امامت ِزن كے واقعہ كا پس منظراور مقصد!

18/مارچ 2005ء كو نيويارك كے ايك چرچ ميں ڈاكٹر امينہ ودود نے جمعہ كى خطابت اور اس كے بعد نمازكى امامت كرا كے ذرائع ابلاغ ميں ايك نئى بحث كا آغاز كرديا- اس سے اگلے جمعے 25/مارچ كو كينيڈا ميں بهى سليمہ علاؤ الدين نامى ايك عورت نے جمعہ كے ايسے ہى ايك اجتماع كى امامت وخطابت كى- پہلے اجتماع ميں 120 اور دوسرے ميں 200 كے لگ بھگ مرد و زَن نے شركت كى- شركت كے متمنى مرد وزن كى پہلے رجسٹريشن كى گئى اور اس اجتماع كے لئے مختلف مساجد سے رابطہ كيا گيا ليكن كسى جگہ اجازت نہ ملنے پر نيويارك كے قلب ميں واقع چرچ كى خدمات حاصل كى گئيں- جمعہ جيسے اسلامى شعار كى ہرزہ سرائى اور امامت جيسے نبوى منصب كى توہين پر مبنى اس پروگرام پرمسلمانوں كى طرف سے مزاحمت كا خطرہ تها، اس لئے نيويارك پوليس كے پهرے ميں يہ ڈرامہ ہوا- اس واقعہ كے بارے ميں چھپنے والى تصاوير اور خبروں سے اندازہ ہوتا ہے كہ اسلامى تاريخ كے ايسے نرالے جمعہ كى ادائيگى كا اشتياق ركهنے والوں سے زيادہ وہاں ميڈيا كے نمائندوں كا ہجوم تها جو ہر ہر لمحے كو كیمرے كى آنكھ ميں محفوظ كررہے تهے، دنيا بهر كے اخبارات ميں ان تصاوير كو مختلف زاويوں سے شائع كيا گيا، حتىٰ كہ پاكستان كے ايك پرائيويٹ ٹى وى چينل نے تو اس كى فلم بهى چلا دى۔

جہاں تك خطابت اور امامت كى تفصيلات كا تعلق ہے تو اس ميں بهى بہت سے انقلابى اقدامات كئے گئے- سب سے پہلے تو يہ خطبہ جمعہ اور اس كى نماز ايك چرچ ميں ہوئى، پينٹ شرٹ پہنے ايك لڑكى سہیلہ نے اذان دى اوراسلامى تعلیمات پر نظر ثانى كى داعى ڈاكٹر امینہ ودود نے امامت اور خطابت كى، نماز بهى انگريزى زبان ميں پڑهائى گئى جبكہ اس كے پیچھے نماز پڑهنے والوں ميں عورتوں كے علاوہ مرد بهى شامل تهے، مردوں اور عورتوں كى مخلوط صف بندى كرائى گئى گويا نماز كے لئے كهڑى كى جانے والى يہ صفیں عورتوں اور مردوں كو شانہ بشانہ كهڑے كرنے كى حقيقى منظر كشى كررہى تهيں، تصاویر كے مطابق خواتين شرم وحيا سے عارى چست مغربى لباس پہنے ہوئى تهيں- نماز ميں خواتين كے لئے سرڈهانپنا فرض ہے، ليكن ننگے سر پڑهى جانے والى يہ نماز تو ربّ ِكريم كے احكامات كے كهلے استہزا كا منظر پيش كر رہى تهى، اسلام خواتين كو مردوں كى موجودگى ميں حجاب اور چہرہ ڈهانپنے كى تلقین كرتا ہے، ليكن اس كى پابندى كى بهى نہ مقتديوں كو توفيق ہوئى، نہ امامہ صا حبہ كو- دورانِ خطبہ ڈاكٹر امینہ نے قرآنِ كريم كى تفسیركو اپنے پاؤں ميں ركها-گويا بظاہر نماز ايسى اسلامى عبادت كى ادائيگى اپنى تفصيلات سے اعتبار سے سرتاپا اسلامى احكامات سے انحراف اور ان كے مذاق اُڑانے كے لئے مخصوص تهى-

اس واقعے كى روحِ رواں اسرىٰ نعمانى نامى ايك بهارتى نژاد عورت ہے، جس كے والدين عرصہ ہوا، امريكہ ميں اقامت اختيار كر چكے ہيں- تصاوير ميں بهى اسرىٰ نيويارك ميں امامت كے اس واقعہ كى ہدايات ديتى ہوئى صاف نماياں ہے- يہ عورت پانچ سالوں سے اس نوعیت كے كئى ايك واقعات كى قيادت كر چكى ہے- ويسٹ ورجینیا ميں چند سال قبل وہ ايك مسجد ميں اپنے جيسى حياباختہ عورتيں لے كر گس گئى اور مردوں كے شانہ بشانہ نماز پڑهنے كى كوشش كى، انتظاميہ كے روكنے پر اس نے امريكى عدالت سے رجوع كيا اور امريكى عدالت نے اس كے حق كو تسليم كرتے ہوئے اس كو اجازت نامہ عطا كرديا- اس كا معمول رہا ہے كہ وہ كسى بهى مسجد ميں عورتوں كے ساتھ گس كر كوئى نہ كوئى بدتميزى برپا كئے ركھتى ہے اور امريكى پوليس عدالتى حكم كى بنياد پر ہميشہ اس كے معاون ومحافظ كا كردار ادا كرتى ہے- ڈاكٹر امینہ ودود اور اسرىٰ نعمانى دونوں ويسٹ ورجینیاميں رہتى ہيں اورچونكہ وہاں كى بہ نسبت نيويارك ميں اس فتنے كى تشہیر كے زيادہ مواقع ہيں، اس لئے بطورِ خاص اُنہوں نے نيويارك كا انتخاب كيا- اسرىٰ نعمانى اپنے آپ كو برصغیر كے معروف عالم مولانا شبلى نعمانى كى نواسى بتاتى ہے اور ايك ناجائزبچے كى ماں ہونے كا دعوىٰ كرتى ہے- اس بچے كا نام بهى اس نے شبلى ركها ہے- اسلام اور پاكستان كے خلاف بهى اس كا كرداركا فى گھناؤنا ہے جس كى تفصيلات كے لئے ہفت روزہ 'ندائے ملت' ميں دوقسطوں ميں شائع شدہ مضمون كا مطالعہ كريں- 1

