’آغا خانى‘… ايك اسماعيلى فرقہ

آغا خانيوں كو قومى تعليم ميں سركارى آرڈيننس(CXIV/2002)كى رو سے بڑا اہم كردار سونپا جا چكا ہے اور وفاقى وزير تعليم نے كہا ہے كہ اس آرڈيننس يا فيصلہ كے بارے ميں پارليمنٹ ہى حتمى فيصلہ كرنے كى مجاز ہے-پارليمنٹ سے اس موضوع پر رائے دہى كروانے كا مقصد غالباً يہ ہے كہ يہى ايسا فورم ہے جہاں ملكى و قومى مفاد سے بالاتر ہو كر صرف سياسى گروپ بندى كى بنا پر قومى فيصلے كيے جاتے ہيں- اور مشرف حكومت اس سے قبل بهى اپنے متعدد فيصلوں كو اسى پليٹ فارم سے نافذ كرانے ميں كامياب رہى ہے-

جہاں تك امتحانى بورڈز كا تعلق ہے تو اخبارى ذرائع كے مطابق سندھ گورنمنٹ ميں آغاخانيوں كے امتحانى بورڈز كو قبول كرليا گيا ہے جبكہ پنجاب حكومت كے اختلاف كے باعث فى الوقت پرائيويٹ سكولوں، كالجوں كو اس امر كى اجازت دى گئى ہے كہ وہ آغا خاں بورڈ كے ساتھ الحاق كرسكيں- قابل غور بات يہ ہے كہ سركارى سكولوں ميں پہلے ہى تعليم كى حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے كہ متوسط طبقے كے لوگ بهى اپنے بچوں كو سركارى سكولوں ميں داخل نہيں كراتے- اس لحاظ سے قومى ٹيلنٹ كا اہم ترين حصہ پرائيويٹ سكولوں ميں ہى زير تعليم ہے اور اسى طبقہ كے پاس ہرقسم كے وسائل بهى ميسر ہيں- ايسے حالات ميں پرائيويٹ سكولوں كا داخلى وجوہ كى بناپر ہى ممتاز حيثيت حاصل كرلينا، پهر آغا خان بورڈ كے ذريعے ان كو قومى او رعالمى سطح پرہر قسم كى پذيرائى ميسر آجانا ايسے حقائق ہيں جن سے مستقبل قريب ميں پاكستان كا تعليمى وفكرى منظرنامہ بخوبى سمجا جاسكتا ہے-

اگر خدانخواستہ اس حكومت كو مزيد چند سال گزارنے كا موقع مل گيا تو سركارى سكولوں كو قريب قريب وہى مقام حاصل ہوجائے گا جو اس وقت دينى مدارس كوحاصل ہے- جس طرح مسلمانوں كے روايتى نظامِ تعليم 'دينى مدارس' كو انگريز سركار نے ديس نكالا دے كر نظامِ تعليم سے اس كا اُصولى تعلق ہى منقطع كرديا، ايسے ہى موجودہ سركارى سكولوں ...جو بچى كچىن اسلامى ثقافت كو تحفظ مياے كررہے ... كو بهى ثانوى درجے كے تعليمى ادارے تو پلے ہى بنايا جاچكا ہے- امريكى سركار كے مشوروں پر كار بند رہے توآہہتك آہہتے ان كا قومى كردار كم سے كم تر ہوتا جائے گا،يہ بهى ممكن ہے كہ كچھ عرصے كے بعد مدارس كى طرح اُنيںا ملازمت كا تحفظ بهى حاصل نہ رہے- تعليم كى اہميت صاحبانِ فكر ونظر سے مخفى نيںس اور اس سارى صورتحال سے محب ِوطن حلقے شديد پريشانى واضطراب كا شكار ہيں!!

