بدعت كى اقسام اور احكام

رياض كى مسجد مُتعب بن عبد العزيز كے امام وخطيب فضيلة الشيخ ڈاكٹر صالح بن فوزان آل فوزان سابق مفتى اعظم سعودى عرب شيخ عبد العزيز بن باز كے شاگرد ہيں- المعہد العالي للقضاء ميں ڈائريكٹر كى ذمہ داياں انجام دينے كے علاوہ آپ رياض كے اسلامك لاء كالج ميں پروفيسر بهى رہے ہيں- ريٹائرمنٹ كے بعد فتوىٰ او رريسرچ كے لئے آپ كو سعودى كبا رعلما بورڈ كا ممبر نامزد كيا گيا، ايسے ہى رابطہ عالم اسلامى كے فقہ كمپليكس كے بهى آپ ركن ہيں- متعدد رسائل ومضامين كے علاوہ بيسيوں كتب كے آپ موٴلف ہيں اور سعودى عرب كے عوام ميں آپ كى شرعى رائے كو بڑى وقعت دى جاتى ہے-

 

لغوى تعريف
يہ ب د ع سے ماخوذہے ،جس كامعنى ہے :كسى چيز كو ايسے طريقے پر ايجاد كرنا كہ اس سے قبل اس كى كوئى مثال نہ ہو اور اسى سے اللہ تعالىٰ كايہ فرمان :

بَدِيعُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضِ ۖ...﴿١١٧...سورۃ البقرۃ
يعنى "ان كاايجاد كرنے والا ايسے طريقے پر جس كى پلےر كوئى مثال نيں) ہے-"

اور اللہ تعالىٰ كا يہ فرمان :

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ ٱلرُّ‌سُلِ...﴿٩...سورۃ الاحقاف
يعنى "ميں اللہ كى جانب سے بندوں كى طرف پيغام لانے والا پلاُ انسان نيں ہوں، بلكہ مجھ سے پلےا بتا سے رسول گزر چكے ہيں-"

اور مثل مشوىر ہے:

ابتدع فلان بدعة
يعنى "اس نے ايسا طريقہ ايجاد كيا ہے كہ اس سے پلےُ كسى نے ايسانيںں كيا ہے-"

ابتداع وايجادكى دو صورتيں ہيں :
(1) عادات ميں ايجاد:جيسا كہ دورِ حاضر ميں نئى نئى ايجادات دريافت ہو رہى ہيں اور ان كے جواز ميں كوئى شبہ نہیں ہے، كيونكہ عادات ميں اصل اِباحت ہے-
(2) دين ميں كوئى نئى چيز ايجاد كرنا :حرام ہے، اس لئے كہ دين ميں اصل 'توقيف(i)'ہے

،چنانچہ رسول اللہ ﷺ كا ارشاد ہے :
"جس نے ہمارے دين ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جس كا دين سے كوئى تعلق نيں ہے تو وہ مردود ہے-" 1

ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ
"جس نے كوئى ايسا كام كيا جو ہمارے دين كيخلاف ہے توايسا كام رد كر ديا جائے گا-"2

بدعت كى اقسام
دين ميں بدعت كى دو قسميں ہيں :
(1) نظريات اور عقائد ميں بدعت:
مثلاً جہميہ، معتزلہ، رافضہ اور ديگر گمراہ فرقوں كے نظريات واعتقادات


(2) عبادات ميں بدعت:

اس كى بهى چند صورتيں ہيں:
پہلی قسم:نفس عبادت ہى بدعت ہو ،يعنى كوئى ايسى نئى عبادت ايجاد كرلى جائے جس كى شريعت ميں كوئى بنياد اور اصل نہ ہو-مثلاً كوئى ايسى نماز، روزہ يا عيد، جيسے عيد ِميلاد وغيرہ ايجاد كرنا جس كا پلےا شريعت ميں وجود ہى نيب تها -

دوسرى قسم:كسى مشروع عبادت ميں اپنى طرف سے كوئى اضافہ كرلينا مثلاً كوئى شخص ظرل يا عصر كى نماز ميں پانچويں ركعت كا اضافہ كردے-

تيسرى قسم: عبادت كے طريقہ ادائيگى ميں بدعت، يعنى كسى عبادت كو ايسے طريقہ پر كرنا،جس كو اللہ تعالى نے مشروع قرار نيںل ديا، مثلاً مل كر خوش الحانى كے ساتھ اونچى آوازميں مسنون اذكار كا ورد كرنا- جيسا كہ آج كل ہمارے ہاں بعض حضرات نماز ختم ہوتے ہى اجتماعى انداز ميں اونچى آواز ميں لا إله إلا اللہ كا وِرد كرتے ہيں يا عبادت ميں اپنے آپ پر اس قدر سختى برتنا كہ وہ سنت ِرسول ﷺ سے تجاوز كرجائے- جيسا كہ صحيح حديث ميں تين صحابہ  كا واقع مشوير ہے كہ ايك نے سارى سارى رات نوافل پڑهنے كا عزم كيا ،ايك نے ہہيش روزہ ركهنے كا عزم باندہا اور ايك نے عمر بهر نكاح نہ كرنے كا عداكيا كہ ميرى عبادت خلل انداز نہ ہو-

رسول اللہ ﷺ كو معلوم ہوا توفرما يا:

(من أعرض عن سنتي فليس مني)
"جس نے ميرى سنت سے اعراض كيا وہ مجھ سے نہیں ہے-"

چوتهى قسم: كسى مشروع عبادت كے لئے كوئى ايسا وقت متعنے كر لينا ، جسے شریعت نے معين نہ كيا ہو، جيسا كہ بعض لوگ پندرہويں شعبان كو خاص طورپر نفل نوافل اور روزہ كا اہتمام كرتے ہيں؛يہ بدعت ہے، كيونكہ نفلى نماز و روزہ تو مشروع ہے ليكن اس كے لئے اپنى طرف سے كو ئى وقت متعين كرلينا، اس كے لئے شرعى دليل كى ضرورت ہے -

دين ميں بدعات ايجاد كرنے كا حكم
دين ميں كوئى بهى بدعت ايجاد كرنا حرام اور باعث ِگمراہى ہے -اس كى دليل رسول اللہ ﷺ كے يہ فرمان ہيں :
( وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة)

(1)"دين كے اندرنئى نئى چيزيں داخل كرنے سے باز رہو، بلا شبہ ہر نئى چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے-"3
امام ترمذى نے اس حديث صحيح حسن قرار ديا ہے -

(2) فرمانِ نبوى( من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ)4
"جس نے ہمارے دين ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جس كا دين سے كوئى تعلق نيںس ہے تو وہ مردود ہے-"

(3) فرمانِ نبوى: (من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهوردّ)5
"جس نے كوئى ايسا كام كياجس پر ہمارا حكم نہيں توايسا كام رد كيا جائے گا-"

يہ احاديث اس بات پر دلالت كرتى ہيں كہ عبادات و اعتقادات ميں بدعات داخل كرنا حرام ہے،ليكن يہ حرمت ،بدعت كى نوعيت كے اعتبار سے مختلف ہے-

بعض بدعات تو صريح كفر ہيں جيسا كہ صاحب ِقبركا تقرب حاصل كرنے كے لئے اس كى قبر كا طواف كرنا، اس كے در پر نذر و نياز دينا،چڑہاوے چڑهانا، ان سے مراديں مانگنا اور مدد كى فرياد كرنا- اسى طرح غالى جہميوں اور معتزليوں كے نظريات بهى صريح كفر كے زمرہ ميں آتے ہيں-
بعض بدعات 'ذرائع شرك' كے زمرہ ميں آتى ہيں جيسے قبروں پر عمارتيں تعمير كرنا، وہاں نماز پڑهنا اور دعائيں مانگنا-
بعض بدعات اعتقادى گمراہى كے زمرہ ميں آ تى ہيں جيسا كہ خوارج، قدريہ اور مرجيہ كے وہ جديد نظريات اور عقائد جو شريعت كے مخالف ہيں -
اور بعض بدعات معصيت و نافرمانى كے زمرہ ميں آتى ہيں،جيسے نكاح كرنے سے كنارہ كشى اور روزہ كى حالت ميں دهوپ ميں كهڑے ہونے كى نذر ماننا، اسى طرح شہوتِ جماع ختم كرنے كى غرض سے اپنے آپ كو خصى كر لينا - 6

