کفار کی مصنوعات کا بائیکاٹ
کفار کی مصنوعات کا بائیکاٹ
ضروریات ِ زندگی پوری کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تجارت ہے ۔تجارت کا معنی چیزوں کا تبادلہ كرناہے۔ یعنی ہر انسان اپنی ضرورت کی چیز دوسرے سے وصول کرتا اور بدلے میں دوسرے کی مطلوبہ چیز اسے دیتا ہے۔تجارت میں دونوں طرف فائدہ اٹھانے کی نیت ہوتی ہے، لہٰذا جب ایک فریق کوکسی چیز کے لینے یا دینے میں کسی قسم کا نقصان ہورہا ہو تو وہ اس چیز کے لینے یا د ینے سے انکار کردیتا ہے ۔ انفرادی سطح پر تو ہم کاروبار میں روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ، لیکن یہی انکار جب قومی یا اجتماعی سطح پر ہو تو اسے بائیکاٹ کہتے ہیں ۔
تاریخ انسانی میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں ، تقریباً ہر قوم نے اپنے دشمنوں کے خلاف معاشی واقتصادی بائیکاٹ کو جنگی ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا اور اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ۔
سیدنا یوسف نے معاشی بائیکاٹ کو اپنی بات منوانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ۔ اناج لینے آئے ہوئےاپنے بھائیوں کو رخصت کیا تو فرمایا تھا:
﴿ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّيْۤ اُوْفِي الْكَيْلَ وَ اَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ۰۰۵۹فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِيْ بِهٖ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِيْ وَ لَا تَقْرَبُوْنِ۰۰۶۰﴾ [يوسف: 59، 60]
’’میرے پاس اپنے پدری بھائی کو بھی لانا، کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں پورا ماپ دیتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں، اگر تم اسے نہ لائے تو تمہارے لیے کوئی ماپ (اناج) میرے پاس نہیں ہوگا، اور تم میرے قریب بھی مت آنا۔‘‘
معاشی بائیکاٹ کا سلسلہ قبل از اسلام عربوں میں بھی موجود تھا ۔ یمن کے گورنر ابرہہ نے یمن میں جو معبد بنایا تھا اس کا مقصد عربوں کی تجارت کا رخ حجاز سے یمن کی طرف کرنا تھا ۔
قریش اور کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کا بائیکاٹ کیا تھا،اس حوالے سے وثیقہ لکھ کر بیت اللہ میں رکھا گیا تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں :
أَنَّ قُرَيْشًا وَكِنَانَةَ، تَحَالَفَتْ عَلَى بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ: أَنْ لاَ يُنَاكِحُوهُمْ وَلاَ يُبَايِعُوهُمْ، حَتَّى يُسْلِمُوا إِلَيْهِمُ النَّبِيَّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)[1].
’’ بلاشبہ قریش اور کنانہ نے قسم اٹھائی کہ وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب سے نہ رشتہ داری کریں گے اور نہ ان سے تجارت کریں جب تک وہ نبی ﷺ کو ان کے سپرد نہیں کردیتے۔‘‘
قدیم طریقۂ جنگ یہ تھا کہ دشمن کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا جاتا اور ان کے وسائل زندگی بند کردیئے جاتے تھے یہاں تک کہ محصورین ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتے ۔اسی طرح فوجیں اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کی سپلائی لائن کاٹنے پر خصوصی توجہ دیتی ہیں ۔دنیا میں سینکڑوں جنگیں اسی اصول سے جیتی گئی ہیں۔
