أہل السنة كے نزديك اہل بيت ِكرام كا مرتبہ و مقام
أہل السنةكى خو شى بختى ہے كہ وہ اہل بيت كرام سے دلى محبت و عقيدت ركهتے ہيں اور ان كا كماحقہ احترام كرتے ہيں- وہ نہ تو رافضيوں كى طرح انہيں حد سے بڑهاتے ہيں اور نہ ہى ناصبيوں كى طرح ان كا مرتبہ و مقام گهٹاتے ہيں- ان كا اس بات پر اتفاق ہے كہ اہل بيت سے محبت ركهنا فرض ہے اور كسى طرح كے قول و فعل سے انہيں ايذا دينا حرام ہے- چنانچہ وہ ہر اذان كے بعد اور ہر خطبہ كى ابتدا و انتہا اور ہر نماز كے تشہد ميں حضرت رسول كريم ﷺ اور آپ كى آل پر دلى عقيدت سے درود پڑهتے ہيں بلكہ جب تك وہ درود نہ پڑھ ليں، تب تك اپنى عبادت كو مكمل نہيں سمجهتے اور ان كى كتب ِحديث و سير ميں جتنا درود درج ہے، اتنا كسى اور مكتب فكر كى كتابوں ميں نظر نہ آئے گا- اور درود و سلام كى جتنى گونج اہل السنہ كے مدارس اور مساجد سے آتى ہے، اتنى كسى اور جگہ سے نہ آئے گى، ليكن اس روشن حقيقت كے باوجود ايك مخصوص مكتب ِفكر، مخصوص مقاصد كى بنا پر حب ِ اہل بيت كے لبادے ميں ان كے خلاف مسلسل پروپيگنڈہ كرتا ہے كہ اہل السنہ، اہل بيت سے محبت نہيں كرتے اور اس كى دلیل يہ ديتے ہيں كہ وہ عاشورا كے دن ماتم نہيں كرتے اور نہ ہى وہ نياز ِحسين ديتے ہيں- اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے كہ اہل السنہ كى پوزيشن واضح كردى جائے اور بتا ديا جائے كہ اہل بيت كى محبت، اہل السنہ كا جزوِ ايمان ہے اور وہ فرمانِ نبوى كے پيش نظر ازروے ايمان ان سے محبت كرتے ہيں اور ان كا عقیدہ يہ ہے كہ آنحضرتﷺ كى ازواجِ مطہرات اور جناب عبدالمطلب بن ہاشم كى ايمان قبول كرنے والى سارى اولاد اہل بيت ميں شامل ہے- مثلاً حضرت عباس بن عبدالمطلب ہاشمى اور ان كى سارى اولاد، حضرت جعفر بن ابى طالب اور ان كى سارى اولاد، حضرت عقيل بن ابى طالب اور ان كى سارى اولاد، حضرت على بن ابى طالب اور ان كى سارى اولاد اور خصوصاً سيدين طاہرين كريمين جو كہ نوجوانانِ جنت كے سردار ہيں-اور اُنہيں ان دونوں سے محبت اس لئے بهى زيادہ ہے كہ بڑے سردار (حضرت حسن) نے بڑے پن كا ثبوت ديتے ہوئے كمالِ حلم اور بردبارى كا مظاہر كيا اور اپنے حق كى قربانى دے كر اپنے نانا كى اُمت كے خون كو بچايا اور دوسرے سردار نے نيك نيتى سے قدم بڑهائے، پهر نيك نيتى سے صلح كا ہاتھ بڑهايا ،ليكن اپنے بدعہد كوفى ساتهيوں كے ہاتهوں مظلوم شہيد ہوئے- ان كا ايمان ہے كہ سب شہداء كرام، اپنے عم محترم سيدنا حمزہ اور سيدنا جعفر بن ابى طالب اور ديگر شہدا كے ہمراہ اعلىٰ عليين ميں عزت و احترام كى زندگى بسر كررہے ہيں-
اس مختصر وضاحت كے بعد اب ہم نہايت اختصار كے ساتھ بالترتيب حضرت على المرتضىٰ اور ان كى اولاد كے مناقب بيان كرتے ہيں تاكہ ان بہتان بازوں كے الزامات كى قلعى كهولى جا سكے جو رات دن اہل السنہ پر گستاخى ٴ اہل بيت كا بہتان لگاتے ہيں!!