تنبہم : يادرہے كہ جو شخص بدعت كى تقسيم اچهى اور برى بدعت سے كرتا ہے، وہ غلطى پر ہے اور رسول اللہ ﷺ كے اس قول (فإن كل بدعة ضلالة)كى مخالفت كر رہا ہے كيونكہ رسول اللہ ﷺ نے بغير كسى تقسيم كے تمام بدعات كوگمراہى قرار ديا ہے- ليكن تعجب ہے كہ بعض لوگ تمام بدعات كو گمراہى قرار نہيں ديتے بلكہ بعض بدعات كو حسنہ كہتے ہيں -

حافظ ابن رجب اپنى كتاب 'جامع العلوم والحكم 'ميں فرماتے ہيں كہ
"رسول اللہ ﷺ كايہ فرمان:

إن كل بدعة ضلالة)

آپ كے جوامع الكلم ميں سے ہے جس سے بدعت كى كوئى صورت بهى خارج نہيں ہے-يہ حديث اُصولِ دين ميں عظيم اساس كى حيثيت ركھتى ہے اور رسول اللہ ﷺ كے فرمان: (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ)كى طرح بدعت كى تمام نوعيتوں كو محيط ہے- لہٰذا كوئى بهى شخص جو بهى نئى چيزايجاد كرے اورپهراسے دين بنا كر پيش كرے ،حالانكہ دين ميں اس كى كوئى اصل نہيں ہے تو وہ گمراہى ہے اور اللہ كا دين اس سے برى ہے؛ خواہ اس كا تعلق اعتقادى مسائل سے ہو يا ظاہرى و باطنى اعمال و اقوال سے -"7

اور بدعت ِحسنہ كہنے والوں كے پاس دليل صرف حضرت عمر كا تراويح كے بارے ميں يہ قول ہے كہ نعمت البدعة هٰذه "يہ اچهى بدعت ہے-" اسى طرح وہ يہ دليل بهى پيش كرتے ہيں كہ بہت سارى چيزيں ايسى وقوع پذير ہوئى ہيں جن كا سلف ميں سے كسى نے انكار نہيں كيا جيسے (حضرت ابو بكر كا ) قرآنِ كريم كو جمع كرنا، اسى طرح حديث كى كتابت و تدوين وغيرہ

تو اس كا جواب يہ ہے كہ يہ چيزيں كوئى نئى نہيں،بلكہ شريعت ميں ان كى دليل اور اصل موجود ہے ، لہٰذا حضرت عمر كا تراويح پر فرمان: "نعمت البدعة هذه" ميں تراويح پر بدعت كا اطلاق اپنے لغوى معنى كے لحاظ سے ہے، شرعى معنى كے طور پر اُنہوں نے اسے بدعت قرار نہيں ديا- كيونكہ تراويح كى جماعت كى اصل شريعت ميں موجود ہے،نبى ﷺ نے خود چندراتيں تراويح كى نماز پڑهائى ہے اور پهر اس خدشہ سے اس كى جماعت كروانا چهوڑ دى كہ كہيں فرض نہ ہوجائے- صحابہ كرام  برابر نبى ﷺ كى زندگى ميں ا ور وفات كے بعد تراويح الگ الگ پڑهتے رہے،يہاں تك كہ حضرت عمر نے اپنے دورِ خلافت ميں تمام لوگو ں كو اسى طرح ايك امام كے پیچھے جمع كرديا جس طرح كے نبى كريم ﷺ كے پیچھے پڑهتے رہے -كيونكہ وحى منقطع ہوچكى تهى او ر اب تراويح كے فرض ہونے كا خدشہ نہيں رہا تها- چنانچہ تراويح كو بھلا حضرت عمر بدعت كيسے قرار دے سكتے ہيں؟ لہٰذا يہ ماننا پڑے گا كہ اس سے ان كى مراد لغوى بدعت ہى تهى، كيونكہ شرعى لحاظ سے بدعت اُسے كہا جاتا ہے جس كى شريعت ميں ايسى كوئى اصل موجود نہ ہو ، جس كى طرف رجوع كيا جا سكے -

اسى طرح قرآن كريم كو كتاب كى شكل ميں جمع كرنے كى اصل بهى شريعت ميں موجود تهى، اس لئے كہ خودنبى كريم ﷺ صحابہ كو قرآن كريم لكھنے كا حكم ديا كرتے تهے اور نبى ﷺ كے دور ميں پورا قرآن لكها ہوا موجود تها، البتہ باقاعدہ كتابى شكل ميں نہ تها- بعد ميں حضرت ابوبكر نے حفاظت كى غرض سے صحابہ كرام رضى اللہ عنهم كے مشورہ سے قرآن كو ايك مصحف ميں جمع كر ديا-

اور كتابت ِحديث كى بهى شريعت ميں اصل موجودہے ،اس لئے كہ نبى كريم ﷺ نے بعض صحابہ كرام  كو احاديث لكهنے كى اجازت مرحمت فرمائى تهى اور ابتدا ميں جو آپ نے كتابت ِحديث سے منع فرمايا تها تو اس كى وجہ يہ خدشہ تها كہ كہيں احاديث قرآن كريم كے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائيں -ليكن جب صحابہ كو اس كى تميز ہو گئى تو يہ خطرہ نہ رہا اور آپ كى وفات ہوگئى تو يہ خطرہ بالكل ٹل گيا ،كيونكہ قرآن آپ كى وفات سے پہلے ہى مكمل طور پرمحفوظ ہوچكا تها-لہٰذا ائمہ دين نے سنت كو ضائع ہونے سے بچانے كے لئے اس كومدوّن كرنا شروع كرديا-يہ ان كا اُمت ِمسلمہ پرعظيم احسان ہے كہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ كى سنت كوقيامت تك كے لئے محفوظ كرديا- اللہ تعالىٰ انہيں اجر عظيم سے نوازے !!

شريعت ِاسلاميہ كى تاريخ ميں بدعات كا ظہور اور اس كے اسباب
أولا: شريعت ِاسلاميہ كى تاريخ ميں بدعات كے ظہور كے سلسلہ ميں دو حوالوں سے گفتگو كى جاسكتى ہے :

(1) بدعات كے ظہور كا زمانہ
شيخ الاسلام ابن تيميہ فرماتے ہيں:
"يہ بات بالكل واضح ہے كہ علوم و عبادات سے متعلقہ عام بدعات خلفاے راشدين كے آخرى دور ميں ہى رونما ہوچكى تهيں، جيسا كہ نبى كريم ﷺ نے خود ہى اس كى خبر دے دى تهى-

آپ نے فرماياتها:

(من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرًا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي)8
"تم ميں سے جو لوگ ميرے بعد زندہ رہيں گے ،وہ بہت زيادہ اختلافات دیكھیں گے،لہٰذا ميرے بعدتم ميرى سنت اور خلفاء راشدين كى سنت كو لازم پكڑنا اور اسى پر جمے رہنا-"

پهر ايسے ہى ہوا كہ دوسرى صدى ہجرى ميں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كى زندگى ہى ميں انكارِ تقدير، انكارِ عمل، تشيع اور خوارج كى بدعات وخرافات رونما ہوئيں ليكن صحابہ نے سنت ِنبوى ﷺ كے دامن كو مضبوطى سے تهامے ركها اور ان تمام بدعات كى پرزور ترديد كى -

اس كے بعد 'اعتزال' كى بدعت ظاہر ہوئى جس سے مسلمانوں ميں طرح طرح كے فتنے پهوٹ پڑے- نظريات ميں ا ختلاف پيدا ہوا، بدعات اور نفس پرستى كى جانب لوگوں كا رجحان بڑها-تصوف كا فتنہ رونما ہوا اورپهر خير القرون كے بعد قبروں پر بڑى بڑى تعميرات جيسى بدعات ظاہر ہوئيں اورپهر امتدادِ زمانہ كے ساتھ ساتھ طرح طرح كى بدعات ميں اضافہ ہوتا گيا-

