الیکٹرونک میڈیا پر تصویرکا شرعی حکم ؛ تقابلی جائزہ
موجودہ دور ترقی، انقلابات، میڈیا اور اطلاعات کا دور ہے۔ اگرچہ ایک صدی قبل انسان نے بجلی، فون، ایندھن، نقل وحمل اور مواصلات کے دوسرے ذرائع دریافت کرلئے تھے، تاہم دریافت وایجادکے اس سفر میں جو کامیابی اور تیزی گذشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آئی ہے، اس کی تیزرفتاری نے واقعتا عقل کو حیران وپریشان کردیا ہے۔ آج سے کم وبیش 15، 20 برس قبل کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کی ایجاد نے تو گویا ہرچیز بدل کے رکھ دی ہے۔ اور ہر آنے والا دن اس میں کئی گنا اضافہ کررہا ہے۔
میڈیا کی اس تیزرفتاری اور ترقی سے بہت سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ ہردَم بڑھتے ٹی وی چینلوں کا بھی ہے۔ پاکستان میں کیبل ٹی وی کے بعد اور مشرف حکومت کی نرم میڈیا پالیسیوں کے سبب پاکستانی قوم اس وقت ٹی وی چینلوں کے ایک طوفانِ بلاخیز سے دوچار ہے۔ پاکستان کے تین درجن کے لگ بھگ ملکی ٹی وی چینلوں میں ایک تہائی تعداد درجہ اوّل کے چینلز کی ہے مثلاً 'جیو' کے تین چینل، 'اے آر وائی' کے دو چینل، نوائے وقت کا 'وقت' چینل، 'آج' ٹی وی،' بزنس پلس'، 'ایکسپریس نیوز' اور 'ڈان نیوز' وغیرہ۔ باقی درجہ دوم اور سوم کے چینلز بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہیںجن میں مذہبی چینلز بھی شامل ہیں۔ یہ سب چینل محض گذشتہ ۳ سے ۵ برس کے دوران وجود میں آئے ہیں۔ ان چینلوں کو باہمی مقابلہ اور عوام میں مقبولیت کے لئے جہاں رقص وموسیقی کے بے ہنگم پروگرام پیش کرنے ہوتے ہیں جس سے روز بروز موج مستی اور عیش پرستی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، وہاں عوام کے رہے سہے دینی جذبہ کی تسکین کے لئے اُنہیں براے نام ایسے علماے دین کی ضرورت بھی ہوتی ہے، جو عالم دین کہلانے کی بجائے 'اخلاقی ماہرینEthical Experts اور'سکالرز' کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پردئہ سکرین کی مخصوص ضروریات اور ماحول کے تقاضوں کو یوں بھی حقیقی عالم دین تو پورا نہیں کرسکتا نتیجتاً 'ضرورت ایجاد کی ماں ہے' کے مصداق ایسے 'دینی ماہرین' کی ایک فوج ظفر موج وجود میں آچکی ہے جو کسی دینی درسگاہ سے باقاعدہ تعلیم یافتہ ہونے کی بجائے عوام کے دینی جذبات کا خوبصورت الفاظ میں استحصال کرنے کی صلاحیت سے تو مالا مال ہوتے ہیں تاکہ عوام کی دین سے وابستگی کے فطری جذبہ کی بھی تسکین ہوسکے اور ہردم بدلتی نئی دنیا کے تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں۔ ان نام نہاد دینی پروگراموں کے معیار کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عین پروگرام سے قبل مرد وزَن کے اختلاط کے مناظر بھی ٹی وی پرچلتے رہتے ہیں، دورانِ پروگرام فحش ٹی وی اشتہارات بھی اور پس منظر میں دھیمے سروں کی موسیقی بھی، ان چیزوں کے جلو میں عوام کو دینی رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور عوام میں ان کی اثر پذیری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کئی ایک 'مذہبی' سکالروں کی مقبولیت اسی پردئہ سیمیں کی مرہونِ منت ہے اور محض اسی سبب وہ اسلامیانِ پاکستان کے مذہبی قائد و رہنما کے منصب و اِعزاز پر براجمان ہیں جبکہ ان کے پندارِ علم اوردینداری کا یہ عالم ہے کہ طبقہ علما میں نہ تو ان کی ذات کو کوئی اچھا تعارف حاصل ہے اور نہ ہی اُن کے پایۂ علم کو مستند خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید میڈیا کی کرشمہ سازیوں کے سبب عوامِ پاکستان کی دینی بساط اب مسجد ومدرسہ سے نکل کر اسی ٹی وی سکرین کی مرہونِ منت ہوچکی ہے جس پر حیا باختہ اداکارائیں بھی مختصر لباس میں جلوہ افروز ہوتی ہیں۔
ہر لمحے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اس ماحول اور زوال پذیر معاشرتی صورتحال کو ہر دردمند مسلمان بری طرح محسوس کرتا ہے۔ اور اسی تناظر میں ہر صاحب ِفکر یہ توقع کرتا دکھائی دیتا ہے کہ منبر ومحراب کے حقیقی وارث علماے کرام بھی اَب روایتی اُسلوبِ دعوت و تربیت سے آگے بڑھتے ہوئے ان ٹی وی چینلوںکے ذریعے ان کے مذہبی رجحانات کی تشفی کریں۔ یہاں یہ بنیادی نکتہ ان کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے کہ جب دین کی مقدس تعلیم کو بھی مقصد وہدف سے قطع نظر ٹی وی چینل کے مالک کے جذبہ حصولِ منفعت کے پیش نظر ابلاغ کی لہروں کے سپرد کیا جائے گا تومنبر نبویؐ کا یہ مقدس مشن کیسے لوگوںکے سپرد ہوگا اورعوام کی دینی تعلیم وتدریس کی کون سی نوعیت اربابِ ابلاغ کے ہاں مطلوب ومعتبر قرار پائے گی...؟
یہ ہے ٹی وی پر تبلیغ دین کے موجودہ داعیہ کا پس منظر جس کی راہ میں اکثر وبیشتر اسلام کی رو سے مسئلہ تصویر حائل ہوتا رہا ہے۔ محتاط اور جید علما ے کرام اس بنا پر ہمیشہ ٹی وی پر آنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ یوں بھی ٹی وی کی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے، ایمان وایقان کے اُسلوب میں ڈھلے اعتقادات و نظریات اس سے یکسر مختلف روحانی ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتے ہیں۔ بہرطورا س ضرورت کے سبب اور درپیش حالات میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلی کوسامنے رکھتے ہوئے مسئلہ تصویرپر علماے کرام میں کئی بار یہ موضوع اُٹھایا گیا جس کے نتیجے میں کئی ایک مذاکرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہے۔
مسئلہ تصویر پر جملہ مکاتب ِفکر کا نمائندہ مذاکرہ
ماضی میں جب بھی کسی مذہبی جماعت نے عامتہ المسلمین میں دینی دعوت کو توسیع دینے کا سوچا تو سب سے پہلے اسی مسئلہ تصویرپر ایک معرکہ اُنہیں طے کرنا پڑا، چنانچہ ۸۰ء کے عشرے میں جماعت ِاسلامی میں یہ مسئلہ پیدا ہوا او راُنہوں نے ایک موقف پر اطمینان حاصل کیا۔ حالیہ میڈیا پالیسی کے بعد ٹی وی چینلوں کی بھرمار کے اِنہی دنوں میں جب دین کے نام لیوا بعض حلقوں نے ٹی وی کو اپنی جہد وکاوش کا مرکز بنانا چاہا تو 'تصویرکے مسئلہ' پر اُنہوں نے بھی ایک 'باضابطہ' موقف اختیار کیا، اب جب مدارس ومساجد سے وابستہ علماے کرام کے معاشرتی کردار کو مزید مؤثر کرنے پرغور وخوض ہوا تو یہی مسئلہ سب سے پہلے اَساسی توجہ کا طالب ٹھہرا۔ اس اعتبارسے مسئلہ تصویر جدید میڈیا کے اس دور میں انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
گذشتہ برس جملہ مکاتب ِفکر کی سرکردہ علمی شخصیات پر مشتمل ' ملی مجلس شرعی' کے نام سے ایک مستقل پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا تھاجس کا ہدف یہ تھا کہ ''فروعی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے عوام الناس کو اسلام کی روشنی میں درپیش جدید مسائل کا حل'' پیش کیا جائے۔ اس مجلس شرعی کے تاسیسی اجلاس(منعقدہ جامعہ نعیمیہ، لاہور) میں بھی سب سے پہلے یہی 'مسئلہ تصویر' ہی موضوعِ بحث بنا۔ 'ملی مجلس شرعی' کا دوسرا اجلاس جامعہ اشرفیہ، لاہور میں 4؍ نومبر2007ء کو منعقد ہوا تو اس میں اس مسئلہ کے بنیادی خطوط پر سرسری تبادلہ خیال کیا گیا اور وہیں وسیع پیمانے پر علما کا ایک نمائندہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ ہوا۔
