مسئلہ تصویر اور دورِ حاضر

مذاکرے کی ایک نشست میں حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب نے صدارتی خطاب فرمایا، لہٰذا انہوں نے تصویر کے بارے میں مختلف پہلوؤں پر زیادہ تر تبصرہ ہی کیا اور اس سلسلہ میں جو سوالات پیدا ہوئے تھے، ان کو نکھارنے کی کوشش کی۔ان کے خطاب کو تحریری شکل دیتے ہوئے ہم نے عنوانات قائم کر کے کوشش کی ہے کہ ایسے نکات واضح ہو جائیں جن کے بارے میں پہلی تقریروں میں بہت کچھ کہا جا چکا تھا، لہٰذا اس تقریر کو تبصرہ ہی سمجھا جائے۔ علاوہ ازیں جن فنی اُصولوں کی وضاحت ضروری تھی ان کا مختصر تعارف قوسین یا حواشی میں کرادیا گیا ہے۔ (مرتب)



احکامِ شرعیہ کی حکمتیں معلوم کرنا فقاہت ہے
دینِ اسلام کے احکامات کی گہری بصیرت و فہم اللہ سبحانہ و تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(مَن یُّرد اﷲ به خیرًا یفقِّهه في الدین)1
''جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ کرتے ہیں ، اس کو دین کی گہری سمجھ عطا کر دیتے ہیں ۔''

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک چیز کی شدیدحرمت ثابت ہوجانے کے بعد کسی مسلمان کی یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ یہ کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز پر لعنت کی ہے، میں اس کو جائز کرتا ہوں ۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو مذموم قرارد یتے اور جس پر لعنت فرماتے ہیں ، اس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہی سے اس بات کو سمجھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن وجوہ کی بنا پر اس شے پر لعنت فرمائی ہے یا کن وجوہ کی بنا پر اسے حرام قراردیا ہے، یہ تودین کی فقاہت ہے۔ اس لیے میں اس طرف بالخصوص آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہوں گاکہ تصویر میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے مشابہت کی جو وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے:
(أشد الناس عذابًا یوم القیامة الذین یضاهون بخلق اﷲ)2
''روزِ قیامت سخت ترین عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کے تخلیق سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔''

اہل علم نے حرمت تصویر کی عموماًدو حکمتیں بیان کی ہیں :
اللہ کی تخلیق سے مشابہت یا تصویر کی پوجا کرنے والے مشرکوں سے مشابہت،کیونکہ تصویر بنانے والوں سے روزِ قیامت مطالبہ کیا جائے گا

(أحیوا ما خلقتم)3
''جو تم نے بنایاہے، اسے زندہ کرو۔''

چونکہ شرک کی ابتدا حضرت نوح کی بعثت سے قبل قومِ نوح کے صالحین کی تصویروں سے ہی ہوئی تھی جو ہمیشہ کا خطرہ ہے، لہٰذا زندہ تصویریں شرک کا ذریعہ ہیں جسے بند ہونا چاہیے جیسا کہ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
''صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد۔ أما ودٌّ فکانت لکلب بدومة الجندَل وأما سُواع فکانت لہذیلٍ وأما یغوثُ فکانت لمراد ثم لبني غُطَیف بالجُرف عند سبـائٍ وأما یعوقُ فکانت لہمدان وأما نسرٌ فکانت لِحِمْیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما هلکوا أوحٰی الشیطان إلی قومهم أن أنصِبوا إلی مجَالِسهم التي کانوا یجلسون أنصابًا وسمُّوها بأَسمائهم ففعلوا فلم تُعبدْ حتی إذا هلك اُولئك وتنسَّخ العلم عُبِدَت''4
''ابن عباسؓ نے فرمایا:نوح کی قوم میں جو بت پوجے جاتے تھے، ابھی تک وہی عرب لوگوں میں موجود تھے(جس کی تفصیل یوں ہے) وُدّ 'کلب' قبیلے والوں کا بت تھا جو دومة الجندلمیں آباد ہے اور سُواع 'ہذیل' قبیلے کا تھا اور یغوث'مراد' قبیلے کا بت تھا پھر بنی غطیف جو سبا بستی کے نزدیک مقام جرف میں آباد ہیں کا بت بن گیا اور یعوق 'ہمدان' قبیلے کا بت تھا، اسی طرح نسر'حمیر 'قوم کا بت تھاجو ذی الکلاع (بادشاہ) کی اولاد میں سے ہیں ۔ یہ سب چند نیک پارسا شخصوں کے نام ہیں جو نوح کی قوم میں تھے۔ جب وہ مر گئے تو شیطان نے ان کی قوم والوں کے دل میں یہ ڈالا کہ جن مقاموں میں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے، وہاں ان کے نام کے بت بنا کر کھڑے کر دو (تا کہ ان کی یادگار رہیں )۔ اُنہوں نے ا یسا ہی کیا( کہ صرف یادگار کے لیے بت رکھے)وہ پوجے نہ جاتے تھے۔ جب یہ یادگار بنانے والے بھی گذر گئے اور بعد والوں کو یہ شعور نہ رہا کہ ان بتوں کو صرف یادگار کے لیے بنایا تھا توان کو پوجنے لگے۔''

پہلی حکمت کے بارے میں اِجمال ہونے کی بنا پر مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید تخلیق الٰہی سے مشابہت ہی کوئی بڑا جرم ہے، حالانکہ غور فرمائیے کہ تصویر کے علاوہ شریعت میں کہیں بھی تخلیقِ الٰہی سے مشابہت کو گناہ نہیں قرار دیا گیا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہی کام بطورِ معجزہ کرتے رہے۔ علاج ومعالجہ کے ذریعہ صحت کا حصول بھی تخلیق الٰہی سے مشابہت ہی ہے، لیکن اس کی ممانعت کے بجائے حوصلہ افزائی ہے۔ لہٰذا حرمت وممانعت میں اصل نکتہ تخلیق الٰہی سے مشابہت نہیں کیونکہ اللہ کی ہر مخلوق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تخلیق روح کے بعد جیتا جاگتا انسان بنتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے سامنے بے بس ہی ہوتا ہے۔یہی بے بسی ربّ العالمین کا شریک ِکار ہونے کی نفی کرتی ہے۔بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اسے کسی درجہ میں بھی خالق کائنات کی طرح معبود ہونے میں شریک نہیں بنایا جا سکتا۔ لہٰذا اوّل نکتہ کا مقصود بھی گویا شرک کی ہی مذمت ہے۔اس طرح حرمت کی دوسری وجہ شرک کا سدباب کرنے کے لئے ہے۔حاصل یہ ہے کہ دونوں وجوہ دراصل(1) شرک سے مشابہت اور(2) شرک کا دروازہ بند کرنے پر مشتمل ہیں لہٰذا اس نکتہ پر دونوں حکمتوں کا اجتماع ہو کر 'امتناعِ شرک' ہی تصویر کی حرمت کی بنیادی وجہ قرار پاتا ہے۔