(2) بدعات كے ظہور كے مقامات
شيخ الاسلام حافظ ابن تيميہ ايك مقام پر فرماتے ہيں :
"مكہ مكرمہ ، مدينہ منورہ ، بصرہ، كو فہ اور شام يہ پانچ بڑے بڑے شہر ايسے تهے جہاں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے سكونت اختيار كى اور پهر ان علاقوں سے علم وايمان كى قنديليں روشن ہوئيں- قرآن و حديث، فقہ وعقيدہ اور ديگر اسلامى اُمور كى كرنيں پهوٹيں ليكن افسوس كہ سوائے مدينہ منورہ كے اِنہى شہر وں سے ہى اعتقادى بدعات وخرافات كى راہيں نكليں -

كوفہ سے شيعيت و مرجئہ كا فتنہ پهوٹا جس نے رفتہ رفتہ ديگر شہروں كو بهى اپنى لپيٹ ميں لے ليا- بصرہ سے فتنہ قدريت واعتزال اورديگر عقائد ِفاسدہ كا ظہور ہوا اور شام ناصبيت اور قدريت كا مركز بنا رہا- اور ان سب سے بڑھ كر جہميت كا عظيم فتنہ تها جو خراسان كى جانب سے ظہور پذير ہوا -اور حضرت عثمان  كى شہادت كے بعد جب فرقہ بندى كا ناسور پهوٹا تو اس كے نتيجہ ميں حروريہ كى بدعت رونما ہوئى-

الغرض جو علاقہ مدينہ منورہ سے جس قدر دور تها، اسى قدر وہ بدعات وخرافات ميں بهى ديگر علاقوں سے آگے تها- ليكن ديارِ رسول ﷺ ، مدينہ منورہ ان تمام بدعات وخرافات سے محفوظ رہا، اگرچہ وہاں قدريہ وغيرہ كا ايك گروہ ايسا تها جو اپنے خبث ِباطن ميں ان بدعات و خرافات كو چھپائے بیٹھا تها، مگروہاں ان كى كوئى اہميت نہ تهى اور اہل مدينہ كى نظروں ميں وہ لوگ ذليل ترين تهے-اس كے برخلاف كوفہ ميں شيعيت و ارجا، بصرہ ميں اعتزال و تصوف اور شام ميں ناصبيت كى بدعات وخرافات اپنے زوروں پر تهيں-

اور خود نبى كريم ﷺ نے اس بات كى پيشين گوئى كر دى تهى كہ مدينہ منورہ فتنوں سے محفوظ رہے گا-چنانچہ صحيح حديث سے ثابت ہے كہ دجال مدينہ ميں داخل نہيں ہوگا- اور وہاں اصحابِ امام مالك كے دور تك علم وعرفان كا چرچا رہا اور اصحابِ مالك كا دور چوتهى صدى ہجرى كا زمانہ تها- چنانچہ ہم كہہ سكتے ہيں كہ خير القرون كے دور تك مدينہ منورہ ميں كوئى نماياں بدعت ظہور پذير نہيں ہوئى-9

ثانيا : بدعات كے ظہور كے اسباب
بدعات وخرافات كى آلائشوں سے بچنے كا صرف ايك ہى راستہ ہے كہ كتاب وسنت كا دامن مضبوطى سے تهام ليا جائے - اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌ٰ‌طِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ  ﴿١٥٣...سورۃ الانعام
"اور يہى ميرا راستہ سيدها ہے ، اسى كى پيروى كرو اور ديگر راستوں كى پيروى نہ كرو جو تمہيں اس كے راستے سے جدا كرديں-"

نبى كريم ﷺ نے اس بات كو نہايت واضح انداز ميں بيان كرديا تها- چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روايت ہے كہ "رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے ايك لكير كھینچى اور فرمايا كہ يہ اللہ كا راستہ ہے -پهر اس كے دائيں بائيں چند لكيريں كھینچى اور فرمايا: يہ مختلف راستے ہيں اور ہر راستے پر شيطان بیٹھا اپنى جانب بلا رہا ہے-

پهر آپ ﷺ نے يہ آيت تلاوت فرمائى:
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌ٰ‌طِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ ذَ‌ٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣...سورۃ الانعام
"اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جومستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسرى راہوں پر مت چلو كہ وہ راہيں تم كو اللہ كى راہ سے جدا كرديں گى-اس كا تم كو اللہ نے تاكيدى حكم ديا ہے تاكہ تم پرہيزگارى اختيار كرو-" 10

پس جوشخص بهى كتاب و سنت سے روگردانى كرے گا، وہ يقينا ان گمراہ كن راستوں اور نئى نئى بدعات كا شكار ہو جائے گا-

بنيادى طورپر درج ذيل اسباب تهے جو ان بدعات كے ظہور كا باعث ہوئے :
(1)دينى احكام سے جہالت
(2)ہوىٰ پرستى اورخواہشات نفس كى پيروى
(3)نظرياتى اور شخصى تعصب، كفار كى مشابہت اور تقليد

اب ہم ان اسباب كو قدرے تفصيل سے بيان كرتے ہيں :
(1) دينى احكام سے لا علمى اور جہالت

زمانہ گزرتا رہا اور جوں جوں دنيا آثارِ رسالت سے دور ہوتى گئى، اُسى قدرعلم كى روشنى ماند پڑ تى رہى اور جہالت كے سائے گهرے ہوتے گئے -پيغمبر ﷺ نے پہلے ہى اس عالم پر آشوب كى خبر ان الفاظ ميں دے دى تهى:
"تم ميں سے زندہ رہنے والا شخص بہت سارے اختلافات دیكھے گا-"11

اسى طرح آپ ﷺ نے فرمايا:
"اللہ تعالىٰ علم بندوں سے چھین كر نہيں ختم كرے گا ،بلكہ علما كو ختم كركے علم ختم كرے گا- حتىٰ كہ جب كوئى عالم بهى زندہ نہيں رہے گا تو لوگ جاہلوں كو اپنا امير بنا ليں گے - جب ان سے كوئى مسئلہ پوچها جائے گا تو بغير علم كے فتوے ديں گے اور خود بهى گمراہ ہوں گے اور دوسروں كوبهى گمراہ كريں گے-" 12

علم اور علما ہى بدعت كا منہ توڑ جواب دے سكتے ہيں اور جب علم اور علما ہى كا وجود ختم ہو جائے تو بدعت كے پهلنے پهولنے اور بدعتيوں كے سرگرم ہونے كے مواقع خوب ميسر ہوجاتے ہيں-

(2) خواہشاتِ نفس كى پيروى
جو شخص كتاب و سنت سے اعراض كى روش اختيار كرليتا ہے تواس كا مطلب يہ ہے كہ وہ خواہشاتِ نفس كى پيروى كررہا ہے -

چنانچہ اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے :
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَآءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ ٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ بِغَيْرِ‌ هُدًى مِّنَ ٱللَّهِ ۚ  ﴿٥٠... سورۃ القصص
"اگر يہ تيرى بات نہ مانيں تو تم يقين كرلو كہ يہ صرف اپنى خواہش كى پيروى كررہے ہيں اور اس سے بڑھ كر بہكا ہوا كون ہے جو راہ ہدايت كو چهوڑ كر اپنى خواہش كے پیچھے لگ جائے-"

نيز فرمانِ الٰہى ہے :
أَفَرَ‌ءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَىٰهُ وَأَضَلَّهُ ٱللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِۦ وَقَلْبِهِۦ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِ‌هِۦ غِشَـٰوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِنۢ بَعْدِ ٱللَّهِ ۚ ﴿٢٣ ...سورۃ الجاثیہ
"كيا آپ نے اسے بهى ديكها جس نے اپنى خواہش نفس كو اپنا معبود بنا ركها ہے جس كا نتيجہ يہ ہواكہ باوجود سمجھ بوجھ كے اللہ نے اسے گمراہ كرديا ہے اور اسكے كان اور دل پر مہر لگا دى ہے اور اسكى آنكھ پر بهى پرده ڈال ديا ہے، اب ايسے شخص كو اللہ كے بعد كون ہدايت دے سكتا ہے-"
اور يہ بدعات وخرافات اتباعِ هوىٰ كى ہى پيداوار ہيں!!

