عورت كى امامت احاديث كى روشنى ميں

زير بحث مسئلہ يہ ہے كہ كيا عورت كا مردوں اور عورتوں كو اكٹھے امامت كروانا درست ہے؟ كيا عورت صرف عورتوں كو امامت كروا سكتى ہے يا مردوں كو بهى اس كا امامت كروانا ثابت ہے؟
الجواب بعون الوہاب: عورت كا مردوں اور عورتو ں كو اكٹھے امامت كروانا ثابت نہيں ہے اور نہ ہى اكيلے مردوں كو امامت كروانا ثابت ہے- اب رہا يہ مسئلہ كہ كيا عورت صرف عورتوں كى امامت كرواسكتى ہے؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ اور ديگر صحابيات سے اس كا جواز ثابت ہے،ليكن شرط يہ ہے كہ وہ عورتوں كى صف كى درميان ميں كهڑى ہوكر ہى امامت كروائے- عورت كى امامت كے بارے ميں اس كے علاوہ اور كچھ بهى ثابت نہيں ہے-

ذيل ميں ہم ان دلائل كاتذكرہ كريں گے جن سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ عورت مردوں كى امام نہيں بن سكتى اور وہ صرف عورتوں كو ان كے درميان ميں كهڑے ہوكر امامت كروا سكتى ہے-

(1) حضرت ابوہريرہ سے روايت ہے كہ رسول الله ﷺ نے فرمايا :
(خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها) 1
"مردوں كى بہترين صف پہلى ہے اور برى صف آخرى ہے، جبكہ عورتوں كى بہترين صف آخرى ہے اور برى صف پہلى ہے-" یعنى مردوں كے قريب ترين

قابل استدلال پہلو يہ ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں كى پہلى صف كو بدترين قرار ديا ہے تو جب وہ مردوں سے آگے بڑھ كر ان كى امامت كروائے گى تو ظاہر ہے كہ شر اور قباحت مزيد بڑھ جائے گى- اس پر يہ اعتراض قطعاً درست نہيں ہے كہ يہ واقعہ صرف دور ِ رسالت كے ساتھ خاص ہے،كيونكہ شریعت ِمحمديہ عالمگیر اور دائمى ہے، اس كى تخصیص دورِ رسالت سے ہونے كى كوئى دلیل نہيں ہے-

(2) حضرت انس بن مالك سے روايت ہے كہ
ان كى دادى مُليكہ نے رسول اللہ ﷺ كو كهانے پر بلايا جو اس نے آپ ﷺ كے لئے تيار كيا تها- (آپ تشريف لائے) كهانا تناول كيا اور اس كے بعد فرمايا: (قوموا فأصلي بكم) "اُٹهو، ميں تمہیں نماز پڑهاوٴں-"حضرت انس كا بيان ہے ميں نے ايك چٹائى پكڑى جو پرانى ہونے كى وجہ سے سياہ ہوچكى تهى- ميں نے اسے پانى سے صاف كيا- نبى كريم اس پر كهڑے ہوگئے-ميں نے اور ايك یتیم بچے نے آپ كے پیچھے صف بنائى اور بوڑهى (دادى) ہمارے پیچھے كهڑى ہوئى- اس كے بعد رسول نے دو ركعات پڑهائيں اور سلام پهير ديا-"2

اس حديث ميں رسول الله ﷺ نے امت كے سامنے امامت كا صحيح طريقہ عملى شكل ميں پيش كرديا ہے كہ عورتيں نماز ميں مردوں كے پیچھے كهڑى ہوں گى-اس كے برعكس اگر عورت مردوں كى امام بن جائے اور مرد اس كے پیچھے كهڑے ہوں تو ايسى نماز كو فقہا نے فاسد قرار ديا ہے- لہٰذا عورت كا مردوں كو امامت كروانا درست نہيں ہے- 3

(3) حضرت ابوبكرہ  سے مروى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
( لن يفلح قوم ولَّوا أمرهم امرأة)4
"وہ قوم كاميابى و فلاح كا منہ نہيں ديكھ سكتى جس نے عورت كو اپنے اُمور كا سربراہ بناليا-"

وجہ ِاستدلال يہ ہے كہ جب ديگر معاملات ميں عورت كى سربراہى اور امامت كسى قوم كى ذلت اور ناكامى كا پيش خیمہ ہے تو نمازسے كوئى امر بڑھ كر نہيں ہوسكتا، اس ميں عورت كوامام بنانا كيا ہمارى تباہى كا پيش خيمہ نہيں بنے گا؟عورت كو امام بنانا گويا اس بات كا واضح ثبوت فراہم كرنا ہے كہ اُمت ِ محمديہ اب اس حد تك گرچكى ہے كہ مرد جن كو اللہ نے قواميت وامامت كا منصب سونپا تها، ان ميں اب كوئى بهى امامت كا اہل نہيں رہا- (السيل الجرار 1/250)

(4) ابوسعيد خدرى سے مروى ايك طويل حديث ميں ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:
"ميں نے عقل ودين ميں ناقص ان عورتوں سے بڑھ كر كسى اور كو نہيں ديكهاجو دانا آدمى كى مت مارديتى ہوں-" عورتوں نے پوچها: اے اللہ كے رسول! ہمارے دين اور عقل ميں كيا خرابى ہے؟تو رسول اللہﷺنے فرمايا: مردوں كے مقابلے ميں تمہارى گواہى كا آدها ہونا تمہارے نقص عقل كى دليل ہے اور حالت ِماہوارى ميں تمہارا نماز اور روزہ سے دستكش ہوجانا تمہارے نقص دين كى دليل ہے- "5

جب عورت عام معاملات ميں بهى مرد كى ہم سرى كا دعوىٰ نہيں كرسكتى تو امامت ِنماز جو نہايت اعلىٰ اور ارفع منصب ہے، مرد كى جگہ ميں عورت كو اس منصب پر فائز كرنا اور ناقص كو كامل كا امام بنانا بهلا كيسے درست ہوسكتا ہے؟6

