كيا عورت مردوں كى امامت كراسكتى ہے؟
مكرمى و محترمى جناب مولانا حافظ عبدالرحمن مدنى صاحب
السلام عليكم ورحمة اللہ و بركاته
'اشراق' كے شمارہ مئى 2005ء ميں 'عورت كى امامت' كے متعلق چھپنے والے مضمون كى فوٹو كاپى ارسال كرنے پر شكرگزار ہوں- آپ نے درست فرمايا ہے كہ غامدى صاحب اور اربابِ اشراق اسلام كا نيا ماڈل متعارف كرانے ميں مصروف ہيں اور شاذ اقوال كى بنياد پر نت نئے فتنوں كو پروان چڑهانے ميں سرگرم ہيں- 'عورت كى امامت' كا مسئلہ نيا نہيں، پرانا ہے- اور علماے حق اس بارے ميں بحمدالله ايك عرصہ ہوا احقاقِ حق كا فريضہ ادا كرچكے ہيں- جزاهم الله أحسن الجزاء
اس بحث ميں اشراق نے جو رنگ بهرنے كى كوشش كى ہے، اس بارے ميں چند وضاحتیں پيش خدمت ہيں جس سے ان حضرات كے دجل و فريب كا اندازہ ہوسكتا ہے-
'اشراق' كى غلط بيانياں
پہلا دجل:حضرت امّ ورقہ كى روايت كى صحت و ضعف كے حوالے سے يہ بهى نقل كيا گيا ہے كہ
"حافظ ابن حجر عسقلانى التلخيص الحبيرميں فرماتے ہيں كہ اس حديث كے ايك راوى وليد بن عبداللہ بن جميع مجہول الحال ہيں مگر ابن حبان نے ان كو ثقہ شمار كيا ہے-"1
حالانكہ امر واقعہ يہ ہے كہ حافظ ابن حجر نے التلخیص ميں قطعاً وليد بن عبداللہ كو مجہول الحال نہيں كہا- ان كے الفاظ ہيں:
"وفي إسناده عبد الرحمن بن خلاد وفيه جهالة" 2
" اس كى سند ميں عبدالرحمن بن خلاد ہے اور اس ميں جہالت پائى جاتى ہے- "
علامہ البانى ... جن كا حوالہ اشراق ميں باربار ديا گيا... نے بهى إرواء الغليل ج2/ ص256 ميں حافظ ابن حجر سے عبدالرحمن كى جہالت ہى نقل كى ہے- اب كوئى ان سے پوچهے كہ يہ وليد بن عبداللہ كے مجہول الحال ہونے كى بات كہاں سے در آئى۔
دوسرا دجل: يہى نہيں بلكہ صرف دس سطر بعد يہ بهى كہا گيا كہ
"دوسرى حديث كے ايك راوى عبدالرحمن بن خلاد الانصارى كے بارے ميں حافظ ابن حجر نے التقريب ميں كہا ہے كہ وہ مجہول الحال ہے- مگر التلخيص الحبير ميں وہ كہتے ہيں كہ ابن حبان نے اسے ثقہ مانا ہے-" 3
حالانكہ يہ بهى محض دهوكہ اور فريب ہے كہ" التلخيص ميں وہ كہتے ہيں كہ ابن حبان نے اسے ثقہ مانا ہے-" جب كہ التلخيص ميں ابن حبان كى توثيق قطعاً منقول نہيں، بلكہ اس ميں بهى يہى كہا ہے كہ"فيه جهالة" اس ميں جہالت ہے- اسے كہتے ہيں يك نہ شد دو شد!
