دسمبر 2024ء

جامع تراث العلامة الالبانی فی المنهج

جامع تراث العلامة الالبانی فی المنهج

علامہ ناصر الدین البانی﷫ (1914- 1999) یورپ کے ملک البانیہ میں پیدا ہوئے، لگ بھگ سات سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ہجرت کی اور دمشق شام آ بسے۔ دینی تعلیم والد گرامی سے حاصل کی جو مضبوط شرعی عالم تھے اور حنفی مسلک  سے تعلق رکھتے تھے۔ بعض دیگر اہل علم سے بھی تلمذ اختیار کیا۔ 1934 کے آس پاس دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں تحقیق و تالیف سے مستقل وابستہ ہو گئے اور سلفی مسلک  اختیار کر لیا۔ دمشق میں کئی دہائیوں تک تحقیق و تالیف اور دعوت کا کام کرتے رہے۔ 1967 کے بعد بعض حکومتی مسائل کی وجہ سے انھوں نے  شام سے ہجرت کر لی۔ ان کی زندگی کا آخری بڑا حصہ عمان اردن میں گزرا اور 1999ء میں وہیں وفات پائی۔ بیماری کے باوجود وفات سے دو ماہ قبل تک تصنیف وتالیف کا شغل قائم رہا۔ وہ 100 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، جو معروف ومشہور ہیں۔ 1999ء میں انھیں شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھوں نے کئی عرب اور یورپی ممالک کا دورہ بھی کیا اور محاضرات بھی پیش کیے۔ تین سال تک جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ  میں تدریس بھی کی۔

جامع تراث العلامة الالبانی فی المنہج و الاحداث الکبری 12 جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم موسوعہ ہے جو پہلی دفعہ 2011ء میں یمن کے ایک تحقیقی ادارے مرکز النعمان صنعاء سے شائع ہوا۔ اس مجموعہ کو دکتور شادی بن محمد آل نعمان  نے تیار کیا جو مرکز النعمان کے مدیر بھی ہیں۔ وہ عقیدہ اور فقہ پر بھی ناصر الدین الالبانی کے دو بڑے موسوعات  تیار کر چکے ہیں۔ یہ تینوں مجموعے صید الفوائد ویب سائیٹ پر دستیاب ہیں۔ دکتور شادی کی ایک ذاتی تالیف’’ انتصار الدرر السنیة‘‘ نہایت قابل قدر ہے، جو غالی اہل تکفیر کے خلاف نہایت علمی تالیف ہے۔

علامہ البانی کا منہجی موسوعہ زیادہ تر ان کی آڈیو کیسٹوں سے مرتب کیا گیا، یہ کیسٹیں باقاعدہ البانی﷫ کی زندگی میں سوالاً جواباً ریکارڈ کی جاتیں، ان کا حوالہ دیا جاتا اور انہیں محفوظ کیا جاتا تھا۔ شیخ البانی کی  تصانیف و تالیفات کا بڑا حصہ عرب دنیا اور برصغیر میں مشہور و معروف ہے۔ لیکن ان کی زندگی کا یہ پہلو عام دنیا سے اوجھل  ہے کہ وہ موجودہ تحریکی مناہج کے بہت بڑے رہنما بھی تھے۔ عرب دنیا کے ارکانِ ثلاثہ یعنی شیخ بن باز، شیخ العثیمین اور شیخ البانی ﷭میں سے مقدم الذکر دونوں بزرگ علمی، تحقیقی اور تدریسی  میدان کے شہ سوار تھے، ان کی زندگی تعلیم و تحقیق میں ہی گزری۔ البتہ شیخ البانی کی عملی ودعوتی زندگی خاص طور پر امت کے بڑے تحریکی مسائل پر غوروفکر میں گزری۔اس لیےان کے منہجی رسائل اور   تحریکوں پر ناقدانہ تحریریں زیر تبصرہ مجموعہ کی شکل میں سب سے زیادہ ہیں۔

