مسجد میں نکاح کے معاشی اور معاشرتی فوائد
معاشرے کی اکائی گھر اور خاندان ہے ۔ گھر یا خاندان شادی کے پاکیزہ بندھن ہی سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف انسانی جذبوں کی جائز تکمیل ہوتی ہے، بلکہ نسلِ انسانی کی افزائش کا سہرا بھی اسی کے سر ہے۔نکاح انسانی زندگی کا اہم ترین بلکہ بنیادی جز ہے ، معاشرے اور معاشرتی زندگی کا اسی پر انحصار ہے ، جس معاشرے میں نکاح کا طریقہ کارصاف ستھرا اور آسان ہو وہ معاشرہ پاکیزہ ہوگا اور جس معاشرے میں نکاح کا حصول مہنگا اور مشکل ہوجائے تو وہاں جنسی بے راہ روی پیدا ہوتی ہے ، بے حیائی اور فحاشی بڑھتی ہے جو معاشرے کے لیے تباہی کا سبب ہے۔
اسلام نے نکاح کے معاملے میں جو اصلاحات کیں ، وہ ایک طویل باب ہے جس کا یہ مختصرسا مضمون محتمل نہیں ہے ، یہاں پر میں اسلام کی چند ایک ایسی تعلیمات رکھتا ہوں جن سے معلوم ہوگا کہ اسلام میں نکاح کا عمل نہایت آسان ہے:
- اسلام نےرشتہ تلاش کرنے کی بنیاد مال و دولت اور بلند خاندان کی بجائے دینداری کو قرار دیا [1]، کیونکہ مالداروں کا ایک اپنا طرز زندگی ہوتا ہے جس میں مال و زر کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ دیندار لوگ عام طور پر رسومات اور نمائش سے پاک سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے پر معاشی حالات کو بہتر کرنے کی ضمانت دیتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۳۲﴾ [النور: 32]
’’ اپنے بے نکاحے لوگوں کے نکاح کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک لوگوں کے بھی ، اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔‘‘
- آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو لونڈی خرید کر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ، فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَأَعْتَقَهَا، وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ[2].
’’ کوئی بھی شخص جس کے پاس لونڈی ہو ، تو وہ اس کی بہترین تربیت کرے اور اسے آزاد کر کے اس سے شادی کرلے تو اسے (ہر عمل کا ) ڈبل اجر ملے گا۔‘‘
- لونڈی خریدنے کی بھی طاقت نہیں تو کسی کی لونڈی سے نکاح کرلے۔ [النساء : 25]
- تمام رسوم و رواج کو ختم کرکے نکاح کو تین چیزوں میں محدود کردیا ، ایجاب و قبول ، گواہ اور مہر ۔
- مہر کو جو نمود و نمائش کا ایک ذریعہ بن چکا تھا عورت کی رضامندی سے مشروط کرکے کم سے کم کردیا ۔
- شادی بیاہ میں کم سے کم اخراجات کرنے کی حوصلہ افزائی کی :
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ [3].
’’ عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے نکاح کو اتنا آسان کردیا کہ ایک شخص کچھ بھی خرچ کیے بغیر گھر بسا سکتا تھا ۔ حضرت ربیعہ بن الحارث کے بیٹے عبد المطلب ؓاور حضرت عباس کے بیٹے فضلؓ جوان ہوئے تو فطری طور پر باپوں کو ان کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی ، دونوں نے پروگرام بنایا کہ بچوں کو صدقات کے شعبے میں نوکرنی دلا دیں، تنخواہیں آئیں گی تو ان کی شادیوں کا بندو بست کر لیں گے ۔ دونوں نے اپنے بیٹوں کو نوکری کی درخواست کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ۔رسول اللہ ﷺ نے پوچھا نوکری کیوں کرنا چاہتے ہو ؟ عرض کی کہ والد چاہتے ہیں کہ شادیوں کا بندوبست کریں ۔ رسول اللہ ﷺ نے نوکری دینے کی بجائے دو صحابہ محمیہؓ اور نوفلؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو بلایا ۔ محمیہسے فرمایا: اپنی بیٹی کی شادی فضلؓ سے کردو ، نوفل بن حارث سے کہا اپنی بیٹی کی شادی عبدالمطلب ؓسے کردو [4]۔
غور کریں کہ باپ گھر میں بیٹھے بیٹوں کی نوکری کی خوشخبری لانے کا انتظار کررہے اور پلاننگ کررہے ہیں کہ بیٹے نوکری لگیں گے ، پیسے آئیں گے ، پیسے جمع کریں گے، پھر بیٹوں کی شادی کریں گے ، لیکن بیٹے نوکری کا پیغام لانے کی بجائےبغیر کسی خرچ کے نکاح کرکے بیویاں گھر میں لے آئے، یہ اسلام کی خوبصورت تصویر ہے۔
