عورت كى امامت كا حاليہ واقعہ ؟

پروفيسر خورشيد عالم ماہنامہ 'اشراق' لاہور ميں 'عورت كى امامت'كے بيان ميں لكھتے ہيں:
"پچهلے دِنوں ايك نيك سيرت اور پڑهى لكھى خاتون نے نيويارك (امريكہ) ميں جمعہ كى نماز ميں مردوں اور عورتوں كى امامت كى..." 1

عورت كى امامت كى دليل بيان كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
"سنن ابوداود ميں عورت كى امامت كے عنوان كے تحت اُمّ ورقہ سے دو حديثيں روايت كى گئى ہيں- پہلى حديث كا متن يوں ہے : "اُمّ ورقہ بن نوفل سے روايت ہے كہ جب رسول اللہﷺ غزوئہ بدر كے لئے نكلنے والے تهے تو ميں نے كہا: اے اللہ كے رسول، مجهے اپنے ساتھ اس غزوہ ميں جانے كى اجازت ديجئے... چنانچہ اُنہوں نے نبى اكرم ﷺ سے اپنے گهر ميں ايك موٴذن مقرر كرنے كى اجازت طلب كى- آپ نے اس كى اجازت دے دى... " 2

آگے مزيد لكھتے ہيں:
"دوسرى حديث اُمّ ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے ايك اور سند سے مروى ہے ، ليكن پہلى حديث كامل تر ہے، اس حديث كا متن يوں ہے: "اللہ كے رسول ﷺ ان كے گهر آيا جايا كرتے تهے- آپ نے ايك موٴذن مقرر فرمايا تها جو اُمّ ورقہ كے لئے اذان ديتا تها۔ آپ نے اُن كو حكم ديا تها كہ وہ اپنے خاندان والوں كى امامت كيا كريں۔ راوى عبدالرحمن كہتا ہے كہ ميں نے ان كے موٴذن كو ديكها تها جو ايك بوڑها شخص تها-" 3

مذكورہ روايت كى اسناد اور متن پر بحث تو 'مجلس التحقيق الاسلامى' كے زير اہتمام 15/ مئى 2005ء كو منعقد ہ مذاكرہ ميں خوب ہوئى اور اس كى تفصيلات بهى آپ جان ليں گے- ان شاء الله

اِس لئے زيربحث روايت پر اصولِ حديث كى بجائے تاريخى پہلو سے بحث كى جائے گى- جب ہم زير بحث روايت كا تجزيہ اس كے تاريخى پہلو سے كرتے ہيں تو درج ذيل حقائق سامنے آتے ہيں:
(1) زير بحث روايت كے الفاظ (عن اُم ورقة بن نوفل أن النبي ﷺ لما غزا بدرًا) 4سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ واقعہ غزوئہ بدر كا ہے اور غزوئہ بدر 17/ رمضان 2 ہجرى كا واقعہ ہے- 5
(2) سيدہ اُمّ ورقہ كى زير بحث روايت سے پتہ چلتا ہے كہ اس سے قبل اذان اور اقامت كے ساتھ نماز جماعت كے ساتھ پڑهنا فرض ہوچكا تها- اسى لئے سيدہ اُمّ ورقہ نے نبى ﷺ سے موٴذن مقرر كرنے كى درخواست كى۔
(3) اس سے قبل مرد، خصوصاً اور عورتيں عموماً مسجدميں حاضر ہوكر نماز اداكرتے۔
(4) سنن ابوداود كى پہلى روايت سے معلوم ہوتا ہے كہ سيدہ اُمّ ورقہ نے خود نبى ﷺ سے موٴذن مقرر كرنے كى درخواست كى-
(5) اس روايت ميں يہ كہيں بهى نہيں ہے كہ نبى ﷺ نے سيدہ اُمّ ورقہ كو اپنے گهر والوں كى امامت كروانے كا حكم ديا يا سيدہ اُم ورقہ اپنے گهر والوں كى امامت كرواتى تهى جبكہ پروفيسر خورشيد عالم كے نزديك يہ حديث كامل تر ہے۔
(6) اس روايت سے يہ بهى پتہ چلتا ہے كہ سيدہ اُم ورقہ كا ايك غلام اور ايك لونڈى بهى تهے ليكن كسى روايت ميں يہ صراحت نہيں ہے كہ غلام بهى سيدہ اُمّ ورقہ كى اقتدا ميں نماز پڑهتا تها- يہ صرف احتمال ہے كہ غلام بهى سيدہ اُمّ ورقہ كى اقتدا ميں نماز پڑهتا تها كيونكہ جب موٴذن ہى ايك بوڑهے آدمى كو مقرر كيا گيا تها تو پهر كسى نوجوان مرد كا كسى غير محرم عورت كى اقتدا ميں نماز پڑهنا كيونكر جائز ہوسكتا تها؟
(7) سنن ابوداود كى ايك دوسرى روايت ميں يہ اضافہ ہے كہ نبى ﷺ اُمّ ورقہ كى ملاقات كے لئے ان كے گهر تشريف لے جاتے اور ان كے لئے ايك موٴذن مقرر كرديا تها جو اذان كہا كرتا اور وہ رسول اللہ ﷺ كے حكم سے اپنے گهر والوں كى امامت كرتى تهيں۔
(8) اس روايت سے يہ بهى پتہ چلتا ہے كہ سيدہ اُمّ ورقہ كے لئے جوموٴذن مقرر كياگيا تها وه بوڑها آدمى تها۔ چنانچہ اسى روايت ميں ہے: (موٴذنها شيخًا كبيرًا)