 زیر بحث  مجموعہ میں بیان کردہ منہج شیخ البانی کا ذاتی وضع کردہ نہیں بلکہ  قرآن وسنت اور سلف صالحین  کا مقرر کردہ منہج ہے جس کی پیروی انہوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق کی :

[ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ][الأنعام: 153]

   اس مجموعہ کی تشکیل کے لیے  سب سے پہلے صوتی مواد کو تحریری شکل میں لایا گیا، پھر تحقیق، تصحیح اور تنقیح کے بعد، ابواب و فصول اور مجلدات کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ اب اس سے استفادہ کرنا پہلے کی نسبت بہت آسان ہوگیا ہے ۔

 اہل علم جانتے ہیں کہ شیخ البانی کے سوالات کے جوابات نہایت آسان اور دلچسپ ہیں۔ وہ کئی مقامات پر اپنے موقف کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں، ہم نے ہمیشہ یہ بات کی، ہم پچھلے چالیس سال سے یہ کہہ رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مختلف مسائل پر غوروفکر سرسری نہ تھا، بلکہ طویل محنت اور سوچ وبچار کا نتیجہ تھا۔

 اس مجموعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیخ البانی  کا سائل کوئی بہت پڑھا لکھا انسان تھا کیونکہ وہ بعض اوقات شیخ سے ادب و احترام کےساتھ اختلاف کرتا ہے، دلیل مانگتا ہے، جرح کرتا ہے اور اعتراض کرتا ہے اورشیخ البانی اسے محبت سے مطمئن کرتے ہیں، دلائل دیتے ہیں اور بعض اوقات سائل سے عصری ایشوز کی تفصیل بھی مانگتے ہیں۔ اس سے اس منہجی موسوعہ کی ثقاہت بڑھ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ شیخ محترم کے مناظرہ کرنے کا  انداز  ، موضوع پر گرفت  اور اپنے موقف پر استقامت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

 مجموعہ شریعت کے سب سے مشکل مسائل یعنی منہجی مسائل پر ہے۔ یہ مسائل حل نہ ہوں تو بڑی بڑی تحریکیں راہ راست سے کم یا زیادہ منحرف ہو جاتی ہیں، دہائیوں کی محنتیں ضائع ہوتی ہیں، جماعتوں اور دعاۃ کی زندگیاں کھپ جاتی ہیں، لیکن کوئی حوصلہ افزا مثبت نتائج سامنے نہیں آتے۔ بعض لوگ حکام کے خلاف شدت، تکفیر اور خروج اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض لوگ سلف صالحین کا مضبوط علمی طریقہ چھوڑ کر محض دین کے چند مسائل کی دعوت وتبلیغ  کے لیے نکل جاتے ہیں اور ساری زندگی اسی کام میں گزار دیتے ہیں۔ ایسے مسائل سے لاعلمی کے سبب   بعض دعاۃ نے کفار اور حقیقی مبتدعین کو چھوڑ کر چھوٹے اور جزوی منحرفین کے خلاف تشدد و تبدیع کا بازار گرم کیا۔ مجموعہ منہج کا ایک بڑا حصہ خود سلفیوں کے اندر کے تشدد و غلو کے رد میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ البانی نے حزبیت، تعصب، باہم سب وشتم اور غالی تجریح کے خلاف بڑی محنت کی۔

تحریکوں کے مناہج پر فکری و علمی کتابیں کم نہیں لیکن ان کی خالص علمی زبان بعض اوقات عملی زندگی کی گتھیاں سلجھانے میں وہ مدد نہیں دیتی جو زیر تبصرہ مجموعہ مدد دیتا ہے۔ شیخ الالبانی   آسان اور دل نشین زبان میں بات کو واضح کرتے ہیں کہ بڑی آسانی  کے ساتھ بڑی  اور مشکل گتھیاں سلجھ جاتی ہیں۔ علمی اصولوں کو مائیکرو لیول پر منطبق کرنا اور اسے سمجھانا، شیخ البانی کا خاص کارنامہ ہے۔ وللہ الحمد