(4) اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
ٱلرِّ‌جَالُ قَوَّ‌ٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ...﴿٣٤﴾...سورۃ النساء "مرد عورتوں پر قوام ہيں-"
اس آيت سے معلوم ہوا كہ ولايت اور امامت كا منصب اللہ نے مردوں كو سونپا ہے، عورتوں پر اس كا بار نہيں ڈالا تو نماز كى امامت بهى اسى امامت ِكبرىٰ كى ايك قسم ہے، لہٰذا عورت مرد كى امام نہيں بن سكتى جو كہ اس كا قوام و نگہبان ہے-

قرونِ ثلاثہ ميں جنہيں رسول اللہ ﷺ نے بہترين ادوار قرار ديا ہے، كہيں بهى يہ ذكر موجود نہيں كہ عورتوں نے كبهى مردوں كى امامت كروائى ہو، اگر كبهى كوئى ايسا واقعہ پيش آتا تو تاريخ كبهى اسے نظر انداز نہ كرتى - لہٰذا تاريخ ميں كسى ايسے واقعہ كا نقل نہ ہونا اس حقيقت كى واضح دليل ہے كہ شريعت نے عورت كو مردوں كى امامت سے گراں بار نہيں كيا-7

امامت اگر منصب ِ عظيم ہے تو اس كى ذمہ دارى اور تقاضے بهى اسى قدر بڑے ہيں تو پهر يہ كہاں كا انصاف ہے كہ جس ذمہ دارى سے اللہ نے عورت كو معاف ركها ہے، اس پر خواہ مخواہ اس عظيم ذمہ دارى كا بار ڈال ديا جائے؟ايسے ہى اللہ تعالىٰ نے عورتوں كو باجماعت نماز كا سرے سے پابند ہى نہيں كيا، نہ ہى مردوں كى طرح اُن كا مسجد ميں جاكر نماز پڑهنا فرض ہے-

حديث اُمّ ورقہ كى اسانيد اور ان پر حكم
يہاں اگر يہ اعتراض كيا جائے كہ اُمّ ورقہ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے گهر ميں موٴذن مقرر كرنے كى استدعا كى تهى جو ان كے گهر ميں اذان ديتا تها اور رسول اللہ ﷺ نے اُم ورقہ كو اجازت دے ركهى تهى كہ وہ اپنے گهر والوں كى امامت كروائے-اس حديث كے راوى عبدالرحمن بن خلاد كہتے ہيں كہ ميں نے اُم ورقہ كے موٴذن كو ديكها ، وہ انتہائى ضعيف العمر آدمى تها- تو لفظ اہل الدار سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے گهر كے مردوزَن اور غلام سب كو امامت كرواتى تهى لہٰذا عورت كى امامت جس طرح عورتوں كے لئے جائز ہے، مردوں كے لئے بهى جائز ہے- يہى وجہ ہے كہ امام ابوثور، مزنى، طبرى كا بهى يہى موقف ہے- 8

جواب:يہ اعتراض دراصل اس مذكورہ روايت كى حقيقت كو نہ سمجهنے كا نتيجہ ہے- لہٰذا چند اُمور كى وضاحت ضرورى معلوم ہوتى ہے:
(1) سب سے پہلے اس حديث كے تمام طرق كو ذكر كرتے ہوئے ان كے رواة كے احوال كو واضح كيا جائے گا كہ سند كے لحاظ سے يہ حديث كس پايہ كى ہے-
(2) يہ واضح كيا جائے گاكہ اسلاف ِاُمت نے اس حديث سے كيا سمجها ہے، قطع نظر اس كے كہ لغت ميں لفظ 'دار'كس معنى ميں استعمال ہوتا ہے-
(3) آخر ميں يہ واضح كيا جائے گاكہ مذكورہ ائمہ كى طرف عورت كى امامت كے جواز كى نسبت ميں كس حد تك صداقت ہے اور اس نسبت كى حقيقت كيا ہے؟

اُميد ہے ان امور كى وضاحت سے اصل حقيقت مبرہن ہوجائے گى-

جہاں تك اس حديث كے مختلف طرق كا تعلق ہے تو واضح ہو كہ اس حديث كو امام ابوداود نے كتاب الصلوة (رقم:577)، امام حاكم نے مستدرك( 1/203)،امام احمد نے اپنى مسند(6/405)، امام دارقطنى نے اپنى سنن (1/403) امام بيہقى نے السنن الكبرىٰ (3/130) اور ابن خزيمہ نے اپنى صحيح(3/89) ميں روايت كيا ہے-

اب ان طرق كى اسانيد ملاحظہ ہوں:
امام ابوداود باب إمامة النساء كے تحت بيان كرتے ہيں:
حدثنا عثمان بن أبي شيبة،حدثنا وكيع بن الجراح حدثنا الوليد بن عبد الله بن جميع حدثتني جدتي وعبدالرحمن بن خلاد الأنصاري عن أم ورقة بنت نوفل

امام حاكم مستدرك ميں فرماتے ہيں:
أخبرنا أبوعبدالله محمد بن عبدالصفار حدثنا أحمد بن يونس الضبي حدثنا عبدالله بن داود الخريبي، حدثنا الوليد بن جميع عن ليلىٰ بنت مالك وعبدالرحمٰن بن خالد الأنصاري عن اُم ورقة الأنصارية: أن رسول الله ﷺ ...