اول: اميرالمومنين على المرتضىٰ
امام بخارى اور امام مسلم حضرت سہل بن سعد سے روايت كرتے ہيں كہ جنگ ِخيبر كے دن اللہ كے پيارے رسول ﷺ نے فرمايا: ”كل ميں يہ جهنڈا اس شخص كو دوں گا جس كے ہاتھ پر اللہ مسلمانوں كو فتح عطا فرمائے گا اور وہ شخص، اللہ اور اس كے رسول سے محبت كرتا ہے اور اللہ تعالىٰ اور اس كا رسول، اس سے محبت كرتے ہيں-“ چنانچہ لوگ سارى رات بے چين رہے كہ پتہ نہيں، كس (خوش نصيب) كو جهنڈا ملے گا-حضرت سہل فرماتے ہيں كہ لوگ صبح سويرے حضرت رسولِ كريم ﷺ كے پاس گئے اور ہر كوئى يہ اُميد لئے ہوئے تها كہ جهنڈا اُسے ہى ملے گا، چنانچہ آپ نے فرمايا: على بن ابى طالب كہاں ہے؟
لوگوں نے جواب ديا: الله كے پيارے رسول ﷺ وہ آشوبِ چشم ميں مبتلا ہے، آپ نے فرمايا: اس كى طرف كسى كو بهيج كر بلا لاوٴ- چنانچہ اُنہيں بلا ليا گيا تو آپ نے ان كى آنكهوں ميں لعاب تهتكارا اور شفا كى دُعا كى، چنانچہ آپ اس طرح شفاياب ہوئے كہ گويا آپ كو سرے سے كوئى تكليف ہى نہ تهى- پهر آپ نے اُنہيں جهنڈا عطا فرمايا- حضرت على المرتضىٰ نے پوچها: اے اللہ كے رسول! ميں اُن سے اس وقت تك لڑوں جب تك وہ ہمارے جيسے نہ ہوجائيں؟
آپ نے فرمايا: سكون و اطمينان سے جاوٴ اور جب ان كے ميدان ميں پہنچو تو اُنہيں اسلام قبول كرنے كى دعوت دو اور انہيں اللہ كے اس حق كى خبر دو جو اس نے ان پر واجب كيا ہے!
اللہ كى قسم! اگر اللہ تيرے ذريعے كسى ايك آدمى كو بهى ہدايت دے دے تو يہ تيرے لئے سرخ اونٹوں (كے مالِ غنيمت) سے بہتر ہے-1
اہل السنہ كے ائمہ دين كى روايت كردہ اس حديث ميں اميرالمومنين كى فضيلت اور منقبت آفتابِ نيم روز سے بهى زيادہ آشكارا ہے، كيونكہ اس ميں اس بات كى شہادت كا ذكر ہے كہ وہ اللہ اور اس كے پيارے رسول سے محبت كرتے ہيں اور اللہ اور اس كا پيارا رسول ان سے محبت كرتے ہيں- علاوہ ازيں اُنہوں نے بیسیوں احاديث اور بهى روايت كى ہيں،ليكن ہم نے اختصار كى غرض سے فضائل و مناقب كے گلستان سے فقط ايك پهول پيش كيا ہے-
دوم: سيدہ فاطمہ زہرا
امام اہل السنہ حضرت محمد بن اسمٰعيل بخارى اپنى صحيح ميں حضرت فاطمہ زہراكى فضيلت ميں ’بابِ مناقب فاطمہ ‘ قائم كركے حضرت رسول كريم ﷺ كى حديث روايت كرتے ہيں كہ
آپ نے فرمايا:
(فاطمة سيدة نساء أهل الجنة)
” فاطمہ جنتى عورتوں كى سردار ہے-“ 2
سوم: سيدنا حسن اور سيدنا حسين
اہل السنہ كے امام محمد بن عيسىٰ ترمذى رحمہ اللہ تعالىٰ اپنى جامع صحيح ميں حضرت برا بن عازب سے روايت كرتے ہيں كہ حضرت رسول كريم ﷺ نے حضرت حسن اور حسين كو ديكھ كر فرمايا:
(اللهم إني أحبهما فأحبهما) 3
”اے اللہ ميں ان دونوں سے محبت كرتا ہوں لہٰذا تو بهى ان دونوں سے محبت فرما-“
اسى طرح امام اہل السنہ احمد بن حنبل اپنى مسند ميں حضرت ابوسعيد خدرى سے روايت كرتے ہيں كہ حضرت رسول كريم ﷺ نے فرمايا:
(الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة) 4
” حسن و حسين جنتى نوجوانوں كے سردار ہيں-“
ان دونوں حديثوں سے تين فضيلتيں آشكارا ہوئيں: ايك تو يہ كہ وہ جنتى ہيں، دوم يہ كہ وہ جنتى نوجوانوں كے سردار ہيں، تيسرى يہ كہ اللہ اور اس كا رسول ان سے محبت كرتے ہيں، اور اُمت كا ان سے محبت كرنا گويا حضرت رسول كريم ﷺ سے محبت كرنا ہے-
چہارم: سيدنا على بن حسين المعروف بہ زين العابدين
ان كے متعلق، امام اہل السنہ يحيىٰ بن سعيد فرماتے ہيں :