(3) شخصى تعصب اور آباء و اجداد كى تقليد
جب انسان اپنى آنكھوں پر تعصب كى پٹى باندھ ليتا ہے تو اس كے لئے دليل كے پيچھے چلنا اور راہ حق كى پہچان ناممكن ہو جاتى ہے ، اس لئے قرآ ن اس طرزِ عمل كى پرزور تر ديد كرتا ہے،

فرمانِ الٰہى ہے :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُوا مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُوابَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآ ۗ  ﴿١٧٠...سورۃ البقرۃ
"اور ان سے جب كہا جاتا ہے كہ اللہ تعالىٰ كى اُتارى ہوئى كتاب كى تابعدارى كرو تو جواب ديتے ہيں كہ ہم تو اس طريقے كى پيروى كريں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا كو پايا ہے-"

اور آج يہى حال بعض متعصب پيروانِ مذاہب ، صوفيا اور قبر وں كے پجاريوں كا ہے جب اُنہيں كتاب و سنت كى اتباع اور اس كى مخالفت كو ترك كرنے كى دعوت دى جاتى ہے تو يہ حضرات اپنے مذاہب، مشائخ اور آباء و اجداد كے عمل كو بطورِدليل پيش كرتے ہيں-

(4) اغيار كى مشابہت
سب سے زيادہ جو چيز انسان كو بدعات وخرافات ميں مبتلا كرتى ہے، وہ كفار كى مشابہت ہے- چنانچہ ابوواقد ليثى سے روايت ہے كہ

"ہم اللہ كے رسول كے ساتھ غزوئہ حنين كے لئے نكلے اور اس قت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تهے - مشركوں كے لئے ايك بيرى كا درخت تها، اسے ذاتِ انواط كہا جاتا تها-يہاں يہ لوگ اعتكاف كرتے اور اس كے ساتھ اپنے ہتهيار لٹكاتے تهے- تو ہمارا گذر بيرى كے درخت كے پاس سے ہوا، ہم نے كہا كہ اے اللہ كے رسول! ہمارے لئے بهى 'ذاتِ انواط' بنا ديجئے جس طرح كہ ان كے لئے ذاتِ انواط ہے- رسول اللہ ﷺ نے تعجب كرتے ہوئے فرمايا: ايسے ہى وہ اعمال تهے جس كى وجہ سے پہلى قوميں تبا ہ ہوئيں- اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے!تم نے وہى بات كہى جو بنى اسرائيل نے حضرت موسى  سے كہى تهى:

ٱجْعَل لَّنَآ إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ ءَالِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ﴿١٣٨...سورۃ الاعراف

"ہمارے لئے بهى ايك معبود ايسا ہى مقرر كرديجئے جيسے ان كے يہ معبود ہيں-" آپ نے فرمايا: تم لوگ واقعى بڑے جاہل ہو-" 13

اور نبى ﷺ نے فرمايا:

(لتركبن سنن من كان قبلكم) 14
"يقينا تم ضرور پہلى قوموں كے طريقوں پر چلوگے -"

اس حديث سے يہ بات واضح ہوتى ہے كہ كفار كى مشابہت كى جستجو ہى تو تهى جس نے بنى اسرائيل اور بعض صحابہ كو اپنے نبى سے اس قسم كے مشركانہ مطالبہ پر اكسايا كہ ہمارے لئے ايك ايسا معبود مقرر كرديں جس كى ہم پرستش كريں -

كيا يہى كچھ آج نہيں ہو رہا؟ مسلمانوں كى اكثريت كفار كى تقليد ميں بے شمار بدعات وخرافات ميں مبتلا ہو چكى ہے -برتھ ڈے منانا، مخصوص اعمال كيلئے دنوں اور ہفتوں كى تعيين، يادگارى چيزوں اور دينى يادوں پر جلسے جلوس منعقد كرنا، يادگارى تصاوير آويزاں كرنا ، مجسّمے قائم كرنا، ماتم وعزا كى محافل كا انعقاد، جنازے كى بدعات ، قبروں پرمزارات بنانا اور ان پر بڑى بڑى مساجد تعمير كرنا اور ان پر سال بسال ميلہ لگانا ، كيا يہ سب شركيہ اور بدعيہ اعمال نہيں ہيں؟

اہل بدعت كے بارے ميں اہل السنة والجماعہ كا موقف
أهل السنة والجماعة نے ہميشہ سے اہل بدعت كى ترديد اور ان كى بدعات پرنكير كى اور لوگوں كو بدعات كے ارتكاب سے منع كيا - اس كى چند مثاليں درج ذيل ہيں:

(1) اُمّ درداء سے روايت ہے، وہ كہتى ہيں كہ ابوالدرداء ميرے پاس غصے كى حالت ميں آئے، ميں نے پوچها: كيا بات ہے؟ كہنے لگے :اللہ كى قسم!ميں ان لوگوں ميں محمد كے دين سے كچھ نہيں ديكهتا، سوائے اس كے يہ تمام لوگ نمازپڑهتے ہيں- 15

(2) عمرو بن يحيىٰ سے روايت ہے، وہ كہتے ہيں كہ ميں نے اپنے والد سے سنا، وہ اپنے والد سے روايت كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ ہم لوگ صبح كى نماز سے پہلے عبداللہ بن مسعود كے دروازے پر اس انتظار ميں بیٹھے تهے كہ وہ نكليں تو ہم سبھى ان كے ساتھ مسجد چليں-اتنے ميں ابوموسىٰ اشعرى  آئے اور پوچها: كيا ابهى تك ابوعبدالرحمن (ابن مسعود ) نہيں نكلے؟ ہم نے كہا : نہيں ابهى تك تو نہيں نكلے -چنانچہ وہ بهى ان كے انتظار ميں بیٹھ گئے-جب وہ نكلے تو ہم سبھى لوگ كهڑے ہوگئى-

ابوموسىٰ كہنے لگے: اے ابوعبدالرحمن ! ميں نے ابهى مسجد ميں ايك نئى اور اجنبى چيز ديكهى ہے اور اللہ كاشكر ہے كہ خير ہى ديكهى ہے- اُنہوں نے پوچها : كيا ديكهاہے؟ ابوموسىٰ نے جواب ديا: اگر زندگى رہى تو آپ بهى ايسا ہى پائيں گے-پهر بتانے لگے كہ ميں نے مسجد ميں كچھ لوگوں كو حلقہ بناكر بیٹھے ہوئے ديكها، وہ نماز كے انتظار ميں تهے- سب كے ہاتھ ميں كنكرياں تهيں-ہر حلقہ ميں ايك آدمى تها، جب وہ كہتا كہ سو بار اللہ أكبركہو تو سب لوگ سو بار اللہ أكبر كہتے اور جب وہ كہتا كہ سو بار لا إلہ إلا اللہ كہو تو وہ سو بار لاإلہ إلا اللہ كہتے، جب وہ كہتا كہ سو مرتبہ سبحان اللہ كہو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللہ كہتے-

يہ سن كر ابو عبد الرحمن نے ابو موسىٰ سے كہا :تم نے اُ نہيں يہ كيوں نہيں كہا كہ اپنے گناہوں كى فكركرو، ميں تمہيں يقين سے كہتا ہوں كہ تمہار ى نيكيوں ميں كچھ بهى اضافہ نہيں ہوگا- پهر وہ چلے،ہم بهى ان كے ساتھ چل پڑے،يہاں تك كہ وہ ان حلقوں ميں سے ايك حلقے كے پاس آكر كهڑے ہوئے اور كہا : ميں يہ تمہیں كيا كرتے ديكھ رہا ہوں؟ تو اُنہوں نے جواب ديا كہ اے ابوعبدالرحمن!كنكرياں ہيں جن سے ہم تكبير و تہليل، تسبيح اور تحميد كے اذكار كا شمار كرتے ہيں- تو عبداللہ بن مسعود نے فرمايا :

تم لوگ اپنى اپنى خطائيں شمار كرو ،ميں تمہیں اس بات كى ضمانت ديتا ہوں كہ تمہارى كوئى نيكى بهى برباد نہيں ہوگى- اے امت ِمحمد ﷺ! تمہارى تباہى وبربادى ہو!كتنى جلدى تم نے اپنى ہلاكت كا سامان كرليا -يہ صحابہ كرام كى كثير تعداد موجود ہے،يہ نبى ﷺ كے كپڑے ابهى بوسيدہ نہيں ہوئے اور آپ ﷺ كے برتن ابهى ٹوٹے نہيں اور تم نے يہ بدعات گهڑ ليں -اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے يا تو تم لوگ ايسے طريقے پر ہو جو محمد كے طريقے سے زيادہ بہتر ہے يا يقينا تم گمراہى كے دروازے كهول رہے ہو !!

