فتاوی

نبى كريم كى اولاد
سوال : قرآن وحديث كى روشنى ميں حضور نبى اكرم ﷺ كى اولاد كى تعداد بتائيں؟ بيٹياں كتنى اور بيٹے كتنے اور كس كس كے بطن سے ہيں- (محمد رمضان، گوجرانوالہ)

جواب مدرسہ نصرة العلوم، گوجرانوالہ كاjجواب : آنحضرت ﷺ كى موٴنث اولاد چار لڑكياں تہيں: حضرت زينب، حضرت رقيہ، حضر ت اُمّ كلثوم اورحضرت فاطمہ الزہراء رضوان الله عليهن أجمعين
اور تين يا چار يا پانچ بيٹے تهے:

حضرت قاسم، حضرت عبداللہ، حضرت طيب، حضرت طاہر اور حضرت ابراہيم چار پہلے بيٹے حضرت خديجہ كے بطن سے تهے اور حضرت ابراہيم حضرت ماريہ قبطيہ كے بطن سے تهے جو آپ كى لونڈى تهيں- اور جو حضرات كہتے ہيں كہ آپ كے چار لڑكے تهے، وہ كہتے ہيں كہ حضرت عبداللہ كا ہى دوسرا نام طيب تها، يہ الگ لڑكا نہيں تها اور جو لوگ تين كے قائل ہيں، وہ كہتے ہيں كہ حضرت عبداللہ ہى كا تيسرا نام طاہر تها- يہ تمام صاحبزادگان بچپن ميں فوت ہوگئے تهے- تمام صاحبزادياں جوان ہوئيں اور ان كى شادياں بهى ہوئيں-

حضرت زينب كا نكاح حضرت ابوالعاص بن الربيع سے ہوا- حضرت رقيہ اور حضرت اُمّ كلثوم كا عقد يكے بعد ديگرے حضرت عثمان سے ہوا اور حضرت فاطمہ الزہرا كا نكاح حضرت على كرم اللہ وجہہ سے ہوا- 1

جواب:اضافہ مزيد از مفتى جامعہ لاہو رالاسلاميہ
نبى ﷺ كى اولاد كے بارے ميں مفتى صاحب موصوف كا مذكورہ فتوىٰ درست ہے، البتہ اس كى مزيد وضاحت يوں ہے، حافظ ابن قيم زادالمعاد ميں فرماتے ہيں
" رسول اللہ ﷺ كى اولاد ميں پہلا فرزند قاسم، پهر زينب، پهر رقيہ اور اُمّ كلثوم اور عبداللہ اور فاطمہ يہ سب حضرت خديجہ كے بطن سے ہيں اور كسى زوجہ مكرمہ سے اولاد نہيں- ہاں فرزند ابراہيم مدينہ ميں ماريہ قبطيہ لونڈى سے ہے-"

البتہ شيعہ حضرات عوام كو دهوكہ ديتے ہيں كہ رقيہ اور اُمّ كلثوم نبى ﷺ كى ربيبہ (پچهلے شوہر كى بيٹى) ہيں مگر ان كا يہ كہنا بلا ثبوت ہے اور شيعى مسلك كے بهى مخالف ہے- چنانچہ ملا باقر مجلسى 'حيات القلوب' ميں رقم طراز ہيں: "و برنفى ايں قول روايات معتبر دلالت مے كنند " (ص719/2) يعنى يہ قول كہ "رقيہ و اُمّ كلثوم حضرت خديجہ كے دوسرے شوہر سے تهيں، مروياتِ معتبرہ اس كى ترديد كرتى ہيں-" اور انہوں نے ہى مذكور كتاب (ج2/ص728) ميں سيد مرتضىٰ و شيخ طوسى سے ،جو اكابر مجتہدين شيعہ سے ہيں، بيان كيا ہے :

كہ چوں حضرت خديجة را تزويج نمود او باكرہ بود
يعنى "رسول اللہ ﷺ كا نكاح جب حضرت خديجہ سے ہوا تو وہ كنوارى تهيں -"

