خاوند کے دوسرے نکاح پر پہلی بیوی کو شادی ختم کرنے کا حق
خاوند کے دوسرے نکاح پر پہلی بیوی کو شادی ختم کرنے کا حق
مسلمانان برصغیر نے ارض پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ وہ دین اسلام کے احکام پر آزادانہ طور پر عمل پیرا ہوسکیں ۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے بے پناہ جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دیں ، یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی ۔ پاکستان کے حصول کی جدو جہد کرتے ہوئے اس کے مقصد میں کسی شخص کو خواہ وہ مسلمان تھا یا ہندو یا انگریز اس میں شبہ نہیں تھا کہ مسلمان الگ ملک کا مطالبہ محض اسلام کو عمل میں لانے کے لیے کررہے ہیں ۔ تحریک پاکستان کے تمام قائدین بھی اس مقصد پر متفق تھے ، جس کا اظہار ہر جلسے اور اجلاس میں ہوتا تھا ، بلکہ تحریک پاکستان کا سب سے مشہور نعرہ ہی یہ تھا :
پاکستان کا مطلب کیا لااله الا اللہ
لیکن افسوس کہ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انتظامی عہدوں پر وہی لوگ براجمان ہوئے جو پہلے انگریز حکومت کا حصہ تھے ، اس لیے نیا ملک بننے کے باوجود اس کے انتظام و انصرام میں کوئی تبدیلی آئی نہ دفاتر میں بیٹھے ہوئے بابووں کے لب و لہجہ میں کوئی فرق پڑا ۔ آج بھی سرکاری دفاتر میں قوم کے افراد کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے جو انگریز اپنی محکوم قوم کے ساتھ اختیار کرتے تھے ۔
یہی صور تحال پالیسی ساز اداروں کی ہے ، وہاں کام کرنے والے افراد کی اکثریت دو انگریزی اداروں کی فارغ التحصیل ہے ، جو ایک گروپ ہیں ، یہ پورے پر ملک پر امر بیل کی طرح چھاچکے ہیں ۔ ان میں سے اکثر مغربی ممالک کی بھی شہریت رکھتے ہیں، وہ پاکستان سے بڑھ کر مغربی آقاؤں کے وفادار ہیں ۔ انہیں ملک کے حقیقی مفادات اور قوم کی امنگوں سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ہمیشہ سے ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کو اس کی اسلامی اساس سے دور رکھا جائے۔وہ مغربی اور لادینی افکار کے مطابق یہاں قانون سازی کرتے اور انہی اصولوں پر ملک کو چلاتے ہیں۔
پرویزی دور میں نکاح کے لیے مغرب میں رائج عمر کی شرط یہاں بھی لاگو کردی گئی ، اس سے کم عمر میں نکاح کرنے پر لڑکے ، لڑکی کے اولیا اور نکاح خواں تینوں پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ۔ جبکہ کم عمری میں جنسی تعلقات قائم کرنے پر کوئی قانون بنایا گیا اور نہ ہی عدالت نے کوئی فیصلہ دیا ۔ بلکہ زنا کی تعریف بدل کر صرف ریپ ( زبردستی ) کو زنا قرار دے دیا گیا ۔یعنی اگر عورت بدکاری پر راضی ہے تو وہ زنا اور جرم نہیں ہوگا ۔
پاکستان میں نکاح، طلاق اور دیگر عائلی معاملات سے متعلق قوانین کو ’مسلم فیملی لا‘ کے تحت ڈیل کیا جاتا ہے۔ مسلم فیملی لا سنہ 1961 میں آرڈیننس کی شکل میں نافذ ہوا تھا۔ اس کی دفعہ 6 میں لکھا ہوا ہے کہ پہلی شادی کی موجودگی میں کوئی شخص دوسری شادی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ آربیٹریشن کونسل (یونین کونسل) سے اس ضمن میں تحریری اجازت نامہ نہ حاصل کر لے اور اس اجازت نامہ کے حصول میں پہلی بیوی سے اجازت لینا بھی شرط ہے ۔ اگر اوپر بیان کی گئی قانونی کاروائی مکمل کیے بغیر کوئی شخص شادی کرتا ہے تو اس کی سزا ایک سال قید اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہے۔
سنہ 2013 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت پاکستان کو دوسری شادی سے متعلقہ پیشگی شروط اور قانونی تقاضوں کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر پہلی بیوی راضی نہ بھی ہو تب بھی دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرنا غیرشرعی نہیں ہے۔
اب گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے مرد کے اس شرعی اور فطری حق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھ کر بغیراجازت دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا حق دے دیاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مرد کے دوسری شادی کرنے سے عورت کا کوئی حق تلف نہیں ہوتا ، ہاں عدل نہ کرنے سے حقوق پامال ضرور ہوتے ہیں ، اسی لیے خالق کائنات نے عدل نہ کرنے والے کو ایک شادی تک محدود کیا ہے , ارشاد فرمایا :
[ فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً ] [النساء: 3]
’’ تو تم نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہیں دو دو ، تین تین اور چار چار ، اگر تم ڈرو کہ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی رکھو ۔‘‘
اس کے برعکس اگر مرد کے دوسری شادی کرنے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اس سے واضح طور پر مرد کا وہ حق تلف ہوتا ہے جو اس کو خالق و مالک نے دیاہے ۔ نکاح ختم کرنے کا حق عورت کو دو صورتوں میں دیا جاتا ہے :
ایک ،جب کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو نکاح کی بنیادوں کے خلاف ہو ، جس سے شرعی اعتبار سے نکاح ختم ہوجاتا ہے اور عورت کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ قانونی طور پر نکاح ختم کردے ۔ جیساکہ ہائی کورٹ نے ایک مسلمان مرد کے قادیانی بننے پر اس کی بیوی کو نکاح ختم کرنے کی اجازت دی تھی ، اور یہی فیصلہ آگے چل کر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا سبب بناتھا ۔
دوسری،کہ مرد کوئی ایسا عمل کرے جس سے عورت کے وہ حقوق ختم ہوجائیں یا انہیں شدید نقصان پہنچے جو نکاح کے سبب حاصل ہوتے ہیں ۔جبکہ مرد کے دوسرا نکاح کرنے سے عورت کا کوئی حق پامال نہیں ہوتا ۔
ایک شادی کا قانون فطرت کے بھی خلاف ہے ، یہ پڑھی لکھی حقیقت ہے کہ چند ایک ممالک کے سوا پوری دنیا میں عورتوں کی پیدائش مردوں سے زیادہ ہے ،مزید حوادث میں مردوں کی اموات بنسبت عورتوں کے زیادہ ہوتی ہے ، اس کے علاوہ خالق کائنات نے عورت میں برداشت مرد سےکہیں زیادہ رکھی ہے ، جس صدمے سے مرد جان کی بازی ہار جاتا ہے عورت اسے بآسانی برداشت کرلیتی ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت ہمیشہ زیادہ رہتی ہے۔ شادی کرنا مرد و زن کا بنیادی حق ہے ۔ مردوں کو ایک شادی تک محدود کردیا جائے تو اضافی عورتوں کو یہ حق ملنے کی کیا صورت ہوگی ؟ عورت کی کمزور تخلیق کے سبب اسے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مرد کی ضرورت ہوتی ہے ، جب کسی عورت کا شوہر کسی حادثے میں فوت ہوجاتا ہے تو وہ بلا نکاح کیسے زندگی بسر کرے گی ؟ کیا ایک شادی کے اس قانون نے عورت کے لیے زندگی کو مشکل نہیں کردیا ،جبکہ قانون سازی کا مقصد لوگوں کے لیےتنگی ختم کرنا اورسہولت و آسانی پیدا کرنا ہوتا ہے ۔
شادی کا ایک مقصد نسل انسانی کی آبیاری ہے ، اگر عورت بانجھ ہے اور وہ مرد کو دوسری شادی کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی تو آپ کا قانون کیا کہتا ہے ؟ رواں سال ماہ مارچ میں لاہور کی ایک عدالت نے پہلی بیوی سے تحریری اجازت لیے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو سات ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سُنائی ہے۔حالانکہ اس نے اس لیے دوسری شادی کی تھی کہ اس کی پہلی بیوی شادی کے دس سال تک حاملہ نہ ہوئی ،کیا ایسے مرد کو یہ سزا دینا اس کی حق تلفی نہیں ہے ؟
جب اللہ تعالیٰ نے بحیثیت خالق و مالک ایک مسئلے کا فیصلہ کردیا ہے تو پھر عدالت اس کے برعکس فیصلہ کرے تو یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے خلاف ہے ، جو کسی مسلمان جج کو زیب نہیں دیتا ہے ، خصوصاً ایسےملک میں جس کے قانون میں لکھا ہو ا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے ، بندے اس کی نیابت میں اسے استعمال کرتے ہیں ۔ مزید لکھا ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس حوالے سے پاکستان کے شہری سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آئین پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور کتاب وسنت کے صریح خلاف ہے اور اس سے مرد کے بنیادی حقوق تلف ہوتے ہیں ، جس کی اجازت نہ شریعت دیتی ہے اور نہ دنیا کا کوئی قانون دیتا ہے ۔ لہٰذا پارلیمنٹ کو اپنے قانون اور عدالت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ ( عبدالرحمن عزیز)