بسا اوقات رسول اللہ ﷺ کی تعلیم وتربیت نے صحابہ کرام کو ایسا بنا دیا تھا کہ وہ اپنی شادی اور نکاح کی تقریبات میں اتنی سادگی اختیار کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کو بھی شرکت کی زحمت نہیں دیتے تھے، بلکہ اطلاع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ عبدالرحمنؓ بن عوف جو عشرہ مبشرہ اور خاص اصحاب میں شامل ہیں، انہوں نے شادی کی لیکن نبی کریم ﷺ کو خبر تک نہیں دی [5]۔
برصغیر کے مسلمان صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہندو تہذیب کی بہت ساری چیزیں ان میں بھی در آئی ہیں،ان میں شادی بیاہ کی رسوم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مغل بادشاہوں ، شہزادوں ، ریاستوں کے راجاؤں اور نوابوں نے اپنی شہرت اور ناموری کے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بڑی بڑی تقریبات اور جشنوں میں بدل دیا ، نِت نئے ایونٹس کا انعقاد ہوتا ۔ شہزادوں کی ختنہ کی رسم پوری پوری ریاست اور ملک کی سطح پر منائی جاتی تھی۔ حکمرانوں ، شہزادوں اور امراء کی جشن نما شادیوں کے اثرات عوام میں بھی آہستہ آہستہ در آئے ۔ اسی کا تسلسل ہے کہ آج ہمارے ہاں منگنی پر جشن کا ساماں ، شادی کی تاریخ طے کرنے پر قریبی لوگوں کا اجتماع ، جس میں کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے ، ہر موقعہ پر لڑکے والے لڑکی کو قیمتی گفٹ دیتے ہیں ۔ پھر شادی کی تقریبات مثلاً ہلدی کی رسم ، مہندی کی رسم، نیوتہ کی رسم ، منہ دکھائی کی رسم ، منڈھا کی رسم، سہرا ، نکاح ، بارات ۔ پھر بارات کے دن کی رسوم ،نکاح کے بعد میٹھائی (بِدھ) ، دودھ پلائی ،جوتا چھپائی ، مکلاوہ سمیت کئی رسومات۔ ہر رسم پر میٹھائی ، پیسے، کپڑے جوتے سمیت کئی چیزیں دینی ہوتی ہیں، جس سے عام لوگوں کی زندگیاں مشکل ہوگئیں۔
جولوگ دین سے زیادہ وابستہ نہیں ان کے ہاں شادی کا ہرکام انجام دینے کے لیے لمبی چوڑی تقریبات ہوتی ہیں جن میں بینڈ باجے ، موسیقی ،رقص و سرود کا اہتمام ، مشہور و معروف فلمی اداکاروں اور گلو کاروں کو دعوت دی جاتی ہے ۔ ان سے نہ صرف شادی مہنگی ہوتی چلی گئی بلکہ ایک دینی عمل گناہ اور اللہ کی بغاوت کا مرقع بنتا چلا گیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان رسوم کو پورا کرنے کے لیے مطلوب رقم نہ ہونے کی وجہ سے قوم کی لاکھوں بچیاں نکاح کی عمرسے متجاوزہوجاتی ہیں لیکن شوہر کی صورت میں ایک محفوظ سائبان سے محروم رہتی ہیں ، ان کے والدین کی راتیں زندگی میں بیٹیوں کواپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کاخواب سراب بنتے دیکھ کر دکھ اور کرب میں گزرتی ہیں۔ مستعار رقم سے ان رسومات کی ادائیگی کر کے بیٹیاں بیاہ دیں تو عمربھر قرض کے منڈلاتے سائے ان کی زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں شادی ہو تو گناہ اور سرکشی کے سبب گھر رحمت اور برکت سے محروم ہوجاتاہے۔
اس تشویشناک صورت حال میں ان رسومات کے سدِ باب کے لیے بعض سرکردہ افراد نے گاہ بگاہ آواز بلند کی ، بعض جماعتوں نے اس کے خلاف مہم چلائی۔ بعض اوقات حکومتوں نے ان پر کئی قسم کی پابندیاں لگائیں جیساکہ شہباز شریف حکومت نے پنجاب میں ون ڈش کی پابندی لگائی تھی ۔
اسی سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے بارات ، جہیز اور لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو کھانے کا اہتمام ، پارکوں اور بڑے بڑے شادی ہالز میں تقریبات کے خلاف مہم شروع کی، اسی ضمن میں انہوں نے لوگوں کو مساجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ،اس پر انہوں نے درج ذیل روایت کو بطور دلیل پیش کیا:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ»[6].