تو اِن لوگوں نے كہا : اللہ كى قسم! اے ابوعبدالرحمن، ہمارا مقصد سوائے خير كے كچھ نہيں تها- آپ  نے فرمايا: ياد ركهوبہت سے خير كے متلاشى ايسے ہيں جو اسے ہرگز نہيں پاسكتے-رسول اللہ نے ہم كو ايك حديث سنائى كہ "ايك قوم قرآنِ مجيد پڑهے گى ،ليكن وہ ان كے حلق سے نيچے نہيں اُترے گا-" اور اللہ كى قسم !مجهے معلوم نہيں،ہوسكتا ہے كہ وہ زيادہ تر تمھیں ميں سے ہوں- يہ كہہ كر آپ  وہاں سے واپس چلے گئے-

عمرو بن سلمہ كہتے ہيں كہ ہم نے 'نہروان' كے دن ديكها كہ وہى لوگ خوارج كے ساتھ مل كر ہم سے نيزہ زنى كررہے تهے- 16

(3) ايك آدمى حضرت امام مالك بن انس  كے پاس آكر كہنے لگا كہ ميں كہاں سے احرام باندهوں؟ تو آپ نے جواب ديا كہ جو ميقات رسول اللہ ﷺ نے مقرر كيا ہے، وہاں سے احرام باندهو- آدمى نے كہا كہ اگر ميں اس ميقات سے ذرا پہلے احرام باندھ لو ں تو؟ امام مالك نے كہا: ميں اسے درست نہيں سمجھتا- اس آدمى نے كہا : اس ميں حرج كيا ہے ؟ آپ  نے فرمايا: مجهے انديشہ ہے تم كہيں فتنے ميں مبتلا نہ ہو جاوٴ -اس آدمى نے كہا كہ خير كى جستجو ميں بهلا كيا فتنہ ہوسكتا ہے ؟ يہ سن كر امام مالك نے قرآن كى يہ آيت پڑهى:
فَلْيَحْذَرِ‌ ٱلَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِۦٓ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣...سورۃ النور
"سنو جو لوگ حكم رسول كى مخالفت كرتے ہيں،اُنہيں ڈرتے رھنا چاہئے كہ كہيں ان پر كوئى زبردست آفت نہ آپڑے يا انہيں دردناك عذاب نہ پہنچ جائے -"

اور بھلا اس سے بڑھ كر اور فتنہ كيا ہوسكتا ہے كہ تم ايك ايسے كام كو باعث ِفضيلت قرار دے رہے ہو كہ (نعوذ بااللہ) رسول اللہ اس فضيلت سے بہرہ ور نہ ہو سكے -17
نمونے كے طور پر يہ چند مثاليں ذكر كى ہيں، ورنہ اللہ كے فضل و كرم سے ہر زمانے ميں علماء كرام بدعات كى پر زور ترديد كرتے رہے ہيں-

اہل بدعت كى ترديد ميں اہل السنة و الجماعہ كا طريقہ
اس سلسلے ميں اسلاف اہل سنت نے كتاب و سنت پر مبنى نہايت مثبت اور مسكت طريقہ اختيار كرتے ہوے نہايت علمى اندازسے ان بدعات كاردّكيا ہے- وہ پہلے اہل بدعت كے شبہات پيش كرتے ہيں، پهرمدلل اندازسے ان كے شبہات كا توڑ كرتے ہوئے كتاب وسنت سے يہ ثابت كرتے ہيں كہ سنت كو لازم پكڑنا اور بدعات و خرافات سے باز رہنا بہرحال ضرورى ہے- اور اس سلسلے ميں انہوں نے وعظ وارشاد اور تصنيف و تاليف سے كام ليا اوراپنى كتابوں ميں ايمانيات وعقائد كے متعلق شيعہ، خوارج، جہميہ ، معتزلہ اور اشاعرہ كے گمراہ كن نظريات كا پورى قوت اور پرزور انداز سے ردّ كيا -

اور علماء اہل سنت نے عقيدہ كے موضوع پر خاص طور پر كتب تاليف كيں-مثلاً امام احمد نے جہميہ كے ردّ ميں ايك كتاب لكهى- اسى طرح عثمان بن سعيد دارمى ، شيخ الاسلام ابن تيميہ ان كے شاگرد علامہ ابن قيم ، شيخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور ديگر ائمہ نے ان تمام فرقِ باطلہ نيز قبوريوں اور صوفيوں كے ردّ ميں مفيد كتابيں لكهيں -

بدعات كى ترديد ميں بهى بہت سى كتابيں موجود ہيں - بطورِ مثال كے ان ميں سے چند كاتذكرہ كيا جاتا ہے- قديم كتب ميں سے:

(1) الاعتصام از امام شاطبي
(2) اقتضاء الصراط المستقيم از شخ الإسلام ابن تيمية(جس كا بڑا حصہ اہل بدعت كے رد پر مشتمل ہے)
(3) إنكار البدع والحوادث از ابن وضاح
(4) الحوادث والبدع از طرطوشي
(5) الباعث على إنكار البدع والحوادث از أبو شامة
(6) منهاج السنة النبوية في الرد على الرافضة والقدرية از ابن تيمية 

جديد كتابوں ميں سے
(1) الإبداع في مضار الإبتداع از شيخ على محفوظ 
(2) السنن والمبتدعات المتعلقة بالأذكاروالصلوات از شيخ محمد احمد شقيرى حوامدى
(3) التحذير من البدع از سماحة الشيخ ابن باز

آج بهى مسلمان علماء كرام مجلات ورسائل اخبار وجرائد ، ريڈيو، ٹيليويژن جمعہ كے خطبات ومقالات كے ذريعے مسلسل ان بدعات وخرافات اور اہل بدعت كى ترديد كر رہے ہيں - اور ان كوششوں كا يقينا مسلمانوں كو دينى تحفظ فراہم كرنے، بدعات اور اہل بدعت كا قلع قمع كرنے ميں اہم كردار ہے اور اس كے بہت عمدہ اثرات مرتب ہو رہے ہيں -

عصر حاضر ميں رائج بدعات كے چند نمونے
دورِ حاضر كى تمام بدعات قلت ِعلم، اہل بدعت كى كثرت، زمانہٴ نبوت سے دورى اور غيروں كى مشابہت و تقليد كا نتيجہ ہيں اور رسول اللہ كے اس فرمان كا صحيح مصداق ہيں :
تتبعن سنن من كان قبلكم ) 18
يوں تو بدعات خرافات بہت زيادہ ہيں ،ليكن درج ذيل چند بدعات وہ ہيں كہ عوام كى اكثريت ان كى لپيٹ ميں ہے :
(1) محفل عيدميلاد النبى ﷺ
(2) مقامات، نشانات اور مردوں وغيرہ سے تبرك حاصل كرنا
(3) عبادات اور تقرب الىٰ اللہ كى بدعتيں

