رمضان شریف

یہ مہینہ صیام و قیام کا ہے۔ پورا مہینہ روزے رکھنا ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اس ماہ کے صیام و قیام کی فرضیت اور فضیلت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ احکام، صیام و قیام کے متعلق بہت سے رسائل لکھے گئے ہیں۔ ہمارا رسالہ ''تعلیم الصوم'' بھی انہی احکام پر مشتمل ہے۔

شعبان کے آخری روز سررِ و عالم ﷺ نے صحابہؓ کو خطاب فرمایا اور رمضان المبارک کی خصوصیات و فضائل کے بارے میں ایک جامع خطبہ دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:

''لوگو! ایک بہت بڑے اور بابرکت مہینے نے اپنے سایۂ رحمت کے نیچے تمہیں لے لیا ہے۔ اس مہینے کی ایک رات ایسی ہے جو اپنے فضائل و برکات کے لحاظ سے ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور رات کے قیام و نمازِ تراویح کو نفل قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں جس کسی نے نفل عبادت کے ذریعے تقرّب الٰہی حاصل کیا، اس کا اجر و ثواب ویسا ہی ہو ا، جیسا کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں فرض کا ہوتا ہے اور جس کسی نے اس مہینے میں فرض عبادت ادا کی اس کا اجر و ثواب اس قدر ہو گا جس قدر کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر مرتبہ ادائیگی فرض کا ہوتا ہے۔ یہ صبر و برداشت کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب اللہ کے ہاں جنت ہے۔ یہ مہینہ ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک اور احسان و مروت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں اضافہ ہوتا

  1. +ہے۔ جس کسی نے اس مہینہ میں روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہو گا اور روزہ افطار کرانے والے کو ویسا ہی روزے کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ خود روزہ رکھنے والے کو، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بعض لوگ اس قدر استطاعت نہیں رکھتے کہ روزہ افطار کرا سکیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہی ثواب اس شخص کو بھی دیگا جو روزہ دار کا روزہ ایک کھجور یا دودھ یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی افطار کرائے، البتہ جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہو ا اور اسے اس کا پروردگار میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا جس کے بعد اسے کبھی بھی پیاس نہیں ستائے گی۔ اس مہینہ کا پہلا دہا کہ موجبِ رحمت الٰہی، اور درمیان کا، موجبِ مغفرتِ الٰہی اور آخری دہا کہ عذابِ جہنم سے نجات کا موجب ہوتا ہے۔ جس کسی نے اس مہینہ میں اپنے غلام کی محنت و مشقت میں تخفیف کر دی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور دوزخ سے نجات دے گا1۔


فضائلِ رمضان اور صوم و قیامِ رمضان کے متعلق احادیث کثرت سے بیان ہوئی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اور کوئی بھی حدیث نہ ہوتی تو یہی ایک حدیث کفایت کرتی۔

اس مہینے میں اعتکاف کرنا دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں افضل ہے۔ بالخصوص آخری عشرہ میں اس کی تاکید آئی ہے۔ اس مہینہ میں عمل صالح کے لئے دیگر مہینوں سے زیادہ کوشش کرنا مسنون ہے۔

لیلۃ القدر کے قیام کے لئے خاص طور پر کوشاں ہونا چاہئے۔ یہ رات کون سی ہے؟ اس کے متعلق اختلاف ہے۔ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح منتقیٰ میں ۲۷ قول با دلائل نقل کئے ہیں اور ان پر بحث کر کے یہ بتایا ہے کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرہ میں، بالخصوص ستائیسویں کو ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ جو شخص مستحبات کا متلاشی ہو، اسے عشرہ آخر کی تمام راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کے لئے کوشاں ہونا چاہئے۔ ؎

بجستجوئے نیا بد کسے مراد ولے
کسے مراد ببا ید کہ جستجو وارد!


حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا جو روزے رکھے اور شبِ قدر کا اجر و ثواب طلب کرنے کی نیت سے قیام کرے اس کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا، رمضان کا یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ نے اس کے روزے فرض قرار دیئے ہیں۔ اس میں آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ سرکش شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار رات سے بہتر ہے جو کوئی اس کے خیر سے محروم رہا، وہ حرماں نصیب ہے۔'' (احمد، نسائی)


حوالہ جات

«عَنْ سَلْمَاتَ الْفَارِسِي قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیْ آخِرِ مِنْ یَوْمِ شَعْبَانَ، فَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ، قَدْ أظَلَّکُمْ شَھْرٌ َعظِیْمٌ مُّبَارَکٌ شَھْرٌ فِیْهِ لَیْلَة خَیْرٌ مِّنْ ألْفِ شَھْرٍ جَعَل اللہُ صِیَامَه فَرِیْضَة وقیَام لَیْلَتِه تَطَوُّعًا مَّنْ تَقَرَّبَ فِیْهِ بِخَصْلَة مِّنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أدَّیٰ فَرِیْضَة فِیْمَا سَوَاہُ وَھُوَ شَھْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْرُ ثَوَابُه الجنَّة وَشَھْرُ الْمُوَاسَاة وشَھْرٌ یُزَادُ فِیْه رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ فِیْه صَائِمًا کَانَ لَه مَغْفِرَة لِّذُنُوْبِه وَعِتْقُ رَقَبَتِه مِنَ النَّارِ وَکَافَ لَه مِثْلُ أجْره مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْتَقِصَ مِنْ أجْرِہ شَیٌٔ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ، لَیْسَ کُلُّنَا فَنَجِدُ مَا نَفُطِّرُ بِه الصَّائِمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ یُعْطِیْ اللہُ ھَذَا الثّوابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰی مِذْقَة لَبَنٍ أوْ تَمْرَة أوْ شَرْبَة مِّنْ مَّاء وَمَنْ أشْبَعَ صَائِمًا سَقَاه اللہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَة لَّا یَظْمَأُ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّة وَھُوَ شَھْرٌ أوَّلُه رَحْمَة وَّأوْسَطُه مَغْفِرَة وَّآخِرُہ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ وَمَن خَفَّفَ عَنْ مَّمْلُوْکِه فِیْه غَفَرَ اللہُ لَه وَأعْتَقَه مِنَ النَّارِ» (رواہ الیبهقي في شعب الإیمان)