نماز ميں عورت كى امامت؟

اس مسئلے ميں علما كرام كا اختلاف ہے كہ كيا عورت نماز ميں عورتوں كى امام بن سكتى ہے يا نيںئ؟ ايك گروہ اس كے جواز كا قائل ہے- ايك روايت ميں آيا ہے كہ
وكان رسول اللهﷺ يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها وأمرها أن تؤم أهل دارها1
"رسول اللہ ﷺ اُن )امّ ورقہ ( كى ملاقات كے لئے اُن كے گهر جاتے، آپ نے اُن كے لئے اذان دينے كے لئے ايك موٴذن مقرر كيا تها اور آپ ﷺ نے انہيں (اُمّ ورقہ ) كو حكم ديا تها كہ اپنے گهر (يا قبيلے، محلے) واليوں كو (فرض) نماز پڑهائيں- "

اس حديث كا بنيادى راوى وليد بن عبداللہ بن جميع 'صدوق، حسن الحديث' ہے 2 يہ صحيح مسلم وغيرہ كا راوى اور جمہور محدثين كے نزديك ثقہ و صدوق ہے لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔

وليد كا اُستاد عبدالرحمن بن خلاد ابن حبان، ابن خزيمہ اور ابن الجارود كے نزديك ثقہ وصحيح الحديث ہے، لہٰذا اس پر حالہ مجہول والى جرح مردود ہے-

لیلىٰ بنت مالك (وليد بن جمیع كى والدہ)كى توثیق ابن خزيمہ اور ابن الجارود نے اس كى حديث كى تصحیح كركے كردى ہے لہٰذا اس كى حديث بهى حسن كے درجہ سے نہيں گرتى- نيز ابن خزيمہ (1676) اور ابن الجارود (المُنتقىٰ:333) نے بهى اسے صحيح قرار ديا ہے-

حديث كا مفہوم
اس حديث كا مفہوم كيا ہے؟ اس كے لئے دو اہم باتيں مدنظر ركهيں :
اوّل: ايك حديث كى شرح ديگر احاديث سے ہوتى ہے ، اس كے لئے حديث كى تمام سندوں اور متون كو جمع كركے مفہوم سمجھا جاتا ہے-
دوم: سلف صالحین (محدثين كرام، راويانِ حديث) نے حديث كى جو تفسیراور مفہوم بيان كيا ہوتا ہے، اسے ہميشہ مدنظر ركها جاتا ہے، بشرطيكہ سلف كے مابين اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو-
اُمّ ورقہ  والى حديث پر امام ابن خزيمہ  (متوفى 311ھ) نے درج ذيل باب باندها ہے:
اب إمامة المرأة النساء في الفريضة"3

امام ابوبكر بن منذر نيسا بورى (متوفى 318ھ) فرماتے ہيں:
"ذكر إمامة المرأة النساء في الصلوات المكتوبة" 4

ان دونوں محدثين كرام كى تبويب سے معلوم ہوا كہ اس حديث ميں أهل دارهاسے مراد عورتيں ہيں، مرد نہيں- محدثين كرام ميں اس تبويب پر كوئى اختلاف نہيں ہے-

امام ابوالحسن دارقطنى (متوفى 385ھ) فرماتے ہيں :
حدثنا أحمد بن العباس البغوي: ثنا عمر بن شبه: (ثنا) أبو أحمد الزبيري: نا الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة أن رسول الله ﷺ أذن لها أن يؤذن لها و يقام وتؤم نساء ها5
"بے شك رسول الله ﷺ نے اُمّ ورقہ  كو اس كى اجازت دى تهى كہ اُن كے لئے اذان اور اقامت كہى جائے اور وہ اپنے(گهر، محلے كى) عورتوں كى (نماز ميں) امامت كرائيں-"

اس روايت كى سند حسن ہے اور اس پر ابن جوزى كى جرح غلط ہے- ابو احمد محمد بن عبداللہ بن الزبير زبيرى صحاحِ ستہ كا راوى اور جمہور كے نزديك ثقہ ہے، لہٰذا صحيح الحديث ہے-

امام یحیىٰ بن معين نے كہا :ثقة، ابوزرعہ رازى نے كہا: صدوق،ابوحاتم رازى نے كہا:
حافظ للحديث عابد مجتهد له أوهام6
عمر بن شبہ:صدو ق له تصانيف7 بلكہ ثقہ ہے 8 ، حافظ ذہبى نے كہا: ثقہ ہے9
احمد بن العباس بغوى: ثقہ ہے - 10
اس تفصيل سے معلوم ہوا كہ يہ سند حسن لذاتہ ہے- اس صحيح روايت نے اس بات كا قطعى فيصلہ كر ديا كہ"أهل دارها" سے مراد امّ ورقہ كے گهر اور محلے قبيلے كى عورتيں ہيں، مرد مراد نہيں ہيں-