امام ابن قدامہ كے موقف ميں تحريف
تيسرا دجل : اسى طرح اشراق ميں امام ابن قدامہ كے حوالے سے يہ بهى نقل كيا گيا:
"عورت محض عورتوں كى امامت كرے، اس كى ترديد ابن قدامہ نے المغنى ج2/ ص198 ميں يہ كہہ كر كى ہے كہ ورقہ بنت عبداللہ بن حارث كے لئے اللہ كے رسول ﷺ نے ايك موٴذن مقرر كيا اور اُنہيں حكم ديا كہ وہ اپنے اہل خاندان (محلہ) كى امامت كرے،يہ حكم مردوں اور عورتوں كے لئے عام ہے-" 4
حالانكہ يہ بهى محض فريب ہے- امام ابن قدامہ كا يہ موقف قطعاً نہيں بلكہ اُنہوں نے تو اس كى ترديد كى ہے- چنانچہ پہلے انہوں نے يہ فرمايا ہے كہ
"أما المرأة فلا يصح أن يأتم بها الرجل بحال في فرض ولا نافلة في قول عامة الفقهاء" 5
"عموماً فقہا كے قول كے مطابق مرد كے لئے عورت كى اقتدا كرنا كسى صورت صحيح نہيں، نہ فرضى ميں اور نہ ہى نفلى نماز ميں- "
اِس كے بعد اُنہوں نے امام ابوثور اور امام مزنى كا موقف نقل كيا ہے- پهر"بعض أصحابنا"كہہ كر يہ نقل كيا ہے كہ
"مرد تراويح ميں عورت كى اقتدا كرے مگر عورت، مردوں كے پیچھے كهڑى ہو- كيونكہ اُمّ ورقہ كى روايت ميں رسول اللہ ﷺ نے ايك موٴذن مقرر كيا اور انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے 'اہل خاندان'كى امامت كرے- يہ حكم مردوں اور عورتوں كے لئے عام ہے-" 6
غور فرمايا آپ نے كہ امام ابن قدامہ تو اسے بعض حنابلہ كى دليل كے طور پر ذكر كررہے ہيں مگر اشراق كے مضمون نگار جناب خورشيد عالم اسے امام ابن قدامہ كا موقف ذكر كرتے ہيں بلكہ فرماتے ہيں انہوں نے اس موقف كى "عورت محض عورت كى امامت كرے" ترديد كى ہے اور فرمايا كہ اس حديث ميں حكم "مردوں اور عورتوں كے لئے عام ہے" حالانكہ انہوں نے "عورت محض عورت كى امامت كرے" كے موقف كى قطعاً ترديد نہيں كى بلكہ جن بعض حنبلى حضرات نے نفلى نماز، مثلاً تراويح ميں مرد كے لئے عورت كى امامت پر اس روايت سے استدلال كيا ہے، ان كا موقف نقل كيا ہے- اب ہم خورشيد عالم صاحب كى عبارت فہمى پر بجز اس كے اور كہہ سكتے ہيں كہ سخن فہمى عالم بالا معلوم شد!
رہا علامہ ابن قدامہ كا موقف جو انہوں نے ابتدا ميں عموماً فقہا كرام سے نقل كيا ہے، اسكى تائيد اور(بعض أصحابنا)بعض حنابلہ كے سابقہ موقف كى ترديد كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
"وحديث أمّ ورقة: إنما أذن لها أن تؤم نساء أهل دارها كذلك رواه الدارقطني وهذه الزيادة يجب قبولها ... الخ" 7
"اور (رہى) حديث ِاُمّ ورقہ تو بے شك اُنہيں اہل خانہ كى عورتوں كو نماز پڑهانے كى اجازت دى تهى جيسا كہ امام دارقطنى نے اسے روايت كيا ہے، اس زيادت كو قبول كرنا واجب ہے-"
اس كے بعد اُنہوں نے يہ بهى فرمايا ہے كہ اگر يہ تعیین كہ اُنہيں عورتوں كو نماز پڑهانے كى اجازت دى گئى تهى، نہ ہوتى تب بهى روايت اسى پر محمول تهى كہ وہ عورتوں كو نماز پڑهاتى تهيں- چنانچہ ان كے الفاظ ہيں :
"ولو لم يُذكر ذلك لتعيَّنَ حملُ الخبر عليه لأنه أذِن لها أن تؤمَّ في الفرائض بدليل أنه جَعَل لها مؤذِّنا والأذان إنما يُشرعُ في الفرائض ولا خلاف في أنها لا تؤمهم في الفرائض ولأن تخصيص ذلك بالتراويح واشتراط تأخرها تحكُّمٌ يخالف الأصول بغير دليل ... الخ"
"اگر يہ زيادت نہ ہوتى، تب بهى حديث كو اسى معنى ميں متعين كيا جائے گا كيونكہ اُمّ ورقہ كو فرض نمازوں كى امامت كى اجازت دى گئى تهى- اس كى دلیل يہ ہے كہ ان كے لئے موٴذن مقرر كيا گيا اور اذان فرض نمازوں كے لئے ہى مشروع ہے اور اس ميں تو كوئى اختلاف نہيں كہ عورت مردوں كى فرائض ميں امام نہ بنے، اور اس لئے بهى كہ اس كى تراويح كے ساتھ تخصیص اور يہ شرط كہ وہ (مردوں كے) پیچھے رہے، تحكم ہے جو بلادليل اُصول كے مخالف ہے-"
