دسمبر 2024ء

شیخ ابن عربی کا تصور ِ ختم نبوت

شیخ ابن عربی کا تصور ِ ختم نبوت

شیخ ابن عربی کے تصور توحید یا وحدت الوجود پر تو بہت کام ہوا ہے لیکن ان کے تصور ختم نبوت پر کوئی کام موجود نہیں ہے۔ غامدی صاحب کے کچھ فالوورز نے سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع  کی تھی کہ غلام احمد قادیانی کا تصور نبوت دراصل  شیخ ابن عربی اور اس جیسے متصوفین سے مستفاد ہے۔ لہذا جب ابن منصور الحلاج، بایزید بسطامی، شیخ ابن عربی اور دیگر متصوفین کی کفریہ عبارتوں کی تاویلات کر کے یا انہیں شطحیات قرار دے کر انہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جاتا تو یہی مارجن غلام احمد قادیانی وں کو کیوں نہیں دیا جاتا !

کیا غلام احمد قادیانی اور شیخ ابن عربی کے تصور ختم نبوت میں کچھ مشترک بنیادیں موجود ہیں؟ اور کیا غلام احمد قادیانی نے واقعی میں اپنا تصور ختم نبوت شیخ ابن عربی اور دیگر متصوفین سے اخذ کیا ہے؟ اور کیا شیخ ابن عربی بھی محض تشریعی نبوت کے خاتمے کے قائل تھے؟ اور کیا شیخ ابن عربی مطلق نبوت کے جاری رہنے کے قائل تھے؟ یہ سب سوالات ایسے ہیں جو جواب طلب ہیں اور اس پر ہماری کتاب "مقالات عقیدہ ومنہج"  میں ایک مستقل باب کے تحت مفصل بحث کی گئی ہے۔  یہ کتاب فی الحال شائع نہیں ہوئی ہے البتہ اس کی پی ڈی ایف درج ذیل لنک سے حاصل کی جا سکتی ہے۔[1]

شیخ ابن عربی کو ایک نئے تصورِ ختم نبوت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

شیخ ابن عربی ایک خاص قسم کے تصور وجود (ontology) کے قائل تھے کہ جسے ہم نظریہ وحدت الوجود کے نام سے جانتے ہیں کہ جس کی کوئی دلیل شرع میں تو کجا عقل میں بھی موجود نہ تھی لہذا انہیں اس تصور وجود کے اثبات کے لیے ایک تصور علم (epistemology) کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے اسلام میں تصور توحید کے ساتھ تصور نبوت کو بھی ایڈٹ کیا۔ انہوں نے اپنے نظریہ وحدت الوجود کے اثبات كے لیے ایک پورا نظام استدلال وضع کرنے کی کوشش کی ہے کہ جسے ہم ان کا تصور ختم نبوت کہہ سکتے ہیں۔ خالق اور مخلوق کے باہمی تعلق کے بارے جب آپ کتاب وسنت کے بیان پر مطمئن نہیں ہوں گے اور ربط الحادث بالقدیم کے قدیم فلسفیانہ تصورات کو مذہبی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ فلسفے اور مذہب میں تطبیق پیدا کر سکیں یا کثرت مجاہدہ سے نفس میں نبوت کی لالچ اور طمع محسوس کرنا شروع کر دیں گے تو آپ کو وحی کا دروازہ کھلا رکھنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔

 فارابی، ابن سینا اور اخوان الصفا وغیرہ کا مسئلہ پہلا تھا کہ وہ فلسفی پہلے تھے اور صوفی بعد میں۔ لیکن ابن عربی کا مسئلہ دوسرا ہے کہ وہ صوفی پہلے ہیں اور فلسفی بعد میں۔ لہذا ان کی عبارتوں میں غور و فکر سے معلوم پڑتا ہے کہ ان کے تصور علم کے ساتھ ان کے تصور وجود کی ضرورت بھی ان کے ہاں عقلی سے  زیادہ نفسی ہے۔ انہوں نے جو تصور ِ وجود پیش کیا ہے، اس سے بھی نفس انسانی کی ایک عجب تسکین ہوتی ہے کہ یہ خیال (fantasy) ہی انسان کو سرشار کر دیتا ہے کہ وہ الوہی(divine) صفات کا حامل ہے۔ جب الوہیت  کا حصہ بن کر بھی نفس کے سپرمین بننے کی خواہش پوری نہ ہوئی تو اس نفس امارہ  نے ولایت کو نبوت سے افضل قرار دے کر اور معرفت رب میں نبیوں کو اپنا محتاج اور فقیر بنا کر اپنی گھٹیا اور رذیل خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ بہر حال یہ کثرت مجاہدہ کی آزمائش ہے جبکہ وہ سنت کے مطابق نہ ہو کہ  انسان آسمان سے نزول کی  امیدیں  لگا بیٹھتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ وحدت الوجود کی مختلف تعبیریں ہمیں ملتی ہیں، جن میں سے بعض کفر وشرک ہیں، بعض بدعت ہیں، اور بعض توحید ہی کا ایک پہلو ہیں۔ لیکن وحدت الوجود کی اسٹینڈرڈ تعبیر وہی ہے جو ابن عربی نے پیش کی ہے اور وہ صریح  کفر و شرک ہے۔ اڑھائی سو فقہاء نے اس تعبیر پر نقد کیا، بہتوں نے کفر و شرک کہا۔ جنہوں نے کفر و شرک نہیں بھی کہا، انہوں نے بھی پرلے درجے کی  ضلالت اور گمراہی قرار دیا۔ چالیس کے قریب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی فقہاء اور بعض صوفیاء کی بھی مستقل کتابیں موجود ہیں کہ جن میں اس نظریے کو کفر اور شرک قرار دیا گیا ہے۔ حنفی فقہاء اور صوفیاء کی معتد بہ تعداد نے ابن عربی کو کافر تک قرار دیا ہے۔ ہم اگر اپنا مطالعہ بڑھائیں تو معلوم ہو گا  کہ وحدت الوجود کی مخالفت  اہل حدیثوں کا نہیں امت کا مسئلہ ہے، فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین کا مسئلہ ہے، محقق صوفیاء کا مسئلہ ہے، محدثین اور ائمہ دین کا مسئلہ ہے۔

برصغیر میں شیخ مجدد الف ثانی ﷫  نے اس کی شد و مد سے مخالفت کی اور اپنے مکاتیب میں اسے "ہمہ اوست" یعنی ہر چیز خدا ہے، کا نظریہ قرار دیا ۔ اور کہا کہ شیخ اکبر  نچلے درجات میں رہ گئے تھے، اگر انہیں  اوپر جانا نصیب ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اصل حقیقت وحدت الوجود نہیں بلکہ وحدت الشہود ہے۔ رہا وحدت الشہود تو وہ ہماری نظر میں نہ تو کفر ہے اور نہ ہی شرک البتہ بدعی نظریہ ہے کیونکہ کتاب وسنت، صحابہ وتابعین، ائمہ اربعہ اور فقہاء ومحدثین کا نظریہ، نظریہ تخلیق ہے اور یہ اس کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد ﷫  کا نظریہ وحدت الوجود نہ تو ابن عربی والا  مکمل نظریہ وحدت الوجود ہے اور نہ ہی شیخ مجدد کا مکمل وحدت الشہود بلکہ یہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی ہی فلسفیانہ تخلیق ہے۔ ہماری نظر میں یہ نظریہ بھی بدعت ہے کیونکہ یہ کتاب وسنت کے نظریہ تخلیق کی بدعی شرح ہے اور اگر یہ عقیدہ بنا لیا جائے تو بالآخر کفر وشرک تک پہنچا سکتا ہے لیکن ڈاکٹر اسرار احمد ﷫   نے اسے بطور عقیدہ کبھی بھی بیان نہیں کیا بلکہ وہ یہی کہا کرتے تھے کہ اس موضوع پر  ان کا مقصود تصوف کےبعض محترم  قائلین  کا دفاع ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی  ﷫  اور شیخ احمد سرہندی  ﷫  وغیرہ۔