اور محمد بن الحسن على الطوسى كى كتاب تہذيب الأحكام ميں ہے:
اللّٰهم صلّ على رقية بنت نبيك وألعن من أذىٰ نبيك فيها، اللهم صل على أم كلثوم بنت نبيك وألعن على من أذى نبيك فيها
يعنى "يا اللہ! رحمت بهيج اوپر رقيہ كے اور اُم كلثوم كے جو رسول اللہ ﷺ كى بيٹياں ہيں اور لعنت كر اس شخص كو جو نبى ﷺ كو ان دختران سے ايذا دے -"

نيز اسى كتاب كے ج1 /ص215 ميں درج ہے: أن زينب بنت النبيﷺ توفيت وأن فاطمة خرجت في نسائها فصلت على أختها
يعنى "فاطمہ نے اپنى ہمشيرہ زينب بنت ِنبى اكرم ﷺ كى نمازجنازہ پڑهى-"

بہو كو ہونٹوں پر بوسہ دينے سے كيا وہ بيٹے كے لئے حرام ہوجائے گى؟

سوال: ميرى بہو كے ميرے خاندان سے اچهے طرزِ عمل پر مجهے اس قدر اپنائيت اور اُنس محسوس ہوا كہ اس محبت ميں، ميں نے اپنى بہو كو گلے لگا ليا اور اس كے ہونٹوں پر بوسہ لے ليا- ميں خدا كو حاضر و ناظر جان كر كہتا ہوں كہ ميرے دل كے اندر كوئى ميل يا كوئى برا ارادہ نہ تها- وہ آج بهى ميرى بيٹى ہے اور موت تك ميرى بيٹى ہے -اس غير اختيارى فعل سے ميرے بيٹے اور بہو كا نكاح تو متاثر نہيں ہوگا ؟ (عبدالرشيد)

جواب فتوىٰ جامعہ اشرفيہ، لاہور: چونكہ بوسہ ہونٹوں پر ليا گيا ہے ، اس لئے صورتِ مسئولہ ميں حرمت ِمصاہرت (سسرال كى بنا پر ہونے والى حرمت) ثابت ہوجائے گى- چنانچہ جس عورت كا بوسہ ليا گيا ہے وہ بوسہ لينے والے كے بيٹے پر حرام ہوگئى- اب دونوں كے اكٹھے رہنے يا صلح و رجوع كى كوئى صورت نہيں پس بيٹے پر لازم ہے كہ اپنى بيوى كو طلاق دے كر فارغ كردے-

فقہا نے تصريح كى ہے كہ اگر بوسہ ہونٹوں پر ليا گيا ہو تو مطلقاً حرمت ِمصاہرت ثابت ہوجائے گى،اگرچہ بوسہ لينے والا شہوت نہ ہونے كا دعوىٰ كرے- عبدالخالق (دارالافتاء، جامعہ اشرفيہ لاہور )

فتوىٰ كا تعاقب از مفتى جامعہ لاہو رالاسلاميہ

جامعہ اشرفيہ لاہو ركے مفتى صاحب كا مندرجہ بالا فتوىٰ محل نظر ہے - اہل علم كے راجح اور محقق مسلك كے مطابق مس بالشہوت سے بهى حرمت ِمصاہرت ثابت نہيں ہوتى- چنانچہ سنن دارقطنى ميں حضرت عائشہ سے مروى حديث ہے كہ لا يفسد الحلال الحرام
يعنى "حرام كے ارتكاب سے حلال شے فاسد نہيں ہوتى-"

نيز امام دارقطنى اپنى سند كے ساتھ ابن عمر سے مرفوعاً بيان كرتے ہيں :
لايحرم الحرام الحلال "حرام، حلال كو حرام نہيں كرتا-"

اس كى سند كے متعلق صاحب التعليق المغني فرماتے ہيں: وإسناده أصلح من حديث عائشة يعنى "اس حديث كى سند حضرت عائشہ كى حديث سے زيادہ درست ہے-" اور فتح البارى (9/156) ميں ہے :

وقد أخرجه ابن ماجه طرفا من حديث ابن عمر: لا يحرم الحرام الحلال وإسناده أصلح من أوّل

صحيح بخارى كے باب ما يحل من النساء و ما يحرم كے تحت حضرت ابن عباس سے منقول ہے:

إذا زنٰى بأخت امرأته لم يحرم عليه امرأته
يعنى "جب كوئى اپنى سالى سے زنا كرے تو اس كى بيوى اس پر حرام نہيں ہوگى- "

حافظ ابن حجر نے تصريح كى ہے كہ جمہور كا مسلك يہى ہے ، فتح البارى ميں فرماتے ہيں
وأبى ذلك الجمهور وحجتهم أن النكاح في الشرع إنما يطلق على المعقود عليها لا على مجرد الوطي وأيضا فالزنا لا صداق فيه ولا عدة ولا ميراث: قال ابن عبد البر: وقد اتفق أهل الفتوى من الأمصار على أنه لا يحرم على الزاني تزوّج من زنىٰ بها فنكاح أمها وابنتها أجوز 2
"جمہور نے اس بات كا انكار كيا ہے كہ زنا كے ذريعے حرمت ثابت ہو- ان كى دليل يہ ہے كہ شرع ميں نكاح كا اطلاق باقاعدہ عقد پر ہوتا ہے نہ كہ مجرد وطى پر اور اسى طرح زنا ميں حق مہر، عدت اور ميراث بهى نہيں- حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہيں: اہل امصار ميں سے اصحابِ فتوىٰ اس بات پر متفق ہيں كہ زانى نے جس عورت سے زنا كا ارتكاب كيا ہے، اس كے لئے اس سے نكاح كرنا حرام نہيں تو اس كى ماں اور بيٹى سے نكاح كرنا بطريق اولىٰ جائز ہوگا-"

تو پهر مس بالشہوت سے بطريق اولىٰ حرمت ثابت نہيں ہوگى- لہٰذا باپ كا اپنى بہو كے ہونٹوں كا بوسہ لينے سے حرمت ِمصاہرت كا اثبات نہيں ہوگا- تعجب ہے كہ ايك طرف مفتى صاحب نے ہونٹوں پر بوسہ لينے سے حرمت ِمصاہرت كا فتوىٰ صادر فرمايا ہے جبكہ دوسرى جانب بيٹے كو طلاق كا حكم دے رہے ہيں- بقول ان كے جب وہ محرم بن گئى تو پهر طلاق كا حكم چہ معنى دارد؟ مفتى صاحب كا دعوىٰ كہ" ہونٹوں پربوسہ لينے سے مطلق حرمت ثابت ہوجاتى ہے-" يہ بلا دليل بات ہے جس كى كوئى اصل نہيں-

اُميد ہے موصوف تقليدى تعصب سے ہٹ كر اپنے فتوىٰ پرنظرثانى فرمائيں گے-

نماز ميں عورت كا پاؤں ڈهانپنا
سوال: ميں انٹرنيشنل اسلامك يونيورسٹى اسلام آباد ميں اُصول الدين كى طالبہ ہوں- دورانِ تعليم مجهے اپنے غير ملكى اساتذہ كرام اور ساتهى طالبات كا پاوٴں كو ڈهانپنے كے بارے ميں اس موقف كا علم ہوا كہ عورت كا پاوٴں ڈهانپنا، بالخصوص نماز ميں بے حد ضرورى ہے- ان لوگوں كا عمل بهى اسى كے مطابق ہے ،مگر پاكستان ميں اس كا اہتمام نہيں- بعد ازاں ميں نے فتاوىٰ المرأة المسلمةكا مطالعہ كيا جس كے باب كتاب لباس المرأة في الصلاة ميں شيخ ابن باز كى رائے اس طرح سے درج ہے :

وأما القدمان فيجب سترهما على كل حال في الصلاة ولو لم يكن عندها رجال لأنه المرأة كلها عورة في الصلاة إلا وجهها 3
اس سلسلے ميں ہمارى شرعى رہنمائى فرمائيے- جزاكم اللہ (سميعہ عزيزدختر عبدالعزيز حنيف، اسلام آباد)

