جدید الیکٹرانک میڈیا کا دینی مقاصد کے لیے استعمال اور اس کا شرعی جائزہ

تصویر کی تعریف

تصویر کسی حیوان کا ایسا نمونہ تیار کرنے کا نام ہے جو اس حیوان کی شکل واضح کر دے، وہ نمونہ خواہ مجسم ہو یا مسطح، سایہ دار ہو یا غیر سایہ دار1

تخلیقِ خداوندی کی مشابہت پیدا کرنا اور اس کی نقالی کرنا تصویر کہلاتا ہے ۔
''التصاویر جمع التصویر ھو فعل الصورة والمراد به ھنا ما یتصور مشبھا بخلق اﷲ من ذوات الروح مما یکون علی حائط أوستر کما ذکرہ ابن المالك''2

یہ مشابہت اور نقالی عام ہے خواہ مجسمہ کی صورت میں ہو یا نقش و رنگ کی صورت میں اور خواہ قلم سے اس کی نقاشی کی جائے یا پریس وغیرہ پر چھاپا جائے اور یا فوٹو وغیرہ کے ذریعہ عکس کو قائم کیا جائے، یہ سب تماثیل اور تصاویر کہلاتے ہیں ۔3
تصویر کی ممانعت پر دلالت کرنے والی احادیث ِمبارکہ
عن عائشة قالت قدم رسول ﷺ من سفر وقد سترت بقرام لي فیها تماثیل فلما رآہ رسول اﷲ ﷺ ھتکه وقال: (أشد الناس عذابا یوم القیامة الذین یضاھون بخلق اﷲ علی سهوة لي)۔[قالت عائشة: فقطعناہ فجعلنا منه] وسادة أو وسادتین 4
''حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے، میں نے ایک طاقِ الماری پر پردہ ڈالا ہوا تھا جس میں تصاویر تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کو دیکھا تو پھاڑ ڈالا اور فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ِتخلیق کی نقل اتارتے ہیں ۔ پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اس کے ایک یا دو گدے بنائے تھے۔''

عن عائشة قالت قدم النبي ﷺ من سفر وعلَّقت درنوکًا فیه تماثیل فأمرني أن أنزعه فنزعته5
''حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے ایک چھوٹا کپڑا (دیوار پر ) لٹکایا ہوا تھا جس میں تصاویر تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اس کو ہٹا دوں ، سو میں نے ہٹا دیا۔''

حدیث ِمذکور میں بروایت ِ صحیح مسلم پردہ پر 'گھوڑے کی تصاویر' ہونا مذکور ہیں ۔6
عن ابن عباس عن أبي طلحة قال النبي ﷺ: لا تدخل الملئکة بیتا فیه کلب ولا تصاویر 7
''حضرت ابن عباسؓ نے حضرت ابوطلحہؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصاویر ہوں ۔ ''

تصویرکے متعلق ائمہ مجتہدین کی آرا
ذی روح کی مجسم تصاویر کی حرمت پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے بشرطیکہ اس کے اعضا مکمل ہوں اور اس کا کوئی ایسا عضو مفقود نہ ہو جس پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے نیز وہ تصویر بہت چھوٹی نہ ہو اور وہ تصویر لعب البنات کے قبیل سے نہ ہو۔
ذی روح کی غیر مجسم تصاویر کی حرمت پر ائمہ ثلاثہ (امام ابوحنیفہ، امامِ شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کا اتفاق ہے اور امام مالک رحمة اللہ علیہ سے بھی ایک روایت جمہور کے موافق منقول ہے ۔
دوسری روایت میں امام مالک رحمة اللہ علیہ سے غیر مجسم تصاویر کا جواز بکراہت ِتنزیہی منقول ہے ۔
بہت سے علماے مالکیہ نے اس روایت کو اختیار کیا ہے اور بعض نے بلا کراہت جائز کہا ہے۔ 8

فالحاصل أن المنع من اتخاذ الصور مجمع علیه فیما بین الأئمة الأربعة إذا کانت مجسدة، أما غیر المجسدة منھا فاتفق الأئمة الثلاثة علیٰ حرمتھا أیضاً والمختار عن الأئمة المالکیة کراھتھا لکن ذھب المالکیة الیٰ جوازھا 9
'' خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک تصویر کشی بالاتفاق ناجائز ہے جبکہ وہ مجسم شے ہو۔ البتہ غیرمجسم شے کی تصویر کشی کی حرمت پر تین ائمہ فقہا تو متفق ہیں ، اور مالکیہ کا مختار مسلک کراہت کا ہے لیکن بعض مالکیہ کے ہاں اس کا جواز بھی پایا جاتا ہے۔''

