فتنہٴ اِمامت زَن استعمار اور اس كے كارندوں كا كردار

پچهلے دِنوں نيويارك،امريكہ ميں چند مغرب زدہ خواتين و حضرات نے ايك چرچ ميں جمع ہوكر ايك عورت كى امامت ميں نمازپڑهى- ظاہر بات ہے كہ يہ حركت اسلامى تعليمات كے بهى يكسر خلاف تهى اور چودہ سو سالہ مسلمات ِ اسلاميہ سے انحراف بهى- جس پربجا طور پر عالم اسلام ميں اضطراب و تشويش كى لہر دوڑ گئى اور اسے مغربى استعمار كى ايك سازش سمجھا گيا اور اس حركت كا ارتكاب واہتمام كرنے والوں كو ان كا كارندہ قرار ديا گياكيونكہ ہدايت كار (ڈائريكٹر) تو وہى تهے، اور يہ 'نمازيانِ استعمار' تو صرف اداكار تهے-

ليكن ہمارے ملك ميں بهى متعدد گروہ ايسے ہيں جو يہاں بهى وہى كام كررہے ہيں جو اسلام دشمن طاقتوں (مغربى استعمار) كا ايجنڈہ ہے- كچھ تو ان كے ايسے گماشتے ہيں جو بالكل ظاہر ہيں اور وہ اپنے كو چهپاتے بهى نہيں ہيں، كيونكہ ان كو اپنى فرنگيت مآبى پر فخر بهى ہے اور اس كے پرچار كو وہ ملك و قوم كى ترقى كے لئے ناگزير بهى سمجهتے ہيں- كچھ ايسے ہيں جو ان كے تنخواہ دار يا 'ايڈ' يافتہ ايجنٹ ہيں- اُنہوں نے مختلف ناموں سے تعليمى ادارے يا اين جى اوز بنائى ہوئى ہيں اور ان كى آڑ ميں مغرب كے مشن كو يہاں فروغ دے رہے ہيں- اور بدقسمتى سے ايك گروہ ايسا بهى ہے جس نے لبادہ مذہب كا اوڑها ہوا ہے اور علم و تحقيق كا فروغ اس كا دعوىٰ ہے، ليكن كام اس كا بهى وہى جو مذكورہ دو گروہوں كا ہے يا اس كے نتائج 'تحقيق' بهى وہى نكلتے ہيں جو استعمار كو مطلوب ہيں- چنانچہ يہ گروہ ہر ايسے موضوع پر، جواستعمار كى ضرورت ہے اور جس سے وہ اسلامى معاشرے كو اسلامى اقدار و روايات سے بيگانہ كركے مغربى تہذيب واقدار كا والہ و شيدا بنانا يا اس ميں فكرى انتشار پيدا كرنا چاہتا ہے- 'تحقيق' كے نام پر اسے بال وپر مہيا كرتا ہے، اس كے نين نقش سنوارتا ہے اور اس كو 'دلائل' سے آراستہ كركے اس جرعہ تلخ كو شيريں يا اس زہر ہلاہل كو آب ِ حيات بنا كر پيش كرتا ہے-

چنانچہ ديكھ لیجئے! مغربى استعمار اسلامى سزاوٴں كو (نعوذ باللہ) وحشيانہ سمجھتا اور قرار ديتا ہے، تو اس گروہ نے بهى حد ِرجم كا انكار كرديا، جب كہ يہ حد متواتر احاديث سے ثابت ہے اور اُمت ِ مسلمہ كا اس پر اجماع ہے- ليكن يہ گروہ اس كے اسلامى حد ہونے كا انكار كرتا ہے اور اس پر دادِ تحقيق ديتا اور بہ زعم خويش 'دلائل' كا انبار لگاتا ہے- يہ استعمار كى ايك خدمت ہے جو يہ گروہ علم و تحقيق كے نام پراور مذہب كا لبادہ اوڑھ كر سرانجام دے رہا ہے-

ناچ گانا اور موسیقى مغربى تہذيب كى روح اوراس كى غذا ہے- يہ گروہ ان بے حيائيوں كو بهى نہ صرف سند ِ جواز مہيا كررہا ہے ، بلكہ ان كوتاہ آستینوں كى دراز دستى كا يہ عالم ہے كہ اُنہوں نے پيكر ِحيا نبى آخر الزماں رسولِ اكرم ﷺ پر بهى... جنہوں نے اپنے مقاصد ِ بعثت ميں ايك مقصد معازف و مزامير (گانے بجانے كے آلات) كا مٹانا بهى بتايا ہے... مغنّیات كے گانا سننے كا الزام عائد كرديا ہے- (نعوذ بالله ثم نعوذ بالله)

تصوير سازى بهى مغرب كى اخلاق سوز، ايمان شكن اور حيا باختہ تہذيب كا بنيادى ستون ہے- اس گروہ نے بہ زعم خويش اس حرام كو بهى 'ماشاء اللہ چشم بددور' اپنے زورِ قلم اور استدلال كى فن كاريوں سے حلال كردكهايا ہے- ع ايں كار از تو آيد و مرداں چنيں كنند!

انگريزكے خود كاشتہ پودے مرزا غلام احمد قاديانى عليہ ما عليہ كو اپنى جعلى نبوت كے اثبات كے لئے ضرورت تهى كہ حضرت عیسىٰ عليہ السلام كے نزولِ آسمانى كا انكار كيا جائے- اس گروہ 'اشراق'نے بهى مرزا قاديانى كى ہم نوائى كرتے ہوئے اس متواتر عقيدہٴ نزولِ مسيح كا انكار كركے عالمى استعمار كى كهڑى كردہ جعلى نبوت كى عمارت كو سہارا ديا۔

ايك عورت كا مردوزَن كے مخلوط اجتماع ميں، امامت كے فرائض ادا كرنا بهى ايك فتنہ اور اسلام كے صريح احكام سے انحراف كا شاخسانہ ہے-اس گروہ نے اس كى بهى تحسین كى اور مئى 2005ء كے ماہنامہ 'اشراق' لاہور ميں اس انحراف و بغاوت كے جواز كے دلائل بهى مہيا فرما ديے گئے ہيں

نظر لگے نہ كہيں اُس كے دست و بازو كو يہ لوگ كيوں مرے زخم جگر كو ديكهتے ہيں

بہر حال اس گروہ كے اس طرزِ عمل كو استعمار پسندى اور اس كے استعمارى مفادات كى پاسبانى كہہ لیجئے يا ايسا رويہ جسے اس دور ميں صرف اسلام كى تصوير بگاڑنے سے غرض ہے- يہ گروہ ہر اُس بات كى تلاش ميں رہتا ہے جس ميں اسلام سے انحراف ہو يا اسلامى مسلمات كا انكار ہو پهر اس كے جواز ميں ان كا قلم خار اشگافى شروع كرديتا ہے اوردلائل كو توڑ مروڑ كر استدلال كا تانا بانا اس طرح بُنا جاتا ہے كہ حرام كو حلال اور حلال كو حرام باور كرا ديا جاتا ہے- مذكورہ تمام مثالوں ميں اس كے نمونے ديكهے جاسكتے ہيں-

امامت ِ زن كى تحسين، بے مثال انصاف اور دانش و تحقيق كى مثال؟

'اشراق' كے محولہ مضمون سے بهى ہمارى باتوں كى تائيد ہوتى ہے- مثلاً ديكهئے مضمون كا آغاز ہى ان الفاظ سے ہوتا ہے :
"پچهلے دِنوں ايك نيك سيرت اور پڑهى لكهى خاتون نے نيويارك ميں جمعہ كى نماز ميں مردوں اور عورتوں كى امامت كى پاكستانى ميڈيا ميں ايك ہنگامہ بپا ہوگيا..."

