الیکٹرانک میڈیا اور اس کا استعمال

آج کل الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی،انٹرنیٹ،ریڈیو وغیرہ) اور پرنٹ میڈیا (اخبارات ورسائل) نشرواشاعت کے جدید اور انتہائی مؤثر ذرائع ہیں جن کے ذریعے لاکھوں اور کروڑوں افراد تک اپنی آواز پہنچائی جا سکتی اور ان کے دل و دماغ کو متاثر کیا جا سکتا ہے ۔
ان ذرائع ابلاغ کے موجد چونکہ ملحد اور سیکولر قسم کے لوگ ہیں جو کسی قسم کے اخلاقی اُصول اور ضابطۂ حیات کے قائل نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ ایسی تہذیب کے قائل ہیں جس میں شرم وحیا اور عفت وپاکدامنی کا کوئی تصور نہیں ہے، چنانچہ وہ ان ذرائع ابلاغ کو اپنی حیا باختہ تہذیب اور اپنے لادینی نظریات وافکار کے پھیلانے کے لیے بے دریغ استعمال کررہے ہیں ۔ دوسری طرف بدقسمتی سے اسلامی ممالک میں برسر اقتدار طبقات، سوائے ایک آدھ ملک کے، سب کے سب وہ ہیں جو ذہنی طورپر مغرب کے غلام ہیں اور ان کے افکار کارگہ ِمغرب ہی کے ڈھلے ہوئے ہیں یا پھر وہ ہیں جو اسلامی نظام وتہذیب کے نفاذ کے حامی نہیں اور ایمانی جرات وقوت سے بھی محروم ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کی معاشی وسیاسی پالیسیوں نے اُن کو مغرب کا دریوزہ گر اور حاشیہ بردار بنا کر رکھا ہواہے جس نے ان کو اپنی اسلامی اقداروروایات کے احیاء وفروغ اور قومی خودداری وسلامتی کے تحفظ کے جذبے سے بھی عاری کردیا ہے ۔
اِن حالات کا جبر اور نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کے ذرائعِ ابلاغ اور مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا ہے۔ دونوں ذرائع ابلاغ شب وروز بے حیائی کو پھیلانے میں نہایت سرگرمی سے مصروف ہیں جس سے مسلمانوں کی نسلِ نو شدید متاثر ہو رہی ہے اوروہ اپنے دین اور اسلامی تہذیب سے دور سے دور تر ہوتے جارہے ہیں ۔مسلمان ذرائع ابلاغ (اخبارات اور ٹی وی وغیرہ) اگر کوئی دینی پروگرام نشربھی کرتے ہیں تو وہ اصل دین نہیں ہوتا بلکہ دین کے نام پر جو غیرشرعی رسومات رائج ہیں ،ان کا پرچارکرتے ہیں یا پھر ان متجددین اور منحرفین کو دین کی تشریح کے لیے بلاتے ہیں جو مغربی تہذیب کی تمام قباحتوں کو سند ِجوازمہیا کردیتے ہیں ۔
 
اس صورتحال نے اُس اسلامی طبقے کو پریشان اور مضطرب کررکھا ہے جو اسلامی تہذیب وتمدن اور اقدار وروایات کے تحفظ اور ان کے فروغ وذیوع کا جذبہ اپنے دلوں میں رکھتا ہے۔ وہ اگرچہ کتابوں اور رسائل وجرائد کے ذریعے سے دین اسلام کی ترویج اوراس کے احیاوفروغ کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کام کررہا ہے، لیکن ان مساعی سے ایسے کڑوڑوں افراد تک دین اسلام کا صحیح تصور پہنچنا ناممکن سا ہے جو صرف جدید ذرائع ابلاغ ہی سے استفادہ کرتے ہیں یا بالفاظِ دیگر وہ ان کی زد میں ہیں ۔
 
بنا بریں اسلامی جذبہ وشعور سے بہرہ ور یہ دینی طبقہ جدید ذرائع ابلاغ کو بھی اسلام کی نشرواشاعت کے لیے استعمال کرنا چاہتاہے، لیکن اس کی راہ میں متعدد رکاوٹیں ہیں جس کے لیے وہ علماے اسلام کی راہنمائی کا طالب ہے ۔مثلاً
 
ٹی وی پر جتنے پروگرام ٹیلی کاسٹ (نشر) ہوتے ہیں ،نناوے فیصد بے ہودہ،مخرب اخلاق، حیا سوز اور ایمان شکن ہوتے ہیں ۔اس اعتبار سے یہ لہو ولعب کا ایسا آلہ ہے جہاں پاکیزہ پروگرام پیش کرنا اُس پروگرام کے تقدس کے منافی محسوس ہوتا ہے ۔
تصویر شرعاً حرام ہے اور اس میں تصویر ناگزیر ہے ۔
 
