اسلامیات کے نصاب میں  شیعہ عقائد کی ترویج اور فرقہ واریت کا بیج

بچوں کی ذہن سازی میں نصاب کی اہمیت کسی صاحب شعور سے مخفی نہیں۔ نصاب صرف کتابوں اور مضامین کا مجموعہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا نقش ہوتا ہے جو بچوں کے ذہن و قلب پر تاحیات مرتسم ہو جاتا ہے۔   نصاب نسلوں کی فکری، سماجی، جذباتی اور اخلاقی نشوونما کی بنیاد رکھتا ہے، قوموں کی ترقی ان کے نصاب کی رہین منت ہوتی ہے،زندہ قومیں  اپنے بچوں کے لیے  نصاب بڑی مہارت اور توازن سے تشکیل دیتی ہیں۔ نصاب کو بچے حرف آخر سمجھ کر پڑھتے ہیں ۔

عرصے بعد ہمارے ہاں  فرسٹ ائیر کی اسلامیات لازمی کے نصاب میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ہیں ، تبدیلی کا مقصد اصلاح اور بہتری کی طرف سفر ہوتاہے لیکن  افسوس کہ یہاں  بہتری کی بجائے تنزلی کی طرف سفر شروع ہوگیاہے۔اس میں کچھ تبدیلیاں قابل تحسین ہیں لیکن کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں کہ انہیں جب سے دیکھا ہے سکتے میں ہوں کہ نادیدہ قوتیں ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہیں اور کیسے فرقہ واریت کا زہر ہماری نئی نسلوں کی رگوں میں  میں چابک دستی اور چالاکی سے اتارا  جا رہا ہے۔ اسلامیات لازمی کا نصاب  تو سب جانتے ہیں کہ تمام بچوں کے لیے  لازمی ہوتا ہے۔فرسٹ ائیر کی اسلامیات لازمی کے نصاب میں جو نیا  کھیل کھیلا گیا ہے ،اس پر ایک معقول شخص سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت اس کے  دو مقامات  پر تجزیاتی تبصرہ پیش کررہا ہوں۔

  • پہلے مقام کا تعلق اس کتاب کے باب اول سے ہے ، اس میں حجیت حدیث اور تدوین حدیث کی تاریخ  اور صحاح ستہ کا تعارف ہے، ساتھ ہی اہل تشیع کی اصول اربعہ کا تعارف ہے۔ امکان غالب یہی ہے کہ کمیٹی کے بعض اہل تشیع نمائندوں کے اصرار پر اصول اربعہ کا تعارف نصاب کا حصہ بنا دیا گیا، ساتھ وضاحت بھی موجود ہے کہ اہل تشیع کی یہ کتب حدیث  ہیں۔ چلیں اس حد تک بعض مجبوریوں کی بنا پر قابل برداشت ہے اور اس بنا پر بھی اسے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ اہل  السنہ طلبہ کو بھی دیگر مکتب فکر کی چند کتابوں کا تعارف ہو جاتا ، لیکن یہاں ان کتابوں کے ساتھ ہی’ مستند‘ کا لفظ ایڈ کر دیا گیا ہے جو قطعاً درست نہیں۔

 اس ضمن میں چند منتخب احادیث کا حصہ بھی شامل نصاب ہے ،قدیم نصاب میں ان منتخب احادیث کے ساتھ اہل السنہ  کی کتب حدیث کے حوالے درج ہوتے تھے۔ لیکن اب ظاہر ہے بعض اہل تشیع کو خوش کرنے کے لیے ہر حدیث کے نیچے صحاح ستہ کے ساتھ ساتھ شیعہ کتاب کا حوالہ  بھی درج ہے۔علی سبیل المثال: ’من یُرِدُ الله به خیراً یفقه فی الدین‘صحیح بخاری کی معروف حدیث ہے اس کا حوالہ یوں درج ہے[صحیح بخاری: 71 ،الکافی، ج:1،ص:33]

 صحیح بخاری کے ساتھ اصولی طور پر دیگر کتب حدیث کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں رہتی بالخصوص نصابی کتاب میں کیونکہ طلبہ پر کم سے کم بوجھ ڈالا جاتا ہے اور نصاب کو  نہایت آسان بنایا جاتا ہے۔صحیح بخاری کے ساتھ الکافی کو موازی اہمیت  طلبہ پر خواہ مخواہ اضافہ بوجھ ڈالنا کسی بھی طرح درست نہیں۔