ذرا غور فرمائيے، چودہ سو سالہ اسلامى مسلمات سے كھلم كهلا انحراف و بغاوت كرنے والى خاتون، جو انحرافى سوچ كى حامل بهى ہے اور اسلام دشمن طاقتوں كى ايجنٹ بهى (جس كى تفصیل ہفت روزہ 'ندائے ملت' لاہور كے دو شماروں ميں شائع ہوچكى ہے- اس كى ضرورى تلخيص مضمون كے آخر ميں ملاحظہ فرمائيں) وہ تو نيك سيرت ہے اور عہد ِرسالت مآب ﷺ ميں رجم ہونے والے صحابى حضرت ماعز اور صحابيہ حضرت غامديہ اس گروہ كے 'امام' كے نزديك 'نہايت بدخصلت غنڈہ اور پيشہ ور طوائف-' (نعوذ بالله) حالانكہ يہ دونوں اتنے پاكباز اور خوف ِ الٰہى سے لرزاں و ترساں تهے كہ خود بارگاہ رسالت ميں حاضر ہوكر ان دونوں نے اپنے آپ كو دنيوى سزا كے لئے پيش كيا، تاكہ وہ پاك ہوكر اللہ كے پاس جائيں- اور نبى ﷺ نے ان كى پاكيزگى اور صدق توبہ كى گواہى بهى دى- ليكن وہ پهر بهى بدمعاش كے بدمعاش اور پيشہ ور بدكار (نعوذ بالله من هذه الهذيانات) اور ان كى زير بحث 'اِمامن' يا اس تحريك كى سرغنہ ايك ولدالزنا كى ماں ہونے كے باوجود 'نيك سيرت'؟
كيا خوب انصاف ہے منحرفين كے اس گروہ كا اور كيسى عظيم دانش و تحقيق ہے ان كى؟
بے مثال 'انصاف' اور 'تحقيق' كى دوسرى مثال
دوسرى مثال اس گروہ كے عدل و انصاف اور تحقيق كى يہ ہے كہ حد ِ رجم، جومتواتر احاديث سے بهى ثابت ہے اور اجماعِ اُمت سے بهى اور اس 'عملى تواتر اُمت' سے بهى جسے يہ گروہ 'سنت' سے تعبير كرتا ہے، يعنى ان كے اپنے بنائے ہوئے پيمانے اور معيار سے بهى يہ حد ِرجم ثابت ہوتى ہے، ليكن اسے يہ نَكال اور تعزيركے طور پر تو مانتا ہے ، البتہ اسے حد ِ شرعى ماننے كے لئے تيار نہيں ہے- مگر دوسرى طرف ايك ضعيف يا كم از كم ايك مختلف فيہ روايت كو بنياد بنا كر عورتوں كى امامت كے فتنے كو جائز قرار دينے كى مذموم سعى كررہا ہے، علاوہ ازيں اس روايت ميں ايسے كوئى واضح الفاظ بهى نہيں ہيں جن سے يہ معلوم ہو كہ حضرت اُمّ ورقہ كے پیچھے نماز پڑهنے والے مقتدى مرد بهى ہوتے تهے، جيسا كہ آگے ہم ان شاء اللہ وضاحت كريں گے- جبكہ رجم كى روايات اس امر ميں واضح ہيں كہ جن كو بهى رجم كى سزادى گئى، وہ شادى شدہ تهے اور شادى شدہ ہونے كے باوجود ارتكابِ زنا كرنے ہى پر ان كو رجم كى سزا دى گئى تهى، ليكن يہ گروہ اس روزِ روشن سے زيادہ واضح حقيقت كا منكر ہے اور كہتا ہے كہ زنا كى سزا صرف ايك ہى ہے اور وہ سو كوڑے ہيں، زانى كنوارا ہو يا شادى شدہ۔

تيسرى مثال
قرآنِ كريم ميں ہے:
ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا كُلَّ وَ‌ٰحِدٍ مِّنْهُمَا مِا۟ئَةَ جَلْدَةٍ...﴿٢﴾...سورۃ النور
"زانى مرد اور زانى عورت، ہر ايك كو سو سو كوڑے مارو..."

قرآن كا يہ حكم عام ہے جس ميں ہر قسم كے زانى شامل ہيں- ليكن رسول الله ﷺ كے عمل اور فرمان سے قرآن كے اس عموم كى تخصيص ہوگئى اور يہ بات مسلّم ہوگئى كہ قرآن كى بيان كردہ زنا كى سزا اُن زانيوں كے لئے ہے جو كنوارے ہوں ، اور شادى شدہ زانيوں كى سزا رجم ہے جو حديث سے ثابت ہے، پورى اُمت نے حديث ِ رسول سے قرآن كے اس عموم كى تخصیص كو تسليم كيا اور اس پر اُمت كااجماع ہوگيا- ليكن يہ گروہ كہتا ہے كہ يہ تو قرآن كى توہين ہے- قرآن كا عموم، رسول اللہ ﷺ كے عمل يا فرمان سے خاص نہيں ہوسكتا- وہ اس عمل ِرسول اور حديث ِرسولكو نعوذ باللہ قرآن پر زيادتى يا قرآن كا نسخ قرار ديتا اور كہتا ہے كہ يہ اختيار اللہ كے رسول كو بهى حاصل نہيں۔

دوسرى طرف ديكهئے! قرآن عورتوں كى بابت كہتا ہے: وَقَرْ‌نَ فِى بُيُوتِكُنَّ...﴿٣٣﴾...سورۃ الاحزاب "تم اپنے گهروں ميں ٹك كر رہو" یعنى بغير ضرورى حاجت كے گهر سے باہر نہ نكلو- اس سے يہ بات واضح ہوتى ہے كہ عورت كا دائرئہ عمل اُمورِ سياست و جہاں بانى نہيں، معاشى جھمیلے نہيں، امامت و خطابت كے فرائض ادا كرنے نہيں، بلكہ گهر كى چارديوارى كے اندر رہ كر امورِ خانہ دارى سرانجام دينا ہے۔

ليكن يہاں يہ گروہ حضرت اُمّ ورقہ كى حديث سے، جس كى صحت بهى متفق عليہ نہيں، قرآنى حكم كے برعكس عورت كى امامت و خطابت كا اثبات كررہا ہے- رجم كى متواتر اور متفق علیہ روايات كے ماننے سے ان كے نزديك قرآن كى برترى مجروح ہوتى ہے، ليكن ايك مختلف فيہ روايت كى بنياد پر حكم قرآنى سے انحراف سے شايد اس لئے قرآن كى برترى مجروح نہيں ہوتى كہ اس انحراف سے بے توفيق فقيہانِ 'اشراق' يا استعمار كے مقاصد كى آبيارى ہوتى ہے۔