سادہ الفاظ میں مذکورہ دونوں حکمتیں نتیجتاً ایک ہی ہیں ، کیونکہ جب تصویر شرک کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وسیلہ شرک کا حکم ممانعت ِشرک(مقصد ِشرعی) ہی ہوا،اسی بنا پر اسے شرک سے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔لہٰذا وسیلہ شرک اور تخلیق الٰہی سے مشابہت شرک ہی ہے، اور اسی پر قیامت کے روز نفخ روح کا چیلنج درپیش ہو گا۔

صرف بے جان چیزوں کی تصاویر جائز ہیں
بعض متجددین نے یہ الزامی اعتراض کیاہے کہ بے جان اشیا کی تصویر یا مجسمہ بنانے میں بھی اللہ تعالیٰ سے مشابہت لازم آتی ہے، لہٰذا اس بنا پر بھی بے جان اشیا کی تخلیق و تصویر شرعاً حرام ہونی چاہیے جب کہ وہ بالاتفاق جائز ہے۔

لیکن یہ الزام درست نہیں ،کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان اس بات کو نکھاردیتا ہے کہ تخلیق الٰہی سے آپؐ کی ہر شے میں مشابہت مراد نہیں تھی بلکہ اس سے روح والی اشیا میں تخلیق وتصویر کی مماثلت مراد تھی جیسا کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے ، فرمایا:
(من صوَّر صورة في الدنیا کُلِّف یوم القیامة أن ینفخ فیھا الروح ولیس بنافخ)5
''دنیا کے اندر کوئی شخص تصویر بنائے تو قیامت کے دن اسے اس بات کی ذمہ داری اُٹھانا ہوگی کہ وہ اس مںق روح پھونکے، حالانکہ وہ یہ کام نہیں کرسکے گا۔''

اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی جس مشابہت سے منع کیا ہے، وہ عام مشابہت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوقات کی تصویریں بنانا ہیں جن میں روح پھونک کر اللہ تعالیٰ نے زندگی پیدا کی ہے۔ اگر ان چیزوں کے بارے میں ایسی صورتِ حال پیش آئے کہ ان کی تصویر بنا کر یا ان کے عکس کو فوٹو گرافی کے ذریعہ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات انتہائی مذمت کے قابل ہے۔

واضح رہے کہ بے جان اشیا کی تصویر بنانا جائز ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباسؓ نے ایک پیشہ ور مصور کو مشورہ دیاتھا کہ اگر تجھے تصویریں بنانی ہی ہیں تو بے جان اشیا کی تصاویر بنا لے:
عن سعید بن أبي الحسن قال جاء رجل إلی ابن عباس فقال یا ابن عباس إني رجل أصوّر هذہ الصور واصنع هذہ الصور فافتني فیها قال اُدن مني فدنا منه حتی وضع یدہ علی رأسه قال: أنبئك بما سمعت من رسول اﷲ یقول: (کل مصور في النار یجعل له بکل صورة صوَّرها نفس تعذبه في جهنم) فإن کنت لابد فاعلاً فاجعل الشجر وما لا نفس له۔ 6
''سعید بن ابی الحسن رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اپنا مسئلہ پیش کیا کہ میں ایسی (جاندار) تصویریں بناتا ہوں اور یہ میرا پیشہ ہے۔ مجھے اس بارے میں فتویٰ دیجئے تو ابن عباسؓ نے اسے قریب کر کے اس کے سر پرہاتھ رکھا اور کہا کہ میں تمہیں اس بات کی خبر دیتا ہوں جو میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، کہ آپ نے فرمایا:ہر تصویر بنانے والا آگ میں جائے گا، اس کی ہر تصویر کو ایک زندہ جان بنا کر اسکے ذریعہ جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔اگر تو یہ پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو درخت اور بے جان اشیا کی تصویریں بنا۔''

چنانچہ یہ کہناکہ تخلیق کی مشابہت حرمت ِتصویر کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے کیونکہ یہ وجہ بے جان اشیا کی تصویر میں بھی پائی جا تی ہے جبکہ وہاں حرمت کا حکم موجود نہیں ہے اور جاندار اشیاء کو مخصوص کرنا بلا وجہ ہے بلکہ تصویر کی حرمت کی حکمت کچھ اور ہے (مثلاً شرک یا فحاشی وغیرہ) تو ہم کہتے ہیں کہ شرک اور فحاشی تو مطلقاً حرام ہیں خواہ تصویر کی صورت ہو یا کوئی دوسری جب کہ خاص طور پر تصویر کی حرمت بھی ہے جو جاندار کی تصاویر کے بارے میں ہے، لہٰذا وہ حکمت اللہ کی تخلیق خاص سے مشابہت بھی ہے۔
البتہ پہلے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ تخلیق الٰہی کی مشابہت سے مراد بھی فعل تخلیق کے بجائے مخلوق کو اللہ کے مشابہ قرار دینا کہ اس کی عبادت کا خطرہ ہے جس کی بنا پر تصویر کو حرام قرار دے کر شرک کے مفسدہ کا دروازہ بند کردیا گیا ہے۔

تصویر بنانے اور تصویر رکھنے کے حکم میں فرق
شرع میں جہاں تک تصویر کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی بات احترام کی ہے، یہ بھی شرک کی حوصلہ افزائی ہے۔تصویر بنانے اور تصویر رکھنے کافرق ہے کہ تصویر بنانے کی حرمت تومطلق ہے جب کہ تصویر کا وجودذلت کی بعض صورتوں میں گوارا ہے۔ چنانچہ حرمت کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں جن کی حکمت کی فنی تشریح تو میں بعد میں کروں گا۔ ان شاء اللہ، البتہ تصویر کے وجود کے بارے میں کہ جس مقام پر تصویر موجودہو تو اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں ؟ ا س کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد میں یوں ہے۔حدیث میں آتا ہے:
عن أبي هریرة قال: استأذن جبریل علیه السلام علی النبي ﷺ فقال: (اُدخل فقال: کیف أدخل وفي بیتك ستر في تصاویر فإما أن تقطع رؤسها أو تجعل بساطًا یوطأ فـإنا معشر الملائکة لا ندخل بیتًا فیه تصاویر 7
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (گھر) پاس آنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا داخل ہو جائیں ۔جبریل کہنے لگے: میں گھر میں کس طرح داخل ہو سکتا ہوں ؟ یہاں تو پردہ لٹک رہا ہے جس میں تصویریں بنی ہیں یا تو ان کے سر کاٹ ڈالیے اور یا پھر اُنہیں بچھونا بنا دیں تا کہ یہ (تصویریں )روندی جائیں ،کیونکہ ہم فرشتے ایسے گھر میں جہاں تصویریں ہوں ، داخل نہیں ہوتے۔''