اس روايت كو ذكر كرنے كے بعد امام حاكم نے لكها ہے كہ
وهذه سنة غريبة لا أعرف في الباب حديثًا مسندًا غير هذا وقد روينا عن عائشة أنها كانت تؤذن و تقيم وتؤم النساء
"يہ غير مانوس سنت ہے ، ميں اس باب ميں اس كے علاوہ كسى مسند حديث كو نہيں جانتا -اور حضرت عائشہ  كے بارے ميں ہم نے روايت كيا ہے كہ وہ اذان اور اقامت كہتى اور عورتوں كو امامت كرواتى تهيں -"

اس كے بعد اپنى سند سے حضرت عائشہ كے بارے ميں روايت كيا ہے:
أنها كانت تؤم النساء وتقوم و سطهن
" وہ عورتوں كى امامت كرواتى تهيں اور ان كے درميان ميں كهڑى ہوتى تهيں- "

امام احمد مسند ميں اپنى سند سے بيان كرتے ہيں :
عن الوليد بن عبدالله بن جُميع قال حدثني عبدالرحمٰن بن خلاد الأنصاري وجدتي عن اُم ورقة


امام احمد نے اسے ايك دوسرى جگہ پر درج ذيل طريق سے بيان كيا ہے :
قال حدثنا أبونعيم حدثنا الوليد حدثتني جدتي عن اُم ورقة


امام دار قطنى  اپنى سند سے بيان كرتے ہيں :
حدثنا أبو أحمد الزبيري حدثنا الوليد بن جميع حدثتني جدتي عن اُم ورقة

امام بيہقى اپنى سند كے ساتھ بيان كرتے ہيں :
عن الوليد بن جميع قال حدثتني جدتي وعبدالرحمٰن بن خلاد الأنصارى عن اُم ورقة بنت عبدالله

ابن خزيمہ نے بهى اسى سند سے اس حديث كو ذكر كيا ہے-

ان تمام اسانيد كے تناظر ميں ديكهتے ہوئے يہ بات واضح ہوتى ہے كہ اس حديث كا مركزى راوى الوليد بن جميع ہے جو اپنى دادى سے روايت كرتا ہے جس كى متابعت عبدالرحمن بن خلاد الانصارى نے بهى كى ہے- زير نظر سطور ميں ہم الوليد كے حالات بيان كرتے ہيں:
الوليد بن عبداللہ بن جميع كے متعلق امام احمداور ابوداود كہتے ہيں:لابأس به ابن معين اور امام عجلى نے انہيں ثقہ قرار ديا ہے اور امام زرعہ نے كہا: لابأس به ابوحاتم  نے اسے صالح الحديث كہا ہے-ان كے برعكس عمرو بن على كا بيان ہے كہ
"يحيىٰ بن سعيد القطان ہميں اس سے حديث بيان نہيں كرتے تهے- "

علامہ ابن حجرالتہذيب (11/122) ميں مذكورہ تمام اقوال كو ذكر كرنے كے بعد فرماتے ہيں:
" ابن حبان نے اسے ضعفا ميں ذكر كيا ہے اور كہا ہے كہ ابن جميع ثقات سے بعض ايسى چيزيں بيان كرنے ميں منفرد ہے جو ثقات كى بات سے مو افق نہيں ہوتيں اور اس سے بكثرت يہ امر سرزد ہوا ہے ، لہٰذا اس كى حديث سے استدلال كرنا باطل ہے- "

ميرے خيال ميں اسى ليے امام حاكم  نے اپنى مستدرك ميں اس حديث كو ذكر كرنے كے بعد يہ تبصرہ كيا ہے : هذه سنة غريبة لا أعرف في الباب حديثا مسندًا غير هذا "يہ اس باب ميں ايك غير مانوس سنت ہے،ميں اس حديث كے علاوہ كسى مسند حديث كو نہيں جانتا-"

امام عقيلى نے كہا: "اسكى حديث ميں اضطراب ہے-"امام بزار نے اس كے متعلق كہا ہے كہ" علمانے اس سے حديث لى ہے ، البتہ اس ميں شیعیت پائى جاتى ہے-"امام حاكم نے كہا: "اگر امام مسلم  ان سے روايت نہ ليتے تو زيادہ بہتر ہوتا-" ابن حجر نے التقريب(رقم: 7482) ميں اس اختلاف كا خلاصہ ان الفاظ ميں ذكر كيا ہے:صدوق يهِمُ رُمي بالتشيع
"يہ صدوق وہمى ہے، البتہ اس پرشيعيت كا الزام ہے -"

يہ توثیق كا پانچواں درجہ ہے اور ابن صلاح نے اس كے حكم كے بارے ميں اپنى كتاب علوم الحديث ص110 ميں ابن ابى حاتم  كے حوالہ سے لكها ہے كہ
إذا قيل إنه صدوق أومحلُّه الصدق أولابأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه
"جب كسى كے بارے ميں يہ كہا جائے كہ وہ 'صدوق' ہے يا 'صدق كے 'قائم مقام 'ہے يا اس كے بارے ميں 'لابأس به' كہا جائے تو ايسے راو ى كى حديث لكهى جائے گى، البتہ اس كے بارے ميں تحقيق كى جائے گى-"

جب يہاں ساتھ وہم كا ا ضافہ بهى ہے جو مزيد كمزورى كى طرف اشارہ ہے- ابن صلاح ان كے قول كى تائيد كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
قلت: هذا كما قال،لأن العبارة لا تشعر بشريطة الضبط فينظر في حديثه ويختبر حتى يعرف ضبطه
" ابن ابى حاتم كى بات بجا ہے كيونكہ ايسى عبارت راوى ميں ضبط كى شرط كے وجود پر دلالت نہيں كرتى لہٰذا اس كى حديث ميں غور كيا جائے گا اور اس كا جائزہ ليا جائے گا تاوقتيكہ اس كے ضبط كا علم ہوجائے-"

اسى مفہوم كو ڈاكٹر محمود طحان نے ان الفاظ ميں بيان كيا ہے :
أما المراتب الثلاث الأولى فيحتج بأهلها وأما المرتبتان الرابعة والخامسة فلا يحتج بأهلها ولكن يكتب حديثهم ويختبر ضبطهم بعرض حديثهم على أحاديث الثقات المتقنين فإن وافقهم احتج بحديثهم وإلا فلا وبناء على هذا فإن من قيل فيه صدوق فإنه لا يحتج بحديثه قبل الاختبار وقد وهم من قال إن من قيل فيه صدوق فحديثه حسن لأن الحديث الحسن من نوع المحتج به وعلى هذا أئمة الجرح والتعديل وحفاظ الحديث 9
"پہلے تين مراتب كے حاملين كى حديث قابل استدلال ہے، البتہ چوتهے اور پانچويں مرتبے كے راويوں كى حديث قابل استدلال نہيں البتہ ان كى حديث لكهى جائے گى اور اس كے بعداسے پختہ كار ثقہ رواةكى احاديث پر پيش كركے پركہا جائے گا- اگر وہ ان كے ساتھ موافق ہو تو قابل استدلال و گرنہ نہيں- اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ جس راوى كو محدثين نے صدوق قرار ديا ہو،اس كى حديث تحقيق اور پركھ كے بغير قابل استدلال نہيں ہے، لہٰذا جس نے صدوق كى حديث كو حسن قرار ديا ہے، اسے وہم ہوا ہے كيونكہ حسن حديث قابل حجت ہے- ائمہ جرح و تعديل اور حفاظ حديث كا يہى موقف ہے-"

