دينى مدارس كا امتيازى كردار اور امريكى مہم
ذرائع ابلاغ اور عالمى حالات پر نظر ركهنے والا ہر آدمى جانتا ہے كہ اس دور كى سپر طاقت مسلمانوں كے تعلیمى نظام كے درپے ہے، خصوصاً وہ نظامِ تعليم جس كے ذريعے مسلمان اپنے دينى عقائد كى تعليم حاصل كرتے ہيں اور اسلامى تصورات و نظريات كو پختہ كرتے ہيں- اخبارات ميں آئے روز ايسى خبريں شائع ہوتى رہتى ہيں جن ميں ايك طرف سركارى نظامِ تعليم كا قبلہ درست كرنے كے اقدامات كا تذكرہ ہوتا ہے تو دوسرى طرف دينى مدارس كو بهى اصلاح اور توازن واعتدال كا درس ديا جاتا ہے- تواتر سے شائع ہونے والى ان خبروں كے بعد ہر آدمى يہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے كہ امريكہ كوہمارے نظامِ تعليم سے آخر ايسے كونسے خطرات لاحق ہيں جن كى وجہ سے وہ ہمارى حكومت كے ذريعے ان ميں ہرقيمت پر اصلاح وترميم كے لئے دباؤ ڈال رہا ہے-
فرد كى ذ ہنى وفكرى تعمير ميں والدين، ماحول اور معاشرہ سب ہى اپنا اپنا كردار ادا كرتے ہيں ليكن جديد دور كے مخصوص حالات ميں نماياں ترين كردار اس درسگاہ كا ہوتا ہے جہاں ايك بچہ روزانہ اپنے دن كا اہم ترين حصہ تعليم حاصل كرتے ہوئے گزارتا ہے- ان اساتذہ كى طرف سے يا نصاب ونظامِ تعليم كے ذريعے جو نظريات اسے سكهائے جائيں ، وہ اس كے ذہن پر مرتسم ہوجاتے ہيں اور اس كى آئندہ زندگى كے رويوں كا بہت سا انحصار اس امر پر ہوتا ہے كہ اس نے كس نصابِ تعليم يا كن اساتذہ سے تحصيل علم كيا ہے-
اسلامى معاشرہ كو خالص اس كى اپنى راہ سے دو ركرنے اور مغربى سوچ كا خوگر بنانے كے لئے اس وقت دو قسم كے طريقہ كار اپنائے جارہے ہيں- جديد استعمارى اصطلاح ميں يہ دونوں طريقے 'ہارڈ اور سافٹ پاور' كهلاتے ہيں- امريكى جريدہ 'فارن پاليسى 'كے مدير جوزف نائى كى پيش كردہ اس اصطلاح كا مطلب يہ ہے كہ مدمقابل كو سختى كے ساتھ كسى نقطہ نظركو اپنانے پر مجبور كرنے كى بجائے ايسے طريقے استعمال كيے جائيں جن ميں شعور كے بغير وہ از خود ہى ان ترجيحات كو اپنے فكر وعمل ميں اپنا لے جو اس كا حريف اُس سے چاہتا ہے- گويا آسان الفاظ ميں جنگى يا حريفانہ حكمت ِعملى كى بجائے غيرمحسوس طريقے سے مقابل كے عقيدہ و نظريہ ميں ايسى ترميم روبہ عمل لائى جائيجس كے بعد وہ اپنے مقابل كے ذہن سے ہى سوچنے لگ جائے اور مزاحمت كى ضرورت ہى نہ رہے-جناب پروفيسر خورشيد احمدلكھتے ہيں:
"طاقت كا يہ پہلو كہ دوسرے وہ چا ہنے لگيں جو آپ چاہتے ہيں- 'سافٹ پاور' كا انحصار سياسى ايجنڈے كو ترتيب دينے كى اس قابليت پر ہوتا ہے جو دوسروں كى ترجيحات كا تعين كرے- اس حكمت ِعملى پر موٴثر عمل كے لئے 'ابلاغ كى قوت' كا استعمال مركزى اہميت ركهتا ہے- اور اقتصادى قوت كا ہدف افكار، اقدار او ركلچر كى تبديلى ہے، اسى نئى جنگ ميں اصل مزاحم قوت مقابل تہذيب كا عقيدہ، نظريہ ، اُصول او راقدار بن جاتے ہيں- اسلامى دنيا ميں عوام كى اسلام سے وابستگى اور اپنى تہذيب اور اقدار كے بارے ميں استقامت مغرب كيلئے سب سے بڑا دردِ سر بنى ہوئى ہے-" 1
فى الوقت امريكہ مسلم ممالك ميں دونوں طريقوں كو اپنا رہا ہے- بعض ممالك ميں سختى اور بزورِ بازو اپنے مقاصد كى تكميل كروانا اور بعض كو چالبازانہ حكمت ِعملى كے ذريعے اپنے مقاصد سے ہم آہنگ كرنا- پاكستان اور اسلامى دنيا كے اہم ممالك ميں ان دنوں دوسرا طريقہ استعمال كرنے كو ترجيح دى جارہی ہے- اس ميں ابلاغى قوت كے ذريعے مخالف قوم كے نكتہ نظر كو متاثر كيا جاتاہے- سروے، معلومات اور اعداد وشمار كے سائنسى ہتھكنڈوں سے اُنہيں ذ ہنى طورپر مرعوب اور آہستہ آہستہ اپنے نظريات كا قائل كيا جاتا ہے- مختلف سفارتى وفود يا سياسى بيانات كے ذريعے ملك ميں ايك مخصوص فضا سازگار كى جاتى ہے، يہ ذرائع ابلاغ ملك كى نظرياتى سرحدوں كو نقصان پہنچاتے ہيں-
اس طريقہ كا دوسرا اہم ذريعہ نصاب اور نظامِ تعليم كى تبديلى ہے-باخبر لوگ جانتے ہيں كہ نصاب او رنظامِ تعليم كى تبديلى كا يہ امريكى دباؤ صرف پاكستان ميں نہيں بلكہ مصر، كويت، يمن، افغانستان ،عراق، ملائشيا بالخصوص سعودى عرب تك پهيلا ہوا ہے-اس نصاب ونظامِ تعليم كا دباؤ ہر نئے دن بڑھتا جارہا ہے اور اس حوالے سے پاكستان ميں آغا خانيوں كا كردار ہر محب ِوطن و ملت كے لئے بہت سى پريشانيوں كا سبب بنا ہوا ہے-
گذشتہ دنوں انڈيا كے دورے پر آئے ہوئے پرنس آغا خاں نے انڈين حكومت كو نئے دور كے تقاضوں سے متعارف كراتے ہوئے 'ارشاد' فرمايا :
"روحِ عصر كو سمجھنے كى ضرورت ہے اور روح عصر يہ ہے كہ ايك عالمى آفاقى برادرى جنم لے رہى ہے جس كا منبع نظم وانصرام ايك دستور ہوگا يعنى يہ عالمى وآفاقى اور انسانى برادرى ايك دستوركے ماتحت ہوگى- اس ميں جغرافيائى حالات اور مختلف قبائلى ونسلى تقاضوں كو ملحوظ ركها جائے گا- اب يہ حقيقت بن چكى ہے جس كا جتنا جلد ادراك كرليا جائے، دنيا كے لئے اتنا ہى بہتر ہے- ان كے كہنے كا مطلب يہ ہے كہ قومى رياستوں كا دور اب ايك قصہ پارينہ ہوگيا، اب عالمى حكومت ايك حقيقت بن چكى ہے، كوئى مانے يا نہ مانے يہ ہوكر رہنا ہے- اگر اس كو تسليم كرليا جائے اور اس كا ساتھ ديا جائے تو تصادم اور تخريب سے بچا جاسكتا ہے-"2
اس عالمى قبضہ كے لئے امريكہ كى ضرورت يہ ہے كہ وہ ايسے تمام نظريات كو ابتدا ميں ہى پنپنے سے ہى روك دے جو كل كلاں اس كى برتر قوت كے لئے چيلنج بن سكتے ہيں- اس جملے ميں يہ لطيف اشارہ بهى موجود ہے كہ اس دور ميں دہشت گردى كا تصور اب يہ بن گيا ہے كہ جو اس عالمى سپر قوت كے مقاصد ميں حائل ہو اور ا س كو اپنى من مانى سے روكتا ہو، گويا وہ تصادم اور تخريب كا راستہ اختيار كرتا ہے، وہ يہ جواز ديتا ہے كہ اپنى عالمى حكومت كو برقرار ركهنے كے لئے امريكہ اس كے خلاف جارحيت استعمال كرے- دوسرے الفاظ ميں امريكہ كو دہشت گردانہ كاروائى كے لئے موقعہ فراہم نہ كرنا ہى اس دور ميں دہشت گردى ہے-جو مظلوم ظالم كے خلاف كهڑا ہوتا ہے، اس نئے عالمى دور كا دستور يہ ہے كہ اس كے ظلم كا ہاتھ روكنا دہشت گردى ہے!!