مجموعہ کے تمام منہجی مسائل شیخ کی زندگی کے آخر تک ان کے ہاں مسلم رہے، انھوں نے کسی مسئلہ سے رجوع نہ کیا، البتہ جہاد افغانستان، قضیہ الجزائر اور خلیج کی جنگ دوم جیسے واقعاتی امور پر ان کی بعض آراء میں رجوع ممکن ہو سکتا ہے۔

زیر نظر مجموعہ کا پہلا مقدمہ شیخ ابو الحسن مصطفی السلیمانی نے تحریر کیا، وہ مارب یمن کے رہنے والے مشہور عالم ہیں،سلفیت کے مؤثر داعی اور خاص طور پر غالی تبدیع کے خلاف بڑی محنت کر چکے ہیں، ان کی کئی قیمتی کتب ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

دوسرا مقدمہ شیخ علی حسن حلبی نے لکھا،  جو عمان اردن کے رہنے والے ہیں۔یہ  بھی شیخ البانی کے مشہور شاگرد ہیں۔

موضوعات کے اعتبار سے جلدوں کی تقسیم

شیخ کی دعوتی زندگی  چار قسم کے گروہوں کی اصلاح میں گزری:  اخوانی، خارجی، غالی تبدیعی، تبلیغی

 شیخ البانی﷫ کے مخاطبین میں پہلے نمبر پر اخوانی ہیں جو تعلیم وتربیت کا طریقہ چھوڑ کر سیاست کی وادیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ شیخ البانی ان کے مقابلےمیں تصفیہ و تربیہ کی پر زور تاکید کرتے ہیں۔ مجموعہ منہجی کی بارہ میں سے چار جلدیں اسی موضوع پر ہیں۔ دو جلدیں تصفیہ وتربیہ پر اور دو جلدیں سیاسی اخوانی مسائل پر۔

 شیخ البانی کا آخری ہجرت سے قبل اخوانیوں کے ساتھ  میل جول بھی رہا ہے، وہ ان کے پاس آمدورفت بھی کرتے اور ان کے رسائل میں علمی مضامین بھی لکھ کر بھیجتے، انھوں نے کئی کبار اخوانی رہنماؤں کی کتابوں کی تخریج بھی کی ہے جو مشہور و معروف ہیں۔ 

 ایک بڑی جلد تکفیریوں اور خارجیوں کے خلاف ہے۔

 ایک جلد غالی تبدیعی گروہ کے خلاف ہے۔ شیخ کی زندگی ہی میں سلفیوں کے اندر وہ گروہ پیدا ہو گیا جو خود سلفیوں کے بعض انحرافات پر انہیں اہل سنت سے خارج کرتا اور اہل بدعت میں داخل کرتا تھا۔

 شیخ البانی کے مزاج اور موقف میں وسعت اور اعتدال ہے ۔وہ  اشاعرہ کو بھی اہل سنت سے خارج نہیں کرتے، بلکہ انہیں اجتہادی خطا کا عذر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اشاعرہ بہت سارے مسائل میں اہل سنت کے ساتھ موافق ہیں اور چند ایک مسائل میں الگ ہیں۔ وہ اہل بدعت سے تعامل کے متعلق بھی معتدل رویہ رکھتے ہیں، مثلا وہ ایسے بدعتی کو سلام کرنا  روا سمجھتے ہیں جو بالتعیین کافر نہ ہو۔ عام طور پر وہ کسی بھی بڑے گروہ کو اجمالی طور پر کافر قرار نہیں دیتے۔ وہ معین مسلمان کو کافر یا بدعتی قرار دینے سے پہلے حجت قائم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ ایسے مخالفین کو بھی’’ رحمہ اللہ ‘‘کہنا درست سمجھتے ہیں جو کافر نہ ہوں، اگرچہ بدعتی ہوں۔