محدثين كے اس اُصول كے پيش نظر ہم يہ بات بلا خوفِ ترديدكہہ سكتے ہيں كہ جس نے بهى اس حديث كو حسن كہا ہے، اُس نے محدثين كے اس اصول سے انحراف كيا ہے اور واقعہ يہ ہے كہ يہ حديث ضعيف ہے- مزيد معلومات كے ليے ملاحظہ ہو: مقدمة الجرح والتعديل از ابن ابى حاتم اور علوم الحديث از ابن صلاح (ص110) والتقريب مع التدريب (1/343) اور فتح المُغيث(1/368) وغيرہ

اگر اس پر يہ اعتراض كيا جائے كہ آپ نے جو اس حديث كو ضعيف قرار ديا ہے ،كيا اس سے قبل بهى علمانے اس حديث پر ضعف كا حكم لگايا ہے يا محض قواعد كو سامنے ركھ كر آپ نے اس حديث كو ضعيف كہہ ديا ہے ؟

تو ہمارا جواب يہ ہے كہ اگرچہ اس حديث كو متعدد ائمہ نے حسن قرار ديا ہے ،ليكن كئى علما نے اس كو ضعيف بهى كہا ہے-چنانچہ مسند احمد پر الموسوعة الحديثية كے نام سے تحقيق كرنے والے علما نے مذكورہ سند كى بنياد پراس حديث كو ضعيف قرار ديا ہے- 10

لہٰذا ہم اس حديث كو ضعيف قرار دينے ميں منفرد نہيں ہيں-
اور ميں اس سے قبل يہ وضاحت كرچكا ہوں كہ جن حضرات نے اس حديث كو حسن كہا ہے، اُنہوں نے دراصل اس اصولى قاعدہ سے چشم پوشى كى ہے كہ صدوق راوى كى روايت كو تحقيق و پركھ سے قبل 'حسن' قرار نہيں ديا جاسكتا-
اب ہم جائزہ ليتے ہيں اس حديث كے دوسرے راوى عبدالرحمن بن خلاد الانصارى كا جنہوں نے اس حديث ميں عبداللہ بن جميع كى دادى كى متابعت كى ہے-
ابن قطان نے اس كو الوهم والإيهام (5/23) ميں مجهول الحال قرار ديا ہے- يہى بات ابن حجر نے بهى التهذيب ميں ابن قطان سے نقل كى ہے - مسندامام احمد كے محققين نے اس كو اسى بنا پر ضعيف قرار ديا ہے-
نيز عبداللہ بن جمیع كى دادى، جس كى متابعت كى گئى ہے، اس كا نام مستدرك حاكم كى صراحت كے مطابق لیلىٰ بنت مالك ہے- 11
اس كو بهى ابن قطان نے الوهم والإيهام (5/23 )ميں مجهول الحال قرار ديا ہے- علاوہ ازيں ابن حجر التقريب( رقم 8909) ميں وليد بن عبدالله عن جدته عن أم ورقةكے ترجمہ ميں لكھتے ہيں: "اسكى جدہ سے مراد ليلىٰ بنت مالك ہے جو غير معروف ہے-"
علما كى ان تصريحات سے يہ ثابت ہوا كہ ليلىٰ بنت مالك بهى مجہولہ ہے-چنانچہ ايسى روايت جس كے تمام طرق ميں كلام ہو اور ہر طرق ميں متعدد رواة مجہول الحال ہوں، كو بعض حضرات كا حسن قرار دينا ناقابل فہم اور قابل افسوس امرہے- ايسى محتمل روايت سے اُمت ميں فتنہ كى راہ ہموار ہوتى ہے-

اس روايت كے ضعيف ہونے كى ايك اور علت ؛ طرق ميں اضطراب
ابن حجر التهذيب ميں اس حديث كى راويہ امّ ورقہ  جنہيں رسول اللہ ﷺ نے امامت كى اجازت دى تهى، كے ترجمہ ميں فرماتے ہيں:
"اس حديث كو الوليد بن عبدالله بن جميع نے اپنى دادى سے روايت كيا ہے اور بعض نے دادى كى جگہ پر ان كى ماں كا ذكر كيا ہے- اور يہ بهى كہا گيا ہے كہ وليد عن جدته ليلىٰ بنت مالك عن أبيها عن أم ورقة-(گويا يہاں ليلىٰ بنت مالك اور اُمّ ورقہ كے درميان ليلىٰ كے باپ كا واسطہ بهى ہے) اور يہ بهى كہا گيا كہ وليد نے اپنے دادا سے اور اُنہوں نے اُمّ ورقہ سے روايت كيا، گويا يہاں دادى كى بجائے دادا ہے اور ان كے درميان اور كوئى واسطہ نہيں ہے- اور بعض نے يہ سند اس طرح ذكر كى ہے كہ:وليد عن عبدالرحمٰن بن خلاد عن أم ورقة اور بعض كے نزديك سند يوں ہے : عن عبدالرحمٰن بن خلاد عن أبيه عن أم ورقة قالت :استاذنت رسول الله ﷺ (يعنى اس ميں سند كے اختلاف كے علاوہ يہ ذكر ہے كہ ام ورقہ نے خود رسول ﷺ سے امامت كى اجازت طلب كى تهى)

طرق كا اس قدر اختلاف اس حديث ميں ضعف كى ايك شديد علت كى واضح نشاندہى كررہا ہے اور وہ ہے اضطراب جو وليد بن جميع كى طرف سے واقع ہوا ہے اور مضطرب روايت بالاتفاق ضعيف، قابل ردّ اور ناقابل استدلال ہے-