حضرت اُمّ ورقہ كى حديث اور اس سے استدلال كى حقيقت
بہرحال ان چند مثالوں سے مقصود اس 'عدل و انصاف' كى وضاحت اور اس تضاد كى نشاندہى كرنا ہے جس كا مظاہرہ مذكورہ منحرفين كاگروہ كررہا ہے اور اس 'علم و تحقیق' كو آشكارا كرنا ہے جس پر يہ مدعيانِ علم و تحقیق فخر كا اظہار كرتا ہے- ورنہ قرآن و حديث كا دلى احترام صحيح معنوں ميں موجود ہو اور مسلماتِ اسلاميہ سے گريز و انحراف بهى ناپسنديدہ ہو تو پهر زير بحث واقعہ امامت ِ زن كى ناپسنديدگى اور اس كے اسلامى تعلیمات كے یكسر خلاف ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں ہوسكتا-اس نكتے كى وضاحت كے لئے چند باتيں پيش خدمت ہيں :

(1) حضرت اُمّ ورقہ كى اس حديث ميں، جس ميں ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے ان كو نماز پڑهانے كى اجازت دى اور ان كے لئے ايك موٴذن بهى مقرر فرمايا، كئى اُمور قابل غور ہيں :
اوّل تو اس حديث كى صحت متفق علیہ نہيں، محققین حديث كى اكثريت نے اس كو ضعیف قرار دياہے، تاہم بعض نے اسے 'حسن' تسليم كيا ہے- ہم فى الحال اس كى اسنادى تحقيق سے گريز كرتے ہوئے اور اس كو حسن درجے كى روايت تسليم كرتے ہوئے يہ عرض كريں گے كہ يہ ايك استثنائى واقعہ ہے يا اس ميں عموم ہے؟

ظاہر بات ہے كہ يہ ايك استثنائى صورت ہے جس كى دليل يہ ہے كہ نبى ﷺ كے زمانے ميں بهى حضرت اُمّ ورقہ كے علاوہ كسى اور عورت كو اپنے محلے يا اپنے گهر ميں اذان كے ساتھ نماز پڑهانے كا حكم نہيں ديا گيا؟ اسى طرح عہد ِ صحابہ و تابعين سے لے كر آج تك اُمت ِ مسلمہ ميں اس كا كہيں اہتمام نہيں كيا گيا- اس لئے اس استثنائى واقعے كى بنياد پر مغرب كے نظريہٴ مساواتِ مرد وزن كو ثابت كرنے كا اور اسے'آزادئ نسواں' كى تحريك كا پيش خیمہ بنانے كا جواز كيا ہے؟ اور كيا اس سے واقعى مغرب كے نظريہٴ مساوات كا يا آزادئ نسواں كا اثبات ہوتا ہے؟ جن مردوں اور عورتوں نے يا اس كے پس پردہ ہدايت كاروں نے يہ كهڑاك رچايا ہے، ان كا مقصد تو اس امامت ِزن سے نظريہٴ مساوات مردوزن يا تحريك ِآزادئ نسواں ہى كا اثبات ہے- اسى لئے اس واقعے ميں
"اُنہيں رياستى طاقت كى آشيرداد حاصل تهى-اس چرچ كے، جاِں يہ نماز ادا كى گئى، چاروں اطراف امريكى پوليس پهرے دار بن كر كهڑى رہى-"1

اس سے واضح ہے كہ اس سازش كو استعمار كى حمايت حاصل ہے- علاوہ ازيں اس ميں جس قسم كے لوگ پيش پيش تهے، اس كى تفصيل بهى عائشہ سرورى نامى ايك خاتون كے ذريعے سے سنئے-اس خاتون نے امريكہ جاكر اور براہ راست اصل لو گوں سے مل كر يہ تفصیل بيان كى ہے-يہ خاتون لكھتى ہے:
"اسرىٰ نعمانى امريكى شہرى اور طلاق يافتہ ہے اور دو بيسٹ سيلر كتابوں كى مصنفہ بهى- اسرىٰ نعمانى مورگن ٹاوٴن اور ورجینیا ميں مقیم مسلمانوں كے نزديك اس لئے زيادہ ناپسنديدہ ہے كہ ايك تو وہ مسلمان عورتوں كے حقوق كى متشدد حامى ہے اور دوسرا يہ كہ اس نے طلاق كے چند سال بعدايك بیٹے كو بغير نكاح كے جنم ديا ... اسرىٰ نعمانى نے ڈاكٹر امینہ ودود سے مل كر مسجدوں ميں مردوں كے برابر حقوق حاصل كرنے كى جدوجہد كا آغاز كيا جس سے مقامى مسلمانوں ميں بہت شديد رنج اور ناراضگى كى لہر دوڑ گئى ... نمازِ جمعہ كى امامت كرانے ميں اسرىٰ نعمانى اور ڈاكٹر امینہ ودود نے اكٹھے مل كر جدوجہدكى ہے- امريكى قوانين اُنہيں اس سمت ميں آگے بڑهنے ميں بهرپور مدد فراہم كررہے ہيں-" 2

عائشہ سرورى كى بيان كردہ اس تفصیل سے وہ تكون سامنے آجاتى ہے جو اس سازش كى روحِ رواں ہے- اور وہ ہيں: ايك ناجائزبچے كى بدكارماں- دوسرى خود ڈاكٹر امینہ ودود (امامن اور خطیبن) اور تيسرى امريكى حكومت- اور اب خود امامن اور خطیبن كا بيان ملاحظہ فرمائيں جو اس نے جمعے كے خطبے ميں ديا- اس نے كہا :
"قرآن نے عورت اور مرد كو برابر كے حقوق عنايت فرمائے ہيں، ليكن مسلمان مردوں نے اسلامى تعلیمات كا چہرہ مسخ كرديا ہے اور عورت كو اس كے حقوق سے محروم كرركها ہے- يہ مرد عورت كو محض جنسى تفريح سمجهتے ہيں-"3

اس پس منظر كى روشنى ميں كہا جاسكتا ہے كہ حضرت اُم ورقہكى مذكورہ حديث كو جو ايك استثنائى صورت كى حامل ہے، امريكہ ميں پيش آنے والے واقعے كے جواز ميں پيش كرنا، قياس مع الفارق ہے- اس واقعے كے اداكار و ہدايت كار تو مسجدوں ميں مخلوط نماز كو رواج دے كر مغرب كے نظريہٴ مساواتِ مردوزن كو، مسلمان معاشروں ہى ميں نہيں، بلكہ مسجدوں كے اندر بهى اسے نافذ كرنا چاہتے ہيں-

كيا فقیہان 'اشراق' جو اِن باغيانِ اسلام كى اس مذموم حركت كوسند ِجواز مہيا كرنے كے لئے كيل كانٹے سے ليس ہوكر ميدانِ صحافت ميں اُترآئے ہيں، اسى مساوات كے حامى ہيں جس كے قائل امامت ِزن كے حامى يا اس كے بانى ہيں؟ اگر وہ اس مغربى مساوات كے قائل ہيں ، پهرتوان كى ہم نوائى قابل فہم ہے- اور اگر وہ اس مساوات كے قائل نہيں ہيں ، تو پهر ان كى ہم نوائى كيوں؟ اور اس كى حمايت ميں يہ سرگرمى كيوں؟ (اس كے جواب كے ہم منتظر رہيں گے!)