بعد میں جب ملکوں کی معاش و اقتصاد حکومتوں کےزیر انتظام آگئیں ، تو دنیا کی تمام حکومتیں اپنے اپنے ملک کے مفادات کے پیش نظر بائیکاٹ کو بطور پالیسی اختیار کرتی رہی ہیں بلکہ آج بھی اس پر گامزن ہیں ، مثلاً جب ملک میں کوئی چیز ضرورت کے مطابق یا کم رہ جاتی ہے تو اس کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی جاتی ہے ، جیسے ہمارے ہاں حکومت کبھی گندم یا چینی وغیرہ کی ایکسپورٹ بند کردیتی ہے۔ اسی طرح جس چیز کی پیداوار اپنے ملک میں وافر ہوتی ہے تو حکومت اس کی درآمد پر پابندی لگا دیتی ہے یا اس پر بھاری ٹیکس لگا دیا جاتا ہے تاکہ اپنی قوم کے مفاد کا تحفظ ہوسکے جیسے حکومت بڑی گاڑیوں پر بھاری ٹیکس لگادیتی ہے ۔ کبھی حکومتیں پیسے بچانے کے لیے غیر ضروری چیزوں کی درآمد بند کردیتی ہے۔ بعض اوقات حکومتیں دوسرے ملکوں کی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے ان سے درآمد کرنے پر پابندی یا بھاری ٹیکس لگادیتی ہے ، جیسے امریکا اور یورپی ممالک چائنہ سے درآمد پر پابندیاں لگاتے رہتے ہیں ، یا بھاری ٹیکس لگاتے یا قوانین وضع کرتے ہیں کہ چائنیز کمپنیز سے خریدو فروخت تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے ۔ امریکا نے ایران پر 1979ء سے معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں اور اس کا مقصد ایران کی ترقی کو روکنا ہے۔یعنی معاشی بائیکاٹ کا ہتھیار دنیا کے تمام ممالک اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
صدیوں سے مستعمل اس ہتھیار کو مسلمانوں نے بھی اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کیا ۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ کی طر ف ہجرت کی اور اہل مدینہ نے انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ انہی دنوں حضرت سعد بن معاذ عمرے کی نیت سے مکہ میں تشریف لے گئے ۔ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے کہ ابو جہل کی نظر پڑ گئی ، تو اس نے کہا : تو کعبہ کا طواف امن وامان سے کر رہا ہے، جبکہ تم لوگوں نے محمد اور اس کے ساتھیوں(یعنی ہمارے مخالفین) کو جگہ دی ہے؟ ابوجہل نے حضرت سعد کو روکنا چاہا تو حضرت سعد ؓنے کہا:
وَاللهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ لَأَقْطَعَنَّ مَتْجَرَكَ بِالشَّامِ[2].
’’اللہ کی قسم !اگر تو نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے منع کیا تو میں شام کے ساتھ تمھاری تجارت (کا راستہ )بند کردوں گا۔‘‘
ثمامہ بن اثال مسلمان ہوئے اور مکہ عمرہ کرنے کی غرض سے گئے تو اہل مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
وَاللهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [3].
’’ اللہ کی قسم یمامہ سے تمھارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ اس کی اجازت نہ دے دیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں یہودی قبیلے بنو نضیر کا محاصرہ کیا تو ان کے قلعوں کے گرد کھجوروں کے باغات تھے جو ان کی معاش کا ذریعہ تھے ، آپ نے انہیں کاٹنے او رجلانے کا حکم دیا جس سے ان کے حوصلے پست ہو گے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ۰۰۵﴾ [الحشر: 5]
’’ تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے ‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نےغزوہ طائف میں اہل طائف کے قلعے کا پندرہ دنوں تک محاصرہ کیے رکھا ، پھر یہ سوچ کرکہ محاصرہ ختم کردیا کہ اہل طائف کے پاس اسلام قبول کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے وہ ضرور اسلام قبول کرلیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کفار سے سختی کا معاملہ کرنے کا حکم دیا ، فرمایا:
﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ ﴾ [ التوبة: 73]
’’اے نبی! ﷺ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پہ سختی کیجئے۔‘‘
آج جب کہ جنگوں کے طریقہ کا ر بدل گئے ہیں ، جنگیں منڈیوں میں لڑنے کا تصور آگیا ہے ، اور معاشی بائیکاٹ باقاعدہ ایک ہتھیار کی صورت اختیار کر گیا ہے ، جس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے ۔
امام احمد سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو دشمن سے کوئی چیز خریدتا ہے؟تو انہوں نے فرمایا:
لا يُباع ممن يتقوّى على المسلمين[4].