مسنداحمد كے محققين اس حديث كى دونوں سندوں كو ذكر كرنے كے بعد لكهتے ہيں :
"اس كى سند عبدالرحمن بن خلاد اور وليد بن عبداللہ بن جميع كى دادى كے مجہول ہونے كى وجہ سے ضعيف ہے، جيسا كہ ابن قطان نے وضاحت كى ہے اور الوليد كى دادى كا نام ليلىٰ بنت مالك ہے، نيزاس حديث ميں وليد بن عبداللہ بن جميع اضطراب كا شكار ہوا ہے-"

چنانچہ ابونعيم الفضل بن دكين نے اس كو روايت كيا، جيسا كہ مسنداحمد كى مذكورہ روايت ميں ہے جس كو ابن سعد نے طبقات (8/457) ميں، طبرانى نے المعجم الكبير (25/326)ميں، امام بيہقى نے السنن (3/130) اور الدلائل (6/381) ميں ذكر كيا -نيز وكيع بن جراح نے اس كو روايت كيا جس كوابن ابى شيبہنے المصنف(12/527) ميں اور ابوداود نے السنن( رقم 591) ميں اور ابن ابى عاصم نے الآحاد ( 3366) ميں اور ابن الاثير نے اُسد الغابہ ميں اُم ورقہ كے ترجمہ ميں نقل كيا ہے- اس كے علاوہ محمد بن فضيل نے اس كو روايت كيا ، جسے ابوداود نے رقم الحديث:592 ميں نقل كيا -علاوہ ازيں اشعث بن عطاف نے اسے روايت كيا جسے دارقطنى نے العلل (5/225) ميں نقل كيا- ان تمام نے اس روايت كو الوليد بن عبداللہ بن جميع كے طريق سے مذكورہ سند كے ساتھ ہى روايت كياہے-

ليكن صحيح ابن خزيمہ ميں اس روايت كو عبداللہ بن داوٴد الخريبى نے الوليد بن عبداللہ بن جميع عن ليلىٰ بنت مالك عن أبيها كے طريق سے روايت كيا ہے اور عبدالعزيز بن ابان نے اسے الوليد عن عبدالرحمٰن بن خلاد عن أبيه عن أم ورقة كے طريق سے روايت كيا ہے -اسى طرح تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف (13/110) ميں انہوں نے عبدالرحمن بن خلاد عن أبيه عن أم ورقة كے طريق سے نقل كيا ہے- نيز واضح ہوكہ عبدالعزيز بن ابان متروك ہے-امام دارقطنى نے السنن (1/403 ) ميں اور امام بيہقى نے معرفة السنن والآثار (4/230) ميں اس روايت كو الزبيري عن الوليد بن جميع عن جدته عن أم ورقة كے طريق سے نقل كيا ہے-

ان تمام اسانيد كا دارومدار الوليد بن جميع اور اس كى دادى پر ہے جو اس حديث كے مركزى راوى ہيں جن كے حالات سے آپ آگاہ ہوچكے ہيں- اسى وجہ سے مسنداحمد كى تحقيق (45/255) ميں ان الفاظ كے ساتھ اس حديث پر ضعف كا حكم لگايا گيا ہے :
إسناده ضعيف لجهالة جدة الوليد
"اس كى سند الوليد كى دادى كے مجہول ہونے كى وجہ سے ضعيف ہے-"

ميں كہتا ہوں كہ اس حديث ميں شديد اضطراب موجودہے جس كى بنا پريہ ناقابل حجت ہے-
كياعورتوں كى امامت كے بارے ميں كوئى صحيح حديث ہے؟
اب سوال يہ ہے كہ آيا عورتوں كى امامت كے بارے ميں كوئى صحيح روايت كتب ِاحاديث ميں موجود ہے؟
اس كا جواب يہ ہے كہ كتب ِاحاديث ميں حضرت عائشہ صديقہ اور اُم سلمہ كے متعلق مروى ہے كہ وہ عورتوں كى امامت كروايا كرتى تهيں-

(1) ابوحازم ريطة الحنفية سے روايت كرتے ہيں كہ
"حضرت عائشہ صديقہ فرض نماز ميں عورتوں كے درميان كهڑى ہوكر امامت كرواتى تهيں- "12

امام نووى نے المجموع (4/199) ميں اس حديث كى سند كوصحيح قرار ديا ہے اور امام زيلعى نے نصب الراية (2/31) ميں ان كى تائيد كى ہے اور امام البانى نے ان كى اس صحت كو اپنى كتاب تمام المنة ص (153،154)ميں نقل كيا ہے -

(2) ابن ابى شيبہ (2/89) نے ابن ابى ليلىٰ كے طريق سے اور امام حاكم (1/203) نے ليث بن ابى سليم عن عطا كے طريق سے بيان كيا ہے كہ
"حضرت عائشہ عورتوں كو امامت كرواتيں اور صف ميں ان كے درميان كهڑى ہوتيں-"

(3) عمار د ہنى اپنے قبيلہ كى حجيرة نامى ايك عورت كے حوالے سے بيان كرتے ہيں كہ
" اُمّ سلمہ ان كو امامت كرواتيں اور ان كے درميان ميں كهڑى ہوتيں-" 13

اور مصنف عبدالرزاق كے الفاظ ہيں كہ
أمتنا اُمّ سلمة في صلاة العصر فقامت بيننا 14
" اُمّ سلمہ نے ہميں نمازِ عصر كى امامت كروائى اور ہمارے درميان ميں كهڑى ہوئيں-"

امام البانى نے اس كى سند كو صحيح كہا ہے- 15

(4) محمد بن الحصين نے ابراہيم نخعى كے حوالہ سے بيان كيا ہے كہ
"حضرت عائشہ صديقہ ماہ رمضان ميں عورتوں كو امامت كرواتيں اور ان كے درميان ميں كهڑى ہوتيں-"16

(5) عكرمہ سے مروى ہے كہ ابن عباس  نے فرمايا:
توٴم المرء ة النساء تقوم في وسطهن 17
"عورت عورتوں كو امامت كرواتے ہوئے ان كے درميان ميں كهڑى ہوگى-"

