سیدنا مغیرہ بن شعبہ کا قبولِ اسلام

مغیرہ بن شعبہ بن ابی عامر بن مسعود بن معتب بن مالک ثقفی آپ کا نامِ نامی تھا۔ طائف میں قبیلۂ بنی ثقیف کے جلیل القدر فرزند تھے اور غزوۂ خندق کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بڑے دانا، زیرک، معاملہ فہم، ذہین اور ہوشیار طبیعت کے مالک تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور آپؐ کے قرب سے بہت فیض پایا۔ صلح حدیبیہ اور بیعت ِرضوان میں شریک تھے۔طائف کا بت گرانے کے لیے بھیجی جانے والی جماعت میں آپ بھی شامل تھے۔ جنگ ِیمامہ، یرموک اور قادسیہ میں شریک ہوئے اور بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ فارسیوں کے قائد رستم سے گفتگو کے لئے حضرت سعد بن وقاصؓ نے ان ہی کو منتخب فرمایا تھا۔ ان کی زندگی کے حالات بڑے دلچسپ ہیں اور ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے علامہ واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ

مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ اپنے دین کفر پر ڈٹے ہوئے تھے۔ ہمارے لوگ لات بُت کے مجاور تھے۔ اسلام اور مسلمان دھیرے دھیرے اپنا دائرہ وسیع کررہے تھے مگر میں اسلام کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ میرا عزم تھا کہ اگر میری قوم مسلمان ہوبھی گئی تو میں کسی طرح مسلمان نہیں ہوں گا۔ ان حالات میں ہمارے قریبی خاندان بنو مالک کے چند لوگوں نے خیرسگالی کے طور پر مصر کے بادشاہ مقوقس کے ہاں جانے کا پروگرام بنایا۔ میں نے بھی ان کے ساتھ جانے کا عزم کرلیا۔ بادشاہ کے لئے عمدہ عمدہ تحائف جمع کئے گئے۔ میں نے اپنے چچا عروہ بن مسعود سے مشورہ کیا تو اُس نے میری تائید نہیں کی اور کہا کہ اس وفد میں تمہارے گھرانے کا کوئی فرد شریک نہیں ہے، اس لئے تمہارا جانابھی مناسب نہیں ہے۔ مگر میں نے اس کا یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفر کی تیاری کرلی۔ اس وفد میں میرے علاوہ ہمارے قبیلے کی شاخ بنومالک کے لوگ بھی تھے۔ [خیال رہے کہ یہ عروہ بن مسعود وہی ہے جو صلح حدیبیہ میں اہل مکہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نمائندہ بن کر آیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تھی ۔

کہتے ہیں کہ الغرض ہمارا یہ وفد روانہ ہوگیا اور اسکندریہ جاپہنچا اور اتفاق سے شاہِ مصر مقوقس بھی اس موقع پر ساحلِ سمندر پر اپنی ایک مجلس برپا کئے ہوئے تھا۔ میں ایک کشتی پر سوار ہوکر ان لوگوں کے سامنے جاپہنچا۔ مقوقس نے مجھے دیکھا اور اجنبی محسوس کیا تو معلوم کروایا کہ یہ کون شخص ہے؟ میں نے اپنا تعارف اور اپنی آمد کا مقصد بتایا تو اُس نے حکم دیا کہ ان لوگوں کو گرجاگھر میں ٹھہرایا جائے اور خاطر تواضع کی جائے۔