وکان أبوھریرة یکرہ التصاویر ما نصب منھا وما بسط وکذلك مالك إلا أنه کان یکرھھا تنزیھا،ولا یراھا محرمة10
''حضرت ابو ہریرہ گاڑی اور لٹکائی ہوئی تصاویر کو ناپسند سمجھتے تھے، امام مالک بھی یہی موقف رکھتے تھے لیکن ان کی رائے میں یہ کراہت ِتنزیہی ہے، حرمت والی کراہت نہیں ۔''

دلائل
امام مالک اس حدیث ان النبي ﷺ قال: (لا تدخل الملائکة بیتًا فیه صورة إلارقماً في ثوبٍ) سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں ایسی تصویر کا استثنا کیا گیا ہے جو کسی کپڑے پر نقش ہو،اس سے معلوم ہوا کہ بے سایہ تصویر جائز ہے ۔
جبکہ جمہورفقہا کی نہایت صریح دلیل حضرت عائشہؓ کاوہ واقعہ ہے جس میں آپ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے کمرے میں ایک پردہ لٹکا دیا تھا جس میں تصویریں نقش تھیں ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمرے میں داخل ہوئے اور آپؐ کی نظر اس پر پڑی تو رک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر فرمائی۔

بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک تم اس کو نہیں نکالوگی میں گھر میں داخل نہیں ہوں گا،کیونکہ اس پر تصویر ہے ۔

اب اس حدیث ِمبارکہ کی روشنی میں إلاماکان رقمًا في ثوبٍ والی حدیث میں لفظ رقم سے مراد ایسا نقش ہے جس میں کسی ذی روح کی تصویر نہ ہو، لیکن مالکیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کے راوی قاسم بن محمد ہیں اور قاسم بن محمد خوداس بات کے قائل ہیں کہ بے سایہ تصویر جائز ہے ۔اور حنفیہ کا اُصول ہے کہ جہاں کوئی راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حدیث یا تومؤول ہے یا منسوخ ۔ (حسامی: ص ۷۶) علاوہ ازیں تصویر کی حرمت پر بے شماراحادیث موجود ہیں اور سب مطلق ہیں ۔

ناقص تصویر کا حکم
سرکٹی تصویر اگرچہ ہاتھ پائوں وغیرہ موجود ہوں تو باتفاقِ ائمہ جائز ہے۔
سرتو باقی ہو، لیکن کوئی ایسا عضو کٹا ہوجس پر زندگی کا مدار ہوتا ہے ، مثلاً پیٹ، سینہ وغیرہ تو ایسی تصویر میں علما کا اختلاف ہے۔ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک جائز ہے اور شامی میں بھی یہی حکم مذکور ہے جبکہ شوافع کے راجح قول میں ناجائز ہے اور جواز کا قول مرجوح ہے ۔
ایسا عضو کٹا ہوجس پر زندگی کا مدارنہ ہو مثلاً ہاتھ، پائوں ، ناک، کان تو ایسی تصویر بالاتفاق ناجائز ہے :
والحاصل أنه یحرم تصویر حیوان عاقل وغیرہ إذا کان کامل الأعضاء إذا کان یدوم إجماعًا وکذا إن لم یدم علی الراجح کتصویرہ من نحو قشر بطیخ ویحرم النظر إلیه إذا النظر المحرم حرام بخلاف ناقص عضو فیباح النظر إلیه وغیر ذي ظل کالمنقوش في حائط أو ورق فیکرہ إن کان غیرممتھن وإلا فخلاف الأولیٰ کالمنقوش في الفرش۔ أما تصویر غیر الحیوان کشجرة وسفینة فجائز۔ قوله: بخلاف ناقص عضو مثله ما إذا کان مخروق البطن 11