تصویر نحوست ہے، اس لیے اس کا احترام نہیں ہونا چاہیے
معلوم ہواکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر رکھنے کے سلسلے میں جو بات فرمائی، وہ مشروط ہے۔ یعنی جس گھر میں ایسی تصویر ہوجو عزت کی جگہ پر ہو، اس تصویر کی موجودگی میں رحمت کے فرشتے گھر کے اندر داخل نہیں ہوتے۔گویا تصویر ایک نحوست والی چیز ہے، اسی طرح کتے میں اللہ کی تخلیق ہونے کے اعتبار سے نحوست نہیں ہے، البتہ گھر میں اس کی موجودگی کی نحوست فرمانِ رسول کے مطابق لابدی ہے۔ چنانچہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا موجود ہوحتیٰکہ ایک انسان جب جنبی ہوجاتا ہے تو اس وقت اس کے ساتھ بھی نحوست لاحق ہوجاتی ہے،اسی لیے جنبی کی موجودگی میں بھی رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

خلاصہ یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے اس کمرہ یا گھرمیں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یاجنبی انسان یاکتا موجود ہو۔ کیونکہ تصویر کا وجود ہی نحوست ہے، البتہ تصویر کی حد تک یہ نحوست اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب اسے ذلیل جگہ رکھا جائے گویاذلیل ہونے کی صورت میں تصویر کا وجودگوارا ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ تصویر کی یہ حرمت وممانعت فوٹوگرافی والی تصویر کو بھی شامل ہے، او راس سلسلے میں بعض جدید دانشوروں کا موقف درست نہیں ۔

ہاتھ سے تصویر بنانے اور فوٹوگرافی میں کوئی فرق نہیں !
ہاتھ سے تصویر بنانے اور فوٹو گرافی میں جن لوگوں نے فرق کیا ہے، کیا واقعتا ان دونوں کے حکم میں کوئی شرعی فرق ہے یا نہیں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانات کے سطحی مفہوم میں جو اس دور کے تمدن کے مطابق تھا، ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اور مجسّمے ہی تھے کیونکہ آپؐ کے دور میں لفظ تصویر کا واحد مصداق یہی تھا۔ کیمرے اور ویڈیو کی تصویر تو بعد کے ادوار کی ایجادات ہیں جو دورِ حاضر کا تمدنی ارتقا ہے، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظ تصویر سے حکم ربانی کا مقصود کیا ہے؟ یا دوسرے الفاظ میں تصویر کی حرمت والی نصوص کا مفہوم کیا ہے؟ بعض متجددین کا خیال ہے کہ آپؐ نے تصویر کا جو لفظ ارشاد فرمایا تھا ، اس سے آپؐ کامقصود اپنے زمانے کی مروجہ تصویر کی مختلف شکلیں تھیں جو ہاتھ ہی سے بنائی جاتی تھیں لیکن یہ درست نہیں ۔

میں تمدنی ارتقا کے اس مسئلہ کواس لیے طول نہیں دینا چاہتا کہ مولانا محمد رمضان سلفی اور دیگر حضرات نے یہ بات کھول کر بیان کردی ہے کہ یہ بات ہمارے کہنے کی نہیں بلکہ یہ ان سے پوچھو جن کی زبان عربی ہے کہ وہ اس کو' تصویر' کہتے ہیں یا کچھ اور۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ کیا عربی زبان میں فوٹوگرافی کو' تصویر' نہیں کہتے... ؟(i)

عکس اور تصویر کا فرق
بعض لوگ فوٹوگرافی کو عکس قرار دے کر اس کا جواز نکالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ عکس اور تصویر میں فرق ہے۔ عکس کے اندراگرچہ پہلی نظر میں شباہت ایک جیسی معلوم ہوتی ہے،لیکن درحقیقت اعضا دائیں بائیں اُلٹ جاتے ہیں ، جبکہ تصویر میں دایاں بایاں اسی طرح رہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عکس اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اصل سامنے موجود ہوچنانچہ عکس جب ثبت ہو جاتا ہے تو وہ تصویر بن جاتی ہے۔اس بنا پر یہ کہنا کہ تصویر ہاتھ سے بنائی جائے تو وہ حرام ہے اور جو فوٹوگرافی کی صورت میں کھینچ لی جائے وہ حلال ہے، درست نہیں ہے۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ تصویر سازی میں جدید آلات کا استعمال تو تمدنی ارتقا کا مسئلہ ہے،بلکہ اگر اتنی اچھی تصویر بنائی جائے کہ اس کے اندر جسمانی کے علاوہ نفسیاتی آثاربھی نکھرتے چلے جائیں تویہ انسانی ترقی کی مہارت ہے۔چنانچہ بعض اوقات اتنی اچھی تصویر بنائی جاتی ہے کہ اس کے اندر جذبات کا اظہار بھی ہو جاتا ہے تو یہ سب تمدنی ارتقا ٭ کی قبیل سے ہے،کیونکہ اچھی تصویرسے اسی طرح جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جس طرح شاعری سے جذبات کی لفاظی ہوتی ہے۔حاصل یہ ہے کہ تمدنی ارتقا کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے اس سے تصویر کی شرعی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

شرعی نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر اور مصور ہر دو کے لئے جو وعید سنائی ہے اس کا مقصود نتیجتاً ایسانقش ہے جو تصویر کی صورت میں تیار ہوتا ہے۔تصویر کس چیز سے بنتی ہے اورکس طرح بنتی ہے ، اس کی شرع میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے؟اسی طرح جاندار کی ہر طرح کی تصویر حرام ہے خواہ وہ کپڑا، پتھر، لکڑی،سلور یا پلاسٹک پر ہو یا کسی اور ذریعہ سے حاصل ہو،کیونکہ تصویرتو ایک شکل ہے جب وہ کہںم قرار پاجاتی ہے تو وہ تصویر بن جاتی ہے ، البتہ جب وہ اصل کے ساتھ قائم ہوتی ہے تو اسے 'عکس' کہتے ہیں ۔ چنانچہ پانی میں ہو تو عکس ہے، آئینہ میں ہو تو عکس ہے، لیکن اگر کہیں شکل قرار پکڑ جائے تو وہ تصویر ہے۔ اس بنا پر ہر قسم کی تصویر 'تصویر' ہی ہے اورشرع میں اس کی حرمت بالکل واضح ہے۔