هو أفضل هاشمي رأيته في المدينة يقول يا أهل العراق أحبونا حب الإسلام ولا تحبونا حب الأصنام فما برح بنا حبكم حتى صار عارا علينا 5
”آپ ہاشمى خانوادے كے ممتازچشم و چراغ ہيں- ميں نے انہيں مدينہ ميں ديكها، آپ فرما رہے تهے: اے اہل عراق! تم ہم سے اسلام كى تعليمات كے تحت محبت ركهو ليكن اصنام كى طرح ہمارى پرستش سے باز رہو، تمہارى محبت ہم پر بدنما داغ بن گئى ہے-“
اہل السنہ كے امام محمد بن شہاب زہرى فرماتے ہيں:
”لم أر هاشميا أفضل من علي بن الحسين “6
” ميں نے حضرت على بن حسين سے افضل كسى ہاشمى كو نہ پايا-“
امام اہل السنہ محمد بن عثمان ذہبى فرماتے ہيں:
”وكانت له جلالة عجيبة وحق له والله، فقد كان أهلا للإمامة العظمٰى لشرفه وسوٴدده وعلمه وتَألِّهِه وكمالِ عقله“
ابو حازم مدنى فرماتے ہيں كہ ”ميں نے حضرت على بن حسين سے بڑھ كر كسى ہاشمى كو فقيہ نہ پايا-“ ايك مرتبہ ان سے پوچها گيا كہ حضرت ابو بكر صديق اور عمر فاروق كو حضرت رسول اللہ ﷺ كے ہاں كتنا قرب حاصل تها؟ انہوں نے آپ كى قبر مطہر كى طرف اشارہ كر كے فرمايا:
” جتنا ان دونوں كو آپ كے ہاں اس وقت حاصل ہے-“ (يعنى جس طرح وہ وفات كے بعد آپ كے پاس ہيں، اس طرح وہ حيات ميں بهى آپ كے ساتھ تهے)
امام محمدبن سعد فرماتے ہيں :
”كان ثقة مأمونا كثير الحديث عالي رفيعا ورعا“7
” آپ ثقہ،معتمد اور كثيرالحديث تهے اور بڑے نفيس ،متقى اور عالى مرتبہ انسان تهے-“
پنجم: امام محمد بن على بن حسين المعروف بہ امام باقر
ان كے متعلق اہل السنہ كے امام محمد بن سعد فرماتے ہيں:
”كان كثير العلم والحديث“
” آپ علم اور حديث كے بحرزخار تهے-“
اور امام صفدى فرماتے ہيں:
”هو أحد مَن جمع العلم والفقه والديانة“
”كہ آپ ان ہستيوں ميں سے ايك ہيں جنہوں نے علم، فقہ اور دين كو جمع كيا ہوا ہے-“
اہل السنہ كے امام محمد بن احمد بن عثمان ذہبى فرماتے ہيں:
” ولقد كان أبو جعفر إماما مجتهدا ،تاليا لكتاب الله، كبير الشأن
”امام ابو جعفر مجتہدانہ شان ركهتے تهے، اللہ كى كتاب كے قارى اور عظيم المرتبت شخص تهے-“
آگے فرماتے ہيں :
”ونُحِبُّه في الله لما تجمع فيه من صفات الكمال “ 8
”ہم اللہ كيلئے ان سے محبت كرتے ہيں كيونكہ ان ميں كمال كى بہت سى صفات يكجا تهيں-“
امام ذہبى كے بقول حفاظ نے ان كے اقوال كو حجت تسليم كرنے پر اتفاق كيا ہے-
ششم: امام جعفر بن محمد ہاشمى الملقب بہ الصادق
ان كے متعلق امام اہل السنہ ابوحنيفہ فرماتے ہيں:
”ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد“
” ميں نے امام جعفر بن محمد الصادق سے بڑھ كر كسى كو فقيہ نہيں پايا-“
امام ابوحاتم فرماتے ہيں:
”ثقة لايسأل عن مثله“
” آپ ثقہ ہيں، آپ جيسے آدمى كے متعلق پوچهنا بهى بے كارہے-“
امام ذہبى فرماتے ہيں :
”جعفر بن محمد بن علي بن الشهيد أبي عبد الله ريحانة النبي ﷺ وسبطه ومحبوبه الحسين بن أمير الموٴمنين أبي الحسن علي بن أبي طالب عبد مناف بن شيبة وهو عبد المطلب بن هاشم واسمه عمرو بن عبد مناف بن قصى… الإمام الصادق شيخ بني هاشم أبو عبد الله القرشي الهاشمي“ 9
”حضرت امام جعفر بن محمد بن على (زين العابدين) بن سبط رسول وريحانة النبى ومحبوب سيد المرسلين ابو عبد اللہ الشہيد بن امير المومنين ابوالحسن على بن ابى طالب عبد مناف بن شيبہ حسے عبد المطلب بن ہاشم كہا جاتا ہے اور اسى كا نام عمرو بن عبد مناف بن قصى تها- آپ صادق امام اور بنى ہاشم كے شيخ اور اعلام ميں سے ايك عَلَم ہيں، كنيت ابو عبد اللہ قرشى ہاشمى ہے-