مذكورہ حقائق كى روشنى ميں تقرير استدلال يہ ہے كہ
(1) زير بحث روايت پردہ كے احكام نازل ہونے سے پہلے كى ہے اور پردہ كے احكامات سورئہ احزاب اور سورئہ نور ميں نازل ہوئے اور سورئہ احزاب اور سورئہ نور كا زمانہ نزول 5 اور 6 ہجرى كا ہے۔6
(2) سورئہ احزاب اور سورئہ نور كے زمانہٴ نزول كے قدر ے اختلاف كے باوجود يہ بات بالكل صحيح ہے كہ ان دونوں سورتوں كا زمانہٴ نزول كسى بهى صورت ميں 5 ہجرى سے پہلے كا نہيں ہے، جبكہ سيدہ اُم ورقہ كى امامت كا واقعہ غزوئہ بدر كا ہے جو 2 ہجرى ميں ہوا۔
(3) سيدہ اُمّ ورقہ  كى زير بحث روايت سے اگر عورت كا مردوں كى امامت كروانا اور وہ بهى غير محرم مردوں كو ثابت بهى ہو جائے تو وہ بهى قرآنِ مجيد ميں پردہ كے احكام نازل ہونے كے بعد منسوخ ہوجائے گا۔ والله اعلم
(4) قرآنِ مجيد ميں پردہ كے احكام نازل ہونے كے بعد يہ ثابت ہے كہ عورت اپنا چہرہ بهى غيرمحرم سے چهپائے گى۔چنانچہ صحيح حديث ميں ہے :
(عن عائشة زوج النبي ﷺ ... وكان صفوان بن المعطل السلمي ثم الذكواني من ورآء الجيش فأدلج فأصبح عند منزلي فرأى سواد إنسان نائم فأتاني فعرفني حين رآني وكان يراني قبل الحجاب فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني فخمرت وجهي بجلبابي...) 7
"نبى اكرم ﷺ كى زوجہ حضرت عائشہ سے مروى ہے ... كہ صفوان بن معطل سلمى ذكوانى لشكر كے پیچھے ره گيا تها، راتوں رات سفر كركے وہ صبح جب ميريقريبى مقام پر پہنچ گيا تو اس نے ايك سوئے انسان كو پايا سو اس نے مجهے پہچان لياكيونكہ حجاب نازل ہونے سے قبل اس نے مجهے ديكها ہوا تها- مجهے پہچاننے پر اس كے انا لله وانا اليه راجعون كہنے سے ميں بيدار ہوگئى، تو ميں نے اپنا چہرہ اپنى چادر سے ڈهانپ ليا۔"
(5) اخبار ميں شائع ہونى والى خبر اور تصوير كے مطابق امريكہ كے شہر نيويارك ميں امينہ ودود كے مبينہ امامت كے واقعہ سے پتہ چلتا ہے كہ وہ بے پردہ خاتون ہے۔ ملاحظہ فرمائيں : روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور 20 مارچ 2005ء صفحہ 5
(6) احاديث ميں عورت كا عورتوں كو امامت كرانے كا جو ذكر ملتا ہے، اس كى بهى صورت يہ ہے كہ امام عورت عورتوں كى امامت كرواتے وقت عورتوں كى پہلى صف ہى كے درميان كهڑى ہوگى نہ كہ مردوں كى طرح پہلى صف سے آگے عليحدہ كهڑى ہوگى- چنانچہ حديث ميں ہے :
(وعن ريطة قالت أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلاة المكتوبة)
"ريطہ سے مروى ہے كہ سيدہ عائشہ صدیقہ نے ہمارى امامت كرائى اور آپ فرضى نماز پڑهاتے ہوئے ہمارے درميان كهڑى ہوئيں۔"8
جبكہ امینہ ودود كے مبينہ امامت كے واقعہ ميں وہ مردوں كى طرح پہلى صف سے آگے عليحدہ كهڑى ہوئى۔ملاحظہ فرمائيں: روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور 20 مارچ 2005ء صفحہ 5
(7) اسلام نے پردہ كے احكام نازل ہونے كے بعد غير محرم مرد اور عورت كے اختلاط سے منع فرمايا ہے- چنانچہ صحيح حديث ميں ہے :