’’ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نکاح کا اعلان کرو ، اسے مساجد میں انجام دو اور (لوگوں میں مشہور کرنے کے لیے )اس پر دف بجاؤ ۔‘‘
بعض احباب نے جب دیکھا کہ مذکورہ بالا حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے تو انہوں نے اس عمل کے خلاف مہم شروع کردی ....آج ہم اسی پر چند گذارشات پیش کرنا چاہتے ہیں :
ضعیف حدیث پر عمل
اس میں شک نہیں کہ کسی عمل کو شریعت قرار دینے کے لیے ضروری ہے اس کی بنیاد کسی صحیح حدیث پر ہو، ضعیف حدیث پر کسی شرعی عمل کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ۔ البتہ ہمارے سامنے کوئی ضعیف حدیث آتی ہے تو اس میں سب سے پہلے تین چیزیں دیکھنا ضروری ہے ۔
- حدیث میں مذکور عمل کا شریعت سے تعلق کس نوعیت کا ہے ؟
- حدیث میں ضعف کس درجہ کا ہے ؟
- حدیث عمل سے متعلق کس نوعیت کی ہدایت دے رہی ہے ؟
اگرحدیث میں موجود عمل کا تعلق عبادت سے ہو تو اس پر اس وقت تک عمل نہیں کیا جائے گا جب تک وہ صحیح حدیث سے ثابت نہ ہو۔ اگروہ عمل انسانوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتا ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہوگا بشرطیکہ وہ کسی ثابت شدہ نص کے خلاف نہ ہو ۔ اگر حدیث میں مذکور ہدایت کا تعلق کسی عمل کے نظم و نسق سے ہو تو بلاشبہ اس کو قبول کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ شریعت میں نظم و نسق کا میدان وسیع ہے جب تک کسی ثابت شدہ نص کے خلاف نہ ہو ۔اس کو مصلحت مرسلہ کہتے ہیں ۔
اگر حدیث کا ضعف خفیف ہے اور دوسری کسی عام یا خاص حدیث سے اس کا ضعف ختم ہوسکتا ہے یعنی محدثین کی اصطلاح میں وہ روایت حسن لغیرہ بن سکتی ہے تو عام محدثین کے ہاں اس پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔جمہور اہلِ علم کے نزدیک ضعیف حدیث پر چار شروط کے ساتھ عمل ہوسکتا ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
- حدیث کا ضعف اس درجہ کا نہ ہو کہ وہ موضوع (من گھڑت) کی حد تک پہنچ جائے۔
- وہ حدیث کسی دوسری صحیح حدیث یا اصولِ دین سے متصادم نہ ہو ۔
- اس کی اصل شریعت میں موجود ہو۔
- جو عمل اس ضعیف حدیث سے ہم مستنبط کر رہے ہیں، اس کی سنِّیَت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، بلکہ جواز یا احتیاط کے پیشِ نظر اس پر عمل کیاجائے۔
تیسرا یہ دیکھا جائے گا کہ حدیث عمل سے متعلق کس نوعیت کی ہدایت دے رہی ہے کیا وہ حدیث اس عمل کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے یا اس کے متعلق کوئی ادب بیان کررہی ہے یا اس کی فضیلت پر مشتمل ہے؟۔اگر وہ ضعیف حدیث عمل کی بنیاد ہے ، یعنی وہ عمل اسی ضعیف حدیث سے ثابت ہوتا ہے ، کسی دوسری عام یا خاص دلیل سے وہ عمل ثابت نہیں ہوتا ، تو ایسی صورت میں وہ عمل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگروہ حدیث محض کسی عمل کی فضیلت بیان کررہی ہے یا اس کے متعلق کوئی ادب بتا رہی ہے تو مذکورہ بلا شروط کی روشنی میں ضعیف ہونے کے باوجود اسے قبول کیا جاسکتا ہے ۔ امام الزرکشیؒ نے لکھا ہے :
أَن الضَّعِيف لَا يحْتَج بِهِ فِي العقائد وَالْأَحْكَام وَيجوز رِوَايَته وَالْعَمَل بِهِ فِي غير ذَلِك كالقصص وفضائل الْأَعْمَال وَالتَّرْغِيب والترهيب وَنقل ذَلِك عَن ابْن مهْدي وَأحمد بن حَنْبَل وروى الْبَيْهَقِيّ فِي الْمدْخل عَن عبد الرَّحْمَن ابْن مهْدي أَنه قَالَ إِذا روينَا عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي الْحَلَال وَالْحرَام وَالْأَحْكَام شددنا فِي الْأَسَانِيد وانتقدنا فِي الرِّجَال وَإِذا روينَا فِي فَضَائِل الْأَعْمَال وَالثَّوَاب وَالْعِقَاب سهلنا فِي الْأَسَانِيد وتسامحنا فِي الرِّجَال [7].