’’ا ن لوگوں سے خرید فروخت نہ کی جائے جو مسلمانوں کے خلاف دشمن کو مضبوط اور طاقت ور بنائیں! ۔‘‘
جب کافر ممالک کا یہ معاشی بائیکاٹ کفار کے خلاف مسلمانوں کی مددکی خاطر ہو، یعنی اس کے ذریعے کفار کی معیشت کو کمزور کرنا اور ان کے حوصلوں کو پست کرنا مقصود ہو تو یہ جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
جنگی حربے وقت، حالات اور موقع محل کےمطابق بدلتے رہتے ہیں اور ان کے اثرات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، اسی طرح معاشی بائیکاٹ کبھی مفید اورکبھی نقصان دہ ہوتا ہے ۔ شریعت کے مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصد مسلمانوں کے لیے فوائد کا حصول اور انہیں نقصانات سے بچانا ہے ۔لہٰذا کفار کا معاشی بائیکاٹ مسلمانوں کے مصالح کے تابع ہے اور شرعی اعتبار سے بائیکاٹ کا حکم مختلف حالات میں مختلف ہوتا ہے۔
تجارت ضرورتیں پوری کرنے اور حصول نفع کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے۔یہ وسائل کبھی حصولِ مصلحت کا سبب اور کبھی فساد کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے وسائل کو چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
- جو وسیلہ سراسر فساد کا سبب ہو ، جیسے شراب نوشی، یہ نشے کا وسیلہ ہے ، شرع نے اسے حرام قرار دیا ہے۔
- جو وسیلہ بذات خود تو حلال ہو، لیکن اسے حرام یا فساد کا ذریعہ بنا لیا جائے، جیسا کہ نکاح شرعا حلال ہے، لیکن اگر حلالے کی نیت سے کیا جائے تو لعنت کا سبب ہے۔ سو اسے بھی شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔
- جو وسیلہ بذاتہ حلال و جائز ہے، لیکن عموماً اس کا نتیجہ غلط نکلتا ہے، یعنی اس کا نقصان اس کے فائدے کی نسبت زیادہ ہے۔ جیسا کہ کفار کے سامنے ان کے معبودوں کو برا کہنا۔ شرع نے اسے بھی ناجائز وحرام قرار دیا ہے ۔قرآن مجید نے اس اصول کوبڑی وضاحت سے بیان کیا ہے ، فرمایا:
﴿ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ﴾ [البقرة: 219]
’’ وہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھ رہے ہیں ، تو کہیے ! ان میں بڑا گناہ ہےاور لوگوں کے لیے نفع بھی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے (لہٰذا یہ حرام ہے) ۔‘‘
- جو وسیلہ بذاتہ حلال و جائز ہے، لیکن کبھی کبھار اس کا نتیجہ فساد کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ یعنی اس کا فائدہ ا س کے نقصان کی نسبت زیادہ ہے ۔ جیسا کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہ ٔحق کہنا۔ یہ قسم مصلحت کے اعتبار سے کبھی محض جائز ومباح ہوتی ہے، کبھی مستحب اور کبھی فرض ۔
حافظ ابن القیم اللہ نے دوسری ا ور تیسری قسم کی حرمت 99 وجوہ سے واضح فرمائی ہے[5]۔
مسلمانوں کے معاملے میں کفار ومشرکین کی بھی چار اقسام ہیں:
- حربی کافر: یعنی وہ کفار جو ایسے دار الکفر میں رہتے ہیں جن کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ان کے ممالک کو دار الحرب کہا جاتا ہے۔
- معاہد کافر:یعنی وہ کفار جو ایسے دار الکفر میں رہتے ہیں جن کے اور مسلمانوں کے درمیان عہد ومیثاق ہے۔ ان کے ممالک کو دار العہد کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ عصر حاضر میں معاہد کفار ممالک بھی دو طرح کے ہیں ایک غیر جانبدار اور دوسرے جانبدار۔
