’’محدث‘‘ معاصرین کی نظر میں
ہر اہل حدیث اس سے باخبر ہے کہ روپڑی خاندان ایک عرصے سے برصغیر ہند و پاک میں مسند رشد و ہدایت، وعظ و تبلیغ اور تدریس و افتاء کا حامل چلا آرہا ہے۔ اس خاندان کے مولانا حافظ محم اسمٰعیل روپڑی، مولانا حافظ محمد حسین اور حضرت العلام مولانا حافظ عبد اللہ صاحب روپڑی رحمہم اللہ نے جو علمی، تبلیغی، تدریسی اور تصنیفی خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ تاریخ اہل حدیث کا ایک روشن باب ہیں۔ مقام شکر ہے کہ ان کے خلاف بھی اپنے اسلاف کے جذبے سے سرشار اور ان کی روش پر گامزن ہیں۔ جوان سال و جوان ہمت حافظ عبد الرحمن صاحب بن مولانا حافظ محمد حسین روپڑی محوم اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ابھی کچھ عرصے قبل سے انہوں نے ایک دینی مدرسہ بھی جاری کیا ہے جس میں عربی کے ساتھ انگریزی تعلیم کا بھی بندوبست کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اب ان کے جذبہ و ہمت نے ان سے ایک علمی ماہنامے کا بھی اجراء کرا دیا ہے۔ جس کا پہلا شمارہ ہمارے پیش نظر ہے۔ جماعت کے مشہور صاحب قلم مولانا عزیز زبیدی صاحب کا تعاون بھی اس پرچے کو حاصل ہے۔ پہلا اداریہ ان ہی کے قلم کا مرہون منت ہے جس میں انہوں نے عام فہم اور ہلکے پھلکے انداز میں مسلک اہل حدیث کی وضاحت، ان کی خدمات اور تاریخی پس منظر کی نقاب کشائی فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ یہ رسالہ دیگر علمی مضامین، حالات حاضرہ سے متعلق دلچسپ مباحث اور ظاہری و باطنی خوبیوں سے آراستہ ہے۔ ہم اس کے اجراء کا خیر مقدم، اس کے نکالنے والوں کو ہدیۂ تبریک اور کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔ قارئین ''الاعتصام'' اور دیگر برادران اہل حدیث کو اس کے ساتھ تعاون اور اس کی اشاعت میں پرا حصہ لینا چاہئے۔
ہفت روزہ اہل حدیث لاہور۔ ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء
اس وقت ماہنامہ ''محدث'' لاہور کی پہلی جلد کا پہلا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ ماہنامہ ظاہری و باطنی خوبیوں کا حسین مرقع ہے۔ آرٹ پیپر کے خوب صورت یک رنگے سرورق اور سفید کاغذ کے ۶۴ صفحات کے اس رسالے میں نہایت بلند پایہ مضامین شامل ہیں جن میں سے مدیر کے قلم سے مسلک اہل حدیث کا ماضی اور حال (اداریہ) مولانا عبد الرٔف صاحب (جھنڈا نگری) کا مضمون اغنیاء پر مساکین و غربا کی ذمہ داری، حافظ نذر احمد صاحب کا مقالہ طب نبوی اور حافظ محمد اسماعیل صاحب روپڑی (مرحوم) کی تحریر ''صدقۃ الفطر اور عید الفطر کے احکام و مسائل'' خاص طور پر قابل مطالعہ ہیں۔ ان کے علاوہ سیاسیات و مسائل حاضرہ سے متعلق تین مضامین مشرق وسطیٰ کا المیہ (از محمد زبیر سپرا) سیاسیات کے چند عام مسائل (جناب عزیز زبیدی) اور فحاشی و عریانی کے خلاف جہاد (عبد الغفار اثرؔ) بھی ضروری اور اہم مطالعے ہیں۔ ادارے کی طرف سے ''جائزے'' کے عنوان سے کچھ صفحات مرتب کئے گئے ہیں جو ایک دلچسپ سلسلہ ثابت ہو سکتا ہے۔
''محدث'' کی مجلس تحریر میں حسب ذیل فضلا کے نام شامل ہیں۔
حافظ ثناء اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی)، مولانا عبد السلام (فاضل مدینہ یونیورسٹی)، حافظ ثناء اللہ خاں ایم، اے، چوہدری عبد الحفیظ ایم، اے، عزیز زبیدی اور عبد الغفار اثر۔