خود كو مسلمان ظاہر كرنے والى عورت اسرىٰ نعمانى كے اسلامى احكامات كى پيروى كا يہ عالم ہے كہ وہ برملا كہتى ہے كہ ايك عورت كو ايك مرد كے ساتھ گلے ملنے ميں كوئى ممانعت نہيں، اجنبى مرد و زن كا ملنا ايسا ہى ہے جيسے اس كا بهائى اسے گلے ملتا ہے- خطبہ جمعہ اور امامت كرانے كے ڈرامے كے بعد اس نے اپنى پريس كانفرنس ميں كہا كہ "ہم اسلام كواكيسويں صدى كے تقاضوں سے ہم آہنگ كريں گے اور خواب كو حقيقت ميں بدليں گے-" 2

خاتون كالم نگار محترمہ طيبہ ضيااپنے كالم 'عورت كى امامت' ميں لكھتى ہيں:
"اسرىٰ نعمانى 'عورت اور اسلام' كے نام سے ايك كتاب كى مصنفہ ہے- اس كى دوسرى كتاب جنس پرستى كے بارے ميں ہے جس كا لب ِلباب يہ ہے كہ مرد وعورت بے لباس رہيں تو جنسى تفريق مٹ جاتى ہے اور ہندوستان ميں جوگيوں اور سادهوں كى تربيت ميں وہ اس مفروضہ كى پریكٹس بهى كرتى رہى ہے-بقول اس كے وہ ايك ناجائز بچے كى ماں ہے جس كا نام اس نے اپنے دادا كے نام پر شبلى ركها ہے- اپنے بیٹے كو گود ميں اُٹهائے پهرتى ہے اور فخريہ واعلانيہ اپنے اس فعل كو بهى اسلام كى آزادى ہى قرار ديتى ہے-

ان نفسياتى بيمار عورتوں ميں ايك بے نظير بهٹو كى قریبى دوست شمع حيدر بهى مردوں كے شانے سے شانہ ملائے كهڑى تهى- بے نظير جب بهى امريكہ آتى ہيں، ہم نوالہ وہم پيالہ اور اور اسلام سے بعد ركهنے والے اپنى اس دوست شمع حيدركے ہاں ہى قيام كرتى ہيں-"

سياہ فام افريقى نژاد ڈاكٹر امینہ ودود پاكستان ميں تو زيادہ متعارف نہيں ليكن اسلام اور خواتين كے بارے ميں اپنے منحرف كردار كى بنا پر عالمى ميڈيا ميں كافى شہرت ركھتى ہے۔ اسلاميات كى پروفيسر ہونے كے ناطے اسلام كى كوئى خدمت انجام دينے كى بجائے وہ اسلام كے بارے ميں آئے روز نئے تصورات پيش كرتى رہتى ہے- جمعہ كے خطبہ كے آغاز ميں اس نے كہا كہ
"اس طرح كے اجتماعات كے ذريعے ہم (خواتين) اسلام ميں اپنے حقوق كو حاصل كرنے كى طرف پيش قدمى كريں گى، كيونكہ امامت اسلامى عبادات كا اہم منصب ہے-ہم محراب ومنبر كو مردوں كے قبضے سے چهڑا كر اسلام كى خدمت كريں گے-" 3

امینہ كے خيالات كا جائزہ لينے كے لئے ہم نے اس كى انگريزى كتاب 'قرآن اور عورت ايك خاتون كے نقطہ نظر سے از سر نومطالعہ' كا سرسرى جائزہ بهى ليا ہے- اس كتاب كا تعارف ان الفاظ ميں كرايا گيا ہے :
"اسلام كى چودہ سو سالہ تاريخ ميں قرآن كى تفاسير خالصتاً مردوں كے قلم سے معرضِ وجود ميں آتى رہى ہيں، يہى ان كے دوسرى قوموں سے پیچھے رہ جانے كا سبب ہے- امینہ ودود پہلى عورت ہے جنہوں نے قرآن كا نئے سرے سے مطالعہ كيا ہے اور قرآن سے اُٹھنے والى نسوانى آواز كو شكوك كے دهندلكوں سے آزاد كيا ہے-ترقى پسند مسلمان عرصہ دراز سے يہ كہہ رہے ہيں كہ قرآن كى رائج تفاسير اصل دين اسلام كو نہيں بلكہ ايك خاص نقطہ نظر كو قرآن كے مفہوم كے طور پر پيش كررہى ہيں جن كى وجہ سے عورتوں كے حقوق غصب ہورہے ہيں- "4

