(قسط نمبر 2) پچھلی مرتبہ ہم نے قاضی صاحب کی خدمت میں چند ایک گزارشات پیش کی تھیں اور چند خدشات کی طرف اشارہ بھی کیا تھا لیکن جب قاضی صاحب کے مضمون کی دوسری قسط (جوسرقہ کے متعلق ترجمان القرآن شمارہ 4 جلد88 میں ہے) سامنے آئی تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بعینہ وہ خطرات منڈ لا رہے ہیں او روہی مفسدات و منکرات سراٹھاتے نظر آتے ہیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا تھا۔ مضمون پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ قاضی صاحب بحر الرائق یا در مختار کا ترجمہ فرما رہے ہیں ان کے پیش نظر بین الاقوامی طور پر تعزیرات اسلام کامج مزید مطالعہ
(بسلسلہ تعزیرات اسلام) قسط (۳) قوله: قاضی کو چاہئے کہ وہ چور کو کہے کہ وہ اپنے اقرار سے رجوع کر لے (دفعہ ۵ جزء ب)أقول: اس بات کی سطحیت پر کچھ کہے بغیر ہم قاضی صاحب کے دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ نے پہلے ابو امیہ مخزومی کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کے قول کی ناجائز تائید کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں کوئی لفظ تک ایسا نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ قاضی کو رجوع عن الاقرار کے متعلق تلقین کرنی چاہئے بلکہ علامہ خطابی تو اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:في إسناده مقال قال والح مزید مطالعہ
(بسلسلہ تعزیرات اسلام)ہم پہلی اقساط میں متعدد مرتبہ یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ فقہ علی العموم اس قابل نہیں کہ اسے آج کے معاشرہ میں من و عن نافذ کردیا جائے لیکن فقہ حنفی کی شان تو کچھ نرالی ہی ہےکہ جس کی بنیاد 75 فیصد حیلہ سازی پر ہے اور حیل کےذریعےمجرم کو ''ادرؤا'' کے پردہ میں تحفظ بخشا جاتاہے لیکن نامعلوم ہمارےمہربان ایسی حیلہ سازی کو ختم کرنے کی بجائے الٹا امام بخاری وغیرہ ائمہ محدثین کو کیوں کوستے ہیں کہ انہو|ں نے ان پہلوؤں کی نشاندہی فرما کر عامۃ الناس کی رہنمائی و خیرخواہی کے جرم عظیم کا ارتک مزید مطالعہ
(ذمّی کے بدلے مسلمان کا قتل) (5) قاضی بشیر احمد صاحب اسلام کے قانون سرقہ پر بحث ختم کرچکے ہیں اور قسط نمبر 7 سے انہوں نے فصل دوم یعنی قتل کے احکام کا ذکر شروع کیا ہے۔ بحث کے سیاق و سباق کو دیکھنےسے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف فقہ حنفی کی روشنی میں عصمت مال کی طرح عصمت دم کو بھی اورؤالمحدود بالشبہات کی نذر فرما رہے ہیں۔ ہمارے کہے بغیر انشاء اللہ قارئین خود محسوس فرمائیں گے کہ سابقہ روایات کے مطابق اسلامی جذبات و احساسات سے صرف نظر کرتے ہوئے موصوف نے عصمت دم کو فقہ حنفی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی مزید مطالعہ
(بسلسلہ تعزیرات اسلام....قسط ......6) محترم قارئین کرام اس سے قبل آپ مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل کرنے کے متعلق پڑھ چکے ہیں، اب ہم اسی قسط کے ساتھ متعلق دوسرے مسئلہ کی طرف آتے ہیں کہ اگر ایک قتل میں متعدد آدمی ملوث ہوں تو کیا ان میں سے ایک کو قتل کیاجائے گا یا تمام کو ..... لیکن اس مسئلہ کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ آدمی کو متعدد افراد مل کر برضا و رغبت قتل کرتے ہیں، دوسری یہ کہ ایک آدمی کو دوسرا مجبور کرتا ہے کہ تو فلاں آدمی کو قتل کردے او روہ کرہاً قتل کردیتا ہے تو کیا دونوں پر قصاص ہوگا یا صرف آمر مزید مطالعہ