صحیح بخاری  کے ساتھ دوسرے تیسرے درجے کی سُنّی کتاب حدیث کا بھی حوالہ دینے کی ضرورت نہیں  ،کیونکہ اس مرحلے میں اصل چیز حدیث کا متن ہے تخریج حدیث مقصود نہیں ۔اس  اصول کو پس پشت ڈال کر صحیح بخاری کے ساتھ اہل تشیع کی ’الکافی‘ کا حوالہ ایسے ہی  ہے جیسے قرآن مجید کی آیت کے ساتھ بائبل کا حوالہ ہو۔ اس لیے شیعہ کتب کے حوالے حذف کر دینے چاہیے۔

  • دوسرے مقام کا تعلق اس کتاب کے باب ششم  سے ہے ،اس باب  کا موضوع ہدایت کے سر چشمے اور مشاہیر اسلام ہے۔اس باب کے تین ذیلی عناوین ہیں پہلا عنوان خلافت راشدہ سے متعلق ہے دوسرا ائمہ اہل بیت کے بارے میں اور تیسرا صوفیہ کرام کے متعلق ہے ۔

اس حوالے سے پہلی گزارش یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا عنوان ہی اہل السنہ کے عقائد سے متصادم ہے ۔  کیونکہ اہل تشیع   اپنے  آئمہ کو نہ صرف انبیاء و رسل کی طرح معصوم سمجھتے ہیں بلکہ انہیں انبیاء و رسل سے افضل ہے ، اہل تشیع کے امام انقلاب خمینی  آئمہ کے حوالے سےلکھتے ہیں :

’’امام کے لیے خلافت تکوینی ہے جس کی وجہ سےدینا کا ہر ذرہ ان کا تابع فرمان ہے ۔ ہمارےضروریات مذہب میں یہ بات داخل ہے کہ کوئی بھی ائمہ کے مقام معنویت تک نہیں پہنچ سکا چاہے وہ ملک مقرب یا نبی مرسل ہو وہ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا[1]  ‘‘

جبکہ اہل سنت اس عقیدے کو انبیاء علیہم السلام کی توہین سمجھتے ہیں ۔

دوسری بات یہ  کہ  بارہ ائمہ اہل بیت کی تعیین کا تصور خود شیعی مکاتب فکر کے ہاں بھی اختلافی  ہے، اس نصاب میں صرف ایک شیعہ فرقے  ’اثنا عشری ‘کے مخصوص عقائد پیش کیے گئے ہیں۔

  • تیسری قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس میں مذکورامام مہدی کا جو تصور پیش کیاگیا ہے وہ اہل السنہ کے تمام مکاتب فکر بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے نزدیک غلط ، قرآن وسنت سے متصاد م اور عقل کے بھی خلاف ہے۔ بلکہ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں  اہل تشیع(اثنا عشری فرقہ) کے  امام غائب سے متعلق ایک ایسا عقیدہ بٹھایا جا رہا ہے جسے  اہل  تشیع کے باقی فرقے بھی  جھوٹ قرار دیتے ہیں۔

بارہویں امام غائب کے متعلق اسلامیات لازمی  کا پیراگراف  ملاحظہ ہو:

’’ روایات کے مطابق آپ ﷫ کی پیدائش دو شعبان (255) ہجری کو عراق میں ہوئی۔ آپ ﷫ کی والدہ کا نام نرجس خاتون تھا۔ جب آپ ﷫ کی ولادت ہوئی تو حکومتی کارندے آپ ﷫ کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷫ کی حفاظت فرمائی۔ سیاسی حالات کی وجہ سے آپ ﷫ بچپن ہی میں روپوش ہو گئے تھے۔(یعنی امام غائب کی عمر کم وبیش بارہ سو سال ہو چکی ۔کئی صدیوں سے غائب ہیں)روپوشی کے دوران آپ﷫  کا قیام عراق، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہا۔(کس دور میں ان علاقوں میں منتقل ہوتے رہے  کوئی وضاحت نہیں)آپ ﷫ نے خطوط کے ذریعے سے لوگوں کی علمی اور اخلاقی تربیت فرمائی۔(کس دور میں مراسلات جاری رہے کچھ پتا نہیں)آپ ﷫ کے شاگردوں میں عثمان بن سعید، محمد بن عثمان، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری شامل ہیں، جنھیں  ’’نائبین خاص ‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ [2]

اس  عقیدہ  کے بارے اہل السنہ کے عظیم امام اورمفسر قرآن امام ابن کثیر ﷫نے دو ٹوک لکھا ہے۔

نوع من الهذيان وقسط كثير مِنَ الْخِذْلَانِ وَهَوَسٌ شَدِيدٌ مِنَ الشَّيْطَانِ إِذْ لا دليل عليه ولا  برهان لا من كتاب ولا من سنة ولا من معقول صحيح ولا استحسان [3].