امینہ كا فلسفہ يہ ہے كہ قرآن كى كوئى بهى تفسير حتمى نہيں ہے- اس كا كہنا ہے كہ قرآن كے متن نے نہيں بلكہ اس كى تفاسير نے عورت كے كردار كو محدود بنا كر ركھ ديا ہے اور يہ تفاسير قرآن كے اصل متن سے زيادہ اہميت اختيار كرگئى ہيں جبكہ يہ تمام تفاسير مردوں كى لكھى گئى ہيں- ان ميں غلط طور پر عورت كو ايك بے آواز مخلوق بنا ديا گيا ہے۔اس كى تفسیر نے جديد دور كى عورت كے لئے قرآن كو زيادہ بامعنى بنا ديا ہے-قرآن كى تفسیر معاشرتى تبديليوں كو پيش نظر ركھ كر ہونى چاہئے۔ ا س كا دعوىٰ ہے كہ اُس نے قرآن كے اصل مطالب تك رسائى كے لئے قرآن كے متن، عربى لغت اور گرامر كے اُصولوں اور قرآن كى عمومى ہدايت كو پيش نظر ركها ہے-

ڈاكٹر امینہ حدود كى سزاؤں كى مخالفت كرتى اور كہتى ہے كہ قرآن ميں ہاتھ كاٹنے كى سزا يا بيوى كو مارنے كى اجازت درست نہيں ہے- وہ امريكى معاشرے كو ايك مثالى معاشرہ قرار ديتے ہوئے مسلمان عورت كو ميدانِ عمل ميں آنے كى دعوت ديتى ہے ۔

"دورِ جديد كے تقاضوں نے عورت كو يہ مینڈيٹ ديا ہے كہ وہ اپنى ذمہ داريوں كے لئے قدم بڑهائے، اپنى شناخت، ترقى اور انسانى بہبودكے لئے ان تمام اقدامات كے خلاف جدوجہد كرے جن كى وجہ سے اس كے كردار كو متعصب طريقے سے مسخ كيا گيا ہے۔

ميرى تحقیق قرآن ميں صنفى امتيازات كے گرد گهومتى ہے- ميرا مقصد جنس كى بنياد پر غير مساويانہ سلوك كا خاتمہ ہے- ميرى جدوجہد عورتوں كے خلاف تشدد آميز رويوں، عورتوں كو دوسرے درجے كا انسان سمجهنے اور زدو كوب كے خلاف ہے-"

مفسرين پر الزام عائد كرتے ہوئے ڈاكٹر امينہ لكھتى ہے-
" اگر آپ قرآنى آيات پر تحقیقى نظر ڈاليں تو اس ميں عورت مرد كى مساوات اور آزادى خيال كے امكانات واضح طور پر نظر آتے ہيں-بعض جگہ صراحت سے اور كہيں اشاروں كنايوں سے ليكن مفسرين نے ان كو مسخ كركے، ان كى غلط تشريحات اپنا كر، جانب دارانہ تفسيريں تحرير كى ہيں-"5

امینہ ودود كے ان اقتباسات سے اس كے منحرف خيالات اور جديد تہذيب سے مرعوبيت كا بخوبى پتہ چلتا ہے- اس كى نظر ميں قرآن كى كوئى تفسیر انصاف پر مبنى نہيں ہے نيز اسلامى معاشروں ميں چلے آنے والے عورت كے كردار سے بهى وہ مطمئن نہيں بلكہ وہ مغربى عورت كى طرح مسلم عورت كو بهى كارزار زندگى ميں مردوں كے شانہ بشانہ لانا چاہتى ہے-

پس منظر اور مقاصد
امامت كے اس واقعہ كا پس منظر خالصتاً سياسى ہے جو عالمى سطح پر جارى اس بحث سے ملتا ہے جس ميں تہذيبى ميدانوں ميں عورت كے كردار كو بڑهانے كى كوششيں كئى سالوں سے جارى ہيں- جديد تحريك ِنسواں كے پيش نظرعورت كو گهر كى چار ديوارى سے باہر نكالنے اور اسے شمع محفل بنانے پر ہى اكتفا كرنا نہيں بلكہ اسے مردوں پر بهى بالا دستى عطا كرنا ہے- دوسرى طرف اس واقعہ كا پس منظر اسلام كو درپيش عالمى چیلنجز سے بهى ملتا ہے جس ميں 'تہذيبوں كا تصادم' جيسے نظريات پيش كئے گئے ہيں اور اسلام كو روشن خيالى اور اعتدال پسندى كا سبق دينے كى كوششيں جارى ہيں-مسلمانوں كو سياسى سطح پر مغلوب كرنے كے بعد ان كى طر ف سے جس ردعمل كا اُنہيں انديشہ رہتا ہے، اس ميں دينى تحريكوں كا كردار بہت نماياں ہوتاہے- مزيد برآں اگر مسلمانوں كى دينى اساسات كو طعنہ زنى اور ان كى عبادات كو تمسخر كا نشانہ بنا ديا جائے تو اسلام بطورِ دين متاثر ہوتا اور بے دينى كو راہ ملتى ہے۔

موجودہ واقعے ميں كامل ترين دين 'شریعت ِمحمديہ'كو نشانہ بنا كر ديگر ا لہامى شرائع و اديان پر بهى ضربِ كارى لگانے كى كوشش كى گئى ہے۔ دنيا اس وقت دين سے وابستہ اور دين سے بيزار يا دوسرے لفظوں ميں الہامى احكامات كے پيروكار اور انسان كے وضع كردہ قوانين كے علمبردار دو طبقوں ميں بٹى ہوئى ہے- ان دونوں طبقوں ميں بحث ومباحثہ كے كئى ايك موضوعات ہيں ليكن حاليہ واقعہ معاشرے ميں عورتوں كے كردار اور مرد و زن كى دونوں صنفوں كے مابين نام نہاد مساوات كے تناظر ميں پيش آيا ہے- اس واقعہ كے پس پردہ مقاصد ميں عورتوں كى مادر پدر آزادى كى حمايت كرنا اور ان پر مردوں كو حاصل بعض انتظامى امتيازات كا انكار كرنا ہے، يہى وجہ ہے كہ اس مقصد كے لئے جن خواتين كو منتخب كيا گيا، ان كى شناخت اور كردار اسى حوالے سے ماضى ميں متنازعہ رہا ہے- ايسے ہى اس واقعہ كا انتظام وانصرام 'پروگريسو مسلم يونين' اور 'مسلم ويمن فريڈم ' نامى پاكستانى تنظيموں نے كيا تها۔