آغا خانيوں كو امريكہ باردر نے يہ كردار كيونكر سونپا ہے، اس كے لئے ضرور ى ہے كہ ان كى تاريخ كے ساتھ ان كے عقائد سے بهى واقفتط حاصل كى جائے- جاپں تك پاكستان ميں ان كى سرگرميوں كا تعلق ہے، اس بارے ميں ماہنامہ 'محدث' كے اپريل 2004ء كے شمارے كے علاوہ ، ماہنامہ 'آبِ حيات' لاہور كا شمارئہ فرورى 2005ء اور ماہنامہ 'ترجمان القرآن'لاہور كا شمارئہ ستمبر2004ء كا مطالعہ مفيد ہوگا- ايسے ہى آغا خانى بورڈ كے بارے ميں تنظيم اساتذہ، پاكستان كا شائع كردہ 'قرطاسِ ابيض' كا مطالعہ بهى چشم كشا ہے- ہفت روزہ 'تكبرس' كراچى بهى 90 كى دهائى ميں ان كى ملك دشمن سرگرميوں پر ايك ضخيم اشاعت خاص پيش كرچكا ہے، جسے آغاخانيوں نے سيل پوائنٹس سے اُٹهاكر تلف كرنے كى كوششيں كى تهيں-ماہنامہ الحق، اكوڑہ خٹك ميں 1987ء كے دوران مولانا عبدر اللہ چترالى كے شمالى علاقہ جات ميں آغا خانيوں كى سرگرميوں كے بارے ميں بعض مضامين بهى اس سلسلے ميں خصوصى مطالعہ كے قابل ہيں-

تاريخى طور پر 1858ء ميں ممبئى كى انگريز عدالت كے فيصلہ كے ذريعے آغا خانيوں كو برصغير ميں اسماعيليوں كا روحانى پيشوا قرار ديا گيا تها، ايسے ہى انگريز گورنرجنرل ہند نے انگريز سركار كى خدمات كے صلے ميں انيںے 'پرنس'،' سر' اور 'ہزہائى نس' كا خطاب عطا كيا تها- يورپى ممالك سے ان كے تعلقات اس قدر قوى ہيں كہ وہاں انيں VVIP پروٹوكول ديا جاتا ہے اور پاكستان ميں تو ان كا استقبال صدرِ مملكت كے درجے سے كم نيںن ہوتا-مغربى تنظيميں مثلاً CIDA، يوايس ايڈ، اقوامِ متحدہ كى يونى سيف وغيرہ اپنى امداد آغا خانيوں كے ہى حوالے كرتى ہيں اور وہ اپنے مذہبى عقائد كے فروغ كے لئے انيںل بالواسطہ استعمال كرتے ہيں- اين جى اوز كو منظم كرنے كے لئے آغا خان فاونڈيشن عالمى اداروں كى مدد سے 'اين جى او ريسورس سنٹر' كے نام سے ايك ادارہ چلا رہى ہے جا ں اسى نام سے ميگزين بهى شائع ہوتا ہے-

جولائى 1996ء كے ماہنامہ 'محدث' ميں آغا خانيوں كے عقائد كے تجزيے پر مبنى ايك مضمون شائع ہوا تها، موجودہ حالات ميں اس امر كى شديد ضرورت محسوس كى جارہى ہے كہ ا س فرقہ كے عقائد سے پاكستانى عوام كو تفصيلاً متعارف كرايا جائے، چنانچہ وہ مضمون قند مكرر كے طور پر دوبارہ شائع كيا جارہاہے تاكہ عوام كو يہ اندازہ ہوسكے كہ اس ملك كى تعليمى قسمت كے فيصلہ كن لوگوں كے ہاتھ ميں ديا گيا ہے- علم وتعلّم سے وابستہ حضرات جانتے ہيں كہ امتحانى بورڈ صرف امتحانى بورڈ ہى نيںو ہوتا بلكہ جس نصاب كى بنا پر وہ اُميدوار كا امتحان ليتا ہے، اس كو متعين كرنے كے اختيار بهى اس كے پاس ہى ہوتے ہيں-

زير نظر مضمون 'اسماعيليہ' كے تناظر ميں لكها گيا ہے جسے معروف اہل علم، كثير كتب كے مصنف اور مقبول تفسير تيسير القرآن كے مصنف مولانا عبد الرحمن كيلانى نے تحرير كيا ہے- آئندہ صفحات ميں آپ يہ مضمون ملاحظہ كرسكتے ہيں- البتہ اس مضمون ميں اس امر كى وضاحت موجود نيںا ہے كہ آغا خانى اوراسماعور ں كا آپس ميں كيا تعلق ہے؟ يوں تو زير نظر مضمون ميں درج تمام عقائد كے حوالے آغا خانيوں كے زير اہتمام شائع ہونے والى مستند كتب سے ديے گئے ہيں، جن سے ان كا باہمى تعلق از خود نكهر جاتاہے ، اس كے باوجود ذيل ميں اس تعلق پر مختصر تفصيل پيش خدمت ہے :