(2) دوسرا قابل غور پہلو حديث ِزير بحث ميں يہ ہے كہ اس كے كسى بهى لفظ سے اس بات كا اثبات نہيں ہوتا كہ حضرت اُمّ ورقہ كے پیچھے كوئى مرد بهى نماز پڑهتا تها- محض اس بات سے كہ ايك بہت بوڑها شخص (شيخ كبير) ان كے لئے اذان كہتا تها، يہ استدلال نہيں كيا جاسكتا كہ وہ نماز بهى حضرت اُمّ ورقہ كے پیچھے پڑھتا ہوگا- اگرچہ بعض لوگوں نے يہ احتمال پيش كيا ہے، ليكن محض احتمال سے تو استدلال ثابت نہيں ہوتا- كيونكہ ايك دوسرا احتمال يہ بهى تو ہے كہ اذان دينے كے بعد وہ شيخ كبير نماز مسجد ِنبوى ميں ہى آكر پڑهتے ہوں- اور يہ احتمال زيادہ قوى ہے كيونكہ مسجد ِنبوى ميں نماز كى جو فضيلت ہے، وہ گهر ميں نماز پڑهنے كے مقابلے ميں كہيں زيادہ ہے- جب اس ميں دونوں ہى احتمال ہيں، تو پهر اس احتمال كو ترجيح كيوں نہ دى جائے جو اسلامى تعلیمات كے مطابق بهى ہے اور صحابہ كرام كے مزاج و سيرت كے موافق بهى-
پهر اس واقعے سے عورتوں كا مردوں كى امامت كرنے كا جواز كس طرح ثابت ہوسكتا ہے؟

(3) تيسرا قابل غور پہلو يہ ہے كہ حضرت اُمّ ورقہ كى يہ حديث، حديث كى جس جس كتاب ميں بهى آئى ہے، ان سب كو ديكها جائے تو يہ بات سامنے آتى ہے كہ كسى بهى محدث نے اس سے يہ استدلال نہيں كيا كہ عورت مردوں كى امامت كرسكتى ہے- اگر اس واقعے ميں ايسا كوئى پہلو ہوتا تو كوئى تو محدث اس پہلو كا بهى اثبات كرتا، ليكن كسى ايك محدث نے بهى اس سے يہ مفہوم نہيں سمجھا جو ايك استعمار زدہ ٹولہ يا منحرفين كا گروہ اس سے كر رہا ہے-

يہ حديث ابوداود كے علاوہ السنن الكبرٰى للبيهقي،معرفة السنن والآثار للبيهقي،سنن دارقطني،ابن خزيمة اور مسند أحمد كى تبويب الفتح الرباني وغيرہ ميں موجود ہے، كسى نے بهى اس حديث پرايسا باب قائم نہيں كيا جس سے يہ ثابت ہوتاہو كہ عورت مردوں كى امام ہوسكتى ہے يا حضرت اُمّ ورقہ  كے پیچھے مرد بهى نماز پڑهتے تهے-

(4) چوتها قابل غور پہلو، حديث كے الفاظ أن تؤم أهل دارها كا مفہوم ہے- اس ميں كوئى شك نہيں كہ دار كا لفظ كئى معنوں كے لئے آتا ہے- گهر كے لئے بهى، حويلى يا محلے كے مفہوم كے لئے بهى اور قبيلے كے لئے بهى- ليكن سياق و سباق اورقرينے سے يہ تعين ہوگا كہ كس جگہ يہ كس معنى ميں استعمال ہوا ہے؟ اس لئے يہ كہنا كہ گهر كے لئے يہ لفظ استعمال ہى نہيں ہوتا، يكسر غلط ہے- اس حديث ميں بهى يہ لفظ گهر ہى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے اور اہل دار سے مراد صرف حضرت اُمّ ورقہ كے گهر كى عورتيں ہيں، جيسے كہ سنن دارقطنى كے ايك مقام پر يہ روايت أن تؤم أهل دارها كے بجائے أن تؤم نساء ها كے الفاظ كے ساتھ آئى ہے- اور حديث كا مفہوم اس كے سارے طرق كى روشنى ہى ميں متعين ہوتا ہے- اسى طرح الموسوعة الفقہية (كويت) ميں بهى يہ روايت أن تؤم نساء أهل دارها كے الفاظ كے ساتھ درج ہے، جس كے لئے انہوں نے سنن ابوداود (1/397) كے اس نسخے كا حوالہ ديا ہے جو عزت عبيددعاس كى تحقيق كے ساتھ شائع ہوا ہے- 4

سنن دارقطنى كے يہ الفاظ أن تؤم نساء ها اور اور سنن ابوداود كے ايك نسخے كے الفاظ أن تؤم نساء أهل دارها سے، دوسرے طرق كے الفاظ أن تؤم أهل دارها كا مفہوم واضح اور متعين ہوجاتا ہے كہ دار كومحلے يا حويلى كے معنى ميں بهى ليا جائے، تب بهى يہى معنى ہوں گے كہ وہ محلے يا حويلى كى عورتوں كى امامت كرائے- اس ميں مردوں كى شموليت كا مفہوم تو پهر بهى شامل نہيں ہوگا-

اور يہ مسئلہ كہ عورت، عورتوں كى امامت كرے، اس كو سوائے چندايك فقہا كے، سب تسليم كرتے ہيں، اس لئے كہ اس كا ثبوت حضرت عائشہ اور حضرت اُمّ سلمہ صحابيات سے ملتا ہے، تاہم اس صورت ميں عورت ، مرد امام كى طرح، صف كے آگے اكيلى كهڑى نہيں ہوگى بلكہ صف كے درميان ميں كهڑى ہوگى-

گمراہى اور كج رَوى كى بنياد، محدثانہ نقطہ نظر سے انحراف ہے
بہرحال حديث سے استدلال كا وہ طريقہ اختيار كيا جائے جو محدثين كا طريقہ ہے (جو استدلال كا صحيح اور واحد طريقہ بهى ہے) تو اس حديث ِاُم ورقہ سے قطعاً اس بات كا اثبات نہيں ہوتا جسے بے طرح ثابت كرنے كى كوشش كى جارہى ہے-دراصل جس گروہ كے بهى كچھ ذہنى تحفظات ہوتے ہيں، وہ اپنے ذ ہنى تحفظات ہى كى روشنى ميں حديث سے اخذ و استفادہ كرتا ہے- وہ محدثين كى طرح حديث كو محض حديث كے طور پر نہيں مانتا، يعنى اس سے جس مسئلے كا اثبات ہوتا ہے، اگر وہ اس كے ذہنى تحفظات سے متصادم ہوتى ہے تو وہ اس كو تسليم نہيں كرتا- يہى وجہ ہے كہ ايسے سارے گروہ نہايت قوى اور صحيح ترين روايات كو تو مسترد كرديتے ہيں اور نہايت گرى پڑى روايت كو اپنا ليتے ہيں- ايسا كيوں ہوتا ہے؟ محض اس لئے كہ حديث ِرسول كو ماننا ان كے پيش نظر نہيں ہوتا بلكہ ان كے اپنے مخصوص مفادات اور ذ ہنى تحفظات ہوتے ہيں- صحيح السند اور قوى روايت اگر ان كے مفروضوں كا ساتھ نہيں ديتى تو وہ مردود، اور كوئى ضعيف روايت ان كے مفروضوں كو سہارا دينے والى ہو تو وہ مقبول- حتىٰ كہ حديث سے مطلب برآرى كى يہ لے يہاں تك بڑهتى ہے كہ كسى حديث كے ايك جز سے اگر ان كا مقصد پورا ہوتا ہے تو وہ تو صحيح قرار پاتا ہے اور اسى حديث كا دوسرا جز اگر ان كے مقصد سے ہم آہنگ نہيں ہوتا، تو وہ غلط قرارپاتا ہے، يا پهر اس جز كى كوئى مضحكہ خير تاويل كركے اسے بهى اپنے مطلب كا بنانے كى سعى كى جاتى ہے-