’’ بلاشبہ ضعیف حدیث عقائد اور احکام میں حجت نہیں ہوتی ، البتہ اس کی روایت کرنا اور قصص ، فضائل اور ترغیب و ترہیب میں اس پر عمل کرنا درست ہے۔ امام عبدالرحمن بن مہدیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒسے یہ مسلک نقل کیا گیا ہے ۔امام بیہقیؒ نے المدخل میں عبدالرحمن بن مہدیؒ کے متعلق روایت کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم نبی اکرم ﷺ سے حلال و حرام اور شرعی احکام سے متعلق روایت کرتے ہیں تو ہم اس کی اسانید کی تحقیق اور رجال میں نقد کرنے میں شدت اختیار کرتے ہیں اور جب ہم فضائل اعمال ، جزا و سزا سے متعلق روایت کرتے ہیں تو اسناد کی تحقیق میں نرمی اور رجال کے متعلق وسعت رکھتے ہیں ۔ ‘‘
امام سخاوی لکھتے ہیں :
قَدْ حَكَى النَّوَوِيُّ فِي عِدَّةٍ مِنْ تَصَانِيفِهِ إِجْمَاعَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَغَيْرِهِمْ عَلَى الْعَمَلِ بِهِ فِي الْفَضَائِلِ وَنَحْوِهَا خَاصَّةً.فَهَذِهِ ثَلَاثَةُ مَذَاهِبَ أَفَادَ شَيْخُنَا أَنَّ مَحَلَّ الْأَخِيرِ مِنْهَا حَيْثُ لَمْ يَكُنِ الضَّعْفُ شَدِيدًا، وَكَانَ مُنْدَرِجًا تَحْتَ أَصْلٍ عَامٍّ ; حَيْثُ لَمْ يَقُمْ عَلَى الْمَنْعِ مِنْهُ دَلِيلٌ أَخَصُّ مِنْ ذَلِكَ الْعُمُومِ، وَلَمْ يُعْتَقَدْ عِنْدَ الْعَمَلِ بِهِ ثُبُوتُهُ[8].
’’ امام نووی ؒنے اپنی متعدد کتب میں فضائل وغیرہ کے معاملے میں ضعیف حدیث پرعمل کرنے پر محدثین کا اجماع نقل کیا ہے ۔ اس میں تین مذاہب ہیں : ہمارے شیخ نے بتایا ہے کہ ان میں آخری چیز یہ ہے کہ اس حدیث میں شدید ضعف نہ ہو ، عام دلائل سے ثابت ہو ، اس کے منع کی کوئی خاص دلیل نہ ہو ، اور عمل کرتے ہوئے اس کی سنت ہونے کا عقیدہ نہ رکھاجائے ۔
مذکورہ بالا اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم زیر بحث مسئلہ کو دیکھتے ہیں :
- مسجد میں نکاح کرنے کا تعلق ایمان و عقائد یا عبادات سے نہیں ہے، بلکہ محض نظم و نسق سے ہے ، جس کا میدان شریعت میں وسیع ہے۔
- مسجد میں نکاح کرنےسے متعلق حدیث کا ضعف ہرگز موضوع (من گھڑت) کے درجہ کا نہیں ، بلکہ شیخ عبدالقادرالارنؤوط ؒ جیسے محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن بھی کہاہے [9]۔
- یہ حدیث کسی دوسری صحیح حدیث یا اصولِ دین سے متصادم نہیں ہے ۔
- مسجد میں نکاح کا مسئلہ عمومی دلائل سے ثابت ہے جیساکہ آگے آرہا ہے۔
- ہمارے معاشرے میں کوئی بھی مسجد میں نکاح کرنے کو سنت نہیں کہتا، محض رسوم سے بچاؤ کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
اگر ضعیف حدیث کی بنیاد پر کوئی شرعی عمل کرنا درست نہیں ، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کے الٹ عمل کرنا سنت یا شرعی ہوتا ہے جیساکہ ہمارے بہت سارے دوست سمجھتے ہیں ۔ اس کے برعکس عمل کو شریعت سمجھنے کےلیے بھی قرآن و سنت کی دلیل چاہیے ۔
مساجد میں نکاح کے عمومی دلائل
مساجد میں نکاح کرنے کا حکم دینے یا اس سے منع کرنے والی کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے ، تو اس صورت میں ہم دیکھیں گے کہ اس حوالے سے شریعت کے عمومی دلائل ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں ؟:
عَنْ صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةً فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» قَالُوا: نِكَاحٌ قَالَ: «هَذَا النِّكَاحُ لَيْسَ بِالسِّفَاحِ»[10].