''خلاصہ یہ کہ عاقل حیوان وغیرہ کی تصویر حرام ہے جب تصویر میں اس کے تمام اعضا مکمل ہوں ۔ جب اس میں استقرار ودوام ہو تب تو ایسی تصویر بالاجماع حرام ہے، اور اگر اس مں دوام نہ ہو مثلاً تربوز کے چھلکے پر تصویر کشی تو راجح قول کے مطابق حرام ہے ۔ اورایسی تصویر کو دیکھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ حرام شے کو دیکھنا بھی حرام ہوتا ہے۔ برخلاف ایسی تصویر کے جس کے اعضا ناقص ؍ کٹے ہوں یا ایسی تصویر جو بغیر سائے کے ہو مثلاً دیوار یا کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی تصویر تو اس کو دیکھنا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے بشرطیکہ وہ محل اہانت میں نہ ہو۔ اور اگر وہ محل اہانت میں ہو مثلاً فرش پر تصویر تو پھر اس کو دیکھنا جائز ہے۔ جہاں تک غیرجاندار کی تصویر کا معاملہ ہے مثلاً درخت یا کشتی وغیرہ تو یہ جائز ہے۔ اور یہی حکم کٹے ہوئے اعضا کی تصویر ہے جبکہ اس کا پیٹ کٹا ہوا ہو۔''


وإن قطع منه ما لا یبقی الحیوان بعد ذھابه کصدرہ أو بطنه أو جعل له رأس منفصل عن بدنه لم یدخل تحت النھي لأن الصورة لا تبقی بعد ذھابه فهو کقطع الرأس۔ وإن کان الذاھب یبقی الحیوان بعدہ کالعین والید والرجل فھو صورة داخلة تحت النھي 12
''اگرتصویر سے ان اعضا کو کاٹ دیا جائے مثلاً سینہ، پیٹ جن کے کٹنے کے بعد زندگی باقی نہیں رہتی یا اس کے بدن کو سر سے جدا کردیا جائے، تواس وقت یہ تصویر ممانعت میں داخل نہ ہوگی کیونکہ سرکٹنے کی طرح ان کے کٹنے کے بعدبھی صورت باقی نہیں رہتی۔ البتہ اگر ایسا عضو کاٹا جائے جس کے بعد زندگی برقرار رہتی ہے مثلاً آنکھ، ہاتھ او رپائوں وغیرہ تو ایسی تصویر ممانعت میں داخل ہے۔''

أو ممحوة عضو ألزم تعمیم بعد تخصیص، وھل مثل ذلك ما لو کانت مشقوبة البطن مثلاً الظاھر أنه لوکان الثغب کبیرًا یظھر به نقصھا فنعم، وإلا فلا وھذا مذھب الشافعي، اختلفوا فیما إذا کان المتطوع غیر الرأس وقد بقي الرأس والراجح عندھم في ھذہ الحالة التحریم 13
'' یا تصویر کا کوئی عضو مٹا ہو تو تخصیص کے بعد عموم لازم آئے گا۔ اور کیا جس کا پیٹ چاک ہوا ہو، اس کا بھی حکم ایسا ہی ہوگا؟ تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اگر گھائو بڑا ہے جس سے شخصیت میں نقص واضح ہورہا ہے تو اس صورت میں تصویر کا جواز ہے وگرنہ نہیں او ریہ امام شافعی کا قول ہے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ متطوع اگر بغیرسر کے ہو، اور سر باقی رہ گیا ہو۔تو اس صورتحال میں راجح موقف حرمت کا ہی ہے۔''

کیمرہ کی تصویر
کیمرہ کی تصویر کے بارے میں اکثر فقہاے کرام تو یہ کہتے ہیں کہ آلے کے بدل جانے سے حکم نہیں بدلتا، یہ چیز پہلے ہاتھ سے بنائی جاتی تھی، اب مشین سے بننے لگی ہے، محض آلہ کی تبدیلی سے کسی چیز کی حلت اور حرمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر تصاویر ناجائز ہیں توخواہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین سے؛ دونوں ناجائز ہیں ۔

البتہ مصر کے ایک عالم دین علامہ شیخ محمد بخیت رحمة اللہ علیہ جو عرصۂ دراز تک مصر کے مفتی بھی رہے، بڑے عالم اورمتقی تھے، محض ہوا پرست نہیں تھے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ کیمرے سے لی جانی والی تصویر جائز ہے۔ دلیل میں فرمایا کہ حدیث میں جس تصویر کی ممانعت کی گئی ہے، اس کی علت 'مشابہت بہ خلق اللہ' ہے اور اللہ کی تخلیق سے مشابہت اسی وقت ہوسکتی ہے جب کوئی شخص اپنے تصور وتخیل سے اور اپنے ذہن سے ہاتھ کے ذریعے کوئی صورت بنائے۔ حالانکہ کیمرے کی تصویر میں تخیل کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ کیمرے کی تصویر میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ایک مخلوق پہلے سے موجود ہے، اس مخلوق کا عکس لے کر محفوظ کرلیاجاتا ہے، لہٰذا یہاں مشابہت بہ خلق اللہ نہیں پائی جاتی بلکہ یہ حَبْس الظل ہے جو ناجائز نہیں ۔