اسى ذہنى تحفظ يا مطلب برآرى كا ايك عجيب مظاہرہ 'اشراق' كے مضمون نگار نے بهى كيا ہے- ديكهئے سنن دارقطنى كى روايت كے الفاظ أن تؤم نساء ہا محدثين كے طريقے كے مطابق، اس روايت كے دوسرے الفاظ (أهل دارها وغيره) كے مفہوم كو متعين اور واضح كرديتے ہيں- ليكن چونكہ مقصود حديث سے استفادہ اور اس سے ثابت شدہ بات كو ماننا نہيں ہے، بلكہ توڑ مروڑ كر حديث سے اپنى بات كا اثبات كرنا ہے- اس لئے دارقطنى كى اس روايت كو 'اشراق' كے مضمون نگار نے بهى پيش كيا ہے- ليكن اس نے ترجمے اور مطلب بيان كرنے ميں جو گھپلے كئے ہيں، ملاحظہ فرمائيں- پہلے ترجمہ ديكھيں :
"اُمّ ورقہ سے روايت ہے كہ اللہ كے رسول نے اجازت دے دى تهى كہ اس كے لئے اذان دى جائے اور اقامت كہى جائے اور وہ اپنى عورتوں كى امامت كيا كرتى تهيں-" 5

ترجمے كے گھپلے كو سمجهنے كے لئے حديث كے اصل عربى الفاظ كا سامنے ہونا ضرورى ہے - الفاظ يہ ہيں: أن رسول الله ﷺ أَذِن لها أن يؤذنَ ويقامَ وتؤمَّ نساء ها 6

اس ميں رسول الله ﷺ كے تين حكموں كا بيان ہے :
(1) اس كے لئے اذان دى جائے
(2) اقامت كہى جائے اور يہ كہ
(3) وہ اپنى عورتوں كى امامت كرے-

يہ اس كا صحيح ترجمہ بهى ہے اور جس سے صحيح مطلب بهى واضح ہوجاتا ہے كہ ان كو اس بات كى اجازت دى گئى تهى كہ وہ اپنى عورتوں كى امامت كرليا كريں- جس سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ ان كى امامت ميں مرد نہيں ہوتے تهے، صرف عورتيں ہوتى تهيں- ليكن چونكہ مضمون نگار كے پيش نظر تو حديث ِاُمّ ورقہ سے مردوں اور عورتوں كى مشتركہ امامت كا اثبات ہے، اس لئے اس نے پہلے تو ترجمے ميں يہ تصرف كيا كہ "وہ اپنى عورتوں كى امامت كرے-" كے بجائے ترجمہ كيا ہے: "اور وہ اپنى عورتوں كى امامت كيا كرتى تهيں-"

حالانكہ يہ ترجمہ اس وقت ہوسكتا تها، جب اس ميں كانت كا لفظ ہوتا يعنى وكانت تؤم النساء-يہ غلط ترجمہ اس لئے كيا كہ اسے رسول اللہ ﷺ كے فرمان كا حصہ شمار نہ ہونے ديا جائے، حالانكہ يہ رسول اللہ ﷺ كے فرمان ہى كا ايك حصہ ہے- پهر اس غلط ترجمے كے ردّے پر دوسرا ردّہ يہ چڑهايا، مضمون نگار لكھتا ہے :
"اس روايت كے الفاظ بتا رہے ہيں كہ وہ اپنى عورتوں كى امامت كيا كرتى تهى- يہ دارقطنى كے اپنے الفاظ ہيں، حديث كے الفاظ نہيں- يہ ان كى اپنى رائے ہے، سنن دارقطنى كے علاوہ حديث كى كسى كتاب ميں يہ اضافہ نہيں- اس لئے اس اضافے كو بطورِ دليل پيش نہيں كيا جاسكتا-"7

يعنى مسئلہ زير بحث ميں جو الفاظ نص قطعى كى حيثيت ركهتے ہيں، پہلے اس كا ترجمہ غلط كيا، تاكہ اسے رسول اللہ ﷺ كے فرمان سے الگ باور كرايا جاسكے، پهر اس پر دوسرا ردّہ يہ چڑهايا كہ يہ"دارقطنى كے اپنے الفاظ ہيں، حديث كے نہيں-" تيسرا ردّہ يہ چڑهايا كہ "يہ ان كى اپنى رائے ہے-" چوتها ردّہ كہ يہ "اضافہ ہے جو دارقطنى كے علاوہ حديث كى كسى كتاب ميں نہيں ہے-" اور پهر ٹيپ كا بند، جو اصل مقصود ہے :
"اس لئے اس اضافے كو بطور دليل پيش نہيں كيا جاسكتا-" 8

سبحان اللہ ، ماشاء اللہ! كيا خوب استدلال ہے، سب كچھ اپنى طرف سے- پہلے اپنے ذہن ميں ايك نظريہ قائم كيا كہ عورت كا مردوں كى امامت كرنا جائز ہونا چاہئے- پهر جن الفاظ سے اس نظريے كى بيخ كنى ہوتى تهى، ان كا ترجمہ غلط كيا اور انہيں فرمانِ رسول ﷺ ماننے سے انكار كرديا، اور ان كو بلا دلیل امام دارقطنى كا اضافہ قرار دے كر اسے مسترد كرديا اور قطعى اعلان كرديا كہ اس اضافے كو بطورِ دليل پيش نہيں كيا جاسكتا- حالانكہ يہ سارے دعوے غلط اور يكسر بے بنياد ہيں- ان الفاظ كا وہى ترجمہ صحيح ہے جو ہم نے كيا ہے كيونكہ يہى ديگر احاديث مباركہ اورعربى قواعد كى رو سے درست بنتا ہے، اور يہ الفاظ نبى ﷺ ہى كى زبانِ مبارك سے نكلے ہوئے ہيں، يہ امام دارقطنى كے الفاظ نہيں ہيں، نہ يہ كوئى اضافہ ہے، بلكہ نفس مسئلہ ميں نص قطعى اور دليل واضح كى حيثيت ركهتے ہيں- ليكن اس كے لئے ضرورى ہے كہ نظر بهى محدثانہ ہو، منہج بهى محدثانہ ہو اور مقصد بهى محدثانہ ہو- يعنى حديث ميں اپنے نظريے كو گھسیڑنا نہيں، بلكہ حديث كى روشنى ميں ہر بات كو سمجھنا اور نظريہ قائم كرنا ہو- ورنہ وہى بات ہوگى-
ع ديدہٴ كور كو كيا آئے نظر، كيا ديكهے!!