(1) نيويارك ميں جن دنوں يہ ڈرامہ سٹیج كيا گيا، اس سے صرف ايك ہفتہ قبل اسى شہر ميں 'بيجنگ + 10 كانفرنس ' كے نام سے چھٹى خواتين كانفرنس كا انعقاد عمل ميں آيا تها-يہ كانفرنس 2٨فرورى سے11 مارچ تك نيويارك ميں منعقد ہوئى- جس ميں ماضى كى كانفرنسوں كى طرح اسلام ميں خواتين كے حقوق كے بارے ميں جارحانہ جذبات كا اظہار كيا گيا :
كويتى ہفت روزہ المُجتمع كى رپورٹ كے مطابق كانفرنس كے كل دس سيشن ہوئے جن كا مركزى موضوع 'جنس اور مسلمان عورتوں پر ڈهايا جانے والا ظلم' تها- بطورِ خاص دوسرے سيشن كا عنوان ہى يہ تها كہ اسلامى معاشرے ميں عورتوں پر ظلم وجور كا خاتمہ كيسے كيا جاسكتاہے؟ اس سيشن كا كليدى خطاب افغان اباحيت پسند خاتون سكینہ یعقوبى كا تها جس نے اس امر پر اصرار كيا كہ مسلمان عورتوں كو قرآنِ مجيد كى تفسير خود كرنا سكهايا جائے تاكہ وہ عورتوں كے حقوق از خود جان سكيں-
كانفرنس كے اعلامئے كى چوتهى دفعہ ميں كہا گياكہ خواتين كے خلاف ہر قسم كے امتياز كو مكمل طور پر ختم كيا جائے، چاہے قوموں اور ملكوں كے رسوم ورواج اور دينى عقائد كچھ بهى ہوں-صنفى مساوات كے نام پر مردوعورت ميں ہر طرح كى تفريق كو ختم كيا جائے اور مردوزن كو ہر طرح كى ذمہ دارياں ادا كرنے كا بهرپور اختيار ديا جائے- 6

(2) امريكہ ميں جن دنوں يہ واقعہ ہوا، انہى دنوں سے امريكى پريس ميں يہ بحث اسلام كے علاوہ ديگر الہامى اديان مثلاً يہوديت وغيرہ سے بهى جارى ہے-امريكہ ميں مقیم خاتون كالم نگار محترمہ طيبہ ضيا نے اسى پس منظر كو روزنامہ نوائے وقت ميں تفصیل سے پيش كيا ہے :
"ہر الہامى مذہب ميں عبادت كى امامت مرد كرتا ہے- يہوديوں كے گرجا گهروں ميں عبادت زيادہ تراجتماعى طورپرادا كى جاتى ہے جس كے لئے كم ازكم 10مردوں كا ہونا ضرورى ہے، ان كا امام تورات كى اصل زبان عبرانى ميں عبادت كراتا ہے، مرد اور عورتيں الگ الگ ہوتے ہيں، عورتوں كے لئے عبادت كا اہتمام بالكونى ميں ہوتاہے-عبادت ميں اُنہيں برہنہ سررہنے كى اجازت نہيں ہے اور عورتيں سر ڈهانپ كر ہى عبادت ميں شريك ہوسكتى ہيں-
عیسائيت بالخصوص كیتھولك فرقہ كے پہلے امام سينٹ پال بهى بائبل ميں عورتوں كو شرم وحيا كى تعليم ديتے ہيں اور اُنہيں اس بات سے آگاہ كرتے ہيں كہ وہ عبادت گاہوں ميں خاموشى اختيار كريں-عورت كا اصل مقام اس كا گهر ہے - وہ جو كچھ معلوم كرنا چاہتى ہے ، گهر جاكر اپنے شوہر سے معلوم كرے۔

كچھ عرصہ قبل امريكہ ميں چہ مردوں اور چہ عورتوں پرمشتمل ايك كميٹى تشكيل دى گئى تهى جسے بائبل كى غلطیاں درست كرنے كا فرض سونپا گيا تها- ان دانشوروں نے ماڈرن طبقہ كيلئے عورت و مرد كى مساوات كے نقطہ نظر سے بائبل ميں ترميم كى- اس طبقہ كو خدا كے مذكر ہونے پر بهى اعتراض ہے- امريكہ سے پهوٹنے والى اس وبا نے بهى نام نہاد مسلم دانشوروں كو اپنى لپیٹ ميں لے ركها ہے۔ بائبل ميں جہاں خدا كے لئے He، لارڈ يا فادر كے الفاظ استعمال كئے گئے ہيں وہاں 'گاڈ' كہنے پر گزارا كيا جارہا ہے- سينٹ پال كے جملے كہ"بيويوں كو اپنے شوہر كى اس طرح اطاعت كرنى چاہئے جس طرح خدا كى اطاعت كرتى ہيں-" كو بهى حذف كرديا گيا ہے-