چنانچہ عبد الجبار بن عباس ہمدانى بيان كرتے ہيں كہ ہم مدينہ منور ہ سے لوٹنے كا ارادہ كر رہے تهے كہ حضرت امام جعفر بن محمد الصادق ہمارے پاس آئے اور فرمايا :
”تم ان شاء اللہ اپنے شہر كے نيك لوگ ہو، لہٰذا تم وہاں كے لوگوں كو ہمارى طرف سے يہ بات پہنچا دو كہ جس نے دعوى كيا كہ ميں (جعفر بن محمد) مفترض الطاعة (واجب الاطاعت) امام ہوں، ميں اس سے لا تعلق ہوں اور جس نے ميرے متعلق يہ بات اُڑائى كہ ميں ابو بكر وعمر سے لا تعلق ہوں، ميں اس سے بهى لا تعلق ہوں-“
ہفتم: امام موسىٰ بن جعفر بن محمد ہاشمى الملقب بہ كاظم
ان كے متعلق، امام ابوحاتم رازى فرماتے ہيں:
”ثقة صدوق إمام من أئمة المسلمين“
” آپ ثقہ اور صدوق تهے اور مسلمانوں كے اماموں ميں سے ايك امام تهے-“
شيخ الاسلام تقى الدين ابوالعباس احمد بن تيميہ فرماتے ہيں :
وموسىٰ بن جعفر مشهود له بالعبادة والنسك
”اور موسىٰ بن جعفر كاظم كے متعلق، زمانہ گواہ ہے كہ آپ بڑے عابد اور زاہد انسان تهے-“
امام ذہبى فرماتے ہيں :
”كان موسىٰ من أجواد الحكماء ومن العباد الأتقياء“ 10
”كہ موسىٰ كاظم دانشمند سخيوں اور متقى عبادت گزاروں ميں سے تهے-“
ہشتم: امام على بن موسىٰ المعروف بہ الرضا
ان كے متعلق امام ذہبى فرماتے ہيں:
”كان من العلم والدين والسوٴدد بمكان“
”كہ آپ علم، دين اور سردار كے اعلىٰ مقام پر فائز تهے-“
اور يہ بهى فرماتے ہيں:
” وقد كان علي الرضا كبير الشأن أهلا للخلافة11
نہم: امام محمد بن على الملقب بہ الجواد
”كان يعد من أعيان بني هاشم وهو معروف بالسخاء والسوٴدد“
” آپ بنوہاشم كے سربرآوردہ اشخاص ميں سے تهے اور سخاوت اور سردارى ميں مشہور تهے-“
خطیب بغدادى، اہل السنت كا موقف بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ وہ تمام ازواجِ مطہرات سے عقیدت ركهتے ہيں- اور جو ان پاكدامنوں كو يا ان ميں چند ايك كو كافر قرار دے، وہ خود اُسے كافر قرار ديتے ہيں- اور وہ حضرت حسن اور حسين اور مشہور اسباطِ رسول سے عقيدت و محبت ركهتے ہيں مثلاً حضرت عبداللہ بن حسن، حضرت على بن حسين (زين العابدين)، حضرت محمد بن على بن حسين (الباقر)، حضرت جعفر بن محمد (الصادق)، حضرت موسىٰ بن جعفر (الكاظم)، حضرت على بن موسىٰ (الرضا) اور اسى طرح حضرت اميرالمومنين على المرتضىٰ كى سارى اولاد جيسے حضرت عباس بن على، حضرت عمر بن على ، حضرت محمد بن على (ابن الحنفيہ) اور انہى كے عقيدہ و عمل ركهنے والے ديگر اہل بيت كرام…
امام اسفرائينى اہل السنہ كا منہج بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:
اور اللہ تعالىٰ نے انہيں اس اُمت كے اسلاف كرام كے متعلق ناروا بات كہنے اور عیب جوئى كرنے سے محفوظ ركها ہے- چنانچہ وہ مہاجرين و انصار اور ديگر سردارانِ اسلام كے حق ميں كلمہ خير كے سوا كچھ نہيں كہتے اور نہ ہى وہ اہل بدر و اُحد اور اہل بيت ِرضوان كے بارے ميں كوئى غلط رائے ركهتے ہيں اور نہ ہى وہ ان تمام صحابہ كو بُرا كہتے ہيں جن كے متعلق حضرت رسولِ كريم ﷺ نے جنتى ہونے كى شہادت دى ہے اور نہ ہى وہ حضرت رسولِ كريم ﷺ كى ازواجِ مطہرات اور اصحاب اور اولاد و احفاد (نواسوں) كے متعلق نامناسب بات كہنے اور سننے كو تيار ہيں جيسے حضرت حسن، حضرت حسين اوران كى اولاد ميں سے مشہور