چنانچہ اِمسال 13؍اپریل کو 'ملی مجلس شرعی' کے پلیٹ فارم سے جملہ مکاتب ِفکر کا ایک وسیع سیمینار مفتی محمد خاں قادری صاحب کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ، ٹھوگرنیاز بیگ، لاہور میں منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں تین مجالس بالترتیب ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور)، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی (مہتمم جامعہ لاہور الاسلامیہ[رحمانیہ]) اور مولانا حافظ فضل الرحیم (مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور) کے زیر صدارت منعقد ہوئیں جس میں
بریلوی مکتب ِفکر سے
1۔ مفتی محمد خاں قادری، مہتمم جامعہ اسلامیہ، ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور
2۔ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری، مہتمم جامعہ رضویہ، ماڈل ٹائون، لاہور
3۔ مفتی شیر محمد خاں، شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ
4۔ مفتی غلام حسین، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ خیرالمعاد، ملتان
دیوبندی مکتب ِفکر سے
1۔ مولانا رشید میاں تھانوی، مہتمم جامعہ مدنیہ، لاہور
2۔ قاری احمد میاں تھانوی، نائب مہتمم دار العلوم اسلامیہ، لاہور
3۔ مولانا محمد یوسف خاں، اُستاذِ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور
4۔مولانا عتیق الرحمن، مہتمم جامعہ عبد اللہ بن عمر، لاہور
5۔ مفتی محمد طاہر مسعود، مہتمم جامعہ مفتاح العلوم، سرگودھا
اور اہل حدیث مکتب ِفکر سے
1۔مولانا حافظ عبد العزیز علوی، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ، فیصل آباد
2۔حافظ صلاح الدین یوسف، مدیر ترجمہ وتحقیق ، دارالسلام، لاہور
3۔مولانا محمد رمضان سلفی، نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ [رحمانیہ]
4۔مولانا محمد شفیق مدنی، اُستاذِ حدیث وفقہ ،جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور
اور شیخ الحدیث مولانا عبد المالک(مہتمم مرکز ِعلوم اسلامیہ ، منصورہ ) وغیرہ نے اس موضوع پر اپنے قیمتی خیالات پیش کئے، جبکہ علماء اورفاضلینِ مدارس کی ایک بڑی تعداد بھی سیمینار میں شریک ہوئی۔ اجلاس کے داعی ڈاکٹر محمد امین نے نقابت کے فرائض انجام دیے۔ یوں تو اجلاس میں تمام خطابات ہی بڑے علمی، استدلال سے بھرپور اور پرمغزو بامقصد تھے... جن کی ریکارڈنگ 'ملی مجلس شرعی' کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد امین صاحب سے حاصل کی جاسکتی ہے... لیکن ان میں ایسے خطابات جو مختلف مکاتب ِفکر کے نمائندہ اور متنوع رجحانات کی عکاسی کرتے تھے، ادارئہ محدث نے بقدر ِاستطاعت اُن کو مدوّن کرکے یا خطاب کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ لکھوا کر اُنہیں زیر نظر شمارہ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے تاکہ ا س اہم اجلاس کا فائدہ عام اور محفوظ ہوسکے۔ یہ مذاکرہ دراصل دو بنیادی موضوعات پر منعقد ہوا تھا :
تصویر، فوٹوگرافی اورویڈیو وغیرہ کی شرعی حیثیت
دورِ حاضر میں تبلیغی ضروریات کے لئے تصویر، ٹی وی اور ویڈیو کا جواز ؟
جیسا کہ اوپر درج شدہ ناموں کی فہرست سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس مذاکرہ میں جہاں ملک کی نامور اورسرکردہ اہل علم شخصیات شامل تھیں، وہاں ان کا تعلق ایک نقطہ نظر کی بجائے مختلف پس منظر اور مکاتب ِ فکر سے تھا، چنانچہ اشتراک ویگانگت کے کئی پہلووں کے ساتھ ساتھ ہر صاحب ِعلم نے اپنے اپنے ڈھنگ میں ان دونوں مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ اس مذاکرہ کے اختتام پر ایک متفقہ قرار داد بھی منظور کی گئی جس کا تذکرہ زیر نظر تحریر کے آخر میں موجود ہے، لیکن مختلف افراد کے خیالات میں قدرِ مشترک اور ان کے طرزِ استدلال پر تبصرہ اور باہمی تقابل بھی ہمیں موضوع کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔
تصویر کا شرعی حکم
سب سے پہلے تصویر کے بارے میں شرعی حکم کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے ... پھر اہل علم کے تینوں موقفوں کا بالاختصار تذکرہ، تجزیہ ا ور نتیجہ و ثمرہ
تصویر کی حرمت کے بارے میں احادیث ِنبویہؐ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن میں صراحت کے ساتھ تصویر کی حرمت کو شدت سے بیان کیا گیا ہے۔ غور کیا جائے تو ان احادیث وآثار میں تصویر کی حرمت کو تین نتائج؍ وجوہات میں منحصر کیا جاسکتاہے :
تصویر کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی صفت ِ تخلیق سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنہ میں ایک نام 'مصور' اور اس کی صفات میں {هُوَ ٱلَّذِى يُصَوِّرُكُمْ فِى ٱلْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ...﴿٦﴾...سورة آل عمران} شامل ہے، اس بنا پر تصویر بنانا سرے سے حرام ہے اور تصویر کشی کی فی نفسہٖ ممانعت کی وجہ یہی ہے۔ اسی لئے مصوروں کے لئے احادیث میں سخت ترین وعید آئی ہے کہ روزِ قیامت اُنہیں شدید ترین عذاب ہوگا اور اُن سے اپنی تصویر شدہ اشیا میں روح ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ البتہ بعض احادیث وآثار سے پتہ چلتا ہے کہ مشابہت کا یہ وصف صرف ذی روح اشیا تک محدود ہے۔ جمادات اورقدرتی مناظر کی تصاویر بنانا جائز ہے۔ غرض تصویر کی حرمت کی ذاتی اور اہم وجہ اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت مولانا شفیق مدنی کے خطاب(ص 6)، شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کے کتابچہ بر تصویر (ص5)اور ابن دقیق العید (شرح العمدة: 3؍256) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
تصویر کی حرمت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے شرک اورغیر اللہ کی معبودیت کا دروازہ کھلتا ہے۔ امکانِ شرک کا یہ عنصر مقدس اور عظیم شخصیات میں قوی تر ہوجاتا ہے جیسا کہ پہلی اَقوام میں تصویر اور مجسمہ سازی اسی نتیجہ شرک پر منتج ہوتی رہی ہے۔ اس بنا پر شرک کا رستہ بند کرنے کے لئے سد ِذریعہ کے طورپر تصویر کشی حرام ہے۔ اس امکان کے اِزالے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تصویر میں سروغیرہ کٹے (i) ہوئے ہوں، اور اگر وہ کہیں موجودہو تو اس کو محل اِہانت میں رکھا جائے کیونکہ پوری تصویر کسی بھی وقت شرک کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔
اس نکتہ کی مزید تفصیل والد گرامی حافظ عبد الرحمن مدنی کے خطاب (ص:2،3) میں اور شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کے کتابچہ (ص:6) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