جواب: عورت كے لئے بحالت ِنماز پاوٴں كى پشت كو ڈهانپنے كے بارے ميں سنن ابوداوٴد وغيرہ ميں جو روايت ہے، وہ مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے باعتبار سند كے ضعيف ہے اور قابل حجت نہيں- اس كو نبى كريم تك مرفوع كرنا عبدالرحمن بن عبداللہ بن دينار كى غلطى ہے جبكہ يہ موقوفاً بهى درست نہيں،كيونكہ اس كا مدار اُمّ محمد پر ہے اور وہ مجہولہ ہے اور حاكم كى روايت ميں عن امہ كے بجائے عن ابيہ كے الفاظ ہيں- ليكن اس كے باپ كا ذكركتابوں ميں نہيں ملتا شايد يہ حاكم يا ناقلين سے كسى كا وہم ہے- بہرصورت اس بارے ميں بطورِ نص كوئى صحيح حديث موجود نہيں اور جو لوگ وجوب كے قائل ہيں، ان كا انحصار اسى كمزور دليل پر ہے جو ناقابل التفات ہے، لہٰذا مسئلہ ہذا ميں تشدد كے پہلو كو اختيار كرنا درست بات نہيں-

تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو: إرواء الغليل از شيخ ناصر الدين البانى (1/304)

حضرت عائشہ كا فرمان اور تعويذ پہننا ؟
سوال: سيدہ عائشہ فرماتى ہيں:التمائم ماعلق قبل نزول البلاء

پهر فرمايا :

وأما ما علق بعد نزول البلاء فليس بتميمة 4
تو كيا اس روايت سے قرآنى تعويذ لٹكانا ثابت ہوتا ہے يا ہر قسم كے 'تمائم' شرك ہى ہيں ...
قال عليه السلام: من علق تميمة فقد أشرك

جواب: حضرت عائشہ كے قول كے الفاظ يوں ہيں :

قالت عائشة: ليس التميمة ما يعلق بعد نزول البلاء ولكن التميمة ما علق قبل نزول البلاء ليدفع به مقادير الله 5
"تميمہ وہ (منع) نہيں جس كو بلا نازل ہونے كے بعد لٹكايا جائے ليكن وہ تميمہ (منع ) ہے جس كو بلا لاحق ہونے سے قبل لٹكايا جائے تاكہ اس كے ذريعہ سے اللہ كى تقدير كو ٹالے- "

مطلب يہ ہے كہ تقدير كے واقع ہونے سے قبل ہى اس كے دفاع كى تدبير كرنا عقلمند شخص كو لائق نہيں جبكہ بلا نازل ہونے كے بعد اس سے خلاصى كى تدبير كرنا مشروع ہے، چاہے وہ تعويذ كے ذريعہ ہو-

تعويذ كے بارے ميں اہل علم كا اختلاف ہے: ايك جماعت اس كے جواز كى قائل ہے جبكہ دوسرى جماعت تعويذات كے عدمِ جواز كى قائل ہے- حضرت عائشہ كا شمار بهى ان لوگوں ميں ہے جو تعويذ كو جائز سمجھتے ہيں- ميرے نزديك احتياط اس ميں ہے كہ تعويذات سے مطلقاً پرہيز كيا جائے اور مذكور حديث: من علق تميمة فقد أشرك سے مراد جاہلى تعويذ خلاف شرع ہيں،جس طرح كہ مسنداحمد ميں سبب حديث ميں اس امر كى طرف اشارہ ہے-

وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين بزعمهم فأبطلها الشرع 6
"يہ خرزات ہيں جنہيں اہل عرب اپنے بچوں پر لٹكايا كرتے تهے اور اپنے زعم كے مطابق ان كو اس كے ذريعہ نظر بد سے بچاتے تهے -پس شرع نے اس كو باطل ٹھہرايا-"

مجوزين كے پيش نظر يہ حديث بهى تهى، اس كے باوجود وہ جواز كے قائل ہيں- اس سے بهى ميرے موقف كى تائيد ہوتى ہے كہ تعويذ لكھنا شرك نہيں تاہم اس سے احتراز ہونا چاہئے والله أعلم بالصواب وعلمه أتم ...اس موضوع پر پہلے ميرى تفصيلى گفتگو 'الاعتصام' ميں چھپ چكى ہے، اس كى طرف مراجعت بهى مفيد ہے-