اعلام جيسے حضرت عبداللہ بن حسن، حضرت على بن حسين، حضرت محمد بن على بن حسين، حضرت جعفر بن محمد بن على، حضرت موسىٰ بن جعفر اور على بن موسىٰ (الرضا) اور ديگر اہل بيت كرام جو بغير كسى طرح كے تغير و تبدل كے دين حقہ پر گامزن رہے اور نہ ہى وہ خلفاے راشدين ميں سے كسى كے متعلق تنقيد برداشت كرتے ہيں اور اس طرح وہ ان مشہور تابعين اور تبع تابعين رحمہم اللہ عليہم اجمعين پر تنقيد كرنا جائز نہيں سمجهتے جنہيں اللہ تعالىٰ نے بدعات اور منكرات ميں ملوث ہونے سے بچايا ہے-
يہ ہے اہل بيت رسول ﷺ كے متعلق، أہل السنة والجماعة كا عقيدہ اور جو شخص اس سلسلے ميں مزيد آگاہى حاصل كرنا چاہتا ہے، اسے اہل السنہ كى مرتب كردہ كتب حديث و سيرت اور سوانح كا مطالعہ كرنا چاہئے- ان شاء اللہ اس پر يہ حقيقت آشكارا ہوجائے گى كہ اهل السنه سے بڑھ كر اہل بيت رسول كا قدر دان اور كوئى نہ ہوگا-
شہادتِ حسين كے متعلق اہل السنہ كا موقف
شہادت ِحسين كے سلسلے ميں اہل السنہ كا موقف، امام ابن تيميہ كے الفاظ ميں اختصار كے ساتھ درج ذيل ہے :
اللہ تعالىٰ نے سيدنا حسين كو درجہ شہادت سے سرفراز فرمايا اور اس كے ذريعہ ا ن كے قاتلوں اور قاتلوں كے طرف داروں اور شہادت پر خوشى منانے والوں كو ذليل و رسوا كيا، اور آپ كے سامنے اپنے پيشرو شہداء كرام كا اُسوہ حسنہ بهى تها كيونكہ آپ اور آپ كے بهائى جنتى نوجوانوں كے سردار ہيں اور دونوں شہزادوں نے عزت و رفعت ِاسلام كے دور ميں پرورش پائى تهى، اس لئے ہجرت اور جہاد كے مصائب و آلام جيسى اُن تكاليف سے محفوظ رہے جو اللہ كى خاطر آپ كے اہل بيت كرام كو پہنچى تهى لہٰذا اللہ نے ان كى بزرگى كى تكميل كے لئے اور ان كے درجات كو بلند كرنے كے لئے اُنہيں درجہ شہادت عطا فرمايا اور آپ كى شہادت بہت بڑا صدمہ تهى اور اللہ نے صدمہ كے وقت انا لله وإنا إليه راجعون پڑهنے كا حكم ديا ہے-
قرآن ميں ہے :
وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ ﴿١٥٥﴾ ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوٓاإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ﴿١٥٦﴾...سورۃ البقرۃ
اہل بيت ِعظام كے وفا نماوٴں كى جفا كارياں
اس روشن حقيقت كے باوجود كہ اہل السنہ ہى صحيح معنوں ميں اہل بيت كرام كے قدردان ہيں، پهر بهى وفا نمايانِ اہل بيت(جو وفا كا بظاہر دم بهرتے ہيں) اُن پر اہل بيت سے عداوت كا بہتان لگاتے ہيں اور انہيں ناصبى كے نام سے موسوم كرتے ہيں اور اپنے كندهوں پر خود ہى شاباش دے كر محبانِ اہل بيت كا دم بهرتے ہيں، حالانكہ ائمہ اہل بيت اپنے دور ميں اِنہى محبت كا دم بهرنے والوں سے بڑے تنگ اور پريشان تهے اور اللہ تعالىٰ سے دعا كرتے تهے كہ وہ ان سے ان كى جان چهڑوائے،كيونكہ يہ لوگ اُنہيں اپنى وفاداريوں كا يقين دلا كر خطرناك مقام پر كهڑا كرديتے تهے اور پهر سرد مہرى دكهانا شروع كرديتے تهى-چنانچہ اميرالمومنين اُنہيں كم ہمتى اور بزدلى دكهانے پر شرم اور عار دلانے كے لئے لشكر ِشام كى مثاليں پيش كرتے ،ليكن يہ ٹس سے مس نہ ہوتے-