مصراور بلادِ عرب کے بہت سے علما نے اس بارے میں ان کی تائید بھی کی ہے، لیکن علما کی اکثریت نے اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی، خصوصاً ہند وپاک کے علما نے ان کے استدلال کو قبول نہیں کیا ہے اور ان کا یہی موقف ہے کہ مشابہت بہ خلق اللہ ہر صورت میں متحقق ہوجاتی ہے، چاہے تصویر کیمرے سے بنی ہویا ہاتھ سے۔ لہٰذا جمہور علما کے نزدیک واضح یہی ہے کہ کیمرے کی تصویر کا وہی حکم ہے جو ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر کا ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا ضرور ی ہے، البتہ اس اختلاف سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہ مسئلہ دووجہ سے مجتہدفیہ معاملہ بن گیا ہے ۔ ایک توامام مالک کا اختلاف ہے، دوسرے علامہ بخیط کا فتویٰ موجود ہے اگرچہ وہ فتویٰ ہمارے نزدیک درست نہیں ۔ لیکن بہر حال ایک جدیدشے کے بارے میں ایک متورّع عالم کا قول موجود ہے، اس لیے یہ مسئلہ مجتہدفیہ بن گیا۔ 14

نیز کیمرے کی تصویر اگر صرف جسم کے اوپرکے نصف کی ہو جس میں پیٹ موجود نہ ہو تو مسئلہ میں مزید تحفیف ہوجائے گی، کیونکہ یہ حنابلہ کے یہاں جائز ہے یا بعض شوافع و احناف کے نزدیک بھی

''وإنِ قطع منه ما لا یبقی الحیوان بعد ذھابه کصدرہ وبطنه لم یدخل تحت النھي''15
''اگرتصویر سے ان اعضا کو کاٹ دیا جائے مثلاً سینہ، پیٹ جن کے کٹنے کے بعد زندگی باقی نہیں رہتی یا اس کے بدن کو سر سے جدا کردیا جائے، تواس وقت یہ تصویر ممانعت میں داخل نہ ہوگی۔''

لکنها غیرت من ھیئتھا إما بقطعھا من نصفھا أو بقطع رأسھا فلا امتناع16
''لیکن اگر تو نے اس کی ہیئت کو بگاڑ دیا ، سر کو کاٹ کر یا نصف جسم سے کاٹ کر ، تو ایسی صورت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔''

لو قطعت من ذي الروح لما عاش دل ذلك علی إباحة 17
''اگرجاندار کی تصویر کو اس طرح کاٹ دیا جائے کہ اس صورت میں جاندار زندہ نہ رہ سکے تو پھر یہ فعل ایسی تصویر کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔''

أو مقطوعة الرأس أو الوجه أو ممحوة عضو لا تعیش بدونه 18
''یا سربریدہ ہو، یا چہرہ غائب ہو، یا کوئی ایسا عضومٹا ہو جس کے بغیر زندگی محال ہے۔''

ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر
جس کیمرے میں تصویر والے نیگٹیوز نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس میں صرف برقی شعائیں خاص ترتیب سے محفوظ ہوتی ہیں جیسے ڈیجیٹل کیمرہ تو اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک وہ شعاعیں کسی کاغذپر پرنٹ نہ ہوں تو اس وقت تک ان شعائووں کو تصویر قرار دینے میں علما کی دورائیں ہیں ۔ ہماری تحقیق کے مطابق اُنہیں تصویر قرار دینے میں تامل ہے، لیکن جب ان شعائووں کو کسی کاغذ پر پرنٹ کیا جائے گا تو وہ تصویر کے حکم میں ہی ہوں گی۔19