ان روايات سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ عورت صرف عورتوں كو امامت كروا سكتى ہے اور وہ بهى ان كے درميان ميں كهڑى ہوكر ،يہى ازواجِ مطہرات كا عمل تها اور يہى حبرالامة حضرت عبداللہ بن عباس كا فتوىٰ ہے-

عورت كى امامت كے سلسلہ ميں فقہا كا نقطہ نظر
اب ہم جائزہ ليتے ہيں كہ عورت كى امامت كے سلسلہ ميں فقہا كا نقطہ نظر كيا ہے؟

امام ابن قدامہ  فرماتے ہيں:
"اس بارے ميں اختلاف ہے كہ آيا عورت كا عورتوں كو باجماعت نما زپڑهانا مستحب ہے يا نہيں- ايك قول يہ ہے كہ مستحب ہے، يہ قول حضرت عائشہ، امّ سلمہ، عطا ، سفيان ثو رى، اوزاعى، امام شافعى، اسحاق اور ابوثو ر رحمہم اللہ سے مروى ہے- اور امام احمد سے مروى ہے كہ يہ غير مستحب ہے اور اہل الراے كے نزديك يہ مكروہ ہے، ليكن نماز ہوجائے گى-امام شافعى،امام نخعى اور قتادہ كہتے ہيں كہ نفلى نماز ميں جائز ہے، فرض نماز ميں جائز نہيں-"

واقعہ يہ ہے كہ اوّل الذكر قول ہى صحيح اور آثار كے مطابق ہے ، عورت كا عورتوں كى امامت كو مكروہ قرار دينا يا فرض ونفل كا فرق كرنا، اس كى كوئى دليل نہيں ہے-

ابوثور ، مزنى اور امام طبرى كى طرف منسوب قول كى حقيقت
اب ہم جائزہ ليتے ہيں كہ ابوثور، مزنى اور امام طبرى كى طرف منسوب اس قول كہ "عورت عو رتوں كے علاوہ مردوں كى امامت بهى كروا سكتى ہے-"كى حقيقت كيا ہے ؟اور ان ائمہ كى طرف اس قول كى نسبت كس حد تك درست اور ان كى كلام كا صحيح مفہوم كيا ہے ؟

جب ہم فقہا كى اس سلسلہ ميں عبارات كے تناظر ميں غور كرتے ہيں تو واضح ہو تا ہے كہ ان كى طرف اس قول كى نسبت بے محل ہے اور غلط فہمى كا نتيجہ ہے-

امام ابن قدامہ نے اصل حقيقت كو واضح كرديا ہے ، فرماتے ہيں:
أما المرأة فلا يصح أن يأتم بها الرجل بحال في فرض ولانافلة في قول عامة الفقهاء وقال أبوثور: لا إعادة على من صلى خلفها وهو قياس قول المزني
"عام فقہا كا مسلك يہ ہے كہ عورت كسى بهى صورت ميں مردوں كى امامت نہيں كروا سكتى، نہ فرض نماز ميں اور نہ نفل نماز ميں، البتہ ابوثور كا موقف يہ ہے كہ اگر كوئى شخص عورت كے پیچھے نما زپڑھ لے تو اس كے لئے نماز كو لوٹانا ضرورى نہيں ہے- اور مزنى كا بهى يہى نقطہ نظر ہے جوكہ انہوں نے (امام شافعى كے قول پر) قياس كرتے ہوئے اختيار كيا ہے-"

توابوثور اور مزنىكے قول كى حقيقت اس كے سوا كچھ نہيں ہے كہ جو شخص بهول كر يا غلطى سے عورت كے پیچھے نماز پڑھ لے، اسے معلوم نہ ہو كہ امام عورت ہے تو اس كے لئے نماز كو لوٹانا ضرورى نہيں ہے-چنانچہ ابن قدامہ  اس كى وضاحت كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
وقال أبو ثور والمزني: لا إعادة على من صلىّٰ خلفه وهو لا يعلم لأنه ائتم بمن لا يعلم حاله فأشبه ما لو ائتم بمحدث
"ابوثور نے فرمايا ہے كہ جس نے نادانستہ اس( عورت، مشرك يا مخنث مشكل) كى اقتدا ميں نما زپڑھ لى، اس كے لئے نماز كو لوٹانا ضرورى نہيں ہے، كيونكہ اس نے اس كى اقتداكى ہے جس كى حالت كا اسے علم نہيں- تو اس كا حكم بهى اس شخص كى طرح ہے جو بے وضو امام كى اقتدا كرتا ہے -"

ثابت ہوا كہ مزنى كى طرف عورت كے لئے مرد كى امامت كے جواز كا قول منسوب كرناغلط ہے- جس نے ان كى طرف يہ قول منسوب كيا ہے ، اسے دراصل اس قول: إن كل من صحتْ صلاته صحت أمامتُه سے غلط فہمى ہوئى ہے ،حالانكہ يہ ايك عمومى قاعدہ ہے-

جہاں تك ابن جرير كى طرف اس قول كى نسبت كا تعلق ہے تو انہوں نے اپنى كسى كتاب ميں اس كى تصريح نہيں كى،البتہ ابن رشد نے بداية المجتہد ميں ابن جرير اور مزنى كى طرف اس قول كو منسوب كرتے ہوئے اسے شاذ قرار ديا ہے -

نيز يہاں يہ بات بهى پيش نظر رہنى چاہيے كہ طبرى دو اشخاص ہيں، ايك اہل سنت ميں سے ہے اور دوسرا شيعہ ہے-لہٰذا يہ تعين بهى ضرورى ہے كہ يہ ابن جرير طبرى شيعہ ہے يا سنى؟

قرين قياس بات يہى معلوم ہوتى ہے كہ يہ ابن جرير شيعہ ہے، كيونكہ عورت كى امامت شيعہ كے ہاں جائز ہے نيز يہ بات بهى ثابت ہوچكى ہے كہ اس حديث كا مركزى راوى الوليد بن عبداللہ جميع شيعہ ہے تو كوئى بعيد نہيں ہے كہ يہ ابن جرير بهى شيعہ ہو-

