شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری) (قسط 10)
بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:﴿ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۱﴾ [إبراهيم: 4]﴿ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ۰۰۱۸۰﴾ [الصافات: 180] ﴿ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ ﴾ [المنافقون: 8] وَمَنْ حَلَفَ بِعِزَّةِ اللهِ وَصِفَاتِهِ .
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’اور وہ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے ‘‘۔اور فرمایا ”) اے رسول ! )تیرا مالک عزت والا ہے ، ان باتوں سے پاک ہے جو یہ کافر بناتے ہیں‘‘اور فرمایا ’’ عزت اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے ہے ‘‘ اور جس شخص نے اللہ کی عزت اور اس کی دوسری صفات کی قسم کھائی (تو وہ قسم منعقد ہو جائے گی)۔
اس باب میں امام بخاریؒ نے اللہ تعالیٰ کی صفت ؛عزت کا اثبات کیا ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے جو اس کا انکار کرتے ہیں یا انہیں بطور اسم مانتے ہیں لیکن اس میں موجود وصفیت کا انکار کرتے ہیں ، مثلا وہ کہتے اللہ عزیز تو ہے لیکن بلاعزہ ہے جیسےوہ کہتے ہیں : اللہ علیم بلاعلم ہے ۔ یعنی وہ اللہ کی صفتِ عزت کاانکار کرتے ہیں ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
’’ امام بخاری نے تین آیات نقل کی ہیں جن میں صفت ِعزت کا اثبا ت ہے۔ پہلی آیت میں عزت بطور اسم صفت بیان ہوا ہے جس کا معنی قدرت اور غلبہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بھی قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر آئی ہے ۔ کہیں مصدر ، کہیں اسم صفت ، کبھی اضافت کے ساتھ ، کہیں ’’ال ‘‘کے ساتھ اور کہیں ’’ ال ‘‘کے بغیرجیسے عَزِيْزٌ حَكِيْمٌہے ۔
دوسری آیت میں (جہاں ’عزت‘ کو ’ربوبیت‘ کے ساتھ جوڑا گیاہے)، تو اس میں اشارہ ہے کہ یہاں ’عزت‘ سے مراد ’قہر اور غلبہ‘ ہے۔یہ بھی احتمال ہے کہ ’عزت‘ کو ربوبیت کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہو تاکہ وہ خاص طور پر اللہ ہی کی صفت ہو، گویا کہا گیا ہو:’’وہ جو عزت کا مالک ہے‘‘، یعنی یہ اللہ کی ذاتی صفت ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں ’عزت‘ سے مراد مخلوقات کے درمیان ظاہر ہونے والی عزت ہو، جو کہ مخلوق ہے، اس اعتبار سےیہ صفتِ فعل میں شمار ہوگی۔اس صورت میں ’رب‘ کا مطلب ’خالق‘ ہوگا، اور یہاں العزت میں ’ال‘ جنس کے لیے ہے۔
لہٰذا جب تمام عزت اللہ کے لیے ہو، تو کسی کے لیے یہ درست نہیں وه فخر کرے، اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی عزت ہے مگر وہ جو اللہ نے دی۔
تیسری آیت کا حکم دوسری سے سمجھا جا سکتا ہے، کہ یہاں بھی ’’غلبہ‘‘ کا مفہوم ہے، کیونکہ یہ منافق کے دعوے کے جواب میں آئی ہے جس نے کہا تھا کہ وہ سب سے زیادہ معزز ہے اور مسلمان سب سے زیادہ ذلیل ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے :
﴿كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ۰۰۲۱﴾ [المجادلة: 21]
’’اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زور آور اور غالب ہے۔‘‘
اور جو شخص اللہ کی عزت اور صفات کی قسم کھائے، وہ صحیح ہے۔
امام راغب ؒ نے کہا:
’ ’ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور اس پر کوئی غالب نہ ہو۔اللہ کی عزت دائمی اور باقی رہنے والی ہے، یہی حقیقی اور قابلِ تعریف عزت ہے[1]۔‘‘
صفت ِ عزت ان صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہوتی ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب کسی صفت کی نسبت اللہ کی طرف ہو تب وہ خالق کی صفت ذاتی ہوتی ہے ۔ جب اس صفت کی نسبت مخلوق کی طرف ہو تب وہ اللہ کی مخلوق ہوگی ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ﴾ [آل عمران: 26]
’’ تو ہی جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے ۔‘‘
اسے قرآن کی صفت کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے :
﴿وَ اِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌۙ۰۰۴۱﴾ [فصلت: 41]
’’ حالانکہ یہ ایک زبردست کتاب ہے ۔‘‘
یعنی یہ کتاب اپنے دلائل کے اعتبار سے سب پرغالب آنے والی ہے ۔
عزت اللہ تعالیٰ کا لباس ہےجیساکہ حدیث میں آیا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي وَالْعِزَّةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَلْقَيْتُهُ فِي النَّارَ[2].