’’ صالح مولیٰ توامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں کچھ لوگوں کو بیٹھےہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ بتایا گیا کہ نکاح ہورہا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (لوگوں میں مشہور کرنے کی وجہ سے) یہ نکاح ہے ، زنا نہیں ہے[11]۔‘‘
جس عورت نے خود کو نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا نکاح ایک صحابی سے کر دیا تھا ، اس کے متعلق حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں :
وَفِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عِنْدَ الْإِسْمَاعِيلِيِّ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ [12].
’’ اسماعیلی نے سفیان ثوری سے جو یہ روایت نقل کی ہے اور اس میں وضاحت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ نکاح مسجد میں کرایا تھا ۔‘‘
مذکورہ بالا روایات سے کم از کم مسجد میں نکاح کرنے کی اباحت ثابت ہوتی ہے۔
نکاح ایک دینی اور مذہبی عمل ہے ، اس اعتبار سے اسے مسجد میں ادا کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسجد میں نکاح ،علماء امت کی نظر میں :
مسجدمیں نکاح منعقد کرنے کے جواز پر تمام مسالک کے علماء کا اتفاق ہے۔ بلکہ مالکیہ کے علاوہ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیتے ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: نکاح عبادت ہے اس لیے مسجد میں منعقد کرنا مستحب ہے اور یہی بات ابن القیم ؒ نے بھی کہی ہے[13]۔
مسجد میں نکاح کی ترغیب دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ؒ لکھتے ہیں:
وهولحصول برکة المکان وینبغی أن یراعی فیه أیضا فضیلة الزمان لیکون نورا علی نور وسرورا علی سرور، قال ابن الهمام: یستحب مباشرة عقد النکاح فی المسجد لکونه عبادة وکونه فی یوم الجمعة[14].
’’ مسجد میں عقدِ نکاح کی ترغیب، مسجد سے برکات کے حصول کے پیش نظر ہے۔ مناسب یہ ہے کہ مسجد کے ساتھ ساتھ، وقت والی فضیلت کی بھی رعایت کی جائے، تاکہ عقدِ نکاح نور علی نور ہوجائے اور خوشیاں دوبالا ہوجائیں۔ امام ابنِ ھمام ؒنے فرمایا کہ مسجد میں عقدِ نکاح کرنا مستحب ہے ، کیونکہ نکاح ایک عبادت ہے۔(اور عبادت کے لیے مسجد ایک عمدہ جگہ ہے) دوسری چیز یہ کہ (وقت کے اعتبار سے ) نکاح کا جمعہ کےدن ہونا بھی مستحب ہے۔ ‘‘
علامہ علاؤالدین حصکفی ؒ نے نکاح کا جمعہ کے دن مسجد میں کرنے کو مستحب ا مر کہا ہے [15]۔
مالکی علماء مسجد میں نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں، حطاب الرعینی مالکی ؒ فرماتے ہیں: مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دینے کی صراحت اہل علم سے نہیں ملتی، تاہم جواز کی حد تک درست ہے[16]۔
سعودی عرب کے کبار علماء کی فتاوی کمیٹی سے درج ذیل سوال کیا گیا:
برائے مہربانی مسجد میں نکاح کرنے کا شرعی حکم واضح کریں، یہ علم میں رہے کہ عقد نکاح اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو گا اور اس میں مرد و عورت کا اختلاط بھی نہیں اور نہ ہی گانا بجانا ہے؟
کمیٹی کے علماء کا جواب تھا:
”اگر تو واقعتاً ایسا ہی جیسا بیان ہوا ہے تو پھر مسجد میں عقد نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں[17]۔‘‘
مسجد میں نکاح کی ممانعت کرنے والے علماء کرام
اس کے برعکس بعض علماء کرام نے اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے ، تو اس کی تین وجوہات ہیں:
- انہوں نے صرف حدیث کے نقطہ نظر سے اس عمل کا شرعی حکم بیان کیا ہے ۔ انہوں نے اس کے معاشرتی پہلوؤں پر گفتگو نہیں کی ۔