(1) ربيع الاول ميں ميلادالنبى كى مناسبت سے جشن منانا
محفل ميلاد النبى كا انعقاد بهى عيسائيوں كى مشابہت ہے- بعض جاہل مسلمان اور راہ حق سے ہٹے ہوئے دينى پيشوا رسول اللہ كى پيدائش كى مناسبت سے ہر سال ربيع الاول ميں گهروں،مساجد يا اس مقصد كے لئے بنائے گئے مخصوص مقامات پر محفليں منعقد كرتے ہيں- جس ميں عوام كى ايك بڑى تعداد شريك ہوتى ہے- يقينا يہ كا م بدعت ہے اور نصارىٰ كى مشابہت ہے كيونكہ سب سے پہلے نصارىٰ نے حضرت عيسىٰ  كى محفل ميلاد كى بدعت ايجاد كى تهى- بدعت اور نصارىٰ كى مشابہت كے علاوہ ايسى تمام محافل شركيہ افعال اور ديگر كئى منكرات سے بهرى ہوتى ہيں- رسول اللہ ﷺ كى شان ميں غلو پر مبنى قصائد پڑهے جاتے ہيں جس ميں رسول اللہ سے مدد اور فرياد رسى كى جاتى ہے حالانكہ رسول اللہ نے اپنى مدح ميں غلو كرنے سے منع فرمايا ہے-

آپ ﷺ كا فرمان ہے:
(لاتطروني كما أطرت النصارىٰ ابن مريم إنما أنا عبد فقولوا: عبد الله ورسوله ) 19
"تم لوگ ميرى شان ميں غلو( حد سے تجاوز ) مت كرنا ،جيسا كہ نصارىٰ نے ابن مريم كے سلسلے ميں غلو كيا، بلكہ ميں ايك بندہ ہوں لہٰذا تم لوگ مجهے اللہ كا بندہ اور اس كا رسول ہى كہو-"

اور اكثرلوگوں كا يہ اعتقاد بهى ہوتا ہے كہ رسول اللہ ان محفلوں ميں حاضر ہوتے ہيں جو سرا سر شرك ہے-

اس كے علاوہ انہى محافل ميں ڈهول كى تهاپ اور موسيقى كى دہن پر گمراہ صوفيا كى خود ساختہ اور شركيہ قوالياں گائى جاتى ہيں- عورتوں اور مردوں كا مخلوط اجتماع ہوتا ہے جو كئى فتنوں اور فواحش كا باعث بن سكتا ہے- الغرض اگر يہ تمام منكرات نہ بهى ہوں تو بهى صرف محافل كا انعقاد اور وہاں كهانے پينے اور خوشى كا سامان كرنا ہى درست نہيں-اس كا جواز كہاں سے ثابت ہوتا ہے ؟يہ بهى تو بدعت ہے-

(وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة )
"كيونكہ دين ميں ہر نئى چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے- "

اورجب يہ ايك غلط كام ہے اور يہ حقيقت ہے كہ برائى برائى كو جنم ديتى تو پهر يقينى بات ہے كہ ان محافل ميں بهى وہى منكرات پيدا ہوں گى جو ديگر محافل كا حصہ ہوتى ہيں -

ہم نے اس كو بدعت كہا ، كيوں ؟ اس لئے كہ قرآن و حديث ميں اس كى كوئى دليل اور اصل نہيں ہے اورسلف صالحين ميں سے كسى نے بهى يہ كا م نہيں كيا،حتىٰ كہ خير القرون ميں بهى ميں اس كا كوئى وجود نہيں ملتا-سب سے پہلے فاطمى شيعوں نے چوتهى صدى ہجرى كے بعد اس بدعت كو ايجاد كيا-

امام ابو حفص تاج الدين فاكہانى  فرماتے ہيں كہ مباركين كى ايك جماعت نے مجھ سے باربار عيد ميلاد النبى ﷺ كے بارے ميں سوال كيا اور نہايت واضح جواب كا مطالبہ كيا - تو اللہ كى توفيق سے ميں نے جواب ديا كہ
"كتاب و سنت ميں اس ميلاد كى كوئى اصل اور بنياد ميں نہيں جانتا اور نہ ہى اُمت كے ان علما،جو متقدمين كے نقش قدم پر چلتے رہے اور ہمارے لئے ايك آئيڈل اور نمونہ كى حيثيت ركهتے ہيں،سے يہ عمل منقول ہے،بلكہ يہ بدعت ہے جسے باطل پرست لوگوں نے ايجاد كيا اورپهر حرام خور لوگوں نے اپنى خواہشاتِ نفس كو بروئے كار لانے اور حرام كمانے كے لئے غنیمت سمجھا اور اس بدعت كو پروان چڑهايا -"20

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ  فرماتے ہيں:
"اور ايسے ہى وہ چيزيں ہيں جو بعض لوگ گهڑ كر مناتے ہيں يا ميلاد عيسىٰ عليہ السلام ميں نصارى كى مشابہت كرتے ہوئے يا نبى كى محبت اور تعظيم ميں آپ كى عيد ِميلاد مناتے ہيں، حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں لوگوں كا اختلاف ہے-يہ سب اُمور بدعت ہيں كيونكہ اسے سلف ائمہ كرام نے نہيں كيا ہے- اگر اس كا كرنا محض خير ہوتا يا يہ عمل راجح ہوتا تو سلف صالحين ہم سے زيادہ اس كے حقدار ہوتے كيونكہ وہ لوگ ہم سے زيادہ نبى كريم سے محبت اور تعظيم كرنے والے تهے اور وہ لوگ خير كے زيادہ حريص تهے نيزنبى كريم كى محبت اور تعظيم كا تقاضا يہ ہے كہ آپ كى متابعت و فرمانبردارى، آپ كے حكم كى پيروى، آپ كى سنت كا احيااور ظاہرى وباطنى طورپر آپ كى دعوت كو عام كياجائے اور اس كے ليے دل، ہاتھ اور زبان سے جہادكيا جائے كيونكہ يہى طريقہ مہاجرين و انصار كے سابقين اوّلين كا ہے اور ان لوگوں كا بهى ہے جنہوں نے اچهائى كے ساتھ ان كى پيروى كى-"21

اور اس بدعت كے انكار ميں نئى اور پرانى متعدد كتب اور رسائل لكهے گئے ہيں كہ عيد ميلاد النبى بدعت اور نصارىٰ كى مشابہت ہونے كے ساتھ ساتھ ديگر ميلادوں كے قائم كرنے كى طرف لے جاتى ہے جيسے وليوں، مشائخ او ربڑے بڑے قائدين كى ميلاد منعقد كرنا جس سے بہت زيادہ مزيد بدعات كے دروازے كھلیں گے-

(2) آثارِ قديمہ ،متبرك مقامات اور زندہ و مردہ آدميوں سے تبرك
'تبرك 'كا معنى ہے ،بركت طلب كرنا اور بركت كا مطلب ہے كسى چيز ميں بھلائى كا پايا جانا اور پهر اس بھلائى ميں اضافہ ہو جانا- نيزبھلائى اور اس كى زيادتى كى استدعااسى شخص سے كى جا سكتى ہے جو اس كا مالك اور پهراس پر قادربهى ہو - اوراس حيثيت كى مالك اگر كوئى ذات ہو سكتى ہے تو وہ صرف اللہ تعالىٰ كى ہستى ہے- وہى بركت كو نازل كرتا اوراس كو برقرار ركھ سكتا ہے - مخلوق بركت كو پيدا كرسكتى ہے نہ عطا كرنے اور اس كو باقى اور برقرار ركہ سكتى ہے -لہٰذا مزارات ،آثارِ قديمہ اور زندہ و مردہ آدميوں سے تبرك حاصل كرنا جائز نہيں ہے- اگر كوئى شخص يہ عقيدہ ركهتا ہے كہ يہ چيز بركت عطا كرسكتى ہے تو وہ مشرك ہے اور اگر يہ اعتقادركهتا ہے كہ فلاں مزار كى زيارت كرنے، اسے ہاتهوں سے چهونے اور پهر جسم پر ملنے سے اللہ كى طرف سے بركت حاصل ہوتى ہے تويہ شرك كا ذريعہ ہے-

اور رہى يہ بات كہ صحابہ كرام نبى كريم ﷺ كے بال، آپ كے لعاب، اور آپ كے جسم سے عليحدہ ہونے والى چيزوں سے تبرك حاصل كرتے تهے تو يہ آپ ﷺ كے ساتھ خاص ہے اور وہ بهى آپ كى زندگى ميں-اس كى دليل يہ ہے كہ صحابہ كرام آپ ﷺ كے حجرہ اور آپ كے مرنے كے بعد آپ كى قبر سے تبرك حاصل نہيں كرتے تهے اور نہ ہى تبرك كى غرض سے ايسى جگہوں كا قصد كرتے جہاں آپ ﷺ نے كبهى نماز پڑهى ياكبهى بیٹھے، لہٰذا اب ان مقامات كو باعث ِبركت سمجھنا شرك ہے-اس سے يہ ثابت ہوتاہے كہ اوليا كے مشاہد اور مزارات كا ارادہ كرنا بدرجہ اولىٰ شرك ہوگا-

صحابہ كرام نہ ہى ابوبكر و عمر ايسے جليل القدرصحابہ سے ان كى زندگى ميں اور نہ ہى موت كے بعدبركت حاصل كرتے تهے اور نہ ہى عبادت اور دعا كے لئے غارِ حرا ميں جاتے اور نہ اس غرض سے جبل طور جس پر اللہ تعالىٰ نے حضرت موسىٰ سے كلام كيا، كا رخ كرتے- نہ ہى ان پہاڑوں كى طرف رخت ِسفر باندهتے جن كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ وہ انبيا وغيرہ كے مقامات ہيں او رنہ ہى كسى نبى كے مزار كا رخ كرتے،حتىٰ كہ مسجد ِنبوى جہاں آپ عمر بهر نماز پڑهتے رہے ، سلف صالحين ميں سے كبهى كسى نے اسے بوسہ ديا اور نہ ہى مكہ مكرمہ كے ان مقامات كو جہاں آپ ﷺ نے نماز پڑهى -

وہ مقامات جس پر آپ ﷺ كے قدمِ مبارك پڑے ، جہاں آپ ﷺ نے نمازيں پڑهيں، جب اُنہيں چهونا يا بوسہ دينا اُمت كے لئے جائز نہيں تو پهر اوليا وغيرہ كے مشاہد ومزارات پر بركت كى غرض سے جانا اور ان كو بوسہ دينا بهلاكيسے جائز ہوسكتا ہے ؟

علماء كرام اس بات كو اچهى طرح جانتے ہيں كہ بركت كى غرض سے ان مقامات پر جانا ، ان كو چهونا، بوسہ دينا اور اس طرح كى ديگر خرافات كا محمد ﷺ كى شريعت سے كوئى تعلق نہيں ہے- 22

(3) قربت ِالٰہى اور عبادات ميں بدعات
اس زمانہ ميں عبادات كے اندر بے شمار بدعات ايجاد كر لى گئى ہيں ، اس لئے كہ عبادات ميں اصل توقيف ہے، يعنى عبادات كے سلسلہ ميں كسى بهى چيز كو بغير دليل كے مشروع قرار نہيں ديا جا سكتا - لہٰذا ہر وہ عبادت جس كى كوئى دليل نہ ہو، وہ بدعت ہے- چنانچہ رسول اللہ ﷺ كاارشاد ہے :" جس نے كوئى ايسا كام كيا جو ہمارے دين ميں نہيں ہے تو وہ مردود ہے-"

اور آج ايسى ہى بے شمار بدعات وخرافات ہمارے معاشرہ ميں رائج ہو چكى ہيں -ان ميں ايك؛ نماز كے لئے زبان سے نيت كرناہے ،مثلاً اونچى آوازسے كہنا كہ ميں فرض نماز كى نيت كرتا ہو ں، فرض اللہ تعالىٰ كے لئے ہيں ، منہ طرف قبلہ شريف كے وغيرہ وغيرہ ،يہ سب بدعت ہے اور رسول اللہ ﷺ كى سنت كے منافى ہے، چنانچہ اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:

قُلْ أَتُعَلِّمُونَ ٱللَّهَ بِدِينِكُمْ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ ۚ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ ﴿١٦...سورۃ الحجرات
"كہہ ديجئے !كہ كيا تم اللہ كو اپنى ديندارى سے آگاہ كررہے ہو- اللہ ہر اس چيز سے جو آسمانوں ميں اور زمين ميں ہے ،بخوبى آگاہ ہے اور اللہ ہر چيز كا جاننے والا ہے-"

اور نيت دل كا كام ہے ،نہ كہ زبان كا-
ان بدعات ميں سے ايك بدعت نماز كے بعد سب نمازيوں كا اجتماعى طور پر اونچى آوا ز ميں وِرد كرنا ہے ،اس لئے كہ درست بات يہ ہے كہ ہر آدمى مسنون اذكار تنہا تنہا كرے-

اِنہى ميں سے مُردوں كے لئے فاتحہ خوانى كرنا ہے -كسى كى موت پر قل، ساتھ ،چالیسواں كى محفل(ii) منعقد كرنا، كهانا تيار كروانا اور اُجرت پر قرآن خوانى كرانا، اس خيال سے كہ يہ تعزيت ہے يا يہ كہ ميت كو اس سے نفع ہو گا،حالانكہ يہ سب بدعات ہيں جن كى كوئى اصل نہيں ہے اور يہ سب رسوم ورواج كى وہ طوق اور زنجيريں ہيں كہ جنہيں اسلام اُتارنے اورتوڑنے آيا تها -

اسى طرح اسراء ، معراج اورہجرتِ نبوى كى مناسبت يا كسى اور دينى مناسبت سے محافل كا انعقاد كرنا سب بدعت ہے- شريعت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ہے-

اسى طرح ماہ رجب ميں رجبى عمرہ كرنا اور اس مہينہ ميں خاص طور پر نوافل اور روزوں كا اہتمام كرنا، ان سب كا شمار بدعت ميں ہوتا ہے ،كيونكہ اس مہينے كو ديگر مہينوں پر كوئى خاص امتياز حاصل نہيں ہے -اور نہ ہى اس مہينہ ميں نوافل اور روزوں اور ديگر عبادات كا اہتمام كرنا كسى سنت سے ثابت ہے -

اور اسى طرح صوفيا كے تمام قسم كے خود ساختہ اذكار بهى بدعت كے زمرہ ميں آتے ہيں كيونكہ يہ تمام اذكار اپنے الفاظ، طريقے اور اوقات ميں شرعى اذكار كے مخالف ہيں-
اسى طرح خصوصاً پندرہ شعبان كو روزے اور رات كو قيام كا اہتمام كرنا بهى بدعت ہے كيونكہ نبى كريم ﷺ سے كوئى ايسى چيز ثابت نہيں ہے جو اس دن كے ساتھ مخصوص ہو-
اسى طرح قبروں پر عمارات تعمير كرنا، نيز اسے مسجد بنانا اور تبرك كى غرض سے اس كى زيارت كرنا، مُردوں كو وسيلہ بنانا اور اس كے علاوہ ديگر شركيہ مقاصد كے لئے وہاں جانا-
عورتوں كا قبروں كى زيارت كرنا بهى بدعت ہے ،كيونكہ رسول اللہ نے قبروں كى زيارت كرنيوالى عورتوں اور قبروں كو مسجد بنانے اور چراغ روشن كرنے والوں پر لعنت بھیجى ہے-

