تنظیم المساجد و المدارس السلفیہ، پاکستان تاسیسی اجلاس کی روداد
پاکستان میں اہل حدیث مکتبِ فکر کی مساجد اور مدارس نہ صرف دینی تعلیم کے مراکز ہیں بلکہ اسلام کے خالص پیغام کے علمبردار بھی ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں مساجد پر ناجائز قبضے، جبری بندش اور اہل حدیث علماء کی حق گوئی پر قدغن جیسے مسائل سامنے آئے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت تھی کہ ایسی تنظیم وجود میں آئے جو ان کے مساجد و مدارس کے تحفظ، علماء کے وقار اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے مؤثر اور منظم کردار ادا کرے۔
اس مقصد کے تحت جامعہ لاہور الاسلامیہ کے ہیڈ آفس مجلس التحقیق الاسلامی 99-جے بلاک ماڈل ٹاؤن، لاہور میں 12 اپریل بروز ہفتہ مسلک اہل حدیث کی تمام نمائندہ جماعتوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا ، جس میں اہل حدیث کی تمام تنظیمات نے متحد ہو کر ’’تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ پاکستان‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے کیا گیا۔ یہ روح پرور سعادت معروف قاری ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾ کو حاصل ہوئی۔ اجلاس کی نظامت کے فرائض حافظ شفیق الرحمٰن زاہد ﷾ نے انجام دیے۔
اس کے بعد صدرِ اجلاس ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾ نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ خیر و بھلائی کے کام اجتماعی کوششوں اور باہمی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔ انہی کاموں میں مساجد کی آبادکاری، دینی تعلیمات کا فروغ اور منظم ادارہ جاتی نظم شامل ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ جوبلی ٹاؤن مسجد کے معاملے میں اہلِ حدیث مکتب ِفکر کے ساتھ جو ناانصافی اور زیادتی روا رکھی گئی ہے، وہ نہایت قابلِ افسوس ہے۔ جب دیگر تمام مسالک کو ان کے عقائد و نظریات کے مطابق مساجد حوالہ کی گئیں تو مٹھی بھر شرپسند عناصر کے دباؤ پر اہلِ حدیث مسجد کو بند کر دینا عدل و انصاف کے منافی ہے۔ قانون کو اس قدر کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ شرپسندوں کے دباؤ میں آ جائے۔
جوبلی ٹاؤن مسجد کے تنازع میں جن افراد کو ثالث یا فریق بنایا گیا، وہ ہرگز اس حیثیت کے اہل نہ تھے،مزید اعلیٰ افسران کی طرف سے مسلسل ٹال مٹول کی روش اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔
آج ہم ایک عظیم مقصد کے تحت جمع ہوئے ہیں۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر، اخلاص و اتحاد کی فضا قائم رکھنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ ادب و احترام کے تمام تقاضے ملحوظ رکھے جائیں، کسی بھی غیر مناسب طرزِ گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں متحد ہو کر، ایک ساتھ چلنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم منزل تک رسائی حاصل کر سکیں۔
پھر علامہ ہشام الہی ظہیر ﷾کو دعوتِ خطاب دی گئی۔انہوں نے فرمایا:
’’تمام اہل حدیث تنظیمیں اس پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں تو یہ تنظیم ایک مؤثر اور باوقار قوت حاصل کر لے گی۔ اگر اصولی طور پر یہ بات طے پا جائے کہ کسی بھی علاقے میں، کسی بھی مسلک کے افراد اگر مسلکِ اہل حدیث کی مساجد اور مدارس پر حملہ آور ہوں تو تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ حرکت میں آئے گی تو یہ تنظیم آج ہی اپنی کامیابی کی سند حاصل کر لے گی۔آج حالت یہ ہے کہ انتظامیہ، مساجد کو تحفظ دینے کے بجائے، شرپسند عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔ اس قابل افسوس عمل کے خلاف یہ تنظیم جدو جہد کرے گی ۔ ہر علاقے میں اہل حدیث مساجد کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے منظم اور مربوط جدوجہد کرے گی۔یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہم 24 مقفل مساجد کو کھلوانے کے لیے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں۔ ‘‘
ان کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے نمائندہ، محترم رانا نصر اللہ خان صاحب نے فرمایا:
’’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جرأت کا مظاہرہ کریں اور 18 اپریل کو بھرپور قوت اور اتحاد کا اظہار کریں۔ یہ دن ہمارے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔علامہ ہشام الہی ظہیر اور علامہ ابتسام الہی ظہیر نہ صرف اس مسلک کا چہرہ ہیں بلکہ اس کی حقیقی پہچان بھی ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے اور ان کی قیادت میں اپنے اہداف حاصل کرنے ہیں۔‘‘
جماعت اہل حدیث پاکستان کے نمائندہ، حافظ عبدالوحید شاہد روپڑی ﷾ کو خطاب کی دعوت دی گئی۔انہوں نے نہایت مرتب اور جامع انداز میں چند اہم نکات پر حاضرین کی توجہ مبذول کروائی:
- اب ہمیں مضبوط عزائم کے ساتھ مساجد اور مدارس کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
- جن مساجد کے حوالے سے غیر اہل حدیث کے ساتھ تنازعات ہیں، ان کے حل کے لیے تنظیم عملی جدو جہد کرے گی۔
- تمام اہل حدیث جماعتیں مساجد و مدارس کے تحفظ پر متفق ہیں، یہی ہمارے اتحاد کی بنیاد ہے۔
- حقوقِ اہل حدیث مارچ کے لیے ہر مسجد و مدرسہ سے کم از کم ایک گاڑی مارچ میں ضرور شریک ہو۔
- مارچ کے دوران تمام SOPs (ضوابط) کو ملحوظ رکھا جائے اور نظم و ضبط کی مکمل پابندی کی جائے۔
- اسٹیج سیکرٹری کی باقاعدہ تیاری اور نظم ضروری ہے تاکہ اجلاس کی روانی برقرار رہے۔
- گفتگو محتاط، مدلل اور باوقار ہو تاکہ ہمارا موقف سنجیدگی سے سنا جائے۔
- تعداد کی کثرت ہماری وحدت کی غمازی کرے گی، مگر یاد رہے کہ ہمیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔
مرکزی مسلم لیگ کے نمائندہ مولانا ادریس فاروقی صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا:
’’ہم جہاں کہیں بھی مساجد قائم کرتے ہیں ، ہمیں وہاں جھگڑوں، تنازعات اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک مضبوط پریشر گروپ تشکیل دینا چاہیے جو ہمارے قانونی، سماجی اور مذہبی حقوق کی نمائندگی کرے۔‘‘
بعد ازاں جماعت غرباء اہل حدیث کے نمائندہ حافظ زاہد ہاشمی صاحب نے فرمایا:
’’ماضی میں اہل حدیث جماعتوں نے مل کر ایک اتحاد بنایا تھا جس کا نام اہل حدیث اتحاد کونسل تھا، مگر افسوس کہ اسے فعال نہ رکھا جا سکا۔آج ہم ’تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ پاکستان ‘ کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہیں، میری اولین گزارش یہ ہے کہ اس تنظیم کو ہمیشہ فعال اور متحرک رکھا جائے۔دوسرا یہ تنظیم چند شہروں یا مخصوص مساجد تک محدود نہ ہو بلکہ پاکستان بھر میں جہاں کہیں بھی اہل حدیث کی مساجد اور مدارس پر کسی بھی نوعیت کا مسئلہ پیدا ہو تو یہ تنظیم فوراً اقدام کرے۔‘‘