’’ یہ تصور ذہنی ہذیان اور بیوقوفی کی ایک قسم ہے،اس عقیدے میں بدنصیبی اور ذلت ورسوائی کا بہت بڑا کردار ہے ،بلکہ درحقیقت یہ عقیدہ شیطان کی بدترین ہوس کا آئینہ دار ہے۔ اس عقیدے پر قرآن وسنت میں کوئی دلیل ہے نہ عقل کی روسے درست ،نہ ہی کسی قیاس  کے  رو سے قابل قبول ہے ۔‘‘

ڈائریکٹر کوریکولم سے لے کر مصنفین ومرتبین اور نظر ثانی کرنے والے سکالرز سے سوال ہے کہ کسے خوش کرنے کے لیے ہمارے اہل سنت  کے بچوں کو اسلامی عقیدہ کے نام پر وہ  عقیدہ پڑھایا جارہا ہے جو ان کے نزدیک بالاتفاق گمراہ کن اور باطل عقیدہ ہے!

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک فرقے کے تعارف کے طور پر نہیں پڑھایا جا رہا بلکہ ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر معصوم بچوں کے ذہن میں انڈیلا جا رہا ہے اور پڑھنے والے بچوں میں سے اکثر وہ ہیں جن کے بڑوں کے نزدیک یہ گمراہ کن عقیدہ ہے۔ لہٰذا  اس  فرقہ واریت اور انتشار برپا کرنے  کی کیا معقولیت ہے؟

ہمارا مطالبہ ہے کہ  اسلامیات کے نصاب   میں صرف اور صرف قرآن وحدیث کی وہ باتیں شامل نصاب کی جائیں جو اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے نزدیک متفق علیہ ہیں ۔

اگر اہل سنت سے ہٹ کر دوسرے فرقوں کا تعارف دینا مقصود ہے تو اولا ًفرسٹ ائیر کے لیول پر اس کی ضرورت نہیں یہ بعد کا مرحلہ ہے۔اگر کوئی مجبوری ہے تو اس کا معقول طریقہ یہ ہے کہ آپ دوسرے فرقوں کا انتہائی مناسب اور معقول تعارف دیں اور ساتھ مذہبی آہنگی، رواداری اور برداشت پر مواد شامل کریں۔ جس سے طلبہ ایک دوسرے کے نظریات سے آگاہ بھی ہو سکیں اور رواداری کی تعلیم بھی حاصل کر سکیں۔ اس طرح ہر طالب علم پڑھتے ہوئے جان رہا ہو گا کہ یہ فلاں فرقے کا عقیدہ ہے، طلبہ اندھیرے میں نہیں رہیں گے۔فرقوں کے درمیان خود تقابل کرلیں گے۔اگر اہل تشیع کے نمائندے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اہل بیت کا احترام سب اہل اسلام ہی کرتے ہیں تو یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے لیکن یہ آدھا سچ ہے۔

اہل بیت کا احترام ایک مسلمہ اور متفقہ عقیدہ ہے۔اہل بیت میں سیدنا علی ،سیدہ فاطمہ ،حسنین کریمین﷡ کے ساتھ ساتھ  امہات المومنین ،بنات النبی رضی اللہ عنہن   اور دیگر بھی شامل ہیں، پھر ان سب کا تذکرہ کیجیے۔

اہل بیت ایک متفقہ  اصطلاح ہے ،اگرچہ اس کے مصداق کی تعیین میں اختلاف ہے ،جب کہ  بارہ اماموں کا عقیدہ تو بالکل ہی اور چیز ہے۔اہل بیت کے مقدس نام کے بہانے اثنا عشری عقیدہ امامت کو لازمی نصاب کا حصہ بنانا اہل اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے اور دھوکہ دہی بھی۔

اس کی فی الفور اصلاح ہونی چاہیے وگرنہ کالجز میں فرقہ واریت بڑھنے کے امکانات پیدا ہو جائیں  گے۔

 

(پروفیسر عبید الرحمن محسن )

 

[1] اسلامی حکومت   از خمینی ،ترجمہ اردو : 38،39

[2]    اسلامیات لازمی فرسٹ ایئر ،ص: 109

[3]      النهاية فى الفتن والملاحم      ،1/55