اس كى ايك وجہ تو يہ نظر آتى ہے كہ وہ لوگ متلون مزاج تهے اور اپنے دعواے محبت ميں پختہ نہ تهے، اگر قدرے پختہ تهے بهى تو اس كے بدلے ميں كانٹا چبھنے كے برابر تكليف برداشت كرنے كو تيار نہ تهے- يہى وجہ تهى كہ انہوں نے حضرت اميرالمومنين كو ان كے دورِ خلافت ميں پريشان ركها اور اُنہيں اپنے مشن ميں كامياب نہ ہونے ديا، چنانچہ ہم ان كى سرد مہريوں كے دو حوالے پيش كرنے پر اكتفا كرتے ہيں- ان حوالوں كى خصوصيت يہ ہے كہ خارجيوں يا اہل السنہ كے پيش كردہ نہيں بلكہ اہل بيت كے نام ليواوٴں كے ہى ہيں- ان ميں پہلا حوالہ تو نہج البلاغة (ج1/187 تا 189) سے ہے اور دوسرا على خطى الحسين سے ہے-
چنانچہ نهج البلاغة ميں ہے كہ جب محبانِ على نے شيعانِ معاويہ كے مقابلے ميں كم ہمتى اور سرد مہرى كا مظاہرہ كيا تو آپ نے منبر پر فرمايا:
أما والذي نفسى بيده ليظهرن هوٴلاء القوم عليكم ليس لأنهم أولى بالحق منكم ولكن لإسراعهم إلى باطل صاحبهم،وإبطائكم عن حقي ولقد أصبحت الأمم تخاف ظلم رُعاتها وأصبحت أخاف ظلم رعيتي، استنفرتكم للجهاد فلم تنفروا،واسمعتكم فلم تسمعوا،ودعوتكم سرا وجهرا فلم تستجيبوا،ونصحت لكم فلم تقبلوا أشهود كغياب،وعبيد كارباب؟! أتلو عليكم الحكم فتنفرون منها،وأعظكم بالموعظة البالغة فتتفرقون عنها، وأحثكم على جهاد أهل البغي فما آتي على آخر القول حتى أراكم متفرقين أيادي سباء، وتتخادعون عن مواعظكم، أقومكم غدوة وترجعون إلى عشية كظهر الحنين عجز المقوم وأعضل المقوم،أيها الشاهدة أبدانهم الغائبة عقولهم، المختلفة أهواوٴهم، المبتلى بهم أمراء هم،صاحبكم يطيع الله وأنتم تعصونه … لوددت والله أن معاوية صارفني بكم صرف الدينار بالدرهم فأخذ مني عشرة منكم وأعطاني رجلا منهم،يا أهل الكوفة منيت بكم بثلاث واثنتين صم ذووا أسماع و بُكم ذووا كلام، وعمي ذووا أبصار، لا أحرار صدق عند اللقاء ولا إخوان ثقة عند البلاء،تربت أيديكم يا أشباه الإبل غاب عنها رعاتها كلما جمعت من جانب تفرقت من جانب آخر 12
”عوام، اپنے حكام كے ظلم سے ڈرتے ہيں ليكن ميں اپنى رعايا كے ظلم سے ڈرتا ہوں، ميں نے تمہیں جہاد كے لئے ميدانِ جنگ ميں نكلنے كا حكم ديا ليكن تم نے گهروں سے نكلنا گوارا نہ كيا، ميں نے تمہیں سنانے كى كوشش كى ليكن تم نے نہ سنا، ميں نے تمہیں دن رات دعوت دى، ليكن تم نے مسترد كردى، ميں نے تمہیں نصيحت كى ليكن تم نے قبول نہ كى-كيا تم ان لوگوں كى طرح حاضر اور گواہ ہو جو يہاں سے غائب ہيں؟ اور ان لوگوں كى طرح غلام ہو جو آقا بن بيٹهے ہيں؟ميں تمہيں دانائى كى باتيں سناتا ہوں ليكن تم ان سے نفرت كرتے ہو، اور ميں تمہیں پتهر كو موم كردينے والى نصيحت كرتا ہوں ليكن تم ان سے بدكتے ہو، ميں تمہیں باغيوں سے جہاد كرنے كى ترغيب ديتا ہوں اور ابهى اختتام تك نہيں پہنچتا كہ تم سبا كے قبائل كى طرح بكھر جاتے ہو اور اپنى مجلسوں كى طرف لوٹ جاتے ہو اور اپنى خيرخواہى كى باتوں كو فريب سمجھنا شروع كرديتے ہو- ميں صبح كو تمہیں سيدها كركے روانہ كرتا ہوں اور تم شام كو اس اونٹنى كى طرح واپس لوٹ آتے ہو جو اپنے نومولود بچے كى طرف لوٹ آتى ہے- تمہیں سيدها كرنے والا بهى عاجز آگيا ہے اور سيدها ہونے والا بهى پريشان ہوگيا ہے!!
اے بدنوں كے اعتبار سے موجود اور عقلوں كے اعتبار سے غائب دماغ فدائيو، كيسے عجيب فدائى؟! جن كى خواہشات مختلف ہيں اور ان كے امرا ان كى وجہ سے مصيبت ميں مبتلا ہيں- تمہارا امير اللہ كى اطاعت كرتا ہے اور تم اس كى نافرمانى كرتے ہو … واللہ! ميں پسند كرتا ہوں كہ معاويہ مجھ سے يوں تبادلہ كرلے جيسے درہموں كے تبادلے ميں دينار كا تبادلہ كيا جاتا ہے، وہ مجھ سے تمہارے جيسے دس فدائى لے لے اور مجهے اپنا ايك فدائى دے دے!!