يہوديوں كے ہاں لبرل طبقہ نے بهى اپنى مرضى كى تورات ترتيب دے ركهى ہے- جہاں خدا كو مذكر ظاہر كيا گياہے، اس كى بجائے 'ابراہیم كا خدا، اسحق كا خدا، یعقوب كا خدا' استعمال كيا جارہا ہے- جہاں'خدا كے بیٹے' كا تذكرہ آتا ہے، وہاں 'خدا كى ا ولاد' لكها جاتا ہے- اس طرح مغرب كى لادين، مادر پدر آزاد عورت نے مرد كى تخلیق كے حسد كا غبار نكالا- عورت كى امامت كے حاليہ فتنہ كے پیچھے بهى اہل كتاب كے اسى طبقہ كا ہاتھ ہے۔

خدا كے مذكر ہونے كا اعتراض كرنے والوں كو جيزز (حضرت عیسىٰ )كے مرد ہونے پربهى صدمہ ہے- تمام پیغمبر مرد تهے، خدا موٴنث ہوتا تو پہلے حوا  كو جنم ديتا اور اس كى پسلى سے آدم  كو پيدا كرتا- مردكو حاكميت و امامت دينے والا خدايقينا مذكر ہے جس نے آدم كى پيدائش كى اور اس كى پسلى سے عورت كو پيدا كيا-" 7

روزنامہ پاكستان ميں اسى موضوع پر شائع شدہ ايك مضمون ميں سيكولر دانشور ڈاكٹر مہدى حسن نے بهى اسى بات پر اعتراض كيا ہے:
"مذہب ميں مردوں كى بالا دستى كا معاملہ صرف اسلام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ عیسائيت ، يہوديت اور اسلام تينوں الہامى مذاہب ميں مردوں كو واضح برترى حاصل ہے جس كى وجہ يہ ہے كہ يہ مذاہب جس دور ميں 'متعارف' كرائے گئے وہ مردوں كى بالا دستى كے ادوار تهے۔"

(3) پيش نظر واقعہ ميں بهى اصل مسئلہ صرف عورت كى امامت كا نہيں ہے كيونكہ عورت كى عورتوں كے لئے امامت كى تو اسلامى شريعت ميں بهى اجازت پائى جاتى ہے، بلكہ اصل امر عورتوں كا مردوں كى برترى كو چيلنج كرنا ہے- كيونكہ اسلام نے عورت كو مساجد كى بجائے گهروں ميں نماز ادا كرنے كى زيادہ ترغيب دى ہے- معاشرے ميں ان كى زيادہ چلت پهرت كو ناپسند سمجهنے اور ان كى پُركشش آواز وزينت كو چھپانے كى غرض سے اسلام نے عورت كے لئے اذان بهى منع قرا ردى ہے اور مردوں كے برعكس ان كے لئے مردوں كے ساتھ باجماعت نماز بهى ضرورى نہيں ٹھہرائى-

جہاں تك خواتين كى مساجد كا تعلق ہے تو ماضى كے برعكس اس دور ميں يہ كاوشيں بهى آئے روز بڑهتى جارہى ہيں- ہندوستان ميں مالا بار كے علاقے ميں مسلم خواتين اپنى عليحدہ مسجد بنا رہى ہيں، چينى حكومت كے قائم كردہ ادارے 'اسلامك ايسوسى ايشن آف چائنا' كے زير اہتمام چين ميں بهى ايك مسجد النساء كا افتتاح ہوچكا ہے جس ميں حجاب اور نقاب كى پابند جن میھا نامى عورت امامت كراتى ہے- ايسے ہى ہالينڈ كے دار الحكومت ايمسٹرڈيم ميں بهى خواتين كى ايك مسجد كا افتتاح كيا جا چكا ہے ليكن اس كا كيس وہاں كى عدالت ميں چل رہا ہے-

اسلامى تاريخ ميں ايسى مساجد كا كوئى تذكرہ نہيں ملتا البتہ عام مساجد كے ساتھ خواتين كى نماز كے لئے مخصوص حصے ضرور موجود رہے ہيں اور اب بهى پاك و ہند كے بعض مخصوص مسالك كے علاوہ خليجى ممالك ميں بكثرت اس كا اہتمام كيا جاتا ہے- ايسے مقام پر خواتين اپنى نمازوں كے لئے جمع ہوجائيں تو اس ميں كوئى حرج بهى نہيں ليكن اسے ايك عام مسجد كى حيثيت دينا اور اس ميں خواتين كا خطبہ جمعہ وغيرہ پڑهنا يا اذان دينا وغيرہ بالكل اجنبى امر ہے كيو نكہ اسلام كى رو سے مسجد صرف نماز باجماعت ادا كرنے كى جگہ كو نہيں كہتے بلكہ وہ مسلم معاشرے كا مركزبهى ہوتا ہے جس ميں ان كے قومى وملى مسائل حتىٰ كہ حكومتى اور عدالتى مسائل بهى حل كئے جاتے رہے ہيں- اسلامى مساجد عسكرى تربيت كے علاوہ تعليم وتدريس كا مركز بهى رہى ہيں، اس لئے ايسى مساجد كو معروف معنوں ميں مساجد نہيں كہا جاسكتا اور ان سے گريز ہى كرنا چاہئے ، البتہ خواتين اپنے طورپر كوئى جگہ نماز كيلئے طے كرنا چاہيں تو اس كى گنجائش ضرور پائى جاتى ہے-

