امامت ِ نسواں كا جواز؟حديث ِ اُمّ ورقہ كى روشنى ميں
گذشتہ دنوں امريكہ ميں ايك مسلم خاتون نے جرأتِ رندانہ سے كام لے كر مردوں اور عورتوں كى ايك مخلوط جماعت كى امامت كيا كى كہ پورى دنيا ميں اس كى مخالفت اور حمايت كا بازار گرم ہوگيا- علمااور فقہا نے اس كے خلاف فتوے ديے اور اسے ناجائز عمل بتايا تو روشن خيال مسلم دانشوروں نے اس كى حمايت كى اور اسے ايك انقلابى اقدام قرار ديا-
عورت كے ذريعے مخلوط جماعت كى امامت كے عدمِ جواز پر علما نے جو دلائل ديے ہيں ان ميں وہ احاديث بهى ہيں جن ميں مسجد ميں عورتوں كى صفوں كو سب سے آخر ميں اوربچوں كى صفوں كے بعد ركهنے كا حكم ديا گيا ہے- اس كا مقصد عورتوں اور مردوں كے اختلاط كو روكنا ہے- ان كے علاوہ ان كى ايك دلیل 'اُمت كا ہميشہ سے چلا آنے والا 'تعامل' بهى ہے- اُمت كى چودہ سو سالہ تاريخ ميں يہ روايت كبهى نہيں رہى- عہد ِنبوى اور عہد صحابہ ميں بهى خواتين كو يہ 'اعزاز' نہيں بخشا گيا- متعدد امہات المومنين، مثلاً حضرت عائشہ اور حضرت اُمّ سلمہ وغيرہ اور متعدد صحابيات قرآن كريم كے حفظ، قراء ت اور فہم ميں بہت سے صحابہ سے بڑھ كر تهيں، آنحضرت ﷺ كے وصال كے بعد وہ عرصہ تك زندہ رہيں، مگر كبهى اُنہيں امامت كے لئے آگے نہيں بڑهايا گيا- ايك موقع پر اُمّ المومنين حضرت عائشہ نے جنگ ميں ايك لشكر كى قيادت كى، مگر اس دوران بهى انہو ں نے كبهى مردوں كى جماعت كى امامت نہيں كى- اسى بنا پر جمہور فقہاے امت نے عورت كى امامت كو ناجائز قرار ديا ہے۔
جديد روشن خيال مسلم دانشور مسلمان عورت كو ہر ميدان ميں مردوں كے دوش بدوش دیكھنا چاہتے ہيں- ان كے نزديك وہ تمام حقوق و اختيارات جو مردوں كو حاصل ہيں، ان سے اسلام نے عورتوں كو بهى بہرہ ور كيا ہے اور وہ تمام كام جنہيں مسلمان مرد انجام دے سكتے ہيں، ان سے مسلمان عورتوں كو بهى نہيں روكا گيا ہے- اس منطقى استدلال كى رو سے مسلمان عورت امامت بهى كرسكتى ہے ، اس 'شرف' سے اسے محروم كرنے كا كوئى جواز نہيں ہے- يہ حضرات اپنے اس دعوىٰ پر آيت إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ ٱللَّهِ أَتْقَىٰكُمْ...﴿١٣﴾...سورۃ الحجرات "درحقيقت اللہ كے نزديك تم ميں سب سے عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زيادہ پرہيزگار ہے-" سے استدلال كرتے ہيں- وہ كہتے ہيں كہ قرآنى فكر كى رو سے امامت كااہل وہ ہے جو تقوىٰ ميں بڑها ہوا ہو، دين كے فہم و بصيرت سے معمور ہو اور جسے قرآن مجيد كى ترتيل كا بہتر سليقہ حاصل ہو، خواہ وہ مرد ہو يا عورت- يہ بات كہ اُمت كى پورى تاريخ حتى كہ صدرِ اوّل ميں بهى عورت كى امامت كى ايك مثال بهى نہيں ملتى، ان حضرات كے نزديك ذرا بهى قابل اعتنا نہيں ہے- كيونكہ جو كام عہد ِنبوى ميں نہ ہوا ہو، اس