اس عبارت كے بعد علامہ ابن قدامہ كے موقف ميں كوئى ابہام باقى نہيں رہتا- اُنہوں نے واضح اور صاف طور پر حضرت اُمّ ورقہ كى امامت كوسنن دارقطنى كى روايت كى بنا پر گهر كى عورتوں كے ساتھ مخصوص كيا ہے- بلكہ يہ بهى فرمايا ہے كہ اگر يہ واضح روايت نہ بهى ہوتى تب بهى اسے عورتوں كے لئے مخصوص سمجھنا چاہئے- كيونكہ فرض نماز كے لئے عورت كى اقتدا نہ كرنے ميں (حنابلہ كے ہاں) كوئى اختلاف نہيں- اور اسى روايت كو تراويح كے لئے جو بعض نے محمول كيا ہے اور ساتھ ہى يہ شرط بهى لگائى ہے كہ وہ امام عورت ، مقتدى مردوں سے پیچھے رہے يہ تحكم ہے اور اُصول كے خلاف ہے-
مگر اس كے بالكل برعكس اشراق كے مقالہ نگارلكھتے ہيں:
"چنانچہ المغنى ميں ابن قدامہ كہتے ہيں كہ ہمارے بعض حنبلى اصحاب كا قول ہے كہ عورت كے لئے نمازِ تراويح ميں مردوں كى امامت جائز ہے- ابن قدامہ ان اصحاب كى مخالفت كرتے ہوئے لكھتے ہيں كہ نبى ﷺ نے ان كيلئے موٴذن مقرر كيا تها جس سے پتاچلتا ہے كہ فرائض ميں امامت كى اجازت دى گئى، كيونكہ اذان تو صرف فرضوں كيلئے دى جاتى ہے-" 8
يہاں بهى يہ كهيل كهيلا گيا ہے كہ پہلے تو علامہ ابن قدامہ نے 'بعض حنبلى اصحاب' كا جو موقف ذكر كياتها، وہ مكمل طور پر نقل نہيں كيا- ثانياً انكى جو ترديد تهى، اسے بهى پورى طرح بيان نہيں كيا-
'بعض حنبلى اصحاب' فرماتے ہيں كہ"يجوز أن تؤم الرجال في التراويح وتكون وراء هم" "جائز ہے كہ عورت مردوں كو تراويح ميں امامت كرائے اور عورت ان كے پیچھے ہو-" يعنى تراويح ميں بهى عورت امام ہو تو مردوں كے آگے نہيں بلكہ پیچھے كهڑى ہوكر نماز پڑهائے- اسى كى ترديد علامہ ابن قدامہ نے كى كہ تراويح كے ساتھ تخصيص اور "اشتراط تأخرها" (عورت كا مردوں كے پیچھے ہونے كى شرط) تحكم اور خلافِ اُصول ہے-
اس سے آپ اندازہ كرسكتے ہيں كہ جن 'بعض حنبلى اصحاب' نے عورت كے لئے نماز تراويح ميں مردوں كى امامت جائز قرار دى ہے، وہ يہ بهى فرماتے ہيں كہ وہ مردوں كے آگے بڑھ كر امام نہ بنے بس پیچھے رہ كر نماز پڑهائے، گويا مقتدى آگے اور امام پیچھے-ان كے اس موقف كى جو ترديد كى، اسے تو اشراق ميں بيان كرديا گيا مگر درميان ميں امام ابن قدامہ نے جو يہ فرمايا تها : "ولاخلاف في أنها لاتؤمهم في الفرائض" اور اسى ميں كوئى اختلاف نہيں كہ عورت فرض نمازوں ميں مردوں كى امامت نہ كرائے، اسے بڑى دليرى سے حذف كرديا گيا- ع ديتے ہيں دهوكہ يہ بازى گر كهلا !!
سنن دارقطنى كى حديث
سنن دارقطنى باب ذكر الجماعة وأهلها وصفة الإمام كے حوالے سے امام ابن قدامہ نے جس روايت كى طرف اشارہ كيا، اس كے مكمل الفاظ مع سند يوں ہيں :
حدثنا أحمد بن العباس البغوي ثنا عمر بن شبة ثنا أبو أحمد الزبيري نا الوليد بن جُميع عن أمه عن أم ورقة أن رسول الله ﷺ أذِن لها أن يُؤَذَّنَ لَهَا ويُقَامَ وَتَؤُمَّ نِسَاءَ هَا 9
اس حديث كى ابتدائى سند صحيح اور اس كے راوى ثقہ ہيں- وليد بن جميع بهى ثقہ ہيں- البتہ ان كى والدہ جس سے وہ روايت كرتے ہيں، ان كى توثیق منقول نہيں- مگر اس روايت سے يہ بات نصف النہار كى طرح واضح ہوجاتى ہے كہ اُمّ ورقہ كو گهر كى عورتوں كو نماز پڑهانے كى اجازت دى گئى تهى، مگر خورشيد صاحب پہلے اس كا ترجمہ يوں كرتے ہيں :
"اُمّ ورقہ سے روايت ہے كہ اللہ كے رسول ﷺ نے اجازت دى تهى كہ اس كے لئے اذان دى جائے اوراقامت كہى جائے اور وہ اپنى عورتوں كى امامت كيا كرتى تهى- "10
ثانياً، اسى ترجمہ كى بنا پر يہ كہا گيا كہ "يہ امام دارقطنى كے اپنے الفاظ ہيں، حديث كے الفاظ نہيں- يہ ان كى اپنى رائے ہے-" إنا لله وإنا إليه راجعون!