رہا وحدت الوجود کے بارے متاخرین صوفیاء کی ایک بڑی جماعت کا یہ موقف کہ یہ ایک حال ہے کہ جس میں انسان کو خدا کی طرف اتنی کامل یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے کہ ہر چیز اس کے لیے مثلِ معدوم ہو جاتی ہے تو یہ توحید کے احوال میں سے ایک حال ہے جیسا کہ ابن تیمیہ ﷫ کا بھی یہی موقف ہے۔ لیکن اس حال کو کسی علمی نظریے کی صورت بیان کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ حال ایک حال ہی ہے اور حال سے نکل کر اسے بیان کرنا ایک حال کا بیان تو ہو سکتا ہے، کسی عقیدے کا نہیں۔ جب سالک اس حال سے نکل آتا ہے تو ہی اس کو بیان کرنے کے قابل ہوتا ہے اور جب بیان کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس حال میں نہیں ہوتا لہذا اس کا روحانی تجربہ اس کے لیے اس کے ماضی کی ایک خبر بن جاتا ہے، اسے ہم عقیدہ نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ نبی کی خبر نہیں ہے کہ جس پر ایمان لانا واجب ہو یا جس کی تبلیغ ضروری ہو۔

مولانا اشرف علی تھانوی ﷫  نے شیخ ابن عربی کی معروف کتاب ’’  فصوص الحکم‘‘  کی شرح لکھنی شروع کی تھی لیکن انقباض قلب کی وجہ سے لکھ نہ پائے کہ ایسی تکلیف ہوتی تھی کہ عمر بھر یاد رہی۔ وجہ یہی تھی کہ صریح کفریہ اور شرکیہ عبارات کی شرح ممکن نہ تھی کہ خدا کو کیا جواب دیں گے! پھر ابن عربی کے دفاع میں ایک تحریر لکھ دی۔ تو اہل حال بھی شخصیت کا دفاع کرتے ہیں، کفریہ اور شرکیہ عبارات کا نہیں ۔ یہ اہم نکتہ ہے، خاص طور ان لوگوں کے لیے جو کفر صریح کی تاویل کر کے اسے توحید کامل بنانے پر مصر ہیں۔

 ایمانی کیفیت تو وہ ہے کہ جس کی کتاب وسنت سے کوئی صریح دلیل موجود ہو۔ صوفیاء کی اکثر کیفیات پر کتاب وسنت سے صریح دلیل موجود نہیں ہے۔ تو جو کیفیات خود ثبوت کی محتاج ہیں، وہ کیونکر  دلیل بن سکتی ہیں! اب اس تاویل سے بڑھ کر کیا کفر ہو گا کہ اللہ عزوجل نے فرعون یعنی نفس لعین کو اس کے کمال ایمان کی جزا کے طور وحدت الوجود کے سمندر میں غرق کر دیا۔ اس تاویل کے بعد داد طلب نظروں سے ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب سمجھ آئی کہ  شیخ ابن عربی کیوں فرعون کے کمال ایمان کے قائل تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ابن عربی اس بات کے قائل تھے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ  قیامت تک جاری رہے گی۔ وہ لکھتے ہیں:

فالنبوة سارية إلى يوم القيامة في الخلق وان كان التشريع قد انقطع فالتشريع جزء من أجزاء النبوة فانه يستحيل ان ينقطع خبر الله وأخباره من العالم إذ لو انقطع لم يبق للعالم غذاء يتغذى به في بقاء وجوده[2].

