اختلاف میں آداب کا خیال رکھیئے
اختلاف میں آداب کا خیال رکھیئے
محمد یٰسین ظفر[1]
دنیا میں انبیاء کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہے۔ ہر شخص سے غلطی کا امکان موجود ہے اور وہ متنازعہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جب کسی مسئلے میں اختلاف ہو جائے تو آدابِ اختلاف کو مد نظر رکھا جائے، اخلاقی قدروں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اختلاف تعمیری اور مثبت ہو، علمی اور اصولی ہو، الفاظ مناسب اور انداز سلجھا ہوا ہو، تاکہ آپ کا وقار مجروح نہ ہو اور اس سے مثبت نتائج برآمد ہوں ، مثلاً:
- حکمت و دانائی: اختلاف کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کیا اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، اگر دو رائے ہو بھی جائیں تو کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، تواس پر خاموش رہنا حکمت ہے، ضروری نہیں کہ صرف آپ کا موقف ہی درست ہو۔اگرآپ سمجھتے ہیں کہ اس بات میں دوسری رائے کی گنجائش نہیں ہے اور وہاں اپنی رائے کا اظہار کرنا خاموش رہنے سے بہتر ہے تو آداب اختلاف کا خیال رکھتے ہوئے ضرور بات کریں ۔
- بدگمانی سے بچیں: اپنے مخالف کے بارے میں بدگمانی کی بجائے حُسنِ ظن سے کام لیں، ممکن ہے وہ اپنی بات مکمل بیان نہ کر پایاہو، آپ کو متکلم کی جس بات سے اختلاف ہو اس کی وضاحت بھی متکلم سے کروائی جائے نہ کہ خود ہی وضاحت شروع کر دیں۔کیونکہ کسی کی بات کی وہی تشریح و توضیح معتبر ہوگی جو خود متکلم کرے گا ، اس کی بات پر آپ کی تشریح قابلِ قبول نہیں، کیونکہ اس طرح ہر شخص اپنی مرضی کا مطلب نکالے گا جس کی وجہ سے مزید غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔
- صبر و تحمل: کسی کی بات کو کاٹ کر بات نہ کریں، بلکہ مخالف کی بات مکمل ہونے دیں ، پھر نہایت تحمل سے اپنی بات کریں، کیونکہ دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے لہٰذا صبر و تحمل سے غور کریں۔
- احترام: ایک عالِم اور دانِش مَند شخص اپنے مخالف کا احترام ہمیشہ برقرار رکھتا ہے، اختلاف کرتے ہوئے کبھی کسی کو برے القاب سے نہ پکاریں اور نہ ہی اس کی اہانت کریں۔غور کریں کہ طلاق صرف دو افراد یا دو گھرانوں میں ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان اختلاف اور افتراق کاسبب ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے طلاق کے احکام بیان کرنے کے دوران اختلاف کے اس اہم ترین ادب کا تذکرہ یوں فرمایا:
[وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ] [البقرة: 237]
’’ اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو۔‘‘
جب طلاق ایسے اختلاف و افتراق کے دوران دوسرے کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھنا ضروری ہے تو شرعی مسائل میں اختلاف کرتے ہوئے ،جہاں دونوں طرف علماء ہوتے ہیں اسے کیونکر فراموش کیا جاسکتا ہے!