حالانكہ يہ محض وسوسہ شيطانى ہے كہ "يہ امام دارقطنى كے اپنے الفاظ ہيں، حديث كے الفاظ نہيں" بلكہ يہ امام دارقطنى پر بہتان ہے كہ اُنہوں نے اسے حديث ميں شامل كرديا- اس كے برعكس علامہ ابن قدامہ تو فرماتے ہيں "هذه الزيادة يجب قبولها"كہ" اس زيادت كو قبول كرنا واجب ہے-"
علامہ ابن جوزى نے التحقيق ميں يہ روايت نقل كى اور اسى پر وليد اور اس كى والدہ پر جرح كى كہ "وليد ضعيف اور اس كى والدہ مجہولہ ہيں-" ابن حبان نے كہا كہ "وليد قابل احتجاج نہيں-" 11
- علامہ ذہبى نے تنقيح التحقيق ميں بهى دارقطنى كى يہى روايت ذكر كى اور فرمايا كہ"لا يصح" يہ صحيح نہيں-(ج1/ ص119) مگر اس آخرى جملہ كو يہ كہہ كر كسى نے ردّ نہيں كياكہ يہ امام دارقطنى كے الفاظ ہيں يايہ مرفوع حصہ نہيں- علامہ ابن عبدالہادى نے بهى تنقيح التحقيق(ج1 /ص293) ميں يہ روايت نقل كى اور امام ابن جوزى كى ترديد كى كہ انہوں نے جو اس روايت كو ضعيف قرار ديا،يہ صحيح نہيں ليكن اس جملہ كے بارے ميں كوئى بات نہيں كہى جو اشراق ميں كہى گئى ہے- بلكہ خود علامہ ابن جوزى نے آگے مسائل الجماعة والإمامةميں فرمايا كہ يستحب للنساء أن يُصلين جماعة كہ "عورتوں كے لئے مستحب ہے كہ وہ جماعت سے نماز پڑهيں-" اس كے لئے اُنہوں نے اسى دارقطنى كى روايت سے استدلال كيا، ان كے الفاظ ہيں:
لنا حديث أمّ ورقة أن رسول الله ﷺ أذن لها أن تؤم نسائها 12
"ہمارے موقف كى دلیل اُمّ ورقہ كى حديث ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے انہيں اجازت دى كہ وہ اپنى عورتوں كى امام بنے-" بلكہ انہوں نے مزيديہ بهى نقل كيا :
"وروي في حديث: تصلي معهن في الصف"
" ايك حديث ميں بيان ہوا كہ وہ ان عورتوں كے ساتھ صف ميں كهڑى ہوكر نماز پڑهے-"
علامہ ابن عبدالہادى نے التنقيح (ج1/ص11) اور علامہ ذہبى نے بهى تنقيح التحقيق ج1/ ص253 ميں بالكل اسى طرح نقل كيا جس سے يہ بات عياں ہوجاتى ہے كہ ان حضرات نے دارقطنى كے اسى حصہ سے عورتوں كے لئے عورت كى امامت پر استدلال كيا ہے-
خورشيد صاحب كا يہ ترجمہ كہ "وہ اپنى عورتوں كى امامت كياكرتى تهيں" ہى دراصل اس وسوسہ شيطانى كا باعث ہے- علامہ ابن جوزى وغيرہ كے الفاظ سے اس غلط فہمى كا ازالہ ہوجاتا ہے كہ اس حديث ميں "أذن لها" كا تعلق جس طرح "يؤذن لها ويقام" سے ہے، اسى طرح "وتؤم نسائها"سے بهى ہے-
يہ آخرى الفاظ بالكل اسى طرح ہيں جس طرح ابوداود وغيرہ كے الفاظ ہيں: "وأمرها أن تؤم أهل دارها" فرق صرف اتنا ہے كہ يہاں "أَمَرَها" كے الفاظ ساتھ ہيں جبكہ دارقطنى ميں"أَذِن لها" ابتدا ميں ہيں- اور يہ اِذن جس طرح اذان و اقامت كے لئے ہے، عورتوں كو نماز پڑهانے كيلئے بهى ہے، اس كوعليحدہ جملہ قرار دينا محدثين كے اُصول سے بے خبرى ہے-