ہمارے پيش نظر واقعہ ميں اصل مسئلہ عورت كى عورتوں كے لئے امامت كا نہيں بلكہ عورت كى مردوں كى امامت وقيادت كا ہے-گويا اس واقعہ كے ذريعے يہ ثابت كرنا مقصود ہے كہ اسلام ميں صرف مرد ہى عورت كى قيادت كا اہل نہيں بلكہ صنفى مساوات كے ناطے عورتوں كو بهى مردوں كى ہرميدان ميں قيادت كا حق حاصل ہے-

مزيد برآں اس واقعے ميں كئى اسلامى احكامات كا مذاق اُڑايا گيا ہے ، اس كے بعد اسے محض عورت كى امامت كا مسئلہ قرار دينا مناسب نہيں- جہاں تك عورتوں كے مردوں كے ساتھ صف بندى كا تعلق ہے يا ننگے سر نماز پڑهنے كا مسئلہ ہے يا عورتوں كا چست لباس پہننا اور بے حجابى اختيار كرنا يا گرجا گهر ميں مجسّموں كى موجودگى ميں نماز ادا كرنا اور عربى كى بجائے انگريزى زبان ميں نماز پڑهنا، تو ان تمام اُمور كے ناجائز ہونے كے بارے ميں مسلمانوں ميں كوئى اختلاف نہيں ہے- يہ باتيں اسلام كى مسلمہ تعليمات سے انحراف ہى ہيں، اس كے بعد اس كو ايك جزویفقہى مسئلہ بنانا يا اس ميں مسلمانوں كے داخلى اختلافات كى جستجو كركے اسے پيش كرنا اسلام كى كونسى خدمت ہے؟

ان باتوں كو عالمى ميڈيا پرلانے اور اُنہيں زير بحث بنانے كا اس كے سوا كوئى مقصد نہيں كہ اسلامى تعليمات كو بدنام كيا جائے اور اسلامى شعائر جمعہ يا جماعت كا تمسخر اُڑايا جائے- يہ كوئى فقہى اختلاف كا مسئلہ نہيں ہے كہ جس ميں مسلمانوں كى اختلافى آرا ڈهونڈ كر كوئى گنجائش نكل سكتى ہو بلكہ يہ واقعہ اپنى مجموعى صورتحال كے لحاظ سے اسلام كا استہزا اور اسے بدنام كرنے كى كوشش ہے جس كے مرتكب افراد كو كم سے كم الفاظ ميں بهى 'لادين 'قرار ديا جاسكتا ہے- روزنامہ انصاف ميں 16/مئى كو مولانا محمد اسمٰعيل لكهتے ہيں :
"يہ نماز اللہ كے ہاں مقبول يا نا مقبول ہونے كے لئے پڑهى ہى نہيں گئى بلكہ اس كا مقصد تو حيا اور پردے كے سنہرے احكامات كا مذاق اڑانا تها اور وہ حاصل ہوگيا- سوال پيداہوتا ہے كہ كيا امینہ ودود نے امامت اس لئے كرائى كہ وہ ايك نماز كے بجائے 25 نمازوں كے اجر كى طالب ہے ؟ يا اسرىٰ نعمانى نے اس امامت كى نماز كے علاوہ كوئى اور نماز بهى كبهى پڑهى ہے يا اس امامت كے علاوہ اسلام كى كوئى اور اطاعت بهى كبهى كى ہے يا اس كا كوئى حكم عملاً مانا ہے؟"

....................................


مسلمانوں كى بدقسمتى ہے كہ ہمارے ہاں ہميشہ سے ايسے لوگ رہے ہيں جو اسلام كى مقدس تعليمات كے آگے سرتسليم خم كرنے كى بجائے اسلام دشمنوں كى سازشوں كو خود اسلام سے سند جواز مہيا كرنے ميں كوشاں رہتے ہيں- ان كے نزديك علم وتحقيق كى معراج ہى يہ ہے كہ دوسروں كے اعتراضات كو جائز ثابت كرنے كے لئے اپنے ہاں سے بهى شاذو نادر باتيں ڈهونڈ كر ان كى تائيد ميں پيش كر دى جائيں- پاكستان ميں يہ افسوسناك كردار مسٹر جاويد احمد غامدى كا حلقہ اشراق كررہا ہے۔

ذرائع ابلاغ ميں امريكہ كى يہ پاليسى واضح طور پر آچكى ہے كہ مسلمانوں كو آپس ميں لڑانے كے لئے دين دار طبقہ كے بالمقابل آزاد فكر دانشوروں كى ہرذريعہ سے مدد كى جائے اور خود سامنے آنے كى بجائے مسلمانوں كے مقابلے ميں بظاہر انہى جيسے آزاد خيال مسلمانوں كو لايا جائے- يہ بات بهى امريكى پاليسى ميں شائع ہوچكى ہے كہ حديث ِنبوى پر زيادہ سے زيادہ اعتراضات كو ہوا دى جائے اور عورتوں كے حقوق كے بارے ميں بڑھ چڑھ كر اسلامى نظريات پر شبہات واعتراضات پيش كئے جائيں- 8

