مولانا اصلاحی اور اجماع امت کا انکار
پروفیسر مولانا محمد رفیق ﷾ ایک عظیم عالم دین ، محقق ، مصنف ، مترجم قرآن ، عظیم نقاد ، مضمون نگار علمی ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ جاویدغامدی کی گمراہیوں سے اگاہ کرنے کےلیے سب سے پہلے موصوف نے ہی قلم اٹھایا بیس سال قبل یہ مضامین مسلسل محدث میں نشر ہوتے رہے ہیں بہت سارے لوگ انہی مضامین کی وساطت سے غامدی صاحب کی گمراہانہ خیالات سے واقف ہوئے اور کئی ایک نے اپنے نظریات کی اصلاح بھی کی ۔ بعدازاں ان مضامین کو مکتبہ قرانیات لاہور نے کتابی شکل میں بھی پرنٹ کیا جسے علمی حلقوں میں قبول عام حاصل ہوا۔ اب پروفیسر مولانا رفیق صاحب نے غامدی صاحب کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کے خیالات ، نظریات اور تفردات پر قلم اٹھایا ہے ، جس میں انہوں نے ’’ تدبر قرآن ‘‘ کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ، یہ مضمون کافی طویل ہے لہذا قسط وار محدث کے صفحات پر پیش کیا جائے گا ۔(ان شاء اللہ ) اس میں عام طو رپر درج ذیل موضوعات پر گفتگو ہوگی :مولانا امین اصلاحی کی طرف سے قراءات کا انکار ، حدیث سےثابت شدہ آیات کے شان نزول کا انکار ، حدیث سے نسخ کا انکار ،امت کے متفقہ اصول تفسیر سے انحراف ، انکار حدیث ، حدیث سے اعراض و اغماص ، معجزات کا انکار ، ترجمے میں غلطیاں ، تفسیر کی غلطیاں ، دینی اصطلاحات میں تغیر و تبدل ، تفسیر بالرائے ، حماقتیں جیسے عنوانات کےعلاوہ قارئین محدث کوبہت کچھ پڑھنے کو ملے گا ۔ ا س تسلسل کا پہلا مضمون پیش خدمت ہے ۔ [ادارہ محدث] |
صاحبِ ’’تدبر قرآن‘‘ اجماع کی قطعی دلیل کے بھی منکر ہیں۔ وہ ایسے بہت سے شرعی احکام و مسائل کا انکار کرتے ہیں جو کہ اجماعِ امت سے ثابت شدہ ہیں ،ہم ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کریں گے:
- اس امر پر اجماع امت ہے کہ اگر عورت نے طلاق کے بعد عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لیا اور اس مرد نے اس سے جماع بھی کر لیا تو اب عدت گزارنے کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن اگر ایسی عورت سے اس کے دوسرے شوہر نے جماع نہیں کیاتو وہ ازروئے سنت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی[1]۔مگر صاحبِ تدبر قرآن ایسی عورت سے دوسرے شوہر کی مباشرت ہونے کی شرط کو نہیں مانتے اور محض اس کے نکاح ثانی ہی کو کافی قرار دیتے ہیں جس کے بعد طلاق واقع ہوئی ہو یا عورت بیوہ ہو گئی ہو۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ :
’’رہی یہ بات کہ ایسی عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے صرف ا س صورت میں جائز ہو گی جب اس کا دوسرا شوہر اس کو وطی کے بعد طلاق دے تو کم ازکم اس وطی کے لیے قرآن سے کوئی ثبوت نہیں نکلتا۔ ہمارے نزدیک حدیث سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ بھی نہایت کمزور ہے[2]۔‘‘
اس طرح انہوں نے بیک وقت اجماع امت اور حدیث وسنت دونوں کا انکار کیا ہے۔
- اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ کسی مسلمان کو جہنم کا دائمی عذاب نہ ہو گا بلکہ اگر وہ دوزخ میں ڈالا بھی گیا تو اپنی سزا پانے کے بعد آخر کار وہ جنت میں داخل ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ :
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۰۰۱۱۶﴾ ]النساء:4/116[
’’بے شک اللہ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے، اس کے سوا جس (گناہ) کے لیے چاہے گا وہ بخش دے گا۔‘‘
اور صحیحین کی ایک حدیث سے بھی ثابت ہے کی صاحبِ ایمان کو دوزخ میں ہمیشہ کا عذاب نہ ہو گا بلکہ سزا پانے کے بعد آخر کار وہ جنت میں جائے گا خواہ اس کا ایمان ایک رائی کے دانے کے برابر ہو گا[3]۔
مگر صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ کا دعویٰ ہے کہ کسی مسلمان کو عمداً قتل کرنے والے مسلمان قاتل کو جہنم کا وہی ہمیشہ کا ابدی عذاب ہو گا جو کفار کے لیے مقرر ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ :
’’ قتل خطا کے احکام بیان کرنے کے بعد قتل عمدکے بارے میں فرمایا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو عمداً قتل کرے گا اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کے لیے عذاب درد ناک خدا نے تیار کر رکھا ہے۔‘‘
’’یہاں قتلِ عمد کے جرم کی جو سزا بیان ہوئی ہے وہ بعینہ وہی سزا ہے جو کٹر کافروں کے لیے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ اس آیت کو پڑھ کر ہر مسلمان کا دل لرز اٹھتا ہے[4]۔‘‘
حالانکہ یہ صرف فرقہ ضالہ خوارج کا عقیدہ تھا کہ وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلمان کی تکفیر کرکے اس کے لیے جہنم کا دائمی عذاب مانتے تھے۔ جبکہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ کسی مسلمان کے لیے خواہ وہ کتنا ہی بڑا گنہگار اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو، اسے جہنم کا دائمی عذاب نہ ہو گا۔
- اس بات پر اجماع امت ہے کہ اسلامی شریعت میں ازروئے سنت مرتد کے لیے سزائے قتل کا حکم ہے۔مگر صاحب تدبر قرآن صرف ایسے مرتد کے لیے قتل کی سزا کو مانتے ہیں جو ارتداد کے علاوہ بغاوت کے جرم کا مرتکب بھی ہو۔ اس طرح وہ عام قسم کے مرتد کو واجب القتل نہیں مانتے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ ارتداد بھی اسی زمرے کا ایک جرم بلکہ بہت بڑا جرم ہے۔ اور اس پر جو سزا ایک اسلامی نظام میں دی جاتی ہے وہ اس بات پر نہیں دی جاتی کہ ایک شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس پر دی جاتی ہے کہ اس نے خدا کی حکومت اور اس کے قانون کے خلاف علَم بغاوت بلند کیا ہے[5]۔‘‘
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں رہتے ہوئے ایک یہودی سے غلہ ادھار لینے کے عوض اپنی لوہے کی ایک زرہ بطور رہن رکھوائی تھی[6] ۔ صحیحین کی اس متفق علیہ حدیث کی بنیاد پر یہ اجماع امت ہے کہ انسان سفر وحضر دونوں حالتوں میں رہن کے عوض کوئی لین دین کر سکتا ہے۔ مگر صاحب تدبر قرآن صرف سفر کی حالت میں رہن کے معاملے کو جائز مانتے ہیں اور مقیم شخص کے لیے رہن رکھ کر لین دین کرنے کو نا جائز قرار دیتے ہیں۔چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ :
’’رہی حدیث تو اس سے بھی رہن کے عام جواز پر استدلال کسی طرح صحیح نہیں ہے[7]۔‘‘
اس طرح صاحب تدبر قرآن نے نہ تو صحیح حدیث سے فقہائے اسلام کے استدلال کو درست مانا ہے اور امت کےاجماع کی بھی خلاف وزری کی ہے۔
- اسلامی شریعت میں شادی شدہ زانی کے لیے حدِ رجم یعنی سنگساری کی سزا ہے جو کہ سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ مگر صاحب تدبر قرآن سنت اور اجماع امت کے برعکس شادی شدہ زانی کے لیے اس شرعی حد کو نہیں مانتے، بلکہ وہ کنوارے اور شادی شدہ دونوں قسم کے زانیوں کے لیے سو(100) کوڑوں کی ایک ہی قرآنی سزا کو مانتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ :
’’ شادی شدہ زانی کی اصل سزا تازیانہ ہے[8]۔‘‘
- اس امر پر بھی امت کا اجماع اور اتفاق ہے کہ اسلامی شریعت کی رو سے صرف جنات اور انسان ہی مکلف مخلوق ہیں اور یہ دونوں ہی آخرت میں اپنے اعمال کے لیے مسئول اور جوابدہ ہیں۔ مگر صاحب تدبر قرآن فرشتوں کو بھی مکلف مخلوق مانتے ہیں جو کہ اجماع امت کے خلاف ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید نے مکلف مخلوقات کی حیثیت سے تین مخلوقات کا ذکر کیا ہے۔ فرشتے، جنات اور بنی آدم[9]۔‘‘
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ قرآن نے﴿ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﴾ ]سورہ الانعام6/130، سورہ الرحمٰن ،55/33[’’اے جنات اور انسانوں کے گروہ‘‘ کہہ کر صرف جنوں اور انسانوں کو شرعی احکام کا مکلف ٹھہرایا ہے اور قرآن میں کہیں بھی فرشتوں کو ایک مکلف مخلوق کے طور پر بیان نہیں کیا گیا۔
- اس امر پر بھی امت ِمسلمہ کا اجماع واتفاق ہے کہ ’’سنت‘‘ کی اصطلاح سے مراد رسول اللہﷺ کا قول، فعل اور تقریر ہے۔مگر صاحبِ تدبر ِقرآن سنت کی اس اصطلاحی تعریف کو نہیں مانتے اور سنت کی درج ذیل تعریف خود ساختہ کرتے ہیں:
’’سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے جن میں صدق وکذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے جیسا کہ اوپر معلوم ہوا بلکہ امت کے عملی تواتر پر ہے۔ جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے اسی طرح سنت، امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے[10]۔‘‘
اس طرح مولانا اصلاحی سنت کی تعریف میں محض امت عملی تواتر کو شامل کرکے اسے ’’وحی الٰہی‘‘ سے خارج کر دیتے ہیں ،کیونکہ وحی تو رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد منقطع ہو چکی اور اجماع امت کو’ تواتر‘ کی من گھڑت اصطلاح کے نام سے بیان کرنا فنی طور پر بالکل غلط ہے بلکہ حقیقت میں تواتر کی اصطلاح خواہ قرآن ہو یا حدیث ہو،’’خبر‘‘ کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے۔
- اس امر پر بھی اجماع امت ہے کہ قرآ ن مجید کی ایک سے زیادہ قراءتیں ثابت ہیں اور اس کو سبعہ اور عشرہ متواتر قراءات کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔ مگر صاحب تدبر قرآن اس مسلمہ اجماعی امر کا انکار کرتے ہوئے قرآن کی صرف ایک ہی قراءت (قراءت حفص) کو درست مانتے ہیں اور باقی تمام متواتر قراءتوں کے منکر ہیں۔چنانچہ انہوں نے جابجا لکھا ہے کہ:
(ا)’’ہمارے نزدیک متواتر اور مشہور قراءت صرف مصحف ہی کی قراءت ہے اور ہم غیر متواتر قراءت پر قرآن کی کسی آیت کی تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے[11]۔‘‘
(ب)’’متواتر قراءت کا درجہ تو صرف اسی قراءت کا حاصل ہے جس پر مصحف ، جو تمام امت کے ہاتھوں میں ہے، ضبط ہواہے۔ اس قراءت کے سوا دوسری قراءتیں ظاہر ہے کہ غیر متواتر اور شا ذ کے درجے میں ہوں گی جن کو متواتر قراءت کی موجودگی میں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی[12]۔‘‘
(ج) ’’قراتوں کا اختلاف بھی اس تفسیر میں دور کر دیا گیا ہے۔ معروف اور متواتر قراءت وہی ہے جس پر یہ مصحف ضبط ہوا ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے[13]۔‘‘
واضح رہے کہ اہل علم کے نزدیک اجماع امت کا انکار گمراہی ہے اور بعض نے اسے کفر قرار دیا ہے۔
- سورہ الفاتحہ کے بارے میں اجماع امت ہے کہ اس کی سات آیات ہیں۔ اس اجماع کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے۔قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَ لَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ۰۰۸۷﴾ [ الحجر:15/87]
’’اور ہم نے آپﷺ کو سات دہرائی جانے والی آیتیں عطا کی ہیں جو کہ قرآن عظیم کا حصہ ہے۔‘‘
اسی آیت کی تفسیر درج ذیل حدیث کر دیتی ہے:
’’ سیدنا ابو سعید بن معلیٰ سے روایت ہے کہ ’’میں مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا تو نبی ﷺ نے مجھے بلایا مگر میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا،
یا رسول اللہﷺ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ تمہیں بلائیں تو جواب دیا کرو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی عظیم سورت سکھاؤں گا۔ آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا۔ پھر جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ !آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے قرآن کی عظیم سورت سکھائیں گے؟فرمایا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ .
’’سورہ الفاتحہ ہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا[14]۔‘‘
اس طرح صحیح احادیث کی نص سے ثابت ہے کہ سبع مثانی سے مراد سورہ الفاتحہ ہے۔ یہی بات حافظ ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر میں[ سورہ الحجر 15/87 ]کی تفسیر کرتےہوئے صحیح احادیث کا حوالہ دینے کے بعد لکھی ہے کہ :
فهذا نَصٌّ فِى أنَّ الفَاتِحَةَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ[15].
’’یہ احادیث اس بارے میں نص ہیں کہ سورہ فاتحہ ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔‘‘
بہرحال سورہ الفاتحہ کی یہ سات آیتیں یا تو ’’بسم الله الرحمٰن الرحیم‘‘ کو ساتھ شامل کرنے سے پوری ہو جاتی ہے جیسا کہ مکہ اور کوفہ کے قراء فقہاء اور امام شافعی کی رائے ہے اور بعض کے نزدیک ﴿ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ، غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ۰۰۷﴾ دو آیتیں ہیں۔ جیسا کہ مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء وفقہاء کا مذہب ہے اور اسی لیے ہمارے ہاں کے مطبوعہ مصحف میں ان دونوں کے درمیان (5) لکھا ہوتاہے، مگر صاحب تدبر قرآن’’سورہ الحجر 15/87 کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سبع مثانی سے سورہ الفاتحہ مراد نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’ سورہ الفاتحہ کی آیتیں سات اسی صورت میں بنتی ہیں جب بسم اللہ کو بھی اس کا ایک جزو تسلیم کیا جائے۔ بسم اللہ کا جزو فاتحہ ہونا ایک امر نزاعی ہے اور قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ بسم اللہ اس سورہ کے آغاز میں بھی اسی طرح ہے جس طرح دوسری سورتوں کے آغاز میں ہے۔ اس کے فاتحہ کے ایک جزو ہونے کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آئی[16]۔‘‘
اس کے علاوہ وہ اپنے حق میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ’’مثانی‘‘ کے معنی بار بار دہرائی جانے والی چیز کے نہیں ہیں بلکہ اس چیز کے ہیں جو دو دو کرکے ہو۔حالانکہ ان کی یہ بات عربیت کے خلاف ہے جس کی وضاحت ہم دوسرے مضمون میں کریں گے ۔
مفسرین کا اتفاق اور اجماع امت ہے کہ سبع مثانی سے سورہ الفاتحہ مراد ہے ۔ جبکہ صاحب تدبر قرآن اس بات کے منکر ہیں کہ سبع مثانی سےسورہ الفاتحہ مراد ہے اور سبع مثانی سے مر اد یہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔اس طرح وہ ایک ایسے امر کا انکار کرتے ہیں جو کہ اجماع سے ثابت ہے۔
- اہل علم کا اس پر اتفاق ہے اور اس پر اجماع امت بھی ہے کہ حج ذو الحجہ کے مقررہ دنوں ہی میں ادا ہو سکتا ہے جب کہ عمرہ سال کے ہر حصے میں کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے،جیساکہ قرآن مجید نے صرف حج کے لیے وقت مقررہ کی بات کی ہے ، فرمایا:
﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ َمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾
[ سورۃ البقرہ 2/197]
’’حج کے متعین مہینے ہیں تو جو کوئی ان میں حج کا عزم کر لے تو پھر اس کے لیے حج تک نہ شہوت کی کوئی بات کرنی ہے، نہ فسق وفجور کی، نہ لڑائی جھگڑے کی۔‘‘
مگر تفسیر تدبر ِ قرآن کے مصنف لکھتے ہیں :
’’موقع دلیل ہے کہ حج کا لفظ یہاں حجِ اکبر اور حجِ اصغر یعنی حج اور عمرہ دونوں ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ سے مقصود ایام معدودات ، کی طرح ان کے معین ومحدود ہونے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ کچھ ایسی غیر محدود وغیر معین مدت نہیں ہے کہ حج یا عمرہ کی نیت کرنے والا ان کی پابندیوں کے تصور سے گھبرا اٹھے۔ بس چند معلوم ومتعین مہینے ہیں تو جو شخص ان میں حج یا عمرہ کا عزم کر ے وہ ان کی پابندیوں کو نباہنے اور شہوت ونافرمانی اور لڑائی جھگڑے سے بچنے اور زیادہ سے زیادہ نیکی اور تقویٰ کی کمائی کرنے کی کوشش کرے[17]۔‘‘
دیکھ لیجیئے موصوف نے اول تو آیت کے لفظ ’حج‘کو جو اس جگہ دو بار استعمال ہوا ہے، حج اور عمرہ دونوں معنوں میں لے لیا ہے۔ حالانکہ پورے قرآن میں حج کا لفظ کہیں بھی عمرے کے معنوں میں مستعمل نہیں ہوا اور اس سے صرف حج ہی مراد ہوتا ہے۔ عمرہ کے لیے قرآن نے الگ سے لفظ ’عمرہ‘ استعمال کیا ہے اور وہ قرآن کی صرف ایک ہی آیت میں دو بار آیا ہے۔:
﴿ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ﴾ ]البقر 20/196[
اور حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پور کرو۔
﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾ ]البقر20/196[
پھر جو کوئی حج سے پہلے عمرہ بھی کرنا چاہے تو جو قربانی کا جانور میسر ہو، اس کی قربانی کرے۔
اسی طرح حج کا لفظ قرآن کی چار سورتوں (البقرہ، آل عمران، التوبہ اور الحج) میں دس (10) مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ اس سے مراد صرف حج ہی ہے عمرہ مراد نہیں ہے۔
دوسرے انہوں نے حج کی طرح عمرے کی ادائیگی کو بھی صرف مقررہ مہینوں یا دنوں کے ساتھ مشروط کر دیا ہے جو کہ بالبداہت غلط ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ حج سال میں صرف ایک بار
ذو الحجہ کے مخصوص ومتعین دنوں ہی میں ادا ہو سکتا ہے جب کہ عمرہ سال کے کسی حصے میں بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کوئی خاص مہینہ یا دن مقرر نہیں ہیں۔
ہم نے اس مقام پر صرف چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ صاحب تدبر قرآن کے ہاں ان سے بھی زیادہ تعداد امیں اجماعی امور اور دینی مسلمات کا انکار پایا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اجماع امت کا انکار کرنا ضلالت اور گمراہی ہے اور بعض فقہا کے نزدیک اس انکار سے کفر لازم آتا ہے۔
بعض حضرات صاحب تدبر قرآن کی طرف سے اجماع امت کے انکار کی تفردات کا نام دیتے ہیں ۔ یہ بھی دجل وفریب ہے کہ اجماع سے انکار کو تفرد کا نام دیا جائے۔ کیونکہ اجماع کا انکار گمراہی ہے جبکہ کسی مسئلے میں تفرد کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ گمرا ہی نہیں ہوتا۔
[1] ملاحظہ فرمائیں : حدیث رفاعہ قرظی، صحیح بخاری :2639 ، صحیح مسلم3526
[2] تدبر قرآن، ج1، ص538
[3] بخاری6560،مسلم457
[4] تدبر قرآن، ج2، ص 631
[5] تدبر قرآن، ج1، ص593-594
[6] ملاحظہ فرمائیں : بخاری 2068 ، مسلم 4115 ، نسائی 4609 ،ترمذی1214
[7] تدبر قرآن، ج1، ص 644
[8] تدبر قرآن، ج5، ص374
[9] تدبر قرآن، ج1، ص165
[10] مولانا اصلاحی، مبادئ تدبر ِحدیث، ص28
[11] تدبر قرآن، ج5، ص99
[12] تدبرقرآن، ج8، ص481
[13] دیباچہ تدبر قرآن، ج8، ص8
[14] صحیح بخاری5006،ترمذی2875، نسائی913
[15] تفسیر ابن کثیر۔تفسیر سورۃ الحجر15/87
[16] تدبر قرآن، ج4،ص377
[17] تدبر قرآن، ج1،ص 484