علامہ ابتسام الٰہی ظہیر ﷾ کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے فرمایا :
’’ زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے بہترین جگہ مساجد ہیں۔ معاشرے میں مساجد کا قیام انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ برائی اور فحاشی سے روکنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔دیارِ غیر میں وہی لوگ فتنوں سے محفوظ رہتے ہیں جو خود بھی اور ان کی اولادیں بھی مساجد سے جڑے رہتے ہیں۔ تمسک بالکتاب اور قیامِ نماز ہی حفاظت کا اصل ذریعہ ہے۔ عربوں کے ہاں نماز کی پابندی اس لیے ممکن ہے کہ ان کے گھروں کے اردگرد مساجد آباد ہیں۔
مساجد کی آبادکاری سے روکنے والے دراصل شیطان کے آلہ کار ہیں۔ مشرکین کا اصل ہدف دیوبندی اور اہل حدیث ہوتے ہیں۔ دیوبندی حضرات اپنی کثرت کی وجہ سے بچ جاتے ہیں، جب کہ اہل حدیث جماعت ہمیشہ کم تعداد کی وجہ سے نشانہ بنتی ہے۔
ہر تنظیم میں دو چیزیں بنیادی ہوتی ہیں:ایک اتحاد اور دوسرا تحریک۔آج آپ سب عزم کریں کہ تنظیم المساجد والمدارس میں اتحاد کو بھی قائم رکھنا ہے اور اسے متحرک بھی کرنا ہے۔
حضرت ابراہیم نے تعمیرِ کعبہ کے وقت اپنے بیٹے اسماعیل کو ساتھ اس لیے لگایا کہ مساجد کی آبادی کا تصور نسلاً بعد نسل منتقل ہو۔ اپنی اولاد کو مسجد سے جوڑنا اور اس کی خدمت کی تربیت دینا سنتِ ابراہیمی ہے۔
اہل حدیث پُر امن جماعت ہے ، ہم جلاؤ، گھیراؤ اور انتشار کی سیاست نہیں کرتے۔ ہم صبر اور برداشت کے راستے پر گامزن ہیں۔
نماز میں صف بندی کرنا اورکندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا—ہمیں اتحاد اور یکجہتی کا سبق دیتا ہے۔لہٰذا ہمیں اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور مساجد کی تعظیم و تحفظ کا عہد کرنا چاہیے ۔ ‘‘
مرکزی مسلم لیگ کے نمائندہ جناب عاطف سمیر صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے اپنی گفتگو چند نکات میں پیش کی اور نہایت اہم تجاویز دیں:
- ’حقوق اہل حدیث‘ مارچ کے حوالے سے باقاعدہ ایس او پیز (SOPs) طے کیے جائیں۔
- مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جائے۔
- ایک قانونی ٹیم تشکیل دی جائے۔
- یک نکاتی ایجنڈا مسجد جوبلی ٹاؤن ہونا چاہیے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے رہنما ڈاکٹر عبدالغفور راشد ﷾ کو خطاب کے لیے دعوت دی گئی۔ انہوں نے تنظیم کے قیام کی بھرپور تائید کی اور فرمایا:
’’ میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر ﷾کی اس بات کی مکمل تائید کرتا ہوں کہ دیارِ غیر میں وہی لوگ دینی اور فکری طور پر سلامت رہتے ہیں جو خود اور ان کی نسلیں مساجد سے منسلک ہوتی ہیں۔
پرامن احتجاج کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی ہمیں مارے تو ہم خاموش رہیں۔ ہم شریف ضرور ہیں، لیکن جب ہمارے حقوق کی بات ہوگی تو ہمارا عزم اور ہماری قانونی جدوجہد بولے گی۔‘‘
جماعت اہل حدیث کے امیر محترم جناب عبدالغفار روپڑی ﷾کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے فرمایا:
’’علامہ ابتسام الٰہی ظہیر ﷾کی بصیرت افروز اور ناصحانہ گفتگو کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، تاہم حکم کی تعمیل کرتے ہوئے چند معروضات پیش کرتا ہوں۔