ٹیلی ویژن پر پیش کی جانے والی تصاویر
ٹیلی ویژن پر پیش کی جانے والی تصاویرکی تین قسمیں ہیں :
پہلی قسم وہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر ایسی چیز دکھائی جائے جو پہلے سے تصویر کی شکل میں موجود ہے ۔ اس کو بڑا کرکے ٹی وی سکرین پر دکھایا جا رہا ہے تو یہ تصویر نہیں بلکہ تصویر کا ظل اور سایہ ہے، جیسا کہ کویتی موسوعہ فقہیہ میں ہے:
''ومن الصّور غیرالدائمة ظل الشيء إذا قابل أحد مصادر الضوء ۔۔۔ ومن الصور غیر الدائمة الصور التلیفزیونیة فإنھا تدوم ما دام الشریط متحرکًا فإذا وقف انتھت الصورة''20
''غیردائمی تصاویر میں سے شے کا سایہ بھی ہے جب اس کو روشنی کے مرکز کے بالمقابل کھڑا کیا جاتا ہے... ایسے ہی غیردائمی تصاویر میں ٹی وی کی تصاویر بھی شامل ہیں کیونکہ یہ اسی وقت تک ہی باقی رہتی ہیں ، جب تک کیسٹ چلتی رہتی ہے، جب کیسٹ رک جاتی ہے، تصویر بھی رک جاتی ہے۔''

دوسری قسم وہ ہے جس میں فلم کا واسطہ درمیان میں نہیں ہوتا۔بلکہ براہِ راست وہ چیز ٹیلی ویژن پر کاسٹ کی جاتی ہے مثلاً ایک آدمی ٹی وی سٹیشن میں بیٹھا ہوا تقریر کر رہا ہے ۔ یا کسی اور جگہ تقریر کر رہا ہے اور ٹی وی کیمرے کے ذریعے براہِ راست اس کی تقریر اور اس کی تصویر ٹی وی سکرین پر دکھائی جا رہی ہے۔ درمیان میں فلم اور ریکارڈنگ کا کوئی واسطہ نہیں تو یہ بھی تصویر کے حکم میں نہیں ۔ کیونکہ تصویر وہ ہوتی ہے جس کو کسی چیز پر علیٰ صفت الدوام، ثابت اور مستقر کردیا جائے۔ لہٰذا اگروہ تصویر علیٰ صفت الدوام کسی چیز پر ثابت اور مستقر نہیں ہے تو پھر وہ تصویر نہیں ہے بلکہ عکس ہے۔ لہٰذا براہِ راست دکھائی جانے والی تصویر عکس ہے، تصویر نہیں ۔ مثلاً کوئی شخص یہاں سے دومیل دور ہے اور اس کے پاس ایک شیشہ ہے، اس شیشہ کے ذریعے وہ یہاں کا منظر دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص دو میل دور بیٹھ کر شیشے میں یہاں کا عکس دیکھ رہا ہے، وہ تصویر نہیں دیکھ رہا ہے ، اس لیے کہ یہ عکس کسی جگہ پر ثابت اور مستقر علیٰ صفت الدوام نہیں بالکل اسی طرح براہِ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کی صورت میں برقی ذرات کے ذریعہ انسان کی صورت کے ذرات منتقل کئے جاتے ہیں ، پھر ان کو سکرین کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے، لہٰذا یہ عکس ہے تصویر نہیں ۔

تیسری قسم وہ ہے جو ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ دکھائی جاتی ہے ۔یعنی ایک تقریر اور اس کی تصاویر کے ذرّات کو لے کر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا۔ اور پھر ان ذرات کو اسی ترتیب سے چھوڑا تو پھر وہی منظر اور تصویر نظر آنے لگے۔اس کو بھی تصویر کہنا مشکل ہے، اس لیے کہ جو چیز ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہوتی ہے، وہ صورة نہیں ہوتی بلکہ وہ برقی ذرات ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر ویڈیو کیسٹ کی ریل کو خوردبین لگا کر بھی دیکھا جائے تو اس میں تصویر نظر نہیں آئے گی۔اس لیے یہ تیسری قسم بھی تصویر کے حکم میں نہیں آتی ۔ 21