اے اہل كوفہ! ميں تم ميں تين طرح كى اور دو طرح كى خصلتیں ديكھ كر حيران و پريشان ہوں كہ سننے والے بهرے، اور بولنے والے گونگے اور ديكهنے والے اندهے- نہ تو جنگ كے موقعہ پر دلير اور جوان مرد، اور نہ آزمائش كے وقت قابل اعتماد دست ِراست، تمہارے ہاتھ خاك آلود ہوں- اے وہ اونٹو! جن كے چرواہے غائب ہيں جب انہيں ايك طرف سے اكٹھا كيا جاتا ہے تو وہ دوسرى جانب سے بكهر جاتے ہيں-“
چونكہ عربى جيسى فصيح وبليغ زبان كا ديگر زبانوں ميں ترجمہ كرنا جوئے شير لانے كے مترادف ہے اس لئے ترجمے ميں وہ بلاغت نہيں ہوتى جو اصل عربى زبان ميں ہوتى ہے، اس لئے مناسب ہے كہ اميرالموٴمنين كے اصل خطبے پر غائر نظر ڈالى جائے، ان شاء اللہ آپ كو يقين آجائے گا كہ اگر اہل شام يا اہل حجاز يہ خطبہ سن ليتے تو ان كى شجاعت و حمیت بهڑك اُٹھتى اور وہ شيرانِ و غا بن جاتے ليكن كوفى وفانماووٴں كے دلوں پر اس طرح كے خطبوں كا كچھ اثر نہ ہوا بلكہ انہوں نے اہم اور نازك موڑ پر آپ كا ساتھ چهوڑ ديا اور ايك نہايت خطرناك دهمكى دى، چنانچہ ہم اس دهمكى كى تفصيل ايك مشہور شيعى سكالر ڈاكٹر احمد راسم النفيس كى زبانى بيان كرتے ہيں وہ لكهتے ہيں كہ
”عسكرى لحاظ سے اميرالموٴمنين كے فدا كاروں كا حال نصر بن مزاحم كى زبانى سنئے،كيونكہ وہ ہدير والى رات كى صبح كو لشكر معاويہ كا جائزہ لے رہے تهے اور اسى دوران ان كے پاس امام على كا پيامبر يہ پيغام لے كر گيا كہ اميرالمومنين فرماتے ہيں كہ ميرے پاس آوٴ، تو اس نے كہا كہ اس موقع پر مناسب نہيں كہ آپ مجهے اپنے محاذ سے پیچھے ہٹا ديں، كيونكہ ميں فتح كى اُميد پر ہوں، لہٰذا جلدى نہ كیجئے-چنانچہ اميرالمومنين كے پيامبريزيد بن ہانى نے واپس لوٹ كر آپ كو اس جواب كى خبر دى-
(نصر بن مزاحم كہتے ہيں كہ) يزيد بن ہانى ابهى ہمارے پاس پہنچا ہى تها كہ عراقى كمانڈر اشتر كى طرف سے غبار اُڑا اور آوازيں بلند ہوئيں اور اہل عراق كى فتح و نصرت اور اہل شام كى شكست و رسوائى كے دلائل نماياں ہونے لگے تهے كہ آپ كے شيعہ آپ سے كہنے لگے: واللہ ہم سمجهتے ہيں كہ آپ نے اسے لڑائى جارى ركهنے كا حكم ديا ہے-
آپ نے فرمايا: كيا تم ميرے متعلق يہ گمان ركهتے ہو كہ ميں نے اپنے قاصد كو كوئى خفيہ ہدايات دى ہيں؟ كيا ميں نے تمہارے سامنے علانيہ گفتگو نہيں كى اور تم سن بهى رہے تهے؟
انہوں نے كہا: اس كى طرف پيغام بھیجو كہ وہ آپ كے پاس آئے ورنہ ہم آپ كو چهوڑ كر جدا ہوجائيں گے-
آپ نے فرمايا: اے يزيد تم پر افسوس، اسے جاكر كہو كہ ميرى مانے اور واپس آجائے كيونكہ فتنہ واقع ہوچكا ہے- چنانچہ يزيد اس كے پاس گيا اور اسے خبر دى تو اشتر نے كہا: كيا يہ مصاحف قرآن بلند كئے گئے ہيں؟ اس نے كہا : ہاں-
اشتر نے كہا: اللہ كى قسم، تو فتح كى طرف نہيں ديكھ رہا؟ كيا تو نہيں ديكھ رہا كہ انہيں كس طرح كى صورتحال كا سامنا ہے؟ كيا تو نہيں ديكھ رہا كہ اللہ ہمارے لئے كيا كررہا ہے؟ كيا يہ مناسب ہے كہ ہم اسے چهوڑ كر واپس مڑ جائيں؟
يزيد نے اسے جواب ديا كہ كيا تو پسند كرتا ہے كہ تو يہاں كامياب ہوجائے اور اميرالمومنين اپنى جگہ پر ہى دشمن كے سپرد كرديئے جائيں؟