تصاویر بنانا تو مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر حرام ہے، البتہ کسی بنا پر حاصل ہوجانیوالی تصویر کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کا موقف یہ ہے کہ تصویر کو نمایاں کرنا باعث ِنحوست ہے اوراس کے سبب رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ اس نحوست کے خاتمے کا طریقہ احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ تصویر کو اِعزاز واِکرام کی بجائے زمین میں پامال کیا اورروندا جائے۔
بعض اہل علم نے حرمت ِتصویر کی وجہ غیرمسلموں سے مشابہت بھی بتائی ہے۔ البتہ تصویر کے اس حکم ممانعت سے بصراحت لڑکیوں کا اپنی گڑیوں وغیرہ سے کھیلنا خارج ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث ِنبویہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجازت دی ہے۔ قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ نے قراردیا ہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت مستثنیٰ ہے۔ (فتح الباری) البتہ بعض علما کے نزدیک یہ اجازت بھی منسوخ ہے۔ 1
مذاکرہ میں پیش کردہ آرا کا تقابل وتجزیہ
مذاکرہ کے دوران راقم کا تاثر یہ رہا کہ حالات کی سنگینی اور تبلیغ اسلام کے اہم فریضے سے عہدہ برا ہونے کے پیش نظر، اپنی منصبی ذمہ داری کو جانتے سمجھتے ہوئے حاصل بحث اور نتیجہ کے اعتبار سے تما م اہل علم کی آرا میں کوئی واضح اختلاف نہیں پایا جاتا، اور یہی اتفاق اور قدرِ مشترک متفقہ قرار داد کو منظور کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
مذکورہ بالا دو مسائل کے بارے میں علماے کرام کے موقف اور رجحانات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نکتہ پر تو تمام علما کا اتفاق ہے کہ فی زمانہ تبلیغ دین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ٹی وی پر آنا جائز ہے، البتہ ہر عالم دین نے اپنی اپنی اُفتادِ طبع، ذوق اور علم کی روشنی میں تشریح وتعبیرکا اُسلوب مختلف اپنایا ہے۔ اس مرکزی نتیجہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے علما کے موقف اور طرزِ استدلال کو جاننے کے لئے ان کو تین مختلف حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
پہلے حلقے کے علما کرام کے نزدیک تصویر کشی اور ٹی وی ؍ ویڈیو شریعت ِاسلامیہ کی رو سے اصلاً حرام ہے جس کے نتیجے میں ٹی وی پر آنا بھی ناجائزہے، البتہ فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے مختلف خارجی وجوہ کی بنا پر اس کی اجازت دی یا اسے گوارا کیا جاسکتا ہے۔
بعض علماء نے تصویر اور ٹی وی ؍ ویڈیو کے احکام میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک تصویر تو اصلاً حرام ہے ، البتہ ٹی وی؍ ویڈیو تصویر کی اس شرعی حرمت میں شامل نہیں۔ چنانچہ اس طرح احکامِ تصویر کی توجیہ اور ان میں باہمی فرق کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ گنجائش دی ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی جدید الیکٹرانک میڈیا وغیرہ پر آنا شرعاً جائز ہے۔
اہل علم کے تیسرے گروہ کے نزدیک تصویر کے شرعی حکم میں فوٹوگرافی شامل ہی نہیں بلکہ یہ عکس ہے۔ بعض دانشوروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تصویر کی کوئی صورت بھی فی نفسہٖ (بشمول ہاتھ سے بنائی گئی) حرام نہیں، شریعت میں تصویر کی تمام تر حرمت خارجی وجوہ (مثلاً فحاشی وشرک وغیرہ) کی بنا پر ہے۔ تصویرکشی اسلامی شریعت کی رو سے ایک مرغوب ومطلوب امر ہے۔
الغرض اس سلسلے میں علما کے تین حلقے ہیں جن سب کا اس نتیجہ میں تو اتفاق ہے کہ فی زمانہ تبلیغ اسلام کیلئے ٹی وی پر آنا جائز ہے، البتہ فتویٰ کی تعبیرو توجیہ ہر ایک کے ہاں جداگانہ ہے۔
پہلا حلقہ
پہلے گروہ کی نظر میں تصویر کی اوّلین نوعیت اور فی زمانہ استعمال کی جانے والی تصاویر میں ماہیت اور طریقہ کے اعتبار سے اگرچہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہو لیکن ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے، اور اس میں ہردور کے مسائل کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصویر کی حرمت کی وجوہات فوٹو گرافی والی تصویر میں زیادہ بہتر(کاملاً)اور ویڈیو میں انتہائی بہترین (اکملا ً) پائی جاتی ہیں، اس لئے تصویر کے ظاہری پہلو سے ان پر بحث کرنے کی بجائے ان تمام نئی صورتوں کو بھی تصویر قرار دیا جائے گا، بلکہ جوں جوںاس میں تصویری عنصراور خصوصیات کامل تر ہوتی جائیں گی، توں توں اس کی حرمت شدید تر ہوتی جائے گی۔ ان علما کے خیال میں یہ بحث کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی، یا ظاہری سادہ وجود رکھتی ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق نفسِ مسئلہ کی بجائے تمدن کی ترقی سے ہے اور صرف طریقہ مختلف ہونے کی بنا پر تصویر کے حکم میں تبدیلی پیدا کرنا حیلے سازی کے مترادف ہے ، ان چیزوںسے اصل مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلہ میںان کا استدلال 'نفس تصویرکی خصوصیات' اور اس کے لئے عربی لغت میں بولے جانے والا اَلفاظ واِطلاقات سے بھی ہے۔جب ہر نوعیت کی تصویر کو آج تک 'تصویر' اور 'صورت' سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے تو احادیث میں 'صورت'، 'مصور' اورتصویر کے لئے بولے جانے والے تمام الفاظ دورِ حاضرکی جملہ تصاویر کو بھی شامل ہیں۔
مذاکرہ میں ان راسخ فکر علما کا یہ موقف تھا کہ کسی خارجی غلط وجہ (مثلاً فحاشی اور فسق وفجور) کے بغیر بھی تصویر کی حرمت براہِ راست قائم ہے جس کی وجہ اللہ کی صفت ِخالقیت ومصوریت میں مشابہت ہے اور اس کی احادیث میںانتہائی سنگین وعید آئی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ تصویر کی یہ شناعت انہی احادیث کی بنا پر فقط ذی روح اشیا تک ہی محدود ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ایسے علما تصویر کے مسئلے اور مصداق میں اُصولی طورپر کوئی استثنا پیدا کرنے سے کلی احتراز کرتے ہیں۔
پہلے گروہ میں بھی آگے علما کی دو قسمیں ہیں، بعض تو وہ ہیں جو احادیث کے ظاہری الفاظ پر انحصارکرتے ہوئے کسی تفصیل اور بحث میں جائے بغیرہر قسم کی تصویر کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان علما کا رویہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر زو ردینے کا ہے کہ ہر ایسی شے جس پر تصویر کا اطلاق کیا جاتا ہے، اس کو حرام سمجھا جائے۔ اسی بنا پر یہ اہل علم حدیث میں وارد لفظ إلا رقمًا في الثوب وغیرہ کو بھی مختلف دلائل کی بنا پر بے جان شے کی تصویر پرہی محمول کرتے ہیں۔ البتہ حدیث میں گڑیوں وغیرہ کے استعمال کے جواز کو حکم تصویر سے مستثنیٰ کہتے ہیں ، او راس جواز کی بنیاد بھی یہی ہے کہ احادیث ِنبویہؐ کے ظاہری متن سے اس کی گنجائش ملتی ہے۔
اس استدلال کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ ان علما کے ہاں ٹی وی اور میڈیا پر تبلیغ اسلام کے لئے تصویر سازی اور فلم بندی حرام ہو لیکن مذکورہ استدلال کے بعدیہ علما بھی کسی نہ کسی درجہ میں فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی وغیرہ پر آنے کو جائز یا گوارا ہونے کا ہی فتویٰ دیتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا استدلال مریض عورت کا غیرمحرم ڈاکٹر سے علاج کرانا، شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات وغیرہ تیار کرنے جیسی مثالیں ہیں جن کو پورا کرنا مسلمانوں پر بطورِ اضطرار لازمی ٹھہرتا ہے۔
اسی گروہ کے دوسرے علما کا رجحان یہ ہے کہ احادیث کی ظاہری پابندی ایک نہایت قابل تعریف رویہ ہے، لیکن دین میں فقاہت کواللہ تعالیٰ نے باعث ِخیر وبرکت قرار دیا ہے۔چنانچہ صرف الفاظِ حدیث پر ڈیرہ جما دینے کی بجائے ان الفاظ کی علتوں اور حکمتوں پر غور وخوض کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ رویہ فقہاے محدثین سے قریب تر ہے کہ حدیث کی الفاظ کی رعایت رکھتے ہوئے ان میں موجود حکمتوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
چنانچہ غیرذی روح کی تصویر کی اجازت یا بچیوں کے کھیلنے کے لئے گڑیوں کی اجازت، یا تصویر کو پائوں میں روندنے یا اس کا چہرہ وغیرہ ختم کردینے کے حدیثی استثناء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ علماے کرام قرار دیتے ہیں کہ ہر وہ تصویر جس سے کوئی مفید دینی مقصدپورا نہ ہوتا ہو توایسی تصاویرتو لازماً حرام ہیں، لیکن جہاں اس سے کوئی زیادہ مفید (ضروری مقصد) پورا ہوتا ہو جس کا پورا ہونا اس تصویر کے بغیر مشکل ہے تو ایسی صورت میں تصویر جائز ہے۔اس موقف کی دلیل بچیوں کی تربیتی ضرورت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ہے۔ اس بنا پر اگر مذکورہ بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آیا جائے یا ویڈیو بنائی جائے تو اس صورت میں تصویر کشی وفلم بندی گوارا ہے،جیسا کہ علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کا یہی موقف آگے آرہا ہے۔
اس طرح بعض علما شریعت کے مقاصد ِعامہیعنی اَخف الضررین ،مصلحت اور سدذریعہ وغیرہ کے تحت اس امر کی گنجائش پیدا کرتے ہیں کہ جب حالات وظروف کے اعتبارسے تبلیغ اسلام کی مصلحت کا یہ تقاضا نظر آئے کہ ٹی وی پر آئے بغیردفاعِ اسلام اور تعبیر دین کا فرض مؤثر طریقہ سے پورا نہیں ہوسکتا تو ایسی صورت میں بھی جدید ذرائع کو استعما ل کرنے کا جواز ہے۔
گویا پہلے گروہ کے دونوں اہل علم کے موقف میں فرق یہ ہے کہ پہلا موقف اضطرار اور نئے حالات کے جبرکے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے جبکہ دوسرے موقف میں گڑیوں کے کھیل، دیگر استثناء ات اور مقاصد ِشریعت سے استدلال کرتے ہوئے یہ گنجائش دی گئی ہے۔ پہلے موقف کی نمائندگی بالترتیب حافظ عبد العزیز علوی، حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا رمضان سلفی کررہے ہیںـ، جیسا کہ ان کے خطابات اور قراردادوں سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔ ایسے ہی حالت ِاضطرار کا دوٹوک موقف مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور مولانا رشید میاں تھانوی نے بھی اختیار کیا ہے۔ جبکہ دوسرے موقف کی طرف رجحان مولانا محمد شفیق مدنی اور حافظ عبدالرحمن مدنی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ البتہ نتیجہ وفتویٰ ہر دو کے ہاں بہرطور یہی ہے کہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا گوارا یا جائز ہے، اگرچہ تعلیل وتوجیہ میں دونوں کا طریقہ مختلف ہے۔
عرب علما کا موقف
یوں تو یہ پہلو مذاکرہ سے خارج ہے، البتہ محض تکمیل افادہ کی خاطر یہاں عالم عرب کے مستند علما (علامہ البانی، رحمة اللہ علیہ شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ ، شیخ ابن جبرین اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ) کے موقف کا نتیجہ پیش کرنا بھی مفید ہوگا۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وإن کنا نذهب إلی تحریم الصُّور بنوعیه جازمین بذلك فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیه فائدة متحققة بدون أن یقترن بها ضرر ما، ولا تتیسر هذہ الفائدة بطریق أصله مباح،مثل التصویر الذي یحتاج إلیه الطبّ وفي الجغرافیا وفي الاستعانة علی اصطیاد المجرمین والتحذیر منهم ونحو ذلك فإنه جائز بل قد یکون بعضه واجبًا في بعض الأحیان والدلیل علی ذلك حدیثان ... الخ 2
اگرچہ ہم تصویر کی ہر دو نوع (تصویر بنانا اور لٹکانا) کی حرمت کے پورے وثوق سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی تصویر جس سے کوئی یقینی فائدہ حاصل ہوتا ہو اور اس سے کوئی شرعی ضرر لاحق نہ ہو، کو بنانے میں ہم کوئی مانع نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ یہ فائدہ اس جائز طریقے کے سوا حاصل ہونا ممکن نہ ہو جیسا کہ طب وجغرافیہ میں تصویر کی ضرورت پیش آتی ہے، یا مجرموں کو پکڑنے اور ان سے بچائو وغیرہ کے سلسلے میں۔ تو یہ تصویریں شرعاً نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب بھی ہوجاتی ہیں جس کی دلیل یہ دو احادیث ہیں...''
پھر اُنہوں نے حضرت عائشہؓ کی اپنی گڑیوں سے کھیلنے اور حضرت ربیع ؓ بنت ِمعوذ کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں اُنہوں نے چھوٹے بچوں کو روزے کی تربیت کے دوران روئی کے کھلونے بناکردینے اور ان سے جی بہلانے کا تذکرہ کیا ہے۔
ان احادیث کی تحقیق و تخریج کے بعد نتیجہ کے طورپر مزید فرماتے ہیں:
فقد دلّ هذان الحدیثان علی جواز التصویر واقتنائه إذا ترتبت من وراء ذلك مصلحة تربویة تُعین علی تهذیب النفس وتثقیفها وتعلیمها، فیلحق بذلك کل ما فیه مصلحة للإسلام والمسلمین من التصویر والصور۔ ویبقی ما سوٰی ذلك علی الأصل وهو التحریم مثل صور المشایخ والعظماء والأصدقاء ونحوها ممّا لا فائدة فیه بل فیه التشبه بالکفار عبدة الأصنام... واﷲ أعلم 3
''یہ دونوں احادیث جوازِ تصویر اوراستعمال پر دلیل ہیں، بشرطیکہ اس سے ایسی کوئی تربیتی مصلحت پوری ہورہی ہے جس سے کسی فرد کے تہذیب وسلیقہ اور تعلیم میں مدد ملتی ہو۔ اس جواز سے تصویر کشی اورتصاویر کی وہ صورتیں بھی ملحق ہوجاتی ہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کی کوئی دینی مصلحت پائی جاتی ہو۔ البتہ اس کے ماسوا اُمور میں تصویر کی حرمت اپنی جگہ پر قائم ودائم ہے، مثلاً مشایخ، بڑی ہستیوں، دوستوں وغیرہ کی تصویر کشی جس میں بتوں کے بچاری کفار کی مشابہت کے سوا کوئی دینی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔''
شیخ ناصر الدین البانی کا مذکورہ بالا موقف پہلے حلقے کے دوسرے علما والا ہے۔ جس میں حدیث ِنبویؐ کی بنا پر گڑیوں کے استثنا کو دلیل بناتے ہوئے اس پر باقی ضروریاتِ دین ومعاشرہ کو قیاس کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل علماے عرب نے اس حدیث کی بجائے تصویر کے شرعی احکام کو عمومی مقاصد ِشریعت کے پیش نظر اضطراراً یا اَخف الضررین یا مصلحت کے قواعد کے تحت گوارا کیا ہے ... واللہ اعلم ملاحظہ فرمائیں۔
مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فجمیع الصور للذکرٰی تُتلف بالتمزیق أو بالإحراق، إنما یُحتفظ بالصور التي لها ضرورة کالصورة في حفیظة النفوس وما أشبه ذلك
'' گزری یادوں کو محفوظ کرنے کے لئے بنائی گئی تمام تصاویر کو جلا یا پھاڑ کر تلف کردینا ضروری ہے، البتہ ایسی تصاویر جن سے کوئی شرعی ضرورت پوری ہوتی ہو ، مثلاً لوگوں (یا مجرموں) کی شناخت وغیرہ جیسی ضرورتیں تو ان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔''4
سعودی عرب کے متبحر عالم دین شیخ ابن جبرین کا موقف بھی تصویر کی حرمت پر دوٹوک ہے، البتہ وہ بھی اضطراری صورت میں ہی تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں :
وقد یُستثنٰی في هذہ الأزمنة الأوراق النقدیة التي فیها صُور المُلوك وکذا الجوازات وحفائظ النفوس للحاجة والضرورة إلی حملها ولکن یُقتصر علی قدر الحاجة... واﷲ أعلم 5
''فی زمانہ کرنسی نوٹوںپر حکمرانوں کی تصاویرممانعت ِتصویر کے شرعی حکم سے مستثنیٰ ہیں، ایسے ہی پاسپورٹ، شناختی کارڈ وغیرہ جن کی وجہ ان کو ساتھ رکھنے کی ضرورت اور تمدنی حاجت ہے (وہ بھی مستثنیٰ ہیں) ، البتہ یاد رہے کہ ان کا جواز اسی حاجت تک ہی محدود رہے گا۔''
سعودی عرب کے ایک عالم محمد علی صابونی اپنی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
بل یُقتصر فیه علی حد الضرورة کإثبات الشخصیة وکل ما فیه مصلحة دنیویة مما یحتاج الناس إلیه، واﷲ أعلم 6
''بلکہ تصویر کی اجازت کے سلسلے میں ضرورت تک ہی محدود رہا جائے گا، جیسا کہ شناختی ضرورت یا ایسی کوئی بھی دنیوی مصلحت ہے جس کے لوگ محتاج ہوتے ہیں۔''
مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب علماے کرام (بشمول علماے عرب) اصلاً تصویر کی حرمت کے قائل ہیں، اور جدید تصاویر کو بھی اسی حرمت میں شامل سمجھتے ہیں لیکن اِضطراریا مقاصد عامہ کے تحت تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
دوسرا گروہ
مسئلہ تصویر پردوسرا گروہ اُن اہل علم کا ہے جو عام تصویر کو تو حرام قرار دیتا ہے، لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کو ایک توجیہ کے ذریعے تصویر کے اصل حکم سے خارج سمجھتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک جدید ترین تصاویربراہِ راست حکم شرعی میں شامل نہیں اورفرامینِ نبویؐ صرف انہی تصاویر پر صادق آتا ہے جو آپ کے دور میں مروّج تھیں۔ اس گروہ کی نمائندگی مذاکرہ میں جماعت ِاسلامی کے مولانا عبد المالک صاحب اور جامعہ اشرفیہ کے مولانا محمدیوسف خاں نے کی۔
چنانچہ مولانا عبد المالک صاحب نے مسئلہ تصویر کو ضرورت اور حاجت کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا رجحان اختیار کیا۔ ان کی نظر میں ہر وہ تصویر جس کی حاجت ا ورضرورت نہیں، اس کو حرام ہونا چاہئے مثلاً پورٹریٹ، بیج، خواتین کی تصویر اور تصویری نمائشیں وغیرہ۔ البتہ ایسی تصاویر جن کی کوئی دینی یا معاشرتی ضرورت موجود ہے، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔ گویا وہ تصویربنانے کو توناجائز سمجھتے ہیں، البتہ دو فقہی قواعد (ii) کے سبب ان کو بقدرِ ضرورت جائز قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک ان کا موقف پہلے گروہ کے ساتھ ہے۔
جہاں تک ٹی وی اور ویڈیو کا تعلق ہے تو مولانا موصوف نے اس سلسلے میں یہ توجیہ اختیار کی ہے کہ چونکہ ان دونوںمیں تصویر کا کوئی ظاہری وجود نہیں ہوتا، اس لئے یہ دونوں جدید ذرائع تصویر کے مروّجہ شرعی حکم سے خارج ہیں۔ چنانچہ ٹی وی کے مسئلہ کو حرمت کی بجائے آلہ اور وسیلہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اس آلہ؍ وسیلہ کو تبلیغ دین کے لئے استعمال کرنے کی ہرممکن کوشش ہونی چاہئے۔ بالفرض ٹی وی کی حرمت کو بھی تصویر کے حکم نبویؐ میں داخل سمجھ لیا جائے تو جنگ ِقادسیہ میں ہاتھی کی مورتی بنانے کی غالب حکمت کے مثل اس کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ مزید تفصیل کے لئے مولانا کا مکمل خطاب ملاحظہ فرمائیں۔
ایسا ہی موقف ان علما کا بھی ہے جنہوں نے تصویر کی حرمت کو کاغذ پر وجود سے مشروط قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک جب تک کیمرہ کی تصویر کاغذپر شائع نہ ہوجائے، اس وقت تک وہ حرام نہیں ٹھہرتی۔ اس بنا پر وہ عام تصویر اورکیمرہ کی تصویر کو تو حرام سمجھتے ہیں لیکن ڈیجیٹل کیمرہ اور ٹی وی، ویڈیو کی تصویر میں اصلاً جواز نکالتے ہیں کہ یہ محرم تصویر ہی نہیں ہے۔
ان کے نزدیک چونکہ ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام میں حفاظت یا دوام کا کوئی پہلو موجودنہیں ہوتا بلکہ وہ محض نشریاتی لہریں ہوتی ہیں، اس بنا پر عکس اور حبس الظّل ہونے کے ناطے ٹی وی نشریات میں شریک ہونا جائز ہے اور یہ تصویر کے حکم ممانعت میں شامل نہیں بلکہ یہ محض ایک نشریاتی عکس ہے۔ علاوہ ازیں ویڈیو فلم میں بھی چونکہ ظاہری طورپر کوئی تصویر موجود نہیں ہوتی بلکہ برقی ذرّات کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے، اس بنا پر اس کو بھی حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تبصرہ: دراصل اس موقف میں تصویر کو نفسِ تصویر کی بجائے بعض دیگر خصائص کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر شرعی حکم لگایا جارہا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی تصویر کاغذ پر پرنٹ کرنے کی بجائے کمپیوٹر سکرین پر ہی دیکھی جاسکے تو اس تصویر کو حرام کیوں نہیں کہا جائے گا جیسا کہ اس دورکے ڈیجیٹل کیمروں میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ شاذونادر ہی کوئی تصویر کاغذ پر شائع کی جاتی ہے اور اکثر پردئہ سکرین تک ہی محدود رہتی ہیں جبکہ ایسی تصویر میں بھی دوام،جاذبیت اور تصویر کے دیگر خصائص بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔
ان علما کے اس موقف کے پس پردہ عکس اورتصویر کا باہمی فرق کارفرما ہے۔ عکس اور تصویر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عکس کا وجود اصل پرقائم ہوتا ہے اور اصل کے ختم ہوجانے سے عکس بھی جاتا رہتا ہے۔ ان کی نظر میں جب کوئی تصویر کاغذ پر منتقل ہوجائے تو وہ عکس کی بجائے ثبوت اور دوام اختیار کرجاتی ہے، اس لئے وہ حرام ہے۔ دوام کی یہ خصوصیت اس لئے بھی ہے کیونکہ اصل پر قائم تصویرکی بقا کا کوئی امکان نہیں ہوتا، اسلئے شرک کا امکان بھی معدوم ہوجاتا ہے۔
ہماری نظر میں دوام کی یہی خصوصیت ویڈیو اور جدید ڈیجیٹل کیمرہ میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہاں تصویر کا وجود عکس کے بجائے مستقل بالذات ہوجاتا ہے، البتہ یہ استقلال واستقرار کاغذ کی بجائے جدید میڈیا کی شکل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ دوام اور ثبوت کو صرف کاغذ میں منحصر سمجھنا درست نہیں۔ تصویر کی حرمت کو اسی بات سے مشروط کرناکہ وہ کاغذ پر یا سادہ انداز میں موجود ہو ، مناسب نہیں بلکہ میڈیا کی کسی بھی صورت میں اس کا مستقل وجود، چاہے وہ کمپیوٹر ڈاٹا کی شکل میںہو، اپنی تصویری خصوصیت وحکمت ِممانعت کے باعث قابل گرفت ہے۔ البتہ ٹی وی کی ایسی نشریات جن کو محفوظ نہیں کیا جاتا، ان کے بارے میں عکس کی اس توجیہ میں امکانِ شرک کے نہ ہونے کی حد تک تو وزن موجود ہے کیونکہ وہ مستقل بالذات قائم نہیں رہتیں۔ ڈیجیٹل کیمرے اور ویڈیو فلم والی تصویر کو براہِ راست نہ سہی تو کم از کم سد ذریعہ کے طور پر حرام ہونا چاہئے کیونکہ ایسی تصویر میں شرک کا نکتہ آغاز بننے یا نحوست پیدا کرنے کی صلاحیت تو بہرحال بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔
ٹی وی، ویڈیو کے بارے میں مذکورہ بالا موقف مولانا محمد تقی عثمانی نے اختیار کیا ہے جس کی تفصیل حافظ محمد یوسف خاں کے مقالہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے ہاں ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر اور عام کیمرہ کی تصویر کی ممانعت برقرار ہے۔ البتہ جامعہ اشرفیہ، لاہور کا ٹی وی کے بارے میں فتویٰ قدرے مختلف ہے کہ آلہ لہو ولعب ہونے کی وجہ سے اس کو استعمال کرنا یا اس پر تصویر نشر کرنا درست نہیں۔ اور مولانا برہان الدین سنبھلی نے بھی اپنی کتاب میں یہی فتویٰ دیا ہے ۔7
اس سلسلے میں بعض علما کے لئے ایک مشکل فقہاے اَربعہ کے اقوال کی کوئی مناسب توجیہ کرنا ہے کیونکہ فقہاے اربعہ حرمت ِتصویر کے مسئلہ پر متفق ہیں۔ چنانچہ حنفی بریلوی علما میں سے مثلاً مولانا شیخ الحدیث شیرمحمدخاں نے قرار دیا کہ جدید دور کی تصویر کو بعض قیود کے ساتھ جائز ہونا چاہئے اوراس احتمالی جواز کی گنجائش کے لئے عرف ورواج یعنی تبدیلی حالات کے تصور سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، اسی بنا پر فقہا کے فتاویٰ میں فی زمانہ گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ ا س سلسلے میں اپنے خطاب میں اُنہوں نے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ کی ذکر کردہ بہت سی مثالیں پیش کیں ـ۔ بہرحال توجیہ کے اس رجحان میں کئی ایک لوگ شامل ہیں جو مختلف شبہات (عکس، ہاتھ کا استعمال ) کے سہارے جدید آلاتِ تصویر کے استعمال کے لئے اصل حکم سے ہی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔
الغرض اس گروہِ علما کے ہاں بھی تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا جائز بلکہ ضروری ہے کیونکہ ٹی وی؍ ویڈیو کی صورت میں بالخصوص تصویر کی شرعی ممانعت ہی موجود نہیں۔ نتیجہ یہاں بھی آخرکار وہی ہے کہ'' ٹی وی پرآنے کا شریعت میں اصلاً ہی جواز ''پایا جاتا ہے۔
تیسرا گروہ
اس سلسلہ میں آخری گروہ بعض عرب اہل علم کا ہے جن کے ساتھ متجددین بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ان میں ایک طبقہ تو ان مصری علما کا ہے جو علامہ قرضاوی کی سرپرستی میں تصویر کی حرمت کو اس کے اصل الفاظ کی بنا پر صرف ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر تک محدود کرنے کا میلان رکھتے ہیں اور ہر قسم کی فوٹو گرافی کو اصلاً جائز قرار دیتے ہیں۔
علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب (الحلال والحرام في الإسلام) میں یہ موقف مصر کے ایک عالم محمدبخیت کی کتاب الجواب الشافي في إباحة التصویر الفوتوغرافي سے متاثر ہوکر اختیار کیا ہے۔ دیگر مصری علما میں شیخ سائس (آیات الاحکام: 4؍61) او رڈاکٹر احمد شرباصی (یسئلونک في الدین والحیاة: 1؍632) وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس موقف کے بعض راسخ فکر علما بھی شکار ہوگئے ہیں، جن میں سعودی عرب کے شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ اور کویت کے شیخ عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان کی نظر میں تصویر کی حرمت میں ہر قسم کی فوٹوگرافی بشمول ٹی وی ویڈیو وغیرہ سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔
دوسرے گروہ سے ان کے موقف میں فرق یہ ہے کہ یہ موجودہ دور کی ہرقسم کی فوٹو گرافی کو عکس کی بنا پرمستثنیٰ سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرا گروہ کیمرے کی تصویر کو تو ناجائز خیال کرتا ہے لیکن ڈیجیٹل کیمرے اور ٹی وی؍ ویڈیو کو جائز قرار دیتا ہے۔ مزید برآں تیسرا گروہ جدید آلات کی تصاویر کو حرام تصویر ہی نہیں سمجھتابلکہ اسے عکس قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرے گروہ کے لوگ اس میں تصویر کے بعض اوصاف مثلاً ثبوت ودوام نہ ہونے کے سبب اُنہیں تصویر کے شرعی حکم سے خارج سمجھتے ہیں۔
یہ اہل علم کہتے ہیں کہ مشابہت بہ خلق اللہ کا مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوگا جب کوئی فرضی شخصیت ہو یا حقیقی شخصیت کی ہو بہو تصویر نہ بنے، جیسا کہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اصل کے بالکلیہ مطابق نہیں ہوتی۔ ان کی نظر میں ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر تو انسان کی ذہنی واردات ہے جبکہ فوٹو گرافی امر واقعہ کی حکایت ہے۔ چنانچہ ایسی تصویر جو اصل خلقت کا ہی عکس ہے، اس پر حدیث میں وارد یہ الٰہی اعتراض پیدا ہی نہیں ہوگا کہ وہ اس میں روح پھونک کردکھائے، یہ مشابہت نہیں بلکہ محض حبس الظل ہے۔ شیخ ابن عثیمین کی زبانی اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
والأحادیث الواردة إنما هي في التصویر الذي یکون بفعل العبد ویضاهي به خلق اﷲ ویتبین لك ذلك جیّدًا بما لو کتبَ لَکَ شخصٌ رسالةً فصوَّرتها في الآلة الفوتوغرافیة فإن هذہ الصورة التي تخرج لیست هي من فعل الذي أدار الآلة وحرکها فإن هذا الذي حرّك الآلة ربَّما یکون لا یعرف الکتابة أصلاً والناس یعرفون أن هذا کتابة الأول والثاني لیس له أي فعل فیها ولکن إذا صُوِّر هذا التصویر الفوتوغرافي لغرض محرم فإنه یکون حرامًا تحریم الوسائل
''تصویر کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں، وہ بندے کے ایسے فعل کے حوالے سے ہیں جس میں وہ اللہ کی خلقت کی مشابہت کرتا ہے۔یہ بات آپ بہتر جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کو خط لکھ کردے اور فوٹو گرافی کے آلہ(فوٹو سٹیٹ مشین) سے آپ اس کی تصویر بنائیں تو اس سے نکلنے والی تصویر اُس شخص کا فعل نہیں کہلاتی جس نے مشین کو چلایا اور اسے حرکت دی ہے۔کیونکہ بعض اوقات فوٹو کاپی کرنے والا شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو سرے سے لکھنا ہی نہیں جانتا۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ فوٹو کاپی پہلے شخص کی ہی لکھائی ہے، اور دوسرے شخص کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔البتہ جب ایسی تصویر کو کسی حرام مقصد کے لئے بنایا جائے تو پھر یہ تصویر سد ِذریعہ کے طورپر حرام قرار پائے گی۔''
ایک اور مقام پر علامہ رحمة اللہ علیہ نے احتیاطاً ایسی تصویر سے شبہ کی بنا پر گریز کا مشورہ دیا ہے۔ یعنی ان کے ہاں فتویٰ تو ایسی تصویر کے جواز کا ہے ، البتہ تقویٰ کے پہلو سے بچنا بہتر ہے۔
یہ موقف رکھنے والے گروہ پرپاکستان کے اہل علم مثلاً مولانا گوہر رحمن وغیرہ کے علاوہ عالم عرب کے متعدد علما مثلاً شیخ ابن باز، شیخ صالح فوزان اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اس استدلال اور مثال کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا مثال کو اگر تسلیم بھی کرلیا جاے تو یہ مشابہت بہ خلق اللہ کی علت کو رفع کرنے کی حد تک ہی مؤثرہے جبکہ ایسی تصویر میں ذریعہ شرک بننے یا نحوست کا سبب بدستور برقرار رہتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بنا پر تو ایسے مصور کے فعل کو ہی حرام ہونا چاہئے جو فرضی تصویریں بناتا ہو، جبکہ ایسا مصور جو کسی جاندار کی صد فیصد تصویر بنانے پر قادر ہو، اس پر یہ حرمت لاگو نہیں ہونی چاہئے، وغیرہ۔ دراصل یہ مثال ہی درست نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص قتل کرنے کی قوت نہ رکھتے ہوئے بھی ریوالور کے ذریعے اگر دوسرے کو قتل کردے تو اس صورت میں اسے ہی قاتل سمجھا جائے گا، ریوالور کو نہیں۔ سعودی عرب کے عالم شیخ صالح فوزان نے اس پرپانچ اعتراضات عائد کرتے ہوئے آخر کار یہی نتیجہ قرار دیا ہے کہ
فتبیَّن مما تقدَّم أن التصویر بجمیع أنواعه تماثیل أو غیر تماثیل، منقوشًا بالید أو فوتو غرافیًا مأخوذًا بالآلة کله حرام وأن کل من حاول إباحة شيء منه فمحاولته باطلة وحجته داحضة 8
''مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ تصویر کی ہر نوع حرام ہے، چاہے وہ مجسّمے ہوں یا اس کے علاوہ۔ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا آلہ کے ذریعے فوٹوگرافی ہو، سب تصاویر حرام ہیں۔ اور جو شخص بھی ان میں سے کسی تصویر کو جائز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ کوشش باطل اور اس کی دلیل غیر معتبر ہے۔''
دیارِ سعودیہ کے سب سے معتبر اور محترم مفتی شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ فرماتے ہیں:
ومن أعظم المنکرات تصویر ذوات الأرواح واتخاذها واستعمالها ولا فرق بین المجسّدة وما في الأوراق مما أُخِذَ بالآلة
''بدترین گناہوں میں سے ذی روح کی تصویر بھی ہے کہ اس کو بنایا اوراستعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں مجسم اور کاغذوں پر آلاتِ تصویر سے لی جانے والی تصاویر میں کوئی فرق نہیں۔''
ایک اور عرب عالم شیخ ولید بن راشد سعیدان اس استدلال کی تردید یوں کرتے ہیں:
إنما المعتبر في ذلك کله وجود الصورة لذوات الأرواح وإن اختفلت وسیلة إنتاجها والجُهد الذي یبذل فیها، وقد تقرَّر في القواعد أن الحکم یدور مع علته وجودًا وعدمًا۔ 9
''فوٹوگرافی میں اعتبار ذی روح کی تصویر کے وجود کاہی کیا جائے گا، باوجودیکہ اس کے حصول کا اُسلوب اوراس پر صرف کردہ محنت مختلف نوعیت کی ہو۔ فقہ کے قواعد میں یہ امرمسلمہ ہے کہ شرعی حکم اپنی علت کے وجود او رعدم وجود کے ساتھ ہی مربوط رہتا ہے۔''
بہر حال ان جوابی دلائل کا مطالعہ ان کی کتب میں کیا جاسکتا ہے ، جہاں اس موقف کی پوری تردید بھی موجود ہے۔ مذاکرہ میں حافظ محمد زبیر نے اس موقف کی طرف اشارہ کیا تھا۔
آخری گروہ کا دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اصل کے اعتبار سے ہی اس مسئلہ کو شرعاً جائز قرار دیا ہے، اور وہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کا ادارہ 'المورد'ہے جو اصلاً ہی اس بنا پر تصویر کو فی ذاتہ جائز بلکہ مرغوب ومطلوب قرار دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتے ہیں۔یہ لوگ قرآنِ کریم کی آیت میں حضرت سلیمانؑ کے واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان کے لئے تو ایک فعل جائز ہو اور قرآن اس کو جائز قرار دے، لیکن شریعت ِمحمدیؐ میں آکر یہ پسندیدہ 'فعلِ تشکر' مذموم ٹھہر(iii) جائے، اور احادیث میں ان کی حرمت اور شناعت کا بیان آجائے۔
زیادہ مناسب ہے کہ اس موقف کو تیسرے کی بجائے مستقل چوتھے گروہ کے طورپر سمجھا جائے کیونکہ غامدی حلقہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اورمجسّموں کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ چنانچہ تصویر کی حرمت کے مروّ جہ شرعی موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے غامدی حلقہ تصویرکی حرمت کو خالصتاً خارجی وجوہات پر موقوف ٹھہراتا اور احادیث میں بیان کردہ حرمت و شناعت کو ان خارجی وجوہات کے حوالے سے ہی مخصوص قرار دیتا نظر آتا ہے۔ تجدد پسندوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہر نوعیت کی تصویر کو براہِ راست مطلوب قرار دیتا ہے۔ ان کا مجسمہ سازی کے بارے میں بھی یہی موقف ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں ذی روح اور غیر ذی روح میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے۔
ان کی نظر میں فی زمانہ تصویرشرک کی بجائے معلومات کو بآسانی منتقل کرنے او ریادداشت کو محفوظ رکھنے کی خاطر استعما ل ہورہی ہے جو ایک تمدنی ضرورت ہے، جس کی اسلام میں اس کی کوئی ممانعت موجود نہیں۔فن مصوری کے بارے میں ایک سوال پر ان کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
''وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں... قرآنِ مجید اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اس فن سے فائدہ اُٹھانے کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اس پر شکر بجا لانے کو کہتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندرایسی شرافت رکھتا ہے کہ اسے کوئی بھی مسلمان اختیا رکرے۔''10
بہرحال اس آخری گروہ کا موقف بھی یہ ہے کہ ٹی وی پر آنا شرعی حوالے سے کوئی ناپسندیدہ امر نہیں بلکہ شریعت کے حکم ممانعت میں ہرتصویر سرے سے داخل ہی نہیں۔
نتیجہ و ثمرہ
مذکورہ بالا تینوں گروہوں کے جہاں مسئلہ تصویر پر موقف باہم مختلف ہیں، وہاں اس مسئلہ کے جواز کے لئے ہر صاحب ِعلم نے اپنے اپنا اُسلوبِ استدلال اختیا رکیا ہے۔ایسا تو ضرور ہوا کہ کوئی شخصیت کھلے بندوں اس معاملہ کو جائز قرار دے رہی ہے اور کوئی مجبوری واضطرار یا حالات کے جبر کے نام پر بادلِ نخواستہ اس ضرورت کو تسلیم کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر موقف کے استدلال اور توجیہ سے نتائج میں بھی خاطر خواہ فرق واقع ہوتا ہے، چنانچہ
پہلے گروہ کے موقف ِاضطرار یا اخف الضررین کے مطابق سنگین حالات میں تصویر کی گنجائش نکالی جائے گی اور وہ بھی بادلِ نخواستہ۔ جبکہ پہلے گروہ کے دوسرے موقف کے مطابق گڑیوں کے کھیل سے استدلال کرتے ہوئے یا مقاصد عامہ کے تحت ایسی تمدنی ضروریات کے لئے تصویر کی اجازت ہوگی جن کا حصول شریعت میں اصلاً جائز ہو۔
دوسرے گروہ کے مطابق تصویر تو حرام ہے لیکن وصف ِدوام نہ ہونے کے سبب وہ ٹی وی اور ویڈیو کو حرمت ِتصویر سے نکال لیتے ہیں۔ اس لئے ان کے ہاں ٹی وی ، ویڈیو اور ڈیجیٹل کیمرہ کو حسب ِخواہش استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ تیسرے گروہ کے ہاں فوٹوگرافی تصویر کا مصداق ہی نہیں، اس لئے صرف وہی تصویر حرام ہے جو ہاتھ سے بنائی جائے۔ چنانچہ تصویر بنانے اور فلم وویڈیو کی کھلی اجازت ہے، بلکہ آخری موقف کے مطابق تو یہ مطلوب شے ہے۔ بہرطوراَب آپ ان تقاریر کو خود بھی ملاحظہ فرمائیے ۔ پروگرام کے آخر میں متفقہ طورپر منظور کی گئی قرارداد حسب ِذیل ہے:
''ملی مجلس شرعی کے زیراہتمام اس کے مستقل ارکان اور جملہ مکاتب ِفکر کے علماے کرام کا یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتاہے کہ اسلام کا حیات آفریں پیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے ازالے کے لیے علماے کرام کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایسے تعمیری، اصلاحی اور تعلیمی پروگرام بھی تیار کیے جانے چاہئیں جو شرعی منکرات سے پاک ہوں، اسلامی دعوت واصلاح اور تبلیغ کے لیے مفید ہوں اور جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناجائز اور مکروہ پروپیگنڈے کاتدارک ہوتاہو۔''
جامعہ سلفیہ، فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی صاحب نے اس قرارداد پر اپنے قلم سے یہ اضافہ کیا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کئے کہ
'' میڈیا پر جو تصاویر آتی ہیں، ان کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہوئے إلا من أکرہ وقلبہ مطمئنکے پیش نظرمیڈیا سے دفاعِ اسلام درست ہے۔''
اس موقع پر مولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے بھی ایک تحریربطورِ قرار داد تیار کی تھی جو پیش تو نہ کی جاسکی، البتہ معلومات اور موقف کے اظہار کے لئے اس کا مسودہ ملاحظہ فرمائیے۔
''اہل سنت کے تینوں مکاتب ِفکر اہلحدیث،دیوبندی اور بریلوی علماء کاایک اجتماع جامعہ اسلامیہ، جوہرٹاؤن لاہور میں بتاریخ ۱۳؍اپریل 2008ء کو منعقد ہوا۔موضوع تھا:
تبلیغ ودعوت کے لئے الیکٹرانک میڈیا(ٹی وی،انٹرنیٹ وغیرہ)کااستعمال جائز ہے یا نہیں؟
تمام علما نے اپنی اپنی رائے کااظہار کیا اور اس مؤقف پر تقریباًتمام علما نے اتفاق ظاہر کیا کہ
تصویر کی حرمت قطعی اور ابدی ہے، اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔
تصویر ہاتھ سے بنی ہوئی ہو یا کیمرے کے ذریعے سے، دونوں میں کوئی فرق نہیں اور دونوں ہی یکساں طور پر حرام ہیں۔
آج کل بعض لوگ دینی رہنماؤں،بزرگوں اور پیروں کی تصویریں فریم کراکر دکانوں اور گھروں میں آویزاں کرتے ہیں، اسی طرح بعض علماء اور نعت خوانوں کی تصاویر پر مبنی اشتہارات عام شائع ہورہے ہیں، یہ سب ناجائز اور حرام ہیں۔
تاہم ٹی وی وغیرہ پر لادینیت کی جو یلغار ہے، اس کے سدباب کے لیے علما کے تبلیغی پروگراموں میں حصہ لینے کی اسی طرح گنجائش ہے جیسے شناختی کارڈاور پاسپورٹ وغیرہ کے لیے بامر مجبوری تصویر کا جواز ہے۔''
آخر میں سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیے:
''النهي عن التصویر عام دون نظر إلی الآلة والطریقة التي یکون بها التصویر۔ أما التلفزیون فیحرم ما فیه من غناء أو موسیقي وتصویر وعرض صور ونحو ذلك من المنکرات ویُباح ما فیه من محاضرات إسلامیة ونشرات تجاریة أو سیاسیة ونحو ذلك مما لم یرد في الشرع منعه وإذا غلب شرہ علی خیرہ کان الحکم للغالب''
''تصویر کی حرمت عام ہے، چاہے آلہ یا کسی بھی طریقہ سے تصویر لی جائے۔ البتہ ٹی وی پر گانے، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات حرام ہیں،لیکن اسلامی لیکچر، تجارتی اور سیاسی خبریںجن کی شریعت میں ممانعت وارد نہیں، جائز ہیں۔البتہ جب اِن کا شر خیر پر غالب آ جائے تو اعتبار غالب کا ہوگا۔ '' 11
مذکورہ بالا قراردادوں اور فتاویٰ سے یہ بات البتہ کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ حالات میں تصویر کی حرمت کی بنا پر ٹی وی مذاکروں مباحثوں میں شرکت نہ کرناشرعی طورپر کوئی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ پاکستان کے جملہ مکاتب ِفکر کے علما نے تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو گوارا یا جائز سمجھنے پر اتفاق کیا ہے، البتہ کسی انتظامی مشکل یا ٹی وی پروگرام کی نوعیت و ترتیب کے پیش نظر اس سے وقتی طورپر ضرور گریز کیا جاسکتا ہے۔ علما کو نہ صرف اس حوالے سے مزید کوششیں بروے کار لاتے ہوے اپنے تجربہ واستدلال کو کام میں لانا چاہئے بلکہ دیگر ایسے ذرائع جن کے بارے میں کسی قسم کی حرمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ان تک بھی اپنی دعوت کو وسیع کرنا چاہئے مثلاً ایف ایم ریڈیو چینل اور انٹرنیٹ وغیرہ۔
یاد رہے کہ موجودہ متفقہ فتویٰ کا محرک وہ صورتحال ہے جس نے ٹی وی پر چینلوں کی کثرت کے حوالے سے جنم لیا ہے، اس کا شافی وکافی جواب اُسی مقام پر ہی دیا جاسکتا ہے جہاں سے یہ فتنہ پیدا ہورہا ہے۔ علما کے روایتی ذرائعِ دعوت ،منبر ومحراب اور رسائل وجرائد سے نئے پیدا ہونے والے فکری انتشار کا مداوا ممکن نہیں۔ فی الوقت علما کے منصب ِتبلیغ دین کے حوالے سے یہ المناک صورتحال درپیش ہے کہ عوام کے دینی رجحانات وتصورات مسخ کئے جارہے ہیں، اس لئے اس کا شافی جواب ہرصورت دیا جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ علما کو اپنے فرائضِ منصبی کو مزید بہتر طورپرپورا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور فرمائے ۔
مسئلہ تصویر پر بعض مصادر ومراجع صفحات
- الجواب المفید في حکم التصویر (عربي؍اردو) ص 20
- شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز
- حکم الإسلام في التصویر (عربي) ص 68
- شیخ ابن باز، شیخ ألباني، شیخ صالح فوزان، شیخ صابوني
- حکم التصویر الفوتوغرافي (عربي) ص 25
- شیخ ولید بن راشد السعیدان
- تصویر سازی اور فوٹو گرافی کی شرعی حیثیت ص62
- مولانا گوہر رحمٰن
- تصویر کے شرعی احکام (اردو)
- مولانا مفتی محمد شفیع
- أحکام التصویر في الشریعة الإسلامیة (عربی؍اردو) ص 25
- شیخ عبد الرحمن عبد الخالق، کویت
- حکم التصویر وحکم اقتناء الصور وحکم الصور التي تمثل الوجه
- شیخ محمد بن صالح العثیمین (عربي؍اردو) ص 12
- الجواب الشافي في إباحة التصویر الفوتو غرافي (عربي)
- شیخ محمد بخیت المصري
- حکم التصویر الفوتوغرافي (عربي؍اردو) ص 12
- شیخ محمد بن صالح العثیمین
- فوٹو گرافی کا جواز (اردو) ص 94
- رانا محمد شفیق پسروری
- تصویر کا مسئلہ (اردو) ص 96
- محمد رفیع مفتي
- جواز تصویر (اردو) ص 70
- مفتی ڈاکٹر غلام سرور قادری
- محمد رفیع مفتي
حوالہ جات
1. الجواب المُفید از شیخ ابن باز: رحمة اللہ علیہ ص 22
2. أحکام التصویر في الإسلام: 66
3. ایضاً:67
4. فتاوی المرأة: 15
5. فتاوی المرأة: 17، 18
6. روائع البیان:2؍416
7. دیکھیں' موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل': ص204
8. حکم التصویر: ص 58
9. حکم التصویر الفوتوغرافي: 23
10. 'تصویر کا مسئلہ' از محمد رفیع مفتی: ص 96
11. فتاوٰی اللجنة الدائمة:1؍674، فتویٰ نمبر:5706
i. الصورة الرأس فذا قُطع فلا صورة (أخرجہ البیہق2707) وصحَّحہ الألبانی
ii. ''الضرورات تبیح المحظورات'' اور ''الحاجة قد تُنْزَل منزلة الضرورة'' وغیرہ
iii. حالانکہ حضرت سلیمان کے تماثیل کے بارے میں علما کا یہ موقف ہے کہ وہ بے جان اشیا کی تماثیل تھیں یا ان کی اجازت صرف ان کی شریعت تک محدود تھی، احادیث میں واضح طورپر بکثرت آجانے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو تصویریں مٹانے کے مشن پر متعدد بار بھیجنے سے شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف اس بارے میں بالکل واضح اور بین ہے۔اب بہن بھائیوں کی آپس میں شادی وغیرہ کو بھی کیا محض اسی بنا پر آج گوارا کرلیا جائے؟