پھر ہمیں باریابی کا موقعہ دیا اور ملاقات کے لئے بلایا گیا۔ ہمارے وفد کا سردار بنومالک میں سے تھا۔ بادشاہ نے سردار کو اپنے پاس بٹھایا اور ہمارے متعلق بھی معلومات حاصل کیں ، کہ آیا یہ لوگ تمہارے قبیلہ بنی مالک ہی سے ہیں ؟ اس نے کہا کہ ہاں میرے ہی قبیلے کے ہیں سوائے اس مغیرہ بن شعبہ کے۔ چنانچہ مجھے اس موقع پر کوئی اہمیت نہ ملی۔ بادشاہ اپنے تحائف پاکربہت خوش ہوا اور پھر اس نے بھی بدلے میں ان لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازا، مگر مجھے بہت معمولی تحفہ دیا گیا۔ ہم دربار سے نکلے تو سب لوگ بہت خوش تھے اور پھر وہ اس علاقے سے اپنے اہل و عیال کے لئے تحفے تحائف خریدنے لگے اور ان میں سے کسی نے میری کوئی دل داری نہ کی اور مجھے کچھ نہ دیا۔

بالآخر ہماری واپسی شروع ہوئی۔ ان لوگوں نے اپنے مال میں شراب بھی خریدی تھی جو وہ راستے میں پیتے پلاتے رہے۔ مگر میں اپنے دل میں بڑے پیچ و تاب کھاتا تھا، اور آنے والی صورتِ حال سے کسی طرح بھی مطمئن نہ تھا کہ یہ لوگ قبیلے میں جاکر اپنی بڑائی کا اظہار کریں گے کہ ہمارا اس طرح اِکرام ہوا اور یہ یہ انعام و اعزاز ملا اور ان کے مقابلے میں میری ناقدری ہوگی۔چنانچہ میں نے اپنے دل میں یہ ٹھان لی کہ ان کا کام ہی تمام کردوں گا۔ پھر ایک منزل پر پڑاؤ ہوا، سب لوگ کھانے پینے کے بعد شراب پینے کی تیاری کرنے لگے تو میں نے ظاہر کیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اور بیمار ہوں ۔ سر میں درد کا بہانہ بنا کر میں نے اپنے سر پر سخت کرکے کپڑا لپیٹ لیا اور کہا کہ میں شراب نہیں پیئوں گا، البتہ تمہیں پلاتا ہوں ۔ پھر میں اُنہیں شراب پلانے لگا اور اس میں کوئی پانی وغیرہ نہ ملایا بلکہ خالص شراب پلائی۔ میں پیالے پر پیالہ اُنڈیلنے لگا۔ وہ پیتے جاتے اور بے سدھ سوتے جاتے تھے۔ اُنہیں جب کوئی ہوش نہ رہی تو میں اُٹھا اور ان سب کو قتل کردیا اور جو اُن کے پاس تھا، سب سمیٹ لیا۔

پھر اپنے وطن جانے کی بجائے مدینہ منورہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ میں نے دیکھاکہ آپؐ مسجد میں ہیں اور میرا لباس مسافرانہ تھا۔ میں نے آپ کو اسلام کا سلام پیش کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مجھے پہچان لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تعریف اس اللہ کی جس نے تجھے راہِ ہدایت سجھائی۔ ابوبکرؓ نے پوچھا: کیا تم مصر سے آرہے ہو؟ میں نے کہا: ہاں ۔ اُنہوں نے پوچھا: تمہارے ساتھی بنی مالک والوں کا کیا ہوا؟(i)میں نے بتایا کہ میں نے ان سب کو قتل کردیا ہے، اور ان کا مالِ متاع لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں تاکہ آپ اس میں سے خُمس لے لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تیرا اسلام ہم قبول کرتے ہیں ، مگر ان کے مالوں میں سے میں کچھ نہ لوں گا، یہ سراسر دھوکہ ہے اور دھوکے میں کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔''

مغیرہؓ کہتے ہیں کہ اس بات سے مجھے قریب و دور کے ہر طرح کے غم و افسوس نے آلیا۔ تب میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اُنہیں اس حالت میں قتل کیا ہے جب کہ میں اپنی قوم کے دینِ کفر پر تھا، اس کے بعد ہی میں اسلام لایا ہوں اور ابھی آپؐ کے پاس حاضر ہورہا ہوں ۔ تو آپؐ نے فرمایا:
فإن الإسلام یهدم ما کان قبله
''بلا شبہ اسلام، جو کچھ پہلے ہوچکا ہو اسے ختم کردیتا ہے۔'' 1

