سینیٹر پروفیسر ساجد میر
(علمی جدوجہد اور جماعتی خدمات )
سینیٹر پروفیسر ساجد میر 3 مئی 2025 ء کو وفات پا گئے ۔ ان کا جنازہ سیالکوٹ میں ایک تاریخ رقم کر گیا ۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے جنہوں نے بھرپور زندگی گزاری اور اپنی خدمات کے ذریعے ارض پاک اور عالم اسلام میں منہج اہلحدیث کی آبیاری کی ۔ شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیرؒ کے بعد انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مسلک اہلحدیث کی ترویج و اشاعت میں کردار ادا کیا ۔ مشکل ترین حالات میں جماعت کی قیادت سنبھالی اور مختلف ادوار میں چیلنجز کا مقابلہ کرتے کرتے جماعتی وقار اور ترقی کو برقرار رکھا ۔ ان کی زندگی کے کئی پہلو ہیں ۔ ایک ایسی شخصیت کہ جس نے چالیس سال تک قیادت کی ۔ انہوں نے جماعتی نظم و ضبط ، اداروں کے قیام اور شخصی اعتبار سے ایسے معیارات قائم کئے جنہوں نے انہیں نمونہ اسلاف بنا دیا ۔ پروفیسر ساجد میرؒ عالمی سطح پر بھی نمایاں پہچان رکھتے ہیں ۔ عالم اسلام کی معتبر ترین تنظیم رابطہ عالم اسلامی کی ایگزیکٹو کونسل اور مجلس فقہ الاسلامی کے پاکستان سے واحدممبر رہے۔
ان کی زندگی کے کئی گوشے ہیں، آئیے ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ان کی زندگی بھر کی جدوجہد ، جماعتی و ملی خدمات اورذاتی زندگی کے سنہری اصولوں کا جائزہ لیا جا سکے ۔
امیرمرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان : 2 مئی 1992 سے 2 مئی 2025 تک کے 33 سال
سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو تو جماعت ہی ہے ۔ جس کی انہوں نے ساری زندگی آبیاری کی ۔ ان کی دہائیوں کی محنت اور انتھک خدمات کی بدولت جماعت آج نہ صرف ارض پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک بھرپور پہچان رکھتی ہے ۔ پروفیسر ساجد میر10جون 1973ء کو پہلی مرتبہ جماعتی سیاست میں فرنٹ لائن پر آئے جب انہیں جماعت کاناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ گوجرانوالہ میں ہونے والے اجلاس میں پیر سید بدیع الدین شاہ راشدیؒ کو امیر بنایا گیا تھا ۔ علامہ احسان الہی ظہیرؒ کی جانب سے اپنی زندگی میں آپ کو متعدد بار قائم مقام ناظم کی ذمہ داری دی گئی ۔جبکہ علامہ صاحب کی شہادت کے سانحے کے بعد آپ کو بطور قائم مقام ناظم منتخب کیا گیا اور1987ء میں ہی آپ کو باقاعدہ طور پر ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا، یوں آپ یکم مئی 1992ء تک جماعت کے ناظم کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔پھر 2 مئی 1992ء کو شوریٰ کے اجلاس میں آپ کو باضابطہ امیر جماعت منتخب کیا گیا۔تب سے لے کر اپنی وفات تک 33 برس سےبطور امیر خدمات سرانجام دیں۔ پروفیسر ساجد میرؒ کی زیر امارت مرکزی جمعیت اہلحدیث ارض پاکستان اور بیرون ملک حاملین کتاب و سنت کی نمائندہ جماعت بنی جس کا نظم شہری ، ضلعی ، صوبائی اور مرکزی سطح پر ملک بھر سمیت یورپ و ایشیاء کے کئی ممالک میں موجود ہے ۔ مجلس شوری 600 ارکان پر مشتمل ہے ۔ جس میں علمائے کرام، سکالرز ، سماجی شخصیات اور تاجر حضرات شامل ہیں ۔ پروفیسر ساجد میرؒ کی زیر امارت جماعت نے دعوت و تبلیغ اور خدمت ِخلق کے میدانوں میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ۔ اہم ترین جماعتی فورمز مرکزی شوری ، عاملہ اور کابینہ کے باقاعدگی سے اجلاس منعقد ہوتے ہیں جن میں کارکردگی کے جائزے کے ساتھ ساتھ آئند ہ کا لائحہ عمل بھی طے کیا جاتا ہے ۔ مرکزی قیادت نے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران قومی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں مختلف اداروں کا دورہ کیا ۔ اس سے برصغیر میں حاملین توحید و سنت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ان شاء اللہ اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسی طرح حالیہ دورہ سعودی عرب میں بھی اعلی ترین حکام سے ملاقاتیں کیں گئیں ۔جماعت کے مختلف شعبہ جات اور ادارے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔
’’وفاق المدارس السلفیہ ‘‘ کے تحت ملک بھر میں ہزاروں مساجد و مدارس دینیہ سرگرم عمل ہیں ۔ وفاق المدارس کی سند حکومت پاکستان کے ہاں ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر تسلیم شدہ ہے۔ جماعت کی بیشتر جامعات کا سعودی عرب اوردیگر ممالک کی یونیورسٹیز کیساتھ الحاق ہے ۔چنانچہ ان مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اپنی اعلی تعلیم بیرون ملک مکمل کرتے ہیں ۔
مرکزی جمعیت اہلحدیث کی موجودہ قیادت ایک ایسا مضبوط نیٹ ورک بنانے میں کامیاب رہی ہے جس کی بدولت نہ صرف ملک بھر بلکہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات مرکزی دفتر کا وزٹ کرکے اپنے نیک جذبات کا اظہار کر چکی ہیں ۔ پروفیسر ساجد میر کے دور امارت میں مختلف مواقع پر کانفرنسز میں امام کعبہ الشیخ عبدالرحمن السدیس﷾ ، امام کعبہ عبداللہ العواد جہنی﷾ ، الشیخ خالد غامدی ﷾اور الشیخ صالح آل طالب﷾ سمیت دیگر آئمہ حرمین، وزیر مذہبی امور سعودی عرب ڈاکٹر الشیخ سلیمان اباالخیل ﷾، نا ئب وزیر برائے مذہبی امور سعودی عرب ڈاکٹر الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ العمار﷾،وزیر مذہبی امورپاکستان سردار محمدیوسف﷾، جامعۃ الامام محمد بن سعود کے چانسلر ، سابق سعودی سفیرعبدالعزیزبن ابراہیم الغدیر ﷾ اور ممتاز انڈین مصنف مظہریاسین صدیقیؒ، مرسی مشن انٹرنیشنل کے سربراہ ڈاکٹر توفیق ﷾کے علاوہ برطانیہ ، یونان، کویت اور دیگر ممالک کے جماعتی و دینی وفود سمیت ملک بھر کی نامور جماعتی اور غیر جماعتی شخصیات مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی دفتر میں تشریف لا چکی ہیں۔
جماعت کی ذیلی تنظیمات ’’اہل حدیث یوتھ فورس‘‘، ’’ا سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘،’’جمعیت اساتذہ‘‘ اور تاجر ونگ سرگرم عمل ہیں ۔
مرکزی جمعیت اہلحدیث ’’ الفلاح فاونڈیشن‘‘ کے نام پر رفاہِ عامہ کی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہے ۔ ارض پاک میں آنیوالی ہر آفت ، مصیبت اور سانحے کی صورت میں دکھی انسانیت کی خدمت میں ہراول دستے کا کردار ادا کر تی ہے ۔ 2005 کے ہولناک زلزلے کے موقعے پر جماعت کا کردار تاریخ ساز تھا، متاثرین کو ریسکیو کیا گیا ، خیمہ بستی بسائی گئی اور رہائشیں و گھر تعمیر کرکے دئیے گئے ۔ اسی طری 2010 کے تباہ کن سیلاب میں بھی جماعت نے بے مثال خدمات سرانجام دیں ۔ 2022ءکےسیلاب میں بھی کارکنان ملک کے کونے کونے میں خدمت خلق میں مصروف رہے ۔ جماعت کی جانب سے ملک بھر کے دور دراز سیلابی علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں متاثرین کو کھانا ، خیمے ،راشن ، میڈیکل کیمپ ، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائی گئیں ۔ الفلاح فاونڈیشن کی جانب سے ڈیڑھ ارب کا امدادی سامان تقسیم کیا گیا ۔ اسی طرح ترکی میں آنیوالے زلزلے میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں گئیں۔ جماعت نے اسرائیل کی حالیہ وحشیانہ بمباری پر مظلوم اہل فلسطین کے لئے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا ۔
پیغام ٹی وی کا قیام :
پروفیسر ساجد میرؒ کی زیر امارت سب سے اہم ترین کارنامہ اور تبلیغی پیشرفت پیغام ٹی وی کا قیام ہے ۔ ایک ارب سے زائد انسانوں کی زبان ،دنیا کی تیسری بڑی زبان اردو اور پشتو بولنے اور سمجھنے والوں تک قرآن و حدیث کی مستند تعلیمات پہنچانے کے لیے امامِ کعبہ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس ﷾ کی سرپرستی میں ’’پیغام ٹی وی ‘‘کا آغاز کیا گیا۔ پیغام ٹی وی نیٹ ورک کے تحت چار سیٹلائیٹ چینلز اردو ، پشتو۔ پیغام ٹی وی یوکے اور قرآن ٹی وی اپنی نشریاتی پیش کر رہے ہیں ۔
سیاسی زندگی ...سینیٹ میں خدمات اور قومی کردار
پروفیسر میرؒ چھے مرتبہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ پہلی بار 1994ء میں سینیٹر بنےاور بعد ازاں لگاتار پانچ مرتبہ (مجموعی طور پر چھ مرتبہ) ایوان بالا کے رُکن رہے۔ اس دوران آپ کشمیر کمیٹی ، سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی ، گلگت بلتستان کمیٹی اور مذہبی امور کمیٹی سمیت متعدد قائمہ کمیٹیوں کے چئیرمین کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ترین حکومتی ایوانوں میں نمائندگی کے باعث وہاں بھی شعائر اسلام اور نظريۂ پاکستان کے تحفظ کی بھرپور کوشش کی ۔ مغربی این جی اوز کے دباو پر پیش کئے جانیوالے حقوق نسواں بل کا راستہ روکا ، عالم اسلام کے مسائل پر آواز بلند کی ، جبکہ ارض پاکستان کی تاریخ میں ناموس صحابہ و اہلبیت بل پیش کرنے اور منظور کرانے کا اعزاز ناظم اعلیٰ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کو حاصل ہوا، جماعت نے ہر ایوان اور فورم پر دینی طبقے کی نمائندگی کا فریضہ نبھایا ہے۔
آپ ؒ بین الاقوامی کانفرنسوں میں کئی بار شرکت کر چکے ہیں، مثلاً انٹرنیشنل دعوت کانفرنس، برمنگھم 1985ء ، 1987ء،1988ء،2000ء،2004ء، 2008ء، 2011ءاسلامی کانفرنس برمنگھم، لندن، مانچسٹر، گلاسکو1999ء، 2000ء، 2001ء،2005ء، یورپین اسلامی کانفرنس، لندن 1988ء، 1992ء عالمی اسلامی کانفرنس، فلپائن 1988 ء، عالمی حج کانفرنس، استنبول (ترکی) 1988 ء، عالمی امن کانفرنس، بغداد (عراق)، 1987 ,1989 ء، رابطہ عالم اسلامی کانفرنس، مکہ معظمہ 1990ء، 1999ء، 2001ء، 2011ء، 2013ء، دعوت کانفرنس، امریکہ (نیو یارک، نیو جرسی) 1989ء دعوت کانفرنس، بھارت (بمبئی، دہلی، بنارس) 1990 ء، بین الاقوامی کانفرنس، ریاض (سعودی عرب) 1991ء، بین الاقوامی کانفرنس، کویت 1992،1991ء، ایشیائی حج کانفرنس کوالالمپور (ملائیشیاء) 1990ء، دعوت کانفرنس سنگا پور 1990 ء، بین الاقوامی اسلامی کانفرنس برائے وسط ایشیائی ریاستیں، ماسکو 1991 ء، دعوت کانفرنس، متحدہ عرب امارات 1991 ء،ایشیائی اسلامی کانفرنس، کولمبو (سری لنکا) 1993ء، عالمی اسلامی کانفرنس( انڈونیشیا) 2002ء، سیرت کانفرنس، ٹریپولی( لیبیا) 1998، 2003ء۔ اس کے علاوہ بیلجئم، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، فرانس، نائیجیریا، کینیا، سپین، ڈنمارک، آئیر لینڈ، کینیڈا ، یونان کے سفر کر چکے ہیں۔
تصانیف:
آپ کا تصنیف و تالیف سے بھی شغف تھا ،آپ کے قلم سے درج ذیل تصانیف منصہ شہود پر آئیں :
1 ۔ عیسائیت، مطالعہ و تجزیہ 2 ۔ تصحیح ترجمہ ’’صحیح مسلم‘‘ مطبوعہ شیخ محمد اشرف پبلشرز 3 ۔ تصحیح ترجمہ ’’ماذا خسر العالم من انحطاط المسلمین‘‘ از مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 4 ۔ ترجمہ (عربی سے انگریزی) ’’الحزب المقبول‘‘ (دعاؤں کی معروف و مقبول کتاب) 5 ۔ مختلف ملکی اخبارات و جرائد میں اسلامی، سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر مضامین 6 ۔ ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘،’’ترجمان الحدیث‘‘،اور ’’الاسلام‘‘ میں تفسیر، حدیث، اسلامی تاریخ، فقہ اور اسلام کی معاشرتی اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے بارے میں مضامین لکھ چکے ہیں۔
عصری تعلیم :
سینیٹر پروفیسر ساجد میرؒ 2 اکتوبر 1938 کو سیالکوٹ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق نامور علمی سیاسی شخصیت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ کے خاندان سے تھا ۔ والد کا نام جناب عبدالقیوم میرؒ تھا ،جو کہ محکمہ تعلیم میں انسپکٹر سکولز کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ۔
آپ نے ابتدائی تعلیم پسرور سے حاصل کی جہاں والد محترم بسلسلہ ملازمت مقیم تھے ۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ ، ایف اے اور بی اے مرے کالج سیالکوٹ ، ایم اے انگلش گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ انہوں نے ایم۔ اے (اسلامیات)، پنجاب یونیورسٹی، 1969ء، فرسٹ ڈویژن، بی۔ اے (سیاسیات و عربی) ، مرے کالج سیالکوٹ، 1958ء، مع انگلش اور عربی میں میرٹ سکالر شپ، بی۔ اے (ایڈیشنل) معاشیات، پنجاب یونیورسٹی، مئی 1965ء، بی۔ اے (ایڈیشنل) نفسیات ،پنجاب یونیورسٹی، جولائی 1966 ء میں کیا۔ اسی دوران حفظ القرآن الکریم کی سعادت بھی حاصل کی ۔
دینی تعلیم :
آپ نے امام العصر مولانا حافظ ابراہیم میر سیالکوٹیؒ ، شیخ الحدیث حافظ محمد اسحاق حسینویؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانبازؒ سے دینی تعلیم حاصل کی ۔ مولانا جانبازؒ صاحب اور حافظ اسحقؒ صاحب سے بخاری شریف سمیت درس نظامی کی متعدد کتب سبقاًسبقاً پڑھی ہیں۔ البتہ مولانا جانبازؒ صاحب سے علمی تعلق نسبتا زیادہ رہا اور ان سے کئی اہم کتب کا باقاعدہ درس لیا۔ جب کہ اجازت حدیث حافظ اسحقؒ صاحب سے حاصل ہوئی ہے۔ جناب رانا شفیق خاں پسروری صاحب کی مرتب کردہ سوانح میں یہ تفصیل درج ہے کہ امیر محترمؒ نے 1971ء میں جامعہ ابراہیمیہ سیال کوٹ سے فراغت حاصل کی اور اس کے بعد 1972ء میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں سے بھی سند فراغت حاصل کی۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس وفاق المدارس السلفیہ کی جانب سے شہادۃ العالمیہ (عالم کورس) کی سند بھی موجود تھی۔
پیشہ ورانہ خدمات :
لیکچرار (انگلش)، جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ ( 1960-9-14 تا 1963-2-10) ، انسٹرکٹر (انگلش)، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ (1963ء تا 1966ء) ، سینئر انسٹرکٹر (انگلش اینڈ مینجمنٹ) گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ و لاہور (1966ء تا 1975ء) ، آفیسر انچارج، شعبہ ریلیٹڈ اور بیسک سٹڈیز، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سیالکوٹ (1972ء تا 1975ء) ، ممتحن اعلیٰ و پیپر سینٹر پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ( 1969ء تا 1975ء)، جنرل سیکرٹری، پولی ٹیکنیک ٹیچرز ایسوسی ایشن، مغربی پاکستان (1968 تا 1970ء) صدر، پولی ٹیکنیک ٹیچرز ایسوسی ایشن (1972ء تا 1975ء) ۔
پھر آپ افریقی ملک نائیجیریا میں تشریف لے گئے ، وہاں پر بھی کئی تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں نبھائیں ، مثلاً سینئر ایجوکیشن آفیسر (سینئر لیکچرار)، فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1975ء تا 1977ء) ، پرنسپل ایجوکیشن آفیسر (اسسٹنٹ پروفیسر) فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1977ء تا 1981ء) انگلش اور اسلامیات ، اسسٹنٹ چیف ایجوکیشن آفیسر (ایسوسی ایٹ پروفیسر) فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1981 ء تا 1984ء) ۔
چند ذاتی یادیں ۔ لمحات میر
سینیٹر پروفیسر ساجد میر کیساتھ سب کی یادیں ہیں ۔ ایک ادارے میں پندرہ سال ان کی سرپرستی رہی تو بہت سے ایسے لمحات جو اب یادیں بن رہے ہیں ۔ پیغام ٹی وی ورکنگ اور جماعت کے سوشل میڈیا کے حوالے سے میٹنگز،رہنمائی ۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ لمحات کہ جب ان کے ہمراہ عمرہ کرنے کی سعادت ملی ۔ کتنی خوش نصیبی کہ آپ ایک ایسی شخصیت کے واحد ساتھی ہوں جن کے ساتھ گزرنے والا ایک ایک لمحہ زندگی بھر کی سعات بن جائے ۔ یہ سفر کچھ ایسا مبارک کہ جب امام الحرمین الشریفین آپ کے میزبان ہوں ۔ پیغام ٹی وی کی الحرمین الشریفین کے آڈیٹوریم میں منعقد ہونیوالی اس تقریب میں شرکت کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ جب سب مہمانان گرامی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے تو امام الحرم الشیخ السدیس خود اٹھے اور مہمانوں کے پلیٹوں میں چاول اورگوشت وغیرہ ڈالتے رہے، کہ کچھ کھانا میری طرف سے بھی۔اس دورے میں پروفیسر ساجد میرؒ جناب حافظ سلمان اعظم صدر اہلحدیث یوتھ فورس پاکستان کے مہمان تھے ۔ پروفیسر صاحب کسی ہوٹل میں قیام کی بجائے ان کے گھر میں ٹھرے ۔ انہیں واپسی کی جلدی تھی کیونکہ تراویح پڑھانی تھی ۔ اسی دن سعودیہ میں رمضان المبارک کا اعلان ہو گیا تو امیر محترم نے خواہش کا اظہار کیا کہ طائف جانا ہے ۔وہ میقات سے احرام باندھ کر رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے ۔محترم سلمان اعظم صاحب کا شکریہ کہ مجھے بھی یہ سعادت حاصل کرنے کا موقع دیا ۔امیر محترم اور سلمان بھائی کے ساتھ طائف کا یہ سفر انتہائی یادگار رہا۔ اس دوران امیر محترم کی دعائیں اور نصیحت آموز باتیں سننے کا موقعہ ملا ۔ خوشگوار لہجے میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی ہوتی رہی۔ مضان المبارک کا آغاز ہو چکا تھا اور طائف کی طرف سے میقات پر بہت زیادہ رش تھا۔امیر محترم اور میں نے احرام باندھے ۔ واپسی پر امیر محترم نے کہا کہ سنا ہے یہاں کی خوبانی کافی مزیدار ہوتی ہے ۔ ہم نے وہ لیکر کھائی ۔ مکہ مکرمہ پہنچے ، امیر محترم اور مجھے مسجد الحرام میں ڈراپ کیا ۔ سلمان بھائی نے فوری تیاری کرکے امیر محترم کے ہمراہ پاکستان جانا تھا ۔ اب مجھے وہ سعادت بھرے لمحے نصیب تھے ۔ جو مجھے تو یاد رہنے ہی تھے لیکن امیر محترم نے بھی ہمیشہ یا د رکھے ۔ یکدم رمضان المبارک کا رش ، اسی دوران واش روم استعمال کرنے کے لئے باہر آنا پڑا اور واپسی پر راستے بند ۔ عمرہ مکمل ہوا حجام کے پاس گئے تو اس نے امیر محترم کو تو بزرگی کے باعث جلد فارغ کر دیا جبکہ میری باری لیٹ تھی۔ میری کوشش تھی اور درخواست بھی کہ آپ کی فلائیٹ ہے آپ جلد چلے جائیں لیکن انتظار کرتے رہے بلکہ مسکراتے ہوئے جملہ تھا کہ اب اکھٹے ہی جائیں گے ۔ خیر انتہائی رش کے باوجود ٹیکسی لیکر سلمان اعظم بھائی کے گھر پہنچے ۔ ائیر پورٹ سے لیٹ ہوئے لیکن آخر کار کافی تگ و دو کے بعد فلائیٹ مل گئی ۔ اگلے دن پاکستان میں پہلی تراویح کی امامت کی ۔ بعدازاں کئی مواقع پر اس عمرے کا تذکرہ فرماتے ، دفتر میں کئی میٹنگز کے دوران کھانا آجاتا ۔ سب کو دعوت دیتے ، ہر کوئی ہچکچاتا ۔ تو مجھے فرماتے کہ تم تو کھا لو تم میرے عمرے کے ساتھی ہو۔ خیر یہ ان کی ذرہ نوازی تھی اور میری زندگی کی ایک یادگار۔
جب بیرون ملک دورے سے تشریف لاتے تو آتے ہی سب سے پہلا فریضہ یہ ادا کرتے کہ پیغام ٹی وی اور جماعت کے اکاونٹس والوں کو بلاتے ۔ میں بھی کئی مرتبہ گیا ۔ ایسا متعدد بار ہوا کہ اپنا اٹیچی کھولتے ، اب نوٹوں کی پن لگی اور پرچی لکھی الگ الگ گڈیاں ہوتیں ، کوئی کم کوئی بڑی رقم ۔ ایک ایک نکالتے ، یہ پیغام ٹی وی کے لئے فلاں نے دئیے ہیں اور یہ جماعت کے لئے ۔ یہ ذمہ داری ادا کرکے پھر پرسکون ہوکر باقی حال احوال پوچھتے ۔ امانتیں پہنچا کر ، پھر ایک مسکراہٹ ہوتی اور سب کے لئے بہت سی اپنائیت بھری باتیں ۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک بار امیر مرکزیہ پروفیسر ساجد میرؒ کی سینٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کے دفتر میں خوشی کا سماں تھا ۔ جماعتی سوشل میڈیا ذمہ داریوں کے باعث مجھے بھی ان خوشگوار لمحات میں شرکت کا موقعہ ملا ۔ اتنے میں امیرمحترم نے ناظم دفتر کو بلا کر چند ہدایات دیں ۔ پروفیسر صاحب کے یہ چند الفاظ انتہائی حیرت انگیز تھے ، خصوصاً میرے لئے ۔امیرمحترم ناظم دفتر کو انتخابی اخراجات کے گوشواروں کے کاغذات جمع کرانے سے متعلق ہدایات دے رہے تھے ۔ یہ ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے ۔انہوں نے جواخراجات بتائے وہ چند کاغذات کی فوٹو کاپی ، فون کالز اور الیکشن کمیشن آنے جانے کے لئے خرچ ہونیوالے فیول کے متعلق تھے۔ ذرا تصور کریں کہ جب ملک میں سینٹ الیکشن کے لئے کروڑوں خرچ کرنے کے تذکرے میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوں۔ اس وقت بلوچستان میں حکمران جماعت کا ایک ٹکٹ ہولڈر کسی سیٹھ کے مقابلے میں ہار چکا تھا، ایسے میں ایک سینیٹر اپنے اخراجات چند سو ظاہر کر رہا ہوتو حیران ہونا تو بنتا ہے ۔ ایک حیرت مجھے اس وقت بھی ہوئی کہ جب سینٹ کا الیکشن جیتنے کے بعد وہ پنجاب اسمبلی سے باہر آئے۔ ڈرائیور نے اطلاع دی کہ گاڑی ایک ایسی جگہ پارک ہے کہ جہاں سے نکلنا انتہائی مشکل ہے ۔ تو آپ اپنی گاڑی کا انتظار کرنے کی بجائے ایک کارکن کی گاڑی میں وہاں سے روانہ ہوگئے۔ یہ گاڑی ان درجنوں گاڑیوں کے قافلوں سے گزری جو منتخب سینیٹرز کو جلوس کی شکل میں واپس لیجانے کے لئے وہاں موجود تھے۔
حالیہ سینیٹ الیکشن میں میرے لئے ایک اور اعزاز نصیب ہوا ۔ اس بار انتخابات سے متعلق تمام کاغذات مجھے بطور گزیٹڈ آفیسر تصدیق کرنے کا موقع ملا ۔ جب ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش ہونا تھا تو کئی رہنما ساتھ تھے ۔ چند دستاویزات پر سائن ہونے تھے ۔ ریٹرننگ آفیسر نے اپنے سامنے صرف ایک کرسی رکھی تھی جس پر امیر محترم بیٹھے تھے ۔ جب مجھے سائن کرنے کا کہا گیا تو ٹیبل پر جھک کر کرنے لگا ۔ کافی زیاد ہ کاغذات تھے۔ لیکن اچانک امیر محترم کرسی سے اٹھے اور مجھے کہا کہ تم بیٹھ کر آرام سے سائن کر دو۔ سب کھڑے تھے لیکن مجھے بٹھا دیا ۔ خیر یہ مرحلہ بخیریت انجام پہنچا تو باقاعدہ شکریہ ادا کیا ۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکا کہ امیر محترم یہ تو ایک زندگی کا اعزاز ملا ہے ۔ یہ ان کی ذرہ نوازی تھی اور اپنائیت ۔ سادگی اور بس۔
مسلم لیگ کے سینیٹر پرویز رشید نے ایک بار مدارس کے خلا ف بیان دیا ۔ یہ بات امیر محترم تک پہنچ گئی۔ بہت اہم مواقع پر فون کرتے اور کتنے سادہ الفاظ " ساجد میر بول رہا ہوں" ۔ نمبر محفوظ نہ ہو تو شائد یقین تک نہ آئے کہ اتنی سادگی سے بات کرنے والی کون " عظیم شخصیت " ہے ۔ مجھے خبر کا پوچھا اور پھر جملہ بولا ۔ " میری طرف سے اس کی شدید مذمت کرو اور جتنے مرضی سخت الفاظ میری طرف سے لکھ دو"۔ یہ ان کا اعتماد تھا ۔ ظاہر ہے یہ بیانات میڈیا اور ہر جگہ جاتے ۔
جرات و بہادری اور بے باکی کے تو کئی واقعات ہیں ۔ گزشتہ دور حکومت میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ’’نسواں ایکٹ ‘‘ کے نام سے ایک ایسی قانون سازی کی کوشش کی جس پر دینی جماعتوں کو اعتراض تھا ۔ شہباز شریف نے دینی رہنماوں اور علماء کرام کو میٹنگ کے لئے مدعو کیا ۔ جب سب علماء نے کافی سخت موقف اختیار کیا تو شہباز شریف نے پروفیسر ساجد میر صاحب کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھا اور کہا کہ آپ تو ہمارا ساتھ دیں ۔ امیر محترم نے واضح طور پر کہا کہ اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں بلکہ علماء کرام کے ساتھ کھڑا ہوں ۔ جنرل باجوہ کے متعلق بیان تو عالمی شہرت رکھتا ہے ۔ اعلیٰ ترین سطح پر دو بڑے افسران سینٹ آفس میں آئے ۔ ماحول یہ کہ پورے پارلیمنٹ لاجز کو جیسے خالی کرا لیا ہو ۔ اپنے ڈرائیو ر کو بس اتنا کہا کہ ادویات اور کچھ کپڑے رکھ لینا شائد وہیں سے جانا پڑ جائے ۔ انہوں نے وضاحت د ی اور مطالبہ تھا کہ بس یہ بتا دیں کہ بیان کس کی بریفنگ پر دیا ہے ۔ پوری جرات سے ایک ایسے بزرگ عالم دین کی خاطر سارا پریشر اپنے اوپر لیا کہ جو اپنی جماعت اور مسلک کے بھی نہیں تھے ۔ جنرل مشرف کے خلاف واحد ووٹ تو عالمی شہرت اختیار کر گیا ۔
سیاسی مصروفیت شائد ان کی زندگی کا معمولی سا حصہ تھا ۔ ان کی زندگی تو جیسے قرآن پاک کی تلاوت کے لئے وقف ہو ۔ تراویح سب سے بڑی مصروفیت ۔ ان کاجملہ ہم ہر رمضان المبارک میں سنتے جب کوئی کسی تقریب جلسے یا میٹنگ کے لئے کہتا حتی کہ سینٹ ۔ فرمایا کرتے کہ میرے پاس رمضان المبارک میں صرف دو چیزوں کے لئے وقت ہے: قرآن اور پیغام ۔ ہر سال ان کے ساتھ ایک رات کی ٹرانسمیشن ہوتی جو کہ اگلے سال تک کے لئے یادگار بن جاتی ۔ چیئرمین پیغام ٹی وی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم﷾ بھی شریک ہوتے اور گویا یہ ایک یادگار رات بن جاتی ۔ سب کو فکر ہوتی کہ گھنٹوں پر مشتمل اس ٹرانسمیشن میں تھک گئے ہوں گے ۔ لیکن وہ آدھی رات کو جب ٹرانسمیشن مکمل ہوتی تو چیف آپریٹنگ آفیسر حافظ ندیم احمد کا شکریہ ادا کر رہے ہوتے اور پھر پوری ٹیم کا ۔ مسکراتے چہرے کیساتھ گروپ فوٹو ہوتی ۔ ان کی زندگی عبادت گزاری ، مطالعے ، تبلیغ اور جماعت کے لئے دن رات انتھک محنت کا نام ہے۔ سب برداشت کرنا ، تلخ اور غیر اخلاقی باتوں کو بھی ۔ کچھ کے بارے تو بس اتنا کہتے کہ ان کا معاملہ اب اللہ تعالی پر چھوڑ دیا ہے ۔ قیامت کے دن ان سے بدلے میں نیکیاں لیں گے ، زندگی میں کوئی جواب نہیں ، کوئی ایک تلخ جملہ نہیں ۔
وفا نبھانا ، قدر کرنا اور ساتھ دینا تو کوئی ان سے سیکھے ۔ ہم نے کئی مرتبہ ہدایات سنیں کس کارکن ، کس عالم دین ، کسی مرحوم ، کسی پرانے ساتھی کے بچوں تک تحائف اور نقدی پہنچانی ہے ۔ حتی کہ کئی لوگ جو بجلی کے بل تک کا کہہ دیتے اور وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ۔ سیالکوٹ میں آبائی زمین جو اب شہر کے بیچ ہے ۔ اربوں کی پراپرٹی اور اسی طرح خاندانی درجنوں ملکیتی دکانیں ۔ لیکن یہ سب وقف ہے ، ڈسپنسری کے لئے ، روزانہ کے دسترخوان ، مسجد کے اخراجات اور کئی گھرانوں کی امداد کے لئے ۔
پندرہ برس کی رہنمائی ہے اور بہت سی یادیں ۔ ان کے لئے گواہی دینے والے لاکھوں ہیں ۔ ان کے ساتھی ۔ ہم تو بس ان یادوں میں جی رہے ہیں جو ایک عظیم شخصیت سے جڑی ہیں ۔ عوام الناس سے ان کی محبت کیسی تھی، اس کا اظہار تو وہ پورے شہر میں پھیلا جنازہ تھا جن آہوں ، سسکیوں میں انہیں رخصت کیا گیا ۔ جن کی عبادت گزاری ، نیکی ، تقوی اور ایمانداری کی گواہی بزرگ شیوخ ، علمائے کرام دے رہے ہوں ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو " اس عہد میر میں جیتے رہے" اور یہی ہماری زندگی کا اعزاز ہے ۔