في تکملة فتح الملھم: إن صورة التلفزیون والفیدیو لاتستقر علی شيء في مرحلة من المراحل إلا إذا کان في صورة فیلم۔فإن کانت صورة الإنسان حیة بحیث تبدو علیٰ الشاشة في نفس الوقت الذي یظھر فیه الإنسان أمام الکیمراء فإن الصورة لا تستقر علی الکیمراء ولا علی الشاشة الأصلي وإنما ھي أجزاء ثم تنفي وتزول إما إذا احتفظ بالصورة في شریط الفیدیوفإن الصورة لا تنقش علیٰ الشریط وإنما ھي تحفظ الأجزاء الکهربائیة التي لیس فیھا صورة فإذا ظھرت ھٰذہٖ الأجزاء علیٰ الشاشة ظھرت مرة أخریٰ بذلك الترتیب الطبع ولکن لیس لھا ثبات ولا مستقرا علی الشاشة وإنما ھي تظھر وتفنی۔ فلایبدو إن ھناك مرحلة من المراحل تنقش فیھا الصورة علیٰ شيء بصفة مستقرة أو دائمة وعلیٰ ھذا متزین ھٰذہ الصورة، فذلك الصورة المستقرة شکل۔ 22
''تکملة فتح الملهم میں ہے کہ ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر کسی بھی مرحلہ میں کسی چیز پر استقرار نہیں پکڑتی، اِلا یہ کہ وہ فلم کی صورت میں ہو۔ چنانچہ جب زندہ انسان کی تصویر ہو تو وہ اسی وقت تک سکرین پر نظر آتی رہتی ہے جب تک انسان کیمرے کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ وہ تصویر نہ تو کیمرے میں استقرار حاصل کرتی ہے اور نہ ہی سکرین پر۔ یہ تصویر تو برقی اجزا ہوتے ہیں جو آخر کار ختم ہوکر زائل ہوجاتے ہیں ۔ البتہ جب تصویر کو ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کردیا جائے تب بھی تصویر وہاں پرنقش نہیں ہوتی، بلکہ وہ برقی ذرات ہی ہوتے ہیں جن میں کوئی صورت نہیں ہوتی۔ جب ان برقی ٹکڑوں کو دوبارہ سکرین پر ظاہر کیا جاتا ہے تو پھر وہ اسی ترتیب ِطبع کے مطابق ہی دوبارہ ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ لیکن تب بھی ان کا سکرین پر کوئی دوام اور استقرار نہیں ہوتا بلکہ وہ ظاہر ہوتی اور فنا ہوتی رہتی ہے۔ الغرض یہاں کوئی بھی ایسا مرحلہ نہیں جس میں تصویر کسی شے پر مستقل اور دائمی صورت میں محفوظ رہے۔ یہی نوعیت تصویر کو خوبصورت بنانے والوں کے ہاں بھی ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ دائمی اور برقرار رہنے والی تصویر ہی شکل کہلاسکتی ہے۔''

تصویر دیکھنے کا حکم
جن تصاویرکا بنانا اور رکھنا ناجائز ہے، ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔ البتہ تبعًانظر پڑجائے تو مضائقہ نہیں جیسے کوئی اخبار یا کتاب مصور ہے تو مقصود اس کتاب و اخبار کو دیکھنا ہے۔ اگر بلا ارادہ تصویر بھی سامنے آجاتی ہے تو اس کا مضائقہ نہیں ۔ 23

تصویر کی حرمت قطعی یا ظنی؟
جس تصویرکی حرمت پر اجماع ہے مثلاً بت ومجسمہ تو اس کی حرمت قطعی ہے اور جس تصویر کی حرمت مختلف فیہ ہے مثلاً غیر مجسم منقوش تصاویر تو اس کی حرمت ظنی ہے قطعی نہیں ، کیونکہ جن نصوص سے ان کی حرمت کا استدلال کیا جائے گا وہ عام مخصوص منہ البعض کی قبیل سے ہوں گی اور عام مخصوص منہ البعض سے حکم قطعی کی بجائے حکم ظنی ثابت ہوتا ہے ، اس لیے کہ عام مخصوص منہ البعض میں تخصیص کے بعد شبہ اور احتمال پیدا ہوجاتا ہے :
ذھب جمهور الحنفیة منھم أبو الحسن الکرخي وأبوبکر الجصاص وعامة مشائخ العراقیین وأبوزید الدبوسي وأکثر مشائخ ما وراء النھر البزدوي والمتأخرون کلھم إلی أن دلالته علی کل فرد قطعیة قبل التخصیص وأما إذا دخله التخصیص ولو مرة فیکون ظنِّیًا۔وذلك إذا لم یکن المخصص دلیل العقل وإلا لا یخرج عن کونه قطعیًا۔ 24
''جمہور حنفی فقہا، مثلاً ابو الحسن کرخی، ابوبکر جصاص اور عام عراقی مشایخ: ابو زید دبوسی، ماورا النہر کے اکثر مشایخ: بزدوی اور متاخرین وغیرہ سب کے ہاں عام کی اپنے ہر جز پر تخصیص سے قبل دلالت قطعی ہوتی ہے۔البتہ اگر اس پر تخصیص داخل ہوجائے، اگرچہ ایک بار ہی کیوں داخل نہ ہو تو پھریہ دلالت ظنی ہوجاتی ہے۔ بشرطیکہ تخصیص کرنے والی دلیل محض عقلی نہ ہو، اس کے ماسوا عام اپنے افراد پر قطعی دلالت سے کبھی باہر نہیں نکلتا۔''
..............................