فتنہٴ امامت ِ زن كى بانى و محرك اور اس كا كردار، حقائق كى روشنى ميں
اس كے بعد 'اشراق' كے مضمون نگار نے بعض فقہا كے اقوال امامت ِ زن كے جواز ميں نقل كئے ہيں اور اس ميں بهى گھپلے كئے ہيں، ليكن حضرت اُمّ ورقہ كى حديث اور اس سے استدلال كى حقيقت واضح كرنے كے بعد ہم اقوالِ فقہا پر بحث كو ضرورى نہيں سمجهتے- تاہم فتنہٴ امامت ِزن كے برپا كرنيوالوں كى بابت اور بہت سى باتيں نہايت مستند ذرائع سے سامنے آئى ہيں- ہم چاہتے ہيں، وه بهى پيش كردى جائيں تاكہ اس تحريك كا سارا كچا چٹھہ سامنے آجائے- ڈاكٹر حافظ حقانى مياں قادرى ڈائريكٹر اسلامى سينٹر، كنكنى كٹ ، اسٹمفرڈ، امريكہ لكھتے ہيں:
"عورت كى امامت اور مسجد ميں مردوں كے شانہ بشانہ عورتوں كى نماز كى تحريك كى اصل محركہ اور روحِ رواں مارگن ٹاوٴن ويسٹ ورجينيا كى ايك نام نہاد مسلمان اسرىٰ نعمانى ہے- چار سال قبل اسرىٰ نعمانى نے عورت كى امامت كے فتنے كى بنياد اس طرح ركهى كہ وہ اپنى چند ہم خيال عورتوں كو لے كر مارگن ٹاوٴن ويسٹ ورجينيا كى مسجد ميں گهس گئى اور ان عورتوں نے مطالبہ كيا كہ اُنہيں مردوں كے شانہ بشانہ كهڑے ہوكر نماز پڑهنے كى اجازت دى جائے- مسجد كى انتظاميہ نے اُنہيں مردوں كے پیچھے كهڑے ہوكر نماز پڑهنے كى اجازت دے دى ليكن مردوں كے ساتھ كهڑے ہوكر نماز پڑهنے سے منع كرديا- اسرىٰ نعمانى يہ معاملہ عدالت تك لے گئى، عدالت نے اسرىٰ نعمانى كے حق ميں فيصلہ دے ديا- اس عدالتى فيصلے كے بعد اسرىٰ نعمانى اور اس كے ساتهيوں كا يہ طريقہٴ كار ہے كہ وہ اعلان كرديتے ہيں كہ وہ فلاں فلاں دن فلاں مسجد ميں مخلوط نماز پڑهيں گے، پهر اس دن وہ اس مسجد ميں گھس جاتے ہيں، باہر پوليس، ان كے تحفظ كے لئے موجود ہوتى ہے ... اس اسرىٰ نعمانى كے ساتھ ايسے ايسے واقعات و حقائق منسوب ہيں كہ جن كو بيان نہ كرنا ہى بہتر ہے ليكن وہ پوشيدہ نہيں ہيں-"9

ہفت روزہ 'ندائے ملت' لاہور كے ايك مضمون نگار نے 31/ مارچ 2005ء كے شمارے ميں ايك تفصيلى مضمون شائع كيا ہے جس ميں اسرىٰ نعمانى كى بابت بتلايا گيا ہے كہ يہ سى آئى اے، اسرائيل اور موساد كى ايجنٹ ہے اور ڈينيل پرل (امريكى صحافى) كے ساتھ مل كر بهى اس نے پاكستان ميں پاكستانى مفادات كے خلاف كام كيا ہے جس كے دستاويزى ثبوت اس مضمون ميں شامل ہيں- ہم ان تفصيلات سے گريز كرتے ہوئے اس شمارے سے صرف وہ دس سوالات يہاں نقل كرتے ہيں جو مضمون نگار نے اسرىٰ نعمانى كو بھیجے ہيں، ليكن ابهى تك اس كى طرف سے ان كا جواب نہيں آيا، البتہ اتنا جواب اس نے ديا ہے كہ مجهے آپ كے سوالات مل گئے ہيں اور ميں ان كا جواب تيار كررہى ہوں- يہ سوالات آپ بهى ملاحظہ فرمائيں، ديگر تفصيلات كے لئے مذكورہ شمارہ ملاحظہ فرمائيں -

(1) كيا آپ 'اللہ' اور 'قرآن' كى تشريح كرسكتى ہيں؟
(2) عام مسلمان خواتين تو اپنے والد، بهائيوں اور خاوند سے يہ مطالبہ نہيں كرتيں كہ وہ ان كے ساتھ مساجد ميں نماز پڑهنا چاہتى ہيں، ليكن آپ كى سوچ اور جدوجہد اس سے مختلف ہے، آپ اس كى كچھ وضاحت كريں گى؟
(3) آپ كى جدوجہد اور كوششوں كے بارے ميں يہ رائے بنتى ہے كہ اس كى ڈائريكشن ٹهيك نہيں ہے، آپ كا اس سلسلے ميں موقف كيا ہے؟
(4) كيا آپ سمجھتى ہيں كہ آپ كى جدوجہد كى روشنى ميں مسلمان خواتين كى سوچ تبديل ہوسكتى ہے- اگر آپ اسے ممكن سمجھتى ہيں تو يہ كيسے كريں گى؟
(5) آپ كى كوششوں اور 'جدوجہد' كو ديكهتے ہوئے بہت سے 'كهلے ذہن' كے لوگ آپ كے ساتھ مل گئے ہوں گے، كيا آپ ان كے نام بتا سكتى ہيں؟
(6) علماے دين نے آپ كو دائرئہ اسلام سے خارج قرار ديا ہے، اس بارے ميں كچھ كہنا چاہيں گى؟
(7) كيا آپ شادى شدہ ہيں؟ اگر نہيں تو براہ كرام اس بات كا جواب ديجئے كہ آپ كے بچے كى پيدائش ناجائز نہيں؟ ان سوالات كى بابت مضمون نگار نے لكها ہے:
"اسرىٰ نعمانى نے ان سوالات كے جوابات دينے كا وعدہ كيا ہے، جيسے ہى ان كا موقف موصول ہوا، شائع كرديا جائے گا-" 10

ندائے ملت كے اسى شمارے ميں مخلوط نماز كى امامت كا فوٹو بهى شائع ہوا ہے، جس ميں يہ اسرىٰ نعمانى پينٹ شرٹ ميں ملبوس كهلے بالوں كے ساتھ نماياں ہے- هداها الله وإمامها

اس كے بعد 'ندائے ملت' ميں ايك اور مضمون شائع ہوا ہے، يہ سارا مضمون ہى قابل مطالعہ ہے، علاوہ ازيں اس ميں اس كى جدوجہد كے وہ دس نكتے بهى شامل ہيں جو عورتوں كے 'اسلامى حقوق' كے پُرفريب عنوان پر اس نے مرتب كئے ہيں- مقبول ارشد صاحب كے تحرير كردہ اس مضمون كے اہم اقتباسات بهى ملاحظہ فرمائيں :
اسرىٰ نعمانى كا كهيل بے نقاب ہوگيا !!