مسئلہ تصویر اور ہماری مداہنت
ہمارے ہاں یہ صورت قابل تشویش ہے کہ یوں تو اکابر علما تصویر کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں لیکن عملاً اس معاملہ میں مداہنت دکھاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عام علما اور عوام بھی حرام وحلال کی تمیز کے بغیر تصویر کشی کررہے ہیں ۔اس کی ایک وجہ تو وہ شبہات ہیں جن کا میں ذکر کرچکا ہوں ۔ان شبہات کا خاطر خواہ جواب سامنے نہ آنے پر مسئلہ تصویر کھیل بن گیا ہے بلکہ اب موبائل فونوں اور کیمروں کی کثرت نے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں رہنے دی۔

حرمت ِتصویر کی حکمت
مداہنت کی ایک بڑی وجہ تصویر کشی کے بعض پہلو اور حرمت ِتصویر کی حکمت میں بعض اختلافات بھی ہیں ۔تصویر کشی کے وہ پہلو جن میں تمدنی ارتقا اور عکس وتصویر کا فرق تھا، اس کی تو وضاحت ہو چکی، البتہ حرمت ِتصویر کی حکمت ایک خالص اُصولی مسئلہ ہے۔میں کوشش کروں گا کہ اسے آسان صورت میں پیش کر سکوں ۔ابتدا میں احکامِ شرعیہ کی توجیہ وتعلیل کو ہم نے فقاہت قرار دیا تھا لیکن یہ توجیہ وتعلیل فنی طور پر قیاس میں ہوتی ہے اور سد ذریعہ میں بھی۔

 پہلے ہم قیاس اور سد ذریعہ کی تعریف کرتے ہیں :
قیاس :کتاب وسنت میں کسی شرعی حکم کی توجیہ کی بنا پر مذکورہ حکم کو دیگر مماثل اشیا پر بھی لاگو کرنا۔ روزمرہ معاملات میں اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ ایک کمرہ میں چند کھڑکیاں ہیں ،گھر کا مالک خادم سے کہتا ہے کہ کھڑکی بند کردو کیونکہ کمرہ میں دھوپ آرہی ہے، چنانچہ ملازم نے ایک کھڑکی کے ساتھ دوسری کھڑکیاں بھی بند کر دیں کیونکہ ان سے بھی دھوپ آرہی تھی۔گویا قیاس میں حکم لفظ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وجہ معلوم کر کے اس سے مربوط کیا جاتا ہے، اسی لیے اس وجہ کو 'مناط'(کھونٹی)کہتے ہیں کیونکہ وہ حکم اس سے منسلک ہوتا ہے۔

سد ِ ذریعہ:لغوی معنی: 'وسیلہ میں رکاوٹ ڈالنا '۔ اس میں بھی کسی حکم کی تعمیل میں توجیہ وتعلیل پر غور کیا جاتا ہے کہ کیا کوئی نقصان یا شرعی مقاصد تو متاثر نہیں ہو رہے۔اگر شرعی طورپر کوئی خرابی لازم آتی ہے تو تعمیل سے ہاتھ روک لیا جاتا ہے ۔اس کی سادہ مثال یوں ہے کہ عموماً تشدد کے خوف سے اسلحہ کی نمائش سے منع کر دیا جاتا ہے، حالانکہ اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنا ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی شرعی طور پر سرکاری ملازمین کو رشوت کے خوف سے تحائف وصول کرنے سے ہاتھ روک لینا چاہیے۔ سد ذریعہ میں شرعی حکم کا تعلق حکمت سے ہوتا ہے اور وہ حکمت اصل مسئلہ کی بجائے اس کے وسیلے اور ذریعے کی رکاوٹ سے حاصل ہوتی ہے۔

دونوں میں فرق: قیاس اور سدذریعہ دونوں کا تعلق اگرچہ شرعی توجیہ وتعلیل سے ہے، تاہم چند باتوں میں فرق ہے ، مثلاً
قیاس میں علت کی بنا پر حکم میں توسع پیدا ہوتا ہے جبکہ سدذرائع میں وسعت ِحکم میں رکاوٹ ڈال کر اسے محدود کیا جاتا ہے ۔مثلاً اوپر کی مثالوں میں قیاس کی صورت ایک کھڑکی کے ساتھ دوسری کھڑکیوں کوبھی کھولنا میں شامل کرلیا گیا، جبکہ سدذرائع میں اسلحہ کی نمائش اور تحائف جیسے جائز معاملات کو بھی محدود کر دیاجاتا ہے۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ قیاس مخصوص نصوص کی بنا پر شرعی احکام کا پھیلاؤ ہوتاہے جبکہ سدذریعہ کا طریقہ شرع کے عمومی مقاصد کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔مثلاً عمومی امن وامان کے لیے ہتھیار کی نمائش روک دی جاتی ہے اور عمومی رشوت کا دروازہ بند کرنے کے لیے تحائف کا لین دین بھی رشوت قرار پاتا ہے۔

تیسرا فرق یہ ہے کہ قیاس میں علت وحکمت مطرد یعنی ہمیشہ جاری اور ساری رہتی ہے، مثلاً مسافر کے لیے ہمیشہ روزہ میں رخصت ہے مگر سدذریعہ میں حکمت اہمیت ِمقاصد کے تحت بدلتی رہتی ہے بلکہ بسا اوقات راجح مصلحت کے تحت ناجائز کام بھی جائز ہو جاتے ہیں جیسا کہ حق تلفی اور ظلم کو دفع کرنے کے لیے رشوت دینے کی اجازت ہے۔اسی طرح مسلمان قیدیوں کو دشمن سے چھڑانے کے لیے فدیہ دینا جائز ہو جاتا ہے۔اسے فسخ ذریعہ کہتے ہیں ۔