'اسماعيلى' ايك باطنى فرقہ ہے جو امام اسمٰعيل بن جعفر الصادق كے نام سے منسوب ہے-جو حيثيت اہل السنہ والجماعہ كے ہاں قاديانيوں كى ہے كہ وہ اُنيںا غير مسلم قرار ديتے ہيں ، ايسے ہى شيعہ كے ہاں يىث حيثيت اسماعيليوں كو حاصل ہے حتىٰ كہ اثنا عشرى شيعہ بهى ان كے كافر ہونے كا عقيدہ ركهتے ہيں- بظاہريہ اہل بيت كى محبت كا دم بهرتے ہيں ليكن درحقيقت اسلام كے مسلمہ عقائد كو مندےم كرنا ان كا وطيرہ ہے- عراق ميں اس فرقہ كى نشو ونما ہوئى جس كے بعد يہ خراسان ، ايران، ہندوستان اور تركستان كى طرف پهيل گئے- ان كے عقائد ميں مجوسى افكار كے علاوہ ہندو نظريات، خصوصاً برہمنوں كے اعتقادات بكثرت پائے جاتے ہيں-حتىٰ كہ انىط كے گروہ قرامطہ كے ہاں مزدك اور زرتشت مذہب كے عقائد بهى موجود ہيں-

اسماعيليوں كے 7 بڑے گروہ ہيں :
(1) اسماعيلى قرامطه:

اہواز كے باشندے حمدان بن اشعث كى طرف يہ گروہ منسوب ہے جو بعدازاں كوفہ ميں رہائش پذير ہوا- مجوسى افكار كو اس نے اسلام ميں داخل كيا، خفيہ فوج قائم كى اور بزورِ بازو اسلامى حكومت پر قبضہ كے لئے سرگرم رہا- يہ گروہ يوں تو اسماعيل بن جعفر الصادق كى طرف منسوب ہے ليكن دراصل الحاد، اباحيت پسندى اور اسلامى اخلاق كو مندىم كرنے كے لئے مصروفِ كار ہے- قرامطہ كا اثر ورسوخ زيادہ تر شام اورعراق ميں رہا ہے-

(2) فاطمى اسماعيلى :

يہ اسماعيلى فرقے كا بنيادى گرہ ہے- اس گروہ كے حسن بن حوشب نے يمن ميں 266ہ ميں فاطمى سلطنت قائم كى-اسى فرقے كے عبيد اللہ نے تيونس ميں 297ھ ميں فاطمى سلطنت كو قائم كيا- اس كے جانشينوں ميں معز لدين اللہ نے 361ھ ميں مصر كو فتح كركے فاطمى سلطنت ميں شامل كرليا، 487 ھ تك ان كى حكومت قائم رہى-پهر انىم فاطميوں كے ذيلى گروہ مستعليفاطميوں نے 555ھ تك مصر ، حجازاور يمن پر حكومت كى- حتىٰ كہ سلطان صلاح الدين ايوبى نے 555ھ ميں مصر كو ان سے آزاد كرايا-

(3) حشيشى اسماعيلى :

حسن بن صباح (م1124ء) اس كا بانى تها- يہ لوگ حشيش كو كثرت سے استعمال كرتے- آلَمُوْت كے نام سے قلعہ قائم كركے حسن بن صباح نے اس ميں دنياوى جنت قائم كى اور مصر كى فاطمى سطنت پر قابو پانے كے لئے 525ھ ميں اپنے فدائيوں كے ذريعے مستعلى كے بيٹے آخركو اس كے دونوں بيٹوں سميت قتل كراديا-اس كے جانشين ركن الدين خورشا كى حكومت قلعہ پر اس وقت تك قائم رہى جب تك منگول جنگجو ہلاكو خان نے اس پر قبضہ نہ كرليا، اس كے بعد يہ اسماعيلى دنيا بهر ميں پهيل گئے اور اب تك دنيا كے مختلف خطوں ميں پائے جاتے ہيں-