- ان علماء کرام کا ایسے ممالک سے تعلق ہے جہاں مساجد سے باہر بھی شادیاں شرعی حدود سے متجاوز نہیں ہوتیں جیساکہ اوپر سوال میں موجود ہے ، اس لیے ان کے ہاں اس کی ضرورت نہیں ہے۔
- ان مفتیان کرام سے جس انداز سےسوال پوچھا گیا انہوں نے اس کے مطابق جواب دے دیا ، مثلاً کسی بھی مفتی سے سوال پوچھا جائے کیا مسجد میں نکاح کرنا سنت یا مستحب ہے ؟ تو یقیناً وہ نفی میں جواب دے گااور اکثر ایسا ہی ہوا ہے۔ جیساکہ شیخ محمد بن صالح العثيمين کا اصل فتویٰ یہ ہے : مسجد میں نکاح کرنے کے استحباب پر کوئی دلیل موجود نہیں، اگر اتفاقاً کسی کا نکاح مسجد میں ہو جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں، لیکن باضابطہ پروگرام بنا کر مسجد میں نکاح کرنا اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا اور اسے مستحب سمجھنا اس کی کوئی دلیل موجود نہیں[18]۔ اسی طرح جب ان سے اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے اسے بدعت قرار دیا[19]۔
ایسے ہی سعودی عرب کے کبار علماء کی فتاوی کمیٹی سے سوال کیا گیا: کیا مساجد میں نکاح کے انعقاد پر ہمیشگی اور مواظبت برتنا سنت ہے یا بدعت؟ تو جواب دیا کہ : مساجد یا اس کے علاوہ دیگر جگہوں میں نکاح منعقد کرنے کے سلسلے میں شریعت نے وسعت رکھی ہے، تاہم کوئی ایسی صحیح دلیل نہیں ملتی جس سے یہ پتہ چلے کہ مسجد میں نکاح کرنا سنت ہے، اس ليے مساجد ميں نكاح كا التزام اور پابندی كرنا بدعت ہے[20]۔
غور کریں تو مذکورہ بالا فتاویٰ میں علماء کرام نے اس عمل کو سنت سمجھنا، اس کی پابندی کرنا یا اس کے خلاف عمل کو غلط سمجھنے والے نظریے کو بدعت قرار دیا ہے محض مسجد میں نکاح کرنے کو بدعت نہیں کہا۔البتہ جن علماء کرام نے ہمارے یہاں کےماحول کو اور مسجد میں نکاح کی مصلحتوں کو پیش نظر رکھاہے انہوں نے اس کی اجازت دی ہے ، جیساکہ مفتی جماعت حافظ عبدالستار حماد ﷾سے پوچھا گیا :
سوال: ہمارے معاشرہ میں مذہبی گھرانے مسجد میں نکاح کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اسے مسنون عمل قرار دیتے ہیں۔ کیا واقعی مسجد میں نکاح کرنا سنت سے ثابت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: اسلام میں عقد نکاح کے لیے کسی جگہ کی تخصیص کتاب و سنت سے ثابت نہیں، جہاں بھی آسانی ہو اور لوگ جمع ہو سکتے ہوں نکاح کیا جا سکتا ہے۔ البتہ فواحش و منکرات کے اڈوں سے اجتناب کرناضروری ہے، جس طرح دیگر مقامات پر نکاح کیا جا سکتا ہے اسی طرح مسجد میں بھی نکاح کرناجائز ہے بلکہ بہتر ہے کیوں کہ مسجد کے احترام کے پیش نظر یہ مجلس ِنکاح کئی قباحتوں سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اسے مسنون عمل قرار دینا محل نظر ہے[21]۔
مسجد میں نکاح اور مصلحتِ مرسلہ
ہر کام کے شرعی پہلو کے علاوہ دوسرے پہلو بھی ہوتے ہیں ،مثلاً کرکٹ ، فٹ بال ، والی بال ، کبڈی سمیت کئی گیمز ہیں جو جسمانی فٹنس اور دماغی صحت کےلیے نہایت مفید ہیں ، اب اگر ایک بندہ سمجھے کہ تلوار زنی ، نیزہ بازی اور گھڑ دوڑ ثابت ہیں لہٰذا یہی جائز ہیں، تو وہ شریعت کے مقاصد سے نابلد ہے۔ کسی بھی کھیل پر اس وقت تک پابندی نہیں لگائی جاسکتی جب تک اس کی ممانعت پر شرعی دلیل ثابت نہ ہوجائے ۔
مسجد میں نکاح کا تعلق ایمان ، عبادت یا شرعی معاملات سے نہیں بلکہ محض نظم و نسق سے ہے ۔ لہٰذا اس کا تعلق مصلحت مرسلہ سے ہے اور مصلحتِ مرسلہ کے نقطہ نظر سے اس کے استحباب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور جن علماء کرام نے اسے مستحب عمل قرار دیا ہے انہوں نے مصالح مرسلہ کی بنیاد پر ہی یہ حکم لگایا ہے ۔