’’نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری رہے گی البتہ نبوت تشریعی ختم ہو گئی لیکن تشریعی نبوت کل نبوت نہیں ہے بلکہ نبوت کا ایک حصہ ہے۔ پس یہ ناممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے خبر اور عالم کی اخبار یعنی وحی کا سلسلہ منقطع ہو جائے۔ اگر یہ سلسلہ رک جائے تو اس عالم کے لیے اپنے وجود کو باقی رکھنے کی غذا کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔‘‘

شیخ ابن عربی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

قال صَلَّى اللهُ عَليهِ وسَلَّم إن الرسالة والنبوة قد انقطعت وما انقطعت إلا من وجه خاص انقطع منها مسمى النبي والرسول ولذلك قال فلا رسول بعدي ولا نبي … فالنبوة والرسالة من حيث عينها وحكمها ما نسخت وإنما انقطع الوحي الخاص بالرسول والنبي من نزول الملك على أذنه وقلبه وتحجير لفظ اسم النبي والرسول [3].

’’ نبی  ﷺ  کا یہ فرمان کہ نبوت اور رسالت منقطع ہو چکی ہے تو اس کا ایک خاص معنی ہے کہ رسول اور نبی کا اسم منقطع ہو چکا ہے۔ اسی لیے  آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے  اس کے برعکس نبوت کا عین اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ رسول اور نبی کے کان اور دل پر فرشتے کے واسطے سے وحی کا نزول منسوخ ہوا  ہے یا پھر نبی اور رسول کے لفظ کے استعمال سے روکا  گیا ہے ۔‘‘

یہ صرف ہمارا گمان غالب  نہیں کہ غلام احمد قادیانی نے ابن عربی سے استفادہ کیا ہے، بلکہ آپ غلام احمد قادیانی کی کتابوں میں ابن عربی کی کتابوں بالخصوص فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کے حوالے اور دیگر متصوفین کے اقوال اور ان کے حوالے بھی کثرت سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جگہ غلام احمد قادیانی اپنے تصور نبوت کے بارے لکھتے واضح طور پر کہتے  ہیں کہ کیسے ان کا تصور ختم نبوت اکابر صوفیاء کی دی گئی تعلیمات پر قائم ہے :

’’آج تک جس قدر اکابر متصوفین گذرے ہیں، ان میں سے ایک کو بھی اس میں اختلاف نہیں کہ اس دین متین میں مثیل الانبیاء بننے کی راہ کھلی ہوئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلعم روحانی اور ربانی علماء کے لیے یہ خوشخبری فرما گئے ہیں کہ علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل۔ اور حضرت با یزید بسطامی قدس سرہ کے کلمات طیبہ مندرجہ ذیل جو تذکرہ الاولیاء میں حضرت فرید الدین عطار صاحب نے بھی لکھے ہیں اور دوسری معتبر کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں، اسی بناء پر ہیں، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں ہی آدم ہو، میں ہی شیث ہوں، میں ہی نوح ہوں، میں ہی ابراہیم ہوں، میں ہی موسی ہوں، میں ہی عیسی ہوں، میں ہی محمد ہوں ﷺ  وعلی اخوانہ اجمعین۔ اور اگرچہ انہیں کلمات کی وجہ سے حضرت بایزید بسطامی ستر مرتبہ کافر ٹھہرا کر بُسطام سے جو ان کے رہنے کی جگہ تھی، شہر بدر کیے گئے۔ اور میاں عبد الرحمن خلف مولوی محمد کی طرح ان لوگوں نے بھی با یزید بسطامی کے کافر اور ملحد بنانے میں سخت غلو کیا لیکن اس زمانے کے گزرنے کے بعد پھر ایسے معتقد ہو گئے کہ جس کا حد انتہا نہیں اور ان کے شطحیات کی بھی تاویلیں کرنے لگے [4]۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ غلام احمد قادیانی اپنے تصور ختم نبوت کے لیے فقہاء کا نام کیوں نہیں لیتے، ان کی عبارتوں سے استدلال کیوں نہیں کرتے، ظاہری بات ہے کہ فقہاء نے انہیں یہ موقع ہی نہیں دیا، البتہ صوفیاء نے دے دیا۔ ایک اور مقام پر غلام احمد قادیانی نے اپنے تصور ختم نبوت پر شیخ ابن عربی کے اس اقتباس سے استدلال کیا ہے کہ شیخ ابن عربی نے لکھا ہے کہ انہوں نے امام ابن حزم ﷫ کے بارے خواب دیکھا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے معانقہ کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ  کے وجود میں گم ہو گئے ہیں اور دونوں ایک ہو گئے[5] ۔ابن عربی نے اس خواب کا تذکرہ اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں کیا ہے۔[6]