مرتد عورت، حالت ِزنا میں قتل او ر بیٹے کے بدلے باپ کے قتل کاحکم (بسلسلہ اسلام کا قانون جنایت.... قسط نمبر 7) الحمد للہ و کفیٰ والصلوٰة والسلام علیٰ عباده الذین اصطفیٰ ...... أمابعدقاضی بشیر صاحب نے اپنے مضمون کی قسط نمبر9 کی ابتدا جس بحث سے فرمائی ہے اسپر ہم بالاختصار پہلے بھی کچھ عرض کرچکے ہیں اور وہ یہ کہ دارالحرب ساقط قصاص ہے یا نہیں یعنی عصمت دم میں اسلام معتبر ہے یا دارالحرب احناف کے نزدیک عصمت دم کا مدار مقام او رجگہ ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں مارا جائے تو اس کے قاتل پر قصاص مزید مطالعہ
قسط (8) قاضی بشیر احمد صاحب نے اپنے مضمون کی قسط 12 سے احکام صلح کے متعلق خامہ فرسائی شروع کی ہے لیکن آپ اس مبحث میں بھی تضاد ، لغت دانی اور حدیث شناسی کے متعدد عجوبے او رنمونے پائیں گے۔ چنانچہ موصوف تشریح 12 ش 4 میں فرماتے ہیں۔ اگر مجنون کو قصاص کا حق حاصل ہو خواہ قصاص نفس کا ہو یا دون النفس کا تو اس کے باپ دادا کو اختیار ہوگا کہ وہ مجنون کی جانب سے قصاص لیں اور اس کو صلح کرنے کابھی اختیار ہے البتہ وہ معاف کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ ''لیکن اس کے معا بعد ش5 میں فرماتے ہیں۔ مجنون کے وصی کوبھی اختیار مزید مطالعہ
[قسط (9)] قولہ: قاضی صاحب موصوف نے دفعہ نمبر 6 ش12 میں لکھا ہے کہ ''مرد اور عورت کے درمیان نفس سے کم میں قصاص جاری نہ ہوگا۔'' (ترجمان القرآن جلد 90 ع 4 ص21)اقول: اس مسئلہ میں احناف او رمالکیہ و شوافع کے درمیان اختلاف ہے او راس اختلاف کی اصل بنیاد اس بات پر ہ کہ کیا عورت او رمرد کے اعضاء میں مماثلت ہے یا نہیں؟ احناف کے نزدیک یہ مماثلت مفقود ہے جبکہ جمہور کے نزدیک مماثلت و مساوت موجود ہے۔ احناف اپنے مؤقف کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چونکہ مرد وزن کے اعضاء کی دیت میں فرق ہے لہٰذا مساوات نہ مزید مطالعہ
(10) قولہ : اگر آلہ کومسلسل استعمال کیا گیا ہو تو احناف کے نزدیک اس صور ت میں بھی قتل شبہ عمد ہوگا..... البتہ امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں قتل شبہ عمد ہوگا۔ (ترجمان القرآن فروری 1979ء، صفحہ 13 دفعہ نمبر 15)اقول: ہم پہلے کسی موقعہ پر غالبا ً بالتفصیل عرض کرچکے ہیں کہ ہتھیار میں تلوار کو خاص کرنا یاایسی شروط عائد کرنا جن سے عموماً مستعملہ چیزیں خارج ہوجائیں۔محض فنکاری ہے۔اس فنکاری میں ماہر و مستغرق قاضی صاحب موصوف نے اس موقع پر بھی حسب معمول یہ فرق بیان کرتے ہوئے فقہ حنفی کوسند صحت سےنوازنے کی مزید مطالعہ
کیا حدود محض زواجر ہیں؟: موصوف قاضی صاحب فرماتے ہیں۔ ’’ اوپر دنیاوی سزا کا ذکر ہے آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہوگی۔‘‘ (ترجمان القرآن مارچ 1979ء) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے قتل کے جرم میں قصاص لیا جائے یا سرقہ کے ضمن میں قطع ید ہو یا زنا کے سلسلہ میں رجم کردیا جائے وغیرہ وغیرہ تو یہ سزا صرف دنیاوی سطح تک معتبر ہوں گی عنداللہ ان کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ ان مجرموں کو مزید سزا دی جائے گی۔ حدود کے ضمن میں دی جانے والی سزا کیا آخرت میں بھی کافی ہے یا نہیں؟ یہ اصولی بحث تو ہم کسی اور جگہ کریں گے تاہم مزید مطالعہ