فروغِ اسلام کے لئے الیکٹرانک میڈیا کواستعمال کرنا
اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس ضمن میں استعمال کی جانے والی فقہی اصطلاحات کا ایک اُصولی مفہوم اور ان کا شرعی حکم اورحیثیت پر ایک نظر ڈال لی جائے:
(الضرورة) ھي عند الأصولین الأمور التي لا بد منھا في قیام مصالح الدین والدنیا بحیث إذا فقدت لم تجز مصالح الدین والدنیا علی استقامة بل علی فساد وتھارج وفوت حیات وفي الاٰخرة فوت النجاة والنعیم والرجوع بالحشران۔(الضروریات) وھي خمسة: حفظ الدین حفظ النفس وحفظ العقل وحفظ النسب وحفظ المال 25
''اہل اصول کی اصطلاح میں 'ضرورت' وہ اُمور کہلاتے ہیں جن پر دین و دنیا کے مصالح موقوف ہوں کہ ان کے فوت ہونے سے مصالح دینی و دنیوی صحیح ودرست طریقہ پر انجام نہ پاسکیں مثلاً جہاد کی مشروعیت، حفاظت ِدین و حفاظت ِنفس و حفاظت ِمال وغیرہ کے لیے ہوتی ہے ۔''

(الاضطرار) ھوالخوف علیٰ النفس من الھلاك علما أو ظنا أو بلوغ الإنسان حدًا إن لم یتناول الممنوع یھلك،ھٰذا حد الإضطرار26
''جب جان کے ضیاع کا یقین یا ظن غالب ہوجائے یا انسان ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اگر ممنوع کا استعمال نہ کرے تو ہلاک ہوجائے تو اسے اصطلاح میں اضطرار کہاجاتا ہے ۔''

(الحاجة) بأنھا ما یفتقر إلیه من حیث التوسعة ورفع للضیق المودي في الغالب إلی الحراج والمشقة اللاحقة بقوت المطلوب فإذا لم تراع دخل علی المکلفین علی الجملة الرج والمشقة۔ قال الزرکشي وغیرہ: الحاجة کالجائع الذي لولم یجد ما أکل لم یھلك غیرأنه یکون في جھد ومشقة وھذا لا بیح المعوم؟؟؟ والفرق بین الحاجة والضررة إن الحاجة إن کانت حالة جھد ومشقة منھي دون الضرورة ومرتبتھا أدنی منھا ولایتأتی بفقدھا الھلاك 27
''حاجت وہ اُمور کہلاتے ہیں جس کا انسان پیش آنے والی مشقت و تنگی کو دور کرنے کے لیے محتاج ہوتا ہے ۔''

ضرورة واضطرار کا حکم
ضرورت و اضطرار فقہاے کرام کے نزدیک ایک ہی ہیں ۔یعنی ممنوع چیز کا استعمال نہ کرے تو ہلاک ہوجائے گا یا ہلاکت کے قریب یا ضروریاتِ خمسہ میں کوئی فوت ہوجائے گا۔ البتہ حالت ِضرورت اور اِضطرار میں حرام وممنوع چیز وں کا استعمال مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہوجاتا ہے :

  • حرام چیز کے استعمال نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ ضروریاتِ خمسہ میں سے کسی ایک کے ضیاع کا خطرہ ہو۔
  • یہ خطرہ موہوم نہ ہوبلکہ یقین و ظن غالب کے درجہ میں ہو۔
  • اس حرام چیز کے استعمال سے ضروریاتِ خمسہ میں سے پیش آمدہ ضرورت کے پورا ہونے کا یقین یاظن غالب ہو۔
  • حرام و ممنوع چیزکے علاوہ اس ضرورت کو پوری کرنے والی کوئی حلال چیز میسرنہ ہو۔
  • اس حرام چیز کو صرف اس قدر استعمال کیا جائے جس سے ضرورت پوری ہوجائے۔28