البتہ بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ شیخ ابن عربی کی اپنی عبارات نہیں ہیں یعنی ان کی کتابوں میں ایڈیشن ہوئی ہے۔مثال کے طور علامہ علاؤ الدین الحصکفی الحنفی متوفی 1088ھ ﷫   سے فصوص الحکم کی کفریہ عبارات کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

نعم فيه كلمات تباين الشريعة، وتكلف بعض المتصلفين لارجاعها إلى الشرع، لكنا تيقنا أن بعض اليهود افتراها على الشيخ قدس الله سره فيجب الاحتياط بترك مطالعة تلك الكلمات، وقد صدر أمر سلطاني بالنهي فيجب الاجتناب من كل وجه. انتهى، فليحفظ[7].

جی! فصوص الحکم میں ایسی باتیں ہیں جو شریعت کے منافی ہیں۔ بعض متکلفین نے ان باتوں کو شریعت سے ثابت کرنے کے لیے تکلف سے کام لیا ہے، جبکہ  ہمارا یقین ہے کہ یہودیوں نے حضرت شیخ قدس اللہ سرہ پر جھوٹ گھڑا ہے [یعنی ان کی کتابوں میں یہ باتیں داخل کر دی ہیں]۔ لہٰذا  ان عبارتوں کے مطالعہ کو ترک کر دینا ہی ضروری ہے۔ اور ایک امر سلطانی بھی صادر ہوا تھا کہ جس میں یہ تھا کہ ان کی کتابوں کے مطالعے سے ہر پہلو سے اجتناب کیا جائے۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن  نشین   کر لیں۔‘‘
 ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ علامہ علاؤ الدین الحصکفی ﷫  کی یہ جمع ایک اچھی تاویل ہے کہ جس پر فریقین کا اتفاق ہو سکتا ہے۔ جن فقہاء نے کہا ہے کہ شیخ ابن عربی کی تحریروں میں اضافہ اور تحریف ہوئی ہے تو اگرچہ ہماری  تحقیق کے مطابق امر واقعہ میں ایسا نہیں ہوا ہے لیکن ہم  پھر بھی کہتے ہیں  کہ شخصیت کو مطعون کرنا کوئی دینی مقصد نہیں ہے۔ دینی مقصد تو صرف عقائد اور فکر کی اصلاح ہے۔ اگر یہ مقصد اس طرح سے پورا ہو جائے کہ فریقین اس بات پر متفق ہو جائیں کہ شیخ ابن عربی کی کفریہ عبارتیں شیخ  کی اپنی نہیں ہیں، وہ کسی  یہودی سازشی عنصر نے ان کی کتابوں میں ڈال دی ہیں، لہذا آئندہ سے وہ پبلش نہیں ہوں گی، ان کی شروحات نہیں لکھی جائیں گی، ان کی تدریس نہیں ہو گی، ان کی تاویل نہیں ہو گی، اُنہیں  اُن کی طرف منسوب  نہیں کیا جائے گا تو  ہماری  رائے میں پھر شیخ ابن عربی کو مطعون کرنے کی کوئی ضرورت  نہیں رہ جاتی۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دو باتیں ہیں؛ ایک اعتبار سے غلام احمد قادیانی کا کیس شیخ ابن عربی سے ملتا ہے اور دوسرے اعتبار سے نہیں ملتا ہے۔ جس اعتبار سے دونوں کا نظریہ  ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ شیخ ابن عربی کے ہاں بھی تشریعی نبوت ختم ہو چکی ہے جبکہ غیر تشریعی نبوت باقی ہے جیسا کہ ان کا کہنا ہے:

اعلم أن النبوة البشرية على قسمين قسم من الله إلى عبده من غير روح ملكي بين الله وبين عبده بل إخبارات إلهية يجدها في نفسه من الغيب أو في تجليات لا يتعلق بذلك الإخبار حكم تحليل ولا تحريم بل تعريف إلهي ومزيد علم بالاله[8].

’’ جان لو کہ بشری نبوت دو قسم پر ہے؛ ایک وہ ہے کہ جس میں حق سبحانہ وتعالی اور بندے کے مابین کوئی فرشتہ موجود نہیں ہے بلکہ یہ حق سبحانہ وتعالی کی طرف سے کچھ اخبار [الہامات] ہیں کہ جنہیں وہ غیب سے اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے یا پھر وہ تجلیات ہیں [جو کشف کا سبب بنتی ہیں] ۔ ان الہامات کا تعلق تحلیل و تحریم یعنی شرعی احکام سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق معرفت الہی سے ہے یا حق سبحانہ وتعالی کے بارے مزید علم سے ہے یا ان الہامات کا تعلق اس سے ہے ۔‘‘

اور جس اعتبار سے دونوں کا کیس نہیں ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ شیخ ابن عربی کی عبارتوں کی تاویل کا امکان ہے یا جہاں تاویل کا امکان نہیں، وہاں تدسیس کا امکان ظاہر کیا گیا ہے یعنی شیخ ابن عربی کے پیروکار ان کی ان باتوں کی یا تو تاویل کر لیتے ہیں جیسا کہ نبوت سے ان کی  مراد الہام ہے یا جہاں تاویل ممکن نہ ہو تو انکار کر دیتے ہیں،یا پھر اسے ان کی کتابوں میں الحاق شمار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو نبی اور رسول ماننے کے حوالے سے کوئی تحریک کھڑی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی طبقہ موجود ہے۔

دوسری طرف  غلام احمد قادیانی کی عبارتیں بڑی صریح اور واضح ہیں ، قادیانی کے ماننے والے ان کی باتوں کی تاویل نہیں کرتے، ان میں الحاق کے قائل نہیں ہیں، غلام احمد قادیانی نےاپنی زندگی میں ہی ایک جماعت  پیدا کر لی تھی جو ان کو مجدد، مسیح اور نبی مانتی تھی اور وہ اس پر راضی تھا اور تا حال اس جماعت کا اصرار اور عقیدہ  یہی ہے۔ اس لحاظ سے دونوں کیسز میں فرق ہے۔ایک کیس میں آپ عدم تکفیر کی گنجائش نکال سکتے ہیں، دوسرے میں نہیں لہذا پہلے میں بیان کفر کی ذمہ داری پوری کی جائے اور دوسرے میں تکفیر کا فریضہ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

[1]      https://drhafizmuhammadzubair.com/books/

[2]     الفتوحات المكية، الباب الثالث والسبعون، 3/135

[3]     الفتوحات المكية: 3/380-381

[4]     روحانی خزائن: 3/230-231

[5]      روحانی خزائن: 3/232

[6]     رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام وقد عانق أبا محمد ابن حزم المحدث فغاب الواحد في الآخر فلم نر إلا واحداً وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم فهذه غاية الوصلة وهو المعبر عنه بالاتحاد أي الإثنين عين للواحد ما في الوجود أمر زائد كما أن زيداً هو عين عمر [الفتوحات المكية، الباب الثالث والعشرون، 4/222]

[7]     علاء الدين الحصكفي، محمد بن علي، الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1423هـ- 2002م، ص 347

[8]     الفتوحات المكية: 3/383