اس امر كى نشاندہى افسوسناك ہے كہ جاويد احمد غامدى كا يہ حلقہ ان دونوں ميدانوں ميں اسلام كے خلاف شكوك وشبہات كو اُبهارنے ميں نماياں كردار پيش كرنے ميں كوشاں ہے- جناب غامدى كا اس روشن خيالى اور اعتدال پسندى كو مہميز لگانے كا كردار اس طرح بهى اہميت اختيار كرتا جارہا ہے كہ وہ دو سے زائد بار جنرل پرويز مشرف سے عليحدگى ميں خصوصى ملاقات كرچكے ہيں اور خود امريكى سفيربهى اس سلسلے ميں ان كے گهر آچكے ہيں-يہ باتيں حلقہ اشراق ميں عام پهيلى ہوئى ہيں- پاكستان ميں روشن خيالى كا پرچارك ٹى وى چینل 'جيو' بطورِ خاص مسٹر جاويد غامدى كو نمائندگى دے رہا ہے اور ايك پرائيويٹ چينل 'آج' تو گويا انہى كے افكار كے لئے مخصوص ہے- انگريزى اخبار 'ڈان' ميں اشتہارات شائع كرانے پر اس قدر اخراجات اُٹھتے ہيں كہ كوئى مذہبى تنظيم اس كى متحمل نہيں ہوسكتى ليكن جناب غامدى كے اوّلين صفحہ پر نصف صفحہ كے اشتہار اس اخبار ميں تواتر سے شائع ہوتے ہيں جس ميں ان كے ٹى وى پروگرام ديكهنے كى ترغیب دى جاتى ہے- گذشتہ سالوں ميں ادارئہ اشراق لاہور سے كراچى تك پہنچ پايا تها، ان ملاقاتوں كے بعد ان كى سرگرمياں 5 شہروں جن ميں ملتان بطورِ خاص شامل ہے، تك پہنچ چكى ہيں جہاں بڑى تعداد ميں ان كا لٹريچر تقسيم كيا جاتا ہے-

بظاہر دينى سرگرمياں كسى تنظيم كے لئے شرمندگى كى بجائے باعث ِافتخار ہونى چاہئيں ليكن جب حلقہ اشراق كے پيغام اور ان كى تحقيقات كا مركزى نكتہ تلاش كيا جاتاہے تو وہ تمام تر ايسے ايشوز ہيں جو عالمى استعمار كے اسلام كے خلاف ايجنڈے كى تبليغ كرتے ہيں، ان كى تحقيق كى تان بهى انہى كى ہم نوائى پر آكر ٹوٹتى ہے۔

اب يہ بات كوئى ڈھكى چھپى نہيں ہے كہ عام اسلامى تحريكوں كے برعكس جناب غامدى اسامہ بن لادن كو دہشت گرد، طالبان كو ظالم اور امريكى اقدامات كو برحق سمجهتے ہيں-ان كى نظر ميں فلسطينى عوام كا كردار بهى دہشت گردانہ ہے -جہاد كو وہ منسوخ تو نہيں كہتے ليكن جہاد كے لئے جن شرائط كو وہ پيش كرتے ہيں، اس كے بعد عملاً جہاد كا حكم منسوخ ہوجاتاہے- عورت كا پردہ اور حجاب، تصوير ومجسمہ سازى كو جائز قرار دينا، رقص و سرود كا جواز بلكہ نبى كريم وصحابہ كرام پر رقص وسرود كا الزام عائد كرنا، سياسى طور پر بيت المقدس كو يہوديوں كے حوالے كردينا وغيرہ ان كے ايسے علمى وتحقيقى كارنامے ہيں جن سے اس درخت كا پهل بخوبى پہچانا جاسكتا ہے-

حلقہ اشراق كى تازہ ترين كاوش اسى عورت كے امامت كے مسئلہ پر ڈاكٹر امینہ ودود اور اسرىٰ نعمانى كے كارنامے كى حمايت ميں سامنے آئى ہے- ايسے اہل فكر وتدبر كو اس واقعے ميں كئى ايك اسلامى تعلیمات سے انحراف تو نظر نہيں آتے بلكہ بڑى سادگى سے وہ اس جماعت كى امامت كرانے والى عورت پر 'نيك وپارسا' ہونے كا فتوىٰ صاد ركرتے ہيں جو ان تمام تر انحرافات كو قائم كرنے كا سبب بنى ہے۔

اس موضوع پر اخبارات وجرائد ميں بیسیوں مضامين شائع ہوئے ہيں مگر كسى ايك محقق يا عالم نے بهى ايسى امامت كا جواز كشيد نہيں كيا-ليكن اشراق نے مسلمانوں ميں اختلاف پيدا كرنے كے لئے نادر اقوال، باطل احتمالات اور دور ازكار تاويلات كى بنا پر اسلامى ذخيرئہ علم كے كونے كھدروں سے ا س كا جواز كھینچ ہى نكالا ہے۔

يہ بحث خالصتاً دينى اور لادينى طبقات كى بحث تهى، تحريك ِنسواں كے علمبرداروں نے ہى اپنے مقاصد كے لئے اِسے اٹهايا تها ليكن حلقہ اشراق نے تمام تر پس منظر اور پيش منظر كو نظرانداز كرتے ہوئے پہلے اسے صرف ايك نكتہ پر مركوز كيا پهر اسے ايك فقہى بحث بناديا اور مسلمانوں كا فقہى اختلاف نكال كر گويا اس كا جواز ثابت كرنا شروع كرديا۔

عالمى ميڈيا كى اس بحث ميں غيرمعمولى دلچسپى گذشتہ دنوں سامنے آچكى ہے، سوال پيدا ہوتا ہے كہ انہيں اس امر سے كيا دلچسپى ہے كہ فقہ اسلامى ميں كيا چيز جائزہے اور كيا حرام؟ ان كى دلچسپى كى واحد وجہ اسلام كى بطورِ دين ہزيمت كرانا اور لبرل وسيكولر طبقہ كا دين كے اہم شعارات كا مذاق اُڑانا ہے- اس لئے ہميں اس امر سے ہى اختلاف ہے كہ اس معاملے كو مكمل پس منظر ميں ديكهنے كى بجائے اسے فقہى اختلاف كا موضوع بناليا جائے۔