امريكہ ميں نمازِ جمعہ كے مخلوط اجتماع كى امامت كركے 'شہرت' حاصل كرنے والى بهارتى نژاد خاتون اسرىٰ نعمانى كے 'كهيل' كى حقيقت اب كهل كر سامنے آگئى ہے- ڈينيل پرل كيس ميں ايك ملزمہ كے طور پر سامنے آنے اور پاكستان كے مفادات كے خلاف كام كرنے والى اسرىٰ نعمانى اگرچہ اب يہ كوشش كررہى ہے كہ كسى طرح امريكہ كے ديگر شہروں ميں بهى خاتون كى امامت ميں ہى نمازِ جمعہ كے مخلوط اجتماعات كروائے جائيں، ليكن اس ايك واقعہ سے ہى لگتا ہے كہ اسرىٰ نعمانى جو بظاہر اسلامى تعلیمات ميں تبديليوں كے لئے كوششيں كررہى ہے، درحقيقت كيا عزائم ركھتى ہے؟

نيويارك سٹى كے ايك چرچ ميں ادا كى جانے والى نماز جمعہ كے موقع پر اسرىٰ نعمانى كے 'كهيل' كا بهانڈه اس وقت پهوٹ گيا جب وہاں اسرىٰ نعمانى سے يہ پوچها گيا كہ معمول كى اپنى زندگى ميں جمعہ كے علاوہ ايك دن ميں فرض كى گئى پانچ نمازوں ميں سے كتنى نمازيں پڑھتى ہيں؟ اسرىٰ نعمانى اس سوال كا كوئى جواب نہ دے سكى اور غصے كى حالت ميں اس نے منہ دوسرى طرف پھیر ليا- اسرىٰ نعمانى كے بارے ميں اور بهى بہت سے دلچسپ اور انكشاف انگيز حقائق سامنے آئے ہيں جو اس كى سرگرميوں اور عزائم سے پردہ اٹهاتے ہيں-

اسرىٰ نعمانى كے بارے ميں بعض ذرائع يہ بهى دعوىٰ كرتے ہيں كہ اس كا اصل نام قرة العين نعمانى ہے- تين سال كى عمر ميں اس كے والد ظفر نعمانى اسے لے كر امريكى رياست ورجينيا آگئے تهے جہاں اُنہوں نے جنوبى ورجینیا كى ايك يونيورسٹى ميں پڑهنا شروع كرديا- اسرىٰ نعمانى نے بهى بعد ميں اسى يونيورسٹى سے تعليم حاصل كى- اسرىٰ يونيورسٹى لائف كے دوران اور بعد ازاں ايك صحافى كى حيثيت سے اپنے كيريئر كے دوران اپنى روشن خيالى اور كهلے ڈھلے ماحول كى وجہ سے جانى جاتى ہے- صحافتى كيريئر كے آغاز ميں ہى اس نے افغانستان، تاجكستان اور بهارت كے دورے كئے- پاكستان جب وہ پہلى دفعہ آئى تو اس نے اپنے آپ كو ايك طالب علم ظاہر كيا، تاہم يہاں اس كى آمد كا مقصد پاكستان كے مذہبى اور جہادى گروپوں كے بارے ميں معلومات حاصل كرنا تها- اس كام ميں اس كى مدد اسرائيل كے دوروں كے حوالے سے مشہور ايك مذہبى رہنما نے كى- ذرائع كے مطابق اسرىٰ نعمانى نے لاہور ميں اپنے ايك انكل اطہر نعمانى كے گهر قيام كيا جن كى رہائش علامہ اقبال ٹاوٴن ميں ہے اور وہ واپڈا كے ايك اعلىٰ ريٹائرڈافسر ہيں- لاہور ميں قيام كے بعد اسرىٰ كراچى چلى گئى-

اسرىٰ نعمانى كے بارے ميں جو مزيد انكشاف انگيز حقائق معلوم ہوئے، ان ميں بعض باتيں ايسى ہيں جنہيں اخلاقيات كے پيش نظر تحرير بهى نہيں كيا جاسكتا- تاہم اسرىٰ نعمانى كے بارے ميں يہ باتيں ضرور قارئين كوبتاتے چلیں كہ مسلمان خواتين كى امامت كرنے والى يہ آزا دخيال خاتون تمام مسلم اور غيرمسلم خواتين كے لئے ہم جنس پرستى، شادى كے بغير تعلقات ، اسقاطِ حمل اور جنسى تجربات كى حامى ہے اور ناجائز بچے كى پيدائش كے بعد يہى حقوق حاصل كرنے كى جدوجہد كررہى ہے- اسرىٰ نعمانى خو داس بارے ميں كہتى ہے كہ اس كى جدوجہد خواتين كو بيڈ روم ميں اسلامى حقوق دلانے كے لئے ہے-اسرىٰ كا اس حوالے سے كہنا ہے:
"I offer two charters of Muslim justice...... an Islamic bill of rights for women in mosques and an Islamic bill of rights for women in the Bedroom."

"ميں مسلمانوں كے انصاف كے دو منشور پيش كرتى ہوں: ايك مساجد ميں خواتين كے حقوق كا اسلامك بل اور ايك بيڈ روم ميں خواتين كے حقوق كا اسلامك بل-"

ان اُمور كى وضاحت كرتے ہوئے اسرىٰ نے دس ايسى وجوہات بيان كى ہيں جو اس كى خواتين كيلئے 'جدوجہد' كو بے نقاب كرتى ہيں:
Women have an Islamic right to respectful and pleasurable sex ual experience.
Women have an Islamic right to make independent decisions about their bodies, including the right to say no to sex.
Women have an Islamic right to make independent decisions about their partner, including their right to say no to a husband marrying a second wife.
Women have an Islamic right to make independent decisions about their choice of a partner.
Women have an Islamic right to make independent decisions about contraception and reproduction.
Women have an Islamic right to protection from physical, emotional and sexual abuse.
Women have an Islamic right to sexual privacy.
Women have an Islamic right to exemption from criminalization or punishment for consensual adult sex.

اسرىٰ نعمانى كے ان خيالات اور خواتين كے حقوق كے لئے جدوجہد كى كوششوں كى حقيقت سامنے آنے سے يہ اندازہ لگايا جاسكتا ہے كہ اسرىٰ نعمانى كا اصل ايجنڈا كيا ہے؟ وہ خواتين كے جن حقوق كے لئے جدوجہد كررہى ہے اس كے پیچھے كون لوگ ہيں؟

اسرىٰ نعمانى اور ڈاكٹر امینہ ودود ايك سوچے سمجھے منصوبے كے تحت اسلام كى جو تصوير پيش كررہى ہيں، اس سے مسلم كميونٹى ميں شديد جذبات پائے جاتے ہيں- ڈاكٹر امینہ ودود نے نمازِ جمعہ كى امامت كے دوران عربى ميں پڑهے جانے والے خطبہ كى كتاب اپنے پاوٴں ميں ركھ دى- اسرىٰ نعمانى نے اس موقع پر خطاب كرتے ہوئے كہا كہ خواتينكو مسجد ميں داخل ہونے كا، صف ميں بیٹھنے كا اور منبر پركهڑے ہونے كا حق ہے اور ان حقوق كے لئے كوششيں كى جائيں گى- اسرىٰ نعمانى مغربى ايجنڈے كو آگے بڑهاتے اور مسلم كميونٹى كے جذبات كو كسى خاطر ميں نہ لاتے ہوئے اپنى سى كوششيں كررہى ہے، تاہم اب اس كى پُراسراريت بے نقاب ہونا شروع ہوگئى ہے- 11