’’ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تکبر میری اوپر والی اور عزت میری نیچےوالی چادر ہے ۔ جس نے ا ن میں سے کسی کو کھینچنے کی کوشش کی ، میں اسے آگ میں ڈال دوں گا ۔ ‘‘
لفظ ِعزت میں دو معانی پائے جاتے ہیں اور وہ دونوں اردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں ، ایک عزت، دوسرا پیار، جیسے ہم کہتے ہیں یہ شخص مجھےبہت عزیز ہےیا یہ میرا عزیز ہے ۔ عام طور پر جس سے محبت ہوتی ہے وہ محب پر غالب آجاتا ہے جیسے خاوند کو اپنی بیوی سے بہت پیار ہو تو وہ خاوند پر غالب آ جاتی ہے ۔لہٰذا عزیز کےمعنی ٰمیں محبت اور غلبہ دونوں چیزیں بیک وقت شامل ہوتی ہیں ۔
حضرت عیسیٰ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی امت کی سفارش کرتے ہوئے کہیں گے :
﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۱۱۸﴾ [المائدة: 118]
‘‘ اگر تو انہیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کردے تو بلاشبہ تو غالب حکمت والا ہے ۔ ‘‘
یہاں اللہ کا لقب عزیزہے ،اس لیے یہاں عزیز سے مراد یہ ہے کہ تُو محبت کرنے والا بھی ہے اور غالب بھی ہے ، تجھے کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔
امام بخاری دوسری دلیل کے طور پر سورۃ الصافات کی آیت لے کر آئے ہیں :
﴿ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ۰۰۱۸۰﴾ [الصافات: 180]
’’ تیرا رب عزت کا مالک ہر عیب سےپاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘
اللہ کو ماننے والے بھی عزت والے ہیں
عزت کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ، تو جو لوگ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی اہل ایمان تو بھی عزت والے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی عزت دار نہیں ہے۔
مدینہ میں رہنے والے منافقین نے اپنی دولت اور دنیوی مقام و مرتبہ کے سبب خود کو صاحب عزت اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھا اور ان کو مدینہ سے نکالنے کی پلانگ کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں فرمایا:
﴿ يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَؒ۰۰۸﴾ [المنافقون: 8]
’’ کہتے ہیں : اگر ہم مدینہ واپس گئے تو وہاں کا عزیز تر آدمی(منافق) ، ذلیل تر آدمی(رسول اللہ ﷺ / مومنوں ) کو نکال باہر کرے گا، حالانکہ تمام تر عزت تو اللہ ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق یہ بات جانتے نہیں۔‘‘
﴿الَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اَيَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًاؕ۰۰۱۳۹﴾ [النساء: 139]
’’ جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں تو کیا یہ لوگ کافروں کے ہاں عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ عزت تو سب اللہ ہی کے لیے ہے ۔‘‘
جب عزت کا مالک اللہ ہے اور رسول اللہ ﷺ اور مومن بھی عزت والے ہیں کہ وہ عزت کے مالک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جو اللہ کی ذات اور اس کے دین سےکٹ جائے گا ، وہ ہرگز معزز نہیں ہوسکتا ۔
عزت کی مذموم قسم
بعض اوقات ’عزت ‘ کو حمیت اور انانیت کے معنیٰ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، خصوصاً جب ’عزت‘ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے احکام کےمقابلے میں استعمال ہو ،یعنی کوئی شخص اپنی دنیوی مقام و مرتبہ کی وجہ سے اللہ کے احکام ماننے سے انکار کردے تو وہ عزت قابل مذمت ہے ،اس صفت سے کافر و فاسق بھی متصف ہوتے ہیں، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِيْ قَلْبِهٖ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ۰۰۲۰۴وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۰۰۲۰۵