- مستامن کافر: یعنی وہ کفار جو دار الکفر کے ہی رہنے والے ہیں ، لیکن وقتی طور پر امان (ویزہ) حاصل کرکے مسلمان ملک میں آئے ہیں۔
- ذمی کافر:یہ وہ کفار ہیں جو مسلمانوں کے ملک میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں، اور مسلمانوں کی طرف سے مقرر کردہ جزیہ (ٹیکس) ادا کرتے اور اسلامی ملک کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔
ان تمام کفار کے ساتھ مالی معاملات بھی چار اقسام کے ہی ہوتے ہیں:
- کفار وغیرہ سے ایسی تجارت جس کے نتیجے میں حرام کا ارتکاب ہو۔ یہ شرعا باطل ہے۔ایسا تجارتی معاہدہ مذکور وسائل اربعہ میں سے پہلی قسم کے تحت آتا ہے۔
- محارب یا معاہد کفار کے ساتھ ایسے اقتصادی معاملات کرنا جو کہ اصلاً مباح ہیں، لیکن ان میں مقصود کافر ممالک کو معاشی ترقی دینا اور ان کی اقتصادیات کو مضبوط کرنا ہو۔ ایسے عقد شرعا حرام و ناجائز ہی ٹھہریں گے، کیونکہ اس میں کفار سے موالاۃ اور ان سے ذلت کو ختم کرنے جیسے شرعی جرائم پائے جاتے ہیں۔ ایسا تجارتی معاہدہ مذکور وسائل اربعہ میں سے دوسری قسم کے تحت آتا ہے۔
- محارب یا معاہد کفار سے ایسے معاملات طے کرنا جو بذاتہ حلال ہوں اور ان سے مقصود بھی جائز ہو، مثلا ذاتی طور پہ نفع کمانا وغیرہ۔ لیکن کفار کو ان معاشی معاہدوں سے ایسا فائدہ حاصل ہو کہ جس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ خواہ یہ نقصان مسلمانوں کے قتل کرنے کی صورت میں ہو یا انہیں علاقہ بدر کرنے، یا ان کے عقائد ونظریات بگاڑنے، یا ان کی معیشت غیر مستحکم کرنے کی شکل میں ہو، الغرض کوئی بھی صورت ہو جس میں مسلمانوں کو کفار کی جانب سے نقصان پہنچتا ہو، اور یہ نقصان ان سے حاصل ہونے والے فائدے کی نسبت زیادہ ہو، تو ایسے عہد وپیمان شریعت کی نگاہ میں حرام و ناجائز ہی ٹھہرتے ہیں۔ بالخصوص جب کفار سے منگوایا جانے والا سامان ایسا ہوکہ اسکا نعم البدل مسلمانوں کے پاس موجود ہو، یا بے ضرر کفار سے دستیاب ہو سکتا ہو۔ یہ عقد وسائل اربعہ میں سے تیسری قسم کے تحت آتا ہے۔
- معاہد کفار سے ایسا عقد طے کرناجو بذاتہ حلال ہو اور اس سے جائز مقاصد کا حصول مطلوب ہو۔ تو اس کے مباح و جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، ایسا عقد مستحب اور کبھی واجب بن جاتا ہے۔ یہ عقد وسائل اربعہ میں سے چوتھی قسم کے تحت آتا ہے۔
الغرض پہلی قسم کے معاہدات تجارت کی حرمت تو بالکل واضح ہے ، جبکہ دوسری اور تیسری قسم کے عقد بھی وسائل ممنوعہ ہونے کے سبب ناجائزہیں سو ان تین صورتوں میں تو کفار سے بائیکاٹ بنیادی طور پر واجب ہے!کیونکہ کسی بھی کام سے ممانعت اس کے الٹ کام کو واجب کر دیتی ہے جب اس کی ضد بالاتفاق ایک ہو۔
ان بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد کفار کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا حکم سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔
کفار سے تجارت کرنا ، ان کی مصنوعات استعمال کرنا اصلاً مباح ہے ۔ مباح کے حوالے سے یہ اصول ذہن میں رہنا چاہیے کہ جب کوئی کام کرنا مباح ہوتو اس کا نہ کرنا بھی مباح ہوتا ہے یعنی دونوں اطراف برابر ہوتے ہیں۔ لہٰذا مباح کا حکم مصالح ومفاسد کے پیش بدلتا رہتا ہے۔یعنی بائیکاٹ کا حکم بعض حالات میں حرام ،کبھی واجب یا کسی حالت میں مندو ب و مستحب ہو جاتا ہے۔