محدث كے حاليہ شمارے ميں شائع ہونے والے مضامين اسى مضمون كے ردّ عمل ميں لكھے گئے ہيں جو اشراق نے مئى 2005ء كے شمارہ ميں شائع كيا ہے اور جس ميں اُنہوں نے ہرممكنہ طريقہ سے عورت كى امامت ثابت كرنے كے لئے ايڑى چوٹى كا زور لگا يا ہے-

عورت كى امامت كے بارے ميں شریعت ِاسلاميہ كا موقف تو ان فاضل علماء كرام كے مضامين كے بعد نكھر ہى جائے گا، ليكن حلقہ اشراق كى اسلام پر اعتراض كرنے والوں سے ہم نوائى ايك بار پهر كهل كر سامنے آگئى ہے- اللہ تعالىٰ ہميں اسلام كے لئے مخلصانہ طور پر كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے-آمين!

عورت كى امامت كا ايك ظريفانہ نقشہ
بھلا تصور تو كیجئے اس معاشرہ كا جہاں عورت مردوں كى امام ہو، معلوم ہوا كہ مقتديوں كى بهیڑ مسجد ميں صرف اس وجہ سے ہورہى ہے كہ'ملكہ حسن' ان كى امامت كررہى ہے اور تمام مقتدى اللہ كے حضور ميں اللہ كى رضا كے حصول كے لئے نہيں بلكہ اپنى ديدہ زيب 'امامہ صاحبہ' كى دل فريب مسكراہٹ اور مترنم 'السلام عليكم ورحمتہ اللہ' سننے كے لئے بے تاب كهڑے ہيں- نماز سے فراغت كے بعد امامہ صا حبہ كوپانے كے لئے ہاتھ بارگاہ الٰہى ميں اُٹهے ہوئے ہيں كچھ بیٹھے اپنى امامہ صاحبہ پر دلچسپ پھبتیاں كس رہے ہيں، امامت كا تقدس مجروح ہورہا ہے، 'نماز' كيا؟ خواتين كے مشاعرہ سے بهى بدتر ماحول ہے جس ميں كسى كے سلام كى داد دى جارہى ہے تو كسى كے اندازِ نماز كى۔

اور پهر يہ تصوير بهى ملاحظہ كیجئے، فجر ميں امامہ صا حبہ نے خوش الحانى كے ساتھ تلاوت فرمائى معلوم ہوا كہ ظہر سے چھ دنوں كے لئے سلسلہ بند- ہر مہینے چھ دن كى نمازوں ميں مقتدى بغير امامہ صا حبہ كے نماز ادا كررہے ہيں، سال دو سال ميں معلوم ہوا كہ يہ سلسلہ چاليس دن تك كے لئے منقطع ہوگيا، چاليس دن بعد امامہ صا حبہ تشريف لائيں تو گود ميں ايك خوبصورت منے مياں ہم ہما رہے ہيں۔ امامہ صا حبہ نے فجر كى نيت باندهى، ابهى الحمدللہ شروع ہى كى تهى كہ بچے نے رونا شروع كرديا، كسى نہ كسى طرح الحمد پورى كى تو بچے نے سپيڈ پكڑى، امامہ صاحبہ نے عم يتساء لونكى جگہ قل ہو اللہ سے كام چلا كر اُٹھك بیٹھك كرائى اور سلام پهيرتے ہى بچے كو سينے سے لپٹا كر اس كے پيٹ بهرنے كا انتظام كيا- مقتدى سبحان الله، الحمدلله، الله اكبر ، نہ جانے امامہ صا حبہ كے اس عمل پر پڑھ رہے يا فجر كے بعد كے معمول كے مطابق پڑهى جانے والى تسبیح كا ورد كررہے ہيں، كيا اس طريقہ كى نماز ميں كسى تقدس كا ادنىٰ بهى امكان ہوسكتا ہے؟

شريعت ِاسلاميہ نے عورتوں كى جسمانى و روحانى نزاكتوں كے پيش نظر اُنہيں نماز جيسى اہم عبادت جماعت كے ساتھ پڑهنا لازمى قرار نہيں ديا، نہ ہى ان پر جمعہ كى نماز فرض كى گئى ہے نہ جانے كيوں چودہ سو سال بعد پروفيسر امینہ ودود اور اسرىٰ نعمانى جيسى خواتين كے دماغ ميں يہ سودا سمايا كہ وہ جمعہ كى نماز نہ صرف پڑھیں بلكہ پڑهائيں بهى اور وه بهى صرف عورتوں كو ہى نہيں بلكہ مردوں كو بهى، يہ لازمى بات ہے كہ يہ 'سودا' سمايا نہيں بلكہ سموايا گيا ہے- كيا مساوات كے اظہار كا يہى طریقہ ہے كہ باجماعت نماز كى امامت كرلى جائے؟ 9


حوالہ جات
1. 30/مارچ تا 6/اپريل2005ء
2. كالم 'نيا فتنہ'، روزنامہ انصاف: 5/ اپريل
3. تعمير افكار: مئى 2005ء، ص 39
4. My-Muslim.com كوالا لمپور، ملائشيا،2001ء
5. امينہ سے انٹرويو، مارچ 2002ء
6. المجتمع: 2/اپريل 2005ء
7. روزنامہ نوائے وقت:كالم 'فتنہ' 2/اپريل 2005ء
8. دیكھیں' روشن خيالى كے امريكى سرچشمے': 'محدث' جنورى 2005ء
9. ماہنامہ 'فيصل' دہلى: مئى ،ص10،11