جب مصالح مرسلہ کی روشنی میں کسی عمل کا جائزہ لیں گے تو وقت ، حالات اور معاشرے کے اعتبار سے اس کا حکم بدلتا رہے گا ، مثلاً اسلام نے شادی کے طریقہ کار کی اصلاح کردی تھی ، اس سے منسلک تمام برائیوں کا خاتمہ کردیا تھا ، اس لیے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں نکاح مسجد میں کیاجائے یا باہر کوئی فرق نہیں تھا۔ اس لیے اس دور میں اس کا خاص اہتمام نظر نہیں آتا ۔اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں شادی اور نکاح کے ساتھ بہت سارے مکروہات شامل ہوگئے ہیں ، بعض دیندار لوگ بھی ان کی مخالفت کرنے سے قاصر ہیں ۔ ایسی صورتحال میں دیکھا یہ گیا ہے کہ مسجد میں نکاح کی تقریب کرنے سے بہت سارے مکروہات اور برائیوں سے بچ جاتے ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں جو جو بچنا چاہتے ہیں انہیں ایک معقول وجہ مل جاتی ہے ۔ ‘‘
اسی چیز کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک میں مساجد کے ساتھ باقاعدہ شادی ہال بنائے گئے ہیں ، مثلاً یورپی ممالک میں تو مساجدکے اندر یا اس کے احاطہ میں شادی ہال کا عام رواج ہے۔ وہاں کی مساجد کی ویب سائٹ پر مسجد کے شادی ہال کے متعلق بھی آپ کی معلومات ملیں گی، چنانچہ برطانیہ کی برمنگھم سنٹرل مسجد کی ویب سائٹ پر ان کی خدمات کے تعارف میں لکھا ہے :
’’ ہماری مسجد میں کرایہ پر لینے کے لیے مختلف سہولیات سے لیس کمرے موجود ہیں۔ جو مختلف سائز کے ہیں۔ ملاقاتوں، تربیتی کورسز، کانفرنس، نمائش، نجی تقریبات، شادی، جنازہ اور دیگر فیملی تقریبات کے لیے ایک مثالی سہولیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہماری مسجد کے کمیونٹی ہال میں تقریباً 400 مہمانوں کے استقبال کا مکمل انتظام ہے۔‘‘
اس مسجد کے ہال میں شادی کی تقریبات منعقد کرنے کی بارہ شروط ہیں جن میں بعض اہم حسب ذیل ہیں:
- اسلامک کلچرل سنٹر اور لندن سنٹرل مسجد ایک عبادت گاہ ہے اس لیے براہِ کرم مہذب لباس ضروری ہے دیگر لباس جیسے جینز وغیرہ ممنوع ہے۔
- خواتین سے درخواست ہے کہ وہ اسلامک کلچرل کے احاطے میں ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپے رہیں، اسکارف سیکورٹی ڈیسک سے لیا جاسکتا ہے۔
- احاطہ میں شراب، موسیقی، رقص یا سگریٹ نوشی مکمل طور پر ممنوع ہے۔
- تقریب کی فلم بنانے یا تصاویر کھینچنے کے لیے ایک فارم ہے جس کو بھرنے کے بعد اوراجازت ملنے کے بعد ہی تصویر کی اجازت ہوگی[22]۔
مذکورہ بالا شروط و ضوابط پر نظر ڈالیں کہ مسجدکے شادی ہالوں کے ذریعے کتنی برائیوں سے بچا جا رہا ہے ۔
اگر غیر مسلم ممالک میں مسجد کے احترام کے سبب بہت ساری غیر شرعی رسم و رواج اور برائیوں سے بچا جاسکتا ہے تو ہم مسلمان ملک میں رہنے والے اپنا یہاں ان شروط و قواعد کو نافذ کریں تو اس سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کرسکتے ہیں ۔ اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے پچھلے چند ماہ سے اسلام آباد میں مسجد رحمۃ اللعالمین نے بھی شادی ہال کھولا ہے ، ابھی تک ان کا تجربہ کامیاب جارہا ہے۔[23]
- مسجد میں نکاح کی تقریب کرنےسے اس میں روحانیت کا زیادہ احساس پیدا ہوتاہے ۔
- پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں اکثریت کے لیے شادی کے بہت سے تکلفات اور اخراجات مثلاً بڑے بڑے ہالوں کی بکنگ یا استقبالیہ، شامیانوں، قناتوں، قالینوں، صوفوں، کرسیوں، رنگا رنگ آرائشوں اور قمقموں وغیرہ کے اخرجات برداشت کرنا مشکل ہوچکا ہے ، مساجد میں نکاح کرنے سے بلا شبہ معاشی طور پر پسماندہ اور متوسط طبقہ کو بہت بڑا ریلیف ملے گا ، جس سے لوگ مسجد کے ساتھ زیادہ جڑیں گے ۔