اس نے كہا: اللہ كى قسم، ميں تو اسے پسند نہيں كرتا-
اس نے كہا: خوب سمجھ لے كہ انہوں نے اميرالمومنين سے كہہ ديا ہے اور اس بات پر حلف اُٹهايا ہے كہ اشتر كى طرف پيغام بهيج كر اسے واپس بلاوٴ ورنہ ہم تمہیں اپنى تلواروں سے اس طرح قتل كريں گے جيسے ہم نے عثمان كو قتل كيا ہے يا پهر تمہیں تمہارے دشمن كے سپرد كرديں گے چنانچہ اشتر ان كى طرف واپس لوٹ آيا اور كها :
اے اميرالموٴمنين ميں قوم كى صفيں درہم برہم كررہا ہوں اور وہ پسپا ہونے كو ہے تو وہ پكار پكار كر كہنے لگے كہ اميرالمومنين نے تحكيم كو قبول كرليا ہے اور وہ قرآن كے حكم پرراضى ہوگئے ہيں- اشتر نے كہا- اگر اميرالمومنين راضى ہوگئے ہيں اور انہوں نے تحكيم كو قبول كرليا ہے تو ميں بهى راضى ہوں- اس پر لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ اميرالمومنين راضى ہيں اور اميرالمومنين نے تحكيم كو قبول كرليا ہے- اميرالمومنين زمين پر نظريں جهكائے ايك كلمہ بهى نہيں بول رہے تهے پهر آپ كهڑے ہوئے اور لوگ خاموش ہوگئے توآپ نے فرمايا: ميرا معاملہ تمہارے ساتھ اس وقت تك خوب رہا جب تك ميں نے تمہيں جنگ كے لئے نہيں بلايا، اللہ كى قسم، تم سے اس كے متعلق عہد و پيمان ہوا تو اس كى خلاف ورزى ہوئى اور تمہارے دشمن سے اس كا عہد وپيمان ليا گيا تو اس كى خلاف ورزى نہ ہوئى اور تم ميں اس كا تصور بهى بهيانك ہے اور وہ ممنوع چيز بن گئى ہے اور تم نے زندگى كو محبوب سمجھ ليا ہے اور ميں تمہیں اس بات پر مجبورنہيں كرتا جو تمہیں ناگوار ہے پهر آپ بیٹھ گئے- 13
كاش كہ ان وفا نماوٴں كو عملى طور پر اميرالمومنين اور ان كے عالى مقام صاحبزادوں كے كندهوں سے كندها ملا كر كهڑا ہونا نصيب ہوتا تو وہ كبهى ناكام نہ ہوتے اور نہ ہى انہيں توابين بننا پڑتا اور نہ ہى ان كى نسلوں كو اہل السنہ پر ناصبيت كا الزام لگانے كى ضرورت پڑتى-
نہ تهى حال كى جب ہميں اپنى خبر
رہے ديكهتے اوروں كے عيب و ہنر
پڑى جب اپنے گناہوں پر نظر
تو نگاہ ميں كوئى بُرا نہ رہا !!
حوالہ جات
1. بخارى29427
2. بخارى:كتاب المناقب، باب مناقب فاطمه
3. بخارى:3747
4. سنن ترمذى:3701، حسن ،صحيح
5. طبقات ابن سعد:5/214
6. صفوة الصفوة:992، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی،دار المعرفہ، بیروت1979ئ،تحقیق: رواس قلعہ جی
7. ابن سعد:5/214
8. سير اعلام النبلاء :1/404
9. سير اعلام النبلاء :1/404
10. ميزان الاعتدال:6/539، الذہبى، دار الكتب العلمية،بيروت،1995ء
11. آپ انتہا درجہ کے دانش مند انسان تھے۔آپ کے حکیمانہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
من نازع الٔافیال ف أمرہم بات بعیدا الرأس عن جُثَّتہ
من لاعب الثعبان ف کفہہ یہات أن یسلم من لَسعتہ
من عاشر الأحمق ف حالہ کان ہو الأحمق ف عشرتہ
لا تصحب النزال فتردیٰ بہ لا خیر ف النزال ولا صحبتہ
من اعتراک الشکُّ ف جنسہ وحالہ فانظر لی شیمتہ
من غرس الحنظل لا یرتجی أن یجتنی السکر من غرستہ
من جعل الحق لہ ناصرا ٔ یدہ اﷲ علی نصرتہ
من مازح الناس استخفوا بہ وکان مذموما علی مزاحتہ
12. نہج البلاغة : ج1/187/189
13. ديكهئے على خطى الحسين: ص34-35