علاوہ ازيں يہ بهى ملحوظِ خاطر ہو كہ حافظ ابن حجر نے اِتحاف المهرة (ج18/ص 323) ميں اوّلاً سنن دار قطنى سے يہى روايت نقل كى، اس كے بعد مزيد اس كے طرق واطراف كى طرف اِشارہ كرتے ہوئے ابن الجارود،ابن خزيمہ،حاكم اور مسند امام احمد كاحوالہ ديا اور ان كى اسانيد بيان كيں- حالانكہ سنن دار قطنى كے علاوہ باقى مراجع ميں"أن توٴم أهل دارها" كے الفاظ ہيں- حافظ ابن حجر كا يہ اُسلوب بهى اس بات كى دليل ہے كہ ان كے نزديك بهى يہ ايك حديث ہے اور"أهل دارها" كا وہى مفہوم ہے جو دار قطنى ميں "توٴم نسائها"كے الفاظ كا ہے- اس ليے سنن دار قطنى كى روايت كا انكار بهر نوع غلط اور ہٹ دهرمى كا نتيجہ ہے-
ہوس ناكى كى انتہا
دارقطنى كى روايت سے جان چهڑانے كے لئے جو بهدا طريقہ اختيار كياگيا، اسى كے ساتھ يہ بهى ملحوظِ خاطر رہے كہ خورشيد صاحب لكهتے ہيں:
"حديث ميں'أهل دارها'ہے 'أهل بيتها' نہيں-"أهل الدار كے معنى قبيلے والے، محلے والے،خاندان والے ہيں- بلكہ شہر، علاقے اور سارے جہاں كے لئے بولاجاتا ہے-"13
بلا شبہ 'دار' كا لفظ بڑا جامع ہے مگر اصلاً يہ لفظ اسى جگہ پر بولا جاتا ہے جو ارد گرد سے گهرى ہوئى ہو- چار ديوارى سے يا دو پہاڑوں سے يا كسى اور چيز سے- قبيلے محلے اور شہر و علاقے پر اس كا اطلاق مجازى ہے، حقيقى نہيں-"أهل الدار" اسى معنى ميں ہے جس ميں ہم اہل خانہ كا لفظ بولتے ہيں- يعنى گهر ميں جو عورتيں ہوتيں، ان كى امامت كى حضرت اُمّ ورقہ كو اجازت دى گئى- مگر اس لفظ كو اپنے تمام تر مفہوم ميں مراد لينا محض ہوسناكى كا نتيجہ ہے- سوال يہ ہے كہ جب اس كا اطلاق شہر، علاقے بلكہ سارے جہاں پر بهى ہے تو اسے 'خاندان والوں' كے لئے خاص قرار دينا كس دليل پر مبنى ہے؟جيسا كہ خورشيد صاحب نے اس كا يہى ترجمہ كيا ہے -
يہ اجازت شہر بلكہ پورے علاقے كے مرد اور عورتوں كى امامت كے لئے كيوں نہيں؟ جب ان اطلاقات كى بجائے اس كے معنى 'خاندان والوں'كيا جاتا ہے جو بہرحال مجازى معنى ہے تو حديث ميں اس كى جو تعيين نساء ہاسے ہے،اس حقيقى معنى اور مفہوم سے انكار كيوں ہے؟ اور يہ تو مسلم اُصول ہے كہ الحديث يفسر بعضه بعضًا كہ ايك حديث دوسرى كى تفسير كرتى ہے،بلكہ امام ابن خزيمہ نے "تؤم أهل دارها" كے الفاظ سے جو روايت ذكر كى ہے، اس پر باب ہى يہ قائم كيا ہے:"باب إمامة المرأة النساء في الفريضة" 14
"يہ باب ہے عورت كى عورتوں كے لئے امامت كا، فرض نمازوں ميں- "
امام حاكم نے بهى اس حديث پر يہى باب قائم كيا ہے :
"امامة المرأة النساء في الفرائض" 15
امام محمد بن نصر مروزى نے بهى اس سے عورت كى عورتوں كے لئے امامت پر ہى استدلال كيا ہے، ان كے الفاظ ہيں: باب المرأة تؤم النساء في قيام رمضان وغيرہ 16