حرفِ آخر
الغرض يہ تمام بدعات كفر كى ڈاك ہيں او راس سے مراد: دين ميں ہر وہ اضافہ ہے جسے اللہ اور اس كے رسول نے مشروع قرار نہيں ديا - بدعت گناہ كبيرہ سے زيادہ خطرناك ہے اور شيطان كبيرہ گناہ پر اتنا خوش نہيں ہوتا جتنا انسان كے بدعت كے ارتكاب پر خوش ہوتا ہے، كيونكہ گنہگار گناہ كرتے ہوئے يہ جانتا ہے كہ يہ گناہ ہے، لہٰذا وہ اس سے توبہ كرسكتا ہے اور بدعتى اسے دين سمجھ كر اس كا ارتكاب كرتا ہے وہ اس سے كبهى توبہ نہيں كرے گا -

بدعات سنتوں كا خاتمہ كرديتى ہيں ، اہل بدعت كو سنت اور اہل سنت سے متنفر كرديتى ہے - اور بدعت انسان كو اللہ سے دور ى،دل كى كجى اور آخر كار اللہ كے غضب كا باعث بن جاتى ہے

اہل بدعت سے كيا سلوك كيا جائے!
مسلمان كافرض ہے كہ وہ اپنے مسلمان بهائى كى خيرخواہى كرتے ہوئے اسے درست امر كى نشاندہى كرے جس ميں حكمت اور حسن تدبير كو بهى ملحوظ ركها گيا ہو- چنانچہ اہل بدعت كے پاس ملاقات كے لئے جانا، ان كے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اور ان سے لين دين كرنا اسى وقت درست ہے جب اس كا مقصد ان كو نصيحت كرنا اور ان كو قريب كركے سمجھانا ہو - ہميں اپنے طرز عمل كے ذريعے اہل بدعت كے اس فعل سے بيزارى كا اظہار بهى كرناچاہيے- البتہ اگر انسان كے پاس بدعتى كو بدعت كے ارتكاب سے روكنے كى طاقت نہ ہو تو اس سے احتراز كرنا ضرورى ہے ،كيونكہ بدعتى كى صحبت سے انسان پر برا اثر مرتب ہو تا ہے -

جہاں تك صاحب ِاختيار لوگوں كا تعلق ہے جنہيں اہل بدعت كو روكنے كى طاقت ہو تو ان كا يہ فرض ہے كہ وہ ان كى گرفت كريں ،اُن كو سمجھائيں اور ان كو بدعت سے روكيں- يقينايہ بدعات اسلام كے لئے شديد خطرہ ہيں- غير مسلم ممالك بدعت كى نشر و اشاعت ميں اہل بدعت كى حوصلہ افزائى اور ہر ممكن ان كا تعاون كررہے ہيں ،تاكہ اسلام كا خاتمہ اور اس كى صورت كو مسخ كيا جا سكے -ہم اللہ تعالىٰ سے خواستگار ہيں كہ وہ اپنے دين كى مدد فرمائے اور اپنے كلمے كو بلند اور اسكے دشمنوں كو رسوا كرے- وصلى الله علىٰ نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين



حوالہ جات
1. متفق عليہ ؛بخارى ؛كتاب الصلح،رقم 2697
2. مسلم
3. ابوداود؛كتاب السنة،رقم 7064،ترمذى؛كتاب العلم،رقم2676
4. متفق عليہ؛بخارى،كتاب الصلح،رقم 2697
5. مسلم:كتاب الأقضية،باب نقض الأحكام الباطلة
6. الإعتصام للشاطبي:2/37
7. جامع العلوم والحكم ،ص:223
8. مجموع الفتاوٰى: 10/354
9. مجموع الفتاوىٰ:20/300
10. مسنداحمد:1/435، صحيح ابن حبان:1/181،مستدرك حاكم:2/348
11. سنن الترمذى،حسن صحيح،رقم:2600،سنن ابو داود:3991
12. جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر:ا/180
13. المعجم الكبير:3/244،رقم:3291
14. مسند احمد:2/450
15. بخارى؛650
16. سنن الدارمى،المقدمة،باب في كراهية أخذ الرأي،رقم:206
17. الباعث الحثيث از ابو شامہ ص :14
18. بخارى: 732
19. بخارى :3445
20. رسالة المورد في عمل المولد
21. اقتضاء الصراط المستقيم:2/615،تحقيق ڈاكٹر ناصر العقل
22. ايضاً:2/795


i. توقیف شریعت کی اصطلاح ہے جو موقوف سے ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ایسا فعل جو اللہ کی ہدایت اور رہنمائی پر ہی موقوف ہو، اس فعل کی بنیاد اللہ کی رہنمائی ہو نہ کہ انسان کی ذاتی سمجھ بوجھ۔ شریعت ِاسلامی کا اُصول یہ ہے کہ عبادات میں اصل توقیف ہے، یعنی اصل ان میں 'حرمت' ہے۔ کوئی بھی عبادت بجالانا اسی وقت ہی درست ہوگا، جب اس کے بارے میں شریعت کی ہدایت پائی جائے، اپنی طرف سے عبادت گھڑی نہیں جاسکتی۔ البتہ معاملات یعنی انسانی زندگی کے روزمرہ معمولات میں اصل بات 'حلت' ہے۔ انسان کے دنیاوی اُمور تمام کے تمام جائزہیں جب تک ان کے بارے میں شریعت میں حرمت کی دلیل نہ پائی جائے۔ مثلاً وہی سودے کرنا حرام ہے، جن کے بارے میں شریعت میں نہی آئی ہے، اور وہی گوشت کھانا حرام ہے جس کی ممانعت شریعت میں ملتی ہے۔ (ح ۔ م)
ii. ہمارے ہاں مروّج ان رسوم میں اکثر کے پس منظر کا اگر جائزہ لیا جائے تویہ ہندو تہذیب سے ہمارے ہاں آئی ہیں، ان رسوم کا بنیادی تصور ہندوئوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔مسلمانوں نے سالہا سال ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان میں معمولی تغیر وتبدل کے ساتھ اُنہیں اپنا لیا ہے۔ اس سال فروری کے پہلے ہفتے میں ایک رات مجھے اندورنِ لاہور کے ایک سن رسیدہ بزرگ کے ساتھ بیٹھنے کااتفاق ہوا جو کئی نسلوں سے شاہی مسجد کے قریبی محلے میں آباد ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ لاہور میں ہندئووں کا اثر ورسوخ اس قدر تھا کہ کہا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت انار کلی کے مشہور بازار میں مسلمانوں کی صرف ایک ہی دکان تھی۔اس دور میں لاہور کے سب مسلمان مل کر شیعہ کے گھوڑے کے جلوس میں شریک ہوتے اور ہندوئوں کے بالمقابل مسلم یکجہتی اور قوت کے اظہار کے لئے اس جلوس میں شیعہ کے ساتھ اہل سنت کے مکاتب ِفکر بھی شرکت کیا کرتے۔جب ہندو یہاں سے چلے گئے تو سنی مسلمانوں نے شیعہ سے نکھار کے لئے گھوڑے کے جلوس کے بالمقابل عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس متعارف کرایا۔اب شیعہ گھوڑے کا جلوس نکالتے تو سنی مسلمان عید میلاد النبی کا۔
عبد القیوم نامی اس بزرگ نے ایسے ہی یہ بھی بتایا کہ جنازے پر کلمہ شہادت بلند کرنے کی وجہ یا اس بدعت کے مروّج ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ ہندو مسلم جنازوں میں امتیاز کے لئے کلمہ شہادت کے نعرے کو بلند کیا جاتا۔ جب ہندو اپنی میت کی چتا جلانے یا کسی اور مقصد کے لئے اُٹھا کر کہیں لے جاتے تو وہ ظاہر ہے کلمہ بلند نہیں کرتے تھے بلکہ کہو رام ، رام کہا کرتے ، اسی سے اُردو زبان میں 'کہرام' کا لفظ آیا ہے۔
محترم عبد القیوم صاحب کی ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مروّجہ کئی رسموں کا پس منظر ہندو مسلم کی مشترکہ معاشرت میں ملتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ خالص اسلام کو مقامی رسوم اور تہواروں سے نکھار کر پیش کیا جائے۔ ہمارے ہاں کی مروّجہ بیشتر بدعتوں کے پس پردہ ایسے ہی عوامل کارفرما ہیں۔ مدیر