وَ اِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ۰۰۲۰۶﴾
[البقرة: 204 - 206]
’’اور لوگوں میں سے کوئی تو ایساہے جس کی بات آپ کو دنیا کی زندگی میں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے حالانکہ وہ کج بحث قسم کا جھگڑالو ہوتا ہے اور جب وہ (ایسی چکنی چپڑی باتیں کرنے کے بعد ) لوٹتا ہے تو عملاً اس کی ساری تگ و دو یہ ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائے اور کھیتی اور نسل (انسانی ) کو تباہ کرے حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اس کی عزت اسے گناہ پر جمادیتی ہے ۔ ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيْمِؕ۰۰۴۸ذُقْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ۰۰۴۹﴾
[الدخان: 48، 49]
’’ پھر کھولتے پانی کا عذاب اس کے سر پر اوپر سے انڈیل دو ۔ (پھر اسے کہا جائے گا کہ اب سزا ) چکھ ، تو بڑا معزز اور شریف بنتا تھا۔‘‘
اللہ کی عزت کی قسم اٹھانا
امام بخاری باب قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَمَنْ حَلَفَ بِعِزَّةِ اللهِ وَصِفَاتِهِ)
’’اور جو شخص اللہ کی عزت اور اس کی دوسری صفات کی قسم کھائے( تو وہ قسم منعقد ہو جائے گی)۔‘‘
اس سے مراد یہ بتانا ہے کہ عزت اللہ کی صفت ہے اور غیر مخلوق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات ہی کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے۔ کسی مخلوق کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے،جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لاَ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، وَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ باللهِ»[3].
’’ اپنے آبا و اجداد کی قسم نہ اٹھایا کرو ، جس نے قسم اٹھانی ہو وہ صرف اللہ کی قسم اٹھائے ۔‘‘
حافظ ابن حجر نے لکھا :
’’امام ابن بطالؒ نے کہا: العزیز میں ’عزت ‘ شامل ہے، اور ’عزت ‘ ممکن ہے کہ ذاتی صفت ہو ،جیسے قدرت اور عظمت یا فعلی صفت ہو جیسے مخلوقات پر قہر و غلبہ۔اسی لیے ’عزت ‘ کی نسبت اللہ کی طرف درست ہے۔لیکن جو شخص اللہ کی عزت (بطور ذاتی صفت) کی قسم کھاتا ہے، اس کی قسم منعقد ہو جاتی ہےاور جو اللہ کی عزت (بطور فعلی صفت) کی قسم کھاتا ہے، اس کی قسم نہیں مانی جائے گی، بلکہ ایسی قسم کھانا منع ہے، جیسے آسمان کے حق یا زید کے حق کی قسم کھانا منع ہے۔
میں (ابن حجر ) کہتا ہوں: ’’ اگر قسم کھانے والا مطلق طور پر کہے تو وہ ذاتی صفت کی طرف لوٹے گی اور قسم منعقد ہو جائے گی، سوائے اس کے کہ وہ کسی دلیل کے ساتھ دوسری مراد لے[4]۔‘‘
معلق احادیث
بہت ساری احادیث میں اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھائی گئی ہےتو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عزت اللہ کی صفت ذاتی ہے۔ دلیل کے طور پر امام بخاری ؒنے چار معلق روایات پیش کی ہیں ۔ یہ تمام روایات صحیح بخاری ہی میں متصل سند سے مروی ہیں۔ جس کا حوالہ حاشیہ میں دے دیا گیا ہے ۔
- وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:تَقُولُ جَهَنَّمُ: قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ [5].
’’ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”دوزخ کہے گی: بس ، بس تیری عزت کی قسم!۔‘‘
- وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الجَنَّةَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، لاَ وَعِزَّتِكَ لاَ أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا [6].
’’سیدنا ابو ہریرہؓ نے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ”جنت اور دوزخ کے درمیان ایک آدمی باقی رہ جائے گا جو سب سے آخر میں جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوگا۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میرا چہرہ دوزخ سے دوسری طرف کردے۔ مجھے تیری عزت کی قسم! اس کے علاوہ تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔‘‘
یہ طویل حدیث کا ایک حصہ ہے ، جس میں سب سے آخر میں جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے والے شخص کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔ اس میں اللہ کی عزت کی قسم اٹھائی گئی ہے ۔ مزید واؤ قسمیہ سے پہلے جو ’ لا ، ہے ، یہ قسم کی تاکید کے لیے ہے۔
- قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: لَكَ ذَلِكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ[7].
’’سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :تیرے لیے جنت کا یہ مقام اور اس سے دس گنا مزید ہے۔“
اس روایت کے ٹکڑے میں عزت کی قسم اٹھانے کا ذکر نہیں ہے ، دراصل اس روایت میں حضرت ابوہریرہ کی روایت والا مضمون ہی بیا ن ہواہے ، فرق صرف یہ ہے کہ ابوہریرہ کی روایت میں جنتی کو اس کی خواہش سے ڈبل اور ابوسعید خدری کی روایت میں دس گنا زیادہ نعمتیں دی جائیں گی ۔ اس طرح امام بخاری ؒنے عزت کی قسم کھانے والے مسئلہ پر بھی اس سے استدلال کرلیا ، اور فرق بھی واضح کردیا ہے۔
- وَقَالَ أَيُّوبُ: «وَعِزَّتِكَ لاَ غِنَى بِي عَنْ بَرَكَتِكَ»[8] . [صحيح البخاري :7493 ]
’’ ایوب نے کہا: اے اللہ! تیری عزت کی قسم! میں تیری برکت سے بے نیاز نہیں ہوں۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کوان کی دعا کے نتیجے میں صحت دی، پھر مال سےسرفراز کرنے کے لیے ان پر آسمان سےسونے کی ٹڈیاں برسائیں ۔ حضرت ایوب سونے کی ٹڈیاں اپنی چادر میں جمع کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نےپوچھا: اے ایوب! کیا یہ کافی نہیں ہے؟۔ تو عرض کی :
”اے اللہ! تیری عزت کی قسم! میں تیری برکت سے بے نیاز نہیں ہوں۔‘‘
اس سے ثابت ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی قسم اٹھانا سابقہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے۔
مذکورہ بالا روایات میں اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھائی گئی ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ عزت اللہ تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے ۔
7383 - حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ المُعَلِّمُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: «أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ، الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الَّذِي لاَ يَمُوتُ، وَالجِنُّ وَالإِنْسُ يَمُوتُونَ»
’’ہمیں ابو معمر نے بیان کیا ، کہ ہمیں عبد الوارث نے بیان کیا ، کہ ہمیں حسین المعلم نے بیان کیا کہ مجھے عبد اللہ بن بریدہ نے ،یحییٰ بن یعمرسے بیان کیا ، کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کہا کرتے تھے : ‘’تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تیری ایسی ذات ہے جسے موت نہیں جبکہ تمام جن وانس فنا ہو جائیں گے ۔‘‘
شرح الحدیث
یہ روایت رسول اللہ ﷺ کے اذکار سے متعلق مفصل روایت کا ایک حصہ ہے ۔ یہاں اس روایت سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عزت کے ذریعے تعوذ اور پناہ پکڑی جو اس بات کی دلیل ہے کہ عزت اللہ کی صفت ذاتی ہے اور صفت ذاتی دراصل ذات کا حصہ ہوتی ہے ، کیونکہ مخلوق سے استعاذہ جائز نہیں ہے ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سےاستعانت اور استعاذہ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔
7384 - حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حَرَمِيٌّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ يُلْقَى فِي النَّارِ»
وقَالَ لِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، ح
وَعَنْ مُعْتَمِرٍ سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’لاَ يَزَالُ يُلْقَى فِيهَا وَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ، حَتَّى يَضَعَ فِيهَا رَبُّ العَالَمِينَ قَدَمَهُ، فَيَنْزَوِي بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، ثُمَّ تَقُولُ: قَدْ، قَدْ، بِعِزَّتِكَ وَكَرَمِكَ، وَلاَ تَزَالُ الجَنَّةُ تَفْضُلُ، حَتَّى يُنْشِئَ اللهُ لَهَا خَلْقًا، فَيُسْكِنَهُمْ فَضْلَ الجَنَّةِ .
’’ہمیں عبد اللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا ، کہ ہمیں حرمی بن عمارہ نے بیان کیا ، کہ ہمیں شعبہ نے ، قتادہ سے بیان کیا کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو مسلسل دوزخ میں ڈالا جاتا رہے گا ۔
( دوسری سند ) اورمجھے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ، کہ ہمیں یزید بن زریع نے بیان کیا، کہ سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے روایت کی ، انہوں نے انس ؓ سے ۔
( تیسری سند ) اور خلیفہ بن خیاط نے معتمر بن سلیمان سے روایت کیا ، کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے انس ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کو برابر دوزخ میں ڈالا جاتا رہے گا اور وہ کہتی رہے گی کیا مزید ہیں ؟ ۔ یہاں تک کہ رب العالمین اس میں اپنا قدم رکھ دے گا تو اس کا ایک حصہ دوسرے حصے سے سمٹ جائے گا اور اس وقت وہ کہے گی کہ بس بس ، تیری عزت کی قسم اور تیرے کرم کی قسم !۔ اسی طرح جنت میں جگہ باقی رہ جائے گی ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک اور مخلوق پیدا کر دے گااور انہیں جنت کے بقیہ حصے میں آباد کیا جائے گا ۔‘‘
لطائف الاسناد
امام بخاری دراصل تیسری سند کےساتھ حدیث لانا چاہتے تھے ، کیونکہ وہ عالی بلکہ ثلاثی ہے،یعنی امام بخاری اور صحابی کے درمیان صرف تین واسطے ہیں ۔لیکن اس میں جہنم کا لفظ نہیں تھا ، جس کے متعلق ساری بات ہورہی ہے جبکہ پہلی سند میں جہنم کا نام ہے۔ اس لیے یہ بتانے کے لیے کہ یہ ساری بحث جہنم سےمتعلق ہے پہلی سند لا کر جہنم کا نام ذکر کردیا ۔تاکہ اگلی بات آسانی سے سمجھ آجائے۔
شرح الحدیث
اس باب میں یہ روایت لانے کا مقصد یہ ہے کہ عزت اللہ کی صفت ہے اور اس کی قسم اٹھانا جائز ہے ، لیکن اس کے علاوہ مذکورہ حدیث سے جہنم کی وسعت اور ہولناکی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ جہنم کےحجم اور عظمت کا انداز اس روایت سے بھی ہوتا ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ، مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا»[9].
’’عبداللہ بن مسعودؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: (قیامت کے دن میدان حشر میں) جہنم کو ستر ہزار لگامیں ڈال کر لایا جائے گا اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے ۔‘‘
ستر ہزار لگاموں کو ستر ہزار فرشتوں سے ضرب دیں تو جہنم کو کھینچ کر لانے والے فرشتوں کی تعداد تین ارب نوے کروڑ بنتی ہے ۔اس سے جہنم کے حجم اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
دوسری روایت میں جہنم میں جانے والوں کی تعداد کا علم ہوتا ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ القِيَامَةِ: يَا آدَمُ، يَقُولُ: لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ، فَيُنَادَى بِصَوْتٍ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ - أُرَاهُ قَالَ - تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ ، فَحِينَئِذٍ تَضَعُ الحَامِلُ حَمْلَهَا، وَيَشِيبُ الوَلِيدُ، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى، وَلَكِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِيدٌ [10].
’’سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت والے دن فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ آوازیں دیں گے:
بیشک اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ تم اپنی اولاد میں سے جہنم کے لیے ایک گروہ کو علیحدہ کر دو۔ وہ پوچھیں گے: اے میرے رب! آگ کے گروہ کی تعداد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ایک ہزار میں سے نو سو نناوے (999) کوجہنم کے لیے علیحدہ کر دو۔یہ ہولناک خبر سن کرحاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہو جائیں گے اور بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے، حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے۔“
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ ہزار میں سے نو سو نناوے لوگوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا ، اس کے باوجود جہنم نہیں بھرے گی اور مسلسل ﴿هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ ﴾ کا مطالبہ کرے گی ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم مبارک رکھیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد اس میں سوئی ڈالنے کی بھی جگہ نہ بچےگی ۔
زیر بحث حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عزت کے ذریعے تعوذ اور پناہ پکڑی جو اس بات کی دلیل ہے کہ عزت اللہ کی صفت ذاتی ہے ۔ صفت ذاتی اصل میں ذات کا حصہ ہوتی ہے ، صفت ذاتی کی قسم اٹھانا گویا ذات کی قسم اٹھانا ہے اسی لیے جائز ہے ۔ جبکہ اللہ کی صفت فعلی یا بندوں کی صفت ہوتو اس کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس وقت وہ اللہ کی ذات کا حصہ نہیں ہوتی ، بلکہ اللہ کی مخلوق ہوتی ہے اور مخلوق کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کی عزت کےساتھ تعوذ کرنا یعنی اس کی پناہ مانگنا بھی جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قدم سے مراد کیا ہے ؟
مذکورہ حدیث سے اللہ تعالیٰ کے قدم کا بھی اثبات ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے قدم (پاؤں ) سے مراد کیا ہے ؟۔
متقدمین کے نزدیک قدم میں کوئی تاویل اور تحریف نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قدم ہے جو اس کی شان کے لائق ہے اور مخلوق میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بعض متاخرین نے جب دیکھا کہ بہ ظاہر یہ آیت اور یہ احادیث اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے اور اس کے اعضاء کو مستلزم ہیں تو انہوں نے قدم کی مختلف تاویلیں کیں، پھر تأویل کرنے والے بھی کسی ایک موقف پر متفق نہیں رہ سکے ، بلکہ ہر شخص نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق مختلف تأویل کی ہے ، چناچہ حافظ ا بن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں :
- قدم سے مقدم اعمال مراد ہیں۔ یعنی اہل دوزخ جو برے اعمال پہلے کرچکے ہیں ان اعمال کو مجسم کر کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
- اس سے مراد بعض مخلوق کے قدم ہیں۔
- ایک مخلوق کا نام قدم ہے، اس مخلوق کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
- قدم انسان کے اعضاء کے آخر میں ہوتا ہے، پس جو آخری مخلوق دوزخ کی اہل ہوگی، اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
- جن موحدین کو دوزخ سے نکالا جائے گا ان کے بدلہ میں یہود اور نصاریٰ کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور چونکہ وہ موحدین پر مقدم ہیں اس لیے ان کو قدم سے تعبیر فرمایا[11]۔
درست بات یہ ہے کہ قدم سے مراد پاؤں ہی ہے ، کیونکہ بعض روایات میں قدم کی بجائے ’’رجل ‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے [صحيح بخاري :4850]۔ سلف صالحین کا موقف یہی ہے کہ قرآن وسنت میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس کے حقیقی معنیٰ میں لیا جائے ۔ لہٰذا یہاں پاؤں سےمراد اللہ تعالیٰ کا حقیقی پاؤں ہے ،البتہ اس کی کیفیت یا تمثیل بیان نہیں کی جاسکتی ۔ حدیث کے ان الفاظ سے بھی یہی معنیٰ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا حقیقی قدم مبارک رکھیں گے : فَيَنْزَوِي بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ’’ پاؤں رکھنےسے اس کا ایک حصہ دوسرے حصے سےمل جائے گا‘‘ ، جس طرح کسی پلاسٹک یا کسی نرم چیز سے بنے برتن میں پاؤں رکھا جائے تو اس کے اوپر والے حصے باہم مل جاتے ہیں ۔
کیا پاؤں اللہ کا عضو ہے ؟
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قدم بھی ہمارے قدم کی طرح کا ایک عضو ہوگا۔ ایسا سمجھنا یا کہنا درست نہیں ہے ۔ اعضا اور جوارح کا اطلاق انسانی جسم پر ہوتا ہے اس لیے سلف صالحین ہاتھ ، پاؤں ، آنکھ اور وجہ وغیرہ کواللہ کے اعضا اور جوار ح کہنے سے پرہیز کرتے تھے ۔اس لیے ہم انہیں اعضا نہیں کہتے ۔ اوصاف ذاتیہ کہنا بھی متاخرین کی تعبیر ہے سلف کی نہیں ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا بھی سلف کا طریقہ نہیں ہے۔اس لیے ہم یوں کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے دو ہاتھ ہیں(جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے) ،اللہ کے لیے چہرہ ہے جیسے اللہ کی ذات کے لائق ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدم کا لفظ آیا ہے اور دوسری احادیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے کئی اور الفاظ بھی آئے ہیں ،مثلاً وجہ ، عین ، نفس، شخص ، ید ، قبضہ اس کے علاوہ ’’عمری ‘‘ کالفظ بھی آیا ہے ۔ لیکن ہم اس صفات الٰہیہ میں کلام کرتے ہوئے اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ اللہ کے بارے میں سمع کا ذکر آیا ہے لیکن کان کا ذکر نہیں آیا ۔تو ہم اللہ کے لیے سمع کا لفظ بولتے ہیں کان کا لفظ نہیں بولتے ، حالانکہ سننا کان کا فعل ہے ۔ محتاط رویہ یہی ہے کہ جو الفاظ وارد ہیں انہی کو استعمال کیا جائے ۔ سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے وہ کہتے ہیں (ولا تقف ما لیس لک بعلم)تمہیں اللہ کی ذات کے بارے میں جس بات کا علم نہیں ہے وہ بات نہ کرو۔ جب تمہیں اللہ کی صفات کی کیفیات کا علم نہیں ہے تو اپنے پاس سے اس کی تعبیریں نہ کرو ۔
وصف نام بھی ہوتا ہے اور کار گزاری بھی ،اسے مصدر کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں اور فعل کے ساتھ بھی ، جیسے (يقبض الله الارض )اللہ زمین کے اوپر اپنا قبضہ ڈالے گا۔یہاں یقبض بطور وصف استعمال کیاگیا ہے ۔
جنت اور جہنم کیسے مکمل آباد کی جائیں گی ؟
( وَلاَ تَزَالُ الجَنَّةُ تَفْضُلُ ، حَتَّى يُنْشِئَ اللهُ لَهَا خَلْقًا، فَيُسْكِنَهُمْ فَضْلَ الجَنَّةِ)
’’اور (اسی طرح )جنت میں جگہ باقی رہ جائے گی ، یہاں تک کہ اللہ اس کے لیے ایک مخلوق پیدا کر ے گا اور اسے جنت کے باقی حصے میں رکھا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نےجنت اور جہنم دونوں کے آباد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ، لیکن دونوں میں اتنی وسعت ہے کہ جن و انس کے ہزار میں سے نو سو نناوے افراد کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور جنت میں سب سے ادنیٰ جنتی کو دنیا سےدس گنا زیادہ جگہ دی جائےگی ، اس کے باوجود وہ دونوں نہیں بھریں گی۔ تب اللہ تعالیٰ جہنم میں اپنا قدم ڈالے گا تو وہ سکڑ جائے گی، اس طرح وہ بھر جائے گی ، جبکہ جنت کو نئی مخلوق پیدا کرکے بھرا جائے گا ۔ اس فرق کی وجہ یہ ہےکہ جہنم اللہ کے غصہ اور عذاب کا مظہر جبکہ جنت اللہ کی رحمت کا نشان ہے۔لہٰذا کسی بھی شخص کو گناہ کے بغیر عذاب میں نہیں ڈالا جائے گا ، لیکن اپنا فضل و رحمت بلاوجہ بھی کسی پر کیا جاسکتا ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ جہنم کو بھرنے کے لیے نئی مخلوق پیدا کی جائے گی [صحيح البخاري :7449] ، لیکن صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جہنم کو اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں رکھ کر اور جنت کو نئی مخلوق پیدا کرکے بھرا جائے گا ۔
قط اور قد کےمعنیٰ میں فرق
معلق روایت میں لفظ قَطْ اور مسند روایت میں لفظ قَدْ استعمال ہوا ہے ، یہ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سےایک ہیں ، جیسے عربی میں لفظ بکس اور مکس کا ایک ہی معنیٰ ہے بلکہ اسی لفظ اور اسی معنی میں انگریزی کا لفظ ٹیکس ہے۔ یہ زبان کے مختلف استعمالات ہوتے ہیں ۔
فوائد :
- عزت اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے ۔
- عزت کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کو ماننےوالے مومن بھی عزت والے ہیں ۔
- لہٰذا کوئی عزت چاہتا ہے تو اسے اللہ ہی سے مانگنی چاہیے ۔
- کافر عزت سے خالی ہیں اور جو شخص ذاتی عزت کا دعویٰ کرے یا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عزت کو استعمال کرے ، ان کاٹھکانہ جہنم ہے ۔
- عزت اللہ کی صفت ذاتی ہے، اس لیے اس کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے اور اس سے تعوذ بھی لیا جاسکتا ہے۔
- قدم بھی اللہ پاک کی صفت ہے ۔البتہ قدم ، وجہ ، عین وغیرہ کو اعضاء و جوارح سے تعبیر کرنا بدعت ہے ۔
- جہنم کے بھرنے کے لیے اللہ رب العزت اپنا قدم مبارک رکھیں گے ۔
- جہنم سے مومن اپنے اپنے گناہوں کی سزا پوری کرنےکے بعد نکال کر جنت میں بھیج دیئے جائیں گے ۔
- سب سے آخر میں جہنم سےنکالے اور جنت میں داخل کیے جانے والے مومن کو دنیا سے دس گنا بڑی جنت دی جائے گی ۔
اللہ تعالیٰ نےجنت اور جہنم کو بھرنے کا وعدہ کیا ہے ، اللہ تعالیٰ جہنم میں اپنا قدم مبارک رکھیں گے ، جس سےوہ بھر جائے گی اور جنت کو نئی مخلوق پیدا کرکے بھرا جائے گا۔
[1] فتح الباری :14/315
[2] مسند الحميدي (2/ 285):1183
[3] صحيح بخاری:7401
[4] فتح الباری :14/315
[5] صحيح بخاری:6661
[6] صحيح بخاری :6573
[7] صحيح بخاری :6574
[8] صحيح بخاری : 7493
[9] صحيح مسلم:2842]
[10] صحيح بخاری:4741
[11] فتح الباري لابن حجر (8/ 596)