عن جابر قال قال رسول الله ﷺ (ألا لايبيتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحًا أو ذا محرم) 9
"حضرت جابر سے مروى ہے كہ نبى كريم نے فرمايا : شوہر ديدہ كے ساتھ كوئى مرد (ايك مقام پر ) رات نہ گزارے اِلا يہ كہ وہ اس كا خاوند ہو يا اس كا محرم ۔"
(8) امینہ ودود كے مبينہ امامت كے واقعہ ميں مرد اور عورت كے اختلاط كو پيش كيا گيا ہے اور صف ميں مرد اور عورتيں مل كر كهڑے ہوئے ہيں جبكہ صحيح حديث كے مطابق عورت اكيلى صف كا حكم ركھتى ہے، اس لئے نماز ميں نہ وہ محرم كے ساتھ اور نہ ہى غير محرم كے ساتھ صف ميں كهڑى ہوسكتى ہے۔ چنانچہ صحيح حديث ميں ہے :
(عن أنس بن مالك صليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبيﷺ وأمي اُم سليم خلفنا) 10
"انس بن مالك سے مروى ہے كہ ميں نے اور ايك یتیم بچے (ضمیره بن سعد حميرى) نے اپنے گهر ميں نبى كريم كے پیچھے نماز پڑهى اور ہمارى والدہ اُمّ سليم ہمارى پیچھے تهيں۔"
اس حديث سے معلوم ہوا كہ نماز ميں عورت اپنے محرم كے ساتھ بهى كهڑى نہيں ہوسكتى حالانكہ سيدہ اُمّ سليم سيدنا انس كى والدہ تهيں تو پهر اس كا غير محرم كے ساتھ كهڑا ہونا كيونكر صحيح ہوسكتا ہے۔
(9) امينہ ودود كا مبينہ امامت كا واقعہ اسلام دشمن صلیبيوں كى اسلام كے خلاف سازش ہے اور اس كا ثبوت يہى واقعہ ہے كہ اس سازش كو عملى جامہ پہنانے كے لئے بهى گرجا ہى كا انتخاب كيا گيا-امينہ ودود كا مبينہ امامت كا واقعہ بهى نيويارك كے چرچ ميں ہوا- چنانچہ روزنامہ ڈان 20 مارچ 2005ء كو "Woman leads prayers in NY" لكھتا ہے ۔
"The prayers were attended by some one hundred men and woman. The venue was the catherdral of St John, an Anglican church in New York."
(10) مذكورہ اخبار ميں يہ بهى لكها ہے كہ يہ نماز انگريزى زبان ميں پڑهائى گئى- ملاحظہ فرمائيں:
"Ms Wadud conducted the prayers primarily in English."
جبكہ حديث سے ثابت ہے كہ نبى ﷺ نے عربى زبان كے علاوہ كسى دوسرى زبان ميں نماز پڑهنے كى اجازت نہيں دى۔چنانچہ نبى ﷺ نے اس شخص كو جو قرآن ياد نہيں كرسكتا تها، اسے اپنى زبان ميں نماز پڑهنے كى بجائے عربى زبان ميں يہ الفاظ تعليم فرمائے :
(فقال قل: سبحان الله والحمدلله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم) 11
تاريخ اسلام شاہد ہے كہ زيربحث روايت سے نہ كسى صحابى، نہ كسى تابعى اور نہ ہى كسى تبع تابعى نے يہ سمجھا ہے جو ان دانشوران اشراق نے سمجھا ہے- اگر اس طرح ہوتا تو وہ ضرور عورتوں كو امامِ مسجد بناتے حالانكہ ايسا نہيں ہوا، اس لئے يہ قابل مذمت ہے۔


حوالہ جات
1. شمارہ مئى 2005ء ،ص35
2. ص36
3. ابوداوٴدص 37
4. ابوداود : حديث591
5. ملاحظہ فرمائيں: طبقات ابن سعد مترجم 'مسلمانوں كى بدر ميں آمد'ج 1/ ص312، نفيس اكيڈيمى اُردو بازار كراچى ، طبع ششم ، ستمبر 1987ء
6. ملاحظہ فرمائيں: تاريخ ابن كثير مترجم : ج 1/ ص 508،574
7. صحيح بخارى:4141
8. دار قطنى
9. صحيح مسلم : حديث2171
10. صحيح بخارى: حديث 727
11. سنن ابوداود: حديث 832