مجموعہ منہج کی ایک  آدھی جلدتبلیغی جماعت  کی اصلاح پر ہے۔

شیخ البانی کے مجموعہ کی چار جلدیں عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے جہاد اور اقلیات کے مسائل پر ہیں۔

ایک جلد فرقوں اور جدید رجحانات پر ہے۔ اس میں اشاعرہ، روافض اور صوفیہ بطورخاص  لائق مطالعہ ہیں۔

کسی نے منہج کا معتدل، آسان اور وسیع ترین مطالعہ کرنا ہو تو وہ اس مجموعہ کو ضرور پڑھے۔ تحریکی مزاج لوگوں اور دعاۃ کے لیے اس مجموعہ سے استغناء ممکن نہیں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ منہج پر اس سے زیادہ  تفصیلی لٹریچر عام طور پر نظر نہیں آتا۔

مجموعہ شیخ البانی  کے اہم مسائل

شیخ البانی﷫ کے مسائل وسیع مطالعہ، گہرے غوروفکر اور طویل ممارست کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اقامتِ خلافت فرض ہے لیکن اس کا طریقہ تصفیہ وتربیہ یعنی صحیح فہم اسلام پر مبنی گہری علمی و عملی معاشرتی اصلاح اور تربیت ہے جو شرعی علماء کے ہاتھوں ہو، معاشرے کا بڑا طبقہ توحید وسنت کا حامل ہو، مروجہ جمہوری سیاست سے اور تصفیہ و تربیہ کے بغیر کبھی بھی  خلافت قائم نہ ہو گی۔ وہ سیاست کو بدعت نہیں کہتے لیکن وقت سے پہلے سیاست کو غیر مناسب قرار دیتے ہیں۔ ان کی تاکید ہے کہ جیسے مکی دور نبوی میں سیاست سے پرہیز کیا گیا اور دعوت و تربیت کا کام جم کر کیا گیا، ویسے ہی اب کرنا چاہیے، تا آنکہ ہم سیاست کے اہل ہو جائیں اور اللہ کی نصرت اتر آئے۔

 شیخ البانی حکمرانوں کو کفر بواح اور اقامت حجت کے بغیر کافر نہیں کہتے ۔وہ موجودہ دور کے مسلم حکمرانوں کو  کافر نہیں کہتے اور نہ ہی  شرعی خلیفہ  سمجھتے ہیں، جن کی بیعت کے بغیر انسان جاہلیت کی موت مرے۔ شرعی حاکم کے علاوہ کسی کے لیے بیعت درست قرار نہیں دیتے ،نیز وہ خروج کے لیے استطاعت کی شرط لگاتے ہیں اور استطاعت کے لیے معاشروں کا تصفیہ و تربیہ ضروری سمجھتے ہیں۔

شیخ البانی موجودہ دور میں اہل بدعت کے خلاف ہجر اور عدم تعلق  کے طریقے  کو غیر مناسب سمجھتے ہیں اور حکمت کے ساتھ دعوت کو زیادہ مفید خیال کرتے ہیں اخوانی رہنماؤں کے بارے میں ان کا موقف نہایت واضح اور دو ٹوک ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور  انہیں  کلمہ ترحم سے پکارا جا سکتا ہے۔

 شیخ البانی توحید حاکمیت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن اس کی عملی تطبیق و اقامت کے لیے تصفیہ وتربیہ کا لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں نہ کہ جمہوری سیاست کا طریقہ کار۔  