اہل حدیث کی مساجد کا زمین پر اور معاشرے میں وجود ہماری دینی، اخلاقی اور ملی ذمہ داری ہے۔
اہل بدعت کو اہل توحید کی مساجد کبھی گوارا نہیں ہوتیں۔
جس طرح ہم آج ظاہری طور پر ایک جگہ پر جمع ہیں، ہمیں دلوں کی یکجہتی کے ساتھ بھی جڑنا ہوگا۔ شرپسند عناصر خود کھڑے نہیں ہوتے، انہیں مخصوص قوتیں کھڑا کرتی ہیں۔ ہماری لڑائی بریلوی مکتب ِفکر سے نہیں، بلکہ انتظامیہ کے اُن افراد سے ہے جو ان کی پشت پناہی کر کے فضا کو خراب کر رہے ہیں۔اپنا پیغام قوم تک پہنچانے کے لیے ہمیں فی الفور ایک پریس کانفرنس کی جانی چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر حافظ انس نظر صاحب نے فرمایا:
’’ ہمارے پاس ایک مؤثر سلوگن ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ’’ہر سوسائٹی، ہر علاقے میں ایک اہل حدیث مسجد ہو‘‘۔دوسرا ، تمام قومی اداروں میں دیگر مسالک کی نمائندگی موجود ہے، اہل حدیث کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے ۔‘‘
یہ اجلاس اہل حدیث تحریک کے لیے ایک نئی روح، نیا جذبہ اور نیا اتحاد لے کر آیا ہے۔ اختلافات ختم کر کے، باہمی احترام کے ساتھ، اب اہل حدیث ملت متحد ہونے جا رہی ہے۔ اس اتحاد کے ذریعے ان شاء اللہ مساجد کا تحفظ، مدارس کی بقا، علماء کا وقار اور ملت کی رہنمائی ممکن ہو گی۔
پریس کانفرنس
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’’تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ پاکستان ‘‘کے پلیٹ فارم سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرنی چاہیے ۔اس فیصلہ کی روشنی میں 16؍اپریل کو پریس کلب لاہور میں تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ،پاکستان سے منسلک تمام جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ۔پریس کانفرنس کا آغاز ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی کی تلاوت سے ہوا ۔ پریس کانفرنس میں تنظیم المساجد کے قائدین نے انتظامیہ اور میڈیا کو یہ پیغام دیا ہےکہ اہل حدیث مساجد کے ساتھ جو ناروا سلوک ہورہا ہے ، اسے بند کیا جائے بالخصوص جوبلی ٹاؤن مسجد کہ جسے LDA انتظامیہ نےاہل حدیث کے حوالے کیا ، پھر شرپسند عناصر کی وجہ سے واپس لے لیا ،اسے بحال کیا جائے ۔ بصورت دیگر 18؍اپریل کو احتجاج کیاجائے گا۔
حقوق اہل حدیث مارچ
18اپریل کو علامہ ابتسام الہی ظہیر ﷾ نے خطبہ جمعہ جامعہ لاہور الاسلامیہ (مرکز البیت العتیق) کی جامع مسجد میں ارشاد فرمایا ۔بعد ازاں اس جم غفیر نے رائے ونڈ روڈ کا رخ کیا اورلاہور بھر سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں قافلوں کی صورت میں احتجاج میں شامل ہوئے، بالخصوص علامہ ہشام الہی ظہیرصاحب اپنے مرکز سے ایک بڑے قافلہ کی قیادت کرتے ہوئے رائے ونڈ روڈ پہنچے ۔عوام کا ایک فقید المثال اور پرامن سمندر جمع ہوا۔ علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب نے اس شاندار احتجاج میں کلیدی خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ مساجد اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین کے اوپر سب سے مقدس جگہیں ہیں، مساجد کی آباد کاری انبیاء علیہم السلام کا مشن ہے سیدنا ابراہیمؑ کا مشن ہے،سیدنا اسماعیلؑ کا مشن ہے، محمد رسول اللہﷺ کا مشن ہے ۔ جب تک اہل حدیث اور اہلسنت کا ایک فرزند بھی زندہ ہے مساجد کی عظمت کی جنگ لڑتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم جہاں پر مساجد سے محبت کرنے والے ہیں وہاں آئین اور قانون کا احترام بھی کرتے ہیں،چاہیں تو زورِ بازو سےتالے توڑ کر بند مسجد کو کھول سکتے ہیں لیکن آئین کا احترام اور پاکستان کا امن پیش نظر ہے ۔ جوبلی ٹاؤن مسجد کو اللہ اکبر اور اشهد ان لا اله الاالله کے نغموں کے ساتھ مہکایا جائے گا، وہاں پر نماز اور جمعہ کا قیام ہوگا،ان شاء اللہ ۔ انتظامیہ والو! سن لو ! اگر تم تھیٹروں کو بند نہیں کر سکتے اگر تم سنیماہالوں کو بند نہیں کر سکتےاگر تم میلے ٹھیلوں کو بند نہیں کر سکتےاگر تم فن فیئر کو بند نہیں کر سکتے تو تم کو مساجد بند کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ان شاء اللہ جوبلی ٹاؤن کے اندر بھی ختم نبوت کا ڈنکا بھی بجایا جائے گافضائل صحابہ کا نعرہ لگایا جائے گا اور ان شاء اللہ توحیدالٰہی کا پرچم لہرایا جائے گا۔
اس احتجاجی مظاہرے نے یہ واضح کر دیا کہ اہل حدیث مکتبِ فکر کے افراد نہ صرف پاکستان کے پرامن شہری ہیں بلکہ اپنے عقائد اور دینی شناخت کے تحفظ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
تنظیم سازی
تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ کی یکم مئی 2025ء کو باقاعدہ تنظیم سازی کی گئی، جس میں درج ذیل چند بنیادی عہدے داران کا تعین کیا گیا :
سرپرست اعلیٰ: مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی
سرپرست : حافظ عبد الغفار روپڑی ، مولانا محمد شفیق مدنی ، میاں محمد جمیل ایم اے
امیر تنظیم: انجینئر حافظ ابتسام الہٰی ظہیر
چیف آرگنائزر : ڈاکٹر علامہ حافظ ہشام الہی ڈپٹی چیف آرگنائزر : عبد الوحید شاہد روپڑی
نائب امیر : ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی، علامہ طارق محمود یزدانی
سیکرٹری جنرل:ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ڈپٹی جنرل سیکرٹری : عبدالباسط بلوچ
کنوینئر: ڈاکٹر حافظ شفیق الرحمن زاہد انچارج تعلقاتِ عامہ: ڈاکٹر حافظ عبدالماجد سلفی
ارکان عاملہ
علامہ زبیر احمد ظہیر علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری
قاری محمد یعقوب شیخ رانا محمد نصر اللہ خان
ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر قاری شفیق الرحمن ربانی
ناظم دفتر :قاری خالد فاروق ترجمان تنظیم: قاری محمد ظہیر ادریس
نائب ناظم دفتر : ابو بکر باجوہ انچارج میڈیا :حافظ مبشر اقبال
مرکزی سیکٹریٹریٹ کا قیام
مرکز البیت العتیق میں تنظیم المساجد و المدارس السلفیہ کا مرکزی دفتر قائم کردیا گیا ہے ، جس میں بنیادی طور پر درج ذیل دفاتر قائم کیے گئے ہیں:
- 1. دفتر امیر تنظیم دفتر میڈیا
- دفتر رابطہ 4. کانفرنس روم
- مہمان خانہ
اللہ رب العزت اس تنظیم کو مزید نافع بنائے، اس کے مقاصد میں برکت دے اور اسے امت مسلمہ کی رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔ آمین
مبارک باد ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ﷾ مدیر ماہنامہ محدث کو قرآن و سنت مومنٹ، پاکستان کا وائس چیئر مین بننے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس عہدے کے تقاضوں کو کما حقہ پورا کرنے کی توفیق دے اور آپ کی شمولیت قرآن و سنت مومنٹ، پاکستان کے لیے خیر کا باعث بنائے۔ ادارہ محدث |