ميں عرصہ سے يہ سنتا آرہا تها كہ ابن جرير طبرى وضو ميں پاوٴں پر مسح كا قائل ہے اور اس كا موقف يہ ہے كہ "أرجلِكم ميں لام كے نيچے كسرہ كى قرا ت كى بنا پر آدمى كو اختيار ہے كہ چاہے تو پاوٴں كو دهولے اور چاہے تو ان پر مسح كرلے-"ليكن بعد ميں جب ميں نے تحقيق كى تو واضح ہوا كہ اس سے مراد وہ معروف ابن جرير طبرى نہيں ہے، بلكہ يہ ابن جرير شيعہ ہے جو پاوٴں پر مسح كے جواز كا قائل ہے اور غلط فہمى سے بلا سوچے سمجھے اس قول كو معروف ابن جرير كى طرف منسوب كرديا گيا ہے-

چنانچہ حقيقت يہى معلوم ہوتى ہے كہ عورت كى امامت كے جواز كا قائل ابن جرير شيعہ ہے- بالفرض اگر ان سے يہ قول ثابت ہو بهى جائے تو تب بهى يہ شاذ ، صحيح احاديث اور جمہور اُمت كے خلاف ہونے كى وجہ سے ناقابل التفات ہے-

اور ايسے شاذ اقوال كى تلاش اور جستجو كرنا شريعت كى نظر ميں انتہائى مذموم ہے اور سلف نے ايسے شخص كو شديد تنقيد كا نشانہ بنايا ہے جو علما كے شاذ اقوال اكٹھے كر كے امت ميں فتنہ كا بيج بوتا ہے - امام بيہقى وغيرہ نے اسماعيل القاضى كے حوالہ سے ذكر كيا ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ
"ميں ايك دفعہ معتضد كے پاس حاضر ہوا جو بنو عباس كا ايك فرمانروا گزرا ہے، تو انہوں نے ايك كتاب ميرى طرف بڑهائى- ميں نے ديكها كہ اس ميں علما كى لغزشوں اورتفردات كوبمع ان كے دلائل كے جمع كيا گيا تها- چنانچہ ميں نے كہا كہ اس كتاب كا مصنف كوئى زنديق ہوسكتا ہے- خليفہ نے پوچها: يہ كيوں؟ تو ميں نے جواب ديا: يہ تمام باتيں صحيح نہيں ہيں- جس نے متعہ كے جواز كا فتوىٰ ديا ہے، اس نے نشہ اور غنا كو جائز قرارنہيں ديا- اور پهر كون عالم ہے جس سے كوئى لغزش سرزد نہ ہوئى ہو؟اور جس نے علما كى لغزشوں كوجمع كيا اور پهر انہيں اختيار كرليا اس كا دين چلا گيا- يہ سن كر خليفہ معتضد نے اس كتاب كو جلانے كاحكم دے ديا-" 18

امام احمد نے تو يہاں تك كہا ہے كہ
"جس شخص نے نبيذ كے بارے ميں اہل كوفہ كے قول پر عمل كيا اور سماع كے متعلق اہل مدينہ كے قول پر عمل كيا اور متعہ كے بارے ميں اہل مكہ كے قول پرعمل كيا تو ايسا شخص فاسق ہے- "

بلكہ امام اوزاعى نے تو ايسے شخص كو كافر قرار ديا ہے-اور ابن حزم نے ايسے شخص كو دين اور اللہ كے خوف سے عارى قرار ديا ہے جو اپنى ہوائے نفس كى تسكين كے لئے شاذ اقوال كو تلاش كرتا ہے – 19 نيز ابن عبدالبر، ابن حزم ،امام باجى اور ابن صلاح نے اس طرح رخصتوں اور شاذ اقوال كو تلاش كرنے كى حرمت پر علما كا اجماع نقل كيا ہے-

حقيقت يہ ہے كہ علما سے منسوب رخصتوں اور شاذ اقوال كى اشاعت كرنے والے لوگ روحانى مريض ہيں اور ان كے دل ميں كجى ہے جس كى وجہ سے وہ حق كو باطل كے ساتھ خلط ملط كرتے ہيں اور حق كو چھپاتے ہيں- يہ اپنے تئيں علم كا دعوىٰ كرنے والے دراصل جاہل ہيں اوراعداءِ اسلام كے اشاروں پر ناچ رہے ہيں اور اسلام اور مسلمانوں كے خلاف سازش كررہے ہيں- يہ لوگ يہود و نصارىٰ كے مفادات كو شرعى جواز فراہم كرتے ہيں- كبهى بيت المقدس پر يہود كے ناجائز قبضہ كو جائز قرار ديتے ہيں تو كبهى رقص و سرود كے جواز كا فتوىٰ ديتے ہيں اور كبهى عورت كى مردوں كى امامت پر رطب اللسان ہيں جس كے پیچھے ان كے دراصل مخصوص اہداف ہيں جن كو وہ بروئے كار لاناچاہتے ہيں-اسلام كے خلاف سازشيں كرنے والوں كو ياد ركهنا چاہئے كہ اللہ ضرور انہيں ان مكاريوں كى سزا دے گا-

سلف صالحين كے نزديك حديث اُمّ ورقہ كا مفہوم
اب ہم اس بات كا جائزہ ليتے ہيں كہ سلف صالحين نے اس حديث كا كيا مطلب ليا ہے؟ يہ اس صورت ميں ہے كہ اس حديث كو قابل حجت تسليم كر ليا جائے، وگرنہ اوّلاً تو ہم اس بات كو تسليم نہيں كرتے كہ يہ حديث حسن اور قابل حجت ہے- اور گذشتہ اوراق ميں ہم تفصيل كے ساتھ اس روايت كا ضعيف اور ناقابل حجت ہو نا واضح كرچكے ہيں-