شیخ محترم نے اپنے دور میں مختلف مقامات پر جہاد کی فرضیت کا بھی فتوی دیا ، جیسے جہاد افغانستان، وغیرہ۔ وہ ان جہادوں کو مسلمانوں کے دفاع کے لیے فرض عین قرار دیتے ہیں اور ایسے جہاد میں شرکت کے لیے تصفیہ و تربیہ کو لازم نہیں سمجھتے البتہ اقدامی جہاد کو صرف خلیفہ یا اس کے مقرر کردہ شرعی امیر کے تحت درست مانتے ہیں اور اس کے لیے نصب خلافت ضروری سمجھتے ہیں جس کا راستہ معاشرے کی اصلاح یعنی تصفیہ و تربیہ ہے۔ وہ غالی تحریکوں کے خود کش حملوں کو مسلمانوں کی دعوت اور ان کی قوت واستحکام کے لیے نہایت مہلک قرار دیتےہیں اور ان سے بچنے کی بار بار تلقین کرتے رہتے ہیں۔ 

ہر عالم کی طرح شیخ البانی سے بھی غلطی کا صدور  ممکن ہے ، البتہ  وہ اپنے بیانات میں شرعی دلائل اور قوی استدلال پیش کرتے ہیں جس سے دین کے طالب علم اور داعی کو نہایت طاقت ور دلی اطمینان نصیب ہوتا ہے،  اکثر مسائل میں وہ کبار سلفی علماء کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چند اکا دکا مسائل میں وہ دیگر علماء سے الگ بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی تعداد نہایت قلیل ہے اور وہ بھی دلیل، ترجیح اور اجتہاد کی بنیاد پر ہے، نہ کہ غلو و تشدد یا تساہل و تقصیر کی بنیاد پر۔

 اردو میں منہج تلقی پر کچھ کتب مل جاتی ہیں، لیکن منہج تغییر پر کتابیں بالکل نادر اور نایاب ہیں۔ ایسی صورت حال میں البانی کا زیر تبصرہ مجموعہ اہل علم کے لیے ایک بہار کا پیغام ہے، جو شروع سے آخر تک منہج تغییر پر ہے۔ جو اپنی علمی پیاس بجھانا چاہتےہیں، ان کے لیے اس میں وافر مطلوب و مقصود ہے۔ شیخ البانی منہج تلقی کے تحت قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ فہم سلف کی مستقل تاکید کرتے ہیں۔ منہج تغییر کے تحت بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے احوال کیسے بدلیں گے اور مسلمان کب اور کیسے پستی سے نکل سکیں گے۔ 

شیخ البانی کے منہجی مواقف ان کے بعض رسائل میں بھی مشہور ومعروف ہیں جیسے التوحید اولا، فتنہ تکفیر، التصفیہ و التربیۃ اور فقہ الواقع وغیرہ کے عناوین والے رسائل۔

 شیخ البانی کی دعوتی زندگی

شیخ البانی  کی دعوتی تحریک، ان کی علمی و تحقیقی کتابی دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہے جو عام طور پر برصغیر کے لوگوں کے لیے  پوشیدہ ہی رہی۔ وہ دن بھر مکتبہ ظاہریہ دمشق میں علمی وتحقیقی اور تصنیفی و تالیفی کام کرتے لیکن ہفتہ میں دو دن علمی کتابی درس کا مستقل اہتمام کرتے جس میں طلبہ کے علاوہ اساتذہ بھی شریک ہوتے۔ عوامی دعوت کے لیے ہفتہ میں دو دن مختلف علاقوں کا وزٹ کرتے۔ مہینے میں چند دن یا ایک ہفتہ مستقل پابندی کے ساتھ دور دراز علاقوں کی دعوت کے لیے مقرر کیا ہوا تھا۔ ان کی محنتوں کے نتائج ان کی زندگی میں ہی نمایاں ہونے لگے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم نے شام، اردن اور دیگر کئی علاقوں سے غالی تکفیر کے نظریات کا موثر سد باب کر دیا لیکن مصر میں ابھی بھی اس کے اثرات موجود ہیں جو ختم نہیں ہو رہے۔ شیخ البانی نے کئی عرب ممالک حتی کہ یورپی ممالک میں بھی علمی محاضرات دیے، جو مطبوع شکل میں مل جاتے ہیں۔ وہ تحریکی موضوعات پر انفرادی سوال وجواب کی نشست، مناظرہ اور مباحثہ بھی کرتے تھے اور علمی مناقشوں کے ذریعے فریق مخالف کا دماغ اور دل جیت لیتے تھے۔ اس کی کئی مثالیں ان کے منہجی موسوعے میں مل جاتی ہیں۔

