مسجد میں نکاح … ایک ماڈل مسجد
ایک مسجد ہے ۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک بیوہ کا گھر ہے۔ گھروں میں کام کر کے بس پیٹ پالتی ہے۔
اس کی 4 یتیم بیٹیاں ہیں۔ بیٹیاں جوان ہوتی ہیں۔ بیوہ ان کی رخصتی کا سوچتی ہے۔ وسائل نہیں ہیں۔ شادی کرنی ہے ۔ دردر مانگتی ہے۔ ادھر ادھر سے جمع کرتی ہے۔ ایک بیٹی کی رخصتی کے لیے کم از کم چار یا چھ سال تک رقم جوڑتی ہے۔ قرض لیتی ہے۔ بچت کرتی ہے۔ مدد لیتی ہے ـ وہ کچھ اور نہ بھی کرے تو اس کو بیٹی کی رخصتی کے دن باعزت رخصتی کے لیے ایک اچھی جگہ چاہیے ، اچھا کھانا چاہیے ، اچھے کپڑے چاہیں۔
مسجد سے کچھ فاصلے پر سالوں سے بسی اس بیوہ کے اس معاملے سے مسجد لا تعلق ہے ۔ حالانکہ مسجد کے پاس اس کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
ایسی ایک اور بیوہ اسلام اباد کی رہائشی ہے ۔ بچیاں جوان ہوتی ہیں تو اس کو کوئی فکر نہیں ۔ اس کے شہر میں ایک مسجد ہے۔ جو اس کا مسئلہ حل کر دے گی ۔۔۔اس بیوہ کو قرض لینے کی اور دھکے کھانے کی ضرورت نہیں۔
وہ بیوہ اس مسجد میں جاتی ہے۔ بتاتی ہے کہ میری بیٹی جوان ہو چکی ۔ رشتہ طے ہو چکا ۔ رخصتی کرنی ہے۔ یہاں سے اس کی مسجد کا کردار شروع ہوتا ہے۔ اس کے دکھوں کی داستان دفن ہوتی ہے۔ مسجد اس کا سہارا بن جاتی ہے ۔مسجد انتظامیہ اس کو ویلکم کرتی ہے۔ مسجد اس بیوہ کو بتاتی ہے کہ
- مسجد میں شادی ہال موجود ہے۔ اس بیٹی کا فری فنکشن ہو جائے گا ۔
- مسجد میں بوتیک سینٹر قائم ہے۔ اس بیٹی کو بہترین کپڑے مل جائیں گے ۔
- اس مسجد میں عروسی ملبوسات کا سیکشن ہے۔ اس بیٹی کو بہترین عروسی ملوسات مل جائیں گے ۔
- اس کی رخصتی کے دن اس کے لیے مناسب کھانا مسجد خود پکوا دے گی ۔
- مسجد اس کو بتاتی ہے کہ تمہاری بیٹی کے لیے بہت سے تحائف ہم دیں گے جس میں جائے نماز ہے ، پرس ہے ، کمبل ہے ، رضائی ہے ، پنکھا ہے ۔
- مسجد اس بیوہ کو بتاتی ہے کہ تمہاری ایک بیٹی ہو یا چھ بیٹیاں ہوں ، بیٹے ہو یا بیٹیاں ہوں ۔ پریشان نہ ہونا مسجد چلی آنا ۔ رخصتی ہو جائے گی۔
وہ مسجد شہر بھر کی بیٹیوں کے لیے اعلان کرتی ہے کہ تمہاری رخصتی میری ذمہ داری ہے۔
مزدور کے لیے مسجد اعلان کرتی ہے کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو مسجد سے بیاہ لینا۔
ایک مسجد سینکڑوں نہیں ہزاروں باپوں کی مشکل دور کر دیتی ہے۔
ایک مسجد سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیٹیوں کے لیے تسلی اور سکون کا باعث بن چکی ہے۔
ایک مسجد درجنوں بیٹیوں کو ڈیڑھ سال کے اندر رخصت کر چکی ہے۔
کینسر سے مرتے باپ مطمئن دنیا سے گئے ہیں کہ میرے بعد میری بیٹیوں کو مسجد باعزت طریقے سے رخصت کر دے گی۔
یہ تحریر فضیلت بیان کرنے کے لیے نہیں۔۔ایک تصوراتی دنیا کا خواب دکھانے کے لیے نہیں۔
یہ تحریر ایک حقیقت ہے اور اس عملی نظام کا نام ہےمسجد رحمت العالمین، اسلام آباد ۔۔۔ جس میں
ایک مزدور کی بیٹی کی
ایک بیوہ کی بیٹی کی
ایک مجبور بھائی کی بہن کی
شادی کی منظوری صرف 10 سیکنڈ میں ہوتی ہے۔
یہ تحریر صرف پھولوں سے بھرے باغیچے میں سے ایک پتی کے برابر ہے۔ اس میں فضیلتیں بیان نہیں کی گئی ، بلکہ رحمت للعالمین ﷺ کی زندگی میں مسجد کے کردار کو دیکھتے ہوئے جو نظام ایک مسجد میں قائم کیا گیا ہے اس کی ایک جھلک بتائی گئی ہے۔کسی عمل کی صرف فضیلتیں بیان کرنا اور عملی طور پر نظام نہ بنانا یہ عام روش ہے۔ ہمیں فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مسائل حل کرنے کا بھی مرکز مساجد کو بنانا ہوگا۔
یہ قرض بھی ہے اور فرض بھی ہے
اور جو عظیم نظام مساجد کے ذریعے بن سکتا ہے اگر ایک فیصد مساجد والے بھی یہ بات سمجھ جائیں تو دنیا میں ایک ایسا اسلامی فلاحی معاشرہ قائم ہو جائے جو دنیا بھر کی این جی اوز مل کر بھی نہیں بنا سکتیں۔
اس لیے کہ مساجد کو اللہ کی طرف سے ملی ہوئی برکت دنیا کی کسی اور جگہ کے نصیب میں نہیں۔