- نرمی اور بردباری: اپنے مد مقابل سے نرمی کے ساتھ بات کریں، غصے سے پرہیز کریں اور آواز کو بلند نہ ہونے دیں۔ اس طرح آپ کا ابلاغ بہتر اور آپ کی دلیل زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔
- دلیل کی بنیاد پر گفتگو: اپنا موقف دلیل سے پیش کریں، سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں سے اجتناب کریں، معتبر کتب و ذرائع کا حوالہ دیں، کیونکہ دلیل ہی بات میں زور اور وزن پیدا کرتی ہے ۔
- حق کو تسلیم کرنا: دوسرے کے موقف کو سننے کے بعد جو بات حق ہو اسے تسلیم کرنے میں تامّل نہ کریں، ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیں، یہی ایک عالِم کی شان ہے۔
گزشتہ ماہ دنیا ئے اسلام کے ممتاز داعی جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ پاکستان تشریف لائے۔ انہوں نے مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کیے۔ جسے اکثریت نے پسند کیا، بلکہ مخالفین نے بھی ان کی تعریف کی، لیکن ان کی روانگی سے ایک دن پہلے بعض محترم علماء کرام نے ان پر تنقید کی اور ان کی بعض باتوں سے شدید اختلاف کیا۔ یہاں تک کہ بعض نے جوشِ خطابت میں انہیں ’’جاہل ‘‘ بھی کہا جو کہ غیر مناسب بات ہے۔ اس لیے کہ علمی اعتبار سے ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو تمام علوم کا احاطہ کر سکتا ہو۔ ایسا ہو سکتا ہے ایک آدمی شرعی علوم کا ماہر ہو لیکن علم الابدان میں جاہل ہو۔ ایک شخص علم الفرائض کا ماہر ہو مگر علم الحدیث میں کمزور ہو اور یہ صورتحال ہم سب میں موجود ہے۔قرآن حکیم میں ہے:
[ وَ فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ۰۰۷۶] [يوسف: 76]
’’ اور ہر صاحب علم سے اوپر ایک علم والا ہے۔‘‘
مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يكون هذا أعلم من هذا وهذا أعلم من هذا والله فوق كل عالم [2]
’’ ایک علم والا دوسرے سے افضل ہوتا ہے اورکبھی وہ بلند ہوتا ہے اور اللہ ہرعالم سے بالا تر ہے۔‘‘
اور امام حسن بصری اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ليس عالمٌ إلا فوقه عالم، حتى ينتهي العلم إلى الله۔[3]
’’ کوئی عالم نہیں جس سے بلند تر دوسرا عالم نہ ہو ، اس طرح علم کی انتہا اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے ۔‘‘
ڈاکٹر ذاکر نائیک﷾ MBBS ڈاکٹر ہیں۔ اس سبب سے اپنی گفتگو میں بعض دفعہ طِبّ کے حوالے سے بات کرتے ہیں، جو لوگ اس سے ناواقف ہیں بلا شبہ وہ علم الطب میں جاہل ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہمیں اس طرح کی گفتگو سے احتیاط کرنی چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کا قصہ ذکر کیا جو اللہ کے حکم سے ایک اللہ کے بندے کی تلاش میں نکلے تاکہ ان سے علم حاصل کریں، فرمایا:
[ فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۰۰۶۵] [الكهف: 65]
’’ (موسیٰ اور ان کے شاگرد یوشع نے ) پایا ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو ، جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت سے نوازا تھا اور اپنی جانب سے علم عطا کر رکھا تھا۔‘‘
مقصد واضح ہے کہ کسی کے پاس بھی علم مکمل نہیں ہو سکتا، فرمایا:
[وَ مَاۤ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا۰۰۸۵] [الإسراء: 85]
’’ اور جو تمہیں علم دیا گیا ہے وہ بہت توڑا ہے ۔‘‘
اس لیے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام علوم کا احاطہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے۔ البتہ تقابلِ ادیان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جو مہارت دی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ ہمیں یہ تو تسلیم کرنا چاہیے۔ باقی جن باتوں سے اختلاف ہو بہت بہتر ہے کہ ان سے ہی اس کی وضاحت کرائی جاتی تو معاملہ ختم ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا!
ہماری تمام معزز علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کا ذکر کیے بغیر اپنا موقف پیش فرما دیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق جو صحیح بات ہے اس سے عوام کو اگاہ فرمائیں۔ آپ سب داعی ہیں، ہم دل سے آپ کی قدر کرتے ہیں اور آپ کے اخلاص پر بھی شک نہیں۔ لیکن اُسلوبِ دعوت میں حکمت سے کام لیں۔ امید ہے اس سے معاملہ بھی حل ہو جائے گا اور کسی کی دل ازاری بھی نہیں ہوگی۔
[1] ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ
[2] تفسیر طبری: 16/192
[3] تفسیر طبری: 16/193