مريض پر شفا كے لئے تهتكارنا يا مريض كو پلانا ؟
سوال: پانى ميں پهونك مارنا اور برتن ميں سانس لينا منع ہے مگر نبى ﷺ نے جب سالن اور كهانے ميں خود تهوكا تو پهر كيا پانى ميں تهوك كر يا اُنگلى كے ذريعہ تهوك ڈال كر كسى مريض كو پلانا جائز ہے؟ (رانا محمد اسلم،مكتبہ اصحاب الحديث، اُردو بازار)

جواب: برتن ميں سانس لينا اس وقت منع ہے جب آدمى كوئى شے پى رہا ہو- مستدرك حاكم ميں حضرت ابوہريرہ سے مروى ہے: لا يتنفس أحدكم في الإناء إذا كان يشرب منه 7
جبكہ عام حالات ميں سانس لينا منع نہيں-

نبى ﷺ كا كهانے وغيرہ ميں لب ِمبارك ڈالنا آپ كا معجزہ ہے- عامة الناس كو اس پر قياس نہيں كيا جاسكتا اور محدثين نے ايسے واقعات كو علاماتِ نبوت ميں ذكر كيا ہے- ايسے ہى اُنگلى كو مٹى اور تهوك لگا كر تكليف دہ جگہ پر لگانا سنت سے ثابت ہے- 8
جہاں تك تهوك كو پانى ميں ڈال كر پلانے كا تعلق ہے تو يہ سنت سے ثابت نہيں،البتہ پهونك كے ساتھ معمولى سا اثر رطوبت كا ہو تو يہ لفظ نفث كى تعريف ميں شامل ہے جو منع نہيں- 9

ايسے ہى آدمى پر دم كى صورت ميں تهوكنے كا جواز ہے- سنن ابوداوٴد ميں ہے:
(ويتفل حتى برأ ) "

آپ اس پر تهتكارتے يہاں تك كہ وہ تندرست ہوگيا-"

اور صحيح بخارى كى روايت ميں ہے: .

(ويجمع بزاقه أي في فيه ويتفل)
"آپ لعاب كو اپنے دہن مبارك ميں جمع كرتے اور اس پر تهتكارتے-"

زير ناف بال مونڈنے كى مدت اور حدبندى
سوال: زيرناف بال مونڈنا واجب ہيں يا سنت؟ اور ان كے مونڈنے ميں كتنى تاخير كى جاسكتى ہے اوران كى مقدار كہاں تك ہے؟ (محمد صفدر محمدى،فيصل آباد)

جواب الجواب بعون الوہاب: نيل الاوطار ميں ہے: وهو سنة بالاتفاق10
يعنى زير ناف بال مونڈنا بالاتفاق سنت ہے- 11

بال مونڈنے ميں چاليس روز تك تاخير ہوسكتى ہے- حديث ميں ہے

أن لانتركه أكثر من أربعين ليلة (رواہ مسلم) امام نووى فرماتے ہيں:

معناه تركا لانتجاوز به أربعين لا أنه وقت لهم الترك أربعين قال والمختار أنه يضبط بالحاجة والطول فإذا طال حلق، انتهى- قلت بل المختار أنه يضبط بالأربعين التي ضبط بها رسول الله ﷺ فلا يجوز تجاوزها ولا يعد مخالفا للسنة من تركه القص ونحوه بعد الطول إلى انتهاء تلك الغاية 12
" اس حديث كا مطلب يہ ہے كہ ہميں چاليس دن سے زيادہ تاخير نہيں كرنا چاہيے،اس كا يہ مطلب نہيں كہ آپ نے چاليس دن كى ميعاد مقرر كر دى ہے-

اُنہوں نے كہا كہ راجح بات يہ ہے كہ يہ معاملہ انسانى ضرورت اور بالوں كى طوالت پر منحصر ہے، جب زيادہ لمبے ہو جائيں تو منڈوا دينا چاہيے، ميرے(شوكانى) خيال ميں راجح بات يہ ہے كہ چاليس دن كى حد متعين ہے جس كو رسول اللہ نے مقرر فرما ديا ہے ، لہٰذا اس سے تجاوز كرنا درست نہيں ہے ،اگر كوئى شخص بال زيادہ لمبے ہو جانے كے باوجود عرصہ چاليس دن تك تاخير كر ليتا ہے تو وہ مخالف ِسنت شمار نہيں ہوتا-"