بلكہ امام ابو نعيم نے تو حضرت امّ ورقہ كے ترجمہ ميں فرمايا ہے كہ"كانت تؤم الموٴمنات المهاجرات"وہ مہاجر صحابيات كى امامت كراتى تهى- 17
جس سے آپ اندازہ لگا سكتے ہيں كہ حضرات محدثين نے بهى 'اهل دار' كى امامت سے صحابيات كى امامت ہى مراد لى ہے، صحابہ كرام كى نہيں اور يہى فقہاء و محدثين كى رائے ہے- اس كے برعكس جن حضرات نے اس ميں مردوں كى امامت بهى مراد لى ہے، ان كے پيش نظر سنن دارقطنى كى روايت نہيں- اور مردوں كى شموليت بهى محض ظن و تخمین كى بنياد پر ہے، جيسا كہ خطباتِ بہاولپور ميں ڈاكٹر حميد اللہ صاحب نے فرمايا ہے كہ
"ظاہر ہے ، غلام ان كى امامت ميں نماز پڑهتے ہوں گے-" 18
جب كہ كسى واضح دليل سے ثابت نہيں كہ مرد بهى اُمّ ورقہ كى امامت ميں نماز پڑهتے تهے- پهر يہ بات بهى ديكهئے كہ حضرت اُمّ ورقہ ہى نہيں، ان سے درجہ و مرتبہ ميں كہيں بڑھ كر اُم المومنين حضرت عائشہ اور حضرت اُمّ سلمہ بهى نماز پڑهاتى تهيں- مگر كن كو ؟ صحابيات كو، صحابہ كو نہيں جيسا كہ مصنف عبدالرزاق (ج3/ ص141)، مصنف ابن ابى شیبہ (ج2 /ص89)، التلخیص(ج2/ ص42) وغيرہ ميں ہے اور وہ عورتوں كو نماز پڑهاتے ہوئے صف كے درميان ميں كهڑى ہوتيں، صف سے آگے مرد امام كى طرح نہيں- حضرت عائشہ كا غلام بهى تها مگر وہ غلام كے پیچھے نماز پڑھتى تهيں- غلام ان كے پیچھے نہيں پڑھتا تها- دوسرے صحابہ بهى ان كے غلام كے پیچھے نماز پڑهتے- ليكن حضرت عائشہ اور حضرت اُمّ سلمہ سے نہ كسى صحابى نے امامت كرانے كا مطالبہ كيا، نہ ہى ان كے پیچھے نمازيں پڑھیں-
يہ اس بات كى دليل ہے كہ حضرت اُمّ ورقہ كے پیچھے بهى كسى مرد نے نماز نہيں پڑهى صرف عورتيں پڑھتى تهيں- اگر ان كے پیچھے صحابہ كرام نماز پڑهتے ہوتے تو ان كى بجائے حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ كے پیچھے صحابہ كرام كا نمازنہ پڑھنا چہ معنى دارد؟ بالخصوص جبكہ يہ دونوں حضرت اُمّ ورقہ سے بهرنوع افضل تهيں اور قراء صحابہ و صحابيات ميں شمار ہوتيں- 19 يہ اس بات كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كسى جليل القدر صحابيہ كے پیچھے نماز نہ پڑهنے كے بارے ميں متفق تهے-
امام مزنى وغيرہ كے مسلك كى وضاحت
يہى وجہ ہے كہ اس مسئلہ ميں اختلافِ اقوال ذكر كرتے ہوئے بس امام مزنى، امام ابوثور اور امام ابن جرير طبرى كا نام ليا جاتا ہے،كسى صحابى بلكہ تابعى كا نہيں كہ ان ميں بهى فلاں اور فلاں مردوں كے لئے عورت كى امامت كو جائز قرار ديتے تهے،بلكہ ابن ابى شيبہ ميں تو حضرت على اور امام نافع سے منقول ہے كہ وہ عورت كو عورتوں كا امام بنانے سے منع بهى كرتے تهے-20 اس لئے صحابہ كرام اور تابعين عظام ميں يہ مسئلہ تقريباً متفق عليہ ہے كہ عورت مرد كى امامت نہيں كراسكتى...!!
