زمانہ اور ہر دور کے لوگوں کے لئے قدیم ہونے کے باوجود نیا ہے۔ یعنی ہر پڑھنے والا خواہ وہ کسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہو یہی محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہر بات گویا اسی کے لئے کہی گئی ہے۔

قرآن مجید کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اس میں اب تک کوئی ترمیم و تبدیلی نہیں ہو سکی۔ کیوں نہ ہو خداوند کریم نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا له لَحَافِظُوْنَ

''بے شک ہم نے اس ذکر (کتاب) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔''

الغرض یہ وه کتاب ہے جس نے عرب کے گڈریوں کو شاہ جہاں، رہزنوں کو پاسبان، ظالموں کو عادل، سنگ دلوں کو رحمدل، دشمنوں کو دوست، بدخواہوں کو خیر خواہ، گمراہوں کو ہادی، مفسدوں کو مصلح، بت پرستوں کو موحد، حریصوں کو زاہد اور خود غرضوں کو خادمِ انسانیت بنا دیا۔

یہی وہ کتاب ہے جس کی تعلیم نے عرب کے بدؤوں کو فلاسفر جہاں، استادِ زماں اور حکماء دوراں بنایا۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں ماضی اور مستقبل، زندگی اور موت، قبر اور قیامت، حشر اور نشر، ہر قسم کی خبریں موجود ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں سیاسی اور تعبدی، معاشرتی و اقتصادی، شاہی اور گدائی، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول پائے جاتے ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے قوانین کا نفاذ ستم کدہ دنیا کو آماجگاہ امن اور نار کو گلزار بنا سکتی ہے اور ہمارا یہ بیان کسی ثبوت اور دلیل کا محتاج نہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے، صحابہؓ کا زمانہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔

وائے افسوس! کہ صحابہ تو اس کتاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر بامِ عروج کے آخری منازل تک جا پہنچے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر خیر الامم اور خیر البر یہ کہلائے۔ اپنے اور بے گانے ان کے زیر سایہ رہنا خوش قسمتی اور غنیمت تصور کرتے تھے لیکن ہم قرآن سے دور ہٹ کر غیروں کے تابع ہو گئے اور ادبار و شقاوت کے اسفل ترین گڑھے میں جا گرے۔ اپنے اور بے گانے ہم سے متنفر ہو گئے اور ہماری ہمسائیگی سے بھاگنے لگے۔

اللہ عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں ایک الگ ملک دیا جس میں ہم اپنی مرضی سے اپنی روایات (اسلامی) کے مطابق زندگی گزار سکتے تھے۔ قادر مطلق نے ہمیں ایک غیر قوم انگریز کی غلامی سے آزادی بخشی لیکن ہم خداوند کریم کا شکر یوں بجا لائے کہ نہ تو عوام نے ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی اصولوں کے سانچے میں ڈھالا اور نہ ہی ہماری حکومتوں کو یہ توفیق حاصل ہوئی کہ اس خطۂ ارض میں اسلامی نظام کا اجرأ کرتیں۔ بہرحال ابھی پانی سر سے نہیں گزرا۔ اگر اب بھی ہم خدا کے نیک بندے بن جائیں، اپنی زندگیاں قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں اور اپنے ملک میں قوانین اسلامی کا نفاذ کر دیں تو یہی خطۂ ارض، ملک کبیر، جنت نظیر بن جائے اور پھر اسلام کے دشمنوں کو ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھنے کی جرأت نہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔ آمین! (ان شاء اللہ)


نوٹ

خالق كے عليم و خبیر اور مخلوق کے بے علم محض ہونے پر قرآن کریم کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِه اِلَّا بِمَا شَاءَ یعنی اللہ تعالیٰ اس کائنات کے اگلے پچھلے حالات سے واقف ہیں لیکن مخلوق میں سے کوئی بھی اللہ کے بتائے بغیر کچھ نہیں جانتا (البقرہ: ۲۵۵)

بعض لوگ خيال كرتے ہيں كہ جنات غيب كي باتيں جانتے ہيں، حالانكہ یہ غلط ہے۔ قرآن مجيد جنات كی نادانی پر ناطق ہے۔ سورة السبا میں ہے: فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِه اِلَّا دَآّبَةُ الْاَرْضِ تَاكُلُ مِنْسَاَتَه فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِشُوْا فِيْ الْعَذَابِ الْمُهِينِ (۱۴:۳۴) حضرت سلمان علیہ السلام نے جنات کو مسجد کی تعمیر پر مامور کیا اور خود نگرانی کے لئے ایک عصا سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو وفات دے دی، لیکن جن یہی سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اور مسلسل نرانی فرما رہے ہیں، یہاں تک کہ دیمک نے آپ کی لاٹھی کو کھا لیا اور لاٹھی کے ٹوٹ جانے کے باعث آپ زمین پر گر گئے یہاں تب جنات کو حقیقت حال کا علم ہوا اور انہوں نے کہا، کاش ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ زندہ نہیں ہیں تو ہم (مسجد بنانے میں) اس قدر تکلیف نہ اُٹھاتے۔

اگر اس طرح سے اللہ تعالیٰ ہمیں دفن کرنے کا طریقہ نہ بتلاتے تو ہم معلوم نہیں موت کے بعد اپنے عزیزوں کا کیا حشر کرتے۔ ہندو اور دیگر قوموں کا اپنے مردوں کو جلانا یا ایسے ہی دوسرے طریقے اختیار کرنا کیا انسانیت کی توہین نہیں؟

جامع البیان صفحہ ۵۱۹ میں عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ کی تفسیر یوں ہے:

أَيْ مَا لَا يَقْدِرُوْنَ عَلٰي تَعَلُّمِه لَوْلَا تَعْلِيْمُ اللهِ تَعَالٰي

''یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وہ تعلیم دی جس کے سیکھنے پر وہ بغیر اس کی تعلیم کے قادر نہ تھے۔''

جلالین ص ۵۰۱ میں ہے: اَلْجنْسَ مَا لَمْ يَعْلَمْ قَبْل تَعَلِيْمِه مِنَ الْهُدٰي وَالْكِتَابَةِ وَالصَّنَاعَةِ وَغَيْرِهَا

''یعنی جنس انسان کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت، کتابت اور صنعتیں وغیرہ سکھائیں جیسا کہ حضرت آدمؑ کو فن لوہاری او زراعت سکھائی اور بقول بعض لکھنا بھی اولاً ان کو ہی سکھایا اور بقول بعض حضرت ادریسؑ نے سب سے پہلے لکھا۔''

مراد ''وجودیت'' کا اقرار نہیں بلکہ کل کائنات کے کرشمۂ الٰہی ہونے کا اعتراف ہے۔ (ادارہ)