سدذریعہ کے ان امتیازات کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ تصویر کا مسئلہ سدذرائع کے باب سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ تصویر میں اکابر علماء فتویٰ کے اختلافات کے باوجود مقاصد کی اہمیت کی بات بھی کرتے ہیں ۔مثلاً شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ ،علامہ البانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ محمد صالح فوزان بچوں کو کھیل یا لڑکیوں کی تربیت کے لیے گڑیوں کی اجازت دیتے ہیں ۔ اسی طرح پاسپورٹ،شناختی کارڈ وغیرہ کی بھی اہمیت کے پیش نظر تصویر کی رخصت دیتے ہیں ۔ہم یہاں ان سب سے زیادہ راسخ بزرگ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ کی ایک عربی عبارت کا حوالہ دیتے ہیں :
وقبل أن أنهی هذہ الکلمة لایفوتني أن ألفت النظر إلی أننا وإن کنا نذهب إلی تحریم الصُّور بنوعیه جازمین بذلك فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیه فائدة متحققة بدون أن یقترن بها ضرر ما، ولا تتیسر هذہ الفائدة بطریق أصله مباح،مثل التصویر الذي یحتاج إلیه الطبّ وفي الجغرافیا وفي الاستعانة علی اصطیاد المجرمین والتحذیر منهم ونحو ذلك فإنه جائز بل قد یکون بعضه واجبًا في بعض الأحیان والدلیل علی ذلك حدیثان ... الخ 8
''(مسئلہ تصویرپر)اپنی گفتگو ختم کرنے سے قبل میں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ہماری رائے تصویر کی حتمی طور پر حرمت کی ہے۔ تاہم اس بارے میں ہم کوئی مانع نہیں پاتے کہ اگر تصویر میں کسی نقصان کے خطرہ کے بغیر حقیقی فائدہ موجود ہواور یہ فائدہ کسی جائز طریق سے حاصل نہ سکتا ہو، تو تصویر کی گنجائش ہے۔ علم طب، جغرافیائی ضرورتیں ، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کی غلط کاریوں سے بچاؤ وغیرہ جیسے مقاصد تصویر کشی کا جواز پیدا کرتے ہیں بلکہ بعض خاص صورتوں میں تصویر کشی واجب بھی ہو جاتی ہے۔اس پر درج ذیل دو حدیثیں دلیل ہیں :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (اُمّ المومنین)گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں توجناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کھیلنے والی سہیلیاں بلا لاتے تھے۔ 9

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے طبقات ابن سعد7؍66کی ایک دوسری صحیح روایت ہے کہ کھیل کے لیے ان کے پاس گڑیاں تھیں اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے سے پردہ کر کے اوٹ میں ہو جاتے تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنا کھیل جاری رکھیں ۔(یہ لفظ ابو عوانہ کے ہیں )

آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث بھی آرہی ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کے پاس گھوڑا بھی تھا جس کے چیتھڑوں کے بنے ہوئے دوپر تھے۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں : ''اس حدیث سے گڑیوں کی تصویریں بنانا تا کہ لڑکیاں ان سے کھیلیں ، کے جواز کی دلیل حاصل کی جاتی ہے اور یہ تصویروں کی ممانعت والے حکم سے الگ ہے۔ اسی پر قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ نے اطمینان ظاہر کیا ہے اور جمہور علماء کا یہی موقف نقل کیا ہے کہ جمہور نے لڑکیوں کی لڑکپن ہی سے گھریلو اور اولاد کی تربیت کی غرض سے گڑیوں سے کھیل کی اجازت دی ہے۔''

ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ نبیؐ نے عاشوراء کی صبح مدینہ منورہ کے اردگرد بستیوں میں پیغام بھیجا کہ جوکوئی ناشتہ کر چکا ہے وہ تو سارادن بے روزہ رہے لیکن جو نہار منہ ہے وہ روزہ رکھ لے۔حضرت ربیعؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم اس دن کے بعد سے ہمیشہ خود روزہ رکھتیں اور ہمارے بچے بھی روزہ سے ہوتے اور جب بچوں کو لے کر ہم مسجد میں جاتیں تو روئی سے ان بچوں کو کھلونے بنا دیتیں ۔ یہ کھلونے بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ جب کوئی بچہ کھانا مانگتے مانگتے روپڑتاتو ہم یہ کھلونے دل بہلانے کو اسے دے دیتیں یہاں تک افطاری کا وقت ہو جاتا۔''

ایک روایت میں یہ ہے: بچے جب ہم سے کھانے کو مانگتے تو انہیں مشغول کرنے کے لیے یہ کھلونے دے دیتیں تاکہ وہ بچے بھی روزہ مکمل کر لیں ۔ 10


ہم نے جن اکابر اہل علم کا ذکر کیا ہے، ان کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ارشادات کی بنا پر تصویر فی نفسہٖ حرام ہے ،لیکن بعض اہم ضرورتوں کی بنا پر چند صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جیسا کہ گڑیوں اور پاسپورٹ وغیرہ کی اہمیت کے پیش نظر تصویر کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ بعض متجددین کے سر پر' فنونِ لطیفہ'کا جنون سوار ہے اور وہ تصویر اور رقص وسرود کو بنیادی طور پر ایک مستحسن اور مطلوب شرعی قرار دیتے ہیں ۔اگرچہ حلقہ اشراق نے تصویر کے موضوع پر جو کتابچہ 'اشراق کے خاص نمبر برتصویر' کے بعد شائع کیا ہے، اس میں سدذریعہ کا نکتہ ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے یہ خرابی، خاص علاقے اور خاص دور تک ہی محدود رکھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو دائمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ 11

جبکہ ہماری رائے اس سے قطعی مختلف ہے، ہم تصویر کی اصلاً حرمت کے قائل ہیں البتہ اس کی و جۂ حرمت سدذریعہ ہی کو قرار دیتے ہیں ،کیونکہ سد ذریعہ بسا اَوقات حرام ہونے کے باوجود اہم مقاصد کے پیش نظر جائز ہو جاتا ہے۔ٹیلی ویژن اور اس جیسے دیگر الیکڑانک میڈیا پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے اعلیٰ شرعی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم احترام کیے بغیر تصویر کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں ۔