'سافٹ پاور' كے مختلف پہلووں كا جائزہ تو اس مضمون ميں ممكن نہيں، عقل وشعور ركهنے والے ابلاغى قوت كو سمجهتے اور جانتے ہيں، ايسے ہى مختلف اسلامى ممالك ميں جارى تعليمى جنگ كى بہت سى تفصيلات بهى اخبارات ميں آرہى ہيں اور يہ موضوع بهى عليحدہ سے تفصيلات كا متقاضى ہے- پاكستان ميں سركارى تعليم كے حوالے سے آغاخانيوں كو سونپا جانے والا كردار بهى ايك سال سے ہمارے ملك ميں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور حاليہ دنوں اس ميں مزيد پيش رفت ہوئى ہے- جن باتوں كى حكومت پچهلے سال ترديد كررہى تهى، وہى چيزيں كهل كر اور زيادہ شدت سے اب روبہ عمل آرہى ہيں- ہم اس موضوع پر تفصيل سے اپريل 2004ء كے شمارے ميں اپنے خيالات وخدشات كو پيش كرچكے ہيں-
ان بہت سے موضوعات پر اہل علم لكهتے رہيں گے، اور ان كے لئے بہت سے رسائل وجرائد سرگرم بهى ہيں- البتہ دينى مدارس جو اِس حاليہ امريكى مہم كا خاص ہدف ہيں، ان كے بارے ميں تاحال كوئى تفصيلى بحث ہمارى نظر سے نہيں گزرى، يوں بهى دينى مدارس سے خود وابستہ ہونے كے ناطے ان كے دفاع اور قارئين كو اس سے آگاہ كرنے كا فرض ہميں ادا كرنے كى زيادہ ضرورت ہے، اس بنا پر ہم يہاں صرف دينى مدارس كے حوالے سے اپنے خيالات اور حاليہ مہم ميں ان كو موضوع بنانے كى وجوہات پر بحث كريں گے-
كسى بهى مسئلے پر پيش قدمى سے قبل اس كے متعلق ذرائع ابلاغ ميں ايسى فضا كو تخليق كيا جاتا ہے جس كے بعد مطلوبہ مقاصد كى تحصيل كے مواقع نسبتاً آسان ہوجاتے ہيں-
دينى مدارس اور ذرائع ابلاغ
دينى مدارس مسلمانانِ برصغیر كى ايسى درخشندہ روايت ہيں جن سے اُنہوں نے اپنے دين وايمان كو محفوظ كرنے كے لئے اپنے ذاتى وسائل پر انحصار كيا ہوا ہے-يہ مدارس تاريخ ميں ايسى تابندہ مثال ہيں جس كى نظير نہ صرف دوسرى قوموں بلكہ خود دوسرے مسلمان ممالك كے ہاں بهى نہيں ملتى - اِنہى مدارس كو باقى ركهنے كے لئے يہاں كے مسلمانوں نے قربانيوں اور عزم وہمت كى ايسى تاريخ رقم كى ہے جس كا مطالعہ ايمان ويقين كو حرارت بخشتا ہے- برصغير كے مسلمانوں ميں دنيا بهر كے مسلمانوں كى بہ نسبت ملكى وملى دردكى زيادہ فراوانى، معاشرہ ميں اسلامى اقدار كى بہتر پاسدارى اور عوام الناس كى اسلام سے گہر ى وابستگى كا جو واضح فرق ديكهنے ميں آتا ہے، اس كے پیچھے ان مدارس كى زرّيں خدمات ہى كارفرما ہيں-
ان مدارس كو دنيا بهر كى سب سے بڑى اين جى او مان لينے اور ان كے محكم كردار كو تسليم كرنے كے باوجود ذرائع ابلاغ ميں مدارس كے بارے ميں تصوير كا ہميشہ ايسا رخ پيش كيا جاتا ہے ، جس كے بعد ايك عام مسلمان كے ذہن ميں ان كے بارے ميں زيادہ سے زيادہ شكوك وشبہات جنم ليں- سوچنے كا مقام ہے كہ اس قدر بهرپور ابلاغى مہم اوروافر سركارى وسائل كے باوجود دو صديوں كے لگ بهگ سے مدارس كا يہ موجودہ نظام قائم ودائم چلا آرہا ہے اور وطن كے نونہالوں كو اسلام سے روشناس كراتا آرہا ہے تو اس كے پیچھے عظيم لوگوں كى قابل قدر خدمات ہيں- يہ ايسے لوگ ہيں جو زمانے كا ساتھ دينے كى بجائے ہوا كے مخالف سمت ميں اس شان سے چلتے ہيں كہ ان كے قدم پل بهر كو ڈگمگاتے نہيں- ہواؤں كو بدل دينے كا ايسا قوى عزم ہو تب ہى ايسے زرّيں كارنامے رقم كئے جاسكتے ہيں- ان مدارس كا سب سے بڑا احسان يہ ہے كہ انہوں نے ہمارے شاندار ماضى كا تعلق ہم سے منقطع نہيں ہونے ديا اور اس سنہرے دور كو واپس لوٹانے كى كڑى بهى يہى دينى مدارس ہيں جو اگر ختم ہوجائيں تو درميان سے وہ سلسلہ منقطع ہوجائے جو ملت كے احيا اور شاندار ماضى كى طرف لوٹنے كا راستہ ہے-
بہت سے مسلمانوں كے ذہن ميں يہ مغالطہ پايا جاتاہے كہ دينى مدارس كى تاريخ كوئى زيادہ پرانى نہيں- جبكہ امر واقعہ يہ ہے كہ يہ مدارس ہى مسلمانوں كا اصل نظامِ تعليم ہيں- انہى مدارس سے مسلمانوں نے صديوں تحصيل علم كركے اُس علم وفن كى بنا ڈالى جس پر مزيد ترقى كركے آج يورپ سائنس و ٹيكنالوجى كے عروج پر پہنچا ہوا ہے- مسلمانوں كى عظيم علمى ہستياں اسى نظامِ تعليم كى پيدا وار ہيں- برصغير ميں انگريز كے آنے سے قبل يا ديگر اسلامى ممالك ميں استعمار كے تسلط سے قبل يہى مدارس وہاں كا تعليمى حوالہ اور واحد نظامِ تعليم تهے، ليكن جب اُنہيں سركارى سرپرستى سے محروم كركے، ان كے وسائل ضبط كركے، ان كے وابستگان اور فيض يافتگاں پر سركارى ہتهكنڈوں سے دنيا تنگ كرنے كى كوششيں شروع ہوئيں، تو اُس دور ميں مسلمان عوام نے اپنى مدد آپ كے تحت ان اداروں كو اپنے دينى اقدار كے تحفظ اور دينى تعليم وتربيت كے فروغ كے لئے خونِ جگر سے زندہ ركها- اس سے قبل يہ اسلامى حكومت كى سرپرستى ميں چلتے تهے اور معاشرے كے تمام طبقات كے لئے ماہرين فراہم كرتے تهے، اب يہ نجى وسائل كے بل بوتے پر آگے بڑهنے لگے اور صرف دينى تعليم اور دينى روايات كے احيا كے لئے وقف ہوگئے- چنانچہ اپنى مدد آپ كے تحت چلنے والے يہ ادارے جو اَب صرف دينى علوم كے فروغ كے لئے مختص ہيں، اپنى حاليہ نوعيت كے اعتبار سے كو ئى زيادہ قديم نہيں، البتہ اپنى اصل كے اعتبار سے يہ دينى مدارس مسلمانوں كے اُنہى مدارس كے وارث ہيں جو صديوں سے ان كے ہاں علم وتعلّم كى ضمانت رہے ہيں-
برطانوى سامراج نے ان مدارس كو ختم كرنے كى بہت كوشش كى اور اس حد تك انہيں پےہي دهكيلا كہ انہيں ان كے قابل ذكركردار كى اُميد نہ رہى ليكن آج ان مدارس سے وابستہ لوگوں نے اپنى خدمات كے بل بوتے پريہ ثابت كردكها يا كہ اب بهى اسلام كے سب سے بڑے قلعے يہى ہيں اور دورِ حاضر كى سب سے بڑى قوت انہى سے خائف ہے- ہمارى رائے ميں موجودہ حالات ميں مدارس كو ايك بار پهر وہى چيلنج درپيش ہيں جو برطانوى سامرا ج كے دو رميں پيش آئے تهے- مدارس كو اپنى بقا كى جنگ دوبارہ لڑنا ہوگى، كيونكہ اس دور كا كفر ان كى كاركردگى پر برى طرح خندہ زن ہے اور اُنہيں نيست ونابود كرنے پر تلا ہوا ہے- گذشتہ سال مارچ ميں عراق كے دورے پر آئے ہوئے امريكى عہديدار نے كہا :
"پاكستان كے دينى مدرسے انتہا پسندى كو فروغ دينے كا بڑا ذريعہ ہيں"
امريكہ كوعراق سے نہيں اُن مدرسوں سے زيادہ خطرہ ہے جہاں 7 لاكھ طلبہ زير تعليم ہيں!
"امريكہ كے سنٹر فار سٹريٹيجك اينڈ انٹرنيشنل افيرز كے ڈائريكٹر انور ڈى برگ نے ايشين ٹائمز كو انٹرويو ديتے ہوئے پاكستان كے دينى مدرسوں كے بارے ميں كہا كہ امريكہ نے 1980ء كے عشرے ميں كوتاہ نظرى پر مبنى جو پاليسياں تشكيل دى ، ان كے نتيجے ميں پاكستان ميں دينى مدرسوں كو فروغ حاصل ہوا ہے- اس وقت پاكستان كے 10 ہزار مدارس ميں 7 لاكھ طلبہ زير تعليم ہيں اور سعودى عرب اپنے شہريوں كے ذريعے ان كو 30 كروڑ ڈالر كى سالانہ امداد دے رہا ہے-"3
امريكى نائب وزير دفاع اپنى تقرير ميں كہتے ہيں كہ
"اسلامى دينى مدارس لاكهوں مسلم بچوں كو انتہاپسندانہ دينى تعليم پر اُبهارتے ہيں- ان كى سرگرميوں كو روكنے كا طريقہ يہ ہے كہ ان كے بجٹ كى ترسيل پرقدغنيں عائد كى جائيں، اس سے بهى بہتر ذريعہ يہ ہے كہ مقامى طور پر ان مدارس كے مخالف افراد، رجحانات او راداروں كو تقويت اور مدد پہنچائى جائے تاكہ وہ انتہاپسندى كے سرچشموں كا مقابلہ كرسكيں-"4
امريكى كانگريس نے مدارس كو مالى امداد كاسلسلہ روكنے كے لئے كانگريس اركان پر مشتمل ايك خصوصى كميٹى تشكيل دى ہے جنہوں نے اس سلسلے ميں مختلف اقدامات كيے ہيں- ان اقدامات ميں سے يہ ہے كہ سعودى عرب پر دينى مدارس سے تعاون كرنے والے اہم اداروں كو بند كرنے كے لئے دباؤ ڈالا گيا، يہ ادارے سعودى عوام سے صدقات جمع كركے دنيا بهر ميں خرچ كرتے تهے- ليكن گذشتہ دو تين سالوں ميں ان كى سرگرميوں كو روك ديا گيا ہے- ايسے قابل ذكر ادار وں ميں حرمين فاؤنڈيشن اور ادارة المساجد والمشاريع الخيريہ، رياض كا نام ليا جاسكتا ہے-