كيا يہ الفاظ امام دار قطنى كے ہيں؟
يہاں يہ بات حيرت انگيز ہے كہ اشراق كے مقالہ نگار پروفيسر خورشيدعالم لكهتے ہيں:
"يہ دارقطنى كے اپنے الفاظ ہيں، حديث كے الفاظ نہيں، يہ ان كى اپنى رائے ہے- سنن دارقطنى كے علاوہ حديث كى كسى كتاب ميں يہ اضافہ نہيں، اس لئے اس اضافے كو بطورِ دليل پيش نہيں كيا جاسكتا-" 11

حالانكہ آپ نے ابهى پڑھ ليا ہے كہ يہ حديث كے الفاظ ہيں، دارقطنى كے اپنے الفاظ نہيں ہيں بلكہ راويوں كى بيان كردہ روايت كے الفاظ ہيں- اُنہيں امام دارقطنى  كى 'اپنى رائے' كہنا غلط ہے- جن لوگوں كو روايت اور رائے ميں فرق معلوم نہيں ہے وہ كس لئے مضامين لكھ كر اُمت ِمسلمہ ميں اختلاف و انتشار پهيلانا چاہتے ہيں؟

رہا يہ مسئلہ كہ يہ الفاظ سنن دارقطنى كے علاوہ حديث كى كسى دوسرى كتاب ميں نہيں ہيں تو عرض ہے كہ امام دارقطنى ثقہ و قابل اعتماد امام ہيں- شيخ الاسلام ابوطيب طاہر بن عبداللہ طبرى (متوفى 450ھ) نے كہا: كان الدارقطني أميرالمؤمنين في الحديث12

خطيب بغدادى (متوفى463ھ) نے كہا:
وكان فريد عصره و قريع دهره و نسيج وحده و إمام وقته، انتهٰى إليه علم الأثر والمعرفة بعلل الحديث وأسماء الرجال وأحوال الرواة مع الصدق والأمانة والفقه والعدالة (وفي تاريخ دمشق عن الخطيب قال: والثقة والعدالة:46/67) وقبول الشهادة وصحة الاعتقاد وسلامة المذهب (تاريخ بغداد: 12/34 ت 6404 )
"وه نابغہ روزگار اور اپنے وقت كا امام تها-علم حديث اور علل حديث،اسماء الرجال اور راويوں كے حالات كى پہچان اس پر ختم تهى اور اسكے ساتھ ساتھ وہ صدق وامانت،فقہ ، ثقاہت وعدالت ميں بهى باكمال تها-نيز وہ صحيح العقیدہ اور صحيح المذہب اور گواہى ميں معتبر آدمى تها-"

حافظ ذہبى نے فرمايا:

الإمام الحافظ المجود،شيخ الإسلام علم الجهابذة13

اس جليل القدر امام پر متاخر حنفى فقيہ محمود بن احمد عينى (متوفى 855ھ) كى جرح مردود ہے، حتى كہ عبدالحئ لكھنوى حنفى اس عینى كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ
ولولم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود وأجود14
"اگر اس ميں مذہبى (یعنى حنفى) تعصب كى بو نہ ہوتى تو بہت ہى اچها ہوتا-"

نوٹ: امام دارقطنى تدليس كے الزام سے بهى برى ہيں، ديكهئے:ميرى كتاب الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين (19/1)

جب حديث نے بذاتِ خود حديث كا مفہوم متعين كرديا ہے اور محدثين كرام بهى اس حديث سے عورت كا عورتوں كى امامت كرانا ہى سمجھ رہے ہيں تو پهر لغت اور الفاظ كے ہيرپھیر كى مدد سے عورتوں كو مردوں كا امام بنا دينا كس عدالت كا انصاف ہے؟

ابن قدامہ لكتےہ ہيں:وهذا زيادة يجب قبولهااور اس (نساء ها) كے اضافہ كو قبول كرنا واجب ہے- 15

يہاں يہ بهى ياد رہے كہ آثارِ سلف صالحین سے صرف عورت كا عورتوں كى امامت كرانا ہى ثابت ہوتا ہے- عورت كا مردوں كى امامت كرانا يہ كسى اثر سے ثابت نہيں ہے-