یہ لوگ جنہیں اس نے قتل کیا، تعداد میں تیرہ افراد تھے۔ پھر ان کی خبر اہل طائف میں ان کی قوم کو بھی پہنچ گئی۔ مقتولین کے ورثا مغیرہؓ کے قبیلے پر چڑھ دوڑے، قتل و قتال ہونے کو تھا کہ ان کے چچا عروہ بن مسعود نے ان کی دیت اپنے ذمے لے لی، اس طرح یہ جنگ ٹلی اور صلح ہوسکی۔

یہی وہ واقعہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر صلح کی گفتگو میں جب عروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کررہا تھا، اور اس دوران آپ کو ملائمت پر آمادہ کرنے کے لئے دستورِعرب کے مطابق آپ علیہ السلام کی داڑھی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا تو مغیرہؓ جو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود پہنے مسلح کھڑے تھے، اور چہرہ ڈھانپا ہوا تھا تو مغیرہ نے اس سے کہا تھا: پرے کر اپنا یہ ہاتھ، کہیں یہ تیری طرف واپس ہی نہ جائے۔ اور اپنی تلوار کے دستے کا اسے ٹھوکا بھی لگایا۔ تو عروہ نے پوچھا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون ہے؟ بڑا بدخلق اور سخت مزاج ہے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تیرا چچا زاد ہی تو ہے، مغیرہ بن شعبہ۔ تب اس نے کہا:
''أي غُدر! ألستُ أسعٰی في غدرتك'' 2
''اے دھوکے باز! کیا میں اب تک تیرے دھوکے کے سلسلے میں کوشش نہیں کرتا رہا ہوں ۔''
اور مسنداحمد کے الفاظ ہیں : ''أي عدو اﷲ! ما غسلتُ عني سوء تك إلا بالأمس'' ''اے اللہ کے دشمن! تیری گندگی میں نے اپنے آپ سے کل ہی دھوئی ہے۔'' 3

اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے بڑے عجیب ہیں کہ یہ مغیرہ حالت ِکفر میں اتنے ہٹ دھرم کہ کسی طرح اسلام قبول کرنے کے لئے راضی ہی نہیں ہورہے تھے۔ مگر مزاج کی انفرادیت اور حالات نے اُنہیں دربار رسالت میں پہنچا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے 'رضي اللہ عنهم و رضواعنه' کی خلعتِ فاخرہ سے بہرہ ور فرما دیا۔

  •  یہی وہ جلیل القدر صحابی ہیں جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لا إله إلا اﷲ وحدہ لا شریك له، له الملك وله الحمد وھو علیٰ کل شيء قدیر، اللھم لا مانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منك الجد پڑھا کرتے تھے۔
  •  جرابوں پر مسح کرنے کی حدیث کے بھی یہی راوی ہیں ۔
  •  فتح قادسیہ میں ایرانیوں کے سپہ سالار رستم سے گفتگو کرنے کے لئے اُنہیں ہی بھیجا گیا تھا اور پھر اُنہوں نے بڑی جرأت مندانہ گفتگو کی تھی۔
  •  اور یہی وہ صحابی ہیں جن کی مونچھیں قدرے بڑھی ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کے ساتھ برابر کرکے زائد کاٹ دی تھیں ۔
  •  مسند احمد میں ان سے تقریباً ۱۱۸؍احادیث روایت کی گئی ہیں ۔

 


 حوالہ جات
1. صحیح مسلم:121
2. صحیح بخاری:2734
3. تاریخ الاسلام ازامام ذہبی: جلد4؍ ص 118 و مابعد

 


 

i. معلوم ہوا کہ مسلمان اردگرد کی خبروں اور حالات سے بخوبی آگاہ اور چوکنے رہتے تھے۔