يمن ميں دينى تعليمى اداروں كو بند كروانے كے لئے اس قدر دباؤ ڈالا كہ حكومت كو ہار ماننا پڑى چنانچہ يمن كے صدر على عبد اللہ صالح نے واضح الفاظ ميں اس كا اعترا ف بهى كيا كہ اگر ہم دينى معاہد كو قبضہ ميں نہ ليتے تو ہمارا ملك بهى عراق اور افغانستان جيسے انجام سے دوچار ہوتا-
ايسے ہى امريكہ نے عالمى امداد كے اداروں (ورلڈبنك، ورلڈ مانيٹرنگ فنڈ اور يونيسكو وغيرہ) كو اس امر كا پابند كيا ہے كہ وہ انہى اسلامى ممالك كو امداد فراہم كرے جو اپنے ہاں دينى تعليم كے اداروں كو بند كريں يا كم از كم ان كے نصاب ميں اصلاح پر دباؤ ڈاليں-
اس سلسلے ميں دباؤ كے علاوہ ترغيب كا طريقہ كار بهى استعمال كيا جارہا ہے- امريكى انتظاميہ نے عرب ممالك كو 150 ملين ڈالر كى فور ى امداد كى پيش كش كى ہے جو واشنگٹن كے نقطہ نظر سے دينى تعليم كى اصلاح ، خواتين كى تعليم اور جمہوريت كے فروغ كے مطالبات كى پابندى پر 300 ملين ڈالر تك بڑهائى جاسكتى ہے-
جہاں تك پاكستان كا تعلق ہے تو اخبارات ميں ہم يہ پڑھ چكے ہيں كہ پاكستانى حكومت كو ان مدارس كى اصلاح كے لئے ايك ملين ڈالر كى امداد دى گئى ہے جبكہ كانگريس ميں ہيلرى كلنٹن نے يہ بهى كہا ہے كہ اس قدر بڑے مقصد كے لئے پاكستانى حكومت كو يہ مدد قطعاً ناكافى ہے- جنرل مشرف يہ كام كرنا تو چاہتے ہيں ، ليكن اس كے لئے اُنہيں كم ازكم 5 ملين ڈالر كى مدد ديناضرورى ہوگا-
امريكى حكومت اس سلسلے ميں كافى عرصہ سے سرگرم ہے - امريكى حكام نے آغاز ميں جب يہ مسئلہ جنرل مشرف كے سامنے پيش كيا تو انہوں نے جناب محمود احمد غازى كو مدارس كى اصلاح كى ذمہ دارى سونپى، بعد ازاں يہى ذمہ دارى 'قومى تعمير نو بيورو' كے چيئرمين جنرل تنوير نقوى كے سپرد كى گئى، امريكى سينيٹروں نے اپنى ملاقاتوں ميں پاكستان حكومت پر اس سلسلے ميں دباؤ ڈالے ركها- حتىٰ كہ سابق وفاقى وزير تعليم زبيدہ جلال كو تو اس امر كا اعتراف كرتے ہى بنى كہ
"ہم دينى مدارس كو سرے سے ختم كرنے پر قادر نہيں ہيں البتہ سركارى سطح پر دار العلوم كے قيام كے ذريعے ان كے اثر ورسوخ كوكم كرسكتے ہيں- اُنہوں نے كہا كہ ہم ان مدارس ميں دينى تعليم كے ساتھ ساتھ دنياوى ، فنى اور پيشہ وارانہ تعليم حاصل كرنے پر بهى زور ڈال رہے ہيں تاكہ يہ طلبہ قومى دهارے ميں آسكيں-" 5
جہاں تك پاكستانى حكومت كا تعلق ہے تو وہ مدارس كے بارے ميں كوئى اہم پيش رفت كرنے ميں تاحال كامياب نہيں ہوسكى- سب سے پہلے مدارس كو زكوٰة فنڈ سے ملنے والى معمولى امداد كو كلى طورپر بند كيا گياپهر مدار س كو بهرپور امداد كے نام پر حكومت نے زير بار كرنا چاہا تو مدارس نے ايسى امداد كو قبول نہ كيا، بعد ازاں مدرسہ ايجوكيشن بورڈ كا قيام عمل ميں لايا گياليكن اس سے بهى خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے- كچھ عرصہ سے مدارس اور مساجد كو رجسٹريشن كے بغير قائم نہ كرنے كى پابندى بهى لگائى جاچكى ہے- اب صورتحال يہ ہے كہ حكومت مزيد اقدامات كے بجائے بيان بازى اور ابلاغى قوت كے ذريعے فضا كو اس حد تك سازگار بنانے ميں مصروف ہے كہ جب وہ مدارس پر ہاتھ ڈالے تو قوى مزاحمت كے امكانات باقى نہ رہيں-
ان حالات ميں ضرورت اس امر كى ہے كہ مدارس سے وابستہ لوگ اپنى قوت كا جائزہ ليں، اور مسلمان عوام كو بهى اپنى كاركردگى سے متعارف كرائيں تاكہ جن عوام كى مدد سے اُنہوں نے برطانوى سامراج كا سامنا كيا، اُن كى مدد سے آج بهى وہ سرخرو ہو سكيں- اس امر ميں كوئى شبہ نہيں كہ مدارس كى يہ خدمات اگر علماء كرام كے بے مثال عزم وہمت كا نتيجہ ہيں تو اس كے ساتھ ساتھ عوام الناس كا تعاون بهى شامل رہا ہے-اگر برصغير كے مسلمان ان اداروں كے تحفظ كے لئے حساس نہ ہوتے تو آج علماء كرام ان قابل قدر خدمات كے كبهى امين نہ ہوتے- ان اداروں كى بنيادوں ميں علماء كے انسانى وسائل (Human resources) اور مسلمان عوام كے مالى وسائل (Financial support)شامل ہيں!!
اس وقت دينى مدارس مغربى دنيا كا سب سے مرغوب موضوع ہيں- دنيا بهر ميں اس حوالے سے چھپنے والى كتب ورپورٹس تو ايك طرف رہيں ، مغربى يونيورسٹيوں ميں پاكستان كے دينى مدارس كے بارے ميں غير معمولى تحقيقى كام ہورہا ہے- خود راقم الحروف كا گذشتہ چند ماہ ميں مدارس پر يورپ كى دو بڑى يونيورسٹيوں (آكسفورڈ اور كيلى فورنيا يونيورسٹى) كے طلبہ عليحدہ عليحدہ انٹرويو كرچكے ہيں، مدارس كے موضوع پر كى جانے والى اپنى تحقيق كے سلسلے ميں انہوں نے كئى سوالات كئے - آغاز ميں مدار س كے بارے ميں ان كا موقف منفى ہوتا ہے، ليكن آخر كار دونوں ٹيموں نے ہمارے نقطہ نظر سے اتفاق كيا اور مدارس كے مثبت كردار كو سراہا-
مدارس كے بارے ميں مختلف نوعيت كے اعتراضات كئے جاتے ہيں اور ان كے خلاف پروپيگنڈے كا بازار گرم ہے ليكن ان كى اس مثبت كاركردگى سے پاكستانى عوام كو كبهى متعارف نہيں كرايا جاتا، ذيل ميں ان كى خدمات كا ايك مختصر تعارف پيش كيا جاتا ہے :
دينى مدارس كى خصوصيات
دينى مدارس يوں تو پرائيويٹ سطح پركام كرنے والے چند ايك ادارے ہيں، جن ميں عموماً معمولى استعداد كے بچوں كو تعليم حاصل كرنے كے لئے داخل كر ا ديا جاتا ہے- بعض لوگ تو اُنہيں مساكين اور يتيم بچوں كے مراكز سے زيادہ اہميت دينے كو تيار نہيں- غيروں سے زيادہ اپنوں كو ان پر اعتراضات ہيں- كوئى انہيں فرقہ واريت كا طعنہ ديتا ہے تو كوئى تنگ نظرى كا مجرم ٹھہراتا ہے- كہيں قرآن كو نظر انداز كرنے كا الزام ديا جاتاہے تو كہيں انتہا پسندى يا دہشت گردى كى پھبتى كسى جاتى ہے، اس كے باوجود دينى مدارس اپنے كام ميں مگن ہيں، اور اپنے اس كام كى بدولت پاكستانى معاشرے ميں اپنا وزن ركهتے ہيں-
كوئى تعلیمى ادارہ يا نظام تعليم بذاتِ خود قومى تعمير كے كسى منصوبے ميں شريك نہيں ہوتا بلكہ وہ ايسے افرادِ كار تيار كرتا ہے يا اپنے ہاں زير تعليم بچوں كى ايسى ذہن سازى اور تربيت كرتا ہے كہ اس علم كى تكميل كے بعد وہ طلبہ معاشرے ميں مخصوص كردار ادا كرنے كے قابل ہوجاتے ہيں- اس لحاظ سے دينى مدارس اسلامى دنيا ميں اسلام كے نام پر ہونے والے تمام كاموں كى ايك نرسرى كى حيثيت ركهتے ہيں-اسلامى منصوبوں كو يہاں سے تازہ خون فراہم ہوتا ہے جن كے ذريعے وہ اپنے معاشرے ميں نفوذ كرسكتے ہيں- جہاں تك مدارس سے فيض يافتہ علما پر عوام كے اعتماد كا تعلق ہے تو درج ذيل حقائق ہمارے پيش نظر رہنے چاہئيں :
(1) پاكستان ميں روزمرہ پيش آنے والے تمام مسائل ميں شريعت كى رہنمائى كے لئے عوام الناس دينى مدارس كے فيض يافتگان كى طرف رخ كرتے ہيں- كسى بڑے سے بڑے دانشور يا اسلاميات كے ماہر كو پاكستان كا معاشرہ يہ مقام دينے كے لئے تيار نہيں كہ وہ ان كے مسائل ميں اُنہيں فتوىٰ دے سكے- حتىٰ كہ جو لوگ دينى مدارس سے فيض يافتہ نہيں ہيں وہ خود بهى فتوىٰ دينے كا اپنے آپ كو اہل نہيں پاتے اور لوگوں كو مدارس كے علما كى طرف رجوع كرنے كى تلقين كرتے ہيں- اس لحاظ سے پاكستان كے عوام كسى پيش آمدہ مسئلہ پر شرعى نقطہ نظر جاننے كے لئے صرف مدارس كے علما پر ہى اعتماد كرتے ہيں-چنانچہ طلاق و رضاعت كا كوئى مسئلہ يا وراثت كى كوئى تقسيم ،ايسے ہى عبادات ومعاملات ميں كوئى سوال پيش آئے تو اس كا حل صرف مدارس كے علما سے ہى كروايا جاتا ہے-
(2) ہر معاشرہ ميں كچھ رسوم ووراج پائى جاتى ہيں- پاكستان كے اسلامى معاشرے ميں عوام كى ان معاشرتى ضروريات كى تكميل بهى صرف علماء دين ہى كرتے ہيں- ان معاشرتى ضروريات ميں نكاح، جنازہ، ولادت جيسى كئى رسوم شامل ہيں- ان ميں سے ايسے رسوم ورواج بهى ہيں جو ہندوانہ تہذيب كے زير اثر ہمارے ہاں رواج پا گئے ہيں، ليكن ان رسوم كے غلط يا درست ہونے سے قطع نظر ان كے لئے علماء مدارس كى ہى خدمات لى جاتى ہيں-