سد ذریعہ کا باب مقاصد ِشریعت کی قبیل سے ہے اور قواعد فقہیہ کی صورت میں انہی مقاصد شریعت کا انضباط ہوتاہے لہٰذا اسی روحِ شریعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے الضرورات تقدر بقدرہا جیسی پابندیوں کے ساتھ ہم الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔اوراگر ذریعہ غیر اہم ہو تو حکم مکروہ ہو گا ۔اسی طرح حالات وواقعات کے تناظر میں ذرائع اور وسائل کی اہمیت بھی بدل سکتی ہے۔تصویر کی دورِ حاضر میں یہی صورت ہے۔ شرعی مقاصد کے لیے اگر ذرائع ابلاغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار دیکھا جائے تو تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کی ممانعت کے مفاسد اس کے مقابلے میں کمزور نظر آتے ہیں ، اس بنا پرتصویر کو چند شروط کے ساتھ الیکڑانک میڈیا پر گوارا کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔

بعض لوگ اضطراراً تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو جائزقرار دیتے ہیں ، جبکہ اضطرار اور حاجت ہر دو کے حوالے سے ہمیں انتہائی رویہ سے بچنا چاہئے۔ شدید ضرورت تو وہ ہوتی ہے جس کو شرع میں اضطرار کہا جاتا ہے اور ایک عام حاجت ہوتی ہے جس میں نفع ونقصان کی مصلحت راجح پیش نظر ہوتی ہے،چنانچہ جہاں نفع ونقصان کا تقابل کیاجاتا ہے، اسے اضطرار نہیں کہتے۔

جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ سد ذریعہ کا تعلق مقاصد ِشریعت سے ہے اور عام طور پر مقاصد ِشریعت قواعد ِفقہیہ سے منضبط کیے جاتے ہیں ۔اسلئے میں قواعد فقہیہ (Legal Maxims) سے مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔مثلاً قواعد فقہیہ ہیں : ''الضرورات تبیح المحظورات''، ''الضرورات تقدر بقدرها'' یا ''الحاجات تقدر بقدرها'' وغیر ہ۔ یاد رہے کہ قواعد فقہیہ کبھی بنیادی دلیل کے طور پر نہیں آتے بلکہ شریعت کا مزاج بتا تے ہیں ۔ پھر شریعت کی اس روح کا بھی ہمیں شرع کی عمومی تعلیمات سے یاخود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتاہے۔چنانچہ تصویر کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صریح حرمت بیان فرما رہے ہیں کہ سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گاجو تصاویر بنانے والے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے وجود کے بارے میں شرع اتنی حساس ہے کہ اُس مقام پر رحمت کافرشتہ داخل نہیں ہوتا لیکن یہی تصویر اگر پیروں میں روندی جارہی ہو تو فرشتہ داخل ہو جاتا ہے اور وہی تصویر اگر بچیوں کی تربیت کے لیے حاجت بن جائے تو اس کی بنا پر گھر میں گڑیاں وغیرہ رکھی جا سکتی ہیں اور بچوں کو کھلونے بناکر بھی دیے جا سکتے ہیں ، جیسا کہ نبی کے گھر میں حضرت عائشہؓ کی گھڑیوں میں پروں والا گھوڑابھی موجود تھا ۔ سنن ابوداود میں حدیث موجود ہے:
عن عائشة قالت: قدم رسول اﷲ ﷺ من غزوة تبوك أو خیبر وفي سهوتها ستر،فهبَّت ریح فکشفت ناحیة الستر عن بنات لعائشة لُعَب فقال: (ما هذا یا عائشة؟) قالت: بناتي! ورأی بینهن فرسًا له جناحان من رقاع،فقال: (ما هذا الذی أرٰی وسطهن؟) قالت: فرس،قال:(وما هذا الذي علیه؟)قالت:جناحان،قال:( فرس له جناحان؟)قالت: أما سمعت: أن لسلیمان خیلاً لها أجنحة؟ قالت: فضحك حتی رأیت نواجذہ۔
''امّ المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف الائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اُٹھا دی، تب سامنے میرے کھلونے اورگڑیاں نظر آئے۔آپؐ نے پوچھا: عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ میری گڑیاں ہیں ۔آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔آپ نے پوچھا:میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔آپ نے پوچھا: اور اس کے ا وپر کیا ہے؟ میں نے کہا: اس کے دو پر ہیں ۔آپؐ نے کہا: کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں ؟ عائشہ ؓ نے کہا: آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑے کے پر تھے؟ کہتی ہیں : چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں ۔''12

کیا تصویر فی نفسہٖ حرام ہے یا اس کی حرمت خارجی وجوہ پر موقوف ہے؟
اس بنا پر میں مسئلہ تصویر کو قیاسی علت کی بجائے سدذرائع کی حکمت کا ایک مسئلہ سمجھتا ہوں چونکہ سد ِذرائع کے اندر اُصول یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ ذریعہ کتنا طاقتور ہے؟یعنی شرعی مصلحت کا تقابل کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ممنوع ذرائع ہیں مثلاً شرک اور فحاشی وغیرہ تو یہ بذاتہ حرام ہیں ، تصویر اگر نہ بھی ہو تب بھی حرام ہیں ، البتہ تصویر کی ذاتی حرمت کے بارے نبی کریمؐ کے واضح ارشادات کی موجودگی میں یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ تصویر کو اصلاً مباح قرار دیا جائے۔(ii)

حدیث ِرسولؐ کے بجائے اپنی توجیہ وتعلیل پر زیادہ اعتماد کرنے کی بنا پر غامدی صاحب کو شبہ لاحق ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تصویر فی نفسہٖ حرام نہیں بلکہ یہ مستحسن اور مطلوب امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال سے محبت کرتے ہیں اور انسان فنونِ لطیفہ کی صورت میں جو بھی لطافت دکھاتاہے تو وہ درحقیقت انسان کی روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی قوتوں کا اظہار ہوتا ہے اورانسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اپنی ان تمام قوتوں کو فروغ دے۔

یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قوتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب بھی دی ہے۔البتہ یہ ضرور ملحوظ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں منع کی ہیں ، ان کے اندر کوئی نہ کوئی شیطانی دخل ہوسکتا ہے۔ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ تصویر ہو یا رقص وسرود، یہ موسیقی کی طرح فنونِ لطیفہ میں شامل ہیں جو کسی انسان کی فنی مہارت ہے بلکہ موسیقی روح کی غذا ہے۔میں کہتا ہوں کہ کم از کم یہ غور کر لیتے کہ یہ روح کی غذا ہے یا بدروح کی غذا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کا ذوق جمال ہے ۔میں کہتا ہوں کہ ذوقِ جمال تو انسان کا یہ ہے کہ وہ ہر وقت عورت صنف ِنازک کو دیکھتا رہے ۔کسی عورت نے مرد سے کہا تھا کہ تومجھے کیوں گھور رہا ہے :

کسی کی جو صورت پہ ہوتے ہیں شیدا
آخر وہ رنج واَلم دیکھتے ہیں !