چنانچہ ريطہ الحنفية (قال العجلي: كوفية تابعية ثقة) سے روايت ہے كہ
أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلوٰة المكتوبة16
"ہميں عائشہ  نے فرض نماز پڑهائى تو آپ عورتوں كے درميان ميں كهڑى ہوئيں-"

مشہور تابعی امام شعبى  فرماتے ہيں كہ
تؤم المرأة النساء في صلوٰة رمضان تقوم معهن في صفهن17
"عورت عورتوں كو رمضان كى نماز پڑهائے تو وہ ان كے ساتھ صف ميں كهڑى ہوجائے-"

ابن جريج نے كہا:

تؤم المرأة النساء من غير أن تخرج أمامهن ولكن تحاذي بهن في المكتوبة والتطوع18
"عورت جب عورتوں كى امامت كرائے گى تو وہ آگے كهڑى نہيں ہوگى بلكہ ان كے برابر (صف ميں ہى) كهڑى ہوكر فرض و نفل پڑهائے گى -"

معمر بن راشد نے كہا:

تؤم المرأة النساء في رمضان وتقوم معهن في الصف19
"عورت عورتوں كو رمضان ميں نماز پڑهائے اور وہ اُن كے ساتھ صف ميں كهڑى ہو- "

معلوم ہوا كہ اس پر سلف صالحين كا اجماع ہے كہ عورت جب عورتوں كو نماز پڑهائے گى تو صف سے آگے نہيں بلكہ صف ميں ہى ان كے ساتھ برابر كهڑى ہوكر نماز پڑهائے گى- مجهے ايسا ايك حوالہ بهى باسند صحيح نہيں ملا جس سے يہ ثابت ہو كہ سلف صالحين كے سنہرى دور ميں كسى عورت نے مردوں كو نماز پڑهائى ہو يا كوئى مستند عالم اس كے جواز كا قائل ہو-

ابن رشد (م 515ھ) وغيرہ بعض متاخرين نے بغير كسى سند و ثبوت كے يہ لكها ہے كہ ابوثور (ابراہیم بن خالد،متوفى 240ھ) اور (محمد بن جرير) طبرى، متوفى 310ھ اس بات كے قائل ہيں كہ عورت مردوں كو نماز پڑها سكتى ہے- (ديكهئے بداية المجتھد:ج1/ ص145، المغني في فقه الإمام احمد: 2/15 مسئلہ:1140) چونكہ يہ حوالے بے سند ہيں، لہٰذا غير معتبر ہيں-

نتيجہ تحقيق: عورت كا نماز ميں عورتوں كى امامت كرانا جائز ہے مگر وہ مردوں كى امام نہيں بن سكتى- وما علينا إلاالبلاغ


حوالہ جات
1. سنن أبو داود، كتاب الصلوٰة،باب إمامة النسائح 592 وعنه البيهقي في الخلافيات قلمى ص4ب
2. تحرير تقریب التهذیب:7432
3. صحيح ابن خزيمہ 3/89 ح1676
4. الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف: 4/226
5. سنن الدارقطني:1/279 ح1071 وسنده حسن،وعنہ ابن الجوزي في التحقيق مع التنقيح: 1/253 ح 424 وضعفه،دوسرا نسخہ: 1/313 ح387،اتحاف المهرةلابن حجر: 18/323
6. الجرح والتعديل: 7/297
7. تقريب التهذيب:4918
8. تحرير تقريب التهذيب: 3/75
9. الكاشف: 2/272
10. تاريخ بغداد: 4/329 ت 2144
11. اشراق: مئى 2005ء ص38،39
12. تاريخ بغداد: 12/36ت 6404
13. سيرأعلام النبلاء: 16/449
14. الفوائد البهية:ص 208
15. المغنى: 2/16م 1140
16. سنن الدارقطني: 1/404ح1492 وسنده حسن،وقال النيموي في آثار السنن:514 وإسناده صحيح وانظر:كتابي أنوار السنن في تحقيق آثار السنن ق 103
17. مصنف ابن أبي شيبة: 2/89 ح4955 وسندہ صحيح،عنعنة هيثم عن حصين محمولة على السماع،انظر شرح علل الترمذي لابن رجب: 2/562 والفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين لراقم الحروف: 3/111
18. مصنف عبدالرزاق: 3/140 ح 5080 و سندہ صحيح
19. مصنف عبدالرزاق: 3/140 ح5085 و سندہ صحيح