ليكن بالفرض اگر ہم اس حديث كو قابل حجت تسليم كربهى ليں تو بهى اس كا وہ مطلب نہيں ہے جو يہ اشراقى فرقہ مراد لے رہا ہے- اس حديث كا مطلب بجز اس كے كچھ نہيں ہے كہ عورت كى امامت فقط عورتوں كے لئے جائز ہے- اس حديث سے عورت كى مردوں كے لئے امامت كا جواز كشيد كرنا قطعاً غلط ہے-

اس كى تائيد اس بات سے بهى ہوتى ہے كہ جتنے بهى محدثين اور ائمہ نے اس حديث كو ذكر كيا ہے، انہوں نے اس سے عورت كى عورتوں كے لئے امامت پر ہى استدلال كيا ہے اور محدثين نے اس پر جو ابواب قائم كئے ہيں،وہ بهى عورت كى عورتوں كے لئے امامت كے ہى ہيں اور تمام سلف صالحين نے بهى اس سے يہى سمجھاہے، لہٰذا ہميں اللہ كے فرمان:ٱلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ ٱلْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُۥٓ...﴿١٨﴾...كے تحت اسلاف كى اس تشريح پر عمل كرنا چاہئے اور لغوى جھمیلوں، تعميماتِ بعيدہ سے قطع نظر ہوكر اپنى طرف سے كوئى ايسا مطلب كشيد نہيں كرنا چاہئے جو سلف صالحين كى تشريحات سے متصادم ہو- خوارج اور ديگر گمراہ فرقے جنہوں نے اسلام سے انحراف كى راہ اختيار كى، اس كے پیچھے بهى دراصل سلف صالحين كى اتباع سے گريز پائى ہى كارفرما تهى-

صحابہ كرام جو براہ راست چشمہ نبوت سے سيراب ہوئے، پهر ان كے فيض يافتگان تابعين، ائمہ حديث اور ائمہ فقہا جو عربى زبان كى باريكيوں كو ہم سے زيادہ جانتے تهے ،ان ميں سے كسى نے بهى اس حديث كا يہ مفہوم مراد نہيں ليا، جملہ محدثين نے اس حديث كے اوپر إمامة المرأة النساء كا عنوان قائم كيا ہے-

پهر دارقطنى كى روايت ميں خود رسول الله ﷺ سے اس كى تصريح موجود ہے كہ رسول اللہ ﷺ اُم ورقہ كو حكم ديا كہ وہ اپنے گهر كى عورتوں كى امامت كروائے-

حديث كے ان الفاظ كو دارقطنى كے الفاظ قرار دينا امام دارقطنى پر بہتان ہے كہ نعوذ باللہ اُنہو ں نے اپنے الفاظ كو رسول الله ﷺ كے الفاظ ميں شامل كرديا- اور اسلاف كى تصريحات سے بهى اس بہتان كى تائيد نہيں ہوتى- امام ابن حزم فرماتے ہيں :
"عورت كے لئے جائز نہيں ہے كہ وہ عورتوں كى امامت كروائے ،اس كى ممانعت كى دليل اللہ كے رسول ﷺ كا يہ فرمان ہے كہ "عورت مرد كى نماز كو توڑ ديتى ہے- لہٰذا نماز ميں اس كا مردوں كے پیچھے كهڑا ہونا اور امام كا آگے كهڑا ہونا ضرورى ہے- اگر عورت آگے كهڑى ہوگى تو اس سے مرد كى نماز بهى ٹوٹ جائے گى اور عورت كى نماز بهى ٹوٹ جائے گى-اس كے برعكس عورت عورت كى نماز كو نہيں توڑتى-"

آخر ميں، ميں اصحابِ اشراق كو ايك بات كى طرف توجہ دلانا ضرورى سمجھتا ہوں اور برادرانہ نصيحت كرتا ہوں كہ وہ مسائل ميں اسلافِ امت كے خلاف شاذ اقوال كو تلاش كرنے اور اسے اُمت ميں فتنہ كا باعث بنانے سے احتراز كريں اور يہ دين كى كوئى خدمت نہيں ہے جس كو آپ لوگ نيكى سمجھ كر ادا كررہے ہيں- اللہ نے اگر آپ لوگوں كو علم كى دولت سے بہرہ ور كيا ہے تو اسے اعداء اسلام كے خلاف صرف ہونا چاہيے، نہ كہ دشمنوں كى حمايت ميں- اور كسى بهى مسلمان كوشيطان كے ان پيروكاروں كا رويہ اختيار نہيں كرنا چاہئے جس كا ذكر ا للہ نے قرآن ميں كيا ہے:ٱلَّذِينَ حُمِّلُوا۟ ٱلتَّوْرَ‌ىٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ‌ يَحْمِلُ أَسْفَارً‌ۢا...﴿٥﴾... انسان كو يہ بات نظر اندا زنہيں كرنى چاہئے كہ ايك دن الله كے سامنے كهڑے ہونا ہے اور اس دن ، كان، آنكھ اور دل ہر چيز كے بارے ميں باز پرس ہوگى-

ايك حيا باختہ اور اسلام بيزار عورت جو اس فتنہ كى روح رواں ہے ،اس كا دفاع كرنا اور اس كے لئے دلائل مہيا كرنا، اسلام كى كون سى خدمت ہے ؟


حوالہ جات
1. صحيح مسلم: 4/159
2. صحيح بخارى:860 ، صحيح مسلم:5/162
3.الاختيار لتعليل المختار:1/75، بدائع الصنائع: 2/618
4. صحيح بخارى : 7099
5. صحيح بخارى:2004،مسلم:1/86
6. ديكهئے:مغنى المحتاج: 1/240
7.كتاب الأم از شافعي: 1/164، بداية المجتهد : 1/156
8. المغنى: 2/199
9.أصول دراسة الأسانيد: ص 145
10. ديكهئے: مسند احمد، رقم: 27282، 27283
11. 1/203
12. مصنف عبد الرزاق ؛ رقم :5086 ، سنن دار قطنى 1/404 ،سنن بيہقى3/131
13. الام :رقم 315
14. رقم :5082
15. ديكهئے:تمام المنة ص 154
16.الدرايةاز ابن حجر: 1/149
17. مصنف عبدالرزاق ، رقم :5083
18.سير أعلام النبلاء :13/465
19. الموافقات: 4/147