'ندائے ملت' كے مضمون نگار نے اسرىٰ نعمانى كے جن دس نكات كا انگريزى متن نقل كيا ہے، اُنہوں نے اس كا اُردو ترجمہ نہيں ديا ہے، ہم ذيل ميں اس كا ترجمہ بهى دے رہے ہيں:
(1) عورتوں كا يہ اسلامى حق ہے كہ ان كے جنسى تعلق احترام پر مبنى اور خوش كن ہوں-
(2) عورتوں كا يہ اسلامى حق ہے كہ وہ اپنے جسم كے بارے ميں اپنى مرضى سے فيصلے كريں اور اس ميں ہم بسترى سے انكار كرنے كا حق بهى شامل ہے-
(3) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ وہ اپنے شريك ِحيات چننے كے بارے ميں بااختيار ہوں اور انہيں شوہر كو دوسرى شادى سے روكنے كا حق بهى حاصل ہو-
(4) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ وہ اپنے شريك ِحيات كے انتخاب كے بارے ميں مستقل طور پرخود مختار فيصلہ كرسكيں-
(5) مانع حمل ادويات استعمال كرنے اور بچے جننے كے بارے ميں عورت كو فيصلہ كرنے كا اختيار بهى ملنا چاہئے-
(6) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ انہيں جسمانى، جذباتى اور جنسى استحصال سے تحفظ حاصل ہو-
(7) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ انہيں جنسى امور ميں پرائيويسى حاصل ہو-
(8) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ اُنہيں بلوغت پرباہمى رضا مندى سے ہم بسترى كى صورت ميں مجرم بنائے جانے يا سزا يابى سے استثنا كا حق حاصل ہو-
(9) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ انہيں بدگوئى اور تضحيك و توہين سے تحفظ حاصل ہو-
(10) عورتوں كا اسلامى حق ہے كہ اُنہيں جنسى صحت كے اہتمام اور جنسى تعليم كا حق حاصل ہو-

ان سارى دفعات كو ديكھ ليں كہ ان ميں كوئى بهى ايسى بات ہے كہ جس كا تعلق واقعى مسلمان عورت كى معاشرتى زندگى كى بہترى سے ہو؟ يا مسلمانوں كى دين سے بے خبرى كى وجہ سے مسلمان عورت كو جن ابتلاوٴں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، ان كا كوئى حل ان ميں ہو؟ يا ان سے ان كا معاشرتى رتبہ بلند ہوسكتا ہو؟ ان ميں سے كوئى ايك بات بهى ان ميں نہيں ہے- ان دفعات ميں سارا زور اس امر پر ديا گيا ہے كہ مسلمان عورت بهى مغرب كى حيا باختہ عورت كى طرح آزاد ہو، وہ خود ہى تجربے كركے اپنے شريك ِحيات كا انتخاب كرے، اور اس كے بعد بهى اس كا شريك ِحيات (پارٹنر) اس كے ماتحت رہ كر اپنا وقت گزارے- حتىٰ كہ وہ بدكارى كا ارتكاب بهى كرلے، تو اسے مستوجب ِسزا نہ ٹھہرا يا جائے كيونكہ پاكدامنى كا تصور اب فرسودہ ہوگيا ہے اور يہ روشن خيالى كا دور ہے جس ميں ديدارِ يار ہى كا اِذنِ عام نہيں، بلكہ شادى سے بهى پہلے سب كچھ كرنے كا حق ہے- اسى طرح عورت كو يہ حق بهى حاصل ہو كہ وہ اپنى مرضى سے جتنے چاہے بچے پيداكرے، بچوں كى پيدائش كے بجائے اس كى صحت زيادہ عزيز ہونى چاہئے- علاوہ ازيں اسے يہ حق بهى ہو كہ وہ خاوند كو دوسرى شادى كرنے كى اجازت نہ دے-
ستم بالائے ستم يہ ہے كہ مغرب كے ان تصورات كو، جو اسلامى تعلیمات كے یكسر خلاف، بے حيائى اور بدكارى كى كھلى چهوٹ كے مترادف اور مسلمان عورت كى عزت و وقار كے منافى ہيں، انہيں 'اسلامى حقوق' باور كرايا جارہا ہے، فإنالله وإنا إليه راجعون

خرد كا نام جنوں ركھ ديا اور جنوں كا خرد جو چاہے آپ كا حسن كرشمہ ساز كرے!

نام نہاد مسلمانوں كى وہ نسل نو، جو مغربى ماحول كى پروردہ، انہى كے تعلیمى اداروں كى پرداختہ اور انگريزوں ہى كى بوائے فرينڈ يا گرل فرينڈ ہے، ان ميں سے بعض مردوزن كا اس فتراك كا نخچير بن جانا، اس دامِ ہم رنگ زمين كا شكار ہوجانا اور استعمار كى اس سازش ميں پھنس جانا، زيادہ ناقابل فہم نہيں ہے كہ وہ تو اسلام اور اس كى تعلیمات سے یكسر ناآشنا ہيں- ليكن ان مذہبى خرقہ پوشوں كو كيا كہئے جو تمام فقہاے اُمت سے زيادہ اپنے آپ كو 'فقيہ'، تمام مفسرين اُمت سے زيادہ اپنے آپ كو 'مفسر' اور تمام علماے اُمت سے زيادہ اپنے آپ كو 'عالم' اور تمام محققين اُمت سے زيادہ اپنے آپ كو 'محقق' سمجهتے ہيں كہ وہ بهى اس گروہ ناہنجار كى حمايت ميں آستين چڑها كر ميدان ميں نكل آئے ہيں- اس گروہ كے اس رويے ہى سے بہ آسانى اندازہ كيا جاسكتا ہے كہ اس كى اس 'تحقیق' كے پس پشت كيا مفادات كافرما ہيں اور ان كى يہ 'فقاہت' ان كے كس ذہن كى غماز ہے؟
ع ہم اگر عرض كريں تو شكايت ہوگى!!


حوالہ جات
1. روزنامہ پاكستان ميگزين، ہفت روزہ 'زندگى' ص 3،27 /مارچ 2005ء
2. بحوالہ اخبارِ مذكور: 'زندگى' 27/ مارچ 2005ء
3. اخبارِ مذكور
4. ديكهئے: موسوعہ مذكورہ: 6/204
5. اشراق: مئى 12005ء، ص38
6. الدارقطني: باب في ذكر الجماعة وأهلها وصفة الإمام،حديث 1069
7. اشراق، لاہور: مئى 2005ء ، ص 38،39
8. حوالہ مذكور
9. ماہنامہ 'تعمير افكار' كراچى: ص40،41، مئى 2005ء
10. ہفت روزہ 'ندائے ملت' لاہور، 31 مارچ 2005ء، ص11
11. روزنامہ 'ندائے ملت' لاہور: 7/اپريل 2005ء