(3) مسجد كسى بهى معاشرتى يونٹ كى ايك اكائى ہے اور اسلام ميں مقامِعبادت ہونے كى بجائے مسجد مسلمانوں كى تمام اجتماعى ضروريات كے لئے ايك مركز كى حيثيت ركھتى ہے- دورِ نبوى ميں مسجد عبادات كے علاوہ عدل وانصاف، ضيافت ومہمان نوازى، مركز ِتعليم، مركز حكومت اور مشاورت و كميونٹى سنٹر كے طور پر استعمال ہوتى رہى ہے-گوكہ بعد ميں بادشاہوں نے مسجد كے تقدس سے باہر نكل كر اپنے شاہى دربار سجا ليے كيونكہ ان كے دنيادارانہ اُمور كى مسجد متحمل نہيں ہوسكتى تهى- البتہ اس كے باوجود مسجد كا مركزى تشخص كافى حد تك قائم ہے-
پاكستان كى مساجد يعنى اسلامى كميونٹى سنٹرز 100 فيصد مدارس كے فيض يافتہ علما كے پاس ہيں- ان مدارس ميں خطباتِ جمعہ كے ذريعے مدارس كے علما كو اپنے خيالات عوام تك پہنچانے كے وسيع مواقع ميسر آتے ہيں-ان مساجد ميں امامت كے فرائض بهى يہى مدارس كے فاضلين انجام ديتے ہيں- ياد رہے كہ پاكستان ميں خطبہ جمعہ 99 فيصد مدارس كے علما ہى ديتے ہيں-
ان مساجد ميں محلے كے بچوں كو ناظرہ قرآن پڑهانا ہو يا نوجوانوں كو اسلام سے آگاہ كرنے كا كوئى جزوقتى كورس، يہ خدمات بهى انہى علما كے حصہ ميں آتى ہيں- اگر مسجد كے امام وخطيب باصلاحيت اور متقى شخصيت ہوں تو محلے كے رہائشى اپنے عام امور ميں اُن سے مشورہ اورفيصلہ بهى ليتے ہيں- اور ان كو اپنے محلہ ميں قدر واحترام كى نظر سے ديكها جاتا ہے- لوگ اپنے مسائل كے لئے اُن سے رجوع كرتے ہيں-
(4)پاكستان ميں دينى لٹريچر شائع كرنے والے كئى مكتبہ جات ہيں- ان دينى مكتبات كو لكھنے والے اہل علم مدارس كے اساتذہ اور ان ميں كام كرنے والے رجالِ كار مدارس سے ہى دستياب ہوتے ہيں- ايسے ہى دينى مدارس كے يہ فاضلين سينكڑوں كى تعداد ميں دينى جرائد شائع كرتے ہيں- مدارس كے علاوہ ديگر ذرائع سے شائع ہونے والے دينى جرائد كى تعداد 8،10 فيصدسے زيادہ نہيں-
(5) مدارس كے يہ فيض يافتگاں اپنى دينى دعوت كو پهيلانے كے لئے حلقوں اور جلسوں كا بكثرت اہتمام كرتے ہيں- يہ جلسے اور حلقے كچھ عرصے بعد تنظيموں اور اداروں كى شكل اختيار كرليتے ہيں- مدارس كے ان فيض يافتگان كى تنظيميں ہزاروں كى تعداد ميں ہيں اور ہر تنظيم اشاعتى اور تحريكى لٹريچر شائع كرتى ہے او رعوامُ الناس ميں اپنا اپنا حلقہ ركھتى ہے-
ان تنظيموں كى دو قسميں ہيں: ان ميں سے بعض تو ايسى ہيں جو صرف علما يامدارس كے فيض يافتگاں كو منظم كرنے كے لئے ہيں، مثلاً جمعيت علماءِ اسلام ،جمعيت علماءِ پاكستان وغيرہ يا اتحاد العلماء كى ديگر مجالس- ليكن اكثر تنظيميں جنہيں مدارس كے علما ہى چلاتے ہيں، عوام الناس كو دين سے قريب ركهنے كا فرض انجام ديتى ہيں- اس لحاظ سے ملك ميں جارى اكثر وبيشتر دينى تنظيموں كے پیچھے مدارس كے علما ہى سرگرم ہيں-
تہذيب ِجديد كے پروردہ اور ذرائع ابلاغ سے متاثرہ بڑے شہروں ميں بسنے والے چند اہم حضرات كو چهوڑ كر پاكستان كے عوام الناس ميں ان تنظيموں كى مقبوليت كافى زيادہ پائى جاتى ہے- چنانچہ وطن عزيز ميں كئى تنظيميں ايسى ہيں جن كے اجتماعات لاكهوں سے متجاوز ہوتے ہيں- پاكستان ميں اكتوبر ، نومبر كا مہينہ دينى تنظيموں كے اجتماعات كا ہوتا ہے-ان دنوں يہ تنظيميں ايسے بڑے اجتماعات كرتى ہيں، جن كى بنا پر ملك ميں ايك خاص اسلامى كلچر پيدا ہوتا ہے اور ديندارى كى روايات كو فروغ حاصل ہوتا ہے- ايسے دينى اجتماعات كى مثاليں دنيا كے ديگر اسلامى ممالك ميں ناپيد ہيں- بڑے اجتماعات كرنے والى ان جماعتوں ميں تبليغى جماعت، جماعت ِاسلامى، جماعة الدعوة ، دعوتِ اسلامى، تحريك منہاج القرآن اوراسلامى جمعيت طلبہ كى تنظيميں كافى شہرت ركھتى ہيں-ان دنوں كوئى شخص ان دينى تنظيموں كے اجتماعات كے اعداد وشمار پر نظر ركهے تواسے ان كى عوام ميں گهر ى جڑوں كا بخوبى ادراك ہوسكتا ہے-
پاكستان كى يہ دينى تنظيميں نہ صر ف ملك بهر ميں اپنا اثرورسوخ ركتىب ہيں بلكہ دنيا بهرميں ان كے يونٹ كام كررہے ہيں- حيران كن بات يہ ہے كہ پاكستان سے پروان چڑهنے والى يہ جماعتيں دنيا بهر ميں اپنى دعوت پيش كرتى ہيں، ايسى جماعتوں ميں پاكستان كى تبليغى جماعت، جماعت ِاسلامى او رجماعة الدعوة كى مثال دى جاسكتى ہے جن كى دعوت پاكستا ن كے علاوہ بيرونِ پاكستان بهى بہت زيادہ پلىي ہوئى ہے- ايسے ہى تحريك ِمنہاج القرآن اور تنظيم اسلامى اپنے انتظامى يونٹس كى بنا پر عالمى كردار ركتى ہيں-
مذكورہ بالا تنظیمیں جزوى استثناء كے ساتھ مدارس كے علما كے زير نگرانى چلتى ہيں، اگر كسى تنظيم كو مدارس كے فضلا نے منظم نہيں بهى كيا تو اس تنظيم ميں حركت اور روح پيدا كرنے كے لئے بہر حال انہى فضلاے مدارس كى خدمات حاصل كى جاتى ہيں-
(6) دينى مدارس كے علماء پر عوام كے اعتماد كا يہ عالم ہے كہ حكومت كئى سركارى كميٹيوں ميں ان كے بغير فيصلے كرے تو اس كو مطلوبہ وقعت حاصل نہيں ہوتى- يہى وجہ ہے كہ زكوة وعشر كميٹى ہو يا روٴيت ِہلال كميٹى، ان ميں دينى مدارس كے علما كو نمائندگى دينے پرحكومت مجبور رہتى ہے- شريعت ِاسلاميہ كى بنا پر ہونے والے فيصلوں ميں عدالتيں ايسے فاضل علما كى خدمات لينے كى پابند ہيں جو دينى علوم ميں درك ركهتے ہيں- حكومت كى خواہش اور كوشش سے قطع نظر اس اہليت كى تكميل بهى علماء مدارس ہى كرتے ہيں-
(7) پاكستان كے ان دينى مدارس ميں كئى علوم ايسے ہيں، جو صرف يہاں ہى پڑهائے جاتے ہيں، اور اگر مدارس يہ خدمات ختم كرديں تو ملك ميں اِن علوم وفنون كا وجود ہى ناپيد ہوجائے- ايسے علوم ميں حفظ ِقرآن كے جملہ مدارس كے علاوہ تجويد وقراء ت كا علم شامل ہے-
برصغيرجو اسلامى دنيا ميں حفظ قرآن كے حوالے سے امتيازى شان ركهتا ہے، اور يہاں حافظ طلبہ كى تعداد كسى بهى اسلامى ملك كے حفاظ سے كہيں زيادہ ہے، يہ امتيازہميں صرف دينى مدارس كى خدمات كى بدولت حاصل ہواہے-غالباً سركارى سطح پر حفظ قرآن كا ايك ادارہ بهى كام نہيں كررہا، پرائيويٹ سطح پر اس قدر وسيع نيٹ ورك واقعتا بعض مخلص لوگوں كى ان تھك كاوشوں كا ثمرہ ہے-
ايسے ہى ملك بهر ميں حسن قراء ت كے مقابلوں ميں جو قارى شريك ہوتے ہيں، وہ حسن قراء ت كے لئے علم تجويد مدارس سے ہى پڑهتے ہيں- ايسے عو م كى فہرست بہت طويل ہے جن كے لئے صرف مدارس ہى مصروفِ عمل ہيں- اُن ميں علم وراثت، علم قراء ات، علم رسم القرآن وغيرہ كا شمار كيا جاسكتا ہے-يہ علوم سركارى سطح پر كہيں نہيں پڑهائے جاتے- جہاں تك باقى علوم مثلاً تفسير قرآن، مطالعہ احاديث، اصول تفسر ، اصول حديث، فقہ واصول فقہ كا تعلق ہے، يا آلى علوم مثلاً نحو وصرف يا منطق وغيرہ تو ان كى تعليم سركارى اداروں ميں صر ف ابتدائى درجے كى ہوتى ہے- ان خالصتاً اسلامى علوم ميں بصرات، درك اور مہارت دينى مدارس كے باہرگويا ناپيد ہے- مدارس كے باہر جن لوگوں نے ان علوم كے بارے ميں نماياں كام كيا ہے، ان كا زيادہ تركام ان علوم كے بارے ميں منفى يا معترضانہ نوعيت كا رہا ہے، الا ما شاء اللہ-
بہت سے سينئر افسران كو ملازمت سے ريٹائرمنٹ كے بعد قرآن كى تفسير يا حديث كا شوق جب چراتا ہے تو وہ اسلامى تعليمات كا حليہ بگاڑنے كے علاوہ كوئى قابل قدركام نہيں كرپاتے-كيونكہ ديگر علوم كى طرح اسلامى علوم پر بهى كام كرنے كے لئے باقاعدہ تعليم اور تربيت وتجربہ كى ضرورت ہوتى ہے-
ہمارے اس دعوے كا يہ مطلب خدانخواستہ نہيں ہے كہ مدارس كے باہر اسلام كى خدمت كا وجود نہيں ہے، اسلام كى خدمت اورچيز ہے اور علوم اسلاميہ ميں درك وبصيرت اور مفہوم ركھتى ہے- الحمد للہ پاكستان ميں بعض ايسى جماعتيں اور نماياں شخصيات بهى پائى جاتى ہيں، جن كا قابل قدر كام دينى مدارس كے لئے بهى درخشندہ مثال ہے-اللہ ان سے دين كى مزيد خدمت لے- آمين!