- اس سے جہاں غیر اسلامی رسم و رواج سے بچنے اور اسلامی طریقے پر شادی کی تقریبات منعقد کرنے کا ایک سنہرا موقع فراہم ہوگا تو دوسری طرف مسا جد کو مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے جنہیں دیگر تعلیمی، سماجی اور فلاحی کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
- سوشل میڈیا ، ہندوانہ رسوم پر مشتمل فلموں اور ڈراموں کے سبب نئی نسل اسلامی ثقافت سے نابلد ہوتی جارہی ہے ، مساجد میں نکاح کا اہتمام کرنے سے نہ صرف غیر شرعی رسم و رواج سے بچنے کا موقع ملے گا بلکہ اسلام کی تہذیب و ثقافت کی ترویج بھی ہوگی۔
- حدیث کے ضعف کے پیش نظر مسجد میں نکاح کرنے کو شریعت کا حکم سمجھنا یا اسے لازم قرار دینا درست نہیں ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ مسجد بہرحال کسی بھی دوسری جگہ سے بدرجہا بہتر او ر بابرکت ہے۔وہاں کا پاکیزہ ماحول نئے شادی شدہ جوڑے کے لیے خوشحالی ، دین و ایمان کی سلامتی او رباہمی الفت و مفاہمت پر ضرور اثر انداز ہوگا۔
لہٰذا حصول برکت کے لیے مسجدکو ترجیح دینا ایک مثبت اور قابل ستائش و قابل تقلید امر ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسجد صرف نماز کے لیے ہے ،کسی دوسرے کام کے لیے اس کا استعمال نہیں کیا جاسکتا تو اس کی یہ سوچ درست نہیں، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے دور میں مسجد نبوی تعلیمی ادارے کے طور پر استعمال ہوتی تھی، اس کے علاوہ اہم معاملات کے لیے مشورہ ،باہر سے آنے والے وفود کے استقبال اور ان کی رہنمائی اور دیگر اہم امور پر غور و خوض کے لیے بھی مسجد ہی کواستعمال کیا جاتا تھا۔ گویا اسلام میں مسجد ہر طرح کی سماجی اصلاح، تعلیمی بیداری اور ضرورتوں کی تکمیل کا اہم ادارہ ہے۔ اب اگر اسی اصول کے پیش نظر نکاح جیسے شرعی اور دینی امر کے لیے مسجد کو استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی شرعی امر مانع نہیں ہے۔
مسجد میں نکاح کرنا اسی صورت میں بہتر ہے جب معاشرتی برائیوں سے بچنا مقصود ہو ۔ اگر نکاح کی وجہ سے مسجد کے تقدس کی پامالی ہو ، یا مسجد میں نکاح کی تقریب کے بعد الگ جگہ پر رخصتی کی رسومات اور خرافات انجام دینی ہیں تو مسجد میں نکاح کرنا یقیناً بدعت قرار پائے گا ۔ دوسرا ایسے کرنے سے نکاح دو تقریبات میں بٹ جائے گا جو غیر شرعی گا ۔ دوسرا اس طرح سیکولر لوگوں کی طرح دین اور دنیا دو حصوں میں بٹ جائے گا ، جو قطعاً درست نہیں ہے ۔ ہم ہرگز اس کی حمایت نہیں کررہے ۔
[1] صحيح بخاری :5090
[2] صحيح بخاری: 2547
[3] سنن أبی داود:2117
[4] صحیح مسلم: 1072
[5] صحيح بخاری :2048
[6] سنن ترمذی:1089
[7] النكت على مقدمة ابن الصلاح:2/ 308
[8] فتح المغيث بشرح ألفية الحديث:1/ 351.
[9] جامع الأصول، بتحقیق عبد القادر الأرنؤوط (11/ 439) ، رقم : 8975
[10] مصنف عبد الرزاق الصنعاني (6/ 187):10448
[11] دراصل شریعت نے نکاح اور زنا میں شہرت کو بنیاد قرار دیاہے ، کہ زنا چھپ کر اور نکاح سرعام کیا جاتا ہے ۔
[12] فتح الباری لابن حجر (9/ 206)
[13] ملاحظہ فرمائیں الفتاوی الکبری:3/ 123، إعلام الموقعين:3/ 102
[14] مرقاة المفاتیح، کتاب النکاح : 6/285، مطبوعة دارالکتب العلمیة، بیروت
[15] درمختار مع ردالمحتارکتاب النکاح :4/75، مطبوعہ کوئٹہ
[16] مواهب الجلیل:3/ 408
[17] فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء: 18 / 110
[18] لقاء الباب المفتوح:17/ 67
[19] الکنز الثمين : 144
[20] فتاوی اللجنة الدائمة:18 / 110
[21] فتاویٰ اصحاب الحدیث:1/450
[22] https://centralmosque.org.uk/services
[23] اس حوالے سے اس شمارے میں مسجد رحمۃ اللعالمین کے ناظم صاحب کا مضمون ملاحظہ فرمائیں۔