(4) شامى اسماعيلى :

يہ فاطميوں كا ذيلى گروہ 'نزارى' ہيں -اُنيں كوئى بڑى سلطنت قائم كرنے كا موقع نہ مل سكا، ليكن اپنے علاقوں اور محلوں ميں اپنے عقائد كا پرچار كرتے رہے- قدموس، مصياف، بانياس، خوابى اور كفش كے علاوہ منطقة سلمية ميں يہ ابهى تك پائے جاتے ہيں- ان كى اہم شخصيت راشد الدين سنان ہے، جس كا لقب شيخ الجيلهے- يہ اپنے عقائد وتصرفات ميں حسن بن صباح سے ملتا جلتا شخص تها-اس نے سنانى مذہب كى بنا ڈالى اور اسماعيلى عقائد ميں 'عقيدہ تناسخ' كا بهى اضافہ كيا-

(5)بوهره اسماعيلى:

يہ فاطمى اسماعيليوں كا ذيلى گروہ مستعلی ہيں، اِنونں نے سياست كو چهوڑ كر تجارت ميں زيادہ دلچسپى لى- يمن ميں قائم قديم اسماعيلى حكومت (266ھ) سے ان كا سلسلہ چلتا ہے- يمن سے برصغير پاك وہند ميں داخل ہوئے- ہندوؤں سے بكثرت ميل جول اختيار كيا- 'بوہرہ' ہندى لفظ ہے جس كا معنى تاجر ہے- ان كے دوگروہ ہيں؛ داوٴدى بوہرے: يہ زيادہ تر ہندو پاك ميں پائے جاتے ہيں اور ان كا پيشوا ممبئى ميں قيام كرتا ہے-

سليمانى بوہرے: يہ زيادہ يمن ميں ہيں، اور ان كا پيشوا بهى يمن ميں قيام پذير ہے-

(6) آغا خانى اسماعيلى:

يہ شامى اسماعيليوں كا تسلسل ہيں- ايران ميں اُنيسويں صدى كے پلىه ثلث ميں ان كا ظونر ہوا- ان كے تين پيشوا گزر چكے ہيں :

حسن على شاہ، آغا خاں اوّل (م 1881ء) : انگريز نے اسے آغا خاں كا لقب عطا كركے ہند وپاك ميں اپنى دخل اندازى كى راہ ہموا ركرنے كے لئے افغانستان ، بعد ازاں بمبئى ميں قيام پذير كيا - كان جاتا ہے كہ سندھ پر انگريز كو حملہ كرنے كى دعوت بهى اس نے ہى دى تهى-

آغا خاں دوم، آغا على شاہ( م 1885ء) : يہ صرف 4 سال روحانى پيشوا رہا-

دوم كا بيٹا محمد حسينى، آغا خاں سوم(م1957ء) : اس نے يورپ ميں رہنے كو ترجيح دى اور دنياوى لذات وخواہشات كى پيروى كواپنا معمول بنايا-

پرنس كريم آغا خاں ، آغا خاں چہارم ( تاحال): اس نے يورپى يونيورسٹيوں ميں ہى تعليم حاصل كى- آغا خانى زيادہ تر نيروبى، دار السلام، زنجبار، مڈغا سكر،كانگو، شام اور ہند وستان كے علاوہ پاكستان كى شمالى رياستوں گلگت، چترال وغيرہ ميں پائے جاتے ہيں-كراچى ميں بهى ان كى كافى تعداد آباد ہے-

(7) واقفى اسماعيلى :

وہ لوگ جنو ں نے محمد بن اسماعيل بن جعفر كے بعد امامت كے مزيد آگے منتقل ہونے كا عقيدہ نہ ركها اور ابهى تك انىا كى واپسى كے منتظر ہيں-

يہ ہے اسماعيليوں كے 7 گروہوں كى مختصر تاريخ، چونكہ يہ تمام اماموں پر ايمان كا عقيدہ ركهتے ہيں، اسلئے امامى كهلاتے ہيں اور ان كے مذكورہ بالا اكثر گروہ امام كى شخصيت پر اختلاف كرنے كا نتيجہ ہيں- نزار اور مستعلى وغيرہ ان كے اماموں كے ہى نام ہيں-