دينى مدارس كا يہى وہ كردار ہے جوملك ميں اسلامى اساس كو مضبوط كرتاہے-آپ غور كیجئے كہ كيا مذكورہ بالا كردار ميں كسى منفى نوعیت كى سرگرمى پائى جاتى ہے يا دين كے فروغ كے ليے اصلاح ودعوت كا يہ عمل اہل دين كا امتياز اور فرض ہے- اس كے باوجود مدارس كو اِسى كردار پر تنقيد كا نشانہ بنايا جاتاہے-
كسى كام كى افاديت جانچنے كے دو پہلو ہوتے ہيں، ايك پہلو تو يہ كہ ديكها جائے كہ اس كام كے ذريعے كون سے مقاصد پورے ہوئے ہيں، كون سے خلا ايسے ہيں جو پر ہوئے ہيں- اگر يہ كام نہ ہوتا تو پهر كن مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا- اس پہلو ميں جو كچھ حاصل ہوا ہے ، ان پر توجہ كى جاتى ہے- كسى كام كى افاديت كو جانچنے كا يہ ايك صحت مندانہ طرزِ عمل ہے-
دوسرا پہلو يہ ہے كہ ا س امر كا جائزہ ليا جائے كہ اس كام كے كون سے رُخ باقى رہ گئے ہيں- كن اُمور ميں مزيد كام كرنے كى ضرورت ہے او ركون سے گوشے ايسے ہيں جن كى طرف توجہ نہيں ہوسكى-لازمى سى بات ہے كہ ہركام ميں بہترى اور اصلاح كى گنجائش ہميشہ رہتى ہے اور كمال كى كوئى حد نہيں- يہ انسان كے تخيل كى پرواز ہى ہے كہ وہ بلند مقاصد تك پلك جهپكتے ميں پہنچ جاتا ہے ليكن ان مقاصد كو عملى پيكر عطا كرنے كيلئے مسلسل جدوجہد كى ضرورت ہوتى ہے-
سابقہ اوراق ميں دينى مدارس كے جس كردار كا جائزہ ہم نے ليا ہے، وہ ان كا مثبت پہلو ہے جبكہ ذرائع ابلاغ ميں ہميشہ ان كو منفى پہلو سے پيش كيا اور اسى كے مطابق جانچا جاتاہے- يہى وجہ كہ ہميشہ ان كے بارے ميں ان سَلبيات كا تذكرہ كيا جاتاہے جو وہ بوجوہ حاصل نہيں كرپائے ليكن ان پہلوؤں كو كبهى شمار نہيں كيا جاتا جو ان كى و جہ سے ہمارے معاشرے كو حاصل ہيں- دينى مدارس انسانى اور مالى وسائل كى جس قلت ميں ، اپنے زورِ بازو پر انحصار كركے اپنے وجود كو برقرار ركهے ہوئے ہيں، ايسے ميں اس اعتبار سے ان كى جانچ كرنا كہ انہوں نے كونسے گوشے باقى چهوڑے ہيں، ايك زيادتى ہے- مدارس كو چهوڑيے ، اگر پاكستان ميں باقى كاموں كے بارے ميں بهى ايسا جائزہ ليا جائے جو ملكى وسائل كے ايك بڑے حصے كو صرف كرتے ہيں تو اس نوعيت كے اعتراض كا وہ بهى سامنا نہيں كرپائيں گے- اس سلسلے ميں سركارى تعليمى اداروں كى مثال دى جاسكتى ہے- اگر ان تعليمى اداروں كى كاركردگى كا جائزہ اس اعتبار سے ليا جائے جو دنيا كے ديگر نظام ہائے تعليم اپنى قوم كو دے رہے ہيں، تو اس سلسلے ميں شرمسارى كے سوا كچھ حاصل نہ ہوگا-
ديگر ممالك كے تعليمى نظام اپنى قوم كو نامور سائنسدان، مخلص سياست دان، ذمہ دار شہرى اور مختلف ميدانوں كے ماہرين كى ايسى بڑى كھیپ دے رہے ہيں، جو ان كے ممالك ميں ترقى كى مضبوط بنياد قائم كرتے ہيں- جبكہ ہمارا سركارى نظامِ تعليم تو معيارى تعليم دينے سے ہى قاصر ہے، اس تعليمى خلا كو پورا كرنے كے لئے بے شمارپرائيويٹ تعليمى ادارے ميدان ميں اُترے ہوئے ہيں، اورآج تعليمى امتياز سركارى اداروں كے بجائے بعض پرائيويٹ اداروں كے پاس ہے- آج پاكستان قوموں كى صف ميں بہت پیچھے كهڑا ہے، معاشى سطح پر غيروں كا محتاج ہے، سياسى نظم اور سفارتى ڈپلوميسى ميں ديگر اقوام سے بہت پیچھے ہے تو ا س كے ذمہ دار مدارس كى بجائے يہى جديد تعليم كے اداروں كے فاضلين ہيں-
ہم قومى سطح پر جس انحطاط اور كمزورى كا شكار ہيں، يہ دينى مدارس بهى معاشرے كے انہى افراد كے قائم كيے ہوئے ہيں- ان سے غيرمعمولى كردار كى توقع كرنا اور اپنے مجموعى قومى رجحانات يا كردار كو نظرانداز كردينا كہاں كا انصاف ہے!!
مدارس كا كردار اسى حد تك ہے كہ اُنہوں نے ہمارى روايات كو تحفظ عطا كرركها ہے، اور ہمارى دينى ضروريات ميں انہوں نے تعطل نہيں آنے ديا،اس ميدان ميں ہم مدارس كے احسان مند ہيں- اگر حكومتى، تعليمى ،ابلاغى ، عوامى، انسانى اور مالى سطح پر ان كا جائز مقام اور وسائل اُنہيں ديے جائيں تو يہ مدارس روايات كے تحفظ سے آگے بڑھ كر نئے زمانے كے چيلنج كا سامنا بهى كرسكتے ہيں- فى الوقت ان كے اِسى كردار كا اعتراف كرنے كى ضرور ت ہے، يہى بات علامہ اقبال نے مدارس پر اعتراض كرنے والوں سے كہى تهى:
"ان مكتبوں كو اسى حالت ميں رہنے دو، غريب مسلمانوں كے بچوں كو انہى مدارس ميں پڑهنے دو، اگر يہ ملا اور درويش نہ رہے تو جانتے ہو، كيا ہوگا؟ جو كچھ ہوگا ، ميں اسے اپنى آنكھوں سے ديكھ آيا ہوں- اگر ہندوستانى مسلمان ان مدرسوں كے اثر سے محروم ہوگئے تو بالكل اسى طرح ہوگا جس طرح اَندلس ميں مسلمانوں كى آٹھ سو برس كى حكومت كے باوجود آج غرناطہ او رقرطبہ كے كهنڈرات اور الحمرا كے نشانات كے سوا اسلام كے پيروؤں اور اسلامى تہذيب كے آثار كا كوئى نقش نہيں ملتا- ہندوستان ميں بهى آگرہ كے تاج محل اور دِلى كے لال قلعے كے سوا مسلمانوں كى آٹھ سو سالہ حكومت او ران كى تہذيب كا كوئى نشان نہيں ملے گا-"
اصل ا عتراض
دينى مدارس كے خلاف جارى اس مہم كے پس پردہ مغرب كا در اصل يہ تصور ہے كہ اس دور كا انسان بہت ترقى كر چكا ہے ، اور اس ترقى كے بعد انسان كا ماضى كى طرف رجوع كرنا قدامت پسندى اور بنياد پرستى ہے- ايسے ہى اس دور ميں مغرب نے علوم كا جو انداز واستدلال اور حوالہ متعارف كرايا ہے، اُسے ہى اس دور كا واحد معيار ہونا چاہئے- اور مغربى ممالك كى پيش كردہ تہذيب وتمدن كے مقابل كوئى دوسرا تہذيبى تصور متعارف يا زندہ نہيں رہنا چاہئے-
جبكہ يہ دينى مدارس ہى ہيں جو مسلمانوں كو ان كے شاندار ماضى سے جوڑے ركہنے كا مضبوط وسيلہ ہيں-مساجد كے خطبا جو مدارس كے ہى فیض يافتہ ہوتے ہيں، پر اعتراض كيا جاتا ہے كہ وہ سامعين كے ذ ہنى معيار كے پيش نظر گفتگو نہيں كرتے، ليكن اس كے باوجود سامعين كو اپنے شاندار ماضى پر مبنى قصے سنا كر جس طرح اسلام سے منسلك كئے ركهتے ہيں، اُ س سے ان كا اعتقاد متزلزل نہيں ہوتا- آج پاكستان كا ہر مخلص مسلمان خلافت ِراشدہ كا دور لوٹنے كى تمنا دل ميں لئے پهرتا ہے، او راس كو تصور ميں 'دنياوى جنت ' سے تعبير كرتا ہے، جب صلوٰة و زكوٰة كا نظام اس طرح قائم ودائم ہو كہ زكوٰة لينے والا ميسر نہ آئے تو اس كے پس پردہ جمعہ كے خطيب سے سنے ہوئے وہ واقعات ہيں جو وہ اپنى زندگى ميں تكرار سے سنتے رہتے ہيں- اس سے كم از كم اپنے شاندار ماضى سے ان كا تعلق جڑا رہتا ہے او رجمعہ كا خطيب اسلام سے ان كايہ تعلق ٹوٹنے نہيں ديتا- اس دور زوال ميں خطبا كى يہ خدمت بهى بڑى قابل قدر ہے!!
دينى مدارس سے فيض يافتہ ان علما كى مساعى كا حاصل يہ ہے كہ پاكستان ميں اسلامى ثقافت ابهى تك كسى درجے ميں موجو دہے- جن ممالك ميں يہ مدارس موجود نہيں وہاں كے مسلمان پورى طرح مغربى تہذيب ميں رنگے ہوئے ہيں- ايسے ممالك ميں مصر، شام، اُردن ، فلسطين اور مراكش وغيرہ كى مثال دى جاسكتى ہے-جو لوگ دنيا كا سفر كرتے ہيں، ان سے پاكستان اور دنيا كے ديگر اسلامى ممالك كا ثقافتى فرق ڈهكا چھپا نہيں-
آج بهى ہم ذرا غور سے دیكھیں تو اسلام كى لازم كردہ احكامات كى پاسدارى سب سے زيادہ دينى مدارس سے وابستہ لوگوں ميں ہى پائى جاتى ہے- داڑهى اور برقعہ ، صرف مولوى كى شناخت نہيں، بلكہ نبى كريم كے فرامين كى روسے ہرمسلمان پر فرض ہے- شلوار كا ٹخنوں سے بلند ہونا يا غير مسلموں جيسى وضع قطع اختيار نہ كرنا اور ان كى مشابہت والا لباس نہ پہننا كوئى اختيارى امر نہيں بلكہ ہرمسلمان كے لئے ضرورى ہے، ليكن ان اُمور كى بهرپور پابندى مدارس سے وابستہ لوگوں ميں نظر آتى ہے- جس طرح ہم لوگ اسلامى تقويم (ہجرى كیلنڈر) كو بالكل نظر انداز كرچكے ہيں، ايسے ہى اسلامى تعليم كى ضرورت بهى ہم لوگوں كے ذہنوں سے محو ہوچكى ہے، ليكن دينى مدارس سے فيض يافتہ لوگ جنہيں ہم 'ملا' يا 'مولوى' كے نام سے گويا ثقافتى گالى ديتے ہيں، ان اسلامى احكامات پر زمانے بهر كے اعتراضات كو نظر انداز كرتے يكسوئى سے آج تك عمل پيرا ہيں- اور ہم نے گويا يہ فرض كرركها ہے كہ يہ سب صرف مولوى كى شناخت ہے جبكہ ايسا ہرگزنہيں، مذكورہ بالا تمام احكامات مستحب ومباح كى بجائے ہر مسلمان پر وجوب كے درجے ميں لازم ہوتے ہيں- يہ تمام اوصاف انسان كى شخصى مضبوطى اور فكرى استحكام پر دلالت كرتے ہيں-اور قوموں كى برادرى ميں خودى كے ساتھ جينے كے لئے اپنى ثقافت كو اپنانے كى اہميت كو نظر انداز نہيں كيا جاسكتا-
مدارس كے يہ لوگ باہمى ميل جول سے اور اپنے خطبات كے ذريعے اسلامى ثقافت كو مسلمانوں ميں زندہ وپائندہ ركهتے ہيں- يہى وجہ ہے كہ طالبا ن كے افغانستان پر جب امريكہ نے حملہ كيا تو اس كا جواز يہ تها كہ طالبان كى يہ حكومت اگر كامياب ہوجاتى ہے تو اس سے امريكى تہذيب (سويلائزيشن) كو خطرہ ہے-مغرب اس دور ميں جس طرزِ فكر اور تہذيب وتمدن كو پروان چڑهانا چاہتا ہے، يہ اس كے بالمقابل ايك او رتہذيب قائم كرنے كى دعوت ديتے ہيں- گويا مغربى تہذيب كے متبادل ايك تہذيب كى دعوت ان مدارس سے پهوٹتى ہے-