 شیخ البانی﷫ کو اپنی دعوت کے نتیجے میں کئی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، ان کے مخالفین میں سب سے زیادہ ’’سقاف  ‘‘ مشہور ہے جو البانی صاحب کے بقول امام ابن تیمیہ ﷫ کی بھی تکفیر کرتا ہے۔ وہ توسل انبیاء و اولیاء کا قائل ہے۔ شیخ البانی کوتوحید وسنت پھیلانے، دعوتی حلقہ قائم کرنے اور شرک وبدعت کے خلاف محاربہ کی وجہ سے  کئی دفعہ سرکاری مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا، حتی کہ ہجرت بھی کرنی پڑی اور دو دفعہ جیل بھی جانا پڑا۔ بعض مخالف سلفی علماء  شیخ البانی پرارجاء کی طرف میلان کا الزام بھی لگاتےہیں، لیکن ہمارے مطالعہ میں ایسی کوئی چیز نہیں گزری جو واقعتا اس الزام کو سچ قرار دے، کبارعلماء نے بھی اس کی تردید کی ہے۔ البتہ عوامی سوال وجواب کا طریقہ کار چونکہ خالص علمی کتابی اسلوب میں نہیں ہوتا، اس لیے بعض اوقات تسلی و تشفی میں کمی رہ جاتی ہے۔ جس سے مختلف اشکال لاحق ہوسکتے ہیں۔ تحقیق اور تخریج کی دنیا میں بھی ان کے بعض سلفی اور حنفی ناقدین موجود ہیں لیکن بے شمار سلفی اور غیر سلفی علماء نے ان کی بے پناہ تحسین و توثیق بھی کی ہے۔

شیخ البانی کا بلند اخلاق

شیخ البانی ﷫اپنے سلفی بھائیوں کو حکمت، رفق، اخلاق حسنہ ، وعظ ونصیحت، علمی ذوق اور باہمی محبت و تعلق کی  بار بار نصیحت کرتے ہیں اور حزبیت، نفرت، تشدد، تساہل، مداہنت اور عجلت و جذباتیت سے دور رہنے کی بار بار تلقین کرتے ہیں۔

 شیخ البانی منکسر المزاج انسان تھے، بعض سخت گیر علماء سائلین کے بار بار سوالات پر درشت رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ اس عظیم الشان مجموعہ میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں شیخ البانی ناراض، غصہ یا رنجیدہ ہوئے ہوں، سائل کو بھائی کہ کر پکارتے ہیں، معاصرین اور مخالفین کا ادب و احترام سے نام لیتے ہیں، ماضی میں کسی موقع پر کوئی سخت بات ہوئی ہو تو معذرت بھی کرتے ہیں، بعض سلفی علماء کی درشت زبانی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، تحریکوں پر صلابت و ثقاہت کے ساتھ نقد کرتے ہیں لیکن ان کی خیر کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر امت کے لیے ان کی خیرخواہی اور فکر مندی کے جذبات دیکھ کر انسان آب دیدہ ہو جاتا ہے۔ بعض مقامات پر ان کا طاقت ور علمی  استدلال دیکھ کر انسان ان کے مجدد اور مجتہد ہونے کا قائل ہو جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر ان کا انکسار ان کی زبان سے کہلواتا ہے کہ فی الحال میرے پاس آپ کے سوال کا بس یہی جواب ہے۔

اللہ تعالی شیخ البانی کی خدمات جلیلہ کو  اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے اور انھیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔  آمین