مرد اور عورت كو مخصوص مقام كے اوپر اور اس كے اردگرد سے بال مونڈنے چاہئيں- امام نووى فرماتے ہيں: المراد بالعانة: الشعر فوق الذكر وحواليه وكذلك الشعر الذي حول فرج المرأة " اس سے مراد وہ بال ہيں جو مرد كے عضو كے اوپر اور اس كے ارد گرد ہيں، ايسے ہى وہ بال جو عورت كى شرمگاہ كے ارد گرد ہوں-"
اس كے علاوہ بال مونڈنا شريعت ميں ثابت نہيں-

پرندے وغيرہ پالنا
سوال: گهر ميں پرندے ،طوطے وغيرہ پالنا شريعت كى رو سے كيسا ہے؟

جواب: گهر ميں پرندے پالنے كا جواز ہے،بشرطيكہ ان كى خوراك كا ان كى ضرورت وطبيعت كے مطابق بندوبست ہو- حديث ميں ہے كہ ايك عورت نے بلى كو باندهے ركها اور كهانے پينے كو كچھ نہ ديا اور نہ ہى چهوڑا كہ زمين سے وہ اپنى روزى حاصل كرے- اسى كے سبب وہ دوزخ ميں چلى گئى- الفاظِ حديث ملاحظہ فرمائيں:

عذبت امرأة في هرة سجنتْها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها وسقتها إذ هي حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض 13
" ايك عورت بلى كى وجہ سے عذاب ميں گرفتار ہو گئى ، اس نے بلى كو باندهے ركها يہاں تك كہ وہ مرگئى ، جس كى پاداش ميں يہ عورت جہنم ميں چلى گئى، كيونكہ اس نے بلى كو باندھ كر ركها- نہ اس كو كهلايا اور نہ پلايا اور نہ ہى اس كو چهوڑا كہ وہ زمين سے اپنى روزى حاصل كرے-"
اس حديث سے معلوم ہوا كہ جانور كے كهانے پينے كا انتظام ہو تو پهراسے گهر ميں ركهنے كا كوئى حرج نہيں-

نانا از خود ولى بن كر نواسى كا نكاح كردے تو؟
سوال: ايك نابالغ لڑكى كا نكاح والد كى غير موجودگى ميں اس كے نانا نے كردياجبكہ والد نے نكاح كرنے كا يہ اختيار لڑكى كے والد كو نہ ديا تها، نہ ہى اس پر راضى تها- چنانچہ نكاح كى مجلس كے دوران ہى لڑكى كے بڑے بهائى اور چچا نے كهڑے ہوكر اس نكاح كو مسترد كرديا- يادرہے كہ اس نكاح كے لئے لڑكى سے بهى پوچها نہ گيا تها-لڑكى كے والد نے واپسى پر نانا سے بهى اس امر پر اپنى ناراضگى كا اظہار كيا- اب اس لڑكى كے نكاح كى شرعى حيثيت كيا ہے؟

جواب: لڑكى كے باپ كى موجودگى ميں نانا كا پڑهايا ہوا نكاح درست نہيں، ويسے بهى نانا لڑكى كا ولى نہيں بن سكتا كيونكہ نانا 'ذوى الارحام' سے ہے جبكہ حق ولايت شرعاً صرف عصبہ رشتہ داروں كو حاصل ہے- ملاحظہ ہو (المغني لابن قدامه :9/359 اور نيل الاوطار: 6/128) چنانچہ يہ نكاح درست نہيں-



حوالہ جات
1. بحوالہ خير الفتاوىٰ: ج1/ ص463 از قلم: محمود الحسن طيب
2. 9/157
3. سنن ابى داود، كتاب الصلوٰة، تحفة 85 حديث 639،640
4. بيہقى: 9/350 ومستدرك حاكم: 4/217
5. شرح السنة :12/58
6. شرح السنہ: 12/158
7. فتح البارى :1/255
8. متفق عليہ
9. تفصيل كے ملاحظہ ہو عون المعبود :4/12
10. 1/123
11. تيسير العلام :1/69
12. نيل الاوطار :1/125
13. بخارى:3482، مسلم:2442