مدارس كى قو ت كے پس پردہ عوامل
مدارس كى مذكورہ بالا اہميت اور كاركردگى ان سے وابستہ حضرات كى محنتوں ميں ہى پوشيدہ نہيں بلكہ اس كے پس پردہ متعدد ايسے عوامل ہيں ، جن سے يہ نتائج برآمد ہوتے ہيں :
(1)كيا وجہ ہے كہ مدارس كو نہ وہ مادّى وسائل حاصل ہيں اور نہ ہى سركارى تعليم كے ديگر اداروں جيسے انسانى وسائل- ايسے ہى مدارس ميں پڑهنے والوں كى تعداد سكول وكالج ميں پڑهنے والے بچوں كى كل تعدادكا دو، تين فيصد بهى نہيں- اس كے باوجود ان كا اثرورسوخ اپنى تعداد كى نسبت سے كہيں زيادہ ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ مدارس كے كام كى نوعيت ايسى ہے كہ ان كا ايك فاضل اپنے اثر ورسوخ كے اعتبار سے ديگر تعليمى اداروں كے فضلا پر برترى ركهتا ہے-اگر لاہور كے كالجوں، يونيورسٹيوں سے ايك سال ميں 10 ہزار لوگ تحصيل علم كركے نكليں اور دوسرى طرف لاہور كے دينى مدارس سے 200 كے لگ بهگ طلبہ فارغ التحصيل ہوں تومدارس كے ان طلبہ كے فرض كى نوعيت يہ ہے كہ انہيں عوام كو رہنمائى دينا ہوتى ہے اور عوام كو اُنہيں سننا پڑتا ہے، وہ اُستاد بنتے ہيں يا داعى اور خطيب- مدارس كے ان طلبہ كو منبر نبوى كا تقدس ملتا ہے، جس سے كالج يونيورسٹى كے طلبہ محروم رہتے ہيں-منبرنبوى كے اس تقدس كے ساتھ ساتھ اگر وہ معقول طرزِ استدلال بهى اپناليں تو عوام ان كے گرويدہ ہوجاتے ہيں-خطبہ ہائے جمعہ كے پليٹ فارم كے ذريعے وہ لاكهوں لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہيں-اس لحاظ سے علماء كرام كا عوام الناس سے سب سے گهرا رابطہ ہوتا ہے- جب سے نئے ذرائع ابلاغ : اخبار، ٹى وى اور كيبل متعارف ہوئے ہيں، ان كے ذريعے عوام كا رابطہ صحافيوں، اداكاروں سے اور فلم ڈراموں ميں پيش كردہ خيالات سے گہرا ہوگيا ہے، اس سے قبل عوام الناس سے روزمرہ ابلاغ كا حق صرف علما ء كرام كے پاس تها-ان نئے ذرائع ابلاغ سے اس تعلق ميں كافى كمى آئى ہے، اس كے باوجود مخلص اور متقى علما كا تعلق آج بهى عوام سے گہرا ہے-
يہاں واضح رہے كہ مدارس كے بارے ميں يہ پروپيگنڈہ بے بنياد ہے كہ پاكستان ميں 7 لاكھ سے زائد بچے 10 ہزار مدارس ميں زير تعليم ہيں-دراصل بهرپور انداز كى مہم كو جواز دينے كے لئے ان كى تعداد كو بڑها چڑها كر بيان كيا جاتا ہے يا يہودى لابى كے زير اثر ذرائع ابلاغ يہ پروپيگنڈہ كر كے اشتعال پيدا كرتے ہيں- ان مدارس ميں ان تمام مدارس كى تعداد كو شامل كيا جاتا ہے جو ہرمسجد كے ساتھ كام كررہے ہيں اور ان ميں ناظرہ قرآن پڑهنے والے بچے بهى شمار كئے جاتے ہيں- جبكہ وہ دينى مدارس جو دين كى تعليم دے رہے ہيں ،كا اگر حقيقى جائزہ ليا جائے تو لاہور جيسے علمى شہر ميں ان كى تعداد 30، 40 سے ہرگز زيادہ نہ ہوگى- يہى بات ورلڈ بينك نے اپنى تازہ سٹڈى رپورٹ ميں كہى- خبر كا متن ملاحظہ ہو:
"دينى مدارس كے خلاف مقامى اورمغربى ذرائع ابلاغ كا پروپيگنڈہ غلط ہے- ورلڈ بينك امريكى نائن اليون كميشن كى رپورٹ درست نہيں كہ پاكستان ميں لاكهوں خاندان بچوں كو دينى مدارس ميں داخل كراتے ہيں-
ورلڈ بينك كى طرف سے تيار اور شائع كيے گئے وركنگ پيپر كے مطابق مقامى اور مغربى ذرائع ابلاغ مدارس كے بارے ميں مبالغہ آرائى سے كام لے رہے ہيں- رپورٹ ميں مغربى ذرائع ابلاغ كے اس پروپيگنڈے كو غلط قرار ديا گيا كہ پاكستانى مدارس ميں طلبہ كے داخلے ميں تيزى آئى ہے اور واشنگٹن پوسٹ كے اس دعوے كى ترديد كى گئى كہ پاكستان ميں تعليم حاصل كرنے والے تمام بچوں كا 10 فيصد مدارس ميں پڑهتے ہيں- ايسے ہى برسلز ميں قائم انٹرنيشنل كرائمز گروپ كے اس دعوے كو بهى غلط قرار ديا گيا كہ مدارس ميں پڑهنے والے بچوں كى تعداد كل زير تعليم بچوں كا 33 فيصد ہے-اس رپورٹ كے مطابق پاكستان كے دينى مدارس ميں نہ تو داخلے ميں كوئى تيزى آئى ہے ، نہ ہى مدارس كے طلبہ كى مجموعى تعداد اس قدر زيادہ ہے-"(ہفت روزہ 'غزوہ'لاہور :4 تا 10/ مارچ 2005ء)
حكومت ِپاكستان كے سركارى اعداد وشمار كے مطابق پاكستان ميں درسِ نظامى كے صرف 14 ہزار دو سو دس مدارس كام كررہے ہيں اوران كى بڑى تعداد بهى سرائيكى بیلٹ اور صوبہ سرحد كے علاقوں ميں ہے-ايسے ہى ملك ميں قائم 11 /لاكھ مساجد كے ساتھ 97 ہزار چھ سو مدارس حفظ كى تعليم دے رہے ہيں- مدارس كے مكمل اعداد وشمار كے لئے ماہنامہ ساحل كراچى كے شمارہ فرورى 2000ء كا صفحہ 89 اور 90 ملاحظہ كريں-
عجب تماشا ہے كہ اسلام كے نام پر قائم ہونے والے ملك پاكستان ميں مدارس كى طرف سے دى جانے والى تعليم كو وزراتِ تعليم كسى قطار شمار ميں ہى نہيں لاتى، نہ ہى سالانہ تعليمى بجٹ ميں ان كے لئے كوئى حصہ مختص كيا جاتا اور ان كے بارے ميں كوئى تعليمى پاليسى بنائى جاتى ہے-
ان مدارسِ دينيہ كو وزارتِ داخلہ ڈيل كرتى ہے جو دہشت گردى كے نقطہ نظر سے ان كى نگرانى كرتى ہے ، دوسرى طرف انگريزى تعليم كے ايسے ادارے جو انگريز كى حاكمانہ وراثت كو اس ملك ميں تحفظ فراہم كرتے ہيں، ان كو اربوں كى اپنى جائيدادوں كے باوجود حكومت باقاعدہ اہم گرانٹ ديتى ہے- ان اداروں ميں ايچى سن كالج اور لارنس كالج، گهوڑا گلى جيسے ادارے شامل ہيں جن كا اس ملك ميں واحد مقصد ِجواز يہاں انگريز كے فكرى وارث پيدا كرنا ہے تاكہ يہاں وہ حكومت كى زمامِ كار سنبهال سكيں- ايسے اداروں سے فيض يافتہ لوگ بهى تعداد ميں كم ہونے كے باوجود حكومت ميں غيرمعمولى اہميت حاصل كرتے ہيں اور زيادہ تر حكمران يا اراكين اسمبلى ايسے تعليمى اداروں كے ہى تعليم يافتہ ہوتے ہيں- ان اداروں كے فضلا كو بهى حاصل ہونيوالا يہ ايسا امتياز ہے جو ان كى تعداد سے كہيں زيادہ ان كے وزن كو بڑها ديتا ہے-
(2) مدارس كى قوت كا اصل جوہر كتاب وسنت ميں پوشيدہ ہے-اسلام قرآن وحديث كا نام ہے اور پاكستان ميں كتاب وسنت تك ڈائريكٹ رسائى صرف علماء مدارسِ دينيہ كى ہے-يہى وہ لوگ ہيں جو دورانِ تعليم قرآنِ كريم كى تفسير كے ساتھ احاديث ِنبويہ كو سبقاً سبقاً پڑهتے ہيں- جب كہ حكومتى سطح پر قرآن وحديث كى تعليم جزوى بنيادوں سے آگے نہيں بڑهى -
كتاب وسنت كے ساتھ ائمہ اسلاف كے وارث اور ان كے علمى كارناموں كے جانشين مدارسِ دينيہ كے علما ہى ہيں-چودہ سو سالوں ميں مسلمان اہل علم نے جس قدر شاندار علمى لٹريچر تيار كيا ہے، ان سے آگہى بهى انہى كو حاصل ہے-اسلامى تاريخ ميں علوم كے زرّيں دور سے اُنہيں آشنائى ہے-اور يہ كتاب وسنت اور ائمہ اسلاف كے فرامين ہى ہيں جو انسان كو ايمان وايقان كى دولت فراہم كرتے ہيں -قربانى كا ايسا جذبہ جس كے بعد انسان اپنى جان بهى اللہ كى راہ ميں دينے پر آمادہ ہوجائے ، كتاب وسنت كے بلاواسطہ احكامات كے بغير پيدا نہيں ہوتا-
يہى وجہ ہے كہ اِنہى مدارس سے جہاد كى تحريكيں پهوٹتى ہيں اور زمانے كى ظالم قوتوں كے سامنے سينہ تان كر كهڑى ہوجاتى ہيں-جہاد كى ان تحريكوں كو مدارس كے فضلا نے جتنے نوجوان فراہم كئے ہيں، اس كا جائزہ چشم كشا ہے- ايسے ہى جو لوگ فدائى حملے كے لئے جان ہتھیلى پر لے كر آگے بڑهتے ہيں، وہ قرآن وسنت كے ولولہ انگيز وعدوں كے بل پر اپنى جان كا يہ سودا كرگزرتے ہيں- دورِ حاضر كے ذہين دماغ اس امر پر آج بهى حيران ہيں كہ كس طرح ايك انسان اپنى جان كا بهى نذرانہ پيش كرديتا ہے، ليكن اسلامى عقائد كا مطالعہ كرنے والے شخص كے لئے يہ باتيں كسى اچهنبے كى حيثيت نہيں ركھتیں-اسلامى تاريخ ايسے جانثاروں سے بهرى پڑى ہے، اور ہميشہ سے كفر ان مجاہدوں سے لرزہ براندام رہا ہے-
مدارس كے علما كے ہاتهوں ميں اللہ كے قرآن اور نبى كے فرمان كے ذريعے ايسى زبردست قوت موجودہے كہ اس سے وہ مسلمانوں كو كسى بهى مرحلہ پر آمادئہ جہاد كرسكتے ہيں-جہاد كرنے والے سب مدارس كے تعليم يافتہ نہيں ہوتے ليكن ان كے جذبات كوگرمانے والے اور شوقِ شہادت پر اُبهارنے والے، بہتر جزا كا يقين پيدا كرنے والے مدارس كے فيض يافتہ علما ہى ہيں- مدارس كے فيض يافتگاں كے پاس وحى كا جوہر ايسا عظيم الشان امتياز ہے، جس كے آگے دنيا كى كوئى قوت ٹھہر نہيں سكتى، ضرورت صرف اس جوہر كو سمجهنے او راس كے درست تقاضوں پر عمل كرنے كى ہے-
بعض بهولے مسلمان يہ سمجهتے ہيں كہ امريكہ كو ہمارى مزعومہ بنياد پرستى، دين پسندى اور جہاد پرورى سے ہى عداوت ہے اور وہ اس ميں توازن واعتدال پيدا كرنے كى نيك خواہش ركهتا ہے جبكہ اللہ تعالىٰ ہميں يہ بتاتے ہيں كہ كفر مسلمان سے اس وقت تك راضى ہونہيں ہوسكتا جب تك مسلمان اپنا دين چهوڑ كر ان كے دين كى پيروى نہ كرليں...