اس لیے معاشی بائیکاٹ کا ہتھیار دو ہی صورتوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے :
(1)مصالح و فوائد حاصل ہوں۔ (2)مفاسد و نقصانات کا خاتمہ ہو ۔
سو یہ دیکھنا چاہیے کیا دونوں مقاصد حاصل ہو رہے ہیں ، یا دونوں ہی حاصل نہیں ہو رہے، یا دونوں میں سے کوئی ایک حاصل ہو رہا ہے؟۔ اس طرح غور کرنے سے بائیکاٹ کی چار صورتیں بنیں گی:
- دونوں مقاصد حاصل ہو ں۔یعنی بائیکاٹ کرنے سے کفار کو نقصان پہنچے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو کوئی بڑا نقصان بھی نہ ہو۔اور کفار کی طرف سے مسلمانوں کو پہنچنے والا ضرر کم یا ختم ہو جائے۔تو
ایسی صورت میں بائیکاٹ واجب ہے! - دونوں مقاصد ہی حاصل نہ ہوں۔ یعنی بائیکاٹ کے نتیجے میں کفار کو کوئی نقصان نہ ہو، بلکہ الٹا مسلمانوں کو نقصان پہنچے مثلا کفار مسلمانوں پہ ظلم بڑھا دیں، جنگ مسلط کر دیں، یا مسلمانوں کی معیشت کمزور کرکے رکھ دیں۔ تو ایسی صورت میں بائیکاٹ کرنا حرام ہے!
- دونوں مقاصد میں سے پہلا مقصد (جلب مصالح) حاصل ہو ، اور دوسرا مقصد (خاتمۂ مفاسد) حاصل نہ ہو۔ یعنی بائیکاٹ کے نتیجے میں کفار کو نقصان پہنچے، لیکن ساتھ مسلمانوں کو بھی کوئی بڑا نقصان پہنچے۔ گویا فائدے کےساتھ ساتھ ایسا مفسدہ بھی پیدا ہو جائے جسے ختم کرنا مقاصد شریعت میں شامل ہے۔ تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والا فساد اگر حصول مصلحت (فائدے) سے کم تر ہو ، تو مقاطعہ کرنا مباح ہے۔ لیکن نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہےتو بائیکاٹ جائز نہ ہوگا۔ اگر فائدہ اور نقصان دونوں برابر ہوں تب بھی بائیکاٹ ناجائز ہوگا، کیونکہ شریعت کی نظر میں مفاسد کو دور کرنا حصول مصالح پہ مقدم ہے۔
- پہلا مقصد (جلب مصالح) حاصل نہ ہو، ا لبتہ دوسرا مقصد (خاتمۂ مفاسد) پورا ہو جائے۔یعنی بائیکاٹ سے کفار کا کوئی خاص نقصان نہ ہوا ور نہ ہی مسلمانوں کو کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، تو ایسی صورت میں بائیکاٹ کرنا مستحب و مندوب ہے۔ کیونکہ یہ بھی کفار کے خلاف احتجاج اور غیظ وغضب کا اظہار ہے۔
نتیجہ ٔ بحث :
معاشی بائیکاٹ اپنے مطالبے منوانے اور مخالف کو زیر کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔شروع سے انسان انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے اس ہتھیار کو استعمال کرتا آیا ہے ، مسلمانوں نے بھی دوسری اقوام کی طرح اسے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے ۔اس کا حکم مسلمانوں کی مصالح کے تابع ہے ، کبھی واجب، کبھی حرام اور کبھی مستحب ہو جاتا ہے۔ کفار کا معاشی بائیکاٹ رضائے الہی کی خاطر ہوتو یہ جہاد فی سبیل اللہ کی ایک صورت ہے۔البتہ بائیکاٹ اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے جب حکومتی سطح پہ اس کا اہتمام کیا جائے۔اگر حکومت اس کا اہتمام نہ کرے تو قوم کو مل کر اپنے تیں ایسی کوششیں ضرور کرنی چاہییں کیونکہ ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق مکلف بنایا گیا ہے۔
[1] صحیح بخاری: 1590
[2] صحيح بخاری :3632
[3] صحیح بخاری: 4372
[4] مسائل ابن هانئ :١٦١٤
[5] اعلام الموقعین: ۴/۵