حاجت کا حکم
حاجت کے معنی یہ ہیں کہ اگر ممنوع چیز استعمال نہ کرے تو ضروریات ِخمسہ (دین، نفس، عقل، نسب اورمال) کے ضیاع کا خطرہ تو نہیں ، لیکن مشقت اور حرج ضرور ہوگا۔اور کسی نا جائز چیز کے استعمال سے مشقت دور ہوسکتی ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ اس سے کسی صریح حکم کی مخالفت نہ ہو اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ کسی حکم کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہ ہو اور اس کے ناجائز ہونے میں علما کا اختلاف ہو، ایسی صورت میں اگرچہ جائزہونے کا قول مرجوح ہو، لیکن حاجت کے وقت اس پر فتویٰ دیا جاسکتا ہے، مثلاً تصویر کی اجازت پاسپورٹ کے لیے، شناختی کارڈ کے لیے یا مجرم کی شناخت وتعین کے لیے۔ 29

مذکورہ بالا تصورات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نشریات کے لیے ٹیلی ویژن کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے،کیونکہ ٹیلی ویژن کی وضع خاص صرف لہوو لعب ہی کے لیے نہیں بلکہ دوسری کارآمد اور مفید باتوں کے لیے بھی ہے یعنی ٹیلی ویژن سے ممانعت نہی لعینہٖ کی بجائے نہی لغیرہ ہے ۔ لہٰذااسلامی نشریات کے لیے محدود شرعی چینل کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے جیسا کہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ {وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ...سورة لقمان}(اور ایک وہ لوگ ہیں کہ خریدارہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بجالائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹہرائیں اس کو ہنسی) کے ضمن میں رقمطراز ہیں کہ ''جس سامان کو جائز اور ناجائز دونوں طرح کے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے، اسکی تجارت جائز ہے۔ ''30

لہٰذا درج ذیل شرائط کے ساتھ اسلامی ٹی وی چینل قائم کرنے کے بارے میں مشاورت کی جانی چاہئے:

  • اس چینل پر فلم اور گانے پیش نہ کئے جاتے ہوں ۔
  • ترجمان اور خبر دینے والا مرد ہو۔
  • صرف جائز خبریں پیش کی جاتی ہوں ۔
  • ذی روح کی تصویر سے حتیٰ الامکان احتراز کیا جاتا ہو۔

تو پھر مسلمان اپنا علیحدہ ٹی وی چینل قائم کر سکتے ہیں اور ملی جماعتوں کے پروگراموں اور مجالس کو ملک و قوم تک پہنچانے کے لیے مذکورہ حدود میں رہتے ہوئے ٹی وی کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب


حوالہ جات
1. الموسوعة الفقھیة:12؍94، 93
2. المرقاة لحل المشکوة 8؍325
3. جو اهر الفقه 4؍ 62
4. صحیح بخاری5954،صحیح مسلم:2107
5. صحیح بخاری:5955
6. رقم :2107
7. صحیح بخاری:5949
8. درسِ ترمذی :5؍ 347، احسن الفتاویٰ :8؍ 425
9. تکملة فتح الملھم:4؍159، فتح الباري 10؍391 وحاشیة الدسوقي 2؍338 وغیرھا
10. المغني لابن قدامة الحنبلي:7؍6
11. الدسوقي:2؍338
12. المغني لابن قدامة الحنبلي:7؍7
13. الشافي: 4؍18،زکریا:2، الموسوعة الفقھیة 12؍110
14. درسِ ترمذی : 5؍ 350
15. المغنی : 7؍ 7
16. فتح الباری:10؍392
17. فتح الباری:10؍395
18. درّمختار: 2؍ 418
19. فتویٰ دارالعلوم کراچی: ج 24؍ص 17
20. الموسوعة الفقھیة: ج 12؍ص 93
21. درسِ ترمذی: ص 351، 352
22. تکملة فتح الملھم: 4؍167۔ 168
23. جواہر الفقہ: 3؍ 239
24. تیسیرالاصول: ص 107، اصول الشاشی
25. المصطلحات والألفاظ الفقھیة 2؍410
26. المصطحات والألفاظ الفقھیة: 1؍213
27. المصطلحات والألفاظ الفقھیة 1؍549
28. مستفاد فتاویٰ دارالعلوم کراچی: 15؍7؍1326ھ
29. فتاویٰ دارالعلوم کراچی: 15؍7؍1426ھ
30. معارف القرآن 7؍ 23