تو مرد نے آگے سے دانشورانہ جواب دیا تھا کہ تم مجھے کیوں ملامت کرتی ہو :

نہ تجھ سے غرض ہے نہ صورت پہ تیری
مصور کا ہم تو قلم دیکھتے ہیں


اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی تاویلیں کرنے والے تو بڑے ہیں ۔گلوکارہ نورجہاں بھی کہتی تھیکہ ہم سے زیادہ نیکی کا کام کون کرتا ہے؟ ہم توگانے اور اداکاری سے لوگوں کے مردہ دلوں کو زند ہ کرتے ہیں ، ان کے دل لگاتی ہیں ۔ اس طرح اگر یہ بات مان لی جائے تو دنیا کے تما م شیطانی کام جائز ہوجائیں گے۔پھر تونام نہاد فطرت کے بعض شیدائیوں کے بقول انسانوں کو ننگا پھرنا چاہیے اور لوگوں کو اپنا ننگا پن دکھانا بھیچاہیے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے دکھی انسانوں کو خوشی ملتی اور ان کاعلاج ہوتا ہے۔

غامدی صاحب کے شاگرد جناب محمد رفیع مفتی اپنی کتاب 'تصویر کا مسئلہ 'میں لکھتے ہیں :
''تصویر کے بارے میں قران کی آیات اور احادیث کی رہنمائی سے یہ بات تو کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مذہب کا تصویر پر اعتراض صرف اور صرف کسی دینی یا اخلاقی خرابی ہی کی بنا پر ہے، ورنہ وہ ان چیزوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ چنانچہ نقاشی، مصوری، فوٹوگرافی، مجسمہ سازی میں سے جو چیزبھی کسی دینی یا اخلاقی خرابی کا باعث بنے گی، وہ اس خاص حوالے سے ممنوع قرار پائے گی۔''13

چنانچہ محمدرفیع مفتی صاحب کے بقول کسی خاص علاقے اور کسی خاص دور میں یہ مسئلہ صرف اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب مجسمہ سازی شرک کی طرف رغبت کا ذریعہ بننے لگے تو اس وقت تصویر حرام ہوگی۔ اُنہوں نے تصویر سے پیدا ہونے والے شرک کو کسی خاص علاقے میں کسی خاص دور کا مسئلہ قرار دیا ہے جو ان کی بنیادی غلطی ہے۔دراصل تصویر کی بقا ہمیشہ ہی سے ایک خطرہ رہی ہے۔ جب پہلے پہل نیک لوگوں کی تصویریں بنائی گئی تھیں توان کو اس وقت قطعاً یہ خیال نہ تھا کہ یہ بعد میں معبود بنا لیے جائیں گے،معبود بنا نے والے تو بعد میں آتے ہیں ۔ آج ذرامحمد علی جناح یا علامہ اقبال کی تصویر کونیچے گرا کر تو دیکھئے یا کسی بڑے سیاسی لیڈر یاسرکاری عہدے دارہی کی تصویر کو نیچے گرا دیجئے تو ایک طوفان برپا ہوجائے گا۔ چنانچہ کسی تصویر کا اِکرام کرنے والے تو بعد میں آتے ہیں ، لہٰذا تصویر کی حرمت کی وجہ ہمیشہ سے موجود ہے۔

میری نظر میں شرک اور فحاشی کے علاوہ بھی تصویر کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ حرام ہو گی مثلاً ان کا دکھاواہورہا ہویاان کا غیرمعمولی اِکرام ہو۔ شرک اور فحاشی کے علاوہ تصویر میں یہ دوچیزیں بھی اگر پائی جائیں تو ایسی تصویریں حرام ہیں ۔

میڈیا کی اہمیت
فی الوقت ہمیں نبی ؐکے زمانہ کی طرح خدشۂ شرک اور بچیوں کی تربیت وغیرہ کا تقابلی مسئلہ درپیش ہے۔ اس دور میں 'انفارمیشن ٹیکنالوجی' (میڈیا)اپنے مقاصد کو پھیلانے کا بہت بڑے ذریعے بن گئے ہیں ۔آج الیکٹرانک میڈیا تو اتنا تیز جا رہا ہے کہ ہمارا پرنٹ میڈیا بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ لوگوں پر اس کے اثرات اس قدر بڑھتے جارہے ہیں کہ کل کلاں حدیث ِنبویؐ کی تدوین اور تحریر کے دلائل پیش کرنے کے بجائے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ مجموعہ حدیث کمپیوٹرائزڈ ہے یا نہیں ؟جبکہ تحریر وتدوین ہو یا کمپیوٹرائزیشن یہ توہر زمانے کے ذرائع ابلاغ اور ان کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں ۔ میں اس بات کی بھرپور حمایت کرتاہوں کہ ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ کے اندر جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کرناچاہیے اور ہمیں خود چینلز قائم کرنے چاہئیں ۔ شرع کے حوالے سے بعض علما کی یہ بات کہ دوسروں سے وقت خریدا جائے اور اپنا چینل قائم نہ کیا جائے، مجھے اس کا فرق سمجھ نہیں آیا۔ اسلئے کہ اگر آپ اپنا چینل قائم کرنا جائز سمجھتے ہیں تو وقت خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہت ضروری ہے کہ جدید ذرائع جو حصولِ خیر کا باعث بن سکتے ہیں ، ان کو قطعاً نہ چھوڑا جائے،بلکہ مزید مروّجہ ذرائع کو بھی پوری طرح فروغِ اسلام کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔

قابل احترام تصاویر سے ہرممکنہ احتراز
تصویر کے سلسلے میں یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ تصویر کا اِکرام بھی حرام یا کم ازکم مکروہ امر ضرور ہے۔ چنانچہ اس احتیاط کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ احترام والی تصویر کی گنجائش اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے جتنی شرع نے اجازت دی ہے۔ اگرچہ جدید الیکٹرانک میڈیا کے حوالہ سے ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ اس میں بعض اوقات تصویر ظاہری طور پر موجود نہیں ہوتی لہٰذا اور وہاں احترام کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تاہم اگر یہ تصاویر ظاہر ہو جائیں یا عام ظاہری تصاویر وغیرہ موجود ہوں تو اُن کو نمایاں جگہ پر رکھنے سے کلی احتراز کرنا چاہئے۔جہاں تک شناختی کارڈ یادیگر سرکاری ودفتری نوعیت کی تصویروں کا تعلق ہے تو ایسی تصاویر کو رکھنا ہماری نہیں بلکہ ہمارے قانون کی مجبوری ہے، اس لیے ان تصاویرسے دل میں نفرت ضرور ہونی چاہیے ۔