اسماعيليوں كے عقائد كا خلاصہ

محمد بن اسماعيل بن جعفر كى نسل سے اس دو ركے امام پر ايمان لايا جائے- اصولى طور پر يہ امامت بڑے بيٹے كے حصے ميں آتى ہے، ليكن اس اُصول كى مخالفت كئى بار ہوچكى ہے-

امام معصوم ہوتا ہے اور اس معصوميت كا تصور يہ نہيں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہيں كرتا بلكہ يہ گناہ كى تاويل كركے اپنے عقائد كے حسب ِحال اس كى توجيہ كرليتے ہيں-

جو اسماعيلى اس حال ميں مرجائے كہ اپنے دوركے امام پر ايمان نہ ركهتاہو اور اس كى اطاعت كا اس نے پيمان نہ كيا ہو تو وہ جاہليت كى موت مرتا ہے-

ان كے نزديك امام متعدد ايسى صفات كا حامل ہوتا ہے جو مسلمانوں كے ہاں صرف اللہ ربّ العٰلمين سے مخصوص ہيں-امام باطنى علم كا بهى حامل ہوتا ہے اور ہر اسماعيلى اپنى كمائى سے اسے 5 واں حصہ ادا كرنے كا پابند ہے-

تقیہ اور اپنے نظريات كو پوشيدہ ركهنے پر يہ لوگ ايمان ركهتے ہيں اور ايسے مواقع پر يہ اُس سے كام ليتے ہيں جب ان پر حالات تنگ ہوجائيں-

امام ہى اسماعیلى دعوت كا محور ومركز ہے- اور ان كے عقائد اسى امام كے گرد گهومتے ہيں جو عقائد وہ دے ، اسے اختيار كرنا واجب ہوتاہے-

يہ امام ظاہر بهى ہوسكتاہے اور مستور بهى- اگر وہ ظاہر تو اس كى امامت كے دلائل كا ظاہر ہونا ضرورى نہيں، البتہ اگر وہ پوشيدہ ہو تو اس كے دلائل كا ظاہرہونا بہرحال ضرورى ہے

تناسخ كا عقیدہ بهى ان كے ہاں پايا جاتا ہے ، ان كے نزديك امام تمام انبيا كا اكيلا وارث ہوتا ہے ، ايسے ہى تمام ائمہ كرام كا بهى وہى وارث ہوتا ہے-

اللہ كى بيشتر صفات كے يہ لوگ منكر ہيں گويا اللہ ان كے نزديك عقل وتصور سے بالا تر شے ہے-ا ن كے عقائد كى مزيد تفصيلات كے لئے آئندہ مضمون كا مطالعہ كريں-

مذكورہ بالا معلومات ' ورلڈ اسمبلى آف مسلم يوتھ'WAMY كے سابق سيكرٹرى جنرل ڈاكٹر مانع حماد جنى كے زير نگرانى تيار كردہ 'انسائيكلو پيڈيا برائے اديان وفرق معاصرہ' سے ماخوذ ہيں- اس موضوع پر علامہ احسان الٰھى ظہير كى كتاب الإسماعيلية، پنجاب يونيورسٹى كے دائرہ معارفِ اسلاميہ ميں مادّہ 'إسماعيلية' اور برنارڈ ليوس كى كتاب أصول الإسماعيلية والفاطمية والقرمطيةكا مطالعہ مفيد ہوگا-

مذكورہ بالا تفصيلات راقم نے مولانا عبد الرحمن كيلانى كے مضمون كے آغاز ميں درج كرنے كے لئے تحريركى تهيں، ليكن طوالت كے باعث اسے ايك مستقل مضمون بناديا گيا ہے- مولانا كے مضمون كا مطالعہ اس كے بعد كرنا مفيد ہوگا- راقم كے نانا مرحوم مولانا عبد الرحمن كيلانى نے اپنے مضمون ميں جن عقائدكو بنياد بنايا ہے، اُس كے لئے اُنہوں نے بمبئى ميں اُنہى كى شائع كردہ كتب كو پيش نظر ركها ہے-يہ كتب خود آغا خانى تنظيموں نے شائع كى ہيں- اس سے بهى يہ ثابت ہوتا ہے كہ وہ خود يہى عقائد اختيار كرتے ہيں اور اِنہى پر عمل پيرا ہيں-