امید کی جا سکتی ہے کہ ان سب حضرات کی اجتماعی کوششوں سے رسالہ بہت جلد اہلِ ذوق کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو گا۔ ''محدث'' کے مدیر اور مجلس تحریر کے دیگر افراد رسالے کی کتابت، طباعت اور مضامین کے انتخاب کے سلسلے میں سلجھے ہوئے ذوق کے مالک ہوتے ہیں اور زیر نظر شمارہ ہر اعتبار سے ان کے ذوق کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ہماری دعا ہے کہ یہ رسالہ ہمیشہ جاری رہے اور دین و علم کی بیش از بیش خدمات انجام دے۔ ہم جملہ اہل اسلام سے عموماً اور اہل حدیچ حضرات سے خصوصاً ''محدث'' کے مطالعے کی سفارش کرتے ہیں۔
ہفت روزہ ایشیا لاہور ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۱ء
یہ مجلہ ملک کی علمی اور اصلاحی کوششوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ مجھے چند پرچے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، ہر پچہ بلند پایہ علمی معیار کا حامل تھا۔ پرچے میں نہ صرف خالص دینی موضوعات ملتے ہیں بلکہ جدید مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے اعلیٰ معیار کے معلومات افزا مضامین کا التزام بھی موجود ہے۔ علم دوست حضرات کے لئے یہ مجلہ باعث مسرت ہو گا۔ کتابت اور طباعت کے اعتبار سے یہ پرچہ درجہ اول کے مجلات میں شمار کیا جا سکتا ہ۔
ہفت روزہ ''لاہور'' لاہور ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۱ء
علمی و اصلاحی مجلوں کا اصل وظیفہ تحقیق و تدقیق کے بعد اپنی اس کاوش کے حاصل کو ایسے غیر جانبدار، بالواسطہ اور محبت آٖفرین رنگ میں پیش کرنا ہوتا ہے کہ تلخ سے تلخ بات بھی ترانوالہ کی طرح فکر و نظر کے حلق سے نیچے اتر کر محسوسات میں نیک تغیر پیدا کر دے۔ اسی لئے ایسے جریدے نہ کبھی سطحی بحثوں سے الجھتے ہیں نہ فروعی اختلافات کی وغا آرائی میں حصہ لیتے ہیں اور اظہار بیان کے لئے تلخ و تیز زبان کا استعمال تو ان کے یہاں علمی گناہ متصور ہوتا ہے اطمینان بخش ہے یہ بات کہ ''محدث'' ابھی تک اس تعمیری ڈگر پر قائم ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس میں مداومت اختیار کرنے کے بعد علمی دنیا میں اپنے لئے شایانِ شان مقام مختص نہ کرا لے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتادی اعتبار سے ''اصلاح و ارشاد'' ''تحقیق و تدقیق'' اور تبلیغ و تربیت کے کام خسارے کا سودا ہو کہ یہ مشن بہت جامع، طویل المیعار اور دور رس ہوتا ہے اس مشن کے علمبردار جریدوں کے تنزل والخطاط کی ساعت اول وہ ہوتی ہے جب انہیں ایک نقد آور فصل جان کر ایک خاص رنگ و رعنائی کے ساتھ بہرحال جاری رکھنے کی غرض سے ان کے مخصوص و بلند مشن کو نظر انداز کر کے ان میں سستے، سطحی اور لذیذ مواد کی آمیزش کا فیصلہ کر لیا جائے جب کہ ان کی حقیقی منفعت تو آنکھوں کے دیکھنے کی نہیں دلوں اور روحں کے محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے کیونکہ یہ تحقیقی خریطے ٹکے بٹورنے کے لئے نہیں دلوں کا رخ موڑ دینے کا عزم لے کر میدان عمل میں اترتے ہیں۔ امید ہے کہ ''مجلس التحقیق الاسلامی'' نے جو اس کساد بازاری کے باوجود اس کارِ اہم کا بیڑا اُٹھایا ہے اور اس کارِ خیر کا آغاز صوری و معنوی رعنائیوں کے ساتھ اس تزک و احتشام سے کیا ہے یہ ایثار جاری رہے گا اور ''محدث'' کا علمی و تحقیق معیار روز بروز بڑھتا ہی رہے گا۔ بہتر ہو کہ تحقیق و تصریح کے لئے مسائل کا انتخاب کرتے وقت ظواہر پر بواطن کو ترجیح دی جائے۔ قلب و روح کا تزکیہ ہو جائے تو ظاہر کو اسی رنگ میں رنگنے کی اُمنت پیدا ہو جانا ایک فطری ردّ عمل ہے۔