امام مزنى اور امام ابوثور كے بارے ميں جو بيان كياجاتا ہے كہ وہ جواز كے قائل تهے تو يہ دعوىٰ بهى علىٰ الاطلاق درست نہيں- امام مزنى نے مُختصر المُزني نے "باب إمامة المرأة"ميں صرف وہى اقوال بيان كئے ہيں جن سے عورت كى عورتوں كے لئے امامت كا جواز نكلتا ہے- چنانچہ اس باب ميں امام شافعى كى موافقت ميں حضرت عائشہ ، حضرت اُمّ سلمہ كے آثار نقل كئے ہيں كہ وہ عورتوں كو نماز پڑهاتى تهيں اور صف كے درميان كهڑى ہوتى تهيں- اس باب ميں مردوں كے لئے عورت كى امامت كاقطعاً ذكر نہيں- البتہ اس سے پہلے باب اختلاف نية الإمام والمأموم وغيرذلك ميں فرماتے ہيں :
"القياس أن كل مُصلّ خلف جُنُب وامرأة ومجنون وكافر يجزئه صلاته إذا لم يعلم بحالهم لأن كل مُصلّ لنفسه لا تفسد عليه صلاته بفسادها على غيره قياسًا على أصل قول الشافعي ... الخ"
"قياس يہ ہے كہ جو كوئى جنبى اور عورت اور مجنون اور كافر كے پیچھے نماز پڑهتا ہے تو اسے يہى نماز كافى ہے جب وہ اس كے حال سے بے خبر ہے،كيونكہ ہر نمازى اپنى نماز پڑھتا ہے اس كى نماز اس كے غير (امام) كى نماز فاسد ہونے كى وجہ سے فاسد نہيں ہوتى، امام شافعى كے اصل قول پر قياس كى بنا پر-" 21
علامہ ابن قدامہ نے بهى اس مسئلہ كے تحت كہ "اگر مشرك يا عورت يا مخنث مشكل پیچھے نماز پڑهى جائے تو نماز دوبارہ پڑهى جائے-" فرمايا ہے كہ امام شافعى اور اہل الراے اس صورت ميں دوبارہ نماز پڑهنے كا حكم ديتے ہيں-
"وقال أبوثور والمزني: لا إعادة على من صلّٰى خلفه وهو لا يعلم لأنه ائتم بمن لا يعلم حاله فأشبه ما لو ائتم بمُحدِث" 22
"اور امام ابو ثور و مزنى نے فرمايا ہے كہ جس نے اس كے پیچھے بے خبرى ميں نماز پڑهى، اس پر اعادہ نہيں كيونكہ اس نے اس كى اقتدا كى ہے جس كى حالت كا اسے علم نہيں- تو وہ گويا اس كے مشابہ ہے جو بے وضو امام كى اقتدا كرتا ہے-"
يہى بات علامہ ابن منذر نے الأوسط ج4 /ص161،162 ميں بيان كى ہے-
جس سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ امام مزنى اور امام ابوثور نے مطلقاً عورت كى اقتدا ميں مردوں كى نماز كو جائز قرار نہيں ديا،بلكہ ايك خاص جزوى مسئلہ ميں، اور وہ بهى تب جب "لم يعلم بحالهم" اسے ان كى حالت كا علم نہيں كہ نماز پڑهانے والا كا فر و مشرك ہے، يا عورت يا مخنث ہے-
كياايسى صورت ميں كہا جائے گا كہ امام مزنى يا امام ابوثور نے كافر كے پیچھے نماز جائز قرار دى ہے؟ اور كافر كو بهى امام بنايا جاسكتا ہے؟ ہرگز نہيں تو اس سے عورت كى امامت كا جواز كہاں سے نكل آيا؟ وہ ارادةً اور قصداً عورت كو امام بنا كر اس كے پیچھے مردوں كى نماز قطعاً جائز قرار نہيں ديتے- بلكہ بے خبرى ميں ايسا ہوجائے تو اعادہ كا حكم نہيں فرماتے- مگر غور فرمايا آپ نے كہ ان كے اس موقف كو كياسے كيا بنا كر پيش كيا گيا اور اس پر بغليں بجائيں گئى، ان كى تعريف كے ترانے گائے گئے- اب يہ كون سا انصاف ہے كہ ان كے اس موقف پر عورت كو امام بنانا تو جائز قرار پائے اور كافر كو امام بنانا ناجائز رہے؟ شايد مستقبل ميں يہ غامدى حضرات اپنے وسيع تر مفاد اور اتفاق بين المذاہب كے جذبہ ميں يہ فتوىٰ بهى صادر فرما ديں كہ كافر كے پيچهے نماز جائز اور اسے امام بنانا درست ہے!!