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَـٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ...﴿١٢٠﴾...سورۃ البقرۃ
كفر كو اصل خوف اسلام كى اساسى تعليمات سے ہى ہے او روہ چاہتا ہے كہ
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِـُٔوا نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَٰهِهِمْ وَيَأْبَى ٱللَّهُ إِلَّآ أَن يُتِمَّ نُورَهُۥ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَـٰفِرُونَ ﴿٣٢﴾...سورۃ التوبہ
"يہ لوگ اللہ كے نور كو منہ سے (پھونكيں مار ماركر) بجھانا چاہتے ہيں، ليكن اللہ اپنے نو ركو پورا كركے رہے گا چاہے يہ بات كافروں كو برى ہى لگے-"
بیسیويں صدى ميں يورپ كے كئى نامور مفكر اس بات كو دہرا چكے ہيں كہ جب تك قرآنِ كريم اس دنيا ميں موجود ہے دنيا ميں امن نہيں ہوسكتا، نعوذ باللہ- انكے كہنے كامقصد يہ ہے كہ قرآن كريم كى موجودگى ميں كفر كى عالمى حكومت قائم نہيں ہو سكتى اور اپنى حكومت كو وہ امن وانصاف پرورى سے باور كراتے ہيں -نائن اليون كے بعد ان ہفواتى خيالات كا اظہار بارہا كيا گيا:
واشنگٹن ٹائمز ميں ايك امريكى دانشور اپنے مضمون ميں صراحت سے لكھتا ہے كہ
"مسلمانوں كى دہشت گرى كى جڑيں خود قرآن كريم كى تعليمات ہيں اور يہ كہنا صحيح نہيں ہے كہ ايك دہشت گرد اور انتہا پسند اقليت نے مسلمانوں كو يرغمال بنا ركہا ہے-بلكہ اصل مسئلہ خود قرآنى تعليمات كا پيد اكردہ ہے-اس مسئلے كا حل يہ ہے كہ قرآ ن كريم كى تعليمات كو تبديل كرنے پر اعتدال پسند مسلمانوں كو آمادہ كيا جائے-"
ايسے ہى ايك يورپى ادارے انٹرنيشنل كرائسز مينجمنٹ گروپ نے قرآن وسنت پر مبنى معلومات كو نفرت انگيز قرار ديا ہے اور حكومت پاكستان سے مطالبہ كيا ہے كہ وہ ايسے نفرت انگيز مواد كى تعليم كو روكنے كے انتظامات كرے-
مدارس سے وابستہ چونكہ قرآن وسنت كى بنياد پر اسلامى تہذيب وتمدن كو قائم كرنے كے داعى ہيں اور وہ براہ راست وحى كے ان دونوں ماخذوں سے رہنمائى حاصل كرتے ہيں ، اسى ليے يہ لوگ عالمى كفر كو اپنے سب سے بڑے دشمن نظر آتے ہيں-كوئى بهى مسئلہ پيش آجانے پر قرآن واحاديث سے رجوع اوراس كى بنياد پر اس كے حسن وقبح كا فيصلہ كرنا اسلاميت كا تقاضا ہے،ليكن يہ قدامت وبنياد پرستى، جديد تہذيب كے ترتيب وتعليم يافتہ لوگوں كو ايك آنكہ نہيں بهاتى اور وہ روشن خيالى اور اعتدال پسندى كا درس ديناشروع كر ديتے ہيں-
(3)مدارس كے اس شاندار كردار كى ايك وجہ يہ بهى ہے كہ غيروں كى تعليم سے آراستہ اور ان كے نظامِ تعليم (سكول وكالج )كے پروردہ لوگ دورانِ تعليم ان كى علمى ہیبت سے مرعوب ہو جاتے ہيں- جن سے علم وفلسفہ وہ پڑهتے ہيں اور جن شخصيات سے وہ متعارف ہوتے ہيں تو لازمى سى بات ہے كہ اس كا اثر بهى ان كے فكر وذہن پر مرتسم ہوتا ہے-
مدارس كے پڑهے ہوئے لوگ گو كہ موجودہ دنيا كے بارے ميں زيادہ باخبر نہيں ليكن اپنے شاندار ماضى اور عظيم علمى روايات سے انہيں آگاہى ہے-يہى وجہ ہے كہ كبهى زمانے كى عظيم قوت كے سامنے وہ مرعوبيت كا مظاہرہ نہيں كرتے- انسان اپنے آپ ميں پر اعتماد ہو تب ہى وہ عظيم كارنامے انجام دے سكتا ہے، اور اگرانسان غيروں كى برترى ميں مسحور ہو تو اپنى سى صلاحيت سے بهى كام نہيں لے سكتا-
اوّل تو جس اسلامى عقيد ہ كو وہ دورانِ تعليم بار بار پڑهتے ہيں، وہ ان كى شخصيت كا لازمى جز بن جاتاہے- اورجو شخص اسلامى عقائد كے بارے ميں معمولى سا بهى علم ركهتاہے، وہ وسائل اور ظاہرى قوت پر بهروسہ كرنے كى بجائے قوت وجبروت ركهنے والے اللہ ربّ العٰلمين كى كبريائى پر بهروسہ ركهتاہے-اس كو بدر واُحد كے معركے بهى ذہن ميں تازہ ہوتے ہيں جب اللہ اپنے بندوں كى فرشتوں كے ذريعے بهى مدد كرتا ہے ...
كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةًۢ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۗ...﴿٢٤٩﴾...سورۃ البقرۃ
اور
وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾...سورۃ آل عمران
ايسے ہى يہ لوگ مغرب كى شخصيات سے مرعوب ہونے كى بجائے اسلامى شخصيات كى علمى وذہنى برترى كو تسليم كرتے ہيں- جن لوگوں كو ائمہ اسلام كى شان، ديانت وامانت، حفظ وورع اور علم و فلسفہ سے آگاہى ہے، وہ يورپ كے فلسفیوں اور دانشوروں سے كيا متاثر ہوں گے؟ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج ميں علوم كى جس طرح سرپرستى كى اور نت نئے علوم كى تدوين وتہذيب كى، ان كے مطالعہ كے بعد علم كے ميدان ميں يورپ كى برترى كے دل سے كبهى قائل نہيں ہوسكتے-
اس مرعوبيت كى ايك نماياں مثال اس دور ميں بهى ہمارے سامنے آتى ہے جب طالبان كے سربراہ ملا عمر نے تمام بے سروسامانى كے باوجود وقت كى سپر قوت سے ٹكرانے ميں پس وپيش نہ كى اور جديد تعليم كے پروردہ جنرل پرويز مشرف نے ايٹمى قوت ہونے كے باوجود جنگ سے قبل ہى امريكہ كے در پر جبين ِنياز جھكا دى- يہ دو رويے اپنے نظامِ تعليم اور ذہنى تربيت كى نشاندہى كرتے ہيں- ہميں حكمت ِعملى اور حالات پر نظر ركهنے كى ضرورت سے انكار نہيں اور اسلام صرف كفر كے آگے نہ جهكنے اور اعلىٰ اقدار كى پاسدارى كرنے كا نظريہ ہى پيش نہيں كرتا بلكہ اس كے ساتھ ساتھ اسلام ہميں ہر ممكن جنگى تيارى اور بهر پور سفارتى وسياسى حكمت ِعملى اختيار كرنے كى بهى ترغیب ديتا ہے- دين كے بعض احكامات پر عمل كر كے كچھ حصے پر عمل كرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہيں ہوسكتے، ليكن مشكلات ومصائب كے بالمقابل انسان كى بنيادى شخصيت كا جوہر بهر حال نماياں ہوتا ہے- مذكورہ بالا مثال سے صرف اس بنيادى جوہر كى نشاندہى مقصود ہے-يہ امر بہر حال مسلم ہے كہ انسان كے فيصلے، طرزِ عمل اوررويے اس كے عقائد ونظريات كا پر تو ہوتے ہيں!!