یہاں میں امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے ایک تنبیہ کی بات ذکر کرتا ہوں ۔ امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھے اور شیشہ دیکھ کر خوش ہو تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھنے کے بعد خوشی سے معلوم ہوا کہ اسے اس برائی سے دل میں بھی نفرت نہیں رہی ، اس لیے کہ نہی عن المنکرکا آخری درجہ تو برائی سے نفرت کا ہے اور اگر وہ بھی جاتی رہی توایمان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا۔غرض اگر کوئی خوشی سے تصویر کھنچواتا ہے تو پھر واقعی مذمت کا مستحق ٹھہرتاہے، لیکن اگر یہ تصویر اس لیے کھنچوائی جائے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اسلامی مقاصد کے لیے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھا سکیں یااپنا الیکٹرانک چینل قائم کریں اور ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں تو یہ جدید ٹیکنالوجی ایک تمدنی ارتقا ہونے کے ناطے کوئی ممانعت نہیں ہے ہمیں اپنے چینل بھی قائم کرنے چاہئیں اور اُنہیں استعمال بھی کرنا چاہیے ۔

تصویر کی حرمت ہمیشہ سے ہے اور تاقیامت برقرار رہے گی!
مذکورہ بالا اہمیتوں اوراحتیاطوں کے باوصف میں آخر میں واضح الفاظ میں کہوں گا کہ تصویر قدیم شریعتوں میں بھی حرام تھی اور آج بھی حرام، البتہ بعض چیزیں بعض درمیانی اَدوار میں محدود مدت کے لئے جائز ہوئیں جبکہ شریعتیں تمام انسانیت کے اعتبار سے ابھی مکمل نہیں تھیں ، جیسا کہ حضرت سلیمان ؑکے زمانہ میں مجسّمے جائز تھے اور حضرت یوسف کے زمانے میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا ۔آدم ؑکو سجدہ ٔ تعظیمی کروایا گیالیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت جو کامل واکمل ہے اور جو ہر قسم کے حالات اورہر قسم کے زمانہ کے لیے ایک دائمی شریعت ہے، اس کے احکامات بھی تا قیامت دائمی ہیں ۔

کسی خاص نبی کے زمانے میں اگر کوئی چیزجائز ہو تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شریعت ِکا ملہ کے اندروہ چیزخود بخود جائز ہوجائے گی۔ اگر پہلی شریعتوں میں بعض چیزیں مثلاً سجدۂ تعظیمی جائز تھا یا تصویر جائز تھی اورآج اگر غامدی حلقہ اس بنا پرپر تصویرکو جائز قرار دیتا ہے تو یہ استدلال درست نہیں جیسا کہ آج سجدہ تعظیمی بھی جائزنہیں ہو سکتا۔ هذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب


حوالہ جات
1. صحیح بخاری:71
2. صحیح بخاری:5954
3. صحیح بخاری: 5951
4. صحیح بخاری،کتاب التفسیر:4920
5. صحیح بخاری:5963
6. مسند احمد:1؍308 وأصله في البخاري
7. صحیح سنن نسائی:4958
8. بحوالہ حکم التصویر في الإسلام: 66
9. بخاری:10؍434،مسلم:7؍125، احمد: 6؍166 ، 233،244، واللفظ لہ، ابن سعد:8؍66
10. بخاری: 4؍163، مسلم: 3؍152۔ اصل عبارت صحیح مسلم کی ہے اور کچھ زیادہ باتیں دیگر روایات سے لی ہیں
11. دیکھیں 'تصویر کا مسئلہ' از محمد رفیع مفتی:ص95
12. صحیح سنن ابوداود:4123
13. ص94

 


 

i. مناہج شریعت اور مناسک ِشریعت میں فرق ہے! تمدنی ارتقا کے حوالہ سے ایک نکتہ استطرادًا واضح رہنا چاہئے کہ کیا ذرائع اور وسائل کی تبدیلی سے شرعی حکم بدل جاتا ہے؟ ظاہر ہے شریعت ِمحمدی دائمی ہے، اگر تصویر پہلے حرام تھی تو اب بھی حرام ہے،البتہ ایک پہلو واضح کرنا ضروری ہے جس کا تعلق مسئلہ نسخ سے ہے کیونکہ مسائل کی ایک قسم ایسی ہے جس کااصل تعلق مناسک ِشریعت یعنی حلال وحرام سے ہے اور دوسرے مسائل وہ ہیں جن کا تعلق نفاذِ شریعت (یعنی مناہج شریعت)سے ہے۔مثال کے طور پرمُتعہہنگامی طور پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی دفعہ حلال ہوااور کئی دفعہ حرام کیا گیا لیکن آخری بار متعہ کو حرام کر دیا گیا ۔اب کوئی شخص حرمت ِمتعہ کی کوئی ہنگامی وجہ تلاش کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاص وجہ سے متعہ کو حرام کیا تھا اور آج متعہ پھر جائز ہوسکتا ہے تو وہ غلطی کرے گا۔ اس لیے کہ مناسک ِشریعت کے اندر جب نسخ ہوجاتا ہے تو پھر وہ دائمی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ مناہج شریعت میں نسخ کا وہ معنی نہیں ہے جو مناسک ِشریعت میں ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ، سیوطی اور زرکشی رحمہم اللہ نے اس کی اچھی وضاحت کی ہے کہ وہاں اس کا تعلق حالات سے ہوتا ہے کہ حالات کی بنا پر جو طریقہ بھی موزوں ہو، اسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر ہر دو مقام (مناہج اور مناسک) میں نسخ کے معنی مختلف ہوتے ہیں۔مولانا ابو الاعلیٰ مودودیٰ نے یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بعض ناگزیر حالات میں متعہ کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا تھا، لیکن آخرکار اُنہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع کرلیا تھا۔
ii. کتاب وسنت کی خصوصی تعلیمات کے ذریعہ جو شے حرام کر دی جائے، وہ اصلاً حرام ہی ہوتی ہے،کیونکہ توجیہ وتعلیل بہر صورت ہمارا اجتہاد ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان بہر حال ہے اور جب صریح نصوص تصویر کی حرمت اور مصورین پر وعید کی موجود ہیں تو نص کے مقابلہ میں اجتہاد پر اعتماد مؤمن کا شیوہ نہیں۔