اسى طرح امام ابوثور كا موقف بهى امام مزنى كے اسى قياس كے تناظر ميں ہے- علىٰ الاطلاق ان كى طرف جواز كا انتساب بہرحال درست نہيں- كيونكہ علامہ ابن حزم نے بهى المحلى (ج4/ ص220) ميں ابو ثور كا قول عورتوں كى امامت كے بارے ميں ہى نقل كيا ہے كہ وہ ان كے درميان صف ميں كهڑى ہوكر نماز پڑهائے، رہا امام ابن جرير كا قول تو بلا شبہ علامہ ابن رشد، علامہ نووى وغيرہ نے يہ ذكر كيا ہے مگر بالاسناد ان سے يا ان كى كسى كتاب ميں يہ قول نظر نہيں آيا كہ اُنہوں نے يہ كس تناظر ميں فرمايا- عين ممكن ہے كہ امام مزنى كى طرح ان كى طرف يہ انتساب بهى كسى جزئى مسئلہ كى بنا پر ہے- اگر اسے صحيح تسليم بهى كيا جائے تو يہ شاذ ہے اور مفصل حديث كا مخالف ہے- صحابہ اور تابعين كے طريقے كے بهى خلاف ہے- علامہ ابن رشد نے بهى اس حقيقت كا اظہا ركيا ہے كہ
"إنما اتفق الجمهور على منعها أن تؤم الرجال لأنه لوكان جائزًا لنقل ذلك عن الصدر الأول" 23
"جمہور علما كا اتفاق كہ عورت مردوں كى امامت نہيں كرسكتى، اس لئے ہے كہ اگر ايسا جائز ہوتا تو صدر اوّل ميں اس كى كوئى روايت ہوتى-"
صدیقہ كائنات حضرت عائشہ اور امّ الموٴمنين حضرت امّ سلمہ قراء صحابہ و صحابيات ميں شمار ہونے كے باوصف مردوں كو نہيں، صحابيات اور ديگر مستورات كو ہى نماز پڑهاتى تهيں- بالكل يہى نوعیت تابعین كرام كے طرزِ عمل اور فتوىٰ سے معلوم ہوتى ہے- بلا دليل و برہان خير القرون كے طرزِعمل سے ہٹ كر ايك نئى راہ اختيار كرنا بهرنوع محمو دنہيں، مذموم ہے-
رہا ا ٓخر ميں ان كا يہ فرمان
"مرد كو صرف مرد ہونے كى وجہ سے عورت پر قطعى كوئى فضيلت حاصل نہيں- يہ سوچ حكمت قرآنى سے متصادم ہے-"24
توعمل صالحہ كے اعتبار سے بلا شبہ عورت اور مرد ميں كوئى تفاوت نہيں، ليكن اس بنياد پر كيا مرد و عورت كے تمام حقوق و فرائض بهى برابر ہيں؟اور كيا'اشراق' بهى طلوعِ اسلام كى طرح مرد وزَن كے فرق كا كسى اعتبار سے قائل نہيں رہا؟ كيا وہ اپنے مرشد اور محبوب مفسر مولانا اصلاحى كى 'پاكستانى عورت دوراہے پر' ميں نگارشات كو بهى حكمت ِقرآنى كے متصادم سمجهنے لگے ہيں؟ جماعت ِاسلامى سے ان كے اختلاف كے وجوہ و اسباب ميں عورت كے بارے ميں ان كا موقف كيا حكمت ِقرآنى سے متصادم ہے؟ ہم اور كچھ نہيں كہنا چاہتے بس اتنا عرض ہے كہ اگر يہاں مرد و زن كافرق حكمت ِقرآنى سے متصادم نہيں ہے تو عورت كے پيچهے مردوں كى نماز ناجائز ہونا بهى حكمت ِقرآنى كے قطعاً متصادم نہيں!!
حوالہ جات
1. 'اشراق' بابت مئى 2005ء :ص39
2.التلخيص:ج2/ص27
3. اشراق:ص39
4. اشراق :ص40
5. المغنى:3/32، مسئلہ 254
6. المغنى:3/ 32
7. المغنى 2/33مع الشرح الكبير
8. اشراق :41
9. سنن دار قطنى:ج1/ص278 ، حديث 1069
10. اشراق :38
11.التحقيق: ج1/ ص313 رقم 387
12. ج1/ص471
13. ماہنامہ اشراق :ص37
14. ج3 /ص89
15. مستدرك حاكم: ج1/ ص203
16.قيام الليل ص162
17.الحلية:ج2/ ص63
18. صفحہ:420
19. الاتقان: ج1/ ص72
20. ج2/ ص89
21.مختصر المزني على هامش الأم :ج 1/ص115
22. المغنى: ج1/ ص33
23.بداية المُجتہد : ج1/ ص105
24. اشراق: ص45