مدارس كے بارے ميں مذكورہ بالا جو خصوصيات ہم نے آ پ كے سامنے پيش كى ہيں، ان كو گنوانے كا يہ مطلب نہ سمجھا جائے كہ ہم گويا مدارس كے اس نظام سے سو فيصد متفق ہيں اور ان ميں كسى ترميم واصلاح كے ضرورت نہيں سمجهتے- يہ مدارس كے كام كے امتيازى اور مثبت پہلو ہيں جن سے مسلمانوں كو صرف ِنظر نہيں كرنا چاہئے- يہ ان كى اس اہميت كا تذكرہ ہے جس كى وجہ سے مدارس كو اسلام كے قلعے كہا جاتا ہے ليكن اسلامى تاريخ تعليم وتعلّم اور علم پرورى كى جن شاندار روايات كو ہمارے لئے محفوظ كرتى ہے، موجودہ مدارس كا دامن بھى اُن سے خالى ہے- مدارس ميں اصلاحِ احوال كى بہت زيادہ گنجائش موجود ہے اور اس پر متعدد پہلووٴں سے لكها جا سكتا ہے ،ليكن ايسے عالم ميں جب ہرطرف سے ان كے وجود كو نشانہ بنايا جارہا ہو، اور مسلمانوں ميں ان كى جڑوں اور خدمات كو دهندلا كرنے كى مذموم مساعى جارى ہوں، ان كے بارے ميں آوازئہ اصلاح بلند كرنا ايك اعتبار سے تنقيد كرنے والوں كى تائيد كرنا ہے-يہ امر ان حالات ميں حكمت كے بالكل منافى ہے كہ ان پر تنقيد كى جائے بلكہ اس وقت ان كو عزم وحوصلہ دينے اور ان كى خدمات كا اعتراف كرنے او رعوام الناس كو ان سے جوڑنے كى ضرورت ہے-
يوں بهى يہ امر پيش نظر رہنا چاہئے كہ جن اداروں كو كسى حكومتى سرپرستى كے بغير صرف عوامى تعاون كے سہارے چلايا جارہا ہو، اور ان ميں ترغيب وآسانى كى كسى گنجائش كے بجائے ہردم سختى اور گرفت كا رويہ ركها جائے، وہاں مثالى معياركى توقع كيونكر ركهى جاسكتى ہے- مدارس كى خدمات كا اعترا ف كے بجائے اُنہيں معاشرے ميں اجنبى بنانے كى مذموم كوششيں عروج پر ہوں، مدارس كى سندات كو قبو ل كرنے كى بجائے ان سے گريز كى پاليسى زير عمل ہو، امن وامان كا يہ عالم ہو كہ مدارس كے نامور اساتذہ كو دہشت گردى كى بهينٹ چڑها ديا جاتا ہو، ان حالات ميں كيونكر ان كا مقابلہ ايسے اداروں سے كيا جائے جنہيں ملك كے ذہين او رمقتدر طبقہ كى ہمہ نوعیت سرپرستى حاصل ہو-
يہ مدارس اپنے طلبہ كو مفت تعليم ہى فراہم نہيں كرتے بلكہ ان طلبہ كى جملہ ضروريات تدريسى كتب، علاج اور لباس كى كفالت بهى كرتے ہيں-او ران كى جتنى كوششيں نظامِ تعليم كى بہترى پر صرف ہونى چاہئيں، اس سے كہيں زيادہ اس ماليت كو جمع كرنے ميں صرف ہوجاتى ہيں جن سے ان كے طلبہ كى رہائش او رقيام وطعام كے ديگر تقاضے پو رے ہوتے ہيں-كيا وطن عزيز ميں ايسا كوئى نظامِ تعليم ہے جوصرف مفت تعليم ہى فراہم كرے- گورنمنٹ پنجاب نے غير ملكى امداد كے بل بوتے پر ابهى حال ہى ميں يہ امتياز حاصل كيا ہے ،ليكن كہاں ايك كثير وسائل والى حكومت جو عوام كے ہى ٹيكسوں سے عمارتيں اور اساتذہ مہيا كرتى ہو يا ايسے عالمى قرضوں كى مدد سے جن كا وبال بعد ميں آغا خان بورڈ كى صورت ميں نازل ہو-
معروضى تجزيہ اور زمينى حقائق كا دعوىٰ كرنے والے ہمارے يہ ذہين وفطین دماغ پهر يہ تجزيہ كرنے چل نكلتے ہيں كہ مدارس ميں رہائشى معيار بلند نہيں،سہوليات كا سٹينڈرڈ بڑا پست ہے- پهر بعض مثاليت پسند شہرى انہيں بیكن ہاوٴس سكول سسٹم اور آغا خان ميڈيكل يونيورسٹى سے موازنہ كر كے ناك بهوں چڑهاتے ہيں اور يہ بهول جاتے ہيں كہ يہ ادارے تگڑى فیسوں كے علاوہ امريكى ثقافت كو پروان چڑهانے كى امريكہ سے ہرسال كتنى بڑى قيمت تعليم كى سرپرستى كے نام پر وصول كرتے ہيں-
يہاں اس امر كا اظہاربهى ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ يہ سعادت صرف مدارس كے طلبہ اور اساتذہ كو حاصل ہے كہ وہ بادِ مخالف كى پروا كئے بغير اپنى زندگى اسلام كے فروغ كے لئے وقف كردينے پر آمادہ ہوجاتے ہيں- مدارس كے فضلا كے خلاف ہردم شعلے اُگلنے والے ذرائع ابلاغ اور اس كے نتيجے ميں معاشرے ميں اپنى قدر وقیمت كهونے كا شعور ہونے كے باوجود يہ انہى كا حوصلہ ہے كہ دين كى خدمت كا بارِ گراں اپنے ناتواں كندهوں پر اُٹهانے كا عزم ركهتے ہيں- يہ سعادت ان لوگوں كے حصے ميں نہيں آتى جو قربانى كا عزم اورجذبہ نہ ركهتے ہوں- ہم نے بارہا تجربہ كيا ہے كہ آج كے معاشرے كا جديد نوجوان اپنے وقت كے چند گهنٹے دين كے فروغ پر لگانے كے بجائے اُسے معاش كے حصول ميں صرف كرنے كو ترجيح ديتا ہے- وہ اپنى كوتاہى پر نظر كرنے كى بجائے ان اداروں كو الزام ديتا ہے جہاں اسے سٹينڈرڈ كے ساتھ نشست وبرخاست كى سہولتيں دستياب نہيں ہوتيں- درحقيقت اس كے پاس اس تعليم كے لئے ہفتے ميں چند گهنٹوں كا وقت بهى نہيں جو روحانى پہلو سے اس كى شخصيت كى تكميل كرتى ہے- جديد دور كا مادّى انسان ہر چيز كو مال وزر كى نظر سے ديكهنے كا عادى ہے، ليكن ايسے دور ميں مدارس كے طلبہ اس سے بے نياز ہوكراپنے وقت اور صلاحيتوں كو اسلام كے فروغ كے ليے پيش كرتے ہيں تو اسلامى معاشرے كا ہرفرد ان كے احسان تلے ہے، كيونكہ معاشرے پر عائد دينى تعليم كے فروغ اورحفاظت كا فرضِ كفايہ انہوں نے ادا كركے باقى كو گنہگار ہونے سے بچا ركها ہے- معاشرے ميں 'اجنبيت كا عذاب' سہہ كر يہ لوگ اسلام كى خدمت كرتے ہيں-
تعليمى اداروں ميں تعليم وتدريس پر ہى توجہ دى جاتى ہے، او ريہ تعليمى ادارے بذاتِ خود معاشرے ميں اس امر كے علاوہ كوئى كردار ادا نہيں كرتے كہ وہ چند بچوں كو مخصوص نوعيت كے علوم اور فكرى تربيت سے آراستہ كرديتے ہيں- اس لحاظ سے نہ مدارس كا معاشرتى تعمير واصلاح ميں ڈائريكٹ كوئى كردار ہے او رنہ ہى اس نوعيت كے ديگر تعليمى اداروں كا -
ليكن يہ تعليمى ادارے دراصل ايك نسل كو تيار كرنے كے ذريعے مختلف مقاصد اور پروگراموں كے لئے افرادِ كار تيار كرتے ہيں جو بعد ميں ان شعبوں ميں كهپ كر انہيں تعمير وترقى سے آراستہ كرتے ہيں- افراد كى تيار ى كے لئے تعليمى اداروں كا كردار اساسى نوعيت كا ہے- چنانچہ عين ممكن ہے كہ سطحى نظر ركهنے والوں كو مدارس كے تعليمى اداروں سے معاشرے ميں خاطر خواہ تبديلى كا دعوىٰ سمجھ نہ آتا ہو ليكن ان مدارس سے فيض يافتہ لوگوں كى جن شعبوں ميں كهپت ہوتى ہے اور ان مدارس سے جن پروگراموں كو نوجوان فراہم ہوتے ہيں، ان كاجائزہ ليا جائے تو پتہ چلتا ہے كہ ان شعبوں كا چلنا دراصل انہى مدارس كے مرہونِ منت ہيں-
آسان الفاظ ميں سمجهنے كے لئے ايك درخت كى مثال ليجئے- درخت كا تنا جو كسى درخت كے لئے سب سے بنيادى نوعيت كا كام كرتا ہے، بذاتِ خود اس پر پہل يا پتے نہيں لگتے، ليكن اس تنے كى صحت وبيمارى پر ہى اس پہل كى خوبى وناخوبى كا دارومدار ہوتا ہے، اگر كسى درخت كا تنا كرم خوردہ ہوجائے تو اس كا پہل بهى عنقريب ختم ہوجائے گا- ايسے ہى اس تنے كى زمين ميں جڑيں جتنا مضبوط ہوں گى، اس درخت كے فوائد اور مضبوطى ميں اسى قد راضافہ ہوتا جائے گا-
تعليمى اداروں كى مثال درخت كے تنے كى ہوتى ہے، ان كے فيض يافتہ زندگى كے مختلف شعبوں ميں جوكارنامے انجام ديتے ہيں، وہ اس درخت كے پہل تصور ہوتے ہيں- درخت كے تنے پر چونكہ پہل نہيں لگتا ، اس لئے اس كو بے كا رقرار دينا سطحيّت ہے- ہم نے گذشتہ اوراق ميں جن امتيازات كا ذكر كيا ہے، وہ سب اسى تنے كا پہل ہيں- عقلمند لوگ پہل كو يا شاخوں كو كاٹنے كى بجائے اصل تنے كو نشانہ بناتے ہيں، كہتے ہيں چور كونہيں، چور كى ماں كو پكڑو- ايسے ہى دانا لوگ شاخوں كو غذا دينے كى بجائے تنے كو مضبوط بنانے ميں اپنى توجہ صرف كرتے ہيں- تنا مضبوط ہوگا تو اس كے ثمرات بهى بہت زيادہ ہوں گے !!
برصغير كے يہ دينى مدارس عوام الناس كے لگائے ہوئے وہ پودے ہيں، جو اہل عزيمت كى قربانيوں اور عوام الناس كے تعاون سے غذا پا كر اب تناور درخت بن چكے ہيں- ان مدارس كا جب آغاز ہوا تها، تب ہر گلى محلہ سے ايك ايك ٹكڑا روٹى جمع كركے يہاں كے طلبہ اپنى خوراك پورى كرتے اور يہاں پڑهانے والے اساتذہ رزقِ كفاف پر قناعت كركے دن رات دين كى خدمت ميں صرف كرتے- ڈيڑھ دو سوسال كے عرصہ ميں يہ نظام مضبوط ہوچكا ہے، اور اگر عوام الناس اس كى مدد پر يونہى كاربند رہے تو وحى وشريعت كا يہ درخت ہميشہ تن آور اور سدابہار رہے گا- اگر برصغير كے مسلمانوں نے ان كى حفاظت ميں كوتاہى كى تو اللہ يہ سعادت ان لوگو ں كو عطا كرے گا جو اس دين كى حفاظت اور فروغ كى ذمہ دارى كا حق ادا كرنيوالے ہوں گے-
يہاں كے مسلمان عوام كے دينى جذبہ نے اس درخت كو سینچنے ميں اپنا خون ديا ہے، جس درخت كى جڑيں عوام ميں ہوں، گويا اس كى جڑيں بہت گہرى ہيں اور كسى كے گرانے سے اس كا خاتمہ ممكن نہيں- اللہ ہميں ان مدارس سے فيض ياب ہونے اور ان كى حفاظت كى توفيق مرحمت فرمائے- آمين!
يہاں صرف مدارس كى خدمات پر اكتفا كيا گيا ہے، مدارس پر اعتراضات كى وضاحت كے لئے عنقريب لكها جائے گا ، ان شاء اللہ ...مضمون كے مندرجات كے بارے ميں قارئين كى آرا كا خير مقدم كيا جائے گا
حوالہ جات
1. 'روشن خيال اعتدال پسندى ' ترجمان القرآن، جولائى 2004ء
2. سہ روزہ دعوت دہلى: يكم دسمبر 2004ء
3. روزنامہ 'جنگ' لاہور: 10/مارچ 2004ء
4. 'اسلامى دينى تعليم پر امريكى يلغار' مجلہ فقہ ِاسلامى، فرورى 2005ء ، ص 52
5. ماہنامہ 'ساحل' كراچى، فرورى، ص 88