كے ناجائز ہونے كى كوئى دليل نہيں ہے- احاديث ِنبوى كا سرمايہ ان حضرات كى اس فكر كى راہ ميں آڑے آتا تها- اس لئے كہ اس ميں عورتوں كے الگ دائرئہ كار كے حدود متعین كئے گئے ہيں، ان كے لئے حجاب، لباس اور گهروں سے باہر جانے كے مخصوص آداب بيان كئے گئے ہيں اور اُنہيں مردوں كے اختلاط سے بچنے كى تاكيد كى گئى ہے- اس لئے انہوں نے سرمايہٴ احاديث ہى كو بے اعتبار بنانے كى پورى كوشش كى اور انہيں 'قرآنى فكر' كے لئے 'حجابِ اكبر' قرار ديا۔
بعض دانشوروں كو شايد احساس ہوا كہ يہ بات بننے والى نہيں ہے- اس لئے اُنہوں نے ذخيرہ ٴاحاديث سے كوئى مثال ڈهونڈنے كى كوشش كى جس سے امامت ِنسواں كا جواز ثابت كيا جاسكے- انہيں عہد ِنبوى كى ايك مثال ملى جس ميں اللہ كے رسول ﷺ نے ايك صحابيہ (حضرت اُمّ ورقہ) كو استثنائى طور پر 'اپنے گهر والوں' كى امامت كى اجازت دى تهى- اس روايت سے كھینچ تان كر انہوں نے اپنا مدعا ثابت كرنے كى كوشش كى ہے- سطورِ ذيل ميں اس روايت اور اس كے پس منظر كا مطالعہ اور اس سے جديد دانشوروں كے استدلال كا جائزہ لينا مقصود ہے-
سنن ابو داود ميں مروى ہے كہ حضرت اُمّ ورقہ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب كى تهى كہ اپنے گهر ميں ايك موٴذن ركھ ليں- آپ نے انہيں اس كى اجازت دے دى تهى- (استأذنت النبي ﷺ أن تتخذ في دارها موٴذنا فأذن لها) دوسرى روايت كے الفاظ يہ ہيں: جعل لها موٴذنا يؤذن لها (آپ نے ايك موٴذن مقرر كرديا تها جو ان كے لئے اذان ديتا تها) دوسرى بات يہ كہ آنحضرت ﷺ نے حضرت اُمّ ورقہ كو اپنے گهر والوں كى امامت كرنے كا حكم ديا تها: (وأمرها أن تؤم أهل دارها) 1
يہ روايت سنن ابو داود كے علاوہ بعض اور كتب ِحديث ميں بهى مروى ہے- سب ميں يہى مضمون مذكور ہے- بعض روايات ميں صراحت ہے كہ امامت كا يہ حكم فرض نمازوں كے لئے تها- ايك روايت ميں ہے كہ آپ كا حكم عورتوں كى امامت كے سلسلے ميں تها، ليكن بيشتر روايات ميں يہ اضافہ نہيں ہے- روشن خيال دانشو روں نے روايت ميں موجود لفظ 'دار' كو محلہ كے معنى ميں ليا ہے اور اس سے يہ مفہوم نكالنے كى كوشش كى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اُمّ ورقہ كو اپنے محلہ والوں كى امامت كا حكم ديا تها- بالفاظ ديگر و ہ اپنے محلے كى مسجد كى امام تهيں-
سنن ابو داود كى مذكورہ روايت ميں حضرت اُمّ ورقہ كے بارے ميں يہ بهى مذكور ہے كہ غزوئہ بدر كے موقع پر اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض كيا تها: اے الله كے رسول! مجهے اپنے ساتھ غزوہ ميں شركت كى اجازت مرحمت فرمائيں، ميں مريضو ں كى خدمت كروں گى اور شايد اللہ تعالىٰ مجهے بهى شہادت نصیب فرمائے- آنحضرت ﷺ نے جواب ديا: اپنے گهر ميں رہو، اللہ تعالىٰ تمہیں وہيں شہادت نصيب