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس کا جواب اکثر علماء یہ دیتے ہیں کہ ٹی وی وغیرہ محض ایک آلہ ہیں ،اُنہیں خیر کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور شر کے لیے بھی۔اگر خیر کے لیے اُنہیں استعمال کیا جائے تو ان کا استعمال جائز ہے،بصورتِ دیگر ناجائز۔ تاہم تصویر کا مسئلہ بلاشبہ نہایت قابل غور ہے، کیونکہ تصویر کی بابت اسلام کے احکام بہت سخت ہیں ،ان کے پیش نظر اس کے جواز کا موقف رکھنا ممکن نہیں ۔
 
اس سلسلے میں بعض علماء تصویر کی دو قسمیں کرتے ہیں : ایک وہ جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہے اور دوسری جو کیمرے کے ذریعے سے بنتی ہے۔ اس دوسری قسم کو وہ آئینے کے عکس کی طرح قرار دے کر اس کے جواز کی گنجائش نکالتے ہیں ۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ موقف کسی طرح بھی درست نہیں ۔ کیمرے کی تصویر کو آئینے یا پانی کے عکس کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا اور دونوں مںو زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیمرے کی تصویر بھی اپنے نتیجے اور اثر کے اعتبار سے ہاتھ کی تصویر سے قطعاً مختلف نہیں بلکہ کیمرے کی تصویر صفائی،حسن اور جاذبیت کے اعتبارسے ہاتھ کی تصویر سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ فتنہ انگیز ہے اور کیمرے کی ایجاد نے تصویری فتنے کو جتنا عام اور خطرناک بنا دیا ہے،چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس لیے یہ موقف یکسر غلط اور بے بنیاد ہے،اسے کسی لحاظ سے بھی صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔
 
بعض علما نے ایک اور طرح سے تصویر کی دو قسمیں بنائی ہیں : ایک تو وہ جو ٹی وی پر نشر کرنے کیلئے پہلے سٹوڈیو میں بطورِ فلم تیار کر لی جاتی ہے اور پھر اسے ٹی وی پر ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ یہ علما اس صورت کو جائز قرار دے کر ٹی وی پروگراموں میں شرکت کو جائز سمجھتے ہیں ۔
 
ایک تیسری رائے یہ ہے کہ تصویر بہر صورت حرام ہے اور اضطراری صورت کے علاوہ تصویر کشی کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ ان علماے کرام کا کہنا ہے کہ کسی بھی نیک مقصد کے لیے ناجائز ذریعہ اور وسیلہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اچھے مقصد کے لیے ذریعہ بھی جائز ہی ہونا چاہیے، کیونکہ ہم جائز حدود میں رہ کر ہی کام کرنے کے مکلف ہیں ،اس سے زیادہ کے ہم مکلف ہی نہیں ہیں :{لاَ يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا}(البقرة:286) اس لیے اگر ہم جائز حدود میں رہتے ہوئے تبلیغ ودعوت میں کوتاہی نہیں کرتے، تو قطع نظر اس کے کہ ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ،عنداللہ ہم ماجور ہی ہوں گے،ماخوذنہیں ۔اور اگر ہم حدود شکنی کر کے اپنے دائرئہ تبلیغ کو وسعت د ے دیتے ہیں ،توکامیابی یا ناکامیابی کا علم تو اللہ ہی کو ہے،لیکن ہم شاید مؤاخذۂ الٰہی سے نہ بچ سکیں ،کیونکہ حکم الٰہی ہے :
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٢٢٩...سورة البقرة
''اللہ کی حدوں سے تجاوز کرنے والے ظالم ہیں ۔''
 
اور ظالم اللہ کے ہاں مجرم متصور ہوں گے نہ کہ محسن(اچھا کام کرنے والے)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے جوا اور شراب کی حرمت کی بابت سوال کے جواب میں فرمایاہے:(فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ‌وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ...﴿٢١٩﴾...سورة البقرة''ان دونوں میں بہت گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں ۔''اس جواب میں ایک نہایت اہم اُصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ کچھ نہ کچھ فوائد تو ہر چیز میں ہوتے ہیں ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فوائد کے مقابلے میں نقصان اور ضرر کتنا ہے ؟ اگر ضرر کی مقدار زیادہ ہوگی تو وہاں فوائد کو نظر انداز کر کے نقصان کو اہمیت دی جائے گی اور اس کے پیش نظر اس کی حرمت کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
اسلامی چینل کے قیام کا ایک بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جو گھرانے ابھی تک ٹی وی سے محفوظ ہیں ،اس بہانے ان گھروں میں بھی ٹی وی آجائے گا اور اس کے بے ہودہ پروگراموں سے پھر انکے بچے بھی 'محظوظ'ہوں گے جن کو ابھی تک ان کے والدین نے اس لعنت سے بچایا ہوا تھا۔
 
دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کے اندر بھی اخبارات میں اپنی تصویروں کی اشاعت ووسعت میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔عوام کی اکثریت فقہی باریکیوں سے تو نا آشنا ہوتی ہے ،وہ علماء کے ٹی وی چینل پر جلوہ افروز ہونے کو اپنے بے مقصد اور بلا ضرورت شادی بیاہ کی تقریبات کی فلم سازی کے لیے وجہ ِجواز بنا لیں گے ۔
 
تیسرا نقصان یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کے اندر بھی اخبارات میں اپنی تصویروں کی اشاعت کا اور اپنے پروگراموں کی ویڈیو فلمیں بنانے کا شوق بڑھتا جارہا ہے، ٹی وی کے اذنِ عام سے اس غیر شرعی رجحان کی بھی حوصلہ افزائی ہی ہوگی جب کہ ضرورت اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔
 
چوتھا نقصان یہ ہوگا کہ عوام میں تصویر کی حرمت کا تصور ہی ختم ہوتا چلا جارہا ہے، ٹی وی کی اجازت سے اس عوامی رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔
اس طرح کے اور بھی متعدد دینی نقصانات ہیں جو ٹی وی چینل کے جواز سے ہوں گے،ان کے مقابلے میں فوائد کیا ہوں گے؟وہ موہوم ہیں ،یقینی نہیں ہیں جب کہ مذکور ہ نقصانات یقینی بھی ہیں اور حرمت کے فتوی کے باوجود ان کا رتکاب بھی عام ہے ۔
 
باقی رہ گیا مسئلہ اضطرار کی صورت میں تصویرسازی کے جواز کا۔ اس کے لیے ایک فقہی اُصول کا حوالہ دیا جاتا ہے: الضرورات تبیح المحظورات (ضرورتیں ممنوعہ چیزوں کو بھی جائز کر دیتی ہیں )۔یہ اُصول بجائے خود درست ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا کیا واقعی ایسی ضرورت ہے کہ جس کے بغیر چارہ نہ ہو؟کیا آڈیو کے ذریعے سے یہ کام ایک عرصے سے نہیں ہورہا ہے؟اور کیا آڈیو کا ذریعہ ہی تبلیغ ودعوت کے لیے کافی نہیں ہے ؟
 
مسلمان قوم اس وقت جس پستی میں گری ہوئی ہے، وہاں علما کے مواعظ ونصائح اس کے لیے یکسر غیر مؤثر ہیں ۔ علماے کرام اپنے خطبات ودروس میں ،جلسہ ہائے سیرت میں سالہا سال سے مسلسل قوم کی اصلاح وتطہیر اور تصفیۂ عقائد کا کام کررہے ہیں ،لیکن قوم عقائد سے لے کر اخلاق وکردار تک ہر معاملے میں دن بدن اصلاح ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے، ترقی کے بجائے روبہ انحطاط ہے اور مذہب کے قریب آنے کے بجائے مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے ۔اگر ویڈیو کا ذریعہ اختیار کر لیا جائے تو اس سے کیا اس کی اصلاح کا آغاز ہوجائے گا؟اس کا عقیدہ وعمل صحیح ہوجائے گا ؟اس کی ترجیحات تبدیل ہوں جائیں گی؟دنیا کے مقابلے میں آخرت کی فکر اس پر غالب آجائے گی؟
ہمیں تو اس تبدیلی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ورنہ اضطرار کی صورت میں حرام کے حلال ہونے کا اُصول تو خود قرانِ مجید میں موجود ہے۔ـ(فَمَنِ ٱضْطُرَّ‌ غَيْرَ‌ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ...﴿١٧٣﴾...سورة البقرة)لیکن تبلیغ ودعوت کے لیے ٹی وی پر آنے کو نہ ایسی ناگزیر ضرورت ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اضطراری ہی کہ جس سے حرمت کا حکم حلت مںو تبدیل ہوجائے۔
 
بہر حال زیر بحث مسئلے کی یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر راقم کافی غور وخوض اور مختلف مجالسِ مذاکرہ میں شرکت کے بعد پہنچا ہے۔ اس سلسلے کی ایک مجلس مذاکرہ حکیم حامد اشرف صاحب کی دعوت پر جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ فیصل آباد میں جون ۲۰۰۷ء میں ہوئی تھی، اس میں علماء کی اکثریت نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ علماء کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے۔
 
اس کے بعد ملی مجلس شرعی کے ایک اجلاس منعقدہ ۴؍نومبر 2007ء میں اس مسئلے پر غور وخوض ہوا جو جامعہ اشرفیہ، لاہور میں ہوا تھا ۔اس میں فیصلہ کیا گیا کہ اہل سنت کے تینوں مکاتب ِفکر (اہل حدیث،دیوبندی اور بریلوی) کے علما کا مشترکہ وسیع تر اجلاس بلایا جائے ۔چنانچہ یہ اجلاس 13؍اپریل 2008ء کو مفتی محمد خان قادری صاحب کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ،جوہر ٹاؤن لاہور میں ہوا جو صبح ۱۰ بجے سے شام ۵ بجے تک جاری رہا،اس میں پنجاب بھر سے متعدد علماے کرام نے شرکت کی اور مذاکرے میں حصہ لیا ۔ اس میں بھی بالآخر یہی فیصلہ کیا گیا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ علماء ٹی وی کے محاذ کو بھی دفاع اسلام کے لیے استعمال کریں اور اسے دشمنانِ اسلام ہی کے لیے مخصوص نہ رہنے دیں ۔
گویا راقم الحروف اور اس کے ہم نوا بعض علما کے رائے کے برعکس، علما کی اکثریت اس بات پر مصر ہے کہ تبلیغ ودعوت کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کیا جانا چاہیے، وہ اسے اضطرار اور ضرورتِ مبیحہ کے تحت جواز کا درجہ دیتے ہیں ۔یہ رائے اگرچہ محلِ نظر ہی ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اس لیے علماے کرام اور دیگر مخلصانِ اسلام کی خدمت میں ہماری یہی گزارش ہے کہ وہ اس کے جواز کو شرحِ صدر اور خوش دلی کے ساتھ تسلیم نہ کریں بلکہ اسے وہی حیثیت دیں جو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ ضروریات کے لیے فوٹو کی حیثیت ہے۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اِخلاص کے پیش نظر ٹی وی تصویر سے بھی درگزر فرما دے جیسے اس سے شناختی کارڈوغیرہ کی تصویر میں ہمیں معافی کی اُمید ہے ۔
ہماری اس رائے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ
ٹی وی کے صرف ان پروگراموں میں شرکت کی جائے جن سے فی الواقع کچھ فائدہ متوقع ہو۔یہ شرکت بھی اسی طرح مع الکراہت ہو جیسے شناختی کارڈ وغیر ہ کے لیے تصویر کھنچواتے وقت کراہت پیش نظر رہتی ہے ۔
 
ٹی وی مذاکرات میں شرکت سے گریز کیا جائے،کیونکہ ان میں ماہرانہ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصحابِ زیغ وضلال کو بھرپور موقع دیا جاتا ہے اور صحیح الفکر علماء کو صرف استعما ل کیا جاتا ہے جس سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
اپنا ٹی وی چینل بھی اس وقت تک قائم نہ کیا جائے جب تک اس کی پشت پر کوئی اسلامی ذہن رکھنے والی حکومت یا کوئی مضبوط جماعت نہ ہو جو نفع نقصان سے بالا ہو کر اس کے تمام پروگرام اسلامی خطوط پر تیار اور نشر کرے۔
علماے کرام کی تقاریر کی یا مذہبی جماعتوں کے اجلاس اور کانفرنسوں کی ویڈیو فلمیں سراسر ناجائز ہیں ، اُن سے اجتناب کیا جائے۔
مذہبی جماعتیں اپنے اجلاسوں اور کانفرنسوں میں صرف ان اخباری نمائندوں کو بلائیں یا ان کو آنے کی اجازت دیں جو تصویر کشی سے اجتناب کریں اور صرف رپورٹنگ پر اکتفا کریں ۔
 
الغرض ٹی وی پر بوقت ِضرورت تقریر کرنے کی اجازت کو بقدرِ ضرورت ہی اختیار کیا جائے، اور اس کو بنیاد بنا کر ہمہ قسم کی مصروفیا ت اور پروگراموں کو تصویری سانچوں میں ڈھالنا اور رائی کو پربت بنا لینا قطعاً صحیح نہیں ہوگا۔ هذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب