تصویر کی شرعی حیثیت اور تبلیغ دین کیلئے ویڈیو؟

الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰة والسلام علی خاتم النبیین وبعد! ...

ہمارے پیش نظر دو چیزیں ہیں، ایک تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
اور دوسری یہ کہ تصویری میڈیا میں اسلامی عقائد و افکار کی تبلیغ و ترویج کی غرض سے حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ ان ہر دو مسائل کا حکم بھی الگ الگ ہے۔

جہاں تک تصویر کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس پربحث کرنے کی ضرورت نہیںہے۔ کیونکہ نبی کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور یعنی خیرالقرون میںیہ مسئلہ حل ہوچکا ہے، جیسا کہ سعید بن ابی الحسن بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس موجود تھا۔ دریں اثنا ان کے پاس ایک آدمی آیا اورگذارش کی کہ اے ابن عباسؓ! میری معیشت اور گذران اپنے ہاتھ کی صنعت ہے اور میں تصاویر اور فوٹو بنانے کا کام کرتا ہوں، (تو اس بارے میں آپ کا حکم کیا ہے؟) حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے جواب دیا: میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کردیتا ہوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من صَوَّر صورة فإن اﷲ معذِّبه حتی ینفخ فیه الروح ولیس بنافخ فیها أبدًا) فَرَبَا الرجل ربوة شدیدةً واصفرَّ وجهه۔ فقال: ویحك إن أبیت إلا أن تصنع فعلیك بھذا الشجر وکل شيء لیس فیه روح 1
''جو شخص تصویر بناتاہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بنانے والے کو اس میں روح ڈالنے تک عذاب کرتا رہے گا، جبکہ وہ (مصور) اس میں کبھی بھی روح نہیں ڈال سکے گا۔ یہ بات سن کر فوٹو گرافر کا سانس چڑھ گیا اور اس کا چہرہ فق ہوگیا، تب عبداللہ بن عباسؓ نے اس سے کہا:''تجھے افسوس! اگر تو تصویر بنانا اب بھی ضروری سمجھتا ہے تو درختوں اور ایسی چیزوں کی تصویریں بنا لیا کر جو بے جان ہیں۔''

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں:
سمعتُ النبي! یقول: (إن أشد الناس عذابا عند اﷲ یوم القیامة المصوِّرون) 2
''میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب فوٹو گرافروں کو ہوگا۔''

یہ وعید توفوٹو بنانے والوں کے متعلق ہے اور فوٹو بنوانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر تنبیہ کردی:

وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ ۚ وَٱتَّقُواٱللَّهَ ۖ...﴿٢﴾...سورة المائدہ
'' گناہ اور زیادتی کے کاموں پر کسی سے تعاون مت کرو۔''

اگر کہا جائے کہ کیمرے اور وڈیو کی تصویر اس نہی اور ممانعت میں داخل نہیں ہے تو اس کے لئے اہل زبان کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ وہ کیمرے کی تصویر کا نام کیا رکھتے ہیں؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے تصویر اور اس کے بنانے والے کو 'مصور' ہی کہتے ہیں۔ تصویر بنانے والا خواہ کیمرے سے بنائے یا ہاتھ سے، دونوں اس ممانعت میں داخل ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایسی تصویریں بنانے والوں سے کہا جائے گا کہ ان میں روح بھی ڈالو اور وہ ڈال نہیں سکے گا۔ 3

یوں وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکے گا۔

الغرض جہاں تک تصویر کی شرعی حیثیت کی بات ہے تو جس چیز کے بارہ میں نص شرعی آجائے، وہاں تاویلیں کرکے اصل نص کو توڑ مروڑ دینا کسی اُمتی کو زیب نہیں دیتا۔

یاد رہے کہ اُمور شرعیہ دو قسم پرہیں:

  1. اُمورِ منصوصہ
  2. اُمورِ اجتہادیہ

علماے کرام اس چیز کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ منصوص اُمور میں دخل دیا جائے اور ان کی تاویلیں کرکے ان کو معاشرے کی روش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم منصوص اَقوال و اعمال کو تاویلات کی بھینٹ چڑھا کر اُنہیں لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلنے کی کوشش شروع کردیں تو یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے منافی ہے بلکہ یہ کمزور ایمان کی علامت ہے۔ کیونکہ ہمیں لوگوں کو شریعت ِاسلامیہ کے پیچھے چلانا ہے، اس کے برعکس شریعت کو لوگوں کے پیچھے نہیں چلانا ۔ علماے کرام کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اللہ ورسول ؐ کی ہدایت کے مطابق دین کی صحیح رہنمائی مہیا کریں، اور اُمورِ منصوصہ میں اس قسم کی متساہلانہ رائے دینے سے گریز فرمائیں۔ دیکھئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت منصوص ہے، اور جن لوگوں نے اس میں گنجائش نکالنے کے لئے اس پر ہاتھ ڈالا، ان کا حشر کیا ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ جاندار کی تصویر کی ممانعت بھی امر منصوص ہے، جس کے بنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصور یعنی فوٹوگرافر پر لعنت کی ہے۔ (صحیح بخاری: 5962) لہٰذا اس کے جواز کا فتویٰ دینے سے انتہائی احتیاط کرنا چاہئے، البتہ بعض استثنائی صورتیں ہیں جن کی اضطرار کی وجہ سے اجازت دی جاتی ہے جیسے کرنسی نوٹوں اور شناختی کارڈز کی تصویروں کو بامر مجبوری برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس میں ہماری رضا و رغبت کو دخل نہیں ہے۔
رہے اُمورِ اجتہادیہ جو شارع کی طرف سے منصوص نہیں توان میں ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد سے مختلف ہوسکتی ہے اور دوسرا مفتی دلیل کے ساتھ پہلے مفتی سے اختلاف کرسکتا ہے۔

تبلیغ کی خاطر ٹی وی پروگراموں میں شرکت
اب رہی دوسری بات کہ تبلیغ دین کی خاطر علماء دین کا ٹی وی پروگراموں میں شرکت کرنا، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ آپ قرآن و حدیث کی دعوت عوام تک پہنچانے کے لئے ٹی وی پروگرام میں حاضر ہوں تو اسے گوارا کیا جاسکتاہے، ورنہ فتنہ بازعناصر لوگوں کو راہِ حق سے بھٹکانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے سد ِباب کے طور پر، خالص قرآن و حدیث کی تعلیمات کو لوگوں میںپھیلانے کے لئے جدید وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ فوٹو اور تصویر کو ممنوع سمجھنے والا ٹی وی پروگراموں میں شرکت کیسے کرسکتا ہے تو اس کے جواز کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی ڈاکٹر، مریض عورت کے علاج کے ارادے سے اس کا چیک اَپ کرسکتا ہے، اس کی زبان یا آنکھوں کا مشاہدہ کرتا ہے، یا آپریشن کی غرض سے مریضہ کے مستور اعضاء کو مس کرتا یادیکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، علاج جیسی اہم ضرورت کے لئے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ اسی طرح بے دین یا دین اسلام سے غافل لوگوں تک حق کی آواز پہنچانے کے لئے جدید ذرائع پر دعوت و تبلیغ کا کام کیا جاسکتا ہے، اور ایسی تصویر کشی میں آپ کا ذاتی کوئی دخل نہیں ہوتا کہ آپ نے تصویر کو جائز قرار دیا اور نہ ہی کیمرہ مین کو بلایا، صرف ضرورتِ تبلیغ کے لئے آپ اس منکر کو برداشت کرتے ہیں، ورنہ ائمۂ مُضلّین (گمراہ کرنے والوں) کے لئے یہ میدان خالی ہوگا، اور کوئی روک ٹوک کرنے والا مقابلے میں نہیں ہوگا۔

لہٰذا یہ دو صورتیں الگ الگ ہیں اور ان دونوں کا حکم بھی جدا جدا ہے، علماے کرام کی موجودگی میں ، مَیں جسارت نہیں کررہا تو میری رائے میںعلماے کرام کو قرآن وحدیث کا محافظ بننا چاہئے اور جو اُمور و مسائل کتاب و سنت کی نصوص سے ثابت شدہ ہیں، اُنہیں اپنے اصل پر ہی باقی رکھنا چاہئے اور اس میں کسی قسم کی لچک کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔
اللہ ربّ العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم دینِ اسلام کے محافظ بن کر اس کی آبیاری کا فریضہ سرانجام دسکیں۔ آمین یا ربّ العالمین!


حوالہ جات
1. صحیح بخاری: 2225
2. صحیح بخاری: 5950

3. صحیح بخاری: 5963