فرمائے گا، اسى بنا پر انہيں 'شہيدہ'كہا جاتا تها- اس روايت ميں يہ بهى ہے كہ رسول اللہ ﷺ ان سے ملاقات كرنے وقتاً فو قتاً ان كے گهر تشريف لے جايا كرتے تهے- اس روايت ميں يہ بهى ہے كہ ان كے پاس ايك غلام اور ايك لونڈى رہتے تهے- امّ ورقہ نے اُنہيں مدبر بنا ديا تها- يعنى ان سے كہہ ديا تها كہ ميرے مرنے كے بعد تم دونوں آزاد ہو- حضرت عمرفاروق كے عہد ِخلافت ميں ان دونوں نے جلد آزادى پانے كے مقصد سے ايك رات ايك چادر سے ان كا گلا گهونٹ كراُنہيں شہيد كرديا اور بهاگ گئے-صبح حضرت عمر كو خبر ہوئى تو انہوں نے اعلانِ عام كرديا كہ جس كسى كو ان دونوں كا پتہ چلے يا اُنہيں دیكھے تو انہيں پكڑ كر لائے- بالآخر وہ گرفتار ہوئے اور اُنہيں پهانسى دے دى گئى- اس روايت ميں ہے كہ حضرت اُمّ ورقہ كو قرآنِ كريم حفظ تها (كانت قد قرأت القرآن)
ابن حجر كى كتاب الإصابة سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ رات ميں بلند آواز سے تلاوت كيا كرتى تهيں- اور حضرت عمر جو راتوں ميں آبادى كا گشت كيا كرتے تهے، ان كى تلاوت سنا كرتے تهے- اس ميں ہے كہ" صبح ہوئى تو حضرت عمر نے فرمايا: كل شب ميں نے اپنى خالہ اُمّ ورقہ كى قرا ت نہيں سنى- وہ ان كے گهر (دار) ميں داخل ہوئے، وہاں كچھ نظر نہ آيا- ان كى خواب گاہ (بيت) ميں گئے تو ان كى لاش ايك چادر ميں لپٹى ہوئى ملى- 2
يہ وہ كل معلومات ہيں جو حضرت اُمّ ورقہ كے بارے ميں دستياب ہوسكى ہيں- احاديث، سير صحابہ و صحابيات اور تاريخ كى كتابوں ميں ان كے بارے ميں اور كچھ مذكور نہيں ہے- ان كے شوہر، بچوں، خاندان اور رشتہ داروں كا كچھ پتا نہيں ہے-
اس روايت ميں موجود لفظ 'دار' كو محلہ كے معنى ميں لينا صحيح نہيں ہے- اس ميں ہے كہ حضرت اُمّ ورقہ نے رسول اللہ ﷺ سے ايك موٴذن ركهنے كى اجازت طلب كى تهى- يہ موٴذن اگر محلہ كى مسجد كے لئے تها تو اس كے لئے حضور سے اجازت لينے كى كيا ضرورت تهى؟ اور اس كے لئے يؤذن لها (وہ ان كے لئے اذان ديتا تها) كى تعبير كيوں اختيار كى گئى؟وہ تو محلہ كى مسجد كا موٴذن تها اور اهل محله كے لئے اذان ديتا تها-
عربى زبان ميں 'دار' اور 'بيت' كا استعمال ايك معنى ميں بهى ہوتا ہے اور الگ الگ معنى ميں بهى- اسى طرح احاديث ميں بهى ان كا استعمال دونوں صورتوں ميں ہوا ہے- الگ الگ معانى ميں مستعمل ہوں تو 'بيت' خواب گاہ كے معنى ہيں اور 'دار' كسى دوسرے كام ميں استعمال ہونے، مكان يا احاطہ كے معنى ميں مستعمل ہوتا ہے- الإصابة ميں مذكور روايت سے بهى يہى بات نكلتى ہے- حضرت عمر نے حضرت اُمّ ورقہ كى قرا ت شب ميں نہيں سنى تو وہ اگلى صبح تحقیق حال كے لئے پہلے ان كے 'دار' یعنى گهر كے احاطہ ميں داخل ہوئے، وہاں كچھ نظر نہ آيا- ان كے 'بيت' يعنى خواب گاہ ميں پہنچے تو چادر ميں لپٹى ہوئى لاش پائى- اس روايت ميں 'دار' پر محلہ كا مفہوم كسى طرح فٹ نہيں ہوتا۔
حضرت اُمّ ورقہ كے افراد خانہ كون كون تهے؟ جن كى امامت كرنے كا اللہ كے رسول ﷺ نے انہيں حكم ديا تها- ايك غلام اور ايك لوندى، ان ميں اس موٴذن كو بهى شامل كرنا چاہئے جو ان كے لئے اذان ديتا تها- سوال پيدا ہوتا ہے كہ آنحضرت ﷺ نے حضرت اُمّ ورقہ اور ان كے افرادِ خانہ كو مسجد كى حاضرى سے كيوں مستثنىٰ كرديا تها؟ بہت سى احاديث ميں مسجد جانے اور وہاں باجماعت نمازادا كرنے كى تاكيد كى گئى ہے- آنحضرت ﷺ نے صحابہ كو حكم ديا تها كہ جو خواتين مساجد جاكر باجماعت نماز ادا كرنا چاہيں اُنہيں نہ روكيں- جو لوگ بغير كسى عذر كے اداے نماز كے لئے مسجد نہيں جاتے، ان كے بارے ميں آپ نے سخت وعيد سنائى ہے- پهر حضرت اُم ورقہ كے بارے ميں يہ خصوصى اجازت كيوں دى گئى كہ وہ اپنے گهر ہى ميں اذان دلوا ديں اور جماعت قائم كرليں-مسجد كى حاضرى پر زور دينے والى احاديث كومستحضر ركهنے اور اس حديث كے پس منظر پر عذر كرنے سے درج ذيل باتيں معلوم ہوتى ہيں :
(1) حضرت اُم ورقہ كے افرادِ خانہ ميں ان كا ايك غلام اور ايك لونڈى تهے- ان كے موٴذن كو بهى شامل كيا جاسكتا ہے- ان تينوں كے علاوہ اور كوئى نہيں تها-
(2) حضرت اُمّ ورقہ كا مكان آبادى سے كچھ ہٹ كر تها اور اس سے متصل دوسرے مكانات نہيں تهے- اس كا اشارہ اس سے ملتا ہے كہ ان كے غلام اور لونڈى كو ان كا گلا گهونٹ كر فرار ہونے كا موقع مل گيا-
(3) قريب ميں كوئى مسجد نہيں تهى جہاں حضرت اُم ورقہ اور ان كے افرادِ خانہ باجماعت نماز كے لئے جاسكتے- اگر ہوتى تو وہ خود بهى اور ان كے افرادِ خانہ بهى وہاں جاتے اور جماعت ميں شريك ہوتے- اسى وجہ سے انہوں نے اللہ كے رسول ﷺ سے اپنے گهر پر اذان دلوانے اور جماعت كرنے كى خصوصى اجازت حاصل كرلى تهى-
(4) حضرت اُمّ ورقہ حافظہ قرآن تهيں جب كہ ان كے افرادِ خانہ كو قرآن كا خاطر خواہ حصہ ياد نہيں تها- اس لئے اللہ كے رسول ﷺ نے انہيں امامت كرنے كا حكم ديا تها-
پورے ذخيرئہ حديث ميں صرف يہى ايك روايت ہے جس سے عورت كى امامت كا استنباط كيا جاسكتا ہے- عہد ِنبوى كا صرف يہى ايك واقعہ ہے جس ميں آنحضرت ﷺ نے كسى كے گهر پر اذان دلوانے اور ايك خاتون كو جماعت كى امامت كرنے كى خصوصى اجازت مرحمت فرمائى تهى، يہ ايك استثنائى حالت ہے- آج كل بهى كہيں اس طرح كے حالات ہوں تو اس پر عمل كيا جاسكتا ہے- ليكن استثنا كو عمومى حكم بنا دينا اور اس كى بنياد پر عام حالات ميں مخلوط جماعت كے لئے عورت كى امامت كو جائز قرار دينا صحيح نہيں ہے-
حوالہ جات
1. سنن أبو داود، كتاب الصلوٰة، باب امامة النساء: حديث نمبر 591،592
2. ابن حجر عسقلانىالإصابة